ٹھیک ہے لیکن قاضی ابویوسف اپنے استاد کی نظر میں کذاب تھے۔ اس بات کو تسلیم کرنا بھی انصاف کا تقاضہ ہے۔میں ایک بات اور کہتا ہوں کہ قاضی ابو یوسف حسن الحدیث ہیں۔ یہی انصاف کا تقاضہ ہے۔ تعصب سے ہمیں پرہیز کرنا چاہیے۔
میں ایک بات اور کہتا ہوں کہ قاضی ابو یوسف حسن الحدیث ہیں۔ یہی انصاف کا تقاضہ ہے۔ تعصب سے ہمیں پرہیز کرنا چاہیے۔
اس بات کا کس نے انکار کیا ہے کہ یکذب کے معنی غلطی کرنا بھی ہیں۔ ہم تو صرف اتنا کہہ رہے ہیں کہ اگر یہ صرف ایک ہی روایت ہوتی تو ہم اس امکان کو تسلیم بھی کر لیتے لیکن ایسی دوسری روایات بھی ہیں جس میں ابوحنیفہ نے وضاحت کے ساتھ مختلف انداز میں ابویوسف کو کذاب کہا ہے۔ اس لئے اس خاص معاملہ میں یکذب کے معنی بدلنے کی کوشش بے کار ہے۔میں رضا میاں بھائی کی تائید کرنا چاہوں گا کہ ’’ یکذب ‘‘ بمعنی ’’ یخطئ ‘‘ کلام عرب میں مستعمل ہے ۔
واللہ اعلم ۔
علم و فن کسی کی جاگیر نہیں ہوتا کہ خاص لوگوں کی اس پر اجارہ داری ہے لیکن پھر بھی اس قسم کی علمی باتوں کو زبان زد عام کرنے سے پہلے پختہ کار علماء سے سمجھ کر ہی کوئی رائےقائم کرنی چاہیے ۔
بالخصوص آج کل کے دور میں کثر ت اختلاف کی ایک وجہ نا پختہ کار لوگوں کا علمی مسائل میں حصہ لینا ہے ۔
میں سمجھتا ہوں کہ ہمیں اپنا محاسبہ کرنا چاہیے اور پھر ترجیحات مقرر کرنی چاہییں کہ مجھے کس قسم کے علم اور فن کی ضرورت ہے ۔ اور پھر اس کے مطابق علم حاصل کرنا چاہیے ۔
اور علم کے ساتھ ساتھ ’’ عملی پہلو ‘‘ پر زیادہ توجہ دینی چاہیے ۔
اگر ہم نوجوان اس طرح سوچنا شروع کردیں تو شاید بڑی بڑی شخصیات کے ماضی و حال کے فیصلے کرنے کی بجائے بہت پیچھے ہی ایسی مصروفیات نکل آئیں گی جو ان جسارتوں سے کئی حصے زیادہ ضروری ہیں ۔
بعض دفعہ انسان یہ سمجھتا ہے کہ سیدھی سیدھی بات ہے ہر ایک کے لیے اس کا غلط ، صحیح ہونا واضح ہے ۔ یہاں عالم و جاہل کا فرق کرنے کی کیا ضرورت ہے ۔
یہ بات جس طرح بہت جگہوں پر ٹھیک بھی ہے اسی طرح دیگر بہت سی جگہوں پر اس کا غلط استعمال بھی ہوتا ہے ۔
ہمارے استاد محترم مولانا رحمت اللہ ارشد رحمہ اللہ رحمۃ واسعۃ کہا کرتے تھے کہ ’’ جوں جوں انسان علم میں پختہ ہوتا جاتا ہے اس پر اس کی جہالتوں کے دروازے عیاں ہوتے جاتے ہیں ‘‘ ۔
گویا بغیر علم کے تو انسان کو یہ بھی پتہ نہیں چلتا کہ وہ جاہل ہے ۔
ویسے تو آپ پختہ کار علماء کی راہنمائی پر زور دے رہے ہیں لیکن ابوحنیفہ کے معاملے میں پختہ کار علماء جیسے امام احمد بن حنبل، امام بخاری، امام سفیان ثوری، عبداللہ بن مبارک وغیرہم کی رائے کو کوئی حیثیت ہی دینے کے لئے تیار نہیں۔ ایسا کیوں؟
بھائی یہ بڑے بڑے علم وفن کے پہاڑ پختہ کار علماء تھے انہوں نے اپنے زمانہ اور حالات کی مناسبت سے جو کیا بہت اچھا کیا ۔ اور ان کے اوپر فرض تھا کہ ایسا کرتے کہ دنیا ان کو ٹکٹکی باندھ کر دیکھا کرتی تھی کہ کب احمد بن حنبل زبان کھولیں اور کب ہم اپنے مسائل کا حل جانیں ۔اس بات کا کس نے انکار کیا ہے کہ یکذب کے معنی غلطی کرنا بھی ہیں۔ ہم تو صرف اتنا کہہ رہے ہیں کہ اگر یہ صرف ایک ہی روایت ہوتی تو ہم اس امکان کو تسلیم بھی کر لیتے لیکن ایسی دوسری روایات بھی ہیں جس میں ابوحنیفہ نے وضاحت کے ساتھ مختلف انداز میں ابویوسف کو کذاب کہا ہے۔ اس لئے اس خاص معاملہ میں یکذب کے معنی بدلنے کی کوشش بے کار ہے۔
ابوحنیفہ کے معاملے میں بعض اہل حدیث علماء کا رویہ ہماری سمجھ سے بالاتر ہے جو ابوحنیفہ کا بغیر علم کے اور حقائق کے خلاف اندھا دھند دفاع کرتے ہیں اور احتمال پر احتمال اور تاویل پر تاویل کرتے ہیں لیکن دلیل کوئی نہیں رکھتے انکے رویے سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اللہ نے خصوصی طور پر ابوحنیفہ کے دفاع کرنے کے فریضہ پر کوئی سند نازل کی ہے۔ لیکن وہ سند بھی ہمیں نہیں دکھاتے کہ ہم بھی اس عمل میں انکے شریک ہوجائیں۔
ویسے تو آپ پختہ کار علماء کی راہنمائی پر زور دے رہے ہیں لیکن ابوحنیفہ کے معاملے میں پختہ کار علماء جیسے امام احمد بن حنبل، امام بخاری، امام سفیان ثوری، عبداللہ بن مبارک وغیرہم کی رائے کو آپ کوئی حیثیت ہی دینے کے لئے تیار نہیں۔ ایسا کیوں؟
بھائی یہاں ابو حنیفہ کی بات ہی نہیں ہو رہی۔ میں تو جو کہا وہ ابو یوسف کے متعلق کہا اور وہ بھی جرح و تعدیل کے اصولوں کو مدنظر رکھتے ہوئے کہا ہے، اور یہی فیصلہ شیخ البانی کا بھی ہے۔رضا میاں بھائی آپ کیا کہیں گے - آپ کی راۓ کا انتظار ہے
بھائی یہاں ابو حنیفہ کی بات ہی نہیں ہو رہی۔ میں تو جو کہا وہ ابو یوسف کے متعلق کہا اور وہ بھی جرح و تعدیل کے اصولوں کو مدنظر رکھتے ہوئے کہا ہے، اور یہی فیصلہ شیخ البانی کا بھی ہے۔