موصوف نے ایک عنوان قائم کیاہے ۔
اول نمبر پر امام صاحب کاہی نام رکھاہے اورلکھتے ہیں
متعدد روایات کاحاصل یہ ہے کہ خود امام صاحب نے یہ صراحت کردی ہے کہ میں نے کسی صحابی کونہیں دیکھااس لئے تابعی نہیں ہوں۔(لمحات ص201)
پھراس کیلئے انہوں نے لمحات 1/103کا حوالہ دیاہے لیکن اس مقام پر ہمیں ایسی کوئی عبارت نہیں ملی۔
پھر موصوف امام صاحب کے بارے (2/209) پر لکھتے ہیں۔
ضروری ہے کہ ہم اس پر تفصیلی کلام کریں اور
ایک شے ہے دلیل اورایک شے ہے دلیل سے استخراج واستنباط ۔
رفیق طاہر کوشاید یہ فرق نہیں معلوم اس لئے پورے طمطراق کے ساتھ کہتے ہیں۔
پھرپتہ نہیں موصوف اورموصوف کے ہم قبیل لوگوں نے کس ذہانت وفطانت سے یہ سمجھ لیاہے کہ یہ بات امام ابوحنیفہ کی نص قاطع ہے ان کے مدعا کے حق میں ۔
حافظ ذہبی اورابن حجر نے اوردیگر جنہوں نے امام صاحب کی تابعیت کااعتراف کیاہے۔ وہ بھی مذکورہ قول سے پوری واقفیت کے بعد یہ نہیں سمجھتے کہ اس میں کہیں بھی امام صاحب نے اپنی تابعیت کاانکار کیاہے۔ یہ مخصوص مفہوم اس قول کا نکالنا صرف رفیق طاہر صاحب جیسوں کے ساتھ مخصوص ہے۔ ویسے ہمیں تعجب نہیں کہ اگرامام ابوحنیفہ کی تابعیت کے انکارمیں وہ اس سے زیادہ مضحکہ خیز بلکہ اضحوکہ دلیل پیش کریں اوراس پر مدہوش ہوجائیں اورزبان وبیان کاخیال نہ رکھتے ہوئے کہنے لگیں۔
1: تابعین میں ان سے افضل نہیں دیکھا۔
2: جن سے علم حاصل کیاان میں اس سے افضل نہیں دیکھا
3: مکہ کے مشائخ میں ان سے افضل نہیں دیکھا
ان تمام احتمالات کے ہوتے ہوئے اس کو نص قطعی کی طرح پیش کرنا کہ یہ امام صاحب کے انکار تابعیت کی سب سے پختہ دلیل ہے۔ کس درجہ جہل اورحماقت ہے،قارئین پرواضح ہوگیاہوگا۔اورشاید یہی وجہ ہے کہ جس کی وجہ سے کسی بھی معتمد محدث نے اس کو امام ابوحنیفہ کی تابعیت سے انکار کی دلیل نہیں بنایا۔
مصنف کی یہ عجیب عادت ہے کہ جہاں کہیں مبہم جملہ ملتاہے تواس کو وہ اپنے مدعا پر صریح سمجھتے ہیں لیکن جہاں صریح جملہ ان کے موقف کے برخلاف ہوتاہے تواس کو فرماتے ہیں کہ برسبیل تذکرہ ذکر کردیاگیاہے ۔ان کے اس شترغمزہ پر ہم حیران ہیں !
صاحب اللمحات خلف بن ایوب کو بھی امام صاحب کے تابعیت کے منکرین میں سے سمجھتے ہیں اوردلیل ہے کہ خلف بن ایوب نے کہاہے۔
جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اوراس میں زبرستی ان کوبھی شامل کردیاہے جوامام صاحب کو تابعی مانتے ہیں ۔"امام ابوحنیفہ کی تابعیت کا انکار کرنے والے"
اول نمبر پر امام صاحب کاہی نام رکھاہے اورلکھتے ہیں
متعدد روایات کاحاصل یہ ہے کہ خود امام صاحب نے یہ صراحت کردی ہے کہ میں نے کسی صحابی کونہیں دیکھااس لئے تابعی نہیں ہوں۔(لمحات ص201)
پھراس کیلئے انہوں نے لمحات 1/103کا حوالہ دیاہے لیکن اس مقام پر ہمیں ایسی کوئی عبارت نہیں ملی۔
پھر موصوف امام صاحب کے بارے (2/209) پر لکھتے ہیں۔
لمحات(212)میں لکھتے ہیں۔امام صاحب کا وہ قول تمام لوگوں میں مشہور ہے جس کاحاصل یہ ہے کہ امام صاحب نے فرمایاکہ میں نے کسی تابعی کو نہیں دیکھا۔
ان تین مقامات پر موصوف نے امام صاحب کی وہ باتیں پیش نہیں کی ہیں۔ امید واثق ہے کہ یہ وہی مارایت افضل من عطاء بن ابی رباح والی عبارت ہوگی۔امام صاحب سے مروی باتوں کا حاصل یہ ہے کہ میں نے کسی تابعی کو نہیں دیکھا۔
ضروری ہے کہ ہم اس پر تفصیلی کلام کریں اور
بعض الناس
کے جہل کو واضح کریں خصوصا وہ لوگ جواتنے مدہوش ہیں کہ احدکمامنکم کاذب فھل منکماتائب جیسی تک بندی کرتے پھرتے ہیں۔ایک شے ہے دلیل اورایک شے ہے دلیل سے استخراج واستنباط ۔
رفیق طاہر کوشاید یہ فرق نہیں معلوم اس لئے پورے طمطراق کے ساتھ کہتے ہیں۔
یہ دلیل نہیں ہے بلکہ دلیل سے استنباط شدہ نتیجہ ہے۔جیساکہ ایک چیز ہوتی ہے نص اوردوسری چیز نص سے استنباط ۔میرا سوال یہ ہے کہ یاتو موصوف کا قول درست ہے یا آپکا ۔آپ دنوں میں سے ایک بالضرور جھوٹا ہے ۔ اسکا تعین کرنا ہے
کہ وہ کون ہے۔
پھرپتہ نہیں موصوف اورموصوف کے ہم قبیل لوگوں نے کس ذہانت وفطانت سے یہ سمجھ لیاہے کہ یہ بات امام ابوحنیفہ کی نص قاطع ہے ان کے مدعا کے حق میں ۔
ہمیں نہیں معلوم کہ سابق میں کسی نے اس قول سے یہ سمجھاہو کہ امام ابوحنیفہ کے اس قول کا مطلب یہ ہے کہ وہ تابعی نہیں ہیں۔ حافظ دارقطنی ہوں یادیگر منکرین تابعیت ۔کسی نے بھی امام ابوحنیفہ کے اس قول سے یہ نہیں سمجھاکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ میں نے کسی صحابی کو نہیں دیکھا۔ہرایک کے انکار کی بنیاد یہ رہی ہے کہ ان کی کسی صحابی سے ملاقات ثابت نہیں ہے۔ امام ابوحنیفہ کے اس قول سے یہ مطلب نکالنا صرف دور جدید کے کچھ "مخصوص ذہنوں"کاکام ہے۔
حافظ ذہبی اورابن حجر نے اوردیگر جنہوں نے امام صاحب کی تابعیت کااعتراف کیاہے۔ وہ بھی مذکورہ قول سے پوری واقفیت کے بعد یہ نہیں سمجھتے کہ اس میں کہیں بھی امام صاحب نے اپنی تابعیت کاانکار کیاہے۔ یہ مخصوص مفہوم اس قول کا نکالنا صرف رفیق طاہر صاحب جیسوں کے ساتھ مخصوص ہے۔ ویسے ہمیں تعجب نہیں کہ اگرامام ابوحنیفہ کی تابعیت کے انکارمیں وہ اس سے زیادہ مضحکہ خیز بلکہ اضحوکہ دلیل پیش کریں اوراس پر مدہوش ہوجائیں اورزبان وبیان کاخیال نہ رکھتے ہوئے کہنے لگیں۔
بات یہ ہے کہ کچھ لوگ بعض حالات میں شاید ضد اورانکارمیں ثنائی طرز فکر کے مالک ہوجاتے ہیں یاتو یہ ہوگا یاوہ ہوگا جب کہ وہاں پرتیسراطرزفکر موجود ہوتاہے۔ابن حزم کو دیکھئے ۔وہ فرماتے ہیں کہ جب اختلاف رحمت ہے تواس کا صاف مطلب ہے کہ اتفاق زحمت ہے ۔جس پر امام خطابی نے تنقید کرتے ہوئے فرمایاکہ ایساضروری نہیں کیونکہ اللہ پاک نے رات کورحمت کہااس کا کوئی یہ مطلب مراد نہیں لیتا کہ دن زحمت ہے۔اسی طرح ہم بارش کورحمت کہتے ہیں لیکن جب بارش نہ ہورہی ہوتواس کوزحمت اورعذاب نہیں سمجھتے۔آپ یا آپ کے امام
امام صاحب کے عطاء ابن ابی رباح کو سب سے افضل قراردینے کے یہ احتمالات بھی ممکن ہیں۔رفیق طاہراورانہیں کی قماش کے لوگ اگرتھوڑاغوروفکر کرتے تویہ سمجھنے میں انہیں قطعادقت نہیں ہوتی کہ ایک شخص ایک بات مطلق کہتاہے لیکن اس میں قید چھپی ہوتی ہے ۔اوریہی وجہ ہے کہ حضرت شاہ ولی اللہ نے عقدالجید میں ائمہ اربعہ کی تقلید کوہی واجب قراردیاہے کیونکہ دوسرے مذاہب کی کتابیں ناپید ہیں اوران کے عام ومطلق اورتقید وتخصیص میں فرق کرنے والاکوئی نہیں رہا۔(دیکھئے عقدالجید)
1: تابعین میں ان سے افضل نہیں دیکھا۔
2: جن سے علم حاصل کیاان میں اس سے افضل نہیں دیکھا
3: مکہ کے مشائخ میں ان سے افضل نہیں دیکھا
ان تمام احتمالات کے ہوتے ہوئے اس کو نص قطعی کی طرح پیش کرنا کہ یہ امام صاحب کے انکار تابعیت کی سب سے پختہ دلیل ہے۔ کس درجہ جہل اورحماقت ہے،قارئین پرواضح ہوگیاہوگا۔اورشاید یہی وجہ ہے کہ جس کی وجہ سے کسی بھی معتمد محدث نے اس کو امام ابوحنیفہ کی تابعیت سے انکار کی دلیل نہیں بنایا۔
مصنف کی یہ عجیب عادت ہے کہ جہاں کہیں مبہم جملہ ملتاہے تواس کو وہ اپنے مدعا پر صریح سمجھتے ہیں لیکن جہاں صریح جملہ ان کے موقف کے برخلاف ہوتاہے تواس کو فرماتے ہیں کہ برسبیل تذکرہ ذکر کردیاگیاہے ۔ان کے اس شترغمزہ پر ہم حیران ہیں !
صاحب اللمحات خلف بن ایوب کو بھی امام صاحب کے تابعیت کے منکرین میں سے سمجھتے ہیں اوردلیل ہے کہ خلف بن ایوب نے کہاہے۔
اب اس مضحکہ خیز دلیل پر کوئی ہنسے یاپھر روئے۔ اورمجھے توکچھ سمجھ میں نہیں آئی کہ اس جملہ میں تابعیت کا انکار کہاں ہے۔امام ابوحنیفہ نے تابعین سے ہی توعلم حاصل کیاہے۔ کیادیگر تابعین نے کبار تابعین سے علم حاصل نہیں کیاہے۔ان کے استادحضرت حماد کو ہی لے لیں ان کے زیادہ ترمشائخ تابعین ہی ہیں۔ تواگرکوئی ان کے حق میں کہے کہ خدا سے علم حضور پاک،حضور پاک سے صحابہ کرام نے اورصحابہ سے تابعین نے اورتابعین سے انہوں نے علم حاصل کیاتواس قول سے وہ تابعین کے زمرہ سے نکل جائیں گے۔بریں عقل ودانش بباید گریست۔خدا سے علم محمدﷺ کو ،آپ سے صحابہ کو اورصحابہ سے تابعین اورتابعین سے امام ابوحنیفہ کو حاصل ہوا۔(لمحات ص202)
جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔