تحقیقی نظر
ہمارا جناب سے سوال ہے کہ لڑکی کے عقیقہ پر ایک بکرا ذبح کرنا اور لڑکے کے عقیقہ پر دو بکرے ذبح کرنا قرآن کی کس آیت کی خلاف ورزی ہے؟ وہ آیت ذرا بتا دیجئے۔لگتا ہے جناب نے اپنا قرآن بھی کسی اور ہی چیز کو قرار دیا ہوا ہے۔
جناب کو شاید اتنا بھی معلوم نہیں کہ عقیقہ فقط خوشی کا اظہار ہی نہیں بلکہ اس سے قبل وہ شریعت مطہرہ کا ایک حکم اور عبادت ہے اور عبادت توقیفی ہوتی ہے کسی کی رائے پر قائم نہیں ہوتی۔ویسے اگر ہم یہ کہہ دیں کہ جناب کو اس مسئلہ پر اعتراض کا کوئی حق ہی نہیں تو بھی ہماری بات صحیح ہے کیونکہ آج کل جناب جس فقہ کو فی کی گود میں بیٹھ کر عداوت رسول ہاشمی صلی اللہ علیہ وسلم کا اظہار کر رہے ہیں، اس فقہ میں عقیقہ مسنون عمل ہی نہیں ہے۔ اگر ہے تو جناب ذرا کسی مستند کتاب فقہ سے دکھا دیں۔باقی رہا جناب کی بیٹی کا اعتراض کہ ایک اور دو بکرے کیوں؟ تو ہم عرض کریں گے کہ کیا جناب بمع اہل بیت ہی پٹری سے اتر گئے ہیں کہ بڑے میاں تو بڑے میاں “چھوٹی صاحبہ” سبحان اللہ۔
ہاں البتہ پابند شرع خاتون کی خدمت میں عرض کریں گے کہ آپ موصوف ابو خالد کے گمراہ نظریہ سے متاثر نہ ہوں، بلکہ قرآن و سنت کا براہ راست مطالعہ کریں۔اگر جناب کی بیٹی کو جناب جواب نہیں دے سکے، اس لئے منکر حدیث بن بیٹھے تو ہم عرض کریں گے، جناب آپ منکر قرآن بھی بن جائیں، کیونکہ آپ کی بیٹی قرآن پر بھی اعتراض کرسکتی ہے کہ ابا حضور قرآن مجید میں “ اَلرِّجَالُ قَوّٰمُوْنَ عَلَی النِّسَآءِ” (سورة النساء آیت ۳۴)
وَ لِلرِّجَالِ عَلَیْھِنَّ دَرَجَةٌط (سورة البقرہ آیت ۲۲۸)
لِلذَّکَرِ مِثْلُ حَظِّ الْاُنْثَیَیْنِج (سورة النساء آیت ۱۱)
وَلَیْسَ الذَّکَرُ کَالْاُنْثٰیج (سورة آل عمران آیت ۳۶)
کہہ کر مردوں کی فوقیت عورتوں پر کیوں بیان کی گئی ہے؟
اور ظاہر ہے کہ ابو خالد صاحب کوئی خاطر خواہ جواب نہ دے سکیں گے۔ لہٰذا انکار قرآن بھی کریں گے۔ اور اگر کوئی توجیہ کی صورت نکالیں گے تو احادیث کی توجیہ بھی پیش کی جا سکتی ہے۔جناب اپنی زوجہ کے “فوق” ہو نہ ہوں، مسلمانوں کی عورتیں بہرحال ان کے “تحت” ہی ہوتی ہیں۔ سورة تحریم آیت نمبر ۱۰ دیکھئے۔ اور “تحت” کا معنی تو جناب کو معلوم ہی ہو گا ہم مشورہ دیں گے کہ جناب سیدھی طرح “اپنی فوقیت” کو مان لیجئے ورنہ تو پھر “تحت” بننے کیلئے تیار ہوجائیے۔
آخر میں جناب نے احادیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی روشنی میں “ سات فضیلتوں” کا ذکر کیا ہے اور یہ سب فضیلتیں عورتوں کی ہیں اور احادیث سے ثابت ہیں۔ لہٰذا ثابت ہوا کہ جناب کا احادیث پر بے جااوربلادلیل اعتراض لغو اور باطل ہے۔ یا تو جناب کھل کر احادیث کا کلی طور سے انکار کریں اور یاپھرانکا اقرار کرکے “نام نہاد مسلمانوں” کی اصلاح کی کوشش کریں۔
اگر صحیح احادیث سے ثابت شدہ عورتوں کی فضیلت سے کوئی منکر ہے تو اس کو اپنی اصلاح کرناچاہیے اور حقیقی مسلمان بننا چاہیے۔ یہی جناب کا مدعا ہے اور ہماری کوشش بھی۔ اس لئے جناب کاتمام مسلمانوں کو “نام نہاد مسلمان” کہنا انتہائی غلط جسارت و ہٹ دھرمی ہے، جس سے جناب کو توبہ کرنا چاہیے۔
وآخر دعوانا انِ الحمد لله رب العالمین
وصلی الله تعالیٰ علی نبینا محمد وعلی آلہ و صحبہ اجمعین۔