• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

امرأۃ القرآن کا تحقیقی جائزہ

کلیم حیدر

ناظم خاص
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,747
ری ایکشن اسکور
26,381
پوائنٹ
995
تحقیقی نظر
موصوف اگر تفسیر بالرائے کو واقعتا ہی ناجائز سمجھتے، تو کبھی بھی اس کا ارتکاب نہ کرتے مگر “ہیں کواکب کچھ نظر آتے ہیں کچھ” کی طرح مذبذ بین بین ذلک لا الی ھٰوٴلاء ولا الی ھوٴلاء کا مصداق دکھائی دیتے ہیں۔
جمہور مفسرین کا اس بات پر اتفاق ہے کہ موصوف کی ذکر کردہ سورة بقرہ کی آیت ۲۴۰ منسوخ ہوچکی ہے اور اس کی ناسخ آیت میراث اور آیت عدت اربعة اشھر و عشرا ہیں۔ (فتح القدیر، زادالمسیر،احسن البیان)
لہٰذا موصوف کا اس منسوخ آیت سے استدلال کرکے باعمل مسلمانوں کو ظالم قرار دینا، از خود ہی ظلم ہے اور موصوف کے مبلغ علم کی نشاندہی ہے کہ موصوف ناسخ ومنسوخ کو بھی نہیں جانتے۔
اور اگر وہ ناسخ و منسوخ کے (پرویزیوں کی طرح) منکر ہی ہیں تو ہم عرض کریں گے کہ ذرا آیت میراث، آیت عدت اربعة اشھر و عشراً اور آیت وصیة لازواجھم متاعاً الی الحول غیر اخراج میں تطبیق و توفیق اس طرح دیں کہ ہر ایک آیت پر صحیح صحیح عمل ہوجائے۔ مگر موصوف کبھی بھی اسے حل نہ کرسکیں گے۔ ان شاء اللہ۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,747
ری ایکشن اسکور
26,381
پوائنٹ
995
شبہات و جواب شبہات
اس عنوان کے تحت جناب حافظ (ابوالخواتین) صاحب رقم طراز ہیں:
شبہ:دوزخ میں سب سے زیادہ تعداد عورتوں کی ہو گی۔
جواب شبہ:اس میں موصوف سورة بقرہ کی آیت ۸۲۔ ۸۱ بمعہ ترجمہ لکھتے ہیں اور پھر اس سے استدلال کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ :
قرآن کی یہ بنیادی تعلیمات میں سے ہے کہ جنت یا دوزخ میں جانا عمل پر منحصر ہے۔ لہٰذا یہ کہناکہ عورتوں کی تعداد دوزخ میں زیادہ ہوگی۔ محض عورت ہونے کی بنیاد پر سراسر بے بنیاد ہے جس سے ان لوگوں کی غیرفطری نفسیات کا اشارہ مل رہا ہے۔ جنہوں نے ہر موقع پر عورت کو حقیر و کمتر ثابت کرنا چاہا ہے (صفحہ:۵۰، ۵۱)۔
مزید لکھتے ہیں! نافرمانی اور انکار کا جذبہ جتنا مرد میں ہے اتنا ہی عورت میں پایا جاتا ہے۔
پھر مزید لکھتے ہیں! لہٰذا اللہ تعالیٰ جو عدل و انصاف کا مظہر حقیقی ہیں اور میرے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم جو سراپا عدل و انصاف کا نمونہ ہیں، کیا وہ ایسی کوئی بات کرسکتے ہیں؟ جو عدل و انصاف کے تقاضوں کے خلاف ہو؟ ہرگز نہیں! یہ اللہ تعالیٰ اور ہمارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر کھلا جھوٹ اور صریح بہتان ہے(صفحہ:۵۲، ۵۳)۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,747
ری ایکشن اسکور
26,381
پوائنٹ
995
تحقیقی نظر
اس میں کوئی شک نہیں کہ جنت یا دوزخ میں جانااعمال پر منحصر ہے اور اسی بنیاد پر احادیث میں بھی جنت کی بشارت و جہنم کی وعیدیں وارد ہوئی ہیں۔ لہٰذا اس میں کوئی اشکال نہیں ہے۔ مگر موصوف نے اپنی طرف سے ہی لکھ دیا کہ محض عورت ہونے کی بنیاد پر عورت کو دوزخ کی وعید ملنا بے بنیاد ہے۔ جی ہاں یہ بات سر تاپیر بے بنیاد ہے، (جیسے کہ موصوف کے تمام نظریات و عقائد) کسی بھی صحیح روایت میں محض عورت ہونے کی بنیاد پر عورتوں کے لئے وعید جہنم نہیں ہے۔
لہٰذا موصوف اس غلط بات کو حدیث کی طرف منسوب کرکے من کذب علی متعمداً فلیتبوأ مقعدہ من النار کی زد میں آتے ہیں اور جہنم کی وعید کے مستحق ٹھہرتے ہیں۔ انہیں چاہئے کہ وہ بارگاہ الٰہی میں توبہ کریں اور اپنی آخرت خراب نہ کریں۔
اور یہ بھی بڑی ہی ناشائستہ اور غیر فطری نفسیاتی حرکت کا اشارہ ہے کہ زبردستی ایک معنی حدیث سے کشید کرکے حدیث ہی پر اعتراض جڑدیا۔ سآء ما یحکمون
باقی رہا کہ عورتیں جہنم میں زیادہ جائیں گی۔ اس کا جواب دینے سے قبل یہ غور و فکر کرلیں کہ کیاعورتوں کی تعداد دنیا میں مردوں سے زیادہ نہیں ہے۔ تو اگر از روئے اعمال بد وہ جہنم میں زیادہ ہوگئیں تو اس میں اعتراض کیسا؟
موصوف نے ڈھکے چھپے انداز میں جس حدیث کو کھلا جھوٹ اور صریح بہتان قرار دیاہے وہ حدیث صحیح بخاری میں کئی جگہ مختصراً و مطولاً وارد ہوئی ہے اور موصوف اپنی رائے سے ہی جو چاہتے ہیں فتویٰ صادر کردیتے ہیں ۔ حالانکہ جو معنی موصوف نے اس سے کشید کیا ہے وہ ہر گز ہرگز نہ تو حدیث میں ہے نہ اس سے اخذ کیا جاسکتا ہے۔ لہٰذا اس صورت میں موصوف کے اعتراض کی کیا حیثیت رہ جاتی ہے وہ قارئین سمجھ سکتے ہیں۔
صحیح بخاری میں اس کی وضاحت ہے کہ جب رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں کو جہنم کی وعید سنائی تو عورتوں نے اس کی وجہ دریافت کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم لعنت ملامت زیادہ کرتی ہو اور اپنے خاوندکی نافرمانی بھی کرتی ہو۔(دیکھئے صحیح بخاری کتاب الحیض و کتاب الزکوٰة وغیرہ)
اب ظاہر ہے جہنم میں کثرت کی وجہ یہ دو چیزیں ہیں جن کی مرتکب عورتیں ہیں اور یہ ان کی بد عملی ہے اور بد عملی کے سبب جہنم میں جانا تو موصوف کے ہاں بھی تسلیم شدہ ہے، اگرچہ بدعملی کا ارتکاب مردہی کیوں نہ کرے۔ لہٰذا موصوف کا اعتراض بالکل بے جا اور بودا ہے۔
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے۔ من عمل سوء اً یجزیٰ بہ جو برائی کرے گا اس کی سزا بھی بھگتے گا۔
شبہ: خدا کی نافرمانی نہیں بلکہ شوہر کی نافرمانی موجب جہنم ہوگی
جواب شبہ: لکھتے ہیں: اللہ تعالیٰ اور میرے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کی فرمانبرداری ہی موجب جنت ہے اور ان کی نافرمانی دوزخ کی موجب ہے ۔بطور حوالہ سورة نساء کی آیت ۱۴۔۱۳ معہ ترجمہ تحریر کرتے ہیں پھرتفسیربالرائے کرتے ہوئے کہتے ہیں! اب یہ کہنا کہ عورتوں کی تعداد دوزخ میں زیاد ہ ہو گی اس لئے نہیں کہ وہ اللہ کی نافرمانی کرتی ہیں، بلکہ اس لئے کہ وہ شوہر کی نافرمانی کرتی ہیں۔ جس سے یقیناشوہرکا مرتبہ خدا سے بڑھا دیاگیا جو کہ اللہ کی بہت بڑی توہین ہے اور یہ ایک ایسی بات ہے جس کوکوئی بھی سلیم الطبع قبول نہیں کرسکتا۔ لیکن بعض نے اتنی بڑی ناحق بات میرے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم سے منسوب کردی (صفحہ:۵۴، ۵۵)۔
مسلم خاتون کو جب پتہ چلے گا کہ دوزخ میں زیادہ تعداد ان کی ہے، تو نیک عمل کا جذبہ کمزور ہوتاچلا جائے گا اور نتیجہ یہ ہوگا کہ عورتیں اللہ سے بدظن ہو کر اللہ تعالیٰ سے دور ہوتی چلی جائیں گی…وغیرہ وغیرہ (صفحہ:۵۶)۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,747
ری ایکشن اسکور
26,381
پوائنٹ
995
تحقیقی نظر
موصوف نے گذشتہ حدیث ہی کے ٹکڑے کو لے کر یہ باور کرانے کی کوشش کی ہے کہ گویا یہ دوسری کوئی حدیث ہے اور اس طرح وہ جہاں اپنی علمیت کی دھاک بٹھانا چاہتے ہیں وہاں یہ بھی ہو گا کہ ان کی بے وزن کتاب کے صفحات بڑھ جائیں گے اور کتاب کچھ وزن دار ہوجائے گی۔ اور اس طرح جناب ایک طفل کی طرح خوشی سے قلقاریاں ماریں گے۔موصوف نے تفسیر بالرائے کے دوران حدیث سے پھر خود ساختہ معنی لے کر اس پر اعتراض جڑدیاہے، جو کہ انتہائی مذموم و مسموم حرکت ہے۔ ظاہر ہے جب معنی ہی بدل کر کشید کیا ہے تو اب وہ حدیث کہاں رہی وہ تو جناب کے اضغاث احلام بن گئی۔حدیث میں ایسی کوئی بھی بات نہیں کہ عورت اللہ کی نافرمانی کرے اور شوہر کی نافرمانی نہ کرے یانعوذ باللہ شوہر اللہ سے بھی بڑھ کرہے یہ سراسر جناب کا اتہام و بہتان ہے۔
فَوَیْلٌ لَّہُمْ مِّمَّا کَتَبتْاَا اَیْدِیْہِمْ وَ وَیْلٌ لَّہُمْ مِّمَّا یَکْسِبُوْن (البقرہ)
موصوف کو یہ تسلیم ہے کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے محبوب پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی موجب جہنم ہے تو کیااللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے شوہر کی اطاعت (معروف کاموں میں) کا حکم نہیں دیا اور اگراب عورت شوہر کی اطاعت نہ کرے تو کیا یہ شوہر کی نافرمانی سے قبل اللہ و رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی نہیں ہوگی؟ اگر ہے تو پھر عورت کو دوزخ کی وعید سے کون بچا سکتا ہے؟
اللہ تعالیٰ نے عورت کو شوہر کی اطاعت کا پابند کیا ہے:
“فَاِنْ اَطَعْنَکُمْ فَلااَا تَبْغُوْا عَلَیْہِنَّ سَبِیْلااًاط اِنَّ اللهَ کَانَ عَلِیًّا کَبِیْرًا” (النساء)
اللہ کے محبوب پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم نے شوہر کی اطاعت کا عورت کو پابند کیا ہے فرمایا ! جو عورت پانچ نمازیں پڑھے، رمضان کے روزے رکھے، اپنی عزت و عصمت کی حفاظت کرے، اپنے شوہر کی اطاعت کرے، وہ جس دروازے سے چاہے گی جنت میں داخل ہو جائے گی۔ (مسند احمد)
فرمایا بہترین عورت تو وہی ہے
“جو خاوند کو خوش کردے، اس کی اطاعت کرے اور اپنے نفس و مال میں اس کی خلاف ورزی نہ کرے جسے وہ ناپسند کرے۔” (نسائی)
فرمایا کہ شوہر کی نافرمان عورت کی نماززقبول نہیں ہوتی۔ (الترغیب و الترہیب)
لہٰذا شوہر کی اطاعت سے اعراض درحقیقت احکام الٰہی سے اعراض ہے اور یہ بد عملی موجب جہنم ہے۔باقی رہا کہ اس طرح وہ نیکی کم کریں گی۔ اللہ سے دور ہوں گی… وغیرہ وغیرہ۔
تو اس سلسلے میں عرض ہے کہ جناب دینی علوم سے بالکل ہی بے بہرہ ہیں اور امام الضلالة بنے ہوئے ہیں۔ کیا انہیں اتنا بھی نہیں معلوم کہ دعوت دین کے دو ہی پہلو ہیں انذار و تبشیر یا دوسرے لفظوں میں ترغیب و ترہیب۔ اور عورتوں کے معاملے میں بھی قرآن و سنت کے دلائل ہر دو طریقوں سے وارد ہوئے ہیں ۔ زیرِ نظر حدیث میں انذار و ترہیب ہے اور یہ اصلاح کا ایک انداز ہے اس طرح عورتوں کی اصلاح بدرجہ اولیٰ ہوتی دیکھی جا سکتی ہے۔
لہٰذا جناب کی ساری تاویل اور تفسیر بالرائے سراسر جھوٹ و دجل و فریب ہے اور علمی انداز کی موت کے مترادف ہے۔ اعاذنا اللہ منہ۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,747
ری ایکشن اسکور
26,381
پوائنٹ
995
شبہ:شوہر کو سجدہ
لکھتے ہیں!
اس شبہ میں جھوٹی اور من گھڑت روایات کے سہارے اس غیرفطری عمل کو ثابت کیا جاتاہے جس کا مقصد عورت کی شخصیت کی مکمل نفی اور اس کو محض کنیز اور تابعداری کا مرتبہ دیناہے۔
جواب شبہ کے تحت رقم طراز ہوتے ہیں کہ سجدہ صرف اللہ کے لئے حق اور زیبا ہے اور ان کے علاوہ کسی کو بھی سجدہ کرنا شرک ہے…بطور حوالہ سورة رعد کی آیت ۱۵ اور سورة نحل کی آیت ۴۹ بمع ترجمہ تحریر کی ہیں (صفحہ:۵۷)۔
تفسیر بالرائے کرتے ہیں کہ کچھ لوگوں نے محنتیں اور کاوشیں کرکے باطل عمل کو مسلمانوں میں رائج کردیا۔ ان لوگوں کو عورت کی شکل میں اپنا شکار مل گیا…اس کو حکم دیا گیا کہ وہ سجدہ کرے اپنے خاوندکے لئے اور اس کو اسلام کا لبادہ پہنایا گیا۔ میرے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم سے جھوٹی بات منسوب کر کے…، اورایک عورت کے الگ الگ وقت میں الگ الگ خاوند ہوسکتے ہیں تو وہ ان میں سے کس کس شوہر کو سجدہ کرے گی؟ وغیرہ وغیرہ ۔(صفحہ:۵۸، ۵۹)۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,747
ری ایکشن اسکور
26,381
پوائنٹ
995
تحقیقی نظر
یہاں بھی حافظ صاحب بلا دلیل ہی ایک حدیث کو جھوٹی اور من گھڑت قرار دے بیٹھے ہیں اورسجدے کو غیر فطری عمل بھی قرار دے دیا۔ استغفراللہ کیا موصوف سجدہ نہیں کرتے؟
موصوف سورة رعد اور سورة نحل سے استدلال کرکے غیر اللہ کے لئے سجدہ کو شرک قرار دیتے ہیں بالکل صحیح بات ہے، مگر موصوف اپنے قاعدے کے تحت ایسا کرنے سے پھنس جائیں گے کیونکہ ان کے ہاں تو سب سے پہلے قرآن ہی پیمانہ و کسوٹی تفسیر ہے اور قرآن میں سورة یوسف سے غیر اللہ کے لئے سجدہ ثابت ہوتا ہے ۔ وَخَرُّوْا لَہ سُجَّدًا
اسی طرح سورہ بقرہ اور دیگر کئی سورتوں میں فرشتوں کا سید نا آدم علیہ السلام کو سجدہ کرنا وارد ہواہے۔ موصوف کے ہاں صرف قرآن ہی اگر حجت ہے تو انہیں کوئی حق نہیں پہنچتا کہ وہ غیر اللہ کے لئے سجدہ کوشرک قرار دیں۔ فافھم۔
جس حدیث کو موصوف اپنی رائے رذیلہ سے جھوٹی قرار دیتے ہیں وہ حدیث ہمیں فی الوقت صحیح الترغیب و الترہیب میں ملی ہے،
جس میں الفاظ ہیں۔لوکنت آمراً احداً ان یسجد لاحد.. (۱۹۴۰ الترغیب و الترہیب) ۔
یعنی نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر میں کسی کو کسی (غیراللہ) کے لئے سجدہ کا حکم دیتا، تو عورت کو حکم دیتاکہ وہ اپنے خاوند کوسجدہ کرے۔
اب بتائیں اس میں سجدہ کرنے کا حکم کہاں ہے؟ کیونکہ امت محمدیہ میں صرف اللہ کو ہی سجدہ رواہے۔ لہٰذا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عورت کو بھی خاوند کے لئے سجدہ کا حکم نہیں دیا۔ اگر دیتے تو اوربات تھی۔ اسی مفہوم کی تمام احادیث صحیح الترغیب و الترہیب میں دیکھی جا سکتی ہیں۔ لہٰذا حافظ صاحب کی بات سراسرغلط فہمی پر مبنی اور حدیث دشمنی کی وجہ سے حدیث نہ سمجھنے کا نتیجہ ہے۔
باقی رہا الگ الگ شوہر کو الگ الگ سجدہ۔ استغفراللہ موصوف کس خاندان سے تعلق رکھتے ہیں کیاان کے ہاں ایک عورت ایک وقت میں ایک سے زیادہ شوہر بھی رکھتی ہے، تو پھر موصوف کا اپنی محترمہ کے بارے میں کیا خیال ہے؟ (یاد رہے کہ طلاق بتہ دینے کے بعد شوہر کا تعلق عورت سے ختم ہوجاتاہے وہ شوہر ہی نہیں رہتا)۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,747
ری ایکشن اسکور
26,381
پوائنٹ
995
شبہ پردہ
لکھتے ہیں! اس شبہ میں خود ساختہ پردے کے مفاہیم بنائے گئے اور ان کو عورت پر چسپاں کیا گیاجس کے نتیجے میں پورا انسانی معاشرہ، ہیجانی کیفیت کا شکار ہوگیا۔
جواب شبہ کے تحت لکھتے ہیں! اس حقیقت ظاہرہ کو مان لیا جائے کہ کتاب و سنت میں جو پردہ کے احکامات ہیں، وہ بالکل مختلف ہیں۔ ان پردے کے احکامات سے جو ہمارے مروجہ دین میں نمایاں ہیں۔ بہرکیف یہ مسئلہ ازل سے اختلافی رہاہے۔ (صفحہ:۶۱)۔
چہرے کے پردے سے متعلق لکھتے ہیں: گھر میں عورت کے پردے کے احکامات “سورة نور” میں بیان کردیئے گئے ہیں اور گھر سے باہر جاتے وقت پردے کے احکامات “سورة احزاب” میں بیان کر دیئے گئے ہیں جس میں کہیں بھی چہرے کے پردے کا ذکر صریح الفاظ میں نہیں ملتا۔آگے سورہ احزاب کی آیت ۵۹ بمع ترجمہ نقل کی ہے (صفحہ:۶۲)۔
چہرے کے عدم پردے پر بطور دلیل قصہ سیدہ مریم علیہا السلام سے استدلال کرتے ہوئے سورہ مریم کی آیت ۲۷ لکھتے ہیں۔ پھر تفسیر بالرائے سے کہتے ہیں، اس کا مطلب یہ ہوا کہ انہوں نے تمام عورتوں میں سے مریم کو کیسے پہچانا؟ یقینی طور پر ان کے چہرے سے…وہ اپنا چہرہ کھول کر رکھتی تھیں۔
پھر سورة نور کی آیت ۳۱ بمع ترجمہ نقل کرتے ہیں اور حافظ ابن کثیر کی تفسیر سے سیدنا ابن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہ کا قول لکھتے ہیں کہ زینت سے مراد چہرہ ہے (صفحہ:۶۳ تا ۶۶)۔
دلیل چہارم کے تحت (حالت احرام میں چہرہ کھلا رکھنا حکم ہے) اس سے استدلال کرتے ہیں کہ چہرہ ہر وقت ہی کھلا رہے گا۔ (مفہوماً) (صفحہ:۶۶)۔
دلیل ششم کے تحت صحیح بخاری کتاب النکاح کی ایک حدیث سے استدلال کرتے ہیں جس میں شادی کرنے کے ارادے سے عورت کو دیکھنے کا جواز موجود ہے… ثابت ہوا کہ عورت کا چہرہ کھلارہتا تھا۔ (ملخصاً) (صفحہ:۶۷)۔
مزید سورة نور کی آیت ۳۰ سے استدلال کرتے ہیں کہ اپنی نگاہوں میں سے کچھ نگاہیں نیچے رکھے تواس حکم کی ضرورت نہیں ہوتی اگر عورت مکمل چھپی ہوتی۔ جس سے ثابت ہو رہا ہے کہ عورت کے چہرے کا پردہ نہیں ہے۔ آخر میں پردے کے حامیوں کو عورت دشمن قرار دیا ہے اور ان کے مسئلے کو دھوکہ سے تعبیر کیا ہے۔ (صفحہ:۶۷)۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,747
ری ایکشن اسکور
26,381
پوائنٹ
995
تحقیقی نظر
موصوف (ابوالخواتین صاحب) کی ہم نے چیدہ چیدہ عبارتیں مفہوم سے متعلق جمع کی ہیں اب تحقیقی نظر سے ان نکات وعبارات کا جائزہ پیش خدمت ہے ۔
ہمیں افسوس ہے کہ موصوف کی اردو کیونکہ کمزور ہے اور لکھنے لکھانے کا انھیں ملکہ بھی حاصل نہیں ہے۔ اس لئے بسا اوقات بڑی عجیب کیفیت سے دوچار ہونا پڑتا ہے۔
مو صوف نے پردے کے صحیح مفہوم سے ہیجانی کیفیت کے پیدا ہونے کا عندیہ دیا ہے۔ حالانکہ معاملہ بالکل برعکس ہے ہیجانی کیفیت تو عدم پردہ کی صورت میں پیدا ہوتی ہے۔ موصوف عورت کی محبت کی بیماری میں اس طرح مبتلا ہیں کہ اس مصرعہ کا مصداق بنے ہوئے ہیں۔
بک رہا ہوں جنون میں کیا کیا
کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئی
موصوف (۱۵سو سال کے عرصے میں ) واحد شخص ہیں، جنہوں نے ماڈرن ازم کی فحاشی کو سپورٹ کرنے کے لیے یہ انکشاف کیا ہے کہ مروجہ دین میں پردہ کا تصور اس تصور سے مختلف ہے، جو قرآن وسنت کی شکل میں ہے ۔ یہ انکشاف کس اشارے پر کیا گیا ہے، یہ راز صرف موصوف ہی جانتے ہیں ۔ یہ بھی خوب لکھا ہے کہ یہ مسئلہ ازل سے اختلافی ہے ۔سبحان اللہ کیا مبلغ علم ہے جناب کا ‘اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس ازلی اختلاف کو جناب کی ذات والا صفات غیر ازلیہ ختم کر سکتی ہے؟اگر نہیں توپھرانتشار کیوں برپا کیا؟ کیا لفظ ازل کی حقیقت موصوف جانتے ہیں؟
موصوف نے چہرے کے پردے سے متعلق لکھا ہے کہ قرآن میں صریح الفاظ میں نہیں ملتا۔ تو کیا ہم پوچھ سکتے ہیں کہ جناب کیا غیر صریح الفاظ میں اس کا ذکر ملتا ہے۔آپ وہ غیر صریح آیت بتا دیں ہم اس سے استدلال کر کے آپ سے چہرے کا پردہ کروالیں گے۔ ان شاء اللہ
قصہ مریم سے استدلال بھی جناب کو مفید نہیں ہو سکتا۔ کیونکہ وہ (شرع من قبلنا) ہم سے قبل کی شریعت ہے اور ہم اپنی ہی شریعت کے تابع ہیں۔ “لکل جعلنا منکم شرعة و منھاجاً”د وسری بات یہ ہے کہ جناب نے تمام عورتوں کی قید کے ساتھ اس قصہ کو لکھا ہے
تو کیا بتانا گوارہ کریں گے یہ قید کس آ یت قرآنی میں وارد ہوئی ہے؟
تجربہ اس بات پر شاہد ہے کہ جان پہچان والوں کو انسان بنا چہرہ دیکھے ہی پہچان وجان لیتا ہے۔ خواہ وہ پردے ہی میں کیوں نہ ہو، اسکی پہچان کے قرائن ہوتے ہیں جو اس بات کا تقاضہ کرتے ہیں کہ یہ فلان ہے۔
لہٰذا اس صورت میں جناب کا سیدہ مریم کو یہ کہنا کہ وہ چہرہ کھلا رکھتی تھیں فقط رجما بالغیب ہے۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہ سے زینت کا ترجمہ جناب نے چہرہ نقل کیا ہے۔ تو اس کا معنی یہی ہو گا کہ ولایبدین زینتھن الا… اور وہ اپنے چہروں کو ظاہر نہ کریں۔ فافھم۔
تو گویا چہرے کا پردہ ثابت ہو گیا۔
“لو آپ اپنے دام میں صیاد آگیا”​
جہاں تک حالت احرام میں چہرہ کھلا رکھنے کا تعلق ہے تو یہ از خوددلیل ہے کہ اس حالت سے قبل چہرہ ڈھنکا ہوتا تھا۔ ورنہ کھول رکھنے کا حکم کس لیے تھا، اگر پہلے ہی کھلا تھا؟ فافھم۔
نکاح کے لیے دیکھنے کی گنجائش از خود دلیل ہے کہ ہر شخص نہ دیکھے اور اس حکم میں کسی حد تک عورت کے لیے چہرہ دکھانے کی بھی اجازت پائی جاتی ہے۔ کیونکہ یہاں تو مسئلہ ہی نکاح کا ہے۔ فلیتدبر
اب رہا یہ کہ پھر مردوں کو غض بصر کا حکم کیوں دیا ہے تو اس سلسلے میں عرض ہے کہ مولانا مودودی لکھتے ہیں۔ (جو جناب کے کسی حد تک ہم مشرب ہیں)۔
اس سے کسی کو غلط فہمی نہ ہو کہ عورتوں کو کھلے منہ پھرنے کی عام اجازت تھی۔ تبھی تو غض بصر کا حکم دیاگیا … یہ استدلال عقلی حیثیت سے بھی غلط ہے اور واقعے کے اعتبار سے بھی۔ عقلی حیثیت سے یہ اس لیے غلط ہے کہ چہرے کا پردہ عام طور پر رائج ہو جانے کے باوجود ایسے مواقع اچانک پیش آ سکتے ہیں، جبکہ اچانک کسی مرد اور عورت کا آمنا سامنا ہو جائے اور ایک با پردہ عورت کو بھی بسا اوقات ایسی ضرورت لاحق ہو سکتی ہے کہ وہ منہ کھولے۔ پھر مسلمان عورتوں میں پردہ عام طور پر رائج ہو جانے کے باوجود بہر حال غیر مسلم عورتیں تو بے پردہ ہی رہیں گی۔
لہٰذا محض غض بصر کا حکم، اس بات کی دلیل نہیں بن سکتا کہ یہ عورتوں کے کھلے منہ پھرنے کو مستلزم ہے اور واقع کے اعتبار سے یہ اس لیے غلط ہے کہ سورة احزاب میں احکام حجاب نازل ہونے کے بعد جوپردہ مسلم معاشرے میں رائج کیا گیا تھا اس میں چہرے کا پردہ شامل تھا۔ (تفہیم القرآن)
احادیث کا مطالعہ کرنے والے جانتے ہیں کہ بعض جگہ ذکر ہوتا ہے کہ یہ مسئلہ قبل نزول حجاب کا ہے اور یہ بعد نزول حجاب کا ہے۔ اب ایمانداری سے غور کریں اور بتائیں اس حجاب سے کیا مراد ہے؟ جسم کے کپڑے…ہر گز نہیں بالکل نہیں، کپڑے تو پہنے ہی جاتے ہیں پھر کیا مراد لیں گے اس حکم حجاب سے؟ یقینا صرف اور صرف چہرے کا پردہ۔ فافھم۔
آخر میں عرض ہے کہ حقیقی معنوں میں وہی لوگ عورتوں کے دشمن ہیں، جو انھیں بے پردہ وبے حیابناکر اور مصنوعی مرد کا درجہ دیکر، باہر لانا چاہتے ہیں اور اپنی شہوت پر ستانہ انا وھویٰ کو تسکین دیناچاہتے ہیں۔
جبکہ پردے کے حامی یدنین علیھن من جلا بیبھن، فاسئلوھن من وراء حجاب اور وقرن فی بیو تکن ولا تبر جن تبر ج الجا ھلیة الاولی کے قرآنی احکام کے عامل وداعی ہیں۔ والحمد للہ علی ذللک۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,747
ری ایکشن اسکور
26,381
پوائنٹ
995
شبہ ور غلانہ
لکھتے ہیں!
اس شبہ میں عورت کو برائی کی طرف دھکیلنے والی قرار دیا جاتا ہے اور اس کے لیے بخاری شریف کتاب “بدء الخلق” سے حوالہ دیا جاتا ہے۔ کہ شیطان نے پہلے ہماری ماں حوا کو ورغلایا اورپھر انہوں نے آدم علیہ السلام کو اکسایا جو کہ مسیحی روایت ہے (صفحہ:۷۰)۔
جواب شبہ کے تحت لکھتے ہیں کہ کتاب وسنت کی روشنی میں بالکل اس بات کی نفی ہو رہی ہے۔
پھر سورہ طہٰ کی آیت ۱۲۱،۱۲۰ بمع ترجمہ تحریر کرتے ہیں اور پھر تفسیر با لرائے کرتے ہوئے ارشادفرماتے ہیں!
اس آیت سے واضح ہو رہا ہے کہ شیطان نے جناب آدم علیہ السلام کو ہی ورغلایا تھا اور انھوں نے ہماری ماں حوا کو اکسایا تھا… غور طلب بات یہ ہے کہ قرآن میں ہماری ماں حوا کے قصور کا تذکرہ ہی نہیں بلکہ جناب آدم علیہ السلام کو قصور وار ٹھہرایا جا رہا ہے… (صفحہ:۷۱)۔
ایک مسیحی روایت کو کس طریقے سے صحیح بخاری میں درج کر دیا گیا… اگر ایک روایت درج کی ہے، تو یقینا اور بھی کئی ہوں گی۔ با لخصوص عورت کی تذلیل کے حوالے سے، اس لیے ہمیں قرآن کریم کوپیمانہ حق اور دین کا بنیادی ماخذ قرار دینا چاہیے اور احادیث کو قرآن کے پیمانے میں جانچنا چاہیے۔ رہا ورغلانے کا مسئلہ تو یہ ایک شیطانی دباؤ کے تحت ہوتا ہے جو مردوعورت دونوں کے لیے یکساں طورپرقابل امکان ہے (صفحہ:۷۲)۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,747
ری ایکشن اسکور
26,381
پوائنٹ
995
تحقیقی نظر
جناب نے آخر کھل کر صحیح بخاری سے دشمنی کا اظہار کر ہی دیا جسکی دلیل اس کی روایتوں کو مسیحی قراردینا ہے۔مگر یاد رہے انہوں نے یہ بات اپنی رائے سے ہی کہی ہے دلیل کی بنیاد پر نہیں۔ نیز جس حدیث پر جناب نے اعتراض کیا ہے وہ حدیث “بدء الخلق” میں ہمیں نہیں ملی لہٰذا اس کا حوالہ بھی مو صوف ہی کے ذمے ہے۔
سورہ طہٰ کی روشنی میں جناب نے سیدنا آدم علیہ السلام کو قصور وار ٹھہرایا ہے۔ اب اس سے اندازہ کیاجاسکتا ہے کہ موصوف عورت کی محبت میں کس قدر اندھے پن کا مظاہرہ کر رہے ہیں اور اس ضمن میں سیدنا آدم علیہ السلام کو بھی بدنام کرنیکی کوشش کر رہے ہیں۔ شاید اسی لیے انہوں نے اماں حوا تو لکھا ہے مگر بابائے آدم علیہ السلام یا ہمارے باپ آدم نہیں لکھا۔ نعوذ بالله من ذلک الھفوات حالانکہ آخر میں خودہی لکھا ہے کہ ورغلانہ شیطانی دباؤ کے تحت ہوتا ہے، جو مردوعورت دونوں کے لیے یکساں طورپرقابل امکان ہے۔اب یہ کیا تضاد بیانیاں ہیں؟
کیا واقعی قرآن مجید میں صرف آدم علیہ السلام کے قصور اور ورغلائے جانے کا ذکر ہے؟
جی نہیں ، بالکل نہیں بلکہ قرآن مجید میں دونوں (یعنی آدم وحوا) کے پھسل جانے اور ورغلائے جانے کا ذکر ہے۔
شیطان نے دونوں کو پھسلا دیا:… (سورة البقرة آیت ۳۶)
شیطان نے ان دونوں کے دلوں میں وسوسہ ڈالا… ان دونوں کے رو برو قسم کھائی کہ میں تم دونوں کا خیر خواہ ہوں۔ (سورة اعراف ۲۰تا۲۱)
ان دونو ں کو فریب سے نیچے لے آیا۔ (سورة اعراف۲۲)
دونوں نے کہا اے ہمارے رب ہم نے اپنی جانوں پر ظلم کرلیا۔ (سورہ اعراف)
یہ وہ حقیقت جس کو موصوف نے قصداً بیان نہیں کیا جبکہ دعویٰ یہ کرتے ہیں کہ قرآن کو ہی پیما نہ حق اور دین کا ماخذ اول قرار دینا چاہیے؟
مو صوف کا یہ شبہ ابھارنا کہ اور نہ جانے کتنی روایتیں ایسی ہونگی؟ حقیقتاً احادیث دشمنی کا عندیہ اورلوگوں کو احادیث سے برگشتہ کر نیکی کوشش ہے۔
موصوف ایسی احادیث (جوان کے نزدیک مسیحی اور عورت کی تذلیل پر مبنی ہیں) تلاش کر کے جمع کیوں نہیں کر دیتے کہ ان کے ہمنوااور حواریوں کا کام آسان ہو جائے؟
موصوف نے احادیث کو چانچنے کا پیمانہ قرآن کریم کو قرار دیا ہے، مگر یہ نہیں بتایا کہ یہ قاعدہ اوراصول قرآن کی کس آیت سے ماخوذ ہے؟
سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالٰی عنہ فرمایا کرتے تھے کہ! لوگو! تم عنقریب ایسے انسانوں کو دیکھو گے جوقرآن کی طرف بلائیں گے، حالانکہ وہ خود قرآن کو پس پشت ڈال چکے ہوں گے۔ (دارمی)
موصوف کا انداز بھی کچھ ایسے ہی لوگوں کی عکاسی کرتا ہے۔
 
Top