علامہ ابواسحاق شیرازی کے بعد جو نمایاں نام ہمیں انکار تابعیت میں ملتاہے وہ جامع الاصول کے مصنف ابن اثیر کاہے۔ابن اثیر اپنی مشہور تالیف جامع الاصول فی احادیث الرسول میں لکھتے ہیں۔
وکان فی ایام ابی حنیفۃ رضی اللہ عنہ اربعۃ من الصحابۃ انس بن مالک بالبصرۃ وعبداللہ بن ابی اوفی بالکوفۃ وسھل بن سعد الساعدی بالمدینۃ وابوالطفیل بن عامر بن واثلہ بمکۃ،ولم یلق احدا منہھم ولااخذ عنہ واصحابہ یقولوں ،انہ لقی جماعۃ من الصحابۃ وروی عنھم ولایثبت ذلک عنداہل النقل (جامع الاصول 12/954)
امام ابوحنیفہ رضی اللہ کے زمانے میں چارصحابہ کرام موجود تھے بصرہ میں انس بن مالک،کوفہ میں عبداللہ بن ابی اوفی، مدینہ میں سھل بن سعد الساعدی مکہ میں ابوالطفیل بن عامربن واثلہ ۔لیکن ان کی نہ کسی سے ملاقات اورنہ روایت ہے۔۔امام ابوحنیفہ کے اصحاب کہتے ہیں کہ انہوں نے چند صحابہ کرام کی زیارت کی ہے اوران سے روایت کی لیکن یہ اہل نقل کے نزدیک ثابت نہیں ہے۔
بات بعینہ شیخ ابواسحاق شیرازی کی ہی ہے لیکن اس میں ابن اثیر نے خط کشیدہ جملوں کا اضافہ کردیاہے۔ ہم ماقبل میں ذکر کرچکے ہیں کہ صرف چارصحابی ہونے کی بات ہی سرے سے غلط ہے۔ بلکہ اس کے علاوہ صحابہ کرام موجود تھے ۔ علاوہ ازیں یہ امام دارقطنی کے قول کی طرح مجرد قول ہی توہے اس پر کوئی دلیل نہیں دی گئی ۔دوسرے یہ کہ یہ اہل نقل کون ہیں ان کابھی حوالہ مذکور نہیں ہے۔ جب ہم آخر میں اپنی بات رکھیں گے تو اس وقت انشاء اللہ یہ بات واضح ہوگی کہ اہل نقل کی بڑی تعداد امام ابوحنیفہ کے حضرت انس اوردیگر صحابہ کرام کو دیکھنے کی قائل ہے۔
جب مولانارئیس ندوی صاحب دوسرے کی بات کو بلادلیل نہیں مانتے اوردلیل کا مطالبہ کرتے ہیں۔حافظ سیوطی کے فتوی مذکورہ میں آپ نے دیکھاہوگاکہ کس کس طرح سے اسے مشکوک بنانے کی کوشش کی گئی ہے ۔قارئین نے یہ بھی ملاحظہ کیاہوگاکہ ابن سعد کی روایت پربھی شک کے چھینٹے اڑائے گئے۔ لیکن ابن اثیر کا قول اپنے مدعا کے موافق ملاتونہ دلیل کی خواہش ہوئی اورنہ حوالہ کی۔ بلکہ اس پر یہ حاشیہ آرائی کی۔
امام مبارک اگرچہ چھٹی صدی کے آدمی تھے مگر ان کا بلااستثناء شخصے تمام اہل نقل کو اسبات کاقائل بتلانا کہ امام صاحب نے کسی صحابی کو نہیں دیکھا ،اس امر کی دلیل ہے کہ امام صاحب کے زمانے سے لے کر امام مبارک کے زمانے تک یعنی دوسری ،تیسری ،چوتھی، پانچویں اورچھٹی صدی کے وہ سارے لوگ اس بات پر متفق تھے کہ امام صاحب نے کسی صحابی کونہیں دیکھا۔ جن پر صحیح معنوں میں لفظ اہل نقل کااطلاق ہوسکتاہے(لمحات217)
ابن اثیر کے بعد مشہور مورخ ابن خلکان نے بھی ابن اثیر کی اسی بات کو من وعن نقل کردیا۔چنانچہ وہ لکھتے ہیں۔
ادرک ابوحنیفۃ اربعۃ من الصحابۃ رضوان اللہ علیھم اجمعین۔وھم انس بن مالک وعبداللہ بن ابی اوفی بالکوفہ وسھل بن سعد الساعدی بالمدینۃ ،وابوالطفیل عامر بن واثلۃ بمکۃ ولم یلق احدا منھم ولااخذ عنہ، واصحابہ یقولون لقی جماعۃ من الصحابہ وروی عنھم ولم یثبت ذلک عنداہل النقل(وفیات الاعیان)
آٓپ دیکھ سکتے ہیں کہ دونوں عبارتوں میں سرمو فرق نہیں ہے ۔اسی عبارت کوبعینہ نقل کردیاہے۔
رئیس ندوی نے ابن کثیر کے حوالہ سے ابن خلکان کی تعریف نقل کرکے یہ ثابت کرنا چاہاہے کہ جوکچھ انہوں نے نقل کیاہے وہ درست ہے اوراس حوالے سے وہ اپنی بات موکد کرناچاہتے ہیں لیکن افسوس کہ موصوف نے خود ابن کثیر جو امام ابوحنیفہ کیلئے حضرت انس کی رویت کے قائل ہیں ان کا ذکر نہیں کیا۔ہم آگے ان کاذکر کریں گے ۔مولانائیس احمدندوی ابن خلکان کیلئے ابن کثیر کے حوالہ سے لکھتے ہیں۔
امام ابن خلکان کو حافظ ابن کثیر نے ائمہ فضلاء ،سادہء علماء میں سے قراردیاہے اورعام اہل تراجم نے ان کے علم وفضل خصوصا علم تاریخ میں پختگی کی صراحت کی ہے۔(لمحات2/219)
پھر اسی عبارت کو امام یافعی نے بعینہ مراۃ الجنان میں معمولی تبدیلیوں کے ساتھ نقل کردیاہے۔
وکان قدادرک ابوحنیفۃ اربعۃ من الصحابۃ ۔وھم انس بن مالک بالبصرۃ وعبداللہ بن ابی اوفی بالکوفہ وسھل بن سعد الساعدی بالمدینۃ ،وابوالطفیل عامر بن واثلۃ بمکۃ،رضی اللہ عنہھم۔قال بعض اصحاب التواریخ ولم یلق احدا منھم ولااخذ عنہ، واصحابہ یقولون لقی جماعۃ من الصحابہ وروی عنھم قال ولم یثبت ذلک عنداہل النقاد(مراۃ الجنان 2/163)
تنبیہ
:
یافعی اورابن خلکان دونوں ہی گروہ محدثین سے نہیں بلکہ گروہ مورخین سے تعلق رکھتے ہیں۔ اس لئے ضروری نہیں کہ وہ محدثین کی مخصوص اصطلاحات کی پیروی کریں یعنی لقاء سے وہ رویت ہی مراد لیں جیساکہ مصنف لمحات نے ہمیں سمجھانے کی کوشش کی ہے۔بلکہ یہ عین ممکن ہے کہ ابن خلکان اوریافعی لقاءاوررویت میں فرق کرتے ہیں۔
اس کی سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ ابن خلکان نے لم یثبت عنداہل النقل ذکرکرکے معامتصل یہ بھی کہہ دیا۔
وذکر الخطیب فی تاریخ بغداد انہ رای انس بن مالکؓ(وفیات الاعیان 406/5)
اگرچہ مولف لمحات نے اس کوبھی برسیل تذکرہ کی کند چھڑی سے ذبح کرنے کی کوشش کی ہے ۔لہذا اس پر زیادہ توجہ نہیں دینی چاہئے۔
اس میں حافظ خطیب کی "برسبیل تذکرہ"نقل کردہ اس ساقط الاعتبار روایت کابھی ذکر آگیاہے جس میں امام صاحب کیلئے رویت انس کا ذکر ہے مگر چونکہ حافظ خطیب بھی اس ساقط الاعتبار روایت کااعتبار نہ کرکے اہل نقل کے موقف پر کاربند ہیں اس لئے امام ابن خلکان نے بھی امام ابن الاثیر کی طرح کسی فرد بشر کو مستثنی کئے بغیر مطلقاًاہل نقل کا یہ موقف قراردیاکہ امام صاحب نے کسی صحابہ کو نہیں دیکھا۔(لمحات219)
یافعی اس سے بھی زیادہ صاف لہجے میں امام ابوحنیفہ کے تذکرہ میں ابتداء میں امام صاحب کی رویت انس کااقرارکرتے ہیں چنانچہ وہ کہتے ہیں۔
وفيها توفي فقيه العراق الإمام أبو حنيفة النعمان بن ثابت الكوفي مولى بني تيم الله بن ثعلبة ومولده سنة ثمانين رأى أنساً وروى عن عطاء بن أبي رباح وطبقته۔( مراۃ الجنان عبرۃ الیقظان 1/241)اوراسی سال عراق کے امام ابوحنیفہ نعمان بن ثابت کوفی مولی بنی تیم اللہ بن ثعلبہ کی وفات ہوئی ۔ان کی ولادت سنہ80ہجری میں ہوئی انہوں نے حضرت انس کو دیکھااورعطابن بی ابی رباح اوران کے طبقہ کے لوگوں سے روایت کی۔
پھراس کے بعد یافعی نے اہل نقد سے انکار کا اثبات کیاہے۔ساتھ ہی یہ بھی ذکر کردیاہے۔
وذكر الخطيب في تاريخ بغداد: انه رأى أنس بن مالك رضي الله تعالى عنه كما تقدم(المصدرالسابق)
اورخطیب نے تاریخ بغداد مین ذکر کیاہے کہ انہوں نے حضرت انس رضی اللہ عنہ کو دیکھاہے جیساکہ ذکر کیاجاچکا۔
اس سے صاف اورواضح ہے کہ بھلے ہی ابن خلکان اوریافعی نے لقاء اورسماع کی نفی کی ہو لیکن وہ رویت کے قائل ہیں اوراسی غرض سے انہوں انکار کے متصلاحضرت انس کی رویت کا اثبات کیاہے اوریہ کہ وہ لقاء اوررویت میں فرق کے قائل ہیں۔
پھر ابن اثیر کی پیروی میں صاحب مشکوۃ نے بھی وہی بات تھوڑے اورمعمولی ردوبدل کے ساتھ دوہرادی ہے۔
چنانچہ وہ الاکمال فی اسماء الرجال میں امام صاحب کے ترجمہ میں لکھتے ہیں۔
وکان فی ایامہ اربعۃ من الصحابۃ انس بن مالک بالبصرۃ وعبداللہ بن ابی اوفی بالکوفۃ وسھل بن سعد الساعدی بالمدینۃ وابوالطفیل عامر بن واثلۃ بمکۃ ولم یلق احدا منھم ولااخذ عنھم
قارئین دیکھ سکتے ہیں کہ یہ بھی بنیادی طورپر ابن اثیر کی عبارت سے ہی ماخوذ ہے۔ اورابن اثیر کاحال یہ ہے کہ انہوںنے نہ دلیل بیان کی اورنہ ہی اہل نقل کا حوالہ دیا۔یافعی نے اس کو اہل نقد کا قول بتایالیکن اس کا کوئی حوالہ نہیں دیا۔
موصوف کی بے اصولی
موصوف جس طرح امام ابوحنیفہ کی تابعیت کااقرارکرنے والوں کی بعض غلطیاں نکالتے ہین اورپھر اس سے اس پر استدلال کرتے ہیں کہ جس طرح وہاں غلط۔اسی طرح یہاں بھی غلط۔ خدا کے فضل سے ہم بھی اتنے تہی دست نہیں کہ ابن اثیر ،ابن خلکان اوریافعی کی تاریخ سے پچاسوں غلطیاں نہ ڈھونڈ سکیں اوربیان نہ کرسکیں۔ لیکن یہ چیز چونکہ اصولی طورپر غلط ہے لہذا اس کو ہم موصوف ہی کیلئے چھوڑدیتے ہیں۔
موصوف بسااوقات ایساکرتے ہیں کہ اگرکسی محدث مورخ اہل نقد میں سے کسی سے امام ابوحنیفہ کے بارے میں جرح وتعدیل دونوں منقول ہے تووہ الزام دیتے ہیں کہ جب ایک قول قبول کیاہے تودوسراقول بھی مانو ۔چنانچہ اس سلسلے میں لمحات دیکھئے۔(1/109،1/111،1/304)
اس کے علاوہ کتاب کی شاید کوئی بحث ایسی ہوگی جہاں موصوف نے اس طرز سے گریز کیاہوگا۔ لیکن ابن الاثیر کے ذکر موصوف یہ سب بھول گئے ۔
موصوف نے توخلق قران،مرجیہ جہمیہ اورجتنی مثالب کی روایات ہیں تقریباسبھی کو امام ابوحنیفہ میں تسلیم کیاہے اوراسی غرض سے انہوں نے یہ کتاب لکھی ہے۔ ورنہ جہاں تک مقصد مصنف انوار الباری کا رد ہے تووہ تومحض ایک پردہ اوردھوکے کی ٹٹی ہے۔
ابن اثیرنے امام صاحب کے ترجمہ میں تابعیت کا انکار صحابہ سے رویت وروایت کے انکار کے امام صاحب کے فضائل ومناقب میں متقدمین کے اقوال ذکر کئے ہیں پھر لکھاہے۔
ولوذھبنا الی شرح مناقبہ وفضائلہ لاطلنالخطب،ولم نصل الی الغرض منہا،فانہ کان عالما عاملاورعا زاہدا عابداتقیا اماما فی علوم الشریعۃ ،مرضیا،وقد نسب الیہ، وقیل عنہ من الاقاویل المخلتفۃ(شیخ عبدالفتاح نے الانتقاء میں اس لفظ کو غلط بتاکر لکھاہے کہ صحیح لفظ المختلقۃ ہے)التی نجل قدرہ عنہا،ویتنزہ منھامن القول بخلق القران،والقول بالقدر،والقول بالارجاء ،وغیرذلک ممانسب الیہ، ولاحاجۃ الی ذکرھا ،ولاالی ذکر قائلیھا،والظاہر انہ کان منزھا عنہا ،ویدل علی صحۃ نزاھتہ منہا،مانشرااللہ تعالیٰ لہ من الذکر المنشترفی الافاق،والعلم الذی طبق الارض،والاخذ بمذھبہ، وفقھہ،والرجوع الی قولہ وفعلہ، وان ذلک ل ملم یکن للہ فی سرخفی، ورضی الھی، وفقہ اللہ لمالماجمع شطرالاسلام،اومایقاربہ علی تقلیدہ، والعمل برایہ ومذھبہ، حتی قد عبداللہ ودین بفقھہ،وعمل برایہ ومذھبہ ،واخذ بقولہ الی یومنا ھذا مایقارب اربع مائۃ وخمسین سنۃ ،وفی ھذا ادل دلیل علی صحۃ مذہبہ وعقیدتہ،وانماقیل عنہ ھومنزہ منبہ، وقد جمع ابوجعفر الطحاوی وھومن اکبرالآخذین بمذہبہ کتاباسماہ عقیدۃ ابی حنیفۃرحمہ اللہ وھی عقیدۃ اہل السنۃ والجماعۃ ،ولیس فیھاشی ممانسب الیہ،وقد قیل عنہ واصحابہ اخبربحالہ وبقولہ من غیرھم ،فالرجوع الی مانقلوہ عنہ اولی ممنانقلہ غیرھم عنہ، وقذ ذکر ایضاسبب قول من قال عنہ ماقال ،والحامل لہ علی مانسب الیہ ،ولاحاجۃ بناالی ذکرماقالوہ، فان مثل ابی حنیفۃ ومحلہ فی الاسلام لایحتاج الی دلیل یعتذر بہ ممانسب الیہ واللہ اعلم ۔(جامع الاصول فی احادیث الرسول 12/954)
اگرہم ان کے مناقب اورفضائل کو تفصیل سے بیان کرناچاہیں تو سفینہ چاہئے اس بحربیکراں کیلئے اورورق تمام ہوا اورمدح باقی ہے کی کیفیت پیش ائے گی ۔امام ابوحنیفہ عالم، عامل،زاہد متقی، اورعلوم شریعت میں امام اورپسندیدہ تھے۔ ان کی طرف بہت سی باتیں جعلی اورگڑھی ہوئی منسوب کی گئ ہیں جس سے وہ منزہ ہیں اوران کی شان اس سے بلند ہے۔جوباتیں ان کی جانب منسوب کی گئی ہیں ان میں خلق قرآن، قدر،ارجاء اوردوسری باتیں ہیں۔ ہمیں نہ اقوال کے ذکر کے ضرورت ہے اورنہ ان کے قائلیں کے تذکرہ کی حاجت ہے کیونکہ وہ ایسے تمام اتہامات سے بری تھے۔اوران کی اس برات پر دلیل یہ ہے کہ اللہ نے پوری دنیا میں ان کوشہرت دی اوران کو وہ علم بخشا جس کا ذکر ہرچار سوہے۔اسی طرح اللہ نے ان کے مسلک اورفقہ اوران کے قول وفعل کو دنیا بھر میں پذیرائی بخشی۔ اگراس میں اللہ کا پوشیدہ راز اوررضائے الہی نہ ہوتا توپھر ادھے مسلمان یااس کے قریب ان کی تقلید اوران کی رائے اورمذہب پر متفق نہ ہوتے۔ اسی رضائے الہی کانتیجہ ہے ان کے فقہی اقوال کے مطابق خدا کی عبادت کی جارہی ہے اوران کی رائے اورمسلک پر اس وقت سے لے کر ہمارے دور تک جو ساڑھے چارسو سال ہوتاہے عمل کیاجارہاہے۔(ابن اثیر اپنے دور کے اعتبار سے کہہ رہے ہیں)اوریہ اسبات کی بڑی دلیل ہے کہ ان کا مسلک اوران کا عقیدہ درست ہے اورجوکچھ ان کے بارے میں کہاگیاہے وہ اس سے بری ہے ۔امام ابوجعفر الطحاوی جوان کے مسلک کے بڑے نمائندے اورشارح ہیں۔ انہوں نے ایک کتاب عقیدۃ ابی حنیفہ کے نام سے لکھی ہے اوراس میں وہی عقائد مذکور ہیں جو اہل سنت کے عقائد تھے اوراس میں ایسی کوئی بات نہیں جو ان کی جانب منسوب کی گئی ہے ۔یہ بھی کہاگیاہے کہ ان کے(امام ابوحنیفہ)کے حالات سے ان کے شاگرد دوسروں سے زیادہ واقف ہیں لہذا اس باب میں ان کی جانب رجوع کرنا زیادہ بہتر ہے۔ جن لوگوں نے ان کی جانب ارجاء ،قدر خلق قران وغیرہ کو منسوب کیاہے اس کے باعث ،داعیہ اورتحریک کے بارے میں لوگوں نے بیان کیاہے لیکن ہمیں اس کے بیان کی حاجت نہیں ہے کیونکہ امام ابوحنیفہ کا اسلام میں جومرتبہ اورمقام ہے اس کے ہوتے ہوئے ہمیں اس کی قطعاضرورت نہیں ہے کہ ہم ان سے منسوب ان اتہامات کے بارے میں کسی عذر اورمعذرت کا طریقہ اپنائیں۔