اشماریہ
سینئر رکن
- شمولیت
- دسمبر 15، 2013
- پیغامات
- 2,682
- ری ایکشن اسکور
- 752
- پوائنٹ
- 290
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ
آج مجھے واٹس ایپ پر ایک مضمون ملا. سوچا کہ آپ حضرات کے ساتھ بھی شئیر کر دوں.
دروغ بر گردن راوی!
یروشلم ۔۔۔۔ انٹر نیشنل لاء کیا کہتا ہے؟
امریکہ نے اسرائیل میں اپنا سفارت خانہ تل ابیب سے یروشلم منتقل کرنے کا فیصلہ تو کر لیا لیکن سوال یہ ہے کہ جب بین الاقومی قوانین کے تحت یروشلم اسرائیل کا شہر ہی نہیں ہے تو سفارت خانہ وہاں منتقل کیسے ہو سکتا ہے؟یہ سوال بہت ہی اہم ہے۔چنانچہ ہم دیکھ رہے ہیں کہ جو ممالک اسرائیل کے ناجائز وجود کو بطور ریاست تسلیم کر چکے ہیں وہ بھی اس اقدام کی حمایت نہیں کر پا رہے کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ اس اقدام کی کوئی توجیح پیش نہیں کی جا سکتی۔
اسرائیل کے ناجائز قیام کی بحث کو ایک طرف رکھ دیجیے اور اسی بیانیے میں معاملے کو دیکھ لیجیے جس بیانیے میں اسرائیل کا قیام عمل میں لایا گیا۔برطانیہ اور اقوام متحدہ کی سرپرستی میں جب اسرائیل کا قیام عمل میں لایا گیا تو یہ بات طے کر دی گئی کہ یروشلم کا شہر اسرائیل کاحصہ نہیں ہو گا۔
29 نومبر 1947 کواقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے قرارداد نمبر 181 کے تحت یہ قرار دیا کہ یروشلم کی حیثیت "Corpus Separatum" کی ہو گی۔ اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ یہ شہر اب کسی ایک ریاست کا حصہ نہیں ۔اس کی الگ اور جداگانہ حیثیت ہے۔ اقوام متحدہ نے کہا کہ چونکہ اس شہر کی مذہبی حیثیت ایسی ہے کہ یہ تینوں مذاہب کے لیے محترم ہے اسے لیے اس علاقے میں اسرائیل اور فلسطین نام سے دو ریاستیں تو وجود میں آ رہی ہیں لیکن یروشلم کا شہر "Corpus Separatum" ہو گا اورا س کا انتظام اقوام متحدہ چلائے گی۔ یہی بات جنرل اسمبلی نے گیارہ ستمبر 1948 کی اپنی قرارداد نمبر194 میں کہی اور اسی بات کا اعادہ فلسطین پر اقوام متحدہ کے کمیشن (UNCCP) نے1949 میں سوئٹزرلینڈ کے شہر لاؤزین میں اس کانفرنس میں کیا جو 27 اپریل سے 12ستمبر تک جاری رہی۔
اسرائیل نے 1949 میں مصر، اردن ، شام اور لبنان سے معاہدے کیے جنہیں "Armistice Agreement" یعنی صلح کے معاہدے کہا جاتا ہے، ان میں بھی یروشلم شہر کی یہ حیثیت برقرار رکھی گئی۔چنانچہ ایک انتظام کے تحت مشرقی یروشلم اردن کے پاس چلا گیا۔یاد رہے کہ مسجد اقصی ، قبۃ الصخرا، مغربی دیوار ،اور چرچ آف دی ہولی سپیلکر یعنی کنیسہ القیامہ اسی مشرقی یروشلم میں واقع ہیں۔1967تک یہ مقامات مسلمانوں کے پاس رہے اور اردن ہی ان کے انتظامی معاملات کو یکھتا رہا۔
1967کی جنگ میں اسرائیل نے مشرقی یروشلم پر قبضہ کر لیا لیکن دنیا نے اس قبضے کو آج تک تسلیم نہیں کیا۔ اقوام متحدہ کے مطابق مشرقی یروشلم ’’مقبوضہ فلسطین ‘‘ ہے اور اسے اسرائیل نہیں کہا جا سکتا۔سلامتی کونسل نے 22نومبر 1967 کو قرارداد نمبر 242 کے ذریعے اسرائیل کے قبضے کو ناجائز قرار دیا اور اسے مشرقی یروشلم سے نکل جانے کوکہا۔ اس قرارداد کو امریکہ سمیت 15ممالک کے ووٹ ملے، نہ کوئی ملک غیر حاضر رہا نہ کسی نے اس کے خلاف ووٹ دیا۔اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے 4جولائی 1967 کو قرارداد نمبر2253 کے ذریعے اسرائیلی قبضے کو غیر قانونی اور ناجائز قرار دیا۔اس میں کہا گیا کہ اسرائیل ہر ایسے اقدام سے باز رہے جو یروشلم شہر کی طے شدہ حیثیت کو تبدیل کر تا ہو۔99ممالک نے اس قرارداد کے حق میں ووٹ دیا اور کسی ایک ملک نے بھی اس کی مخالفت نہیں کی۔
تیرہ سال اسی طرح گزر گئے۔1980 میں اسرائیل نے اقوام متحدہ کی قراردادوں کو پامال کرتے ہوئے اعلان کر دیا کہ یروشلم اس کا دارالحکومت ہو گا۔اسرائیل نے دنیا سے کہا کہ وہ اپنے سفارت خانے یروشلم منتقل کرے۔اس قدم سے اسلامی دنیا میں بھونچال آ گیا اور او آئی سی نے کہا کہ جو ملک اپنا سفارت خانہ یروشلم لے گیا تمام اسلامی ممالک سے اس کے سفارت خانے بند اور سفارتی تعلقات منقطع کر دیے جائیں گے۔اس دوران اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے پہلے 30 جون کو قرارداد نمبر 476 اور پھر 20 اگست 1980کو قرارداد نمبر 478 پاس کی اور اسرائیل کے اس قدم کو انٹر نیشنل لاء کی خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے تمام ممالک سے کہا کہ اقوام متحدہ کے فیصلے کو مانیں اور کوئی ملک بھی اپنا سفارت خانہ یروشلم نہیں لے جائے گا۔اس قرارداد کے حق میں 14 ووٹ آئے جب کہ کسی ایک ملک نے بھی مخالفت نہیں کی۔امریکہ البتہ غیر حاضر رہا۔چنانچہ اس قرارداد کے فورا بعدبولیویا،چلی، کولمبیا، کوسٹا ریکا، پانامہ، یوروگوائے ، وینزیویلا، ایکواڈور ، سالوادور جیسے ممالک نے جو اپنے سفارت خانے یروشلم منتقل کر چکے تھے واپس تل ابیب لے کر آ گئے۔حتی کہ امریکہ کو بھی یہ ہمت نہ ہو سکی کہ وہ اپنا سفارت خانہ یروشلم لے جائے۔دسمبر 1980میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے اسرائیل کے اس اقدام کو غیر قانونی قرار دیا اور کہا کہ اسرائیل چوتھے جنیوا کنونشن کی خلاف ورزی کر رہا ہے۔وہ اس سے باز رہے۔
یروشلم کے بارے میں اقوام متحدہ واضح طور پر طے کر چکی ہے کہ یہ اسرائیل کاحصہ نہیں ہے۔جنرل اسمبلی کی چار جولائی 1967 اور چودہ جولائی کی قراردادوں کے علاوہ سلامتی کونسل کی 1968کی قرارداد نمبر252میں بھی اسرائیل سے یہی کہا گیا ہے کہ وہ ناجائز اور غیر قانونی اقدامات کر کے یروشلم شہر کی حیثیت بدل رہا ہے اس سے وہ اجتناب کرے۔
1990میں اسرائیلی کی جانب سے جب مسجد اقصی میں مسلمانوں پر تشدد ہوا تو سلامتی کونسل نے 12اکتوبر کو قرارداد نمبر 672کے ذریعے اسرائیل کو بین الاقوامی قوانین کی پامالی کا مرتکب ٹھہرایا اور کہا کہ یروشلم اسرائیل کا حصہ نہیں ہے بلکہ یہ فلسطین کا علاقہ ہے جو اس وقت مقبوضہ حیثیت میں اسرائیل کے ناجائز قبضے میں ہے۔ اس قرار داد میں اسرائیل سے کہا گیا کہ وہ اس مقبوضہ علاقے میں ان ذمہ داریوں کو ادا کرے جو اقوام متحدہ کے قوانین کے تحت مقبوضہ علاقوں کی بابت طے کر دی گئی ہیں۔
یروشلم کی حیثیت کے تعین کے لیے یہ معاملہ 2004میں بین الاقوامی عدالت انصاف کے پاس بھی پیش کیا گیا تا کہ اس سے ’’ ایڈ وائزری اوپینین‘‘ لیا جا سکے۔بین الاقوامی عدالت انصاف نے کہا کہ یروشلم اسرائیل کا حصہ نہیں ہے بلکہ اسے مقبوضہ فلسطین کہا جائے گا۔کہا گیا کہ اسرائیل یہاں دیوار تعمیر نہیں کر سکتا کیونکہ یہ علاقہ اس کا نہیں ہے بلکہ مقبوضہ ہے ۔ یہ کام بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی ہے۔عدالت نے تو یہ بھی کہا کہ جنرل اسمبلی اور سلامتی کونسل اس ضمن میں مزید اقدامات کریں۔عالمی عدالت انصاف جس مقبوضہ علاقے میں ایک دیوار تعمیر کرنے کی اجازت نہیں دے رہی آج امریکہ وہاں پورا سفارت خانہ لے جانا چاہتا ہے۔یہاں ا س غلط فہمی کو بھی دور کر لیا جائے کہ یہ محض ٹرمپ کا فیصلہ ہے۔یاد رہے کہ امریکہ تو 1995ہی میں یروشلم ایمبیسی ایکٹ متعارف کرا چکا ہے۔خواب پرانا ہے ،اس خواب کو تعبیر البتہ ڈونلڈ ٹرمپ دے رہے ہیں۔
اس وقت یروشلم کے معتبر ترین مسیحی رہنما ، گریک آرتھوڈوکس چرچ کے ثیو فیلوس الثالث اور درجن بھر دیگر مسیحی عمائدین نے ڈونلڈ ٹرمپ کو ایک احتجاجی خط لکھا ہے جس میں انہیں وارننگ دی ہے کہ سفارت خانہ یروشلم منتقل کر کے آپ ناقانل تلافی نقصان اٹھائیں گے ، اور آپ کے اس اقدام سے یہاں نفرت ، تشدد میں اضافہ ہو گا اور امن اور اتحاد سے ہم مزید دور ہو جائیں گے۔
@فواد صاحب! آپ اس بارے میں کچھ کہنا پسند فرمائیں گے؟
اور یہ بھی بتائیں گے کہ اگر اسرائیل کا یہ عمل واقعی زبردستی اور دہشت گردی ہے تو امریکا نے اس حوالے سے اسرائیل پر کوئی حملہ وغیرہ کر کے اس جگہ کو آزاد کرانے کا سوچا ہے؟ جیسے افغانستان اور عراق پر حملے کیے تھے؟
آج مجھے واٹس ایپ پر ایک مضمون ملا. سوچا کہ آپ حضرات کے ساتھ بھی شئیر کر دوں.
دروغ بر گردن راوی!
یروشلم ۔۔۔۔ انٹر نیشنل لاء کیا کہتا ہے؟
امریکہ نے اسرائیل میں اپنا سفارت خانہ تل ابیب سے یروشلم منتقل کرنے کا فیصلہ تو کر لیا لیکن سوال یہ ہے کہ جب بین الاقومی قوانین کے تحت یروشلم اسرائیل کا شہر ہی نہیں ہے تو سفارت خانہ وہاں منتقل کیسے ہو سکتا ہے؟یہ سوال بہت ہی اہم ہے۔چنانچہ ہم دیکھ رہے ہیں کہ جو ممالک اسرائیل کے ناجائز وجود کو بطور ریاست تسلیم کر چکے ہیں وہ بھی اس اقدام کی حمایت نہیں کر پا رہے کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ اس اقدام کی کوئی توجیح پیش نہیں کی جا سکتی۔
اسرائیل کے ناجائز قیام کی بحث کو ایک طرف رکھ دیجیے اور اسی بیانیے میں معاملے کو دیکھ لیجیے جس بیانیے میں اسرائیل کا قیام عمل میں لایا گیا۔برطانیہ اور اقوام متحدہ کی سرپرستی میں جب اسرائیل کا قیام عمل میں لایا گیا تو یہ بات طے کر دی گئی کہ یروشلم کا شہر اسرائیل کاحصہ نہیں ہو گا۔
29 نومبر 1947 کواقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے قرارداد نمبر 181 کے تحت یہ قرار دیا کہ یروشلم کی حیثیت "Corpus Separatum" کی ہو گی۔ اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ یہ شہر اب کسی ایک ریاست کا حصہ نہیں ۔اس کی الگ اور جداگانہ حیثیت ہے۔ اقوام متحدہ نے کہا کہ چونکہ اس شہر کی مذہبی حیثیت ایسی ہے کہ یہ تینوں مذاہب کے لیے محترم ہے اسے لیے اس علاقے میں اسرائیل اور فلسطین نام سے دو ریاستیں تو وجود میں آ رہی ہیں لیکن یروشلم کا شہر "Corpus Separatum" ہو گا اورا س کا انتظام اقوام متحدہ چلائے گی۔ یہی بات جنرل اسمبلی نے گیارہ ستمبر 1948 کی اپنی قرارداد نمبر194 میں کہی اور اسی بات کا اعادہ فلسطین پر اقوام متحدہ کے کمیشن (UNCCP) نے1949 میں سوئٹزرلینڈ کے شہر لاؤزین میں اس کانفرنس میں کیا جو 27 اپریل سے 12ستمبر تک جاری رہی۔
اسرائیل نے 1949 میں مصر، اردن ، شام اور لبنان سے معاہدے کیے جنہیں "Armistice Agreement" یعنی صلح کے معاہدے کہا جاتا ہے، ان میں بھی یروشلم شہر کی یہ حیثیت برقرار رکھی گئی۔چنانچہ ایک انتظام کے تحت مشرقی یروشلم اردن کے پاس چلا گیا۔یاد رہے کہ مسجد اقصی ، قبۃ الصخرا، مغربی دیوار ،اور چرچ آف دی ہولی سپیلکر یعنی کنیسہ القیامہ اسی مشرقی یروشلم میں واقع ہیں۔1967تک یہ مقامات مسلمانوں کے پاس رہے اور اردن ہی ان کے انتظامی معاملات کو یکھتا رہا۔
1967کی جنگ میں اسرائیل نے مشرقی یروشلم پر قبضہ کر لیا لیکن دنیا نے اس قبضے کو آج تک تسلیم نہیں کیا۔ اقوام متحدہ کے مطابق مشرقی یروشلم ’’مقبوضہ فلسطین ‘‘ ہے اور اسے اسرائیل نہیں کہا جا سکتا۔سلامتی کونسل نے 22نومبر 1967 کو قرارداد نمبر 242 کے ذریعے اسرائیل کے قبضے کو ناجائز قرار دیا اور اسے مشرقی یروشلم سے نکل جانے کوکہا۔ اس قرارداد کو امریکہ سمیت 15ممالک کے ووٹ ملے، نہ کوئی ملک غیر حاضر رہا نہ کسی نے اس کے خلاف ووٹ دیا۔اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے 4جولائی 1967 کو قرارداد نمبر2253 کے ذریعے اسرائیلی قبضے کو غیر قانونی اور ناجائز قرار دیا۔اس میں کہا گیا کہ اسرائیل ہر ایسے اقدام سے باز رہے جو یروشلم شہر کی طے شدہ حیثیت کو تبدیل کر تا ہو۔99ممالک نے اس قرارداد کے حق میں ووٹ دیا اور کسی ایک ملک نے بھی اس کی مخالفت نہیں کی۔
تیرہ سال اسی طرح گزر گئے۔1980 میں اسرائیل نے اقوام متحدہ کی قراردادوں کو پامال کرتے ہوئے اعلان کر دیا کہ یروشلم اس کا دارالحکومت ہو گا۔اسرائیل نے دنیا سے کہا کہ وہ اپنے سفارت خانے یروشلم منتقل کرے۔اس قدم سے اسلامی دنیا میں بھونچال آ گیا اور او آئی سی نے کہا کہ جو ملک اپنا سفارت خانہ یروشلم لے گیا تمام اسلامی ممالک سے اس کے سفارت خانے بند اور سفارتی تعلقات منقطع کر دیے جائیں گے۔اس دوران اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے پہلے 30 جون کو قرارداد نمبر 476 اور پھر 20 اگست 1980کو قرارداد نمبر 478 پاس کی اور اسرائیل کے اس قدم کو انٹر نیشنل لاء کی خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے تمام ممالک سے کہا کہ اقوام متحدہ کے فیصلے کو مانیں اور کوئی ملک بھی اپنا سفارت خانہ یروشلم نہیں لے جائے گا۔اس قرارداد کے حق میں 14 ووٹ آئے جب کہ کسی ایک ملک نے بھی مخالفت نہیں کی۔امریکہ البتہ غیر حاضر رہا۔چنانچہ اس قرارداد کے فورا بعدبولیویا،چلی، کولمبیا، کوسٹا ریکا، پانامہ، یوروگوائے ، وینزیویلا، ایکواڈور ، سالوادور جیسے ممالک نے جو اپنے سفارت خانے یروشلم منتقل کر چکے تھے واپس تل ابیب لے کر آ گئے۔حتی کہ امریکہ کو بھی یہ ہمت نہ ہو سکی کہ وہ اپنا سفارت خانہ یروشلم لے جائے۔دسمبر 1980میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے اسرائیل کے اس اقدام کو غیر قانونی قرار دیا اور کہا کہ اسرائیل چوتھے جنیوا کنونشن کی خلاف ورزی کر رہا ہے۔وہ اس سے باز رہے۔
یروشلم کے بارے میں اقوام متحدہ واضح طور پر طے کر چکی ہے کہ یہ اسرائیل کاحصہ نہیں ہے۔جنرل اسمبلی کی چار جولائی 1967 اور چودہ جولائی کی قراردادوں کے علاوہ سلامتی کونسل کی 1968کی قرارداد نمبر252میں بھی اسرائیل سے یہی کہا گیا ہے کہ وہ ناجائز اور غیر قانونی اقدامات کر کے یروشلم شہر کی حیثیت بدل رہا ہے اس سے وہ اجتناب کرے۔
1990میں اسرائیلی کی جانب سے جب مسجد اقصی میں مسلمانوں پر تشدد ہوا تو سلامتی کونسل نے 12اکتوبر کو قرارداد نمبر 672کے ذریعے اسرائیل کو بین الاقوامی قوانین کی پامالی کا مرتکب ٹھہرایا اور کہا کہ یروشلم اسرائیل کا حصہ نہیں ہے بلکہ یہ فلسطین کا علاقہ ہے جو اس وقت مقبوضہ حیثیت میں اسرائیل کے ناجائز قبضے میں ہے۔ اس قرار داد میں اسرائیل سے کہا گیا کہ وہ اس مقبوضہ علاقے میں ان ذمہ داریوں کو ادا کرے جو اقوام متحدہ کے قوانین کے تحت مقبوضہ علاقوں کی بابت طے کر دی گئی ہیں۔
یروشلم کی حیثیت کے تعین کے لیے یہ معاملہ 2004میں بین الاقوامی عدالت انصاف کے پاس بھی پیش کیا گیا تا کہ اس سے ’’ ایڈ وائزری اوپینین‘‘ لیا جا سکے۔بین الاقوامی عدالت انصاف نے کہا کہ یروشلم اسرائیل کا حصہ نہیں ہے بلکہ اسے مقبوضہ فلسطین کہا جائے گا۔کہا گیا کہ اسرائیل یہاں دیوار تعمیر نہیں کر سکتا کیونکہ یہ علاقہ اس کا نہیں ہے بلکہ مقبوضہ ہے ۔ یہ کام بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی ہے۔عدالت نے تو یہ بھی کہا کہ جنرل اسمبلی اور سلامتی کونسل اس ضمن میں مزید اقدامات کریں۔عالمی عدالت انصاف جس مقبوضہ علاقے میں ایک دیوار تعمیر کرنے کی اجازت نہیں دے رہی آج امریکہ وہاں پورا سفارت خانہ لے جانا چاہتا ہے۔یہاں ا س غلط فہمی کو بھی دور کر لیا جائے کہ یہ محض ٹرمپ کا فیصلہ ہے۔یاد رہے کہ امریکہ تو 1995ہی میں یروشلم ایمبیسی ایکٹ متعارف کرا چکا ہے۔خواب پرانا ہے ،اس خواب کو تعبیر البتہ ڈونلڈ ٹرمپ دے رہے ہیں۔
اس وقت یروشلم کے معتبر ترین مسیحی رہنما ، گریک آرتھوڈوکس چرچ کے ثیو فیلوس الثالث اور درجن بھر دیگر مسیحی عمائدین نے ڈونلڈ ٹرمپ کو ایک احتجاجی خط لکھا ہے جس میں انہیں وارننگ دی ہے کہ سفارت خانہ یروشلم منتقل کر کے آپ ناقانل تلافی نقصان اٹھائیں گے ، اور آپ کے اس اقدام سے یہاں نفرت ، تشدد میں اضافہ ہو گا اور امن اور اتحاد سے ہم مزید دور ہو جائیں گے۔
@فواد صاحب! آپ اس بارے میں کچھ کہنا پسند فرمائیں گے؟
اور یہ بھی بتائیں گے کہ اگر اسرائیل کا یہ عمل واقعی زبردستی اور دہشت گردی ہے تو امریکا نے اس حوالے سے اسرائیل پر کوئی حملہ وغیرہ کر کے اس جگہ کو آزاد کرانے کا سوچا ہے؟ جیسے افغانستان اور عراق پر حملے کیے تھے؟