یعنی نجات پانے والے خوش نصیبوں کا نمایاں وصف “جذبہ ٴ اطاعت “ ہے کہ جب وہ حکم الٰہی یا فرمانِ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سنتے ہیں تو بلاتاخیر و غیر مشروط سمعنا سے متّصل اطعنا بھی کہتے ہیں، ایسا نہیں کہتے کہ ہم سن لیا اور اب اپنی عقل پر پیش کری گے۔ اس نے درست کہا تو مان لیں گے، ورنہ نہیں۔ ایسے لوگ دین اسلام کو عقل کے تابع اور اپنی خواہشات کے مطابق “ماڈرن” بنانا چاہتے ہیں، ایسے لوگوں کے بارے میں ارشادِ ربانی ہے:“ایمان والوں کا قول تو یہ ہے کہ جب انہیں اس لئے بلایا جاتا ہے کہ اللہ اور اس کا رسول ان میں فیصلہ کر دیں تو وہ کہتے ہیں کہ ہم نے سنا اور مان لیا، یہی لوگ کامیاب ہونے والے ہیں، جو بھی اللہ کی اور اس کے رسول ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی اطاعت کریں، خوفِ الٰہی رکھیں اور اس (کے عذابوں) سے ڈرتے رہیں وہی نجات پانے والے ہیں” (النور:52-51)
ایسے علماءِ سوء، علم و فہم اور سمجھ بوجھ رکھنے کے باوجود نہ صرف گمراہی اختیار کرتے ہیں،بلکہ اوروں کو بھی اپنا ناتمام علم اور ناقص عقلی دلائل سے گمراہ کرتے ہیں۔ ایسوں میں ایک نیا نام “ابوخالد ابراہیم المدنی” کا بھی شامل ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔ (اللہ کرے کہ وہ اللہ سے ڈر کر تائب ہو جائیں اور قرآن و حدیث کی طرف پلٹ آئیں) جو سلف صالحین، صحابہ و تابعین اور ائمہ و محدثین رحمہم اللہ کے طریقے سے نہ صرف الگ، جداگانہ سوچ اور من مانی تفسیر قرآن کرتے پھر رہے ہیں، بلکہ سلف صالحین کے طرز پر عقیدہ و عمل اختیار کرنے والوں کو “سلف پرست” کہہ کر مشرک قرار دے رہے ہیں۔اَفَرَءَ یْتَ مَنِ اتَّخَذَ اِلٰھہ ھَوَاہُ وَ اَضَلَّہُ اللهُ عَلٰی عِلْمٍ وَ خَتَمَ عَلٰی سَمْعِہ وَ قَلْبِہ وَ جَعَلَ عَلٰی بَصَرِه غِشَاوَةً فَمَنْ یَّھْدِیْہِ مِنْ بَّعْدِ اللهِ اَفَلَا تَذَکَّرُوْنَ (الجاثیة:۲۳)
“کیا آپ نے اسے بھی دیکھا جس نے اپنی خواہشِ نفس کو اپنا معبود بنا رکھا ہے اور باوجود علم کے اللہ نے اس کو گمراہ کر دیا اور اس کے کان اور دل پر مہر لگا دی ہے اور اس کی آنکھ پر پردہ ڈال دیا ہے اب ایسے شخص کو اللہ کے بعد کون ہدایت دے سکتا ہے؟ کیا اب بھی تم نصیحت نہیں پکڑتے”؟
اس طرح بہت سی آیاتِ مبارکہ اور احادیث شریفہ کے احکامِ خاص کو تبدیل کر کے عام کرنے کی کوشش کی۔ اور مخصوص خواتین کی فضیلت کو تمام خواتین کے لئے عام قرار دے کر انہیں نہ صرف مردوں کے برابر بلکہ مردوں سے بھی بلند تر بنا دیا۔ان کی پوری کتاب ایسے ہی مفروضے اور تضاد بیانی سے بھری پڑی ہے۔ قرآن و سنت کے دلائل تو کجا، اپنے کسی معقول مؤقف پر اپنے بنائے ہوئے اصول کو بھی دوہ نباہ نہ سکے۔ جیسا کہ باوجود تفسیر بالرائے کو گمراہی ماننے کے خود اس دلدل میں دھنسے ہوئے ہیں۔“رب العزت والجلال نے آسیہ امرأة فرعون اور مریم بنت عمران کی مثال دی ہے … اور جس چیز کو مثال بنا کر پیش کیا جاتا ہے اس میں صفت کامل و اکمل ہوتی ہے … یعنی عورت کا ایمان قرآن کی نظر میں کامل و اکمل ہے”۔ (امرأة القرآن، ص:15, 16)۔
سیدنا عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ فرماتے ہیں:“میری اُمت ستر سے زائد فرقوں میں منقسم ہو جائے گی ان میں سب سے بڑا فتنہ وہ ہو گا جو دین میں اپنی رائے سے قیاس کرے گا اور اللہ کے حلال کردہ اُمور کو حرام اور حرام کردہ اُمور کو حلال ٹھہرائے گا”۔ (جامع بیان العلم و فضلہ)۔
“اہل الرائے سنت کے دشمن ہیں ان کا احادیث سے کوئی تعلق نہیں” (ایضاً)۔
سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالٰی عنہ نے ارشاد فرمایا:امام ابوبکر بن ابی داؤد رحمہ اللہ نے فرمایا: “اہل الرائے ہی اہل بدعت ہیں” (ایضاً)۔
بعض احباب کا خیال تھا کہ اس کتاب کو پڑھ کر ہر ذی شعور علمی و ادبی اعتبار سے خود ہی اسے مسترد کر دے گا اس لئے جوب دے کر ایسے گمراہ کن نظریات کو اہمیت نہ دی جائے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:“تم عنقریب ایسی قوم کو پاؤ گے جو تمہیں قرآن کی دعوت دے گی درحقیقت ان کا قرآن سے کوئی تعلق نہ ہو گا” (جامع بیان العلم و فضلہ)۔
اور بعض دردمند اربابِ علم و دانش مختصراً و مفصلاً جوابات دے رہے ہیں اور اپنی تحریر و تقریر کے ذریعے اس فتنے کی تردید کر رہے ہیں۔ ان میں فاضل نوجوان مولانا عبدالوکیل ناصر ابن مولانا عبدالجلیل حفظہ اللہ نے بھی تفصیل کے ساتھ کتاب کا جواب اور موصوف کا بھرپور تعاقب کیا ہے۔وَاَعْرِضْ عَنِ الْجَاھِلِیْنَ
بقول شخصے: جوابِ جاہلاں باشد خموشی۔
۔ سچ فرمایا: رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے:کتاب “امرأة القرآن” (خاتونِ قرآن) کو دیکھ کر یقین نہیں آتا کہ یہ دین کا درد رکھنے والا سابق امیر تبلیغی جماعت، اور مصلحِ قوم اب اسلام کا نہیں بلکہ ماڈرن خواتین کا دلدادہ و دردمند ہے اور نہ معلوم کس کے نظریات کا حامل و حمایتی ہے؟ اور کیوں؟
اس حدیث میں اطلاع دی گئی ہے کہ ایک شخص صبح تو مومن ہو گا اور شام تک دنیاوی مفادات کے حصول کے لئے اپنے دین و ایمان کا سودا کر کے کافر ہو جائے گا۔ ایسے بہروپیوں کو دیکھ کر کوئی یہ ہرگز نہ سوچے کہ اتنے بڑے عالم، حافظ و قاری مدنی مکی صاحب نے جب یہ کہہ دیا، لکھ دیا اور (بہت سی صحیح احادیث کے خلاف) عمل کر کے روپ بدل کر دکھایا ہے تو اس مطلب ضرور ان کے پاس کوئی دلیل ہو گی؟“ایسے فتنوں کے آنے سے پہلے اعمالِ خیر میں جلدی کرو جو شب ِ تاریک کے مختلف ٹکڑوں کی طرح (پے در پے) ظاہر ہوں گے، (پھر ایسا ہو گا) کہ صبح کو آدمی مومن ہو گا اور شام کو کافر اور شام کو مومن ہو گا اور صبح کو کافر۔ (کیونکہ) وہ اپنے دین کو دنیا کے معمولی سامان کے عوض بیچ دے گا” (صحیح مسلم: کتاب الایمان)۔
ہماری دعا ہے کہ ان جوابات اور ازالہ ٴ شبہات کے ذریعے نہ صرف تمام مریضانِ “خاتونِ قرآن” صحت یاب ہوں بلکہ خود صاحب ِ “خاتونِ قرآن” کو بھی اللہ شفائے کامل و عاجل اور دائم و مستقر عطا فرمائے۔ویسے بھی موصوف تبدیلی کے بڑے ماہر ہیں، بقول ان کے کئی شاگردوں اور چاہنے والوں کے، کہ اب ابوخالد، عالم کم اور جینٹل مین زیادہ نظر آتے ہیں۔ انہوں نے اپنا لباس، شکل و صورت، رہن سہن، تنظیم و جماعت، تحریر و خطابت اور عقائد و نظریات سب کچھ یکسر تبدیل کر ڈالا اور اب پرانی کوئی شے سوائے نام کے دکھائی نہیں دیتی۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ وہ اپنا نام بھی تبدیل کر لیتے اور “شیخ ابوخالد ابراہیم المدنی” کی جگہ “مسٹر ابو خواتین ابرہہ صاحب ِ من مانی” رکھ لیتے تاکہ لوگوں کو انہیں اور ان کی تحریر و تقریر کو سمجھنے میں کوئی دِقت پیش نہ آتی، سادہ لوح عوام گمراہ نہ ہوتے۔ کیونکہ اس ماڈرن اسکالر کے نت نئے کارناموں کے ساتھ پرانا نام کچھ جچتا نہیں ہے۔
اب ہمارے غلام فطرت مستغربین، مستشرقین کے خود ساختہ افکار و نظریات کو اُمت مسلمہ میں رواج دینے کی بھر پور کوشش کر رہے ہیں صرف فکر اور نظریئے ہی کی حد تک نہیں بلکہ عملاً مدنیت و معاشرت کا وہ پورا نقشہ، قرآن کے جعلی پرمٹ پر درآمد کیا جا رہا ہے جو تہذب مغرب کا تشکیل کردہ ہے۔ مثلاً مخلوط سوسائٹی، مخلوط تعلیم، ترک حجاب، مرد و زن کی مطلق اور کامل مساوات، اندرون خانہ فرائض نسواں کے بجائے اسے بیرونِ خانہ مردانہ مشاغل میں منہمک کرنا، تعدد ازواج کو معیوب قرار دینا عورت کو خانگی مستقر سے اکھاڑ کر مردانہ کارگاہوں میں لا کھڑا کرنا، خانگی زندگی میں اس کے فطری وظائف سے اسے منحرف کر کے قاضی و جج بلکہ سربراہِ مملکت تک کے مناصب پر براجمان کرنا وغیرہ وغیرہ اور اب تو ماشاء اللہ صنف نازک کو “خلیفہ شرعی” قرار دیتے ہوئے انی جاعل فی الارض خلیفة سے استدلال کیا جا رہا ہے۔ان کھلے دشمنوں کے بعد اب ذرا ان نقاب پوش اعدائے اسلام کو بھی ملاحظہ فرمائیے جو اسلام کا لباد اوڑھ کر مصلحین کے روپ میں مسلم معاشرے میں نمودار ہوتے ہیں۔ ان کی فکر اسی سانچے میں ڈھلی ہوئی ہے جو ہمارے لئے اعداء دین نے پیش کی ہے ان کے رَدّ و قبول اور اخذ و ترک کے بنیادی معیار وہی ہیں جو ہمارے کھلے دشمنوں نے ایجاد کئے ہیں اگر وہ لوگ اپنی لغت پرستانہ مدنیت فاسدہ کی بدولت حجاب نسواں کو جاہلانہ رسم قرار دیتے ہیں تو یہ لوگ قرآن ہاتھ میں لے کر اُمت مسلمہ کو یہ باور کرانے میں کوشاں ہیں کہ پردہ ملاؤں کی ایجاد کردہ رسم ہے جس کا اسلا م سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ وہ لوگ اپنی شہوت پرستانہ تہذیب کی بدولت مرد و زن کی مخلوط سوسائٹی کے قائل ہیں تو یہ “فکر اسلامی” کے علمبردار مخلوط سوسائٹی کو قرآن سے کشید کر ڈالتے ہیں۔ فانا لله و انا الیہ راجعون۔
موصوف کی تصنیف “امراة القرآن” کے مطالعہ سے یہ بات بالکل واضح سمجھ آتی ہے کہ جناب بالکلیہ کھسک گئے ہیں یا پھر عورت فوبیا کا شکار ہو کر فکر آخرت و خوف الٰہی سے غافل ہو چکے ہیں اسی لئے اس تصنیف میں جابجا محدثین عظام پر کیچڑ اچھالنے کے ساتھ ساتھ صحیح احادیث کا بھی انکار کیا ہے جس کی جرأت سوائے شہوت کے دلدادہ اور گمراہ کن نظریات کے حامل شخص کے سوا کوئی نہیں کر سکتا۔اسی سلسلے کی ایک کڑی بڑے میاں تو بڑے میاں چھوٹے میاں سبحان اللہ کا مصداق بننے والے مولانا حافظ ابوخالد ابراہیم المدنی ہیں جن کے بارے میں کافی دنوں سے دلوں کو پریشان کر دینے والی خبروں سے کراچی کی فضا مکدر ہو رہی تھی اور پھر یہ خبر بھی سانحہ بن کر اہل توحید پر گری کہ موصوف نام نہاد مدنی مصلح بنتے بنتے افکارِ اغیار و تہذیب غربی کے دلدادہ ہو گئے ہیں اور اپنے خود ساختہ شہوت پرستانہ نظریات کے لئے بہت سی احادیث کو تختہ ستم بنا بیٹھے ہیں صرف یہی نہیں بلکہ قرآن مجید کو معیار اول قرار دیتے دیتے اسے اپنا ہتھیار بے بدل بھی بنا بیٹھے ہیں کہ جب چاہا جیسے چاہا اسے توڑ مروڑ کر مغربی تہذیب کا لبادہ اُڑھا دیا۔ انا لله و انا الیہ راجعون۔
مزید لکھتے ہیں یعنی عورت کا ایمان قرآن کی نظرمیں کامل اور اکمل ہے،عورت کے خلاف بہت بڑامحاذ قائم کر رکھا ہے اور عورت کو انتہائی حقیر اور کم تر جانا جاتا ہے اور اسے کم عقل اور کم دین ہی نہیں قرار دیا بلکہ اسے شر پسند، ناپاک، اچھوت اور شیطان بھی قرار دیا اور یہ سب کچھ دین کی آڑمیں کیا۔ (صفحہ:۱۶)۔تفسیر کرتے ہوئے لکھتے ہیں (یاد رہے یہ تفسیر بالرائے ہے جس کی موصوف بھی اپنی کتاب کے صفحہ ۱۰ پر مذمت کرچکے ہیں)۔ قرآن کریم کی سورة تحریم کی مذکورہ آیت ۱۲،۱۱ پر غور کرنے سے یہ بات نمایاں ہوتی چلی گئی کہ رب العزت و الجلال نے عورت کے ایمان کی مثال دی ہے، تمام نوع انسانی کے لئے (مرداور عورت)تاقیامت۔(صفحہ:۱۵، صفحہ:۳۵)۔
پھر لکھتے ہیں مذکورہ قوموں کی تہذیب کا جائزہ لیا تو یہ بات کھل کر سامنے آئی کہ عورت کے خلاف جو بھی کہا گیا، وہ انہی مذاہب باطلہ سے اثر انداز ہو کر کہا گیا۔ مثال کے طور پر عورت کو مارنا یہودی روایت ہے ۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ انہوں نے ایوب علیہ السلام کے واقع میں اس بات کو ثابت کیا کہ انہوں نے اپنی گھر والی کو ماراتھا۔ اس جھوٹی روایت کو ہماری تفاسیر میں شامل کردیاگیا۔ عورت ناپاک ہے یہ ہندو روایت ہے۔ وغیرہ وغیرہ۔ (صفحہ:۱۶، صفحہ:۱۷)۔
موصوف بھی تفسیر بالرائے کی مذمت ان الفاظ میں کرتے ہیں کہ:موصوف کا اس آیت سے استدلال ہے کہ ہر عورت اپنے ایمان میں کامل مکمل ہے جناب کی سینہ زوری اور تحکم ہے اور تفسیر بالرائے ہے۔ جس کی شدید ترین مذمت کی گئی ہے “ جس نے قرآن میں کوئی بات اپنی طرف سے کہی وہ اپنا ٹھکانا جہنم میں بنالے “ ……۔ (مشکوٰة کتاب العلم)
واقعی موصوف کا سیدہ آسیہ زوجہ فرعون اور مریم بنت عمران کے واقعے سے تمام عورتوں کو کامل و اکمل ایمان کی ڈگری و سند دینا مطلوب خدا نہیں۔ اور شاید موصوف کے بگڑنے کی یہی وجہ ہے۔ اور صحیح بخاری و صحیح مسلم میں کامل و اکمل صرف چار ہی عورتوں کو قرار دیا گیا ہے۔اس میں کسی بھی حوالے سے میرے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی بات اخذ نہیں کی گئی، بلکہ اپنی عقل کے پیمانے کے ذریعے سے قرآن کے الفاظ کو پرکھا گیااور سمجھا گیا۔ اس تفسیر کے ذریعے سے قرآنی الفاظ کو اپنے مطلب کا جامہ پہنا دیا گیا، اور اجماع امت ہو گیا کہ یہ تفسیر بھی قابل قبول ہے۔ یہیں سے بگاڑ شروع ہوا، اس لئے کہ قرآنی الفاظ کا وہ مفہوم لیاگیا جو مطلوب خدا نہ تھا۔ (صفحہ نمبر۱۰)
موصوف کا بلادلیل ہی قصہ ایوب علیہ السلام پراعتراض کرنا اور روایت کا انکار کرنا بلکہ اسے جھوٹی روایت قرار دینا، انتہا درجہ کی جسارت، قرآن سے لاعلمی ہے ۔جبکہ سورة صٓ میں یہ الفاظ موجود ہیں کہ:نیز ا س آیت میں کانت من القانتین وارد ہوا ہے کانت من القانتات نہیں اور یہ اس بات کی دلیل ہے کہ مرد عورت پر فوقیت رکھتا ہے ۔ (دیکھئے فتح القدیر از شوکانی)۔1…آسیہ امرأة فرعون۔
2…مریم بنت عمران۔
3…خدیجہ بنت خویلد۔
4…سیدہ عائشہ کی فضیلت اس طرح جس طرح شدید کی تمام انواع کے طعاموں پر۔
مزید لکھتے ہیں اس حقیقت سے انکار یقینا خدا کے تخلیقی منصوبے کی نفی ہے، بطور دلیل کے سورة بقرہ کی آیت نمبر۳۰ لکھی ہے۔ جس کا ترجمہ موصوف کے قلم سے یہ ہے۔یعنی انسان “مرد اور عورت” کی تخلیق میں بنیادی طور پر کوئی تفریق نہیں کی گئی، مردوعورت کے حوالے سے اس لئے جہاں قرآن میں انسان کا ذکر آتا ہے تو اس سے مراد مرد اور عورت دونوں ہی ہوتے ہیں (صفحہ:۲۲)۔
دوسری دلیل کے طور پر سورة التوبہ کی آیت نمبر ۷۱ ذکر کرتے ہیں جس کا ترجمہ ابتداءً یوں لکھتے ہیں، “اور مومن مرد اور عورتیں ایک دوسرے کے مددگار ہیں وہ بھلائی کا حکم دیتے ہیں اور برائی سے روکتے ہیں”۔ الی آخرہ۔قرآن کریم میں جب ارشاد ہوا کہ ہم زمین میں زمین کا خلیفہ بنانا چاہتے ہیں تو یقینا یہ خلافت صرف مرد کے لئے تو نہیں تھی بلکہ عورت بھی مکمل طور پر ذمہ دار تھی۔ اس لئے کہ یہاں انسان کی بات ہورہی ہے، جس سے یہ بات ثابت ہو گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے زمین کی خلافت میں عورت کو حصہ دارقراردیا ہے (صفحہ۲۳)۔
المیہ یہ ہوا کہ عورت کو دین کے نام پر گھر کی چاردیواری میں قید کردیا گیااور چادر کی آڑ میں اس منصبی ذمہ داری کو انجام دینے سے روکا گیا۔ جس کے نتیجے میں بگاڑ اور فساد بڑھتاگیا (صفحہ:۲۴،۲۵)۔
اسی طرح عورت کی خلقت کی کمزوری کو یہ کہہ کر بیان کیاگیا ہے کہ :’’ اِنِّیْ وَضَعْتُھَآ اُنْثٰی” اور “وَلَیْسَ الذَّکَرُ کَالْاُنْثٰی” یعنی میں نے لڑکی کو جنم دیاہے اور مرد تو یقینا لڑکی کی طرح نہیں ہوتا۔(سورة آل عمران)
سید نا قتادہ فرماتے ہیں کہ عورت کی خلقی کمزوری کا عالم یہ ہے کہ وہ اپنی حجت بیان کرتے کرتے اپنے خلاف ہی حجت قائم کر بیٹھتی ہے۔(فتح القدیر از شوکانی)“اَوَ مَنْ یُّنَشَّوٴُا فِی الْحِلْیَةِ وَ ھُوَ فِی الْخِصَامِ غَیْرُ مُبِیْنٍ”
کہ وہ زیب و زینت (زیورات) میں پروان چڑھتی ہے اور میدان حجت میں اپنا موقف بھی کھل کربیان نہیں کر سکتی۔(سورة زحزف)
جہاں تک تعلق ہے سورة بقرہ کی آیت ۳۰ سے خلافت المرأة کا تو یہ بھی جناب کی رائے پر مبنی اوہام ہیں، جس پر کوئی بھی دلیل قرآن و سنت اور فہم سلف صالحین سے جناب کے پاس نہیں ہے۔ نیز موصوف نے افتراء علی اللہ کا بھی ارتکاب کیا ہے جو شرک سے بھی بڑا گناہ ہے۔کسی بھی تفسیر مثلاً (تفسیر قرطبی، ابن کثیر، زادالمسیر، فتح القدیر وغیرہ) کو اٹھا کر دیکھ لیں، موصوف کابیان کردہ مفہوم کسی نے بھی بیان نہیں کیا۔ بلکہ لکھا ہے کہ یہاں خلیفہ سے مراد سیدنا آدم علیہ السلام ہیں۔کیونکہ اس کے بعد آدم علیہ السلام کا ذکر بالصراحت ہے۔ البتہ چونکہ آپ علیہ السلام ابو البشر ہیں، لہٰذاسب آپ کے بعد ہی آئیں گے تو آپ کے بیٹے جو نبوت سے (آپ کی طرح) سرفراز ہوں گے وہ خلیفہ فی الارض قرار پائیں گے۔اب ظاہر ہے نبوت و رسالت تو صرف اور صرف مردوں کے ساتھ ہی خاص ہے۔ مگر جو شخص عورتوں کی محبت میں اندھا ہو جائے اسے قرآنی آیات بھی نظر نہیں آتیں۔تجربہ بھی اس پر شاہد ہے کہ مردو عورت فطری و جبلی اعتبار سے فرق رکھتے ہیں۔ لہٰذا موصوف بس اپنی خود ساختہ رائے میں اکیلے ہی ہیں اور بس میں نہ مانوں کی ڈگری پر گامزن ہیں۔ویسے جناب سے ایک سوال ہے کہ کیا واقعی آپ میں اور آپ کی محترمہ میں کوئی فرق نہیں؟ ( اس حقیقت سے انکا ر یقینا خدا کے تخلیقی منصوبے کی نفی ہے)۔
آگے چل کر موصوف نے جو امربالمعروف اور نہی عن المنکر کے سلسلے میں مرد و عورت کو باہم دوست قرار دیا ہے ،تو بات وضاحت طلب ہے کہ موصوف کے ہاں اس سے کیا مراد ہے؟ تفاسیر مستندہ میں اس سے مراد دعوت الی اللہ کے منہج پر ان کے دلوں کا باہم متحد ہونا مراد ہے نہ کہ خفیہ اور سری حیا باختہ دوستیاں۔ پھر موصوف نے دعوت کے پہلو پرآکر چادر و چار دیواری کو ہدف تنقید بنایا ہے ۔امام قرطبی رحمہ اللہ نے خلافت و امامت کے سلسلے میں اس بات پر اجماع نقل کیا ہے کہ اس عہدہ کا حق دار صرف مرد ہی ہے۔(دیکھئے تفسیر قرطبی)
عورت کے ایمان کو کامل و اکمل ہی قرار نہیں دیا گیا بلکہ اس کے ایمان کو مثال قرار دیاگیا ہے تمام مرد اور عورتوں کے لئے تا قیامت… (صفحہ:۳۵)۔
اب کیا یہ واضح نہیں ہے کہ یہ صیغہ مذکر مردوں کو فوقیت دیتا ہے اور اگر اس میں عورتیں بھی شامل ہیں تو ازروئے مرد کی فرع ہونے کے اصلاً نہیں ۔ فافھم۔ان آمنوا بمثل ما آمنتم بہ (اگر تم ان کی طرح ایمان لے آوٴ تو کامیاب و ہدایت یافتہ ہوجاوٴگے۔)
سورة بقرہ (آیت ۲۴۱۔ ۲۴۰) جس میں اللہ تعالیٰ نے بیوہ اور مطلقہ عورت کے لئے ایک سال کاخرچہ شوہر کے ذمہ لازم قرار دیا ہے جو کہ اس کے مال میں سے وراثت تقسیم کرنے سے پہلے دیا جائے گا اور جو کہ وراثت سے الگ ہوگا۔ قرآن کا یہ حکم عورت کی نصرت اور تائید کے لئے تھا تاکہ عورت کو ہرممکنہ مشقت اور تکلیف سے بچایا جائے۔ لیکن بعد میں آنے والے مسلمانوں نے قرآن کے اس حکم کوکالعدم قراردیا اور اس کی جگہ ظلم و استبداد کے احکامات جاری کردیئے، جس کا مقصد عورت کو مجبوروبے بس و لاچار بنانا ہے۔