• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

امرأۃ القرآن کا تحقیقی جائزہ

کلیم حیدر

ناظم خاص
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,747
ری ایکشن اسکور
26,381
پوائنٹ
995
شبہ خلوت
لکھتے ہیں اس شبہ میں یہ ثابت کیا گیا ہے کہ عورت ومرد کا کوئی تعلق نہیں ہو سکتا سوائے حرام تعلق کے، اور اس کے لیے یقینا من گھڑت روایات کا سہارا لیا گیا ہے (وغیرہ وغیرہ) جواب شبہ کے تحت سورة بقرہ کی آیت ۲۳۵ بمع ترجمہ نقل کرتے ہیں اورپھر تفسیر بالرائے کرتے ہوئے رقم طراز ہوتے ہیں۔
مذکورہ آیت میں وضاحت کی جارہی ہے کہ مردوعورت چھپ کر خلوت میں مل سکتے ہیں، اگر بھلائی یا خیر کی بات کرنا چاہیں۔ غور طلب بات یہ ہے کہ جس عورت کا تذکرہ اس آیت میں ہو رہا ہے وہ بیوہ عورت ہے جو عدت گزار رہی ہے۔ اب یقینا اگر اس نوعیت کی عورت کے لیے چپکے اور خلوت میں بات کرنا جائز ہے۔ تو یقینا عام عورتوں کے لیے بھی جائز ہو گا۔
مگر میرے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم سے جھوٹی بات منسوب کی جو اس آیت کے بالکل خلاف ہے کہ “کبھی بھی مردوعورت خلوت میں نہیں بیٹھ سکتے، اس لیے کہ شیطان بیچ میں ہوتا ہے” آگے چل کر سورة نور کی برأت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا والی آیات سے خود ساختہ استدلال کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔ جس سے یہ ثابت ہوگیا کہ مردوعورت کی خلوت میں گناہ کا ہو جانا واجب نہیں (صفحہ۷۳ تا ۷۵)۔
مزید آگے چل کر سورة توبہ کی آیت ۷۱ سے تفسیر بالرائے کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ایک مومن مردوعورت کو ایک رشتہ دیا ہے اور وہ ہے دوستی۔
سورة مجادلہ کی آیت ۷کا ترجمہ لکھتے ہیں کہ جب بھی تین سرگوشی کرتے ہیں تو ان کے چوتھے خداہوتے ہیں… الی آخرہ
پھر اسی آیت کی تفسیر بالرائے کرتے ہوئے رقم طراز ہوتے ہیں! قرآن کی تعلیم مثبت تعلیم ہے یعنی اس تصور کو اجاگر کرنا کہ اگر خلوت میں مرداور عورت ہوتے ہیں تو ان کے تیسرے خدا ہوتے ہیں جبکہ باطل روایت سے ثابت کیا گیا ہے کہ تیسرا شیطان ہے۔ وغیرہ وغیرہ۔ (صفحہ:۷۶، ۷۷)۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,747
ری ایکشن اسکور
26,381
پوائنٹ
995
تحقیقی نظر
موصوف کے قلمی گوہرو موشگافی کے طویل واکتا دینے والے لیکچروتفسیر بالرائے کے یہ چیدہ چیدہ اقتباسات ہیں۔
موصوف کا عورت فوبیا کا شکار ہو کر اندھا دھند احادیث پر تنقید کرنا اور انہیں من گھڑت قراردینا،اس بات کی نشاندھی ہے کہ موصوف عذاب الٰہی سے بے خوف ہوکر آخرت کو بھلا بیٹھے ہیں اوراب وہ کچھ بھی کر سکتے ہیں۔ بس انہوں نے عورت کا دفاع بے جا کرنا ہی مقصد حیات بنا لیا ہے۔
اگر موصوف کو کچھ حیاوایمان کا پاس ہو تو ذرا بتائیں کہ کس روایت میں لکھا ہے کہ “مردوعورت کاآپس میں سوائے حرام کے اور کوئی تعلق نہیں ہو سکتا”۔ ایسی روایت کہیں بھی نہیں ہے۔
موصوف نے جس روایت کو بلا دلیل ہی من گھڑت قرار دیا ہے وہ فی الحال ہمیں صحیح ترغیب وترہیب میں ملی ہے اور صحیح ہے۔
واللہ اعلم موصوف کس طرح بے پیندے کے لوٹے ہیں کہ کبھی توحدیث کو حجت بنا کر اپنے خودساختہ موقف کے لیے پیش کر دیتے ہیں اور کبھی بلادلیل ہی کسی روایت حدیث کو جھوٹی، من گھڑت اورمسیحی قرار دے دیتے ہیں۔ گویا حدیث نہ ہوئی گھر کی لونڈی ہو گئی۔ (نعوذ باللہ)
موصوف کا اندازِتحریر بتاتا ہے کہ جناب گھر میں محترمہ کے سامنے لباس مرداں میں کردار لونڈی ادا کرتے ہوں گے۔ (واھل البیت ادریٰ بما فیہ) موصوف کا ستم دیکھیں کہ اپنے گمراہ کن نظریات کے لیے قرآن کی آیات کو تختہ مشق بنا لیا ہے، کہ قرآن کہتا ہے مردوعورت چھپ کر مل سکتے ہیں اگربھلائی یا خیر کی بات کرنا چاہیں۔ نعوذ بالله من ھذا الفھم، انا لله وانا الیہ راجعون۔ قرآن کو کیا سے کیابنا دیا؟
“خود نہیں بدلتے قرآن کو بدل دیتے ہیں”​
چھپ کر خلوت میں مردوعورت خیروبھلائی کی کیا بات کریں گے، یہ تو اب موصوف ہی بتلا سکیں گے۔ کہ شاید وہ ایسے تجربے کرتے رہتے ہوں گے۔ وہ کیسی خیر ہو گی جسے غیر محرم مرد کے ساتھ عورت خلوت میں سر انجام دیگی۔ موصوف ذرا اپنے گھر کی خبر لے لیں ایسا نہ ہو “خلوتی بھلائیوں” کے انبارلگے ہوں۔
موصوف کا سورہ مجادلہ کی آیت سے خودساختہ استنباط بھی عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے مترادف ہے۔ کیونکہ اس آیت میں تو اللہ تعالیٰ نے یہودومنافقین کو بطور زجروتوبیخ کے متنبہ کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ تمہاری (اسلام دشمنی پر مبنی) سر گوشیوں سے غافل نہیں ہے اور بس۔ اس میں مردوعورت کے خلوت کا ذکر ہی کہاں ہوا ہے؟
موصوف نے اس آیت کی تفسیر بالرائے سے جو شکل بگاڑی ہے وہ بالکل اسی طرح ہے کہ جس طرح کفار مکہ کہا کرتے تھے، لو شاء اللہ ما اشرکناولاآباوٴنا۔ (سورةانعام)
یعنی جو کچھ ہم کرتے ہیں اس میں اللہ کی مشیت شامل ہے۔بالکل یہی انداز جناب “محب زن” کا ہے کہ اپنی ہر حرکت پر وہ قرآن سے دلیل دینا چاہتے ہیں۔ اعاذنااللہ منہ۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,747
ری ایکشن اسکور
26,381
پوائنٹ
995
شبہ کم عقلی
لکھتے ہیں! اس شبہ میں ثابت کیا جاتا ہے کہ عورت کم عقل ہے اس لیے اس سے کوئی مشورہ نہ لیاجائے اور نہ اسکی بات کو اہمیت دی جائے، بلکہ اس کو بے عقل ثابت کرکے اس کو جانور کی طرح ہانکاجاتا ہے۔
جواب شبہ کے تحت لکھتے ہیں۔قرآن کریم میں صاحب عقل ان کو قرار دیا گیا ہے، جو اللہ کی معرفت حاصل کرنے کے بعد اعمال صالحہ اختیار کرتے ہیں۔ جن کو قرآنی اصطلاح میں “اولوالالباب‘‘ کہا گیا ہے۔ پھر سورة آل عمران کی آیت۱۹۱،۱۹۰ اور سورة رعد کی آیات ۱۹تا ۲۴ بمع ترجمہ نقل کی ہیں۔اور آگے چل کر لکھا ہے کہ بخاری شریف کے حوالے سے ثابت ہے کہ ہماری ماں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا علم و فہم کا سر چشمہ اور مرجع صحابہ تھیں…کیا وہ (معاذاللہ) کم عقل ہو سکتیں تھیں۔ وغیرہ وغیرہ۔ (صفحہ:۷۸ تا ۸۴)۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,747
ری ایکشن اسکور
26,381
پوائنٹ
995
تحقیقی نظر
موصوف بات کو سمجھتے ہی نہیں ہیں، اس لیے بات کا بتنگڑ بنا دیتے ہیں۔ کسی بھی صحیح حدیث میں عورت کو (مطلقاً) کم عقل قرار نہیں دیا گیا ہے اور نہ ہی اس سے مشورہ کرنے سے منع کیا گیا ہے اور نہ ہی اسے جانور کی طرح ہانکنے کا حکم ہے۔موصوف فقط اپنی چرب زبانی ہی سے جو چاہتے ہیں حدیث پرالزام دھر دیتے ہیں۔ اللہ انھیں ہدایت نصیب فرمائے۔ آمین۔
موصوف نے جس حدیث پر ڈھکے چھپے لفظوں میں اعتراض کیا ہے وہ حدیث صحیح بخاری شریف میں کئی جگہ وارد ہوئی ہے اور حدیث میں عورتوں کو ناقص العقل کہا گیا ہے نہ کہ بیوقوف وغیرہ اور یہ بھی یادرہے کہ یہ بھی مردوں کے مقابلے میں کہا گیا ہے اور اسکی وضاحت بھی صحیح بخاری ہی میں اس طرح ہے کہ دو عورتوں کی شہادت کو ایک مرد کی شہادت کے برابر قرار دیا گیا ہے اور یہی دلیل ہے کہ عورت مرد کے مقابلے میں ناقص العقل ہے۔دو عورتوں کی شہادت ایک مرد کے برابر ہے اس بات کا ذکر سورة بقرہ۲۸۲ میں بھی کیا گیا ہے۔
موصوف کی پیش کردہ آیات کسی بھی طرح اس حدیث کی مخالفت نہیں کرتیں۔ لہٰذا اس حدیث کوکسی بھی طرح من گھڑت اور جھوٹی قرار نہیں دیا جا سکتا۔ فافھم۔
جہاں تک موصوف کا سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کو عاقلہ وفاہمہ لکھنا ہے، تو اس سے کسی کو بھی انکارنہیں۔ مگر یاد رہے یہ فضیلت صحیح بخاری کی حدیث میں ہی وارد ہوئی ہے اور موصوف صحیح بخاری پر بھی معترض رہتے ہیں اس صورت میں جناب کا یہ حدیث بطور حجت پیش کرنا کیسا ہو گا؟۔
ایک خاص عورت کی ثابت شدہ فضیلت سے دیگر عورتوں کو بلاعلم وفہم عقل کی ڈگری کا ملہ عطا کرناجناب کی عقل “سلیم” کا تفرد ہی ہے اور بس۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,747
ری ایکشن اسکور
26,381
پوائنٹ
995
شبہ کم دینی
لکھتے ہیں!
اس شبہ میں ثابت کیا گیا ہے کہ عورت کم دین ہی نہیں بلکہ لادین ہے اس لیے کہ وہ “حیض کے ایام” میں نماز وروزہ اور جملہ عبادات کرنے سے قاصر ہوتی ہے۔ جواب شبہ کے تحت لکھتے ہیں (سورة شمس کی آیت ۱۰،۹،۸،۷بمع ترجمہ لکھنے کے بعد)۔
غور طلب بات یہ ہے کہ حدیث کا حوالہ دے کر میرے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ بات منسوب کی جاتی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں کو ناقص الدین قرار دیا۔ اس بنیاد پر کہ وہ حیض کے ایام میں نماز وروزہ ادانہیں کرتی ہیں۔ اس حدیث کے بارے میں محدثین کا اختلاف رہا ہے کہ یہ ضعیف روایت ہے ان میں سے ایک “علامہ جزیری” بھی ہیں۔
آگے چل کر لکھتے ہیں! غور طلب بات یہ ہے کہ جس چیز میں عورت کا اختیار نہیں بلکہ وہ پیدائشی حصہ ہے جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے اب یہ کیسے ممکن ہے؟ اس کو اللہ تعالیٰ اسکی کمی قرار دیدیں۔ اوراس کو اس بنیاد پر ناقص الدین قرار دیدیں یہ شان کریمی اور عدل الٰہی کے منافی ہے۔
لہٰذا اس حدیث کی نفی ہو رہی ہے، اس لیے کہ وہ قرآن کی تعلیمات کے برعکس ہے۔ ویسے بھی ان ایام میں نمازاور روزے سے منع کرنا کتاب وسنت کی واضح دلیل کی بنیاد پر نہیں ہوا بلکہ “اجماعِ امت” کی بنیاد پر ہوا ہے۔ (صفحہ:۸۵ تا ۸۷)۔
آخر میں بخاری شریف کے حوالے سے لکھا ہے کہ نماز کھڑے ہو کر پڑھو پھر اگر طاقت نہ ہوتو بیٹھ کر اور اگر بیٹھنے کی بھی طاقت نہ ہو تو لیٹ کر اشاروں سے پڑھو۔ یعنی کسی بھی حال میں نماز معاف نہیں۔وغیرہ وغیرہ۔ (صفحہ:۸۹)۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,747
ری ایکشن اسکور
26,381
پوائنٹ
995
تحقیقی نظر
جناب نے پھر بلاوجہ خود ساختہ مفہوم حدیث سے کشید کرنے کی مذموم کوشش کی ہے اور لکھا ہے کہ عورت لادین ہے۔ حالانکہ یہ صرف اور صرف جناب کا حدیث پر الزام ہے۔ جبکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاتھا ”جو مجھ پر جھوٹ گھڑے، وہ اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنا لے۔” (صحیح بخاری)
اب موصوف اپنا فیصلہ خود ہی فر ما لیں۔
صحیح بخاری شریف میں اس مسئلہ میں صرف اس قدر ذکر ہوا ہے کہ مرد کے مقابلے میں عورت کادین ناقص ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ ایام حیض میں نمازوروزہ کی عبادت سر انجام نہیں دیتی۔ (دیکھئے صحیح بخاری: کتاب الحیض)
جناب کا بلا دلیل ہی اس حدیث کو اور حدیثوں کی طرح ضعیف قرار دینا بھی عجیب منطق ہے کیونکہ کسی بھی محدث نے اسے ضعیف قرار نہیں دیا اور دیتے بھی کیسے کہ یہ تو صحیح بخاری کی حدیث ہے جس کی صحت پر اجماع ہو چکا ہے۔
“علامہ جزیری” کون ہیں؟ کیا ہیں؟ یہ بھی جناب کے ذمے ہے کہ وہ انکی مجہول الحالی کو ختم کریں اور پھر ان کی کتاب سے صحیح بخاری کی اس حدیث کا ضعف ثابت کریں۔
جہاں تک موصوف کا یہ لکھنا ہے کہ! ایام حیض میں نماز روزے سے منع کرنا کتاب وسنت کی واضح دلیل کی بنیاد پر نہیں، بلکہ اجماع امت کی بنیاد پر ہے۔
ہمارے خیال میں شاید یہ کائنات کا سب سے بڑا جھوٹ اور فریب ہے جو جناب کی نوک قلم سے تحریر ہوا ہے اور پندرہ سو سال میں جناب ہی ایسے شخص ہیں جنہیں اس جھوٹ کی توفیق ہوئی۔ احادیث دشمنی میں اتنی جسارت تو کبھی منکرین حدیث نے بھی نہیں دکھلائی۔ فیاللعجب
موصوف تو شاید حیا نہ کریں مگر ان کے حواریوں کو چاہیے کہ وہ کم ازکم ان کے دام فریب میں آکراپنی دنیاوآخرت خراب نہ کریں۔جناب دیدہ دانستہ ہی احادیث دشمنی کا اظہار کرتے رہتے ہیں۔ ورنہ تو جس صحیح بخاری شریف کے وہ دوسروں کو حوالے دیتے رہتے ہیں اسی میں حائضہ کے منع صیام وصلاة کے دلائل موجود ہیں۔ اگر موصوف پیش کریں تو حوالہ صحیح، اور حجت ہم پیش کریں تو غیرصحیح اور عدم حجت۔ آخر کس دلیل سے؟
صحیح بخاری میں باب ہے “ترک الحائض الصوم”(حائضہ کا روزہ ترک کرنا) اس باب کے تحت مرفوع حدیث موجود ہے کہ حائضہ اپنے مخصوص ایام میں نمازوروزہ چھوڑ دیتی ہے۔ (دیکھئے صحیح بخاری کتاب الحیض)
اسی طرح صحیح بخاری ہی میں باب ہے”لاتقضی الحائض الصلاة” (حائضہ (چھوڑی ہوئی) نماز کی قضا نہیں دیگی۔) اور اس کے تحت سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کا ایک عورت (معاذہ) سے مناقشہ ذکر ہوا ہے۔ جس میں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے (چھوڑی ہوئی ) نماز کی قضا کا حکم ہی نہیں دیا۔
صحیح بخاری ہی میں یہ حدیث “کتاب الحیض “میں موجود ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حائضہ عورتوں کو بھی عید گاہ آنے کا حکم دیا اور انہیں نماز کی (مخصوص)جگہ سے علیحدہ رہنے کا حکم بھی دیا۔ یہ بھی دلیل ہے کہ ان ایام میں عورتیں نماز ادا نہیں کریں گی۔
نیز معلوم ہونا چاہیے کہ نماز سے قبل طہارت (وضوٴ اور ضرورت ہو تو غسل کرنا) فرض ہے بلاطہارت نماز نہیں ہوتی۔ اللہ تعالیٰ نے جنبی (مردوعورت) کو نماز سے قبل غسل (طہارت) کا حکم دیاہے۔ (دیکھئے سورہ مائدہ آیت نمبر۶)
اسی طرح حیض کے ایام کے اختتام پر بھی عورتوں کو غسل (طہارت) کا حکم دیاہے۔ (دیکھئے سورہ بقرہ آیت ۲۲۲)
ان دونوں آیتوں پر غور کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ حالت جنابت دور کرنے کے لئے طہارت اختیار کرنا حکم الٰہی ہے اور اسی طرح ایام حیض کے اختتام پر عورتوں کا غسل کرنا حکم الٰہی کی تعمیل ہے۔ جنابت کا لفظ وسیع معنی و مفہوم کا حامل ہے۔ ایام حیض سے گذرنے والی عورت بھی جنابت کی حالت ہی میں ہوتی ہے۔ کیا اس صورت میں قبل از غسل نماز ہو جائیگی؟ نہیں کیونکہ سورہ مائدہ میں نماز کیلئے یہ شرط بیان ہوئی ہے کہ جنابت کو دور کرو۔ فافھم۔
یہ بھی یاد رہے کہ ماہانہ ایام کی تکمیل پر ہی عورت کا غسل کرنا باعث طہارت ہوگا اس سے قبل وہ سارادن غسل کرتی رہے تو پھر بھی معنوی طور پر پاک نہیں ہوگی۔ لہٰذا یہ مانے بغیر چارہ ہی نہیں کہ قرآن و سنت ہی کی منشاء ہے کہ نماز حالت طہارت میں ہو اور حالت جنابت و حیض طہارت کی حالت نہیں۔لہٰذا یہ حکم کہ عورتیں ہر حال میں نماز پڑھیں،قرآن و سنت کے منافی ہے اور اس حکم کے قائل پر”کفر” تک فتویٰ لگایا جا سکتا ہے۔ واللہ اعلم۔
اس تفصیلی بحث سے یہ معلوم ہو گیا کہ ماہانہ ایام میں عورتوں کا نماز و روزہ سے اجتناب کرنا عین منشاء قرآن اور سنت صحیحہ ہے اور اسی پر امام نووی وابن المنذر وغیرہ نے اجماع نقل کیا ہے۔ کما فی نیل الاوطار۔
موصوف اسی حرکت سے دشمن سنت کے ساتھ ساتھ محرف قرآن بھی قرار پاتے ہیں۔کیا موصوف کے ہاں ایام حیض میں ہم بستری بھی جائز ہے؟ نعوذ باللہ من ذلک۔
اگر ہاں تو دلیل کیا ہے؟ اور اگر نہیں تو کیوں؟ یاد رہے اگر قرآن کا حوالہ دیں گے تو یہ ثابت ہوجائے گا کہ ان ایام میں عورت معنوی طور پر ناپاک ہوتی ہے اور جب یہ ثابت ہو جائے گا تو حکم نمازخود قرآن کی روشنی میں اس سے منتفی ہو جائے گا۔
ہم آپ کو بتاتے چلیں کہ جناب چونکہ آج کل کٹر “حنفی دیوبندی” بنے ہوئے ہیں اسی لئے وہ نادانستہ طور پر اپنے اکابر جناب اشرف علی تھانوی کے نقش قدم پر چل گئے ہیں۔ جنہوں نے لکھا تھا کہ اگر دوران پیدائش بچہ ،عورت ہوش میں ہو تو اس پر اس حالت میں بھی نماز فرض ہے۔ (بہشتی زیور)۔
علامہ البانی رحمہ اللہ نے اس قسم کے فتنوں کے ظہور کا پہلے ہی عندیہ دے دیا تھا۔(دیکھئے ارواء الغلیل جلد نمبر۱)
موصوف عورتوں کی (خود اپنے زعم میں) توہین برداشت نہیں کرسکتے مگر افسوس کہ انہیں بیسیوں حدیثوں کا انکار کرکے جہنم و کفر کی دلدل میں جانا منظور ہے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔
آخر میں جناب نے بلاوجہ بخاری شریف کا حوالہ دے کر (کہ نماز ہر حالت میں پڑھنی ہے) اپنی کتاب کا وزن بڑھایا ہے۔ کیونکہ سیدھی سی بات ہے کہ اگر صحیح بخاری کی احادیث حجت ہیں تو ساری ہی حجت ہیں اور ان میں وہ حدیثیں بھی ہیں جنہیں حائضہ کے منع صیا م و صلاة کا ذکر ہے۔ اور اگر حجت نہیں ہیں تو پھر ان کا حوالہ لکھنا فضول ہے۔یا پھر جناب پہلے ان حدیثوں میں چھانٹی کر کے (اپنے خود ساختہ اصول پر) حجت و قابل عمل حدیثوں کو نا قابل حجت و عمل حدیثوں سے علیحدہ کرلیں اور ایک کتاب ترتیب دلوا لیں۔ (کیونکہ خود جس طرح سرقہ سے کام لیتے ہیں وہ ہمیں معلوم ہے)۔اور پھر ذرا انکار حدیث کے میدان میں اتریں۔ ہم منتظر رہیں گے۔ ان شاء اللہ۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,747
ری ایکشن اسکور
26,381
پوائنٹ
995
شبہ مارنا
لکھتے ہیں! اس شبہ میں عورت کو مارنے کا جواز نکالا گیا ہے ۔ یہ کہہ کر کہ عورت ٹیڑھی پسلی سے پیداکی گئی ہے، اس لئے اب اس کو مار کر صحیح کیا جاسکتا ہے۔ (یعنی جانوروں جیسا برتاوٴ)۔
پھر سورة نساء کی آیت نمبر ۳۴ بمع ترجمہ کے نقل کی ہے اور یہ بھی لکھا ہے کہ اس سے مارنے کاجوازلیا جاتا ہے۔ (صفحہ:۹۰)۔
آگے چل کر تفسیر بالرائے اور الفاظ قرآن کی معنوی تحریف کرتے ہوئے آیات قرآنی میں محکم اور متشابہ کی بحث کی ہے اور سورة آل عمران کی آیت نمبر۷ اس ضمن میں بمع ترجمہ پیش کی ہے۔
پھر لکھتے ہیں “متشابہہ” یعنی ایک سے زیادہ مفہوم والی آیتیں ہیں اب ہم پر چھوڑا گیا ہے کہ ہم کس آیت کو کس انداز سے لیتے ہیں۔ مگر پیمانہ حق یہ ہے کہ قرآن کی آیتوں کی تشریح کرتے وقت تین بنیادی باتوں کا خاص خیال رکھا جائے۔
1…اللہ تعالیٰ کی ذات عالیہ پر کوئی آنچ نہ آئے۔
2…میرے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات مبارکہ پر کوئی آنچ نہ آئے اور تمام انبیاء کی تقدس اور عصمت پر کوئی حرف نہ آئے۔
3…دین اسلام جو خدائی دین ہے اس پر کوئی آنچ نہ آئے۔
پھر سورہ نساء میں وارد لفظ “واضربو ھن” کے صیغہ ماضی “ضرب” کے تین معانی بیان کرتے ہیں۔
1…”ضرب” مطلب (مارنا)۔ دلیل۔ (سورة طہٰ آیت ۷۷)
2……”ضرب” مطلب (مثال بیان کرنا)۔ دلیل ۔ (سورة کہف آیت ۳۲)
3……”ضرب” مطلب (زمین میں دور نکل جانا) ۔ دلیل۔ (سورة النساء آیت ۱۰۱، ۹۴) (صفحہ:۹۲ تا ۹۵)
اس تفصیل کے بعد سورة النساء کی آیت نمبر ۳۴ کی طرف واپس آتے ہیں اور لکھتے ہیں کہ:
اور جن عورتوں کے بارے میں تمہیں خدشہ ہو کہ وہ تمہارے حقوق ادا نہیں کررہی تو ان کو پہلے وعظ و نصیحت سے سمجھاوٴ اگر نہ سمجھے تو دوسرے مرحلے پہ ان کے ساتھ سونا چھوڑ دو۔ پھر اگر نہ سمجھے تو تیسرے مرحلے پر ان سے مکمل دوری اختیار کرلو۔ یعنی گھر چھوڑ کے چلے جاوٴ یا ان کو اپنے گھر بھجوادو۔ (صفحہ:۹۷)
بخاری شریف کی روایت “کتاب الادب” میں میرے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا “ اللہ کی بندیوں کومت مارو”! آخر میں رقم طراز ہیں۔ مارنا کتنا افسوس ناک غیرانسانی عمل ہے جس کو دین کا لبادا دے دیا گیا ہے۔ (صفحہ:۹۸۔ ۱۰۰ دیکھئے)۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,747
ری ایکشن اسکور
26,381
پوائنٹ
995
تحقیقی نظر
عورت کا پسلی سے پیدا ہونا تو حدیث سے ثابت ہے ۔ (صحیح بخاری دیکھئے کتاب النکاح)
اسی حدیث میں ذکر ہے کہ اس (ٹیڑھی پسلی) کو سیدھا کرنا چاہو گے تو ٹوٹ جائیگی اور اسی حالت میں فائدہ اٹھانا چاہو تو فائدہ اٹھا لو گے۔اب موصوف کا اس حدیث پر غصہ دشمنی حدیث کی غمازی ہے اور پھر جناب معنی مفہوم بدل کرحدیث کو کیا سے کیا بنا دیتے ہیں۔ جناب نے مارنا اور جانوروں جیسا برتاوٴ بھی (نعوذ باللہ) حدیث کی طرف منسوب کردیاہے۔ معاذ اللہ۔
جناب کی حرکت (انکار حدیث) سے قرآن بھی محفوظ نہیں رہ سکتا جس کی مثال موصوف کی زیرنظرتحریرمیں نظر آرہی ہے۔ پہلے حدیث کا انکار کیا کہ اس میں عورتوں کو (تادیباً) مارنے کا ذکرہواہے اور پھر جب یہی (تادیبی ضرب) قرآن سے ملی تو جناب نے اس کی معنوی تحریف کرکے مفہوم ہی بدل ڈالا۔اگر عربی الفاظ کی وسعت ہی کا ہر جگہ فائدہ اٹھایا جائے تو پھر قرآن کا اللہ ہی حافظ ہے۔ ہر لفظ کے کئی کئی معانی لئے جا سکتے ہیں پھر نہ نماز رہے گی اور نہ روزہ۔
پندرہ سو سال کے عرصے میں یہ تفسیر فقط موصوف ہی کو سوجھی ہے کسی بھی معتبر تفسیر میں “واضربوھن” کی یہ تأویل نہیں ملے گی۔ اور جو معنی آج تک لیا گیا ہے اس میں نہ تو اللہ تعالیٰ پر کوئی حرف آتا ہے نہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم و دیگر انبیاء پر اور نہ ہی دین اسلام پر، نہ جانے جناب کیوں اس معنی کے دشمن ہورہے ہیں۔جو مثالیں جناب نے بیان کی ہیں ان سب میں “ضرب” کا اصل معنی “مارنا” ہی ہے تفصیل امہات التفاسیر کی کتب میں دیکھیں۔
جامع ترمذی میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ضرب سے مراد ایسی ضرب ہے جو سخت تکلیف پر مبنی نہ ہو۔ یہ حدیث ابن ماجہ میں بھی دیکھی جا سکتی ہے۔سیدنا ایوب علیہ السلام کے قصہ میں بھی “خذ بیدک ضغثا فاضرب بہ ولا تحنث” وارد ہوا ہے جس کا معنی ضرب کے حوالے سے بالکل واضح ہے۔ (دیکھئے سورة ص بمع تفسیر)
احادیث میں جو کچھ بیان ہوا ہے وہ فقط تأدیبی ضرب ہے اور بس۔امام بخاری رحمہ اللہ نے “صحیح بخاری” میں باب قائم کیا ہے کہ “عورتوں کو مارنا مکروہ ہے” اور پھر سورة نساء کی آیت “واضربو ھن” کی تفسیر ضرباً غیر مبرح سے کی ہے اور پھر اس باب کے تحت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کایہ فرمان نقل کیا ہے کہ “کوئی شخص اپنی بیوی کو غلاموں کی طرح نہ مارے”۔ (کتاب النکاح)
اس سے بھی تادیبی ضرب ہی ثابت ہوتی ہے اور یہی شریعت کا منشاء ہے ۔جناب نے جو کچھ لکھاہے وہ قرآن و سنت کے منافی ہے۔اگر موصوف حدیث ہی سے استدلال کرکے تادیبی ضرب کے خلاف لکھ سکتے ہیں تو کیا وجہ ہے کہ قرآن و سنت اور اجماع امت سے تادیبی ضرب کیوں ثابت نہیں ہوتی۔ فافھم۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,747
ری ایکشن اسکور
26,381
پوائنٹ
995
شبہ کنیز
لکھتے ہیں! اس شبہ میں عورت کو باندی اور لونڈی ثابت کیا گیا ہے جو کہ تذلیل و تحقیر کی سنگین ترین شکل ہے۔ مگر کاش بات یہاں تک رک جاتی لیکن شریعت کی تمام حدیں پارکرکے دین اسلام پر ناقابل معافی عظیم بہتان لگایا کہ لونڈی، باندی یا کنیز کے ساتھ جنسی تعلق بغیر نکاح کے جائز ہے۔ یعنی زناکوجائز قرار دے دینا۔
جواب شبہ کے تحت لکھتے ہیں: کتاب و سنت کی روشنی میں مرد و عورت کا جنسی تعلق صرف نکاح کے بعد ہی جائز ہے اس کے علاوہ کسی حال میں بھی جائز نہیں، لیکن اس کے باوجود بعض لوگوں نے اس ناجائز عمل کو جائز قرار دیدیا۔ (صفحہ:۱۰۱)۔
پھر سورة نساء کی آیت نمبر۴ اور ۲۵ بمع ترجمہ تحریر کی ہیں۔
آگے چل کر جناب نے خلط مبحث کرتے ہوئے تفسیر بالرائے سے لکھا ہے کہ سورة مومنون میں “والذین ھم لفرو جھم حافظون” سے مراد کشادگیاں ہے اور لہٰذا اس آیت کا ترجمہ یوں ہوگا “ اور جو اپنی کشادگیوں کی حفاظت کرتے ہیں “… یعنی جو “ رزق کشادہ” اللہ نے انہیں دیا ہے وہ اپنی بیویوں اور ماتحتوں پر خرچ کرتے ہیں۔ یہی وہ عظیم کردار ہے جو انسانی معاشرے کو مطلوب ہے کیا ضروری ہے کہ ہم ہر چیز کو جنس پر لے جا کر ختم کریں؟
پھر مزید لکھتے ہیں!
اگر کنیز یا باندی رکھنا اور اس کے ساتھ جنسی تعلق قائم کرنا جائز تھا تو میرے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم نے کیوں نہ اپنایا؟ (صفحہ:۱۰۶۔ ۱۰۷)۔
چھٹی دلیل کا عنوان قائم کرکے رقم طراز ہوتے ہیں:
“ملک یمین” سے مراد اگر کنیز یا لونڈی لیا جائے تب بھی ان سے کوئی جنسی تعلق قائم کرنے کے لئے قرآن کے حکم کے مطابق “نکاح” کرنا ضروری ہے۔ (سورة النساء آیت ۲۵)۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,747
ری ایکشن اسکور
26,381
پوائنٹ
995
تحقیقی نظر
موصوف جناب حافظ مدنی صاحب نے اس شبہ میں کھل کر اسلام دشمنی کا ثبوت دیا ہے اور یہود و نصاریٰ کی طرح کھل کر ہی آیات کی تحریف معنوی کی ہے۔ اعاذنا اللہ منہ۔ ساتھ ہی بازاری زبان استعمال کرکے اپنے خاندانی مقام و مرتبہ کو بھی بیان کیا ہے۔ جناب کی موشگافیوں پر تحقیقی نظر حسب ترتیب ملاحظہ کیجئے۔
کیا واقعی لونڈی و کنیز ہونا تذلیل و تحقیر پر مبنی ہے؟ دلیل کیا ہوگی؟
جناب غیر محرم مردو عورتوں کی “چھپی خلوتوں” کے دلدادہ ہیں۔ انہیں جنسی تعلق کے زنا ہونے کا یقین کیسے آگیا؟ لونڈی سے جنسی تعلق کو کس آیت میں یا کس سنت کی روایت میں زنا سے تعبیر کیا گیا ہے؟ کیا جناب نے بے غیرتی و بے حیائی کی انتہاء کرتے ہوئے قرآنی آیات اور فرامین نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کو خیر باد کہہ کر “زنا” کا حکم لگایا ہے۔ ماضی بعید میں یہ حکم کس کس پر لگے گا؟ شاید جناب نے اپنے تمام روحانی آباء و اجداد اور اُمہات کو زانی قرار دیدیا ہے۔ اب جناب خود کس طرح ان کے روحانی فرزند ہونے کا دعویٰ کریں گے؟ نعوذ باللہ من ھذہ الھفوات۔ استغفراللہ۔
کسی گھٹیا ترین پرویزی نے بھی آج تک اتنی بڑی جسارت نہیں کی ، موصوف عورت کی محبت میں اندھے ہو کر کیا کیا ہذیان بک رہے ہیں، انہیں کچھ خبر نہیں یا پھر جہنم میں کودنے کو تیار ہوچکے ہیں۔جناب پندرہ سو سال پیچھے جا کر اس مسئلہ کو کیسے سلجھا سکتے ہیں؟ یقینا نہیں سلجھا سکتے تو پھر یہی معنی ہواکہ جناب آج موجودہ دور میں لوگوں کو قرآن کی غلط سلط تاویل دکھا کر منکر حدیث بنانا چاہتے ہیں آخر کیوں؟ جبکہ وہ خود احادیث بھی پیش کرتے ہیں؟ اس تضاد بیانی سے وہ کیا کارنامہ سرانجام دیناچاہتے ہیں؟اور یہ بھی جناب کو معلوم ہونا چاہیے کہ آج مسئلہ لونڈی و غلام عملی طور پر مفقود ہو چکا ہے فقط کتابوں تک ہی محدود ہے۔ پھر یہ شور شرابہ کیا معنی رکھتا ہے؟
جناب کسی آیت یا اپنی خود ساختہ سنت سے ثابت کریں کہ مالک اور لونڈی کا باہم متمتع ہوناجائز نہیں ہے فقط ہوائی فائرنگ نہ کریں۔
باقی رہا سورة النساء سے لونڈی کے نکاح اور حق مہر پر استدلال تو یہ سراسر تجاہل عارفانہ ہے کیونکہ اس میں اپنی لونڈی کی بات نہیں ہورہی۔ بلکہ دوسرے کی لونڈی کی بات ہو رہی ہے۔ فافھم۔
اسی طرح موصوف کا “فروج” کو “کشادگیاں” قرار دے کر “رزق کی کشادگی” ثابت کرنا بھی بلا دلیل و برہان ہے اور استہزاء بالقرآن بھی ہے جس کی سزا کفر کی صورت میں ملتی ہے۔ قد کفر تم بعد ایمانکم۔
عجیب الٹی گنگا بہانے کی کوشش ہے۔ قرآن حفاظت کا کہتا ہے جس کا معنی ہے سنبھال کر رکھنا اور جناب اسے خرچ کروار ہے ہیں؟ نہ جانے جناب نے ایسی کتنی “کشادگیاں” خرچ کرائی ہوں گی کہ جناب کے بقول یہی معاشرے کو مطلوب ہے۔
یہ بھی عجیب تماشہ ہے کہ کہتے ہیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر عمل کیوں نہیں کیا اور جب کہیں سے جواب ملا تو لکھ دیا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے “ماریہ قبطیہ” سے بھی نکاح ہی کیا تھا۔ مگر حوالہ “صحیح حدیث “ کانہیں دیا۔ کیوں؟
حالانکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے “ملک یمین” لونڈی کا ذکر تو سورة احزاب وغیرہ میں موجود ہے۔ مگرحدیث کے دشمنوں کو یہ کیوں اور کیسے نظر آئے؟
آخر میں پھر سورہ النساء کی آیت ۲۵ کا ذکر کے لکھاہے کہ “لونڈی” سے بھی نکاح مع مہر ہی ضروری ہے، متمتع ہونے کے لئے (مفہوماً)۔
اس پر تفصیلی جواب ملاحظہ کیجئے۔
لونڈیوں سے تمتع کے معاملے میں بہت سی غلط فہمیاں لوگوں کے ذہن میں ہیں۔ لہٰذا حسب ذیل مسائل کو اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے۔
1…
جو عورتیں جنگ میں گرفتار ہوں ان کو پکڑتے ہی ہر سپاہی ان کے ساتھ مباشرت کرلینے کا مجاز نہیں ہے بلکہ اسلامی قانون یہ ہے کہ ایسی عورتیں حکومت کے حوالے کردی جائیں گی۔ حکومت کو اختیار ہے کہ چاہے ان کو رہا کردے چاہے ان سے فدیہ لے چاہے ان کا تبادلہ ان مسلمان قیدیوں سے کرے، جو دشمن کے ہاتھ میں ہوں اور چاہے تو انہی سپاہیوں میں تقسیم کردے۔ ایک سپاہی صرف اس عورت ہی سے تمتع کرنے کا مجاز ہے جو حکومت کی طرف سے باقاعدہ اس کی ملک میں دی گئی ہو۔
2…
جو عورت اس طرح کسی کی ملک میں دی جائے، اس کے ساتھ بھی اس وقت تک مباشرت نہیں کی جا سکتی جب تک کہ اسے ایک مرتبہ ایام ماہواری نہ آجائیں اور یہ اطمینان نہ ہو لے کہ وہ حاملہ نہیں ہے۔ اس سے پہلے مباشرت کرنا حرام ہے اور اگر وہ حاملہ ہو تو وضع حمل سے پہلے بھی مباشرت ناجائز ہے۔
3…
جنگ میں پکڑی ہوئی عورتوں سے تمتع کے معاملے میں یہ شرط نہیں ہے کہ وہ اہل کتاب ہی میں سے ہوں۔ ان کا مذہب خواہ کوئی ہو۔ بہرحال جب وہ تقسیم کردی جائیں گی تو جن کے حصے میں وہ آئیں وہ ان سے تمتع کرسکتے ہیں۔
4…
جو عورت اس طرح کسی شخص کی ملک میں آئی ہو، اسے اگر اس کا مالک کسی دوسرے شخص کے نکاح میں دیدے تو پھر مالک کو اس سے دوسری خدمات لینے کا حق تو رہتا ہے، لیکن جنسی تعلق کا حق باقی نہیں رہتا۔
5…
جس طرح شریعت نے بیویوں کی تعداد پرچار کی پابندی لگائی ہے، اس طرح لونڈیوں کی تعدادپرنہیں لگائی۔ لیکن اس معاملہ میں کوئی حد مقرر نہ کرنے سے شریعت کا منشا یہ نہیں تھا کہ مال دار لوگ بے شمار لونڈیاں خرید کر جمع کرلیں اور اپنے گھر کو عیاشی کا گھر بنالیں۔ بلکہ درحقیقت اس معاملہ میں عدم تعین کی وجہ جنگی حالات کا عدم تعین ہے۔
5…
حکومت کی طرف سے حقوق ملکیت کا باقاعدہ عطا کیا جانا ویسا ہی ایک قانونی فعل ہے جیسا نکاح ایک قانونی فعل ہے۔ لہٰذا کوئی معقول وجہ نہیں کہ جو شخص نکاح میں کسی قسم کی کراہت محسوس نہیں کرتا ،وہ خواہ مخواہ لونڈی سے تمتع میں کراہت محسوس کرے۔ (تفہیم القرآن ملخصاً)۔
مولانا عبدالرحمن کیلانی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
لونڈیوں کا مسئلہ بھی دراصل تعدد ازواج کا تتمہ ہے۔ چنانچہ وہی سورہ نساء کی آیت ۳ جو تعددازواج کے جواز پر دلالت کرتی ہے۔ لونڈیوں کی اباحت پر بھی دلالت کرتی ہے۔ اس آیت کاآخری ٹکڑا یوں ہے:
فَاِنْ خِفْتُمْ اَلاَّ تَعْدِلُوْا فَوَاحِدَةً اَوْ مَا مَلَکَتْ اَیْمَانُکُمْط اگر تمہیں اندیشہ ہو کہ ان بیویوں میں انصاف نہ کرسکو گے تو ایک ہی بیوی کافی ہے یا پھر جو تمہاری لونڈیاں ہیں۔
یہ حقیقت اپنی جگہ درست ہے کہ اسلام سے پیشتر عرب کے علاوہ دیگر ممالک میں بھی غلام اورلونڈیوں کی عام تجارت ہوتی تھی اور اسلام نے اسے بتدریج کم کرنے کے اقدامات کئے ہیں اوراحادیث میں آزاد آدمی کو غلام بنانے اور اس کی خریدو فروخت پر سخت وعید بیان کی گئی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ “جو شخص کسی آزاد آدمی کو غلام بنائے اس کے خلاف قیامت کومیں خود استغاثہ کروں گا” (بخاری بحوالہ مشکوٰة)
مگر جہاں تک جنگی قیدیوں کے غلام یا لونڈی بنانے کا تعلق ہے۔ اس کے جرم یا حرام ہونے کے متعلق ہمیں کوئی نص قطعی نہیں مل سکی۔ بلکہ اس کی تائید میں کئی آیات مل جاتی ہیں۔
یٰٓاَیُّھَا النَّبِیُّ اِنَّا اَحْلَلْنَا لَکَ اَزْوَاجَکَ الّٰتِیْٓ ٰاتَیْتَ اُجُوْرَھُنَّ وَ مَا مَلَکَتْ یَمِیْنُکَ مِمَّآ اَفَآءَ اللهُ عَلَیْکَ (احزاب)
اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ! ہم نے تمہارے لئے تمہاری وہ بیویاں بھی حلال کردی ہیں جن کے حق مہر آپ اداکرچکے ہیں اور تمہاری وہ لونڈیاں بھی جو اللہ نے تمہیں کفار سے مال غنیمت کے طور پر دلوائی ہیں۔
اس آیت سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ جنگی قیدیوں میں سے حاصل ہونے والی لونڈیاں جو حکومت کی وساطت سے ملتی ہیں۔ ان کا حق مہر کچھ نہیں ہوتا اور وہ حلال ہوتی ہیں۔ اب اگر یہ لونڈیوں کا جواز اسلام کے چہرہ پر اتنا ہی بدنما داغ تھا، تو اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی اجازت کیوں دی جو ساری اُمت کے لئے اُسوہ حسنہٴ ہیں؟
اب سوال یہ ہے کہ اگر اسلام کی نگاہ میں لونڈی غلاموں کا وجود ایک مذموم فعل ہے تو اسے حکماًبندکیوں نہ کیاگیا۔ تو میرے خیال میں اس کی درج ذیل وجوہ ہو سکتی ہیں۔
1…
رخصت ہمیشہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے صدقہ اور رحمت ہوتی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رحمة للعالمین تھے اور وہ اس طرح لونڈی اور غلام بنانا پسند نہیں کرتے تھے۔ لیکن اس کے باوجود جنگ خیبرمیں ایسا موقع بن ہی گیا۔ تو پھر یہ کیسے کہا جا سکتا ہے کہ آئندہ تا قیامت مسلمانوں کو اب کوئی واقعہ پیش آہی نہیں سکتا۔ لہٰذا اللہ کی طرف سے اس رخصت کو مطعون کرنے کے بجائے اس کاانعام ہی سمجھنا چاہیے۔اب اگر اس رخصت سے مسلمان ناجائز فائدہ اٹھانا چاہتا ہے۔ یا کوئی اسلام دشمن اس رخصت کو غلط جامہ پہنا کر لوگوں کو اسلام سے متنفر کرنا چاہتا ہے تو اس میں اسلام کاکیا قصورہے۔
2…
غلام اور لونڈیوں سے فائدہ حاصل کرنا بھی ایک رخصت ہے۔ حکم نہیں اب اگر آج کے دور میں اس کی ضرورت ہی پیش نہیں آتی تو اس رخصت سے زندگی بھر فائدہ نہ اٹھانے سے دین میں کون سی کمی آجائے گی۔
3…
ان دنوں محکمہ جیل یا جیل کے لئے بڑے احاطے اور اس کا انتظام تو تھا نہیں۔لہٰذا مسلمانوں میں تقسیم کرنے کے بغیر کوئی دوسرا چارہ بھی نہ تھا۔ اور جب مسلمانوں میں تقسیم کیا گیا تو پھر فحاشی کاایک نیا باب کھلنے کا امکان تھا۔ اس امکان سے روکنے کے لئے ان سے تمتع کی بھی اجازت دی گئی۔ پھر اس تمتع پر بھی طرح طرح کی پابندیاں عائد کردی گئیں۔
مگر آج کے دور میں اس طرح تقسیم کی ضرورت نہیں رہی۔ آج حکومتوں کے پاس ایسے کیمپوں کے انتظامات موجود ہیں، جن میں ہزاروں قیدیوں کی رہائش کا بندوبست ہوتا ہے۔ایسے کیمپوں میں اگر مردوزن کی آزادانہ اختلاط کی روک تھام کا بندوبست کردیا جائے، تو پھر مسلمانوں میں تقسیم کی ضرورت ہی پیش نہیں آسکتی۔ اور ایسے قیدیوں کو اس وقت تک ان کیمپوں میں رکھا جائے گاجب تک باہمی تبادلہ کی شکل یا کوئی اور باعزت حل نہ نکل آئے۔
جہاد قیامت تک کے لئے فرض ہے اور جنگ میں ہر طرح کے حالات متوقع ہوتے ہیں۔ اورصاف بات تو یہ ہے کہ اسلام فحاشی کو کسی قیمت پربرداشت نہیں کرتا۔اس فحاشی کے سدباب کے لئے لونڈیوں سے تمتع کی رخصت دی گئی ہے اور اس پر کلیتاً پابندی عائد کرنا اللہ تعالیٰ کو منظور ہی نہ تھا۔ واللہ اعلم بالصواب۔ (آئینہ پرویزیت)
مگر! یاد رہے کہ: اسلام فاتح فوجیوں کو قیدی عورتوں کی عصمت دری کی بالکل اجازت نہیں دیتا۔ جیسا کہ عام دنیا کا دستور ہے کہ فاتح فوجیوں کو مقبوضہ علاقوں کی عورتوں یا قیدی عورتوں سے تمتع کی کھلی چھٹی دی جاتی ہے۔ اسلامی نقطہ نظر سے فاتح فوج کا ایسا فعل بھی بلاشبہ زنا میں شامل ہے۔ہاں اگر اسلامی حکومت کی وساطت سے قیدی عورتیں فاتح فوج میں تقسیم کی جائیں تو اسی کا نام مِلک یمین ہے اور یہی نکاح کی دوسری شکل بن جاتی ہے۔ اس میں حق مہر بھی نہیں ہوتا اور مالک اپنی ملک یمین سے تمتع بھی کر سکتا ہے۔ ہاں اگر حاملہ ہو تو جب تک وضع حمل نہ ہو اس سے صحبت نہیں کرسکتا۔ پھر اگر وہ لونڈی مالک سے صاحب اولاد ہوجائے تو مالک کی وفات کے بعد از خود آزاد ہوجاتی ہے۔ اور اگر کوئی اسے فوراًآزاد کرکے اس سے نکاح کرلے تو یہ باعثِ اجرو ثواب ہے۔ (آئینہ پرویزیت) ۔
 
Top