• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

امام ابوحنیفہ کی تابعیت اورمولانا رئیس ندوی کا انکار

رفیق طاھر

رکن مجلس شوریٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 04، 2011
پیغامات
790
ری ایکشن اسکور
3,982
پوائنٹ
323
محترم جمشید طحاوی صاحب !
اگر آپکے پاس ابو حنیفہ کی تابعیت کو ثابت کرنے کے لیے کوئی "دلیل" ہے تو پیش کریں ۔
صرف ایک دلیل بسند صحیح , بس !
یاپھر اپنے اور اپنے امام میں سے کسی ایک کو جھوٹا قرار دے لیں ۔
 

جمشید

مشہور رکن
شمولیت
جون 09، 2011
پیغامات
871
ری ایکشن اسکور
2,332
پوائنٹ
180
حافظ ابن حجر
کا فتویٰ تفصیلی طورپر ذکر کیاجاچکاہے اس کے باوجود موصوف حافظ ابن حجر کو منکرین تابعیت میں شمار کرنے پر مصر ہیں اوردلیل یہ ہے کہ حافظ ابن حجر نے ان کو تقریب میں طبقہ سادسہ میں شمار کیاہے جب کہ حافظ ابن حجر کی تصریح کے مطابق طبقہ خامسہ صغارتابعین کاہے۔(لمحات ص247)موصوف نے یہ بات اگرچہ ابن نجیم مصری سے نقل کی ہے لیکن یہ ان کی اپنی بھی رائے ہے۔
موصوف نے مسئلہ خلق قرآن پر جس طرح اجمال اورتفصیل پر بحث کی ہے اورجس کے حوالے گزرچکے ہیں ۔اسی طرح اگر وہ یہاں تھوڑی دیر کیلئے اپنے موقف پر قائم رہتے اورتقریب جس کتاب کا خلاصہ ہے یعنی تہذیب التہذیب اس کی جانب رجوع کرتے تووہاں صراحتایہ بات مل جاتی کہ رای انسا۔امام ابوحنیفہ نے حضرت انس کو دیکھاہے۔ہم حافظ ابن حجر کی بات کو تفصیلی طورپر عرض کرتے ہیں۔
النعمان بن ثابت التیمی ،ابوحنیفۃ الکوفی مولی بنی تیم اللہ ابن ثعلبہ وقیل انہ من ابناء فارس،رأی انسا روی عن عطاء بن ابی رباح(تہذیب التہذیب 10/449)
یہاں پر حافظ ابن حجر نے بالجزم یہ بات کہہ دی ہے کہ انہوں نے حضرت انسؓ کو دیکھاہے۔اب یہ بات رہ جاتی ہے کہ پھر تقریب میں طبقہ سادسہ میں کیوں ذکر کیاتواس سے کسی کو غلط فہمی نہیں ہونی چاہئے کیونکہ حافظ ابن حجر نے جیساکہ تقریب کے مقدمہ میں تصریح کی ہے کہ کبار تبع تابعین کا طبقہ 7واں ہے لہذا کبار تبع تابعین سے پہلے کا جوطبقہ ہوگا وہ یقینی طورپر تابعین کا ہی ہوگا۔
بات صرف اتنی ہے کہ اگر موصوف کے دل میں وسعت ہوتی جیساکہ امام ابوحنیفہ کے مثالب والی روایات کے تعلق سے ہے ۔وہاں اگروایات مختلف ہوں تو موصوف تطبیق پیداکرنے کی انتہائی کوششیں کرتے ہیں لیکن اگر بات کچھ مناقب کی ہو توموصوف معمولی باتوں پر اختلاف کی رٹ لے بیٹھتے ہیں اوراپنااجمال وتفصیل والاقاعدہ سرے سے بھول جاتے ہیں۔
جہاں تک میری رائے کا تعلق ہے تو حافظ ابن حجرؓ کے اس صنعی کے پیچھے شاید منشاء یہ ہے کہ انہوں نے طبقہ خامسہ میں ان صغارتابعین کو رکھاجن کی رویت صحابہ پر اتفاق ہے اورطبقہ خامسہ میں ان کورکھاجن کی رویت پر بعضے اہل علم کو اختلاف ہے۔اگرچہ حافظ ابن حجر کا صنیع اورطرزعمل مکمل طورپر اس کی گواہی دیتاہے کہ وہ اس معاملے میں امام صاحب کی تابعیت کے قائل ہیں اورجس پر تہذیب کی عبارت اورانہی کا فتویٰ گواہ ہے۔

حافظ سخاوی

موصوف تو اولاًفرماتے ہیں
ہم عرض کرچکے ہیں کہ سخاوی کی طرح کے سودوسوآدمیوں سے بالصراحت ثابت ہو کہ انہوں نے اعتراف کیاہے کہ امام صاحب نے حضرت انس کو دیکھاہے مگران کے اعتراف کی بنیاد مضبوط دلیل پر نہ ہو توازروئے تحقیق اس سے تابعیت امام ثابت نہیں ہوسکتی ۔
پھر انہوں نے حافظ سخاوی سے بھی انکار تابعیت کی دلیل ڈھونڈلی ہے ۔اس کو بھی ملاحظہ کیجئے۔
والثنائیات فی الموطا ،والوحدان فی حدیث الامام ابی حنیفۃ لکن بسند غیر مقبول ،اذالمعتمدانہ لاروایۃ لہ عن احد من الصحابہ(لمحات249)
موصوف بڑے ہی عجیب وغریب شخص ہیں۔
اولاتو حافظ سخاوی کی علمی ثقاہت پرہی انہوں نے سوالیہ نشان قائم کیاکہ انکی طرح کے دوسوآدمی بھی کچھ کہیں توکچھ نہیں ہوسکتا۔
اگرکوئی کہے کہ انہوں نے تویہ کہاہے کہ
اگردلیل ہوتودوچارآدمی ہی کافی ہیں اوردلیل نہ ہوتودوسوآدمی بھی ناکافی ہیں۔ (مفہوم المصدرالسابق)
ہماری گزارش ہوگی کہ اس میں صرف سخاوی کی ہی کیاخصوصیت ہے ۔کیابغیر دلیل کے ابن حجر اورذہبی کی بات معتبر ہوجائے گی؟کیابغیر دلیل کے ابن قیم اورابن تیمیہ کی بات معتبر مانی چاہئے۔کیابغیر دلیل ابن حبان اوربخاری کی باتیں قبول کرلی جائیں؟
مجھے یہ بات قطعاسمجھ میں نہیں آئی کہ موصوف کہناکیاچاہتے ہیں اورکس چیز کا اثبات ان کے مدنظر ہے۔
اصل بات یہ ہے کہ حافط سخاوی سے امام صاحب کے حضرت انس کو دیکھنے کا ثبوت بھی ہے اورتابعی کی صراحت بھی ۔توموصوف سے انکار توکرنامشکل تھا لہذا جھنجھلاہٹ میں اس طرح کی ایک مغلق اورموہم عبارت بیان کردی ۔
اسی کے ساتھ موصوف کی ہوشیاری بھی دیکھئے کہ بیان چل رہاہے امام صاحب کو حضرت انس کو دیکھنے کا اوروہ تردید میں لے آئے ہیں۔ حضرت سخاوی کا بیان جس میں روایت کی نفی ہے۔ اسی کو پرانے بزرگ "بھان متی کا کنبہ جوڑنے"سے تشبیہ دیتے آئے ہیں۔
حافظ سخاوی امام صاحب کی تابعیت کے تعلق سے لکھتے ہیں۔
وفی الخمسین ومائۃ من السنین الامام المقلد احد من عد فی التابعین ابوحنیفۃ النعمان بن ثابت الکوفی قضی ای مات۔(فتح المغیث 473 ،طبع لکھنؤ،بحوالہ امام ابوحنیفہ کی تابعیت ص28)
کیااس تصریح کے بعد بھی کسی شک اورانکار کی گنجائش باقی بچتی ہے؟

قسطلانی
حافظ قسطلانی سے بھی امام صاحب کی تابعیت کااثبات منقول ہے۔چنانچہ وہ لکھتے ہیں۔
ومن التابعین الحسن البصری،وابن سبرین، والشعبی ،وابن المسیب وابوحنیفہ(لمحات ص250،بحوالہ تذکرۃ الراشد ص275)
اس واضح عبارت کے جواب میں موصوف اورکچھ تونہیں کرسکے لیکن یہ اعتراض جڑ دیادیکھئے۔
حالانکہ قسطلانی کی کسی عبارت میں یہ تصریح نہیں آئی کہ امام صاحب نے حضرت انس کو دیکھاہے(لمحات250)
اورایک بات بیان کی کہ اسی کتاب میں چند صفحات پہلے سفیان بن عیینہ کو جلیل القدر تابعی لکھاگیاہے ۔
اس غلطی سے انہوں نے دلیل پکڑی ہے کہ جب وہاں غلط ہے تویہاں کیوں غلط نہ ہو۔
حالانکہ اگر اسی انداز میں کوئی امام بخاری کی رجال کی بعض غلطیوں سے دلیل پکڑنے لگے کہ جب وہاں غلطی ہوسکتی ہے تویہاں کیوں نہیں۔اسی طرح دیگرائمہ رجال کی رجال پر جرح وتعدیل میں غلطیوں سے دوسرے مقامات پر دلیل پکڑنے لگے کہ جب وہاں غلطی ہوسکتی ہے تویہاں کیوں نہیں؟توپتہ نہیں موصوف کیاجواب دیں۔
شاید ان کو معلوم ہی نہیں ہے کہ دلیل کسے کہتے ہیں اوروہ کیاہوتی ہے اوریہ ان کی عجیب عادت ہے جب ان کوکسی کی کسی بات کا انکار کرناہوتاہے تو اس کی بعض غلطیوں کو دلیل کے طورپر پیش کرتے ہیں۔
مثلااسی بحث میں حافظ ذہبی سے ناقابل تردید طورپر ثابت ہے کہ وہ امام ابوحنیفہ رضی اللہ کے حضرت انس کو دیکھنے کے قائل ہیں۔تواس موقع پر انہوں نے حافظ ذہبی کی مستدرک حاکم کی احادیث پر چند مقامات مین حکم لگانے کی غلطیوں کو بطور مثال پیش کیاہے۔اگرموصوف کی کتاب پر اسی انداز سے نقد کیاجاتا اوران کی چند غلطیوں کو مثال میں پیش کرکے جو قارئین کی نگاہ میں آچکی ہیں،پوری کتاب مسترد کردی جاتی توپتہ نہیں موصوف کس درجہ خفاہوتے اوراپنی ناراضگی کااظہار کرتے۔
جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

جمشید

مشہور رکن
شمولیت
جون 09، 2011
پیغامات
871
ری ایکشن اسکور
2,332
پوائنٹ
180
محترم جمشید طحاوی صاحب !
اگر آپکے پاس ابو حنیفہ کی تابعیت کو ثابت کرنے کے لیے کوئی "دلیل" ہے تو پیش کریں ۔صرف ایک دلیل بسند صحیح , بس !یاپھر اپنے اور اپنے امام میں سے کسی ایک کو جھوٹا قرار دے لیں ۔
قبل ازیں میں نے رفیق طاہر صاحب پر ذراہلکے انداز میں رد کیاتھااورامید تھی کہ وہ بین السطور میں پوشیدہ مفہوم کو ضرور سمجھیں گے۔لیکن افسوس ایسانہیں ہواتوپھراب کوئی مانع نہیں ہے کہ رفیق طاہر صاحب کی زبان میں ہی ان کوجواب دیاجائے۔
رفیق طاہر صاحب نے قبل ازیں تو بسند صحیح جو روایت پیش کی تھی اس کے محتملات پر غورنہیں فرمایا اوراس کو نص قطعی کی طرح پیش کرتے رہے اوراس کے ساتھ یہ تک بندی بھی فرماتے رہے۔
احدکماکاذب فھل منکماتائب
اس تک بندی سے ہی ان کے علم وفضل کا پتہ چلتاہے؟
ہم نے توپڑھاتھاکہ جان کنی میں ہی ایک ایساوقت آجاتاہے کہ جب توبہ کا دروازہ بند ہوجاتاہے اورتمام علماء کا اس پراتفاق ہے کہ موت کے بعد توبہ کی کوئی صورت نہیں !
لیکن رفیق طاہر صاحب کے وسعت علم کا مظاہرہ بلکہ مجاہرہ دیکھئے کہ وہ تقریبآ13صدیاں بعد بھی امام ابوحنیفہ کیلئے توبہ کرنے کا دروازہ کھول رہے ہیں اورنوید سنارہے ہیں فھل منکماتائب؟؟؟؟؟یعنی اب بھی اگرامام ابوحنیفہ توبہ کرلیں تو پوری گنجائش ہے۔
اس سے یقین ہوجاناچاہئے کہ موصوف کی علمی گہرائی اورگیرائی کاکیاعالم ہے؟۔اس واقعہ سے یہ بھی یقین ہوچکاہے کہ موصوف صرف حدیث کے ہی استاد ہیں۔
ویسے رفیق طاہر صاحب کو ذراصبر وتحمل رکھناچاہئے ۔ابھی تومولانارئیس ندوی صاحب کے مزعومات پر بات مکمل ہونے دیں۔ پھراس کے بعد برصغیر کے جن چند اہل علم نے امام ابوحنیفہ کی تابعیت کاانکار کیاہے اس کابھی ذکر ہوگا اورپھرآخر میں ہم انشاء اللہ اپنی بات اپنے دلائل کے ساتھ رکھیں گے۔
سبھی کچھ ترتیب سے چلے توبہترہے ورنہ ادھر سے ایک صاحب کااعتراض ہوگا اورادھر سے دوسرے صاحب اورنتیجہ یہ ہوگاکہ بات ادھوری نامکمل اوربغیرکسی نتیجہ پر پہنچے ہی ختم ہوجائے گی۔
 

جمشید

مشہور رکن
شمولیت
جون 09، 2011
پیغامات
871
ری ایکشن اسکور
2,332
پوائنٹ
180
مولانارئیس احمدندوی اورصریح نقول کا مطالبہ
مصنف انوار نے ابن مقری ،شافعی،امام یافعی،جزری،ابونعیم اصبہانی،ابن عبدالبر،سمعانی،ابن الوزیر وغیرہ کی طرف تابعیت امام کے اقرار کا انتساب کرکے حسب عادت غلط بیانی کی ہے ۔مصنف انوارکوچاہئے کہ اس سلسلے میں ان حضرات کے صریح اورواضح بیاناتنقل کریں۔ امام یافعی نے صاف طورپر ترجمہ امام میں کہہ دیاہے کہ اگرچہ احناف مدعی ہیں کہ بعض صحابہ کالقاء وروایت امام صاحب کو حاصل ہے مگریہ ثابت نہیں۔اسی طرح جزری اورحافظ ابن عبدالبر نے بھی کیاہے(لمحات 250)
موصوف نے اس بیان میں بھی کئی غلط بیانیاں کی ہیں۔

1: جزری اورابن عبدالبر کی طرف یہ نسبت کررہے ہیں کہ وہ امام صاحب کی تابعیت کے منکر ہیں۔جب کہ ماقبل یہ وضاحت کی جاچکی ہے کہ ابن عبدالبر امام صاحب کی تابعیت کے قائل ہیں۔
2:موصوف تو دوسروں کے بارے میں صریح اورواضح بیانات چاہتے ہیں لیکن خود ابن الاثیر نے جامع الاصول میں اگرایک مبہم جملہ لکھ دیاہے ولم یثیت عنداہل النقل یعنی امام ابوحنیفہ کی کسی صحابی کی ملاقات اورروایت اہل نقل کے نزدیک ثابت نہیں ہے تواس پر موصوف کی حاشیہ آرائی دیکھئے۔

امام مبارک اگرچہ چھٹی صدی کے آدمی تھے مگر ان کا بلااستثناء شخصے تمام اہل نقل کو اسبات کاقائل بتلانا کہ امام صاحب نے کسی صحابی کو نہیں دیکھا ،اس امر کی دلیل ہے کہ امام صاحب کے زمانے سے لے کر امام مبارک کے زمانے تک یعنی دوسری ،تیسری ،چوتھی، پانچویں اورچھٹی صدی کے وہ سارے لوگ اس بات پر متفق تھے کہ امام صاحب نے کسی صحابی کونہیں دیکھا۔ جن پر صحیح معنوں میں لفظ اہل نقل کااطلاق ہوسکتاہے(لمحات217)
موصوف نے اپنی کتاب میں علامہ کردری کی مناقب امام ابوحنیفہ پر بارہا اس بات کی تنقید کی ہے کہ اس میں سند مذکور نہیں اوروہ متاخردور کے ہیں اس لئے ان کی بات قابل قبول نہیں ۔لیکن جب اپنے حسب مطلب ومراد ایک چیز ملی تواس کو دانتوں سے پکڑلیا اوربقیہ تمام زمانوں کیلئے قابل استشہاد بھی قراردے دیااورشخص واحد کی رائے کو دوسری ،تیسری چوتھی ،پانچویں اورچھٹی کے لوگوں کی متفقہ رائے مان لیا۔اس پر ہم زیادہ کچھ عرض نہیں کرسکتے۔
ہم ابن اثیر ابن خلکان اوردیگر منکرین تابعیت کے موقف پر آگے چل کر کلام کریں گے ۔

حافظ ابن جوزی

ان کا ذکر پہلے آناچاہئے تھامگر افسوس کہ غلطی سے چھوٹ گیا۔موصوف نے اس میں بھی اپناانداز حسب معمول برقرار کھاہے یعنی کسی بھی طرح اپنامدعاثابت کردو۔
حافظ ابن جوزی نے العلل المتناہیہ میں کہاہے:
ھذ احدیث لایصح عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ،والحمانی کان یضع الحدیث کذلک،قال الدارقطنی :وابوحنیفۃ لم یسمع من احد من الصحابۃ ،انمارای انس بن مالک بعینہ(لمحات2/222/بحوالہ العلل المتناہیہ 1/128)
اس کے بعد موصوف لکھتے ہیں:
اب چونکہ انکار کی گنجائش نہیں ہے اورماننے پر طبعیت بھی آمادہ نہیں اس لئے گنجائش نکالنے کیلئے فرمارہے ہیں۔
معلوم نہیں ابن الجوزی تعریف تابعی کے سلسلے میں رویت ولقاء میں تفریق کے قائل ہیں یاوہ بھی دونوں کو مترادف سمجھتے ہیں(لمحات223)
جب کہ موصوف امام دارقطنی کے تذکرہ میں ان لوگوں کی تردید کرتے ہوئے جو امام دارقطنی سے رویت ولقاء میں فرق کی بات کرتے ہیں۔ لکھاہے

جب جمہوراہل علم لقاء ورویت کو دومختلف چیزیں سمجھتے ہیں توامام دارقطنی کوبھی مذہب جمہورکاپیرو مانناچاہئے الایہ کہ اس کے خلاف کوئی بات دلیل معتبر سے ثابت ہو ،اگردارقطنی موقف جمہور سے اختلاف رکھتے تواہل علم اس کاذکر ضرور کرتے ۔(لمحات213)
موصوف کے انداز بحث کایہ نمونہ قارئین کے سامنے پیش خدمت ہے۔دارقطنی کے باب میں تو کہاجارہاہے کہ جب جمہورکسی چیز کے قائل ہیں تو ان کوبھی اسی کا قائل سمجھناچاہئے اوریہاں خواہ مخواہ شک پیداکررہے ہیں کہ پتہ نہیں وہ دونوں میں تفریق کرتے ہیں یانہیں۔

کچھ نمونے اوردیکھئے۔پہلے موصوف کے قول کا خلاصہ میں بیان کردوں۔

ابن جوزی امام دارقطنی کے علم وفضل کے بہت معترف ہیں۔بہت سارے مقامات پر ان کے اقوال سے استشہاد کیاہے۔لہذا اگرچہ اہل علم کو اختلاف کاحق حاصل ہے لیکن ابن جوزی کو دارقطنی سے اپنے اختلاف کی وجہ بیان کرنی چاہئے تھی اوربلادلیل موصوف کی بات جوائمہ نقل کے خلاف ہے معتبر نہیں ہوسکتی۔(مفہوم ،لمحات ص223)
ہم موصوف کی بات کی قدر کرتے ہیں لیکن جن لوگوں نے انکار کیاہے ان کی بات بھی تودلائل کے ساتھ نہیں ہے۔اگرامام دارقطنی نے انکار کیاہے توانکار کی ان کے پاس کیادلیل ہے ۔اگرآپ کہیں کہ امام دارقطنی کا یہ کہنا کہ امام ابوحنیفہ نے نہ کسی صحابی سے روایت کی اورنہ کسی کو دیکھا بتاتاہے کہ یہ ان کے نزدیک ثابت نہیں ہواورکسی چیز کے عدم ثبوت کا ذکر دلیل میں شامل ہے توہم عرض کریں گے کہ پھر توابن جوزی کا یہ کہناکہ امام صاحب نے حضرت انس کو دیکھاہے بذات خود دلیل بن جاتی ہے۔پھر موصوف جس طرح خاقانی کے قول سے استشہاد کررہے ہیں ۔توان بزرگ نے ہی کون سے دلائل بیان کئے ہیں سوائے مجرد قول کے کہ تابعین کے بعد یہ حضرات مجتدین ہیں۔پھر ابن عبدالبر نے کیادلیل بیان کی ہے موصوف نے اس پر روشنی نہیں ڈالی ۔اسی کے ساتھ ابن الاثیر اوردوسرے اگر انکار میں مجرد قول ذکر کریں کہ لایثبت عنداہل النقل توموصوف اس کو معتبر سمجھ لیتے ہیں حالانکہ بھی وہ دلیل سے خالی مجرد قول ہے۔ اس میں اہل نقول اوران کے دلائل کاکوئی تذکرہ ہی نہیں ہے۔لیکن چونکہ موصوف نے یہ ٹھان لیاہے کہ امام ابوحنیفہ کی تابعیت کا انکار کرناہے سوکرناہے۔

لیکن موصوف نے اسی پر بات ختم نہیں کی بلکہ اپنی بات موکد کرنے کیلئے ابن جوزی کاکثیر الاوہام ہونابھی بیان کیا۔ہم موصوف کی اس بات کی بھی قدر کرتے ہیں اوراسے صحیح مانتے ہیں لیکن موصوف کی بے اصول دیکھ کر حیران ہیں۔

موصوف امام حاکم صاحب المستدرک سے امام ابوحنیفہ کی تابعیت کے انکار کاذکر کرتے ہیں اس وقت موصوف کو حاکم کے اوہام ،غفلت اورآخر عمر مین تخلیط کا ذکر قطعایاد نہیں آتا۔کیونکہ وہ امام ابوحنیفہ کی تابعیت کا انکار کررہے ہیں۔ اگرخدانخواستہ وہ امام ابوحنیفہ کی تابعیت کا اقرار کررہے ہوتے توشاید موصوف امام حاکم کی غلطیوں پر کئی صفحات سیاہ کردیتے۔جیساکہ حافظ ذہبی کے ذکر میں کیاہے۔لیکن موصوف نے بالواسطہ ہی سہی دوسری جگہ پر ہی حافظ ذہبی کے حدیث پر حکم لگانے کے تساہل کے باب میں حاکم کے تساہل کابھی ذکر کردیاہے۔ویسے جولوگ علم حدیث اورعلم رجال سے واقفیت رکھتے ہیں وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ حاکم کے اوہام کتنے زیادہ ہیں اورمستدرک میں ان سے کیسی سنگین غلطیاں ہوئیں ہیں اورآخر عمر میں ضعف حافظہ کے سبب خلط ملط کا شکار ہوگئے تھے اوران پر تشیع کا بھی الزام لگاہے۔

جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

باذوق

رکن
شمولیت
فروری 16، 2011
پیغامات
888
ری ایکشن اسکور
4,011
پوائنٹ
289
ویسے رفیق طاہر صاحب کو ذراصبر وتحمل رکھناچاہئے ۔ابھی تومولانارئیس ندوی صاحب کے مزعومات پر بات مکمل ہونے دیں۔ پھراس کے بعد برصغیر کے جن چند اہل علم نے امام ابوحنیفہ کی تابعیت کاانکار کیاہے اس کابھی ذکر ہوگا اورپھرآخر میں ہم انشاء اللہ اپنی بات اپنے دلائل کے ساتھ رکھیں گے۔
سبھی کچھ ترتیب سے چلے توبہترہے ورنہ ادھر سے ایک صاحب کااعتراض ہوگا اورادھر سے دوسرے صاحب اورنتیجہ یہ ہوگاکہ بات ادھوری نامکمل اوربغیرکسی نتیجہ پر پہنچے ہی ختم ہوجائے گی۔
جمشید بھائی۔ آپ کا یہ موقف کسی بھی لحاظ سے قابل تحسین یا معقول نہیں کہلایا جا سکتا۔
ملاحظہ فرمائیں کہ یہاں نہ تو کسی موضوع پر آپسی مباحثہ (interactive dialog) جاری ہے اور نہ ہی کسی شخصیت کی کردار کشی۔ بلکہ بقول خود آپ کے ، اس تھریڈ کا مقصد :
خدااگروقت اورفرصت نصیب کرے تو پوری کتاب کاایک تفصیلی جائزہ لیاجائے گا جس میں موصوف کی بے اعتدالیوں، تناقضات،من موجی استدلال کو واضح کیاجائے۔لیکن فی الحال ہم اپنی بحث کو صرف اورصرف امام ابوحنیفہ کی تابعیت تک محدود رکھتے ہیں۔
آپ جب کسی کتاب کے کسی خاص موضوع پر بحث/تبصرہ کرنے کا کوئی ارادہ رکھتے ہی ہیں تو زیادہ بہتر طریقہ یہ ہے کہ پہلے اپنا مقالہ مکمل تحریر فرما لیں ، اس کے بعد ہی اسے یہاں پوسٹ کریں۔
آپ کا موجودہ طریقہ کار نامناسب ہی نہیں فورمز کی دنیا کے عمومی اصولوں سے بھی مطابقت نہیں رکھتا۔
 

جمشید

مشہور رکن
شمولیت
جون 09، 2011
پیغامات
871
ری ایکشن اسکور
2,332
پوائنٹ
180
امام صاحب کی تابعیت کے منکرین

اہل علم میں کسی کے بارے میں اختلاف ہونا کوئی نادر اورنئی شے نہیں ۔کتنے صحابہ ایسے ہیں کہ ان کے صحابی ہونے کے بارے میں اہل علم میں واضح اختلاف رہاہے۔ کتنے تابعین ایسے ہیں کہ ان کے کسی صحابی کو دیکھنے کے بارے میں اختلاف رہاہے اورخود اتنے لوگ ایسے گزرے ہیں جن کے وجودپرشک رہاہے۔

حضرت اویس قرنی کا نام شاید ہرایک کومعلوم ہوگا ۔مسلم نے متابعات میں ایک حدیث ذکر کی ہے جس کا مفہوم یہ ہے کہ تابعین مین سب سے بہتر اویس قرنی نام کے شخص ہوں گے۔لیکن اس کے باوجود ہم دیکھتے ہیں کہ امام مالک کو ان کے وجو دمیں شک رہاہے اورامام بخاری نے بھی التاریخ الکبیر میں ان کے وجود پر شک کیاہے۔ امام ذہبی نے میزان الاعتدال مین ذکر کیاہے کہ اگرامام بخاری نے التاریخ الصغیر میں ان کا ذکر نہیں کیاہوتاتومیں بھی ذکر نہیں کرتا ۔اس کے بعد کئ صفحات میں حضرت اویس قرنی کے حالات اورفضائل ذکر کئے ہیں۔
امام بخاری کی کتاب الجامع الصحیح کتنی مشہور ہے لیکن اس میں کتنی حدیثیں ہیں اس کے نسخوں اورتعداد کے بارے میں اختلاف رہاہے۔

امام ابوحنیفہ بھی اسی جیتی جاگتی دنیا کے ایک شخص تھے۔ اگراہل علم نے ان کے تابعی ہونے اورنہ ہونے اورحضرت انس کو دیکھنے اورنہ دیکھنے کے بارے میں اختلاف کیاہے تومحض اس اختلاف کو ان کے انکار تابعیت کی بنیاد کیوں بنائی جائے بلکہ یہ دیکھناچاہئے کہ دلائل کا زور کدھر ہے اوراہل علم کی بڑی تعداد نے کس کو ترجیح دی ہے۔

بعض حضرات نے اپنی غلط فہمی سے یہ خیال کرلیاہے کہ امام صاحب کی تابعیت کا سب سے پہلا اثبات خطیب بغدادی نے کیاہے اوراس کے انکار میں وہ یہ دلیل دیتے ہیں چونکہ خطیب سے پہلے دارقطنی امام صاحب کی کسی بھی صحابی کی رویت تک سے انکار کرچکے ہیں اس لئے متقدم کی بات کو ترجیح ہونی چاہئے۔
حالانکہ یہ خیال ہی سرے سے غلط ہے کہ خطیب نے سب سے پہلے امام صاحب کی تابعیت کا اثبات کیاہے ۔ہاں یہ بات صحیح مانی جاسکتی ہے میرے محدود علم کی حد تک کہ منکرین میں دارقطنی کا نام سب سے پہلے ہے ۔ورنہ اس سے پہلے امام صاحب رضی اللہ عنہ کی صحابہ سے رویت اورروایت کا کئی حضرات نے اثبات کیاہے۔
امام صاحبؓ کی تابعیت ،رویت صحابی اورروایت صحابی کا کن حضرات نے اقرار کیاہے اس پر ہم آخر میں گفتگو کریں گے۔ پہلے منکرین دلائل کا ایک جائزہ لے لیاجائے۔

حافظ دارقطنی
حافظ دارقطنی کے شاگردوں کی ان سے رجال پر مذکور سوال وجواب کے تعلق سے کئی کتابیں منصہ شہود پر آچکی ہیں۔ جس میں سوالات السہمی للدارقطنی اوردیگر کتابیں قابل ذکر ہیں۔سب میں یہ بات ملتی ہے کہ
امام صاحب نے نہ کسی سے روایت کی اورنہ کسی صحابی کو دیکھا
حافظ دارقطنی کی یہ رائے امام ابوحنیفہ کے تعلق سے ہے ،اس کا انکار نہیں کیاجاسکتا۔لیکن رئیس ندوی صاحب جس طرح سے دوسروں سے دلیل کا مطالبہ کرتے ہیں ۔وہ یہاں کیوں چوک گئے۔ ظاہر سی بات ہے کہ حافظ دارقطنی کا یہ قول دلائل سے مجرد ہے۔آپ یہ نہیں کہہ سکتے کہ دلائل دینا مدعی کے ذمہ ہے جو امام صاحب کی تابعیت کا اقرارکررہاہو۔کیونکہ یہاں پر اصل یہ ہے کہ امام ابوحنیفہ کے زمانہ میں صحابہ کرام موجود تھے توظاہر حال کا قرینہ یہ ہے کہ انہوں نے صحابہ کرام کودیکھاہوگا۔اوراسی اصول پر امام مسلم نے مقدمہ مسلم میں یہ بیان کیاہے کہ اگرایک راوی کسی دوسرے راوی کامعاصر ہے تواس کی روایت قبول کی جائے گی لقاء کی شرط نہیں لگائی جائے گی کیونکہ جب معاصرت ہے تولقاءبھی ممکن ہے۔
ان القول الشائع المتفق علیہ بین اھل العلم بالاخبار والروایات قدیماوحدیثا ،ان کل رجل ثقۃ روی عن مثلہ حدیثا وجائز ممکن لہ لقاؤہ والسماع منہ، لکھونھماجمیعا فی عصرواحد وان لم یات فی خبرقط انھما اجتمعا ولاتشافھابکلام ،فالروایۃ ثابتۃ والحجۃ بھالازمۃ ،الاان یکون ھناک دلالۃ بینۃ ،ان ھذاالروای لم یلق من روی عنہ،اولم یسمع منہ شیئا۔(فتح الملھم شرح صحیح 1/388)
اہل علم کے درمیان (خواہ گزرچکے ہوں یاموجود ہوں)جس قول پر اتفاق ہے وہ یہ ہے کہ ہرثقہ شخص جواپنے جیسے ثقہ شخص سے روایت کرے جس سے کہ اس کا لقاء اورسماع ممکن ہو،بایں طورپر کہ دونوں ایک ہی زمانے میں ہوں۔تواگرچہ کسی خبر میں دونوں کے اجتماع اوربات چیت کی تصریح نہ ہو ،پھربھی روایت ثابت اورقابل دلیل ہوگی۔ہاں اگراس پر کوئی واضح دلیل ہو کہ اس راوی نے مروی عنہ سے ملاقات نہیں کی ہے یااس سے کچھ بھی نہیں سناہے توپھردوسری بات ہے۔
اوراس پر انہوں نے اتنازور دیاہے کہ اس اصول کی مخالفت کرنے والوں اورلقاء کی شرط لگانے والوں کو منتحلی اھل الحدیث یعنی نام نہاد محدثین سے تعبیر کردیاہے۔
وقد تکلم بعض منتحلی الحدیث من اھل عصرنا فی تصحیح الاسانید وسقیمھا بقول،لوضربناعن حکایتہ وذکر فسادہ صفحا ،لکان رایامتینا ومذھباصحیحا۔(فتح الملھم شرح صحیح مسلم1/387)
ہمارے دور کے بعض خودساختہ محدثین نے اسانید کی تصحیح اورتضعیف میں ایسی (ناروا)باتیں کہیں ہیں کہ اگرہم اس کے ذکر سے اعراض برتیں اوراس پر رد نہ کریں تووہی بہتر اورصحیح ہوگا۔
توامام مسلم نے جس طرح راوی کے عدم لقاء پر دلالت بینہ کا مطالبہ کیاہے وہ ہمیں امام دارقطنی کے اس قول میں کہیں نظرنہیں آتا۔لہذا موصوف کااس قول کو حجت بناناکس طرح درست ہوسکتاہے جب کہ وہ دوسروں کو دلائل نہ دینے پر مطعون کرتے ہیں۔
 

جمشید

مشہور رکن
شمولیت
جون 09، 2011
پیغامات
871
ری ایکشن اسکور
2,332
پوائنٹ
180
ابواسحاق شیرازی
فقہائے شافعیہ میں بڑے مرتبہ کے حامل ہیں۔ان کی ایک کتاب طبقات الفقہاء کے نام سے مشہور ومعروف اوراہل علم کے درمیان متداول رہی ہے۔انہوں نے مختصر انداز میں اپنے دورکے فقہاء کا تعارف کرایاہے۔
امام ابوحنیفہ کے ذکر میں وہ لکھتے ہیں۔
وقد كان في أيامه أربعة من الصحابة: أنس بن مالك وعبد الله بن أبي أوفى الأنصاري وأبو الطفيل عامر ين واثلة وسهل بن سعد الساعدي وجماعة من التابعين كالشعبي والنخعي وعلي بن الحسين وغيرهم، وقد مضى تاريخ وفاتهم، ولم يأخذ أبو حنيفة عن أحد منهم، وقد أخذ عنه خلق كثير نذكرهم في غير هذا الموضع إن شاء الله تعالى.
امام ابوحنیفہ کے زمانے میں چار صحابی بقید حیات تھے، انس بن مالک، عبداللہ بن ابی اوفی الانصاری ابوالطفیل عامر بن واثلہ اورسھل بن سعد الساعدی اورتابعین کی ایک جماعت جیسے شعبی ،نخعی،علی بن حسین اوردوسرے ۔ان کاانتقال تک امام ابوحنیفہ نے ان سے استفادہ نہیں کیااورامام ابوحنیفہ سے ایک بڑی تعداد نے استفادہ کیا جس کو ہم دوسرے مقام پر ذکر کریں گے۔
اس بیان میں اگرچہ امام ابوحنیفہ کی صحابہ کرام سے رویت کی کوئی نفی نہیں ہے صرف روایت اوراستفادہ کی نفی ہے لیکن اسکے باوجود کچھ باتیں محل نظر ہیں۔
اولایہ کہناکہ اس دور میں صرف چارصحابی ہی بقید حیات تھے۔
درست اورصحیح نہیں ہے کیونکہ حضرت امام ابوحنیفہ کے دور حیات میں تقریباً21صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین بقیدحیات تھے جس کی تفصیل اتحاف الاکابر میں ہے۔قارئین کیلئے ہم بھی اس کی تفصیل جدول کی شکل میں پیش کردیتے ہیں
حضرت عبداللہ بن ابی اوفی رضی اللہ عنہ ۔سنہ وفات86/87ہجری، کوفہ
حضرت انس بن مالکؓ،سنہ وفات 91/93ہجری، مقام بصرہ
حضرت عمر بن حریث رضی اللہ عنہ۔سنہ وفات 85/98ہجری، کوفہ
حضرت عبداللہ بن الحارث بن جزءؓ۔سنہ وفات 85/86/88ہجری۔مصر۔واضح رہے کہ حافظ جعابی نے تصریح کی ہے کہ ان کاانتقال 97ہجری میں مصر میں ہوا۔
حضرت عبداللہ بن انیس رضی اللہ عنہ
حضرت واثلہ بن الاسقعؓ۔ سنہ وفات 83/85۔دمشق
حضرت سہل سعد الساعدیؓ۔م88یااس کے بعد ۔مدینہ
حضرت محمود بن الربیع بن سراقہ ۔سنہ وفات 99۔مدینہ میں مقیم تھے
حضرت محمود بن لبید بن عقبہ۔سنہ وفات96۔مدینہ میں مقیم تھے۔
حضرت عبداللہ بن سبر المازنی 88/96 ۔شام یاحمص
حضرت ابوامامہ الباہلیؓ ۔سنہ وفات 81/86 ۔حمص
حضرت وابصہ بن المعبد بن عتبہ رضی اللہ ۔سنہ وفات90ہجری۔رقہ
حضرت ہرماس بن زیادؓ۔سنہ وفات 100کے بعد ۔یمامہ
حضرت مقدام بن معدیکربؓ۔سنہ وفات 86/87۔شام
حضرت عتبہ بن عبدالسلمی رضی اللہ عنہ۔ سنہ وفات ولید بن عبدالملک کے زمانہ میں۔ ولید بن عبدالملک کی خلافت 86سے شروع ہوتی ہے۔
حضرت یوسف بن عبداللہ بن سلام ۔سنہ وفات عمر بن عبدالعزیز کے عہد خلافت میں۔ عمربن عبدالعزیز کی خلافت99ہجری سے شروع ہوتی ہے
حضرت ابوالطفیل عامر بن واثلہؓ۔سنہ وفات 100/102/110۔مقام مکہ یاکوفہ
حضرت سائب بن یزید رضی اللہ عنہ ۔سنہ وفات86/88/91ہجری۔ مدینہ
حضرت عداء بن خالد رضی اللہ عنہ ۔سنہ وفات یزید بن مہلب کے خروج کے وقت تک باحیات تھے۔ یزید بن مہلب نے101یا102میں خروج کیاتھا۔مقام (سجستان)
حضرت عکراش بن ذویبؓ۔سنہ وفات پہلی صدی کے آخرتک باحیات تھے۔


تمام تفصیلات اتحاف الاکابر ،مولفہ علامہ محدث مخدوم محمدہاشم سندھی سے ماخوذ ہیں۔ اس کتاب کا ایک قلمی نسخہ مولانا پیر ہاشم جان سرہندی کے کتب خانہ واقع ٹنڈرسائیں داد میں موجود ہے۔ یہ عبارت التعلق القویم علی مقدمۃ کتاب التعلیم صفحہ30تا34سے نقل کی گئی ہے۔ (بحوالہ امام ابوحنیفہ کی تابعیت ص18)
علامہ ابواسحاق شیرازی کی عبارت میں دوسری بات یہ محل نظر ہے کہ امام صاحب نے مشہور محدث اورتابعی شعبی سے اخذ فیض نہیں کیا۔حالانکہ دیگر محدثین اورسوانح نگاروں نے اس کی بالصراحت تصریح کی ہے۔مثلاحافظ ذہبی لکھتے ہیں۔
وَرَوَى عَنْ: عَطَاءِ بنِ أَبِي رَبَاحٍ، وَهُوَ أَكْبَرُ شَيْخٍ لَهُ، وَأَفْضَلُهُم - عَلَى مَا قَالَ -.وَعَنِ: الشَّعْبِيِّ۔(سیراعلام النبلاء۔ 6/393)
اسی طرح حافظ ابن عبدالہادی المقدسی مناقب الائمۃ الاربعۃ میں لکھتے ہیں
وروی عن جماعت من سادات التابعین وائمتھم کعطاء بن ابی رباح احد اصحاب ابن عباس ومفتی اھل مکۃ ومحدثہم، وعامر بن شراحیل الھمدانی الشعبی الکوفی علامۃ التابعین۔(مناقب الائمۃ الاربعۃ ص58)اسی طرح حافظ مزی تہذیب الکمال میں ان کے شیوخ کی فہرست میں امام عامرشعبی کا بھی ذکر کیاہے۔دیکھئے۔تہذیب الکمال 29/418
 

جمشید

مشہور رکن
شمولیت
جون 09، 2011
پیغامات
871
ری ایکشن اسکور
2,332
پوائنٹ
180
علامہ ابواسحاق شیرازی کے بعد جو نمایاں نام ہمیں انکار تابعیت میں ملتاہے وہ جامع الاصول کے مصنف ابن اثیر کاہے۔ابن اثیر اپنی مشہور تالیف جامع الاصول فی احادیث الرسول میں لکھتے ہیں۔
وکان فی ایام ابی حنیفۃ رضی اللہ عنہ اربعۃ من الصحابۃ انس بن مالک بالبصرۃ وعبداللہ بن ابی اوفی بالکوفۃ وسھل بن سعد الساعدی بالمدینۃ وابوالطفیل بن عامر بن واثلہ بمکۃ،ولم یلق احدا منہھم ولااخذ عنہ واصحابہ یقولوں ،انہ لقی جماعۃ من الصحابۃ وروی عنھم ولایثبت ذلک عنداہل النقل (جامع الاصول 12/954)
امام ابوحنیفہ رضی اللہ کے زمانے میں چارصحابہ کرام موجود تھے بصرہ میں انس بن مالک،کوفہ میں عبداللہ بن ابی اوفی، مدینہ میں سھل بن سعد الساعدی مکہ میں ابوالطفیل بن عامربن واثلہ ۔لیکن ان کی نہ کسی سے ملاقات اورنہ روایت ہے۔۔امام ابوحنیفہ کے اصحاب کہتے ہیں کہ انہوں نے چند صحابہ کرام کی زیارت کی ہے اوران سے روایت کی لیکن یہ اہل نقل کے نزدیک ثابت نہیں ہے۔

بات بعینہ شیخ ابواسحاق شیرازی کی ہی ہے لیکن اس میں ابن اثیر نے خط کشیدہ جملوں کا اضافہ کردیاہے۔ ہم ماقبل میں ذکر کرچکے ہیں کہ صرف چارصحابی ہونے کی بات ہی سرے سے غلط ہے۔ بلکہ اس کے علاوہ صحابہ کرام موجود تھے ۔ علاوہ ازیں یہ امام دارقطنی کے قول کی طرح مجرد قول ہی توہے اس پر کوئی دلیل نہیں دی گئی ۔دوسرے یہ کہ یہ اہل نقل کون ہیں ان کابھی حوالہ مذکور نہیں ہے۔ جب ہم آخر میں اپنی بات رکھیں گے تو اس وقت انشاء اللہ یہ بات واضح ہوگی کہ اہل نقل کی بڑی تعداد امام ابوحنیفہ کے حضرت انس اوردیگر صحابہ کرام کو دیکھنے کی قائل ہے۔
جب مولانارئیس ندوی صاحب دوسرے کی بات کو بلادلیل نہیں مانتے اوردلیل کا مطالبہ کرتے ہیں۔حافظ سیوطی کے فتوی مذکورہ میں آپ نے دیکھاہوگاکہ کس کس طرح سے اسے مشکوک بنانے کی کوشش کی گئی ہے ۔قارئین نے یہ بھی ملاحظہ کیاہوگاکہ ابن سعد کی روایت پربھی شک کے چھینٹے اڑائے گئے۔ لیکن ابن اثیر کا قول اپنے مدعا کے موافق ملاتونہ دلیل کی خواہش ہوئی اورنہ حوالہ کی۔ بلکہ اس پر یہ حاشیہ آرائی کی۔
امام مبارک اگرچہ چھٹی صدی کے آدمی تھے مگر ان کا بلااستثناء شخصے تمام اہل نقل کو اسبات کاقائل بتلانا کہ امام صاحب نے کسی صحابی کو نہیں دیکھا ،اس امر کی دلیل ہے کہ امام صاحب کے زمانے سے لے کر امام مبارک کے زمانے تک یعنی دوسری ،تیسری ،چوتھی، پانچویں اورچھٹی صدی کے وہ سارے لوگ اس بات پر متفق تھے کہ امام صاحب نے کسی صحابی کونہیں دیکھا۔ جن پر صحیح معنوں میں لفظ اہل نقل کااطلاق ہوسکتاہے(لمحات217)
ابن اثیر کے بعد مشہور مورخ ابن خلکان نے بھی ابن اثیر کی اسی بات کو من وعن نقل کردیا۔چنانچہ وہ لکھتے ہیں۔

ادرک ابوحنیفۃ اربعۃ من الصحابۃ رضوان اللہ علیھم اجمعین۔وھم انس بن مالک وعبداللہ بن ابی اوفی بالکوفہ وسھل بن سعد الساعدی بالمدینۃ ،وابوالطفیل عامر بن واثلۃ بمکۃ ولم یلق احدا منھم ولااخذ عنہ، واصحابہ یقولون لقی جماعۃ من الصحابہ وروی عنھم ولم یثبت ذلک عنداہل النقل(وفیات الاعیان)
آٓپ دیکھ سکتے ہیں کہ دونوں عبارتوں میں سرمو فرق نہیں ہے ۔اسی عبارت کوبعینہ نقل کردیاہے۔

رئیس ندوی نے ابن کثیر کے حوالہ سے ابن خلکان کی تعریف نقل کرکے یہ ثابت کرنا چاہاہے کہ جوکچھ انہوں نے نقل کیاہے وہ درست ہے اوراس حوالے سے وہ اپنی بات موکد کرناچاہتے ہیں لیکن افسوس کہ موصوف نے خود ابن کثیر جو امام ابوحنیفہ کیلئے حضرت انس کی رویت کے قائل ہیں ان کا ذکر نہیں کیا۔ہم آگے ان کاذکر کریں گے ۔مولانائیس احمدندوی ابن خلکان کیلئے ابن کثیر کے حوالہ سے لکھتے ہیں۔
امام ابن خلکان کو حافظ ابن کثیر نے ائمہ فضلاء ،سادہء علماء میں سے قراردیاہے اورعام اہل تراجم نے ان کے علم وفضل خصوصا علم تاریخ میں پختگی کی صراحت کی ہے۔(لمحات2/219)
پھر اسی عبارت کو امام یافعی نے بعینہ مراۃ الجنان میں معمولی تبدیلیوں کے ساتھ نقل کردیاہے۔
وکان قدادرک ابوحنیفۃ اربعۃ من الصحابۃ ۔وھم انس بن مالک بالبصرۃ وعبداللہ بن ابی اوفی بالکوفہ وسھل بن سعد الساعدی بالمدینۃ ،وابوالطفیل عامر بن واثلۃ بمکۃ،رضی اللہ عنہھم۔قال بعض اصحاب التواریخ ولم یلق احدا منھم ولااخذ عنہ، واصحابہ یقولون لقی جماعۃ من الصحابہ وروی عنھم قال ولم یثبت ذلک عنداہل النقاد(مراۃ الجنان 2/163)
تنبیہ
:
یافعی اورابن خلکان دونوں ہی گروہ محدثین سے نہیں بلکہ گروہ مورخین سے تعلق رکھتے ہیں۔ اس لئے ضروری نہیں کہ وہ محدثین کی مخصوص اصطلاحات کی پیروی کریں یعنی لقاء سے وہ رویت ہی مراد لیں جیساکہ مصنف لمحات نے ہمیں سمجھانے کی کوشش کی ہے۔بلکہ یہ عین ممکن ہے کہ ابن خلکان اوریافعی لقاءاوررویت میں فرق کرتے ہیں۔
اس کی سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ ابن خلکان نے لم یثبت عنداہل النقل ذکرکرکے معامتصل یہ بھی کہہ دیا۔

وذکر الخطیب فی تاریخ بغداد انہ رای انس بن مالکؓ(وفیات الاعیان 406/5)

اگرچہ مولف لمحات نے اس کوبھی برسیل تذکرہ کی کند چھڑی سے ذبح کرنے کی کوشش کی ہے ۔لہذا اس پر زیادہ توجہ نہیں دینی چاہئے۔
اس میں حافظ خطیب کی "برسبیل تذکرہ"نقل کردہ اس ساقط الاعتبار روایت کابھی ذکر آگیاہے جس میں امام صاحب کیلئے رویت انس کا ذکر ہے مگر چونکہ حافظ خطیب بھی اس ساقط الاعتبار روایت کااعتبار نہ کرکے اہل نقل کے موقف پر کاربند ہیں اس لئے امام ابن خلکان نے بھی امام ابن الاثیر کی طرح کسی فرد بشر کو مستثنی کئے بغیر مطلقاًاہل نقل کا یہ موقف قراردیاکہ امام صاحب نے کسی صحابہ کو نہیں دیکھا۔(لمحات219)
یافعی اس سے بھی زیادہ صاف لہجے میں امام ابوحنیفہ کے تذکرہ میں ابتداء میں امام صاحب کی رویت انس کااقرارکرتے ہیں چنانچہ وہ کہتے ہیں۔
وفيها توفي فقيه العراق الإمام أبو حنيفة النعمان بن ثابت الكوفي مولى بني تيم الله بن ثعلبة ومولده سنة ثمانين رأى أنساً وروى عن عطاء بن أبي رباح وطبقته۔( مراۃ الجنان عبرۃ الیقظان 1/241)اوراسی سال عراق کے امام ابوحنیفہ نعمان بن ثابت کوفی مولی بنی تیم اللہ بن ثعلبہ کی وفات ہوئی ۔ان کی ولادت سنہ80ہجری میں ہوئی انہوں نے حضرت انس کو دیکھااورعطابن بی ابی رباح اوران کے طبقہ کے لوگوں سے روایت کی۔
پھراس کے بعد یافعی نے اہل نقد سے انکار کا اثبات کیاہے۔ساتھ ہی یہ بھی ذکر کردیاہے۔

وذكر الخطيب في تاريخ بغداد‏:‏ انه رأى أنس بن مالك رضي الله تعالى عنه كما تقدم(المصدرالسابق)
اورخطیب نے تاریخ بغداد مین ذکر کیاہے کہ انہوں نے حضرت انس رضی اللہ عنہ کو دیکھاہے جیساکہ ذکر کیاجاچکا۔
اس سے صاف اورواضح ہے کہ بھلے ہی ابن خلکان اوریافعی نے لقاء اورسماع کی نفی کی ہو لیکن وہ رویت کے قائل ہیں اوراسی غرض سے انہوں انکار کے متصلاحضرت انس کی رویت کا اثبات کیاہے اوریہ کہ وہ لقاء اوررویت میں فرق کے قائل ہیں۔

پھر ابن اثیر کی پیروی میں صاحب مشکوۃ نے بھی وہی بات تھوڑے اورمعمولی ردوبدل کے ساتھ دوہرادی ہے۔

چنانچہ وہ الاکمال فی اسماء الرجال میں امام صاحب کے ترجمہ میں لکھتے ہیں۔
وکان فی ایامہ اربعۃ من الصحابۃ انس بن مالک بالبصرۃ وعبداللہ بن ابی اوفی بالکوفۃ وسھل بن سعد الساعدی بالمدینۃ وابوالطفیل عامر بن واثلۃ بمکۃ ولم یلق احدا منھم ولااخذ عنھم
قارئین دیکھ سکتے ہیں کہ یہ بھی بنیادی طورپر ابن اثیر کی عبارت سے ہی ماخوذ ہے۔ اورابن اثیر کاحال یہ ہے کہ انہوںنے نہ دلیل بیان کی اورنہ ہی اہل نقل کا حوالہ دیا۔یافعی نے اس کو اہل نقد کا قول بتایالیکن اس کا کوئی حوالہ نہیں دیا۔

موصوف کی بے اصولی

موصوف جس طرح امام ابوحنیفہ کی تابعیت کااقرارکرنے والوں کی بعض غلطیاں نکالتے ہین اورپھر اس سے اس پر استدلال کرتے ہیں کہ جس طرح وہاں غلط۔اسی طرح یہاں بھی غلط۔ خدا کے فضل سے ہم بھی اتنے تہی دست نہیں کہ ابن اثیر ،ابن خلکان اوریافعی کی تاریخ سے پچاسوں غلطیاں نہ ڈھونڈ سکیں اوربیان نہ کرسکیں۔ لیکن یہ چیز چونکہ اصولی طورپر غلط ہے لہذا اس کو ہم موصوف ہی کیلئے چھوڑدیتے ہیں۔
موصوف بسااوقات ایساکرتے ہیں کہ اگرکسی محدث مورخ اہل نقد میں سے کسی سے امام ابوحنیفہ کے بارے میں جرح وتعدیل دونوں منقول ہے تووہ الزام دیتے ہیں کہ جب ایک قول قبول کیاہے تودوسراقول بھی مانو ۔چنانچہ اس سلسلے میں لمحات دیکھئے۔(1/109،1/111،1/304)
اس کے علاوہ کتاب کی شاید کوئی بحث ایسی ہوگی جہاں موصوف نے اس طرز سے گریز کیاہوگا۔ لیکن ابن الاثیر کے ذکر موصوف یہ سب بھول گئے ۔

موصوف نے توخلق قران،مرجیہ جہمیہ اورجتنی مثالب کی روایات ہیں تقریباسبھی کو امام ابوحنیفہ میں تسلیم کیاہے اوراسی غرض سے انہوں نے یہ کتاب لکھی ہے۔ ورنہ جہاں تک مقصد مصنف انوار الباری کا رد ہے تووہ تومحض ایک پردہ اوردھوکے کی ٹٹی ہے۔

ابن اثیرنے امام صاحب کے ترجمہ میں تابعیت کا انکار صحابہ سے رویت وروایت کے انکار کے امام صاحب کے فضائل ومناقب میں متقدمین کے اقوال ذکر کئے ہیں پھر لکھاہے۔
ولوذھبنا الی شرح مناقبہ وفضائلہ لاطلنالخطب،ولم نصل الی الغرض منہا،فانہ کان عالما عاملاورعا زاہدا عابداتقیا اماما فی علوم الشریعۃ ،مرضیا،وقد نسب الیہ، وقیل عنہ من الاقاویل المخلتفۃ(شیخ عبدالفتاح نے الانتقاء میں اس لفظ کو غلط بتاکر لکھاہے کہ صحیح لفظ المختلقۃ ہے)التی نجل قدرہ عنہا،ویتنزہ منھامن القول بخلق القران،والقول بالقدر،والقول بالارجاء ،وغیرذلک ممانسب الیہ، ولاحاجۃ الی ذکرھا ،ولاالی ذکر قائلیھا،والظاہر انہ کان منزھا عنہا ،ویدل علی صحۃ نزاھتہ منہا،مانشرااللہ تعالیٰ لہ من الذکر المنشترفی الافاق،والعلم الذی طبق الارض،والاخذ بمذھبہ، وفقھہ،والرجوع الی قولہ وفعلہ، وان ذلک ل ملم یکن للہ فی سرخفی، ورضی الھی، وفقہ اللہ لمالماجمع شطرالاسلام،اومایقاربہ علی تقلیدہ، والعمل برایہ ومذھبہ، حتی قد عبداللہ ودین بفقھہ،وعمل برایہ ومذھبہ ،واخذ بقولہ الی یومنا ھذا مایقارب اربع مائۃ وخمسین سنۃ ،وفی ھذا ادل دلیل علی صحۃ مذہبہ وعقیدتہ،وانماقیل عنہ ھومنزہ منبہ، وقد جمع ابوجعفر الطحاوی وھومن اکبرالآخذین بمذہبہ کتاباسماہ عقیدۃ ابی حنیفۃرحمہ اللہ وھی عقیدۃ اہل السنۃ والجماعۃ ،ولیس فیھاشی ممانسب الیہ،وقد قیل عنہ واصحابہ اخبربحالہ وبقولہ من غیرھم ،فالرجوع الی مانقلوہ عنہ اولی ممنانقلہ غیرھم عنہ، وقذ ذکر ایضاسبب قول من قال عنہ ماقال ،والحامل لہ علی مانسب الیہ ،ولاحاجۃ بناالی ذکرماقالوہ، فان مثل ابی حنیفۃ ومحلہ فی الاسلام لایحتاج الی دلیل یعتذر بہ ممانسب الیہ واللہ اعلم ۔(جامع الاصول فی احادیث الرسول 12/954)


اگرہم ان کے مناقب اورفضائل کو تفصیل سے بیان کرناچاہیں تو سفینہ چاہئے اس بحربیکراں کیلئے اورورق تمام ہوا اورمدح باقی ہے کی کیفیت پیش ائے گی ۔امام ابوحنیفہ عالم، عامل،زاہد متقی، اورعلوم شریعت میں امام اورپسندیدہ تھے۔ ان کی طرف بہت سی باتیں جعلی اورگڑھی ہوئی منسوب کی گئ ہیں جس سے وہ منزہ ہیں اوران کی شان اس سے بلند ہے۔جوباتیں ان کی جانب منسوب کی گئی ہیں ان میں خلق قرآن، قدر،ارجاء اوردوسری باتیں ہیں۔ ہمیں نہ اقوال کے ذکر کے ضرورت ہے اورنہ ان کے قائلیں کے تذکرہ کی حاجت ہے کیونکہ وہ ایسے تمام اتہامات سے بری تھے۔اوران کی اس برات پر دلیل یہ ہے کہ اللہ نے پوری دنیا میں ان کوشہرت دی اوران کو وہ علم بخشا جس کا ذکر ہرچار سوہے۔اسی طرح اللہ نے ان کے مسلک اورفقہ اوران کے قول وفعل کو دنیا بھر میں پذیرائی بخشی۔ اگراس میں اللہ کا پوشیدہ راز اوررضائے الہی نہ ہوتا توپھر ادھے مسلمان یااس کے قریب ان کی تقلید اوران کی رائے اورمذہب پر متفق نہ ہوتے۔ اسی رضائے الہی کانتیجہ ہے ان کے فقہی اقوال کے مطابق خدا کی عبادت کی جارہی ہے اوران کی رائے اورمسلک پر اس وقت سے لے کر ہمارے دور تک جو ساڑھے چارسو سال ہوتاہے عمل کیاجارہاہے۔(ابن اثیر اپنے دور کے اعتبار سے کہہ رہے ہیں)اوریہ اسبات کی بڑی دلیل ہے کہ ان کا مسلک اوران کا عقیدہ درست ہے اورجوکچھ ان کے بارے میں کہاگیاہے وہ اس سے بری ہے ۔امام ابوجعفر الطحاوی جوان کے مسلک کے بڑے نمائندے اورشارح ہیں۔ انہوں نے ایک کتاب عقیدۃ ابی حنیفہ کے نام سے لکھی ہے اوراس میں وہی عقائد مذکور ہیں جو اہل سنت کے عقائد تھے اوراس میں ایسی کوئی بات نہیں جو ان کی جانب منسوب کی گئی ہے ۔یہ بھی کہاگیاہے کہ ان کے(امام ابوحنیفہ)کے حالات سے ان کے شاگرد دوسروں سے زیادہ واقف ہیں لہذا اس باب میں ان کی جانب رجوع کرنا زیادہ بہتر ہے۔ جن لوگوں نے ان کی جانب ارجاء ،قدر خلق قران وغیرہ کو منسوب کیاہے اس کے باعث ،داعیہ اورتحریک کے بارے میں لوگوں نے بیان کیاہے لیکن ہمیں اس کے بیان کی حاجت نہیں ہے کیونکہ امام ابوحنیفہ کا اسلام میں جومرتبہ اورمقام ہے اس کے ہوتے ہوئے ہمیں اس کی قطعاضرورت نہیں ہے کہ ہم ان سے منسوب ان اتہامات کے بارے میں کسی عذر اورمعذرت کا طریقہ اپنائیں۔
 

رفیق طاھر

رکن مجلس شوریٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 04، 2011
پیغامات
790
ری ایکشن اسکور
3,982
پوائنٹ
323
جمشید طحاوی صاحب
ابھی تو ہم نے آپکے پیش کردہ حوالہ جات کی اسانید پر فنی بحثیں شروع نہیں کی ہیں ۔
فی الحال تو صرف یہ پوچھا ہے کہ آپکے امام صاحب کہتے ہیں میں نے عطاء بن ابی رباح سے افضل کسی کو نہیں دیکھا ، اور آپ کہہ رہے ہیں کہ دیکھا ہے ۔
تو آپ دونوں میں سے جھوٹا کون ہے ؟
آپکی یاوا گوئی کا جواب ہم نہیں دیتے کہ ہماری مروت کے خلاف ہے ۔
صرف اسی سوال کے جواب کا مطالبہ کرتے ہیں
بس
 

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,351
پوائنٹ
800
یہ تھریڈ کم از کم دس دن سے جاری ہے، جو بہرحال مناسب نہیں۔ بہت بہتر ہوتا جو جمشید صاحب اسے کہیں ورڈ وغیرہ میں لکھ کر اکٹھا فورم پر دے دیتے، تو جو حضرات اس پر تبصرہ کرنا چاہتے ہیں، کم از کم ان کے صبر کا پیمانہ لبریز نہ ہوتا۔

جمشید صاحب سے گزارش ہے کہ آج یا کل میں جتنی جلد ممکن ہو، اسے مکمل کردیں۔ شکریہ!
 
Top