امام اعمش رحمہ اللہ کی توثیق وتعدیل
1- امام قاسم بن عبد الرحمن بن عبد اللہ بن مسعود رحمہ اللہ (المتوفی 120) امام اعمش کے استاد اور سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے پوتے، فرماتے ہیں:
"
ليس بالكوفة أعلم بحديث ابن مسعود من سليمان الأعمش"
"کوفہ میں سلیمان الاعمش سے زیادہ ابن مسعود کی حدیث کا کوئی عالم نہیں"
(العلل ومعرفۃ الرجال روایۃ عبد اللہ: 6016، واسنادہ صحیح)
2- امام اسحاق بن راشد بیان کرتے ہیں:
"
كان الزهري إذا ذكر أهل العراق ضعف علمهم. قال قلت: إن بالكوفة مولى لبني أسد يروي أربعة آلاف حديث. قال: أربعة آلاف! قال قلت: نعم. إن شئت جئتك ببعض علمه. قال: فجيء به. فأتيته به. قال فجعل يقرأ وأعرف التغيير فيه وقال: والله إن هذا لعلم. ما كنت أرى أحدا يعلم هذا"
"امام زہری جب بھی اہل عراق کا ذکر کرتے تو ان کے علم کو ضعیف بتلاتے تھے۔ تو میں نے ان سے کہا کہ کوفہ میں بنی اسد کا ایک غلام (اعمش) ہے جس کو چار ہزار حدیثیں یاد ہیں۔ زہری نے بڑے تعجب سے پوچھا' چار ہزار؟ میں نے کہا ہاں چار ہزار، اگر آپ فرمائیں تو میں ان کا کچھ حصہ لا کر پیش کروں؟ چنانچہ میں لے آیا۔ زہری اس کو پڑھتے جاتے تھے اور حیرت سے ان کا رنگ بدلتا جاتا تھا۔ مجموعہ ختم کرنے کے بعد فرمایا: خدا کی قسم علم اسے کہتے ہیں۔ مجھے یہ معلوم نہ تھا کہ کسی کے پاس احادیث کا اتنا بڑا ذخیرہ بھی محفوظ ہو گا۔"
(طبقات ابن سعد: 6/332، واسنادہ صحیح)
3- امام اعمش فرماتے ہیں:
"
كنت إذا اجتمعت أنا وأبو إسحاق جئنا بحديث عبد الله غضا"
"جب میں اور ابو اسحاق جمع ہوتے تو ہم حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی احادیث کو محفوظ کیا کرتے تھے۔"
(طبقات ابن سعد: 6/332، واسنادہ صحیح)
امام اعمش ایک دوسری جگہ فرماتے ہیں:
"
سمعت من أبي صالح ألف حديث"
"میں نے ابو صالح سے ایک ہزار احادیث سنی"
(العلل و معرفۃ الرجال روایۃ عبد اللہ: 2910، 5588)
4- امام شعبہ بن الحجاج رحمہ اللہ (المتوفی 160) فرماتے ہیں:
"
سليمان أحب إلينا من عاصم"
"سلیمان (الاعمش) ہمیں عاصم سے زیادہ محبوب ہیں۔"
(العلل ومعرفۃ الرجال روایۃ عبد اللہ: 4136)
ایک دوسری جگہ امام شعبہ نے فرمایا:
"
ما شفاني أحد من الحديث ما شفاني الأعمش"
"حدیث میں مجھ کو جو تشفی اعمش سے ہوئی وہ کسی سے نہیں ہوئی۔"
(تاریخ بغداد: 9/11، واسنادہ صحیح)
5- امام ابو عوانہ (المتوفی 175 یا 176) فرماتے ہیں:
"
كانت للأعمش عندي بضاعة فكنت أقول له: ربحت لك كذا وكذا. قال وما حركت بضاعته بعد"
"میرے پاس اعمش کا کچھ علمی ذخیرہ موجود تھا۔ میں کہتا کہ آپ نے بڑا سرمایہ جمع کیا ہے۔ آپ فرماتے کہ مجھے اس سرمائے کے علاوہ کسی اور سرمایہ کی ضرورت نہیں۔"
(طبقات ابن سعد: 6/332، واسنادہ صحیح)
6- امام ہشیم بن بشیر رحمہ اللہ (المتوفی 183 ھ) فرماتے ہیں:
"
ما رأيت بالكوفة أحدا أقرأ لكتاب الله، ولا أجود حديثا من الأعمش"
"میں نے کوفہ میں اعمش سے بڑا قرآن کا قاری نہیں دیکھا، اور نہ ان سے بڑا حدیث کا ماہر دیکھا ہے۔"
(حلیہ الاولیاء: 5/50، واسنادہ صحیح)
7- امام عیسی بن یونس بن ابی اسحاق السبیعی رحمہ اللہ (المتوفی 187 ھ) فرماتے ہیں:
"
ما رأينا في زماننا مثل الأعمش، ولا الطبقة الذين كانوا قبلنا، ما رأينا الأغنياء والسلاطين في مجلس قط أحقر منهم في مجلس الأعمش وهو محتاج إلى درهم"
"ہم نے اپنے زمانے اور ہمارے قبل والے زمانے میں اعمش کا مثل نہیں دیکھا۔ اعمش کے فقر واحتیاج کے باوجود ہم نے ان سے زیادہ امراء اور سلاطین کو کسی کی مجلس میں حقیر نہیں پایا۔"
(حلیۃ الاولیاء: 5/47، وتاریخ بغداد: 9/9، واسنادہ صحیح)
8- امام ابو بکر بن عیاش رحمہ اللہ (المتوفی 194 ھ) فرماتے ہیں:
"
كنا نسمي الأعمش سيد المحدثين"
"ہم اعمش کو سید المحدثین یعنی محدثین کا سردار کہتے تھے۔"
(تاریخ بغداد: 9/12، واسنادہ صحیح)
9- امام یحیی بن سعید القطان رحمہ اللہ (المتوفی 198 ھ) نے آپ سے روایات لی ہیں اور آپ کی تعریف کی ہے (دیکھیں عنوان "امام اعمش رحمہ اللہ کی عبادت")۔
امام یحیی القطان اپنے نزدیک صرف ثقہ لوگوں سے ہی روایت لیتے ہیں۔
10- سہل بن حلیمہ فرماتے ہیں کہ امام سفیان بن عیینہ (المتوفی 198 ھ) نے فرمایا:
"
سبق الأعمش أصحابه بأربع خصال: كان أقرأهم للقرآن، وأحفظهم للحديث، وأعلمهم بالفرائض، ونسيت أنا واحدة"
"اعمش نے اپنے اصحاب کو چار چیزوں میں پیچھے چھوڑ دیا ہے: پہلی وہ ان میں قرآن کی قراءت کا سب سے زیادہ علم رکھتے تھے، وہ ان میں حدیث کے سب سے بڑے حافظ تھے، اور فرائض کو ان میں سب سے زیادہ جانتے تھے راوی یعنی سہل کہتے ہیں کہ چوتھی چیز جو انہوں نے کہی تھی میں بھول گیا ہوں"
(تاریخ ابن معین روایۃ الدوری: 1879 بحوالہ موسوعہ اقوال ابن معین: 2/262، واسنادہ صحیح)
11- امام وکیع بن الجراح رحمہ اللہ (المتوفی 196 یا 197 ھ) فرماتے ہیں:
"
الأعمش أحفظ لإسناد إبراهيم من منصور"
"اعمش ابراہیم (نخعی) کی اسناد کے منصور (بن معتمر) سے زیادہ بڑے حافظ ہیں۔"
(سنن الترمذی: تحت ح 70 واسنادہ صحیح)
12- امام یحیی بن معین رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
"
سليمان بن مهران الأعمش، ثقة"
"سلیمان بن مہران الاعمش ثقہ ہیں۔"
(الجرح والتعدیل لابن ابی حاتم: 4/146 بحوالہ موسوعہ اقوال ابن معین: 2/266، واسنادہ صحیح)
اور ایک دوسری جگہ فرماتے ہیں:
"
كان الأعمش جليلا جدا"
"اعمش نہایت جلیل القدر شخصیت تھے۔"
(سؤالات الآجری: 1/203)
ابن طہمان روایت کرتے ہیں کہ امام یحیی بن معین نے فرمایا:
"
عاصم بن بهدلة ثقة لا بأس به، وهو من نظراء الأعمش، والأعمش أثبت منه"
"عاصم بن بہدلہ (یعنی ابن ابن النجود) ثقہ ہیں ان میں کوئی حرج نہیں ہے اور وہ اعمش کے ہم عصر ساتھیوں میں سے ہیں، البتہ اعمش ان سے بھی زیادہ ثبت ہیں۔"
(سؤالات ابن طہمان: رقم 157)
ایک دوسری جگہ امام یحیی بن معین فرماتے ہیں:
"
(أصح الأسانيد) الأعمش عن إبراهيم عن علقمة عن عبد الله"
"اسانید میں سب سے صحیح اسناد اعمش عن ابراہیم عن علقمہ عن عبد اللہ (بن مسعود) ہے"
(معرفہ علوم الحدیث للحاکم: 1/99)
13- امام علی بن المدینی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
"
نظرت فإذا الإسناد يدور على ستة... ابن شهاب الزهري... عمرو بن دينار... قتادة بن دعامة... يحيي بن أبي كثير... أبو إسحاق... وسليمان بن مهران."
"میں نے تحقیق کی تو دیکھا کہ اسناد کا دارومدار چھ لوگوں پر ہے (یعنی زیادہ تر اسانید کی بنیاد ان پر ہے، اور وہ ہیں)۔۔۔ ابن شہاب الزہری، عمرو بن دینار، قتادہ بن دعامہ، یحیی بن ابی کثیر، ابو اسحاق، اور سلیمان بن مہران الاعمش"
(علل لابن المدینی: ص 36-37)
مزید براں امام ابن مدینی فرماتے ہیں:
"
كان أبو إسحاق وسليمان الأعمش أعلم أهل الكوفة بمذهب عبد الله وطريقه والحكم بعد هذين وكان سفيان بن سعيد أعلم الناس بهذين وبحديثهم وبطريقهم وكان يحيى بن سعيد القطان يحب سفيان ويحب هذا الطريق ولا يقدم عليه أحد"
"ابو اسحاق اور سلیمان الاعمش اہل کوفہ میں حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے مذہب اور ان کے طریقے کو سب سے زیادہ جاننے والوں میں سے تھے۔ اور حکم کا نمبر ان دو کے بعد آتا ہے۔ اور امام سفیان بن سعید (الثوری) ان دو (یعنی ابو اسحاق اور اعمش) اور ان کی حدیث اور طریقے کو لوگوں میں سب سے زیادہ جاننے والے تھے۔ امام یحیی بن سعید القطان سفیان کو (اس سند کے لئے) پسند کرتے تھے وہ اس سلسلۃ اسناد کو بہت پسند کرتے تھے اور اسے کسی دوسری اساند پر فوقیت نہ دیتے تھے۔"
(علل لابن المدینی: ص 46)
14- امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ (المتوفی 241 ھ) سے پوچھا گیا کہ ابو صالح سے روایت کرنے میں سہیل اور اعمش میں سے کون آپ کو زیادہ پسند ہے؟ تو آپ نے فرمایا: "
الأعمش أحب إلينا" کہ اعمش ہمیں زیادہ پسند ہے۔
(العلل ومعرفۃ الرجال روایۃ عبد اللہ: 3288)
امام احمد سے پوچھا گیا، "ابو حصین اور اعمش میں سے کون بڑا ہے؟" تو آپ نے فرمایا:
"
أبو حصين أكبر من الأعمش، والأعمش أحب إلي، الأعمش أعلم بالعلم والقرآن من أبي حصين، وأبو حصين من بني أسد، وكان شيخاً صالحاً"
"ابو حصین عمر میں اعمش سے بڑے ہیں، لیکن اعمش مجھے زیادہ محبوب ہیں (کیونکہ) اعمش علم وقرآن کے ابو حصین سے زیادہ عالم تھے۔ اور ابو حصین بھی بنی اسد سے تھے اور وہ صالح شیخ تھے۔"
(سؤالات ابن ہانی: 2166)
ایک دوسری جگہ امام احمد سے پوچھا گیا، عاصم بن ابی النجود اور اعمش میں سے کون آپ کو زیادہ محبوب ہے؟ آپ نے فرمایا:
"
الأعمش أحب إلي، وهو صحيح الحديث، وهو محدث"
"اعمش مجھے زیادہ محبوب ہیں، ان کی حدیث صحیح ہے اور وہ محدث ہیں۔"
(سؤالات ابن ہانی: 2179)
عبد اللہ بن احمد روایت کرتے ہیں کہ امام احمد بن حنبل نے فرمایا:
"
منصور، والأعمش، أثبت من حماد وعاصم"
"منصور اور اعمش حماد اور عاصم سے زیادہ ثبت ہیں"
(العلل ومعرفۃ الرجال: 4512)
ابن ہانی کہتے ہیں کہ میں نے امام احمد سے اعمش کے متعلق پوچھا: "
هو حجة في الحديث؟" کہ کیا وہ حدیث میں حجت تھے؟ تو آپ نے فرمایا: "
نعم" ہاں۔
(سؤالات ابن ہانی: 2347)
15- امام محمد بن عبد اللہ بن عمار الموصلی رحمہ اللہ (المتوفی 242 ھ) فرماتے ہیں:
"
ليس فِي المحدثين أثبت من الأعمش، ومنصور بْن المعتمر وهو ثبت أيضا، وهو أفضل من الأعمش، إلا أن الأعمش اعرف بالمسند وأكثر مسندا منه"
"محدثین میں اعمش سے زیادہ اثبت کوئی نہیں اور منصور بن المعتمر بھی ثبت ہیں بلکہ اعمش سے زیادہ افضل ہیں لیکن اعمش ان سے زیادہ مسند کو جاننے والے اور زیادہ روایتیں بیان کرنے والے ہیں۔"
(تاریخ بغداد: 9/12، واسنادہ صحیح)
16- امام ابو حفص عمرو بن علی الفلاس رحمہ اللہ (المتوفی 249 ھ) فرماتے ہیں:
"
كان الأعمش يسمى المصحف من صدقه"
"اعمش اپنی صداقت کے اعتبار سے مصحف کہے جاتے تھے۔"
(تاریخ بغداد: 9/12، واسنادہ صحیح)
17- امام ابو عبد اللہ محمد بن اسماعیل البخاری رحمہ اللہ (المتوفی 256 ھ) نے اپنی مشہور کتاب "
صحیح بخاری" میں بے شمار مقامات پر امام اعمش سے روایت لی ہے جن کی تعداد تقریبا 376 ہے۔
اس سے معلوم ہوا کہ امام بخاری کے نزدیک امام اعمش زبردست ثقہ امام تھے۔
18- امام مسلم بن الحجاج النیسابوری رحمہ اللہ (المتوفی 261 ھ) نے اپنی مشہور کتاب "
صحیح مسلم" میں بے شمار روایات لی ہیں جن کی تعداد تقریبا 278 ہے۔
معلوم ہوا کہ امام مسلم رحمہ اللہ کے نزدیک امام اعمش ثقہ امام تھے۔
19- امام ابو الحسن العجلی رحمہ اللہ (المتوفی 261) نے انہیں اپنی کتاب الثقات میں ذکر کیا اور فرمایا:
"
ثقة، كوفي، وكان مُحدث أهل الكوفة في زمانه"
"آپ ثقہ کوفی تھے، اور آپ اپنے زمانے میں اہل کوفہ کے محدث تھے۔"
(الثقات للعجلی: 1/204)
20- امام ابو زرعہ الرازی رحمہ اللہ (المتوفی 264 ھ) فرماتے ہیں:
"
سليمان الاعمش امام"
"سلیمان الاعمش امام تھے۔"
(الجرح والتعدیل لابن ابی حاتم: 4/147)
21- امام ابو حاتم الرازی رحمہ اللہ عنہ (المتوفی 277 ھ) فرماتے ہیں:
"
الأعمش ثقة يحتج بحديثه"
"اعمش ثقہ تھے اور ان کی حدیث سے حجت پکڑی جاتی ہے۔"
(الجرح والتعدیل لابن ابی حاتم: 4/147)
22- امام یعقوب بن سفیان الفسوی رحمہ اللہ (المتوفی 277 ھ) فرماتے ہیں:
"
وحديث سفيان وأبي إسحاق والأعمش ما لم يعلم أنه مدلس يقوم مقام الحجة"
"سفیان، ابو اسحاق، اور اعمش کی حدیث سے حجت پکڑی جائے گی الا یہ کہ کسی حدیث میں معلوم ہو جائے کہ وہ مدلس ہے۔"
(المعرفہ والتاریخ: 2/637)
23- امام ابو عیسی الترمذی رحمہ اللہ (لمتوفی 279 ھ) نے اپنی مشہور کتاب سنن الترمذی میں بے شمار مقامات پر امام اعمش کی روایات کی تصحیح کی ہے اور ایک جگہ پر آپ نے امام اعمش کی روایت کو منصور بن معتمر کی روایت پر فوقیت دیتے ہوئے فرمایا:
"
ورواية الأعمش أصح"
"اعمش کی روایت منصور سے زیادہ صحیح ہے"
(سنن الترمذی: تحت ح 70، 756)
24- امام ابو عبد الرحمن النسائی رحمہ اللہ (المتوفی 303 ھ) فرماتے ہیں:
"
ثقة ثبت"
"اعمش ثقہ ثبت ہیں"
(تہذیب الکمال للمزی: 12/89)
25- امام ابو بکر ابن خزیمہ رحمہ اللہ (المتوفی 311 ھ) نے اپنی صحیح اور کتاب التوحید میں بے شمار روایتیں امام اعمش سے روایت کی ہیں۔
اس سے معلوم ہوا کہ امام اعمش ابن خزیمہ کے نزدیک ثقہ صدوق تھے۔
26- امام ابو حاتم ابن حبان البستی رحمہ اللہ (المتوفی 354 ھ) نے امام اعمش کو اپنی کتاب الثقات میں ذکر کیا ہے (ت 3014)، اور ان سے کئی روایتیں اپنی صحیح میں روایت کی ہیں۔
27- امام ابو الحسن الدارقطنی رحمہ اللہ (المتوفی 385 ھ) نے امام اعمش کی ایک روایت کے تحت فرمایا:
"
صحيح , إسناده حسن ورواته كلهم ثقات"
"یہ حدیث صحیح ہے اس کی اسناد حسن ہے اور اس کے تمام راوی ثقہ ہیں"
(سنن الدارقطنی: ح 182 نیز دیکھیں ح 442، 443)
ایک دوسری جگہ آپ نے اعمش کے متعلق فرمایا:
"
هو أحفظ لحديث أبي وائل من واصل بن حيان"
"وہ ابو وائل کی حدیث کے واصل بن حیان سے بڑے حافظ ہیں"
(الالزامات والتتبع: 1/158)
اسی طرح فرماتے ہیں:
"
الأعمش أثبت من أشعث وأحفظ منه"
"اعمش اشعث سے زیادہ ثبت اور بڑے حافظ ہیں"
(سنن الدارقطنی: ح 3964)
28- امام ابو عبد اللہ الحاکم رحمہ اللہ (المتوفی 405) نے المستدرک میں بے شمار مقامات پر امام اعمش کی حدیث سے حجت پکڑی ہے اور ان کی اسانید کو صحیح کہا ہے۔
اور ایک جگہ پر فرماتے ہیں:
"
والأعمش أعرف بحديث الحكم من غيره"
"اعمش حکم کی حدیث کو دوسروں کی نسبت زیادہ جانتے ہیں"
(مستدرک: 1/501)
29- امام شمس الدین ذہبی رحمہ اللہ (المتوفی 748 ھ) امام اعمش کا تعارف کرواتے ہوئے فرماتے ہیں:
"
الإمام شيخ الإسلام شيخ المقرئين والمحدثين أبو محمد الأسدي الكاهلي مولاهم الكوفي الحافظ"
"امام، شیخ الاسلام، قارئیوں اور محدثین کے شیخ، ابو محمد الاسدی الکاہلی ان کے آزاد کردہ غلام، الکوفی، الحافظ"
(سیر اعلام النبلاء: 6/227)
ایک دوسری جگہ فرماتے ہیں:
"
الحافظ الثقة شيخ الإسلام أبو محمد سليمان بن مهران الأسدي الكاهلي... وكان رأسا في العلم النافع والعلم الصالح"
" حافظ، ثقہ، شیخ الاسلام، ابو محمد سلیمان بن مہران الاسدی الکاہلی۔۔۔ آپ علم نافع اور علم صالح میں سردار تھے۔"
(تذکرۃ الحفاظ: 1/116)
میزن میں فرماتے ہیں:
"
أحد الائمة الثقات، عداده في صغار التابعين، ما نقموا عليه إلا التدليس"
"آپ آئمہ ثقات میں سے تھے۔ آپ کا شمار صغار تابعین میں ہوتا ہے۔ آپ پر کسی قسم کی کوئی جرح نہیں ہے سوائے تدلیس کے"
(میزان الاعتدال: 2/224)
30- حافظ ابن حجر العسقلانی رحمہ اللہ (المتوفی 852 ھ) فرماتے ہیں:
"
ثقة حافظ عارف بالقراءات ، ورع ، لكنه يدلس"
"آپ ثقہ حافظ تھے اور علم قراءات سے خوب واقف اور پرہیزگار تھے۔ لیکن آپ تدلیس بھی کرتے تھے۔"
(تقریب التہذیب: 2615)
اور ایک دوسری جگہ فرماتے ہیں:
"
وهذا الإسناد مما ذكر أنه أصح الأسانيد وهي ترجمة الأعمش عن إبراهيم النخعي عن علقمة عن بن مسعود"
"یہ سند جیسا کہ ذکر کیا گیا ہے تمام اسانید میں سے سب سے صحیح اسناد ہے یعنی اعمش عن ابراہیم النخعی عن علقمہ عن ابن مسعود"
(فتح الباری: 9/107)
ایک دوسری جگہ فرمایا:
"
أبو معاوية هو محمد بن خازم بمعجمتين عن الأعمش سليمان بن مهران عن أبي صالح ذكوان تكرر كثيرا وهو من أصح الأسانيد"
"ابو معاویہ کا نام محمد بن خازم ہے دو نقطوں کے ساتھ، وہ اعمش سلیمان بن مہران سے روایت کرتے ہیں وہ ابو صالح ذکوان سے روایت کرتے ہیں، یہ سند کثرت سے پائی جاتی ہے، اور یہ تمام اسانید میں سب سے صحیح اسناد ہے۔"
(فتح الباری: 1/260)
نوٹ: دنیا کی کوئی ایسی صحیح، سنن، مسند، مستدرک، مستخرج، موطا، مصنف وغیرہ نہیں جس میں امام اعمش کی حدیث نہ ہو، کیونکہ امام اعمش کا شمار مجموعہ حدیث کے سب سے اہم اور مرکزی راویوں میں ہوتا ہے جیسا امام ابن المدینی نے صراحت کی ہے۔ اور آپ تمام محدثین و علماء کے نزدیک متفقہ طور پر ثقہ ہیں اور آپ کی احادیث سے حجت پکڑی جاتی ہے۔