یہ سوال صر ف میں اپنی معلومات میں اضافہ کے لئے پوچھ رہا ہوں اگر جواب عنایت کریں تو نوازش ہوگی ۔
کیا یہ امر مسلم ہے کہ کسی شیعہ حافظ ،صادق و صدوق اور ثقہ راوی سے محدیثیں مناقب آل محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بیان کرتی ہوئی حدیث پر صحیح کا حکم نہیں لگاتے بلکہ اس حدیث کو ضعیف میں شمار کرتے ہیں ؟؟
بھائی آ پ جانتےہوں گے اگر نہیں تو سمجھ لیں کہ کسی بھی راوی کے مقبول ہونے کے لیے دو بنیادی شرطیں ہیں :
١۔ اس کا حافظہ قابل اعتماد ہو
٢۔ صاحب عدالت ہو ۔
ہمارا زیر بحث مسئلہ دوسری شرط سے متعلق ہے ۔ کیونکہ عدالت کی شرط سے بدعتی رواۃ خارج ہوجاتے ہیں ۔ اور تشیع یا رفض ایک بدعت ہے لہذا اصل یہ ہے کہ کسی بھی شیعہ یا رافضی کی روایت کو قبول نہیں کیا جائے گا چاہے وہ حفظ و ضبط کا پہاڑ ہی کیوں نہ ہو ۔
لیکن بات صرف یہیں پر ختم نہیں ہوتی کیونکہ مبتدعہ کی بہت ساری اقسام ہیں مختلف اصناف ہیں کچھ ایسے ہیں جن کی بدعت ان کی روایت پر اثر انداز نہیں ہوتی یا وہ کسی بدعت صغری میں مبتلا ہوتے ہیں اور ساتھ ساتھ وہ نیک صادق اللہجہ اور دین دار ہوتے ہیں جبکہ کچھ رواۃ اس کے بر عکس ہوتے ہیں اور جھوٹ بولنا اور تقیہ کرنا ان کے نزدیک جزو ایمان ہے جیساکہ حافظ ذہبی کے کلام میں یہ بات گزری ۔
ایسی صورت میں نہ تو بدعتی کی روایت پر مطلقا رد کا حکم لگایا جا سکتا ہے کیونکہ بہت ساری احادیث صحیحہ کے رد ہونے کا خدشہ ہے ۔
اور نہ ہی سب بدعتیوں کی روایات کو تسلیم کیا جا سکتا ہے کیونکہ خطرہ ہے کہ بہت ساری بدعات سنت کے نام پر امت کا بیڑا غرق کردیں گی ۔
اس لیے محدثین نے اس سلسلے میں کچھ شروط ذکر کیں کہ کن کن بدعتیوں کی روایات کن کن حالات میں قبول ہوں گی (علوم الحدیث لابن الصلاح اور اس کے متعلقات میں تفصیل ملاحظہ کی جا سکتی ہے )اس سلسلے میں جو راحج مذہب اس کا خلاصہ کچھ یوں ہے کہ بدعتی کی روایت چند شرائط کے ساتھ مقبول ہے
١۔ صادق اللہجۃ ہونا چاہیے ۔ جھوٹ بولنا جائز نہ سمجھتا ہو۔
٢۔ بدعت مکفرہ میں مبتلا نہ ہو ۔
٣۔ بدعت کی طرف دعوت نہ دیتا ہو ۔
٤۔ اس کی روایت میں کوئی ایسی چیز نہ ہو جس سے اس کے بدعتی مذہب کی تائید ہو رہی ہو ۔
یہ موٹی موٹی شرائط ہیں جن کی موجودگی میں کسی بدعتی کی روایت کو قبول کیا جائے گا ۔ لیکن ایک بات ذہن میں رکھیں چونکہ یہ دو جمع دو برابر چار حساب کے قواعد نہیں لہذا بعض جگہوں پر محدثین نے ان قواعد سے اختلاف بھی کیا ہے مطلب کئی جگہوں پر ان شرائط سے تساہل کیا ہے اور بعض مقامات پرتشدد بھی کیا ہے اور یہ سب کچھ دلائل و قرائن کے ساتھ تاکہ کوئی یہ نہ کہہ سکے کہ یہ خواہشات نفس کی پیروی ہے ۔
رہا صحیح بخاری میں شیعہ و دیگر بدعتیوں کی روایات تو اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ موجود ہیں بلکہ بعض ایسے بدعتی بھی جو مذکورہ شرائط پر پورے نہیں اترتے لیکن پھر بھی ان کی روایات کو نقل کیا گیا ہے ۔
چنانچہ محدثین نے امام بخاری کی صحیح کا تتبع کر کے بدعتی کے بارے میں ان کا موقف سمجھنے کی کوشش کی ہے اور امام بخاری کے اس سلسلے میں معیار کا کھوج لگایا ہے جو کہ درج ذیل نقاط میں بیان کیا جا سکتا ہے :
١۔ بدعت مکفرہ والا راوی کوئی نہیں ہے ۔
٢۔ اکثر ان میں سے غیر داعی ہیں کچھ ایسے ہیں جو داعی تھے لیکن پھر توبہ کر چکے تھے ۔
٣۔ اکثر روایات متابعات و شواہد میں ہیں ۔
٤۔ بعض ایسے ہیں جن کا بدعتی ہونا ہی ثابت نہیں ۔
تفصیل کے لیے ملاحظہ فرمائیں باحث أبو بکر الکافی کا رسالہ (منہج الإمام البخاری فی تصحیح الأحادیث و تعلیلہا ص ١٠٥ خاصۃ )
یہ تو تھی عمومی بات ۔۔۔ ہم اپنے موضوع کے مزید قریب ہوتے ہیں اور آپ سےگزارش کرتے ہیں کہ آپ شیعہ کی کچھ ایسی روایات پیش کریں جنکو محدثین نے رد کردیا یا قبول کر لیا اور آپ کا موقف اس کے برعکس ہے تاکہ اس سلسلے میں قبول و رد کی توجیہ بیان کی جا سکے ۔
آخر میں آپ کےسوال کے حوالے سے بالخصوص عرض کیے دیتا ہوں اگرچہ مذکورہ تفصیل میں اس کی وضاحت موجود ہے کہ :
کہ آپ کوئی اس طرح کی روایت کو پیش کریں پھر محدثین کے اس سلسلے میں احکام کو مدنظر رکھ کر اس کے قبول یا رد کا فیصلہ کیا جائے گا اور ہر دو صورتوں میں توجیہ بھی بیان کرنے کی کوشش کریں گے ۔