بندہ نے یہ پوچھا ہے کہ امام بخاری مردوں کے سننے کے قائل تھے یانہیں؟؟؟
یزید بھائی: امام بخاری کا باب باندھنا ہی تو بتا رہا ہے کہ وہ مردوں کے سننے کے قائل تھے ورنہ یہ باب باندھتے ہی کیوں؟
ارسلان بھائی : یہ فرمائیں کیا اس قبر کو برزخ کہتے ہیں؟ یہ بھی بتائیں کہ قبر میں مردہ ہوتا ہے یا زندہ؟کیا روحیں ان مدفوں مردوں کے جسم میں واپس آجاتی ہیں اور یہ زندہ ہو جاتے ہیں؟اور اگر زندہ ہو جاتے ہیں تو بات تو یہاں مردوں کے سننے کی ہو رہی ہے نہ کہ زندہ کے سننے کی؟
السلام علیکم رحمت الله -
محترم - امام بخاری کا یہ عقیدہ بھی پڑھ لیں -
وہ اس عقیدے کہ "انبیاء کے اجسام کو قبرکی مٹی نہیں کھاتی" کے قائل نہیں تھے - ظاہر ہے جب قبر میں مردہ انسان کا جسم ہی محفوظ نہ رہا تو سننے کا جواز کہاں سے پیدا ہو گا -
http://therealislam1.files.wordpress.com/2010/07/earth-forbidden-to-consume-prophets-hadith.pdf
ہمارے اکثر قبر پرست لوگ اور مسالک اس آیت سے یہ مطلب اخذ کرلیتے ہیں کہ موت کے بعد بھی قبر میں مردہ انسان سنتا ہے- کیوں کہ الله خود فرما رہا ہے کہ "وہ جسے چاہے سنوا دے جو قبروں میں مدفون ہیں"
وَمَا يَسْتَوِي الْأَحْيَاءُ وَلَا الْأَمْوَاتُ ۚ إِنَّ اللَّهَ يُسْمِعُ مَنْ يَشَاءُ ۖ وَمَا أَنْتَ بِمُسْمِعٍ مَنْ فِي الْقُبُورِ سوره فاطر ٢٢
اور زندے اور مردے برابر نہیں ہیں بے شک الله سناتا ہے جسے چاہے اور آپ (صل الله علیہ وآ وسلم) انہیں سنانے والے نہیں جو قبروں میں ہیں-
پہلی بات تو یہ ہے کہ اس آیت میں الله نے اپنی قدرت کو بیان کیا ہے- عمومی اصول نہیں بیان کیا گیا- کہ الله چاہے تو بےجان جسموں کو بھی سنوا سکتا ہے- یعنی اگر معجزاتی طور پر الله کسی مردے کو سنوا دے تو یہ اس کی قدرت کا مظہر ہے- انسان حتیٰ کہ انبیاء کرام کے بس کی بات بھی نہیں کہ وہ خود سے قبر میں مدفون انسانوں کو اپنی آواز یا التجا سنوا سکیں - اس کی مثال ایسی ہی ہے کہ الله کے عمومی اصول کے تحت تو آگ کا کام جلانا ہے- لیکن ابراہیم علیہ سلام کے لئے یہی آگ سلامتی اور گلزار بن گئی- یہ صرف الله کی قدرت سے ممکن ہے-اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ آگ ہر انسان کے لئے گلزار بن سکتی ہے -
دوسری بات یہ ہے کہ اس آیت میں الله کا فرمان ہے کہ
يُسْمِعُ مَنْ يَشَاءُ وہ جسے چاہے سنوا دے - چاہے تو کسی بدکردار انسان کو کسی زندہ انسان کی آواز یا التجا سنوا دے - اور چاہے تو کسی نیک انسان حتیٰ کے انبیاء کرام اور صالحین کو بھی زندہ انسان کی التجا سے غافل رکھے- لہٰذا کسی نیک انسان کو یہ سمجھ کر پکارنا کہ وہ میری التجا سنے گا اور اس کی بنیاد پر میری حاجت روائی کرے گا یہ ایک انتہائی لغو استدلال ہے اس زمن میں- ظاہر ہے جب یہ معاملہ ہی زندہ انسان پر مشتبہ ہے کہ مردے کی قبر میں کیا کفیت ہے تو اس سے حاجت روائی کرنا انتہا درجے کی بے وقوفی ہے-
قرآن میں تو الله کا واضح فرمان ہے کہ :
وَالَّذِينَ يَدْعُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ لَا يَخْلُقُونَ شَيْئًا وَهُمْ يُخْلَقُونَ - أَمْوَاتٌ غَيْرُ أَحْيَاءٍ ۖ وَمَا يَشْعُرُونَ أَيَّانَ يُبْعَثُونَ سوره النحل ٢٠-٢١
اور جنہیں وہ الله کے سوا پکارتے ہیں وہ کچھ بھی پیدا نہیں کرتے اور وہ خود پیدا کیے ہوئے ہیں- وہ تو مردے ہیں جن میں جان نہیں اور وہ یہ بھی نہیں جانتے کہ وہ کب اٹھائے جائیں گے-
ویسے بھی یہ زمینی قبر تو ایک نشانی ہے کہ فلاں انسان یہاں دفن ہے - کتنے لوگ ہیں جو سمندر میں ڈوب کر مرتے ہے - کتنے ہیں جو بم دھماکے میں مارے جاتے ہیں اور جن کے اجسام ٹکڑوں میں تبدیل ہو جاتے ہیں- کتنے ہیں جن کے جسم کو جلا دیا جاتا ہے- الله تعالیٰ اس سے پاک ہے کہ وہ صرف زمین میں بنائی گئی انسانی قبرمیں مدفون انسان تک ہی کوئی بات پہنچا سکتا ہے یا اس زمینی قبر کو ہی جنّت یا دوزخ کا ٹکڑا بنا سکتا ہے- وہ تو انسان کے جسم کے اس ٹکڑے سے بھی واقف ہے جو اس کے مرنے کے بعد ہوا میں تحلیل ہو گیا-