اللہ اکبر
بات
خضر حیات،
رضا میاں اور شاہد نذیر برادران کی اپنی اپنی جگہ درست ہے، رضا میاں اور خضر برادران علوم الحدیث، تصحیح و تضعیف،جرح و تعدیل، ان علوم میں دلچسپی اور مناسب ذوق رکھتے ہیں، لہذا اس معاملے میں یہاں ان کی فراہم کردہ معلومات اچھی ہیں، دوسری طرف شاہد نذیر بھائی بھی مسلکی غیرت کی بنا پر اچھا کلام کر لیتے ہیں۔
اب مسئلہ کہاں خراب ہوتا ہے، وہ تب جب ہم ایک دوسرے کی بات پر (جو نہ عقائد پر ہے نا کسی اور معاملات پر محض شخصیات پر ہے) کمپرومائز نہیں کرتے۔ یہاں بھی کچھ ایسی صورتحال ہے۔ خیر اس سے قطعا نظر میں میرا یہاں خضر بھائی کی بات پر چند الفاظ رقم کرنے کا ارادہ ہے۔
خضر بھائی لکھتے ہیں:
ٹیلی ویزن پر بیٹھے اور اخباروں پر قبضہ جمائے اسلام بیزار لوگ اسلام اور اہل اسلام کے خلاف بھونکتے رہتے ہیں ان کی نقاب کشائی کریں ، ان کے شبہات کا جواب دیں ، اپنی صلاحیتیں ان کی حقیقت سے عوام کو آگاہ کرنے کے لیے صرف کریں ۔ کیونکہ یہ کام ہمارا کرنے کا ہے اس کے لیے اب احمد بن حنبل ، بخاری قبروں سے اٹھ کر نہیں آئیں گے ۔مجھے بتائیں اس دور میں کسی پرانی شخصیت سے عدم واقفیت کی بنا پر لوگ گمراہ زیادہ ہورہے ہیں یا پھر روشن خیال میڈیا امت کو بربادی کی طرف لے کر جارہا ہے ؟پھر ان دونوں میدانوں میں فرق نکالنے کے بعد ان دونوں جگہ پر ہم نے جو کام کیا ہے اس کی بھی نسبت نکال لیں ۔گزارش : آپ کی بہت ساری باتوں پر تبصرہ کو نظر انداز کر رہا ہوں کہ ان پر گفتگو کرنے کا کوئی فائدہ نہیں سمجھتا
100٪ متفق ہوں، لیکن یہاں مجھے خضر بھائی سے تھوڑا گلہ بھی ہے (اور چھوٹا بھائی بڑے بھائی سے گلہ کرنے کا حق رکھتا ہے) گلہ یہ ہے کہ اس قسم کی گفتگو پر ایک بار احقر نے بھی تنقید کی تھی حافظ عمران بھائی کے تھریڈ "
روتی ہوئی عورت اور ہنستے ہوئے مرد پر کبھی بھروسہ نہ کرو !!!" وہاں احقر نے یہ بات لکھی:
لوگ جہالت اور لاعلمی کی اس حد کو پہنچ چکے ہیں کہ نعوذباللہ ثم نعوذباللہ اللہ کی ذات کو بھی جھٹلانے میں کوئی عار محسوس نہیں کر رہے، مذہب کو بات بات میں تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے، مذہبی لوگوں کو عوام الناس میں انتشار و فساد فی الارض میں ملوث گردانا جا رہا ہے، الحادی نظریات کا دور دورہ ہے، لوگوں کو مذہب کے نام سے چڑ ہے، اور چند لوگ جو مذہب سے اگر ریلیٹڈ ہو بھی جائیں تو آگے غیر اسلامی نظریات و افکارات کی اس قدر بھرمار ہے کہ اللہ کی پناہ۔
کیا اس صورت حال میں ہم کوئی ایسا لائحہ عمل تیار نہیں کر سکتے، جس سے ہماری صلاحتیں کسی اہم اور ضروری بلکہ از حد ضروری کاموں کی طرف خرچ ہو سکیں، کیا ہمیں عقیدہ توحید پر اہل باطل کے شہبات کا ازالہ نہیں کرنا چاہئے؟ کیا ہمیں الحاد و زندیقیت کو جڑ سے اُکھاڑ پھینکنے کی جدوجہد نہیں کرنی چاہئے؟ کیا ہمیں بدعات کے کانٹوں سے سنت کے پھولوں کو الگ کرنے کی کوشش نہیں کرنی چاہیے؟ ان اہم اور از حد ضروری کاموں کی طرف سے ہماری توجہ ختم ہو کر رہ گئی ہے، اور محض اپنے نام نہاد فلسفیانہ نظریات کا پرچار ہماری نظروں میں گھر کر گیا ہے۔
میری انتظامیہ (شاکر خضر حیات) بھائی سے گزارش ہے کہ ایسے تمام موضوعات پر کڑی نظر رکھی جائے، اور ایسی غیر ضروری گفتگو کو جس میں محض ممبران ایک دوسرے سے ناحق الجھتے نظر آئیں، ان پر پابندی عائد کی جانی چاہیے۔
جس پر خضر بھائی نے یہ کمنٹس دئے:
جی ارسلان بھائی میں نے آپ کے حکم کی تعمیل میں تقریبا تمام مراسلہ جات کو ملاحظہ کیا ہے '' کڑی نظر '' کے ساتھ ۔تمام بھائی اور بہنیں سمجھدار ہیں ۔ موضوع کی نزاکت کو سمجھتے ہیں ۔۔۔ امید ہے انتظامیہ کو پابندی کی ضرورت نہیں پڑے گی ۔ ۔۔
برادر محترم نے جو چیز اب اس تھریڈ میں محسوس کی یہ وہاں بھی کرنی تھی، لیکن وہاں نہیں کی، خیر یہ تو تھا میرا چھوٹا سا گلہ۔ اب چونکہ ہم دونوں بھائی ایک بات پر متفق ہیں، تو ذرا اسی بات کو آگے لے کر چلتے ہیں۔
خضر بھائی نے میڈیا کی مسلم امت پر یلغار کی بات کی، بالکل درست ہے لیکن نا صرف میڈیا بلکہ ہر اسلام دشمن کو جہاں سےبھی اسلام پر حملہ کرنے کا موقع ملتا ہے، وہ کرنے سے چوکتا نہیں ہے، عسکری لحاظ سے تو الحمدللہ مجاہدین اسلام کے ہاتھوں اہل کفر ذلیل و رسوا ہو رہا ہے، لیکن نظریاتی طور پر یہود کا یہ ایجنڈا بذریعہ امریکہ میڈیا کے ذریعے پورے زور و شور سے جاری ہے۔ میڈیا نہ صرف مسلمانوں کو بدنام کرنے کی سازش کر رہا ہے بلکہ مسلمانوں کے خلاف پوری دنیا میں ایک غلط تاثر بھی پیش کیا جا رہا ہے۔ اس کے علاوہ اب تو نوبت یہاں تک پہنچی ہے کہ:
لوگ اللہ کا انکار کرنے پر تلے ہیں۔ (نعوذباللہ)
لوگ یہود و نصاری کو جنتی قرار دینے کی سازش کر رہے ہیں اور وہ بھی قرآن سے ثابت (انا للہ وانا الیہ رجعون)
لوگ اسلام کو نیچا اور مغربی گندی ننگی تہذیب کو اونچا کرنے کی بھرپور سازش کر رہے ہیں (نعوذباللہ)
اسلام اور مسلمانوں پر جہاد کی وجہ سے دہشت گردی کا ٹھپہ تو کب کا لگ چکا ہے۔ (استغفراللہ)
آئے روز فیس بک پر پیغمبر اسلام محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف پوسٹر بازی کی جا رہی ہے (نعوذباللہ من ذلک)
لیکن ہم لوگ ایک دوسرے کی ٹانگیں کھنچنے میں مصروف ہیں، کیا ہمارے پاس ان کے خلاف کوئی ایکشن لینے کا تصور بھی ہے یا صرف ایک دوسرے سے مرتے دم تک دست و گریباں ہوتے رہنے کا ارادہ ہے۔ آپ
ماہنامہ ضیائے حدیث اپریل 2014 میں ایک مضمون کا مطالعہ کریں جس میں عیسائی مشنریوں کا مسلمانوں کو مرتد بنانے کی سازش کا پردہ چاک کیا گیا ہے، یہ مضمون پڑھ کر آپ کے رونگھٹے کھڑے ہو جائیں گے، کیا ہم میں سے کسی نے اس بارے میں کوئی توجہ کی، سچ تو یہ ہے کہ ہم بہت کمزور ہیں، ہمارے پلے میں دشمن کا مقابلہ کرنے کی ہمت اب جواب دیتی جا رہی ہے۔ کیا اب بھی ہم سوئے رہیں گے، کیا اب بھی ہمیں مل بیٹھ کر کوئی لائحہ عمل تیار کرنے کی ضرورت پیش نہیں آتی۔ اللہ سے ہی ہدایت کا سوال ہے۔