امام زركشى كى وفات:
امام زركشى ٣/ رجب ٧٩٤ھ بروز اتوار اپنے خالق حقيقى سے جا ملے اور قاہرہ ميں ہى دفن ہوئے-
البرها ن في علوم القرآن
وہ تمام علماء اور موٴرخين جنہوں نے امام زركشى كے حالات بيان كيے ہيں، ان كا اتفاق ہے كہ البرهان في علوم القرآن امام زركشى كى ہى تصنيف ہے-
حافظ ابن حجر فرماتے ہيں :
”ميں نے امام زركشى كى كتاب البرهان في علوم القرآن ان كے اپنے ہاتھ كى لكهى ہوئى ديكهى، علومِ قرآن پر بہت اچهى اور اوّلين كتابوں ميں سے ہے، جس ميں امام زركشى نے چاليس سے زائد علوم ذكر كيے ہيں-“
امام سيوطى اپنى كتاب حسن المحاضرة ميں امام زركشى كے حالات كے ضمن ميں اور اپنى كتاب الإتقان في علوم القرآنكے مقدمہ ميں اسى بات كى تصريح كرتے ہوئے فرماتے ہيں :
”مجهے يہ بات پہنچى كہ امام بدر الدين زركشى نے بهى علومِ قرآن پرالبرہان في علوم القرآن كے نام سے ايك كتاب لكهى ہے- تلاشِ بسيار كے بعد آخر وہ مجهے مل ہى گئى -“
امام داوٴدى، حاجى خليفہ اور بروكل مين نے بهى اپنى اپنى كتب ميں اسكا تذكرہ كيا ہے-
البرهان ميں امام زركشى كا منہج تاليف
امام زركشى كے زمانے تك علومِ قرآن اس طرح ايك كتابى صورت ميں مدوّن نہيں تهے جس طرح علومِ حديث شروع ميں ہى مدوّن ہوگئے تهے- اُنہوں نے البرہان ميں علومِ قرآن كے متعلق سلف صالحين كے متعدد اقوال كو جمع كيا ہے- امام زركشى البرہان كے مقدمہ ميں فرماتے ہيں:
”متقدمين علما قرآن كريم كے متعدد علوم كو ايك كتاب كى صورت ميں اس طرح مدوّن نہ كر سكے، جيسے اُنہوں نے علومِ حديث كو مدوّن اور جمع كر ديا تها، تو ميں نے ايك ايسى كتاب تصنيف كرنے ميں اللہ تعالىٰ سے مدد طلب كى جو ان تمام علومِ قرآن كا احاطہ كرنے والى ہو جن كے بارے ميں علما بحث ومباحثہ كرتے ہيں-“
امام سيوطى فرماتے ہيں :
”علوم قرآن پر ايك كتاب لكھنے كى غرض سے جب ميں نے سلف صالحين كى اس موضوع پر كتب كى تلاش شروع كى تو مجهے ديكھ كر تعجب ہوا كہ انہوں نے جس طرح حديث كے مختلف علوم پر مستقل كتب تاليف كى ہيں، اس طرح مختلف قرآنى علوم پر ان كى كتب موجود نہيں ہيں-“
اس سے معلوم ہوجاتا ہے كہ كم از كم امام زركشى كے زمانے تك علومِ قرآن نكهر كر سامنے نہيں آئے تهے-تو امام زركشى اُن اوّلين علماء ميں سے ہيں جنہوں نے علومِ قرآن كو ايك جامع صورت ميں تاليف كيا- ليكن اس كا مطلب يہ نہيں كہ اس زمانے تك علوم قرآن موجود ہى نہ تهے، بلكہ قرآنِ كريم كے فنون ميں سے ہر فن مثلاً تفسير، ناسخ منسوخ، متشابہ اور وقف وابتدا وغيرہ پر مستقل كتب تو بہت شروع كے زمانے سے ہى منظر عام پر آچكى تهيں اور اسى طرح البرہان سے پہلے قرآن كريم كے بعض علوم وفنون پر مشتمل كتب مثلاً فنون الأفنان از ابن جوزى ٥٩٧ھ اور جمال القرآء از ابو حسن سخاوى ٦٤٣ھ بهى لكهى جا چكى تهيں-
تو مطلب يہ ہے كہ امام زركشى وہ پہلے شخص ہيں جنہوں نے البرہان ميں قرآن كريم كے تمام علوم وفنون كا احاطہ كرنے كى كوشش كى اور اس ميں كوئى شك نہيں كہ يہ ايك بہت ہى مشكل كام تها جس كو امام صاحب پہلى مرتبہ سرانجام دينے لگے تهے- اور يہ بهى واضح ہے كہ ہر فن پر اولين كتاب سب سے مشكل اور مختصر ہوا كرتى ہے اور بعد ميں آنے والے علما اس ميں اضافہ كرتے رہتے ہيں…
ولٰكنّ الفضل للمتقدّم!
جب امام زركشى نے يہ كتاب تصنيف كرنا شروع كى تو ان كے سامنے سلف صالحين كى قرآنِ كريم كے مختلف علوم ميں مستقل تاليفات كى صورت ميں ايك بہت وسيع ذخيرہ موجود تها تو اُنہوں نے ہر فن پر موجود مواد كو الگ الگ ترتيب ديا اور اسے ايك نئى ترتيب اور اسلوب ميں ڈهال كر الگ الگ ابواب اور موضوعات كے تحت جمع كر ديا۔
امام زركشى نے البرہان كى تصنيف ميں پختہ علمى طريقہٴ كار اپنايا- سب سے پہلے تو وہ ہر فن كى تعريف اور اُس كا حدودِ اربعہ بيان كرتے ہيں اور پهر اس فن كے بڑے بڑے علما اور ان كى كتب كا تذكرہ كرتے ہيں اور پهر اس فن كا آغاز اور ارتقا ذكر فرماتے ہيں اور پهر ان فن كى اقسام، موضوعات اور مسائل كا تفصيل سے تذكرہ كرتے ہيں- اس طرح جب وہ ايك فن كا مكمل احاطہ كر ليتے ہيں تو پهر اگلے فن كى طرف منتقل ہوجاتے ہيں-