• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

امام ابوحنیفہ کی تابعیت اورمولانا رئیس ندوی کا انکار

جمشید

مشہور رکن
شمولیت
جون 09، 2011
پیغامات
871
ری ایکشن اسکور
2,331
پوائنٹ
180
مولانارئیس احمد ندوی کی تالیف "لمحات"کے مطالعہ کے بعد کچھ لمحہ توغرق حیرت ہوگیاکہ کوئی مصنف اس طرح کی دیدہ دلیری سے بھی کام لے سکتاہے اورعلماء کی عبارت میں کتربیونت،کانٹ چھانٹ،من مانامطلب نکال سکتاہے ۔موصوف نے اپنی کتاب میں جس طرح کے استنباط اوراستخراج کئے ہیں وہ سلفی حضرات کے اجتہاد کے مبلغ کاپتہ دیتی ہیں۔ ان کے اجتہاد کی گہرائی اورگیرائی پر آگے کلام ہوگا۔

موصوف کاحدود اربعہ جب انٹرنیٹ پر تلاش کیاگیاتوپتہ چلاکہ موصوف دارالعلوم ندوۃ العلماء سے فارغ التحصیل ہیں اورجامعہ سلفیہ بنارس میں خدمات انجام دے چکے ہیں۔یہ معلوم ہونے کے بعد کہ موصوف ندوہ سے تعلق وارتباط رکھتے ہیں۔ ان کی اس کتاب پر مزید حیرت اورافسوس ہوا۔

دارالعلوم ندوۃ العلماء اپنے اعتدال اور توازن کیلئے مشہور ہے۔ اس میں حنفی علماء کے ساتھ سلفی علما ء بھی درس وتدریس سے وابستہ ہیں۔ دار ا لعلو م ند و ۃ العلماء کے قیام کی کوششوں میں اہل حدیث علماء بھی ساتھ ساتھ رہے ہیں۔ یہ ندوۃ کے اعتدال اورتوازن کا ہی نمونہ ہے کہ وہاں احادیث کے درس میں ترجیح اورمسلک کااثبات نہیں کیاجاتابلکہ صرف تمام ائمہ کرام کے دلائل ذکر کردیئے جاتے ہیں۔ ایسے مثالی مدرسہ سے فارغ التحصیل طالب علم شدت پسندی میں اتناآگے نکل جائے کہ امام ابو حنیفہ کے خلاف اس طرح کی کتابیں لکھتاپڑھے ۔ نہایت قابل افسوس ہے!

شاید موصوف کی طرح کے چند ندوہ کے فارغ التحصیل سلفیوں کو دیکھ کرہی وہاں کے ایک قابل قدراستاد مولانا سید سلمان الحسنی والحسینی نے سلفیوں کے خلاف اتناکڑاموقف اختیار کیا اوربنگلور میں ایک کانفرنس میں سلفی حضرات کی بدزبانی اوربدکلامی کے خلاف سخت تقریر کی۔ یہ پوری تقریرمحدثین کے نزدیک فقہ اورفقہاء کی اہمیت کے نام سے شائع ہوچکی ہے اورعوام وخواص نے اس کوپسندیدگی کی نگاہ سے دیکھاہے۔
خدااگروقت اورفرصت نصیب کرے تو پوری کتاب کاایک تفصیلی جائزہ لیاجائے گا جس میں موصوف کی بے اعتدالیوں، تناقضات،من موجی استدلال کو واضح کیاجائے۔لیکن فی الحال ہم اپنی بحث کو صرف اورصرف امام ابوحنیفہ کی تابعیت تک محدود رکھتے ہیں۔
موصوف اپنی کتاب میں یہ نقطہ نظرملحوظ رکھتے ہیں کہ شیخ کوثری کی تردید کرتے جائیں۔ ان کے بارے میں مختلف مقامات پر مختلف باتیں نقل کرتے ہیں ان کو ایک شکوہ شیخ کوثری سے یہ ہے کہ وہ رواۃ حدیث پر من ماناکلام کرتے ہیں۔ان کے شکوہ کی ہم قدر کرتے ہیں
لیکن افسوس کہ موصوف خود اس میں اس سے زیادہ مبتلاہیں۔
حافظ جعابی کومتعدد مقام پر موصوف کذاب لکھتے ہیں۔ اسی بحث میں جلد۲/197میں جعابی کو کذاب کہاہے۔

حالانکہ ہم نے میزان الاعتدال اورلسان المیزان اورالمغنی فی الضعفاء کی جانب رجوع کیا۔ کہیں بھی ہم نہیں ملاکہ کسی نے ان کو کذاب کہاہو۔ یہ بات صرف ملتی ہے فاسق رقیق الدین(میزان الاعتدال3/670،لسان المیزان6/280،المغنی فی الضعفاء)

ہم نے ان کے حالات میں غورکیا۔ہمیں کوئی ایسی چیز نہیں ملی جس سے پتہ چلتاکہ موصوف فاسق تھے۔ ایک شیعت کا الزام ہے۔لیکن شیعت کاالزام بہت سوں پر لگاہے ۔ نفس شیعت ثقاہت کے منافی نہیں بلکہ رافضیت منافی ہے۔ دوسرایہ کہ ابن عمید کی محفل میں شراب پیتے تھے لیکن اس قول کو خود حافظ ذہبی اورحافظ ابن حجر نے قیل سے ذکر کیاہے جس سے پتہ چلتاہے کہ یہ قول ان کی نگاہ میں بھی غلط ہے۔ امام حاکم نے کی ہ کہتے کہ ایک مرتبہ کسی نے ان کے پاؤں پر کچھ لکھ دیاپھر انہوں نے تین بعد دیکھاتوپتہ چلاکہ وہی تحریر لکھی ہوئی ہے۔حاکم نے یہ قول قال لی الثقۃ سے ذکر کیاہے۔دوسرا یہ حاکم کے ثقہ کا ااپنااستخراج ہے کہ وہ نماز نہیں پڑھتے تھے اگر اس نے ان تین دنوں میں اس کا مشاہدہ کیاہوتاتوصاف بیان کرتا ،اس طرح استنباط کرنے کی اسے ضرورت نہ پڑتی۔ لیکن محض اتنی سی بات پر اتنابڑاحکم لگادیناقابل اعتراض ہے کیونکہ اس واقعہ میں کئی چیزیں محل نظرہیں۔
1: کبھی تحریر اتنی گاڑھی ہوتی ہے کہ جلدی اس کااثر نہیں چھوٹتا ۔ہفتوں قائم رہتاہے۔
2:دوسرے یہ کہ ہرنماز کیلئے آدمی وضو بھی نہیں کرتا۔اس زمانے میں گیسٹک جیسے مرض عام تونہیں تھے !
3:تیسرے یہ کہ انسان بیمار ہوتاہے تیمم کرلیتاہے وضو نہیں کرتا۔
ان سب احتمالات کو درکنار کرتے ہوئے صرف اس بناء پر کسی کو فاسق سمجھنا کہ پاؤں پر جوتحریر تھی وہ دھلی نہیں اس لئے نماز نہیں پڑھی ہوگی ۔ ایک غلط بات ہے۔ پھر اگر کسی نے باجماعت نماز پڑھنی کسی عذر سے چھوڑ دیاہے تواس سے یہ کہاں لازم آیاکہ نماز پڑھتاہی نہیں ہے۔ امام مالک نے بھی آخر عمر میں مدینہ میں جماعت سے نماز پڑھنا کسی عذر سے چھوڑ رکھاتھاجیساکہ ان کے تذکرہ کی تمام کتابوں میں موجود ہے۔ لیکن ہرایک نے ان کی جانب سے عذر بیان کیاکہ انہوں نے کسی عذر سے چھوڑرکھاتھاجو ان کوجماعت میں شریک ہونے سے مانع تھا۔کیاویساہی عذر جعابی کو نہیں ہوسکتا۔

اصل بات یہ ہے کہ اولاوہ قاضی بنے۔ اسلئے بہت سے اہل حدیث حضرات ان سے ناراض ہوگئے (سیر اعلام النبلاء)اوراسی ناراضی میں انہوں نے ان پر کلام کیا۔ جیساکہ امام مالک نے ناراضگی کی حالت میں محمد بن اسحاق پر دجال من دجاجلۃ کہاتھا۔امام نسائی نے احمد بن صالح مصری پر حالت غضب میں کلام کردیاتھا۔

دوسرے یہ کہ وہ متکلمین کے مسلک کی جانب مائل ہوگئے تھ(سیر اعلام النبلاء) اس بناء پر محدثین کا غصہ ان پر اوربھڑک گیا۔ ورنہ یہ نہ ہوتاتوپھر محدثین وہ سارے احتمالات ذکر کرتے جو دوسرے روات میں کرتے ہیں۔

آخر یہ بڑے تعجب کی بات ہے کہ امام ابوداؤد اپنے بیٹے کو کذاب کہتے ہیں۔ دوسرے محدثین ان کو کذب بیانی سے متصف کرتے ہیں، ان کو درکنار کردیاجاتاہے لیکن بے چارے جعابی کی جانب سے کوئی مدافعت نہیں ہوتی۔ جب کہ یہ الزامات قطعی نہیں بلکہ اس میں کئی احتمالات موجود ہیں۔

ان سب قیل وقال کے بعد بھی یہ بات اپنی جگہ پر ہے کہ جعابی پر ہرچند کہ فسق کا الزام ہے لیکن کسی نے بھی انہیں کذاب یاروایت وضع کرنے والا نہیں کہا۔بلکہ ان کی تعریف اورمدح میں جواقوال ہیں وہ ان پرالزامات عائد کرنے والوں سے کہیں زیادہ ہیں اورپتہ چلتاہے کہ وہ حفظ وضبط میں یکتائے روزگار تھے۔ لیکن یہ موصوف کی دیدہ دلیری ہے کہ وہ ایک راوی کو ایک ایسے لفظ سے متہم کررہے ہیں جس سے دیگر محدثین نے احتیاط برتاہے!

پھر سب سے بڑی بات یہ کہ ہم نے مان لیاکہ چلو حافظ ابن حجر اورحافظ ذہبی کا فیصلہ کہ فاسق رقیق الدین ،لیکن شروع سے ہی توایسامعاملہ نہیں تھا۔بعد میں ایساہوا۔توایک زمانے تک موصوف صحیح اورنیک اورثقہ تھے بعد میں ان میں تغیر آیا۔توپھر مطلقاکذاب کہناکس حیثیت سے ہے اوران کی تمام روایات کو ناقابل اعتبار ٹھہرانے کی کیادلیل بنتی ہے؟
 

رفیق طاھر

رکن مجلس شوریٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 04، 2011
پیغامات
790
ری ایکشن اسکور
3,982
پوائنٹ
323
ابو حنیفہ نعمان بن ثابت سے بسند صحیح یہ قول ثابت ہے کہ :
میں نے عطاء بن ابی رباح سے زیادہ افضل آدمی نہیں دیکھا ۔
امام ترمذی نے علل صغیر میں اسے بأیں طور نقل فرمایا ہے :حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ حَدَّثَنَا أَبُو يَحْيَى الْحِمَّانِيُّ قَال سَمِعْتُ أَبَا حَنِيفَةَ يَقُولُ مَا رَأَيْتُ أَحَدًا أَكْذَبَ مِنْ جَابِرٍ الْجُعْفِيِّ وَلَا أَفْضَلَ مِنْ عَطَاءِ بْنِ أَبِي رَبَاحٍ

اور یہ بات متفق علیہ ہے کہ عطاء بن ابی رباح تابعی تھے
اور بھی متفق علیہ ہے کہ ابو حنیفہ کے نزدیک صحابی تابعی سے زیادہ افضل ہوتا ہے ۔
اور بسند صحیح موصوف کا قول ہے کہ میں نے عطاء بن ابی رباح سے افضل شخص کو نہیں دیکھا ۔ اگر انہوں نے کسی صحابی کو دیکھا ہوتا تو وہ اسکا نام لیتے
میرا سوال یہ ہے کہ یاتو موصوف کا قول درست ہے یا آپکا ۔
آپ دنوں میں سے ایک بالضرور جھوٹا ہے ۔
اسکا تعین کرنا ہے
کہ وہ کون ہے
آپ یا آپکے امام ؟؟؟؟
 

جمشید

مشہور رکن
شمولیت
جون 09، 2011
پیغامات
871
ری ایکشن اسکور
2,331
پوائنٹ
180
میری بحث ختم ہونے سے پہلے آپ نے اپنی بات سامنے رکھ دی۔
بہرحال یہ قول بھی مولف لمحات نے امام صاحب کی تابعیت کے انکار میں ذکرکیاہے ان کابھی جواب دیاجائے گا جس سے انشاء اللہ آنکھیں ٹھنڈی ہوں گی اوردل کو سکون وقرار حاصل ہوگا(ابتسامہ)
 

جمشید

مشہور رکن
شمولیت
جون 09، 2011
پیغامات
871
ری ایکشن اسکور
2,331
پوائنٹ
180
موصوف کی کتاب پریشاں خیالی کا ایک اچھانمونہ ہے!چاہیں توان کے معتقدین ان کو ان کے وسعت علم سے تعبیر کرسکتے ہیں۔ لیکن کسی بھی بحث کو انہوں نے منضبط اورمحقق طورپر صاف نہیں کیاہے۔ ایک معمولی سے ربط سے ادھر سے ادھر ان کا موضوع چلاجاتاہے۔

بہرحال اس موضوع پر انہوں نے امام ابن سعد کی بیان کردہ روایت پر اعتراضات قائم کئے ہیں۔

1:طبقات ابن سعد کے موجودہ نسخوں میں یہ روایت نہیں ہے
2: کسی ایسے معتبر اہل علم کے حوالہ میں نہیں ملتا جس نے صرف صحیح اورمعتبر باتیں لکھنے کااہتمام کیاہو۔
3:ایک کتاب بنام طبقات صغریٰ بقول ابن خلکان ہے شاید اس میں یہ روایت ہو
4:ہوسکتاہے کہ یہ روایت تحریرانہیں بلکہ زبانی طورپر روایت کی گئی ہو۔
پھروہ ان سب پر نتیجہ نکالتے ہیں۔

امام سعد کے صدیوں بعد پیداہونے والے بعض لوگوں کایہ کہہ دینا کہ ابن سعد نے روایت مذکورہ کونقل کیا،اس بات کاثبوت نہیں کہ ابن سعد نے فی الواقع روایت مذکورہ کو بیان کیاہے تاآنکہ ابن سعد کی کسی تحریر سے یازبانی طورپر تحدیثاورایتاکسی مضبوط سند سے یہ ثابت ہو کہ ابن سعد نے اسے بیان کیاہے۔(لمحات ص2/196)
چوتھے اعتراض کی وجہ مجھے قطعاسمجھ نہیں آئی ۔ سوائے اس کے کہ اعتراضات کی تعداد بڑھانامقصود ہو۔چاہے روایتاہو یاتحریراہوکیافرق پڑتاہے؟اگرروایت یاکتاب میں وہ موجود ہے تو۔
ہم عرض کرناچاہتے ہیں کہ ابن سعد کی اس روایت کو دیگر محدثین نے بھی ذکر کیاہے اوراس کاحوالہ اپنی کتاب میں دیاہے۔ جن محدثین نے میرے محدود علم کے مطابق اس کا حوالہ دیاہے ان کے اسماء گرامی یہ ہیں۔

1: حافظ المغرب ابن عبدالبر
2: حافظ ذہبی
3: حافط ابن حجرعسقلانی
تینوں علم حدیث میں اپنی جلالت شان کیلئے مشہور ہیں۔ آگے چل کر موصوف نے ذہبی اورابن حجر کا حوالہ تودے دیالیکن ابن عبدالبر کاحوالہ نہیں دیاہے۔شایدان کی نگاہ اس پر نہ پڑی ہو۔

ابن عبدالبر جامع بیان العلم وفضلہ ص204میں لکھتے ہیں۔

قال ابوعمر:ذکر محمد بن سعد(کاتب)الواقدی ان اباحنیفۃ رای انس بن مالک وعبداللہ بن الحارث بن جزء (الزبیدی)
ابوعمر کہتے ہیں کہ محمد بن سعد کاتب واقدی نے ذکر کیاہے کہ (امام )ابوحنیفہ نے انس بن مالک اورعبداللہ بن حارث بن جزء کو دیکھاہے۔


حافظ ذہبی مناقب ابی حنیفۃ وصاحبییہ میں کہتے ہیں۔
وکان من التابعین لھم ان شاء اللہ باحسان،فانہ صح انہ رای انس بن مالک اذ قدمھاانس رضی اللہ عنہ، قال: محمد بن سعد:ثنا سیف بن جابر انہ سمیع اباحنیفۃ یقول :رایت انسارضی اللہ عنہ ۔(مناقب ابی حنیفۃ وصاحبیہ ص14)
امام ابوحنیفہ انشاء اللہ تابعین میں سے ہیں۔یہ بات پایہ ثبوت کو پہنچ چکی ہے کہ انہوں نے انس بن مالک کو اس وقت دیکھاجب وہ کوفہ آئے،محمد بن سعد کہتے ہیں کہ ان سے سیف بن جابر نے بیان کیااورانہوں نے امام ابوحنیفہ سے سناوہ فرمارہے تھے کہ میں نے انس رضی اللہ عنہ کو دیکھاہے۔


حافظ ابن حجر ایک فتوی میں جو ان سے اما م ابوحنیفہ کی تابعیت کے متعلق پوچھاگیااس میں کہتے ہیں۔
"امام ابوحنیفہ نے صحابہ کی ایک جماعت کو پایاہے۔ اس لئے کہ آپ کی کوفہ میں80میں ولادت ہوئی ہے۔اوراس وقت وہاں صحابہ میں سے حضرت عبداللہ بن ابی اوفی موجود تھے۔اس لئے کہ بالاتفاق ان کی وفات 80کے بعد ہوئی ہے۔ اوران دنوں بصرہ میں انس بن مالک موجود تھے ۔اس لئے کہ ان کی وفات 90میں یااس کے بعد ہوئی ہے۔ اورابن سعد نے ایسی سند سے جس میں کوئی مضائقہ نہیں ہے ۔بیان کیاہے کہ امام ابوحنیفہ نے حضرت انس کو دیکھاہے۔ نیز ان دونوں حضرات کے علاوہ اوربھی بہت سے صحابہ مختلف شہروں میں بقید حیات موجود تھے۔ بعض علماء نے امام ابوحنیفہ کی صحابہ سے روایت کردہ احادیث کے بارے میں مختلف جزء جمع کئے ہیں۔ لیکن ان کی اسناد ضعف سے خالی نہیں ہیں۔ امام صاحبؓ کے ادراک صحابہ کے باب میں قابل اعتماد وہ امر ہے جوگزرچکااوربعض صحابہ کی رویت کے بارے میں قابل اعتماد وہ روایت جس کو ابن سعد نے طبقات میں ذکر کیاہے لہذا اس اعتبار سے امام ابوحنیفہ تابعین کے طبقہ میں سے ہیں اوریہ مرتبہ دوسرےشہروں میں بسنے والے آپ کے ہم عصر ائمہ میں سے کسی ایک کوبھی حاصل نہ ہوسکا۔ جیسے امام اوزاعی کوجوشام میں تھے اورحمادین(امام حماد بن سلمہ اورامام حماد بن زید)کو جوبصرہ میں تھے اورامام ثوری کوجوکوفہ میں تھے اورامام مالک کو جومدینہ میں تھے اورامام مسلم بن خالد زنجی کو جومکہ میں تھے اورامام لیث بن سعد کو جومصر میں تھے۔حافظ ابن حجر کی بات یہاں ختم ہوتی ہے۔(تبییض الصحیفۃ للسیوطی ص15)

نوٹ: تبیض الصحیفۃ میں امام ابوحنیفہ کے مکہ میں پیداہونے کی بات کہی گئی ہے۔ صاحب الیانع الجنی نے اس میں ولادت کو مکہ نہیں بلکہ کوفہ میں ذکر کیاہے۔دیکھئے الیانع الجنی ص131(بحوالہ امام ابوحنیفہ کی تابعیت ص26)

تنبیہ :اس طرح کی جزوی غلطی کو کسی نص کے کلی طورپر غلط ہونے کی دلیل نہ بنایاجائے۔ بخاری میں حضرت ام حبیبہ سے روایت ہے کہ ان کے پاس جب ان کے والد ابوسفیان کے شام میں انتقال کرجانے کی خبر آئی توانہوں نے تین دن سوگ منایااورکہاکہ سوائے شوہر کے کسی اورکیلئے جائز نہیں ہے کہ اس پر تین دن سے زیادہ کا سوگ منایاجائے۔حالانکہ اصحاب سیر اس پر متفق ہیں کہ ابوسفیان کا انتقال مدینہ میں ہواتھا۔ شام میں نہیں ہوا۔ واضح ہے کہ امام بخاری جس باب کیلئے اس حدیث کو لائے ہیں۔ اس پر یہ حدیث بخوبی دلالت کررہی ہے بھلے اس میں جزوی غلطی موجود ہے۔لیکن اس سے اصل مدعاپر کوئی فرق نہیں پڑتا۔یہ تنبیہ دفع دخل مقدر کے طورپرذکر کردی گئی ہے۔
آپ نے تین حفاظ حدیث اورجلیل القدر محدثین کے بیانات دیکھے۔ تینوں متفق ہیں کہ ابن سعد نے یہ روایت ذکر کی ہے۔ اب اگرموجودہ نسخوں میں یہ نہیں ملتاتویہ موجودہ نسخے کی کمی اورنقص ہے۔ اس سے اس نص کی اصلیت اوروثاقت پر کیااثرپڑسکتاہے۔پھر یہ کہ اولین نسخہ جوطبقات ابن سعد کا شائع ہواتھاوہ مستشرقین نے شائع کیاتھابعد کے تمام نسخے لگ بھگ اسی سے مستفاد ہیں۔

پھر موصوف نے جس طرح اس نقل پر شک کااظہار کیاہے اس سے توایسالگتاہے کہ جیساکہ کہ موصوف نے طبقات ابن سعد کے تمام نسخوں کوکھنگال ڈالاہے حالانکہ یہ صرف موصوف کا شک اورتذبذب ہے ۔موصوف بہت سارے مقامات پر محض شک اورتذبذب کی وجہ سے دوسروں پر بڑے بڑے الزامات عائد کرتے ہیں۔ حالانکہ ان کو معلوم ہوناچاہئے۔ ان کثیرالظن من الاثم اورالظن لایغنی من الحق شیئا۔
 

جمشید

مشہور رکن
شمولیت
جون 09، 2011
پیغامات
871
ری ایکشن اسکور
2,331
پوائنٹ
180
موصوف نے حافظ ذہبی کے ذکر کردہ طبقات ابن سعد کی روایت کردہ نص پر اپنے کچھ شکوک کااظہار کیاہے اس کا بھی جائزہ لیتے چلیں۔

1: یہ بات حافظ ذہبی نے دیگر کتابوں میں تصحیح اورتضعیف کا ذکر کئے بغیر کیاہے۔اوریہاں اس کی تصحیح کرد ی ہے۔
2:موصوف عام طورپر اپنی کتابوں میں اپنی بات کو انشاء اللہ سے مشروط نہیں کرتے۔
3:اس کتاب کی تصحیح نائب شیخ الاسلام کوثری سے کرائی گئی ہے اوراس بہانے انہوں نے اس کے نصوص میں تحریفات کردیاہوگا۔
موصوف کے الفاظ ملاحظہ ہوں:

"ظاہر ہے کہ اغلاط کثیرۃ سے مملوکتاب کی تصحیح کے بہانے کوثری اورمعاونین کوثری نے عبارت کتاب میں حسب عادت ردوبدل اورالحاق واضافہ ،حذف واسقاط بھی کیاہوگا۔حال ہی میں حیدرآباد سے کتاب المجروحین شائع کی گئی ہے مگر اس میں تحریر شدہ ترجمہ امام صاحب کونکال دیاگیاجوکئی صفحات پر مشتمل ہے، پھرمعلوم نہیں کہ کتاب مذکورہ میں ان ارکان تحریک کوثری نیز کوثری نے کیاکیاکارستانیاں کی ہیں؟"
(لمحات ص238)

قارئین دیکھ سکتے ہیں کہ یہ کتنے بوگس اورواہیات اعتراضات ہیں۔
بہرحال اس کا جواب دینے سے پہلے میں مصنف کا ایک تضاد سامنے لاناچاہوں گا۔

موصوف خلق قرآن کی بحث میں ایک روایت میں جہاں امام ابوحنیفہ کانام نہیں ہے اوردوسری روایت میں ہے توفرماتے ہیں اس سے پہلی روایت کا مراد بھی متعین ہوگیاکہ وہاں بھی ابوحنیفہ ہی مراد ہیں اورقاعدہ بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔

"کیونکہ یہ معلوم ہے کہ ایک ہی مضمون کی مختلف روایات میں اگراجمال سے کام لیاگیاہے اوربعض میں تفصیل سے توتفصیل کو اجمال پر محمول کیاجائے گا مگر کوثری نے اجمال وتفصیل کے فرق کوبھی حسب عادت روایات مذکورہ پر کلام کا ذریعہ بنالیا۔(لمحات ص17)
لیکن ہمیں افسوس ہے کہ موصوف جس چیز کا الزام شیخ کوثری کودے رہے ہیں وہ اس میں خود گلے گلے تک ملوث ہیں اوریہ بعینہ وہی بات صادق آتی ہے کہ ایک شخص قرآن پڑھتاہے لعنۃ اللہ علی الظالمین کی تلاوت کرتا ہے اورخود ان برائیوں میں ملوث ہونے کی وجہ سے خود اپنے اوپر لعنت بھیج رہاہوتاہے۔
اگر حافظ ذہبی نے ایک جگہ پر انشاء اللہ سے مشروط کیاہے تودوسری کتابوں میں توانشاء اللہ سے مشروط نہیں کیا۔

1: دیکھئے حافظ ذہبی تذکرۃ الحفاظ میں کہتے ہیں۔
رای انس بن مالک غیرمرۃ لماقدم علیھم الکوفۃ رواہ بن سعد عن سیف بن جابر انہ سمع اباحنیفۃیقول(تذکرۃ الحفاظ 1/168)
2: العبر فی خبر من غبر(1/158،بحوالہ امام ابوحنیفہ کی تابعیت ص24)میں کہتے ہیں
رای انسا
3: علاوہ سیر اعلام النبلاء میں کہتے ہیں۔
وَرَأَى: أَنَسَ بنَ مَالِكٍ لَمَّا قَدِمَ عَلَيْهِمُ الكُوْفَةَ، وَلَمْ يَثبُتْ لَهُ حَرفٌ عَنْ أَحَدٍ مِنْهُم.(سیر اعلام النبلاء 6/392)
4: اس کے علاوہ حافظ ذہبی اسی بات کا اعتراف تاریخ الاسلام میں بھی کرتے ہیں۔


کیاان تمام کتابوں سے اس اجمال کی تعین نہیں ہوجاتی جومناقب ابی حنیفہ میں انشاء اللہ کی شرط میں پایاجاتاہے لیکن موصوف کو چونکہ ضد اورکد دونوں ہے کہ امام ابوحنیفہ کو تابعی ثابت نہیں کرنا لہذا اجمال اورتفصیل کا فرق جہاں امام ابوحنیفہ کو خلق قرآن کے عقیدہ کامرتکب قراردینے کیلئے ضروری تھا،بخوبی یاد رہالیکن یہاں پراپنے اسی قاعدے کو بھول گئے یاتجاہل عارفانہ سے کام لیاواللہ اعلم بالصواب

پھریہ اعتراض بھی کتنابچکانہ ہے کہ صرف ایک کتاب میں اس کی تصحیح کیوں کی۔ کیااسی طرح کے استدلال سے کام لے کر وہ امام ابوحنیفہ کی تابعیت سے انکار کرناچاہتے ہیں۔اوراسی پر ان کے معتقدین نازاں ہیں کہ کئی سو صفحات کی کتاب میں امام ابوحنیفہ کی تابعیت کا رد کیاہے۔ یہ جانے بغیر کہ امام ابوحنیفہ کی تابعیت کے انکار میں کیسے لچر اورکمزور اورتارعنکبوت جیسے دلائل کی بھر مار ہے۔

شاید موصوف کو معلوم نہیں ہوگاکہ مناقب ابی حنیفہ وصاحبیہ پہلے کی کتاب ہے اور تذکرۃ الحفاظ وتاریخ الاسلام بعد کی کتاب ہے کیونکہ دونوں کتابوں میں امام ابوحنیفہ کے ذکر میں تصریح ہے کہ ان کے مناقب میں نے ایک جزء میں جمع کئے ہیں۔
قلت مناقب هذا الامام قد افردتها في جزء.(تذکرۃ الحفاظ ص1/168)
اسی طرح کی تصریح تاریخ الاسلام9/313 میں بھی ہے
وأخبار أبي حنيفة رضي الله عنه ومناقبه لا يحتملها هذا التاريخ فإني قد أفردت أخباره في جزأين
جو واضح ثبوت ہے کہ یہ کتاب (مناقب ابی حنیفہ وصاحبیہ )پہلے لکھی گئی ہے۔ اب اگر انہوں نے پہلی جگہ تصریح کو کافی سمجھ کر دوسری کتابوں میں تصحیح نہیں کیالیکن بالجزم اوریقین کے ساتھ کہہ دیاکہ حضرت انس کودیکھاہے توکیایہ کسی اعتراض اورشک کی وجہ بن سکتاہے؟ایسے اعتراضات کاعلم اورفہم سے توکوئی تعلق نہیں ۔
موصوف کا ایک اعتراض یہ ہے کہ نائب شیخ الاسلام سلطنت عثمانی زاہد الکوثری نے اس عبارت میں تحریف اورنصوص میں تغیر اورتبدیلی کردیاہوگا۔

میں نے شیخ زاہد الکوثری علیہ الرحمہ پر جتناکچھ پڑھاہے اس سے یہی مستفاد ہوتاہے کہ ان کی باتوں پر اورکتابوں کی تحقیق میں ان کے تعلقیات اورحواشی پر لوگوں کواعتراض رہاہے مجھے ایک بھی ایسی مثال نہیں ملتی جس میں کسی نے دلائل کے ساتھ ثابت کیاہو ان کی تحقیق کردہ کتابوں میں نص کتاب میں تحریف اورتبدیلی کی گئی ہے۔یہ محض موصوف کی اپنی بدگمانی ہے ۔پھراگرکتاب کو موصوف تعصب کی عینک ہٹاکر پڑھتے توپتہ چلتاکہ اگرشیخ الاسلام زاہد الکوثری کو تحریف کرنی ہی ہوتی تووہاں کرتے جہاں ان پر ثقاہت اورعدم ثقاہت کی بحث ہے۔اورپھر دوسرے مقامات ہیں جہاں امام ابویوسف اورامام محمد پر کلام ہے ۔ لیکن انہوں نے اپنی بات کو ہمیشہ حاشیہ اورتعلیق کے طورپر ذکر کیاہے۔


موصوف نے اپنی اسبات کی تائید میں یہ بھی جڑ دیاکہ حیدرآباد سے کتاب المجروحین لابن حبان شائع ہوئی تواس میں سے امام ابوحنیفہ کاترجمہ نکال دیاگیا۔

یہ اگر اس کی دلیل بنتی ہے کہ کسی پر کتاب کی تحقیق میں تحریف نص کا الزام عائد کیاجائے تو پھر موصوف اس بارے میں کیافرماتےکہ سعودی عرب سے جب کتاب السنۃ لابن احمد بن حنبل شائع ہوئی توامام ابوحنیفہ کا ترجمہ نکال دیاگیااوروہاں کے کبار مشائخ نے کہاکہ شرعی مصلحت اورسیاست کا تقاضایہی تھی۔
كتاب السنة - امام ابوحنیفہ رح پر خلق قرآن کے کفریہ عقیدہ کا اتہام - URDU MAJLIS FORUM

موصوف اس کتاب اوراس واقعہ سے ضرور واقف ہوں گے لیکن چونکہ سعودی اشیاخ پر تنقید کرتے توپھرریال کی آمدنی بند ہوسکتی تھی لہذا اتنی جرات تونہ ہوئی کہ ان پر تنقید کرسکیں اورتحریف کتاب کاالزام عائد کرسکیں لیکن ویسے ہی ایک معاملہ میں تحریف کتاب اورتغییر نصوص تک کا الزام دے ڈالا۔
تھوڑی تبدیلی کے ساتھ
اپنوں کرم غیروں پرستم کا اس سے بہتر نمونہ ہمیں اورکہاں اورکیامل سکتاہے؟
 

Ukashah

رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
53
ری ایکشن اسکور
214
پوائنٹ
65
السلام علیکم ورحمتہ اللہ ـ
اللہ اکبر ـ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کو باربار تابعی ثابت کرتا دیکھ کر عبرت ہوتی ہے ، کہ ثابت بھی کیاکیا جارہا ہے ـ افسوس صد افسوس ـ
موصوف اس کتاب اوراس واقعہ سے ضرور واقف ہوں گے لیکن چونکہ سعودی اشیاخ پر تنقید کرتے توپھرریال کی آمدنی بند ہوسکتی تھی لہذا اتنی جرات تونہ ہوئی کہ ان پر تنقید کرسکیں اورتحریف کتاب کاالزام عائد کرسکیں لیکن ویسے ہی ایک معاملہ میں تحریف کتاب اورتغییر نصوص تک کا الزام دے ڈالا۔
ابتسامہ ـ سعودی ریال ـ ارے جناب ـ ریال کی آمدنی تو مولانا مودودی رحمہ اللہ و ابوالحسن ندوی رحمہ اللہ پربھی خوب ہوئی ـ پوری جماعت کا حقہ پانی چلایا ،کبھی تعلیقا ان کا ذکر بھی کردیجئے گا ـ
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
وہ سلفی حضرات کے اجتہاد کے مبلغ کاپتہ دیتی ہیں۔ ان کے اجتہاد کی گہرائی اورگیرائی پر آگے کلام ہوگا۔
لیکن ان کا غیر سلفی علماء سے موازنہ کرنا نہ بھولیے گا .....
فسوف تری إذا انکشف الغبار ..........................
فی الحال ہم اپنی بحث کو صرف اورصرف امام ابوحنیفہ کی تابعیت تک محدود رکھتے ہیں
إنکار تابعیت یا إثبات تابعیت ؟؟
ان کو ایک شکوہ شیخ کوثری سے یہ ہے کہ وہ رواۃ حدیث پر من ماناکلام کرتے ہیں
کیا ایسی بات نہیں ہے ؟؟ والحق یقال ......
۔ان کے شکوہ کی ہم قدر کرتے ہیں
اللہ قبول حق کی توفیق مزید عنایت فرمائے ... ذرا أہل مشرب سے بھی اس موضوع پر کچھ تبادلہ خیال ضرور کرلیں ....
لیکن افسوس کہ موصوف خود اس میں اس سے زیادہ مبتلاہیں۔

زیادہ مبتلا کے بعد ’’ کم مبتلا ‘‘ کی خبر لینا نہ بھولیے گا ....
حافظ جعابی کومتعدد مقام پر موصوف کذاب لکھتے ہیں۔ اسی بحث میں جلد۲/197میں جعابی کو کذاب کہاہے۔
حالانکہ ہم نے میزان الاعتدال اورلسان المیزان اورالمغنی فی الضعفاء کی جانب رجوع کیا۔ کہیں بھی ہم نہیں ملاکہ کسی نے ان کو کذاب کہاہو۔ یہ بات صرف ملتی ہے فاسق رقیق الدین(میزان الاعتدال3/670،لسان المیزان6/280،المغنی فی الضعفاء)
جن کتابوں میں میں دیکھ سکا ہوں ان میں سے سب سے زیادہ تفصیل ابن حجر رحمہ اللہ نے لسان میں بیان کی ہے ... جسکا خلاصہ یہ ہے کہ :
مدح : 1ـ حافظ و ضابط تھا .
2ـ کثرت اطلاع میں معروف تھا .
3 ـ لہ مصنفات کثیرۃۃۃۃۃ
ذم :1۔ فاسق ، شارب الخمر ، رقیق الدین .
2۔اس کو اختلاط ہو گیا تھا .
3۔ شیعہ تھا .
5ـ صاحب الغرائب .
یہاں ایک چھو ٹا سا سوال کرکے اس بات کو علماء کےحوالے کرتا ہوں کہ :
کیا قبول روایت کے لیے صرف حفظ ، ضبط شرط ہے یا اس کے ساتھ عدالت بھی شرط ہے ؟
اور اللسان ميں خطیب بغدادی کے حوالے سے یہ قصہ مذکور ہےکہ:حدثني عيسى بن أحمد الهمداني سمعت أبا الحسن بن زرقويه يقول: كنت عند الجعابي ، فجاء قوم من الشيعة فدفعوا له صرة دراهم ،فقالوا أيها القاضي: إنك قد جمعت أسماء محدثي بغداد وذكرت من قدم إليها، وأمير المؤمنين على رضي الله عنه قد وردها، فنسألك أن تذكره ، فقال: نعم يا غلام هات الكتاب فجىء به فكتب فيها: وأمير المؤمنين علي رضي الله عنه يقال: إنه قدمها . قال ابن زرقويه فلما انصرفوا قلت: له أيها القاضي هذا الذي ألحقته في الكتاب، من ذكره ؟ فقال: هؤلاء الذين رأيتهم .
اصل بات یہ ہے کہ اولاوہ قاضی بنے۔ اسلئے بہت سے اہل حدیث حضرات ان سے ناراض ہوگئے (سیر اعلام النبلاء)اوراسی ناراضی میں انہوں نے ان پر کلام کیا۔ جیساکہ امام مالک نے ناراضگی کی حالت میں محمد بن اسحاق پر دجال من دجاجلۃ کہاتھا۔امام نسائی نے احمد بن صالح مصری پر حالت غضب میں کلام کردیاتھا۔
دوسرے یہ کہ وہ متکلمین کے مسلک کی جانب مائل ہوگئے تھ(سیر اعلام النبلاء) اس بناء پر محدثین کا غصہ ان پر اوربھڑک گیا۔ ورنہ یہ نہ ہوتاتوپھر محدثین وہ سارے احتمالات ذکر کرتے جو دوسرے روات میں کرتے ہیں۔
آخر یہ بڑے تعجب کی بات ہے کہ امام ابوداؤد اپنے بیٹے کو کذاب کہتے ہیں۔ دوسرے محدثین ان کو کذب بیانی سے متصف کرتے ہیں، ان کو درکنار کردیاجاتاہے لیکن بے چارے جعابی کی جانب سے کوئی مدافعت نہیں ہوتی۔ جب کہ یہ الزامات قطعی نہیں بلکہ اس میں کئی احتمالات موجود ہیں۔
لگتا ہے جمشید بھائی محدثین سے کافی نالاں ہیں ... تو بھائی آپ پھر محدثین کو چھوڑ کر ’’ کس ‘‘ کو اس میدان میں لانا چاہتے ہیں ؟؟ ، تاکہ محدثین کی ’’نا انصافیوں ‘‘ سے بچ سکیں ...
اورپتہ چلتاہے کہ وہ حفظ وضبط میں یکتائے روزگار تھے
اور عدالت کے حوالے سے ؟؟؟


لیکن شروع سے ہی توایسامعاملہ نہیں تھا۔بعد میں ایساہوا۔توایک زمانے تک موصوف صحیح اورنیک اورثقہ تھے بعد میں ان میں تغیر آیا
۔
یہ جمشید بھائی کا اپنا فیصلہ ہے یا حوالہ نقل کرنا بھول گئے ہیں ؟؟؟
اوران کی تمام روایات کو ناقابل اعتبار ٹھہرانے کی کیادلیل بنتی ہے؟
اس بات کی بھی ذرا وضاحت فرما دیں کہ کون کون سی روایات پہلے زمانے کی ہیں اور کون سی بعد کی ؟
اور اگر کسی بھائی کے پاس رئیس ندوی صاحب کی کتاب ہے تو ضرور استفادے کا موقع دے . جزاکم اللہ .....
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
قال ابوعمر:ذکر محمد بن سعد(کاتب)الواقدی ان اباحنیفۃ رای انس بن مالک وعبداللہ بن الحارث بن جزء (الزبیدی)
ابوعمر کہتے ہیں کہ محمد بن سعد کاتب واقدی نے ذکر کیاہے کہ (امام )ابوحنیفہ نے انس بن مالک اورعبداللہ بن حارث بن جزء کو دیکھاہے۔
محمد بن سعد بن منیع کی پیدائش 167ھـ کو ہے جبکہ إمام أبو حنیفہ رحمہ اللہ کی وفات 150هــ میں ہے ... ... انہوں نے ان کو انس رضی اللہ عنہ سے ملتے کب دیکھ لیا تھا ؟؟؟
حافظ ذہبی مناقب ابی حنیفۃ وصاحبییہ میں کہتے ہیں۔
وکان من التابعین لھم ان شاء اللہ باحسان،فانہ صح انہ رای انس بن مالک اذ قدمھاانس رضی اللہ عنہ،
قال: محمد بن سعد:ثنا سیف بن جابر انہ سمیع اباحنیفۃ یقول :رایت انسارضی اللہ عنہ ۔(مناقب ابی حنیفۃ وصاحبیہ ص14)

اس روایت کی سند میں سیف بن جابر راوی پر کتب جر ح و تعدیل خاموش ہیں . ( حسب علمی )
دوسری بات یہ کہ : ذہبی اور ابن سعد کے درمیان اتنی لمبی سند کہاں گئی ہے ؟
تیسری بات یہ کہ اگر امام ابوحنیفہ کا امام اعظم اور تابعی ہونا معروف و مشہو تھا تو اس طرح کے غیر معروف راویوں کی روایات سہارا کیوں لیا جاتا ہے .؟؟ امام ابوحنیفہ کے دور میں علماء کی ایک بڑی جماعت کوفہ میں رہی ہے ، ان میں سے کسی سے بھی یہ اتنا معروف و مشہور ( اگر واقعی ہے ) واقعہ کیوں نہیں بیان کیا جاتا ؟؟؟
 

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,397
پوائنٹ
891
اور اگر کسی بھائی کے پاس رئیس ندوی صاحب کی کتاب ہے تو ضرور استفادے کا موقع دے . جزاکم اللہ .....
خضر بھائی اللمحات کتاب کی چار جلدوں کا لنک رضا بھائی کی درج ذیل پوسٹ میں موجود ہے۔

اللمحات
 
Top