السلام و علیکم -
میرے خیال میں جب کسی شخصیت خصوصا جب وہ ایک مذہبی شخصیت ہو اور اس کے بارے میں حد سے زیادہ مبالغہ آرائی کی جائے تو یہ ایک فطری امر ہوتا کہ مخالف طبقہ کے لوگ یا جو اس شخصیت کے نظریات سے متقفق نہیں ہوتے ان میں اس شخصیت سے متعلق نفرت پیدا ہونے لگتی ہے- اور جب معاملہ قرآن و احادیث نبوی پر کسی متنازع شخصیت کے احکامات و نظریات کو فوقیت دینے کا ہو تو بات اور بھی سنگین ہو جاتی ہے- اور اہل علم کی احناف اور امام ابو حنیفہ رح اور ان کے مذہب سے نفرت کا اصل سبب ہی یہی کہ احناف نے امام صاحب کی شخصیت کو ایک دیو مالائی شخصیت بنا کر پیش کیا- اور ان کے نظریات اور ارشادات میں مبالغہ آرائی کی آخری حدوں کو پار کر گئے - لطف کی بات ہے کہ امام صاحب کے اپنے شاگرد امام یوسف ، امام محمّد ، ملا حنفی علی قاری وغیرہ اس بدعت سے دور رہے اور اعتدال کو نہیں چھوڑا - لیکن دور حاضر کے احناف نے اس کے برعکس اپنے امام کو وہی حثیت دے دی جو رافضیوں نے اہل بیت یا حضرت علی رضی الله عنہ کو دی تھی - یعنی بظاھر دیکھا جائے تو احناف بھی رافضیوں کے نقش قدم پر چلتے نظر آ ے ہیں- بس فرق یہ ہے کہ حضرت علی رضی الله عنہ ایک تو صحابی رسول تھے اور ان کے علم و فہم کو چیلنج کرنا سورج کو چراغ دکھانے کے برابر تھا جب کہ امام صاحب کے علم و فہم کا تو یہ حال تھا کہ ان کے شاگردوں نے بہت سے مسائل میں ان سے کھلا اختلاف کیا - اور بہت سے مجتہدین (جن کی ایک لمبی فہرست ہے) ان امام صاحب کی آراء کو قابل عمل نہیں سمجھا - سمجھنے کی بات یہ ہے کہ ان مجتہدین کی امام ابو حنیفہ رح سے کوئی ذاتی دشمنی نہیں تھی - بلکہ ان کا موقف صرف یہ تھا کہ امام صاحب کا فہم اور آراء قرآن و حدیث کی معاملے میں نا قابل عمل ہے- اور وہ مجتہدین جنہوں نے امام صاحب کے علم و فہم کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے وہ اس معاملے میں کسی حد تک حق بجانب تھے کہ امام صاحب اپنے علم و فہم میں کافی متنازع حثیت رکھتے تھے - (واللہ اعلم)-