پھرموصوف کی یہ بات بھی نہایت قابل تعجب ہے کہ وہ انشاء اللہ سے مشروط کرنے کوشک اورتذبذب کی علامت سمجھتے ہیں۔ کیاانہوں نے حافظ ذہبی کوبھی دورحاضر کے لوگوں کی طرح سمجھ رکھاہے جوکسی کام اوروعدے کوٹالنے کیلئے انشاء اللہ کہتے ہیں اور اگرکرنا ہو انشاء اللہ کے بغیر ذکر کرتے ہیں۔
انہوں نے حافظ ابن حجر کے فتوی پر بھی کلام کیاہے۔ اوراس سلسلے میں اپنے8اعتراضات پیش کئے ہیں۔
اس سلسلے میں کچھ اعتراضات ایسے ہیں جوانتہائی لغو ہیں۔
مثلاحافظ ابن حجر کہتے ہیں کہ امام صاحب 80میں پیداہوئے ،پھر اس کو کیوں نہیں مانتے ۔
حافظ ابن حجر کہتے ہیں کہ امام صاحب کے معاصر اماموں کو رویت کاشرف حاصل نہیں تھاجب کہ بعض امام کو یقینی طورپر رویت کا شرف حاصل تھا۔
حافظ ابن حجر نے اپنے محولہ بالافتوی میں اس کی صراحت کردی ہے کہ وہ یہ بات کن ائمہ کرام کے حوالہ سے کہہ رہےہیں اس کے باوجود غلط مطلب مراد لینا صرف موصوف کاہی کام ہوسکتاہے۔
اس بناء پر ہم ضروری نہیں سمجھتے کہ موصوف کے تمام اعتراضات نقل کریں بلکہ جو اعتراض قابل قدرنظرآئیں گے ہم ان پر صرف کلام کریں گے۔اگرکسی کو لگے کہ کوئی اعتراض ان کی نگاہ میں قوی ہے توپھر وہ یہ مضمون ختم ہونے کے بعد اپنی بات رکھ سکتے ہیں۔ امید ہے کہ اب رفقائے محدث فورم درمیان مداخلت نہیں کریں گے۔
موصوف کاایک اعتراض وہی ہے جو ہمارے خضرحیات صاحب نے پیش کیاہے۔کہ وہ تین سال کے بچے تھے
اس سلسلے میں ان کی عبارت دیکھنے کے لائق ہے۔
حافظ عراقی اورابن حجر عسقلانی کی طرف منسوب فتویٰ کا ذکر سوطی سے پہلے کسی نے نہیں کیا۔سوطی کے معاصرین اورسیوطی کے بعد بھی کسی ایسے شخص نے اس فتوی کاذکراس دعوے کے ساتھ نہیں کیاہے کہ حافظ ابن حجر اورعراقی کی طرف اس کا انتساب صحیح ہے(لمحات 2/246)
پھر اس کے بعد حسب معمول اپنی بدگمانی کا اظہار کیاہے۔
پھر آگے چل لکھتے ہیں۔
وفات حافظ ابن حجرکے وقت سیوطی صرف تین سال کے بچے تھے کیونکہ وفات حافظ ابن حجر849میں ہوئی اوروفات عراقی اس سے پہلے 825یا826میں ہوئی۔ جب سیوطی نے دونون حضرات کا زمانہ نہیں پایاتوانہیں وہ سند اورواسطہ بیان کرناچاہئے تھا جس کے ذریعہ انہیں ان کا فتویٰ دستیاب ہوا۔ ( المصدرالسابق)
اجمالی تبصرہ توہمارایہی ہے کہ کچھ مدت اورایام گزرنے کے بعد کہیں اسی طرح کی باتیں موصوف کے متعلق بھی نہ کہی جانے لگیں۔
پھرمولانا کے ارشادات میں کئی باتیں محل نظرہیں۔
1: حافظ ابن تیمیہ نے کیاتمام باتیں انہی کی بیان کی ہیں جس کی سند اورسماعت ان کوحاصل تھی۔
2: کیاکسی کے فتاوی جات ذکر کرنے کیلئے سماعت ضروری ہے۔موصوف نے بہت سی باتیں ایسی مصنفین کی بیان کی ہیں جن سے ان کو سماعت حاصل نہیں ہے۔ پھر موصوف کی ایسی تمام باتیں ناقابل اعتبار کیوں نہ ٹھہرائی جائیں۔
کیاعراقی اورابن حجر کی تمام کتابیں اورتمام فتاوی جات شائع ہوچکی ہیں؟اگرنہیں توپھرموصوف کس دلیل سے سیوطی کو غلط ٹھہرارہے ہیں۔
ان تمام باتوں پر غورکئے بغیر موصوف کا یہ فرمادینا
اس لئے جب تک یہ نہ معلوم ہوجائے کہ فتوی مذکورہ کی اشاعت کسی انسان نما شیطان کاکام نہیں ہے تب تک یہی سمجھاجائے گاکہ حافظ ابن حجر عسقلانی کی طرف فتویٰ مذکورہ کا انتساب غیرصحیح ہے۔(المصدرالسابق)
کتنی غلط اورعلم وتحقیق سے گری ہوئی ہے ہرایک سمجھ سکتاہے۔
پھر سب سے قابل لحاظ بات یہ اگر موصوف تدریب الراوی کی جانب رجوع کرتے تواس کے آخر میں حافظ سیوطی نے تصریح کی ہے کہ ان کے والد ان کو حافظ ابن حجر کے پاس لے گئے اورانہوں نے ان سے فلاح حدیث سنی ہے۔دوسرے انکو حافظ ابن حجر سے اجازت عامہ بھی حاصل ہے۔
اس کی تصریح انہوں نے کئی کتابوں میں کی ہے۔مثلاتدریب الراوی کاآخری حصہ اور ذیل تذکرۃ الحفاظ وغیرہ میں ۔آخر الذکر کتاب میں وہ لکھتے ہیں۔
فإن والدي كان يتردد إليه وينوب في الحكم عنه، وإن يكن فاتني حضور مجالسه والفوز بسماع كلامه والأخذ عنه فقد انتفعت في الفن بتصانيفه واستفدت منه الكثير وقد غلق بعده الباب وختم به هذا الشأن).
تذكرة الحفاظ ص 553 في ترجمة الحافظ ابن حجر)
اس کی تصریح مشہور مصنف شیخ کتانی نے اپنے ایک رسالہ كشف اللبس عن حديث وضع اليدين على الرأسمیں کی ہے۔اس میں وہ حافظ سیوطی کے حافظ ابن حجر سے تلمذکے بارے میں المنح البادیہ فی الاسانید الصحیحہ سے نقل کرتے ہیں۔کہ ان کے والد ان کو لے کر حافظ ابن حجر کی مجالس میں جایاکرتے تھے۔(ص17)
پھر موصوف نے حافظ سخاوی کی حافظ سیوطی پر جرح نقل کی ہے۔
لیکن وہ یہ بھول گئے کہ علماء نے سخاوی پر سیوطی کی جرح کو اورسیوطی پر سخاوی کی جرح کو اقران اورمعاصرت کا نتیجہ بتایاہے ۔