عبداللہ عبدل
مبتدی
- شمولیت
- نومبر 23، 2011
- پیغامات
- 493
- ری ایکشن اسکور
- 2,479
- پوائنٹ
- 26
السلام علیکم ورحمۃ اللہ۔
9\11کا حادثہ امریکی تاریخ کا وہ انوکھا واقعہ ہے جس نے امریکی ساکھ اور وقار کو خاک میں ملا کر رکھ دیا اس حادثے نے امریکہ کو بوکھلا دیا اور اس نے اس واقعے کے ملزموں کو سخت سزا دینے کا اعلان کردیا ۔
بپھرے ہوئے پاگل امریکی ہاتھی نے افغانستان کو تہس نہس کرنے کے لئے یورپی اتحاد (ناٹو)کو ساتھ ملایا اور پاکستان کو دھمکی دی کہ ہمارا ساتھ دو یاپھر ہم تمہیں دشمن کا ساتھی سمجھیں گے اور غار کے تاریک دور میں پہنچادیں گے۔
ان سخت حالات میں ،کہ جب سب امریکہ سے گریزاں اور خائف تھے پاکستان کے لئے اس جنگ سے غیر جانبدار رہنا بہت مشکل امرتھا جبکہ پاکستان کے دوست ممالک کا مشورہ بھی یہی تھا کہ امریکہ کا مطالبہ مان لینا ہی مناسب ہے اور اس سے ٹکراؤٹھیک نہیں ۔
پاکستان نے اس جنگ میں ایک بہت مشکل فیصلہ کیا جس سے وہ امریکہ کی مخالفت و تباہی سے بھی بچ سکتا تھا اور اس کو افغانستان کی دلدل میں پھنساکر اس کا غروربھی خاک میں ملا سکتا تھا ۔
امریکی جنگ میں شرکت،خوف یا حکمت عملی :
اگر اس شرکت کا سبب امریکہ کا خوف اور ڈر تھا تو شرعا ًاس کی بھی گنجائش اور رخصت ملتی ہے اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
لَّا يَتَّخِذِ ٱلۡمُؤۡمِنُونَ ٱلۡكَـافِرِينَ أَوۡلِيَآءَ مِن دُونِ ٱلۡمُؤۡمِنِينَۖ وَمَن يَفۡعَلۡ ذَٲلِكَ فَلَيۡسَ مِنَ ٱللَّهِ فِى شَىۡءٍ إِلَّآ أَن تَتَّقُواْ مِنۡهُمۡ تُقَٮٰةً۬۔۔۔۔۔
“ایمان والے مؤمنوں کو چھوڑ کر کافروں کو دوست مت بنائیں اور جو ایسا کرے گا وہ اللہ کی طرف سے کسی چیز میں نہیں مگریہ کہ تم ان سے بچو،کسی طرح سے بچنا”
مَن ڪَفَرَ بِٱللَّهِ مِنۢ بَعۡدِ إِيمَـانِهِۦۤ إِلَّا مَنۡ أُڪۡرِهَ وَقَلۡبُهُ ۥ مُطۡمَٮِٕنُّۢ بِٱلۡإِيمَـانِ
“جو شخص اللہ کو ساتھ کفر کرے اپنے ایمان کے بعد ،سوائے اس کے جسے مجبور کیا جائےاور اس کا دل ایمان پر مطمئن ہو۔”
اور اگراس نقطہ پر نظر ڈالیں جو کہ اب وقت کے ساتھ ساتھ واضح ہوتا جا رہا ہے کہ پاکستان حکمت عملی کے تحت اس جنگ میں شرکت پر آمادہ ہوا تو جنگ میں اس طرح کی حکمت عملی( فرمان رسولﷺ کےمطابق )اختیار کی جاسکتی ہے۔
آپ ﷺ نے فرمایا:
"الحرب خدعۃ"
“ جنگ تو نام ہی دھوکہ دہی کا ہے ۔”(صحیح البخاری )
ہم دیانتداری سے یہ سمجھتےہیں کہ اس جنگ میں شرکت کے اسباب میں ڈر اور حکمت عملی دونوں ہی شامل ہیں پا کستان کی جغرافیائی صورت حال اس طرح کی ہے کہ ایک طرف بھارت ہے جو کہ پاکستان کا ازلی دشمن ہے اس کے ساتھ پاکستان کی چار جنگیں ہوچکی ہیں 2900 km(تقریباً )بارڈرپر انڈین آرمی بیٹھی ہوئی ہے اوردوسری طرف افغانستان ،کہ جس کے ساتھ پا کستان کا بارڈرتقریباً 2600kmلمبا ہے جہاں انڈیا نوازشمالی اتحادکی حکومت کی صورت میں پاکستان دو پاٹوں کے درمیان پس کررہ جاتا ۔
اس مشکل صورت حال میں پاکستان نے دوست ممالک کے مشورے سے ایک حکمت عملی اختیار کر کے امریکہ کو افغانستان پر حملہ کرنے کے لئے راستہ اور جگہ فراہم کی اور یوں امریکی بدمعاش اس جال میں ایسے پھنسے کہ اب راہ فرار کے لئے پاکستان اور طالبان کی منتیں کر رہے ہیں اور انہیں اپنی نام نہاد عزت بچانا مشکل ہو رہا ہے ۔
اب دشمن امریکہ و اتحادی چیخ چیخ کر کہہ رہے ہیں کہ پاکستان نے (امریکہ اور ناٹوکو) دھوکہ دیا ، مروادیا اوراب وہ پاکستان کے خلاف سازشیں کر رہے ہیں بلوچستان اور کراچی کے حالات اس بات کے گواہ ہیں لیکن ہمارے چند جذباتی اور ظاہر بین جوشیلے بھائی (جو نہ تو جنگی حربوں کو سمجھتے ہیں اور نہ دینی سمجھ بوجھ رکھتے ہیں ) اس بات پر ناراض ہیں اور نادانستگی میں امریکی اور بھارتی عزائم کی تکمیل کررہے ہیں ۔
افغان کوئٹہ شوری ،حقانی گروپ،اور اسامہ بن لادن کی پاکستان کے حساس ترین علاقوں میں موجودگی،کیا یہ بات ثابت کرنے کے لئے کافی نہیں کہ پاکستان کا اس جنگ میں حقیقی کردار کیا رہا ہے ۔۔؟؟
گوریلا جنگ کو سمجھنے والے لوگ اس بات کو جانتے ہیں کہ گوریلا جنگ کی کامیابی کے لئے ایک بیس کیمپ کی ضرورت ہوتی ہے جہاں یہ گوریلا ٹریننگ لے سکیں ،علاج ومعالجہ کروا سکیں اور آرام کرسکیں ۔اس بیس کیمپ کے بغیر گوریلا وار جیتنا ناممکن ہے ۔
پاکستان وہ واحد ملک ہے جس نے روس کے خلاف افغان مجاہدین کی سب سے زیادہ مدد کی تھی افغانستان میں طالبان حکومت بنوانے ،اسے سب سے پہلے تسلیم کرنے ،پاکستان میں سفارت خانے بنانے اور دنیا بھر میں رابطہ قائم کرنے کی سہولت پاکستان نے ہی دی تھی ۔اور اب بھی وہ افغان مجاہدین کا خفیہ تعاون جاری رکھے ہوئے ہے۔
کفر سے مسلمانوں کے خلاف جنگ میں تعاون یقینا ًایک سنگین جرم ہے اور یہ کام انسان کو کبیرہ گناہ سے کفروارتداد تک لے جاتا ہے، یہی وجہ ہے کہ ۲۰۰۱ میں تمام مکاتب فکر کے علماء نے متفقہ طور پر حکومت کو اس مسئلے پر خبردارکرنے اور اس معاملے کی سنگینی سے ڈرانے کی کوشش کی تھا اور اس کے ساتھ ساتھ امریکی خفیہ منصوبوں ( پاکستان کے ایٹمی پروگرام اور اسلامی و جہادی تشخص کو تباہ کرنا ) کے بارے میں خبردار کیا۔
لیکن ایک طرف تو سہمے اور ڈرے ہوئے بزدل حکمران مجبوری کی گردان کرتے نظر آئے تو دوسری طرف ،ہمارے کچھ نا سمجھ و نادان ، دینی علوم سے بے بہرہ یا سطحی علم رکھنے والے ، زمینی حقائق سے بے خبر افراد، اس کمزوری اور خوف زدہ تعاون کو صرف کفر اکبر اورارتدا د کے زمرے میں ڈالنے پر اصرار کرتےنظر آئے۔ حالانکہ کہ کفر سے تعاون ، کبیرہ گناہ بھی ہےاور کفر اکبر بھی ، جو کہ بہت سے اصول و ضوابط اور حالات کے صحیح علم اور تعاون کرنے والے کی حقیقی کیفیت کے علم کا متقاضی ہے۔
یہیں پر بس نہیں !
بلکہ غلو کا شکار یہ لوگ اس نظریہ کی بنیاد پر پاکستان میں باقاعدہ ’’قتال و جہاد‘‘ کا نعرہ لگانے لگے. پاکستان کو دارالحرب قرار دے دیا اور مسلمان معاشرے کو حکمرانوں کی نا اہلی اور جہالت کی سزا دینا شروع کر دی۔ امن تباہ ہوا ،مسجدیں پامال ہوئیں, بچے یتیم ہوئے، عورتیں بیوہ ہوئیں اور لوگ جہاد جیسی عظیم عبادت سے ڈرنے اور گھبرانے لگے (حالانکہ اگر یہ حقیقی جہاد ہوتا تو جو اثرات پاکستانی مسلمانوں پرمرتب ہوئے، یہ مسلمانوں کی بجائے امریکہ و ناٹو اور مشرکین ہند پر نظر آنے چاہئیں تھے)۔
ذرا سوچئے !
جو نقشہ اس وقت بن چکا ہے اور حالات دن بدن کھلتے جا رہے ہیں ، ان حالات میں کفروارتداد کے فتوے لگانا ، ملک میں دھماکے اور مسلح کاروائیوں سے اسلامیان پاکستان کو(دانستہ و غیر دانستہ) خون میں نہلانا ،کیسا جہاد اورکہاں کی دینداری ہے ؟
ان مشکل ترین حالات میں دشمن کو للکارنے کی بجائے اس کے دیرینہ عزائم(پاکستان کے ایٹمی پروگرام اور اسلامی و جہادی تشخص کو تباہ کرنا) کی تکمیل کا موقع فراہم کرنا کہا ں کی اسلام دوستی اور کیسی دانشمندی ہے ؟
روس کے خلاف افغان مجاہدین کی جتنی مدد پاکستان نے کی تھی ( اب تک لاکھوں افغان ،پاکستان میں پناہ گزیں ہیں )اس کی مثال موجودہ دور میں کہیں نہیں ملتی ، روس نے بھی اپنا بدلہ اور انتقام لینے کے لئے پاکستان میں تخریب کاری کروائی تھی اور اب امریکہ بھی (اپنے ایجنٹوں کے ہاتھوں ) یہی کام کروارہا ہے لیکن ہمارے بھولے بھالے بھائی ان چالوں اور سازشوں کو سمجھنے سے قاصرہیں ۔اللہ تعالیٰ انہیں درست بات سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے۔اٰمین
امریکی جنگ میں پاکستان کی شرکت کی حقیقت
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
نحمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم امابعد!9\11کا حادثہ امریکی تاریخ کا وہ انوکھا واقعہ ہے جس نے امریکی ساکھ اور وقار کو خاک میں ملا کر رکھ دیا اس حادثے نے امریکہ کو بوکھلا دیا اور اس نے اس واقعے کے ملزموں کو سخت سزا دینے کا اعلان کردیا ۔
بپھرے ہوئے پاگل امریکی ہاتھی نے افغانستان کو تہس نہس کرنے کے لئے یورپی اتحاد (ناٹو)کو ساتھ ملایا اور پاکستان کو دھمکی دی کہ ہمارا ساتھ دو یاپھر ہم تمہیں دشمن کا ساتھی سمجھیں گے اور غار کے تاریک دور میں پہنچادیں گے۔
ان سخت حالات میں ،کہ جب سب امریکہ سے گریزاں اور خائف تھے پاکستان کے لئے اس جنگ سے غیر جانبدار رہنا بہت مشکل امرتھا جبکہ پاکستان کے دوست ممالک کا مشورہ بھی یہی تھا کہ امریکہ کا مطالبہ مان لینا ہی مناسب ہے اور اس سے ٹکراؤٹھیک نہیں ۔
پاکستان نے اس جنگ میں ایک بہت مشکل فیصلہ کیا جس سے وہ امریکہ کی مخالفت و تباہی سے بھی بچ سکتا تھا اور اس کو افغانستان کی دلدل میں پھنساکر اس کا غروربھی خاک میں ملا سکتا تھا ۔
امریکی جنگ میں شرکت،خوف یا حکمت عملی :
اگر اس شرکت کا سبب امریکہ کا خوف اور ڈر تھا تو شرعا ًاس کی بھی گنجائش اور رخصت ملتی ہے اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
لَّا يَتَّخِذِ ٱلۡمُؤۡمِنُونَ ٱلۡكَـافِرِينَ أَوۡلِيَآءَ مِن دُونِ ٱلۡمُؤۡمِنِينَۖ وَمَن يَفۡعَلۡ ذَٲلِكَ فَلَيۡسَ مِنَ ٱللَّهِ فِى شَىۡءٍ إِلَّآ أَن تَتَّقُواْ مِنۡهُمۡ تُقَٮٰةً۬۔۔۔۔۔
“ایمان والے مؤمنوں کو چھوڑ کر کافروں کو دوست مت بنائیں اور جو ایسا کرے گا وہ اللہ کی طرف سے کسی چیز میں نہیں مگریہ کہ تم ان سے بچو،کسی طرح سے بچنا”
(اٰل عمران:28)
اورایک دوسرے مقام پرفرمایا :مَن ڪَفَرَ بِٱللَّهِ مِنۢ بَعۡدِ إِيمَـانِهِۦۤ إِلَّا مَنۡ أُڪۡرِهَ وَقَلۡبُهُ ۥ مُطۡمَٮِٕنُّۢ بِٱلۡإِيمَـانِ
“جو شخص اللہ کو ساتھ کفر کرے اپنے ایمان کے بعد ،سوائے اس کے جسے مجبور کیا جائےاور اس کا دل ایمان پر مطمئن ہو۔”
(النحل :106)
اللہ تعالیٰ نے مجبوری اور اکراہ کی صورت میں کفارسے دوستی کا اظہار اور جان بچانے کے لئے کلمہ کفر کہنے یا کفریہ فعل سر انجام دینے کی رخصت دی ہے جبکہ دل ایمان پر مطمئن ہو ۔اور اگراس نقطہ پر نظر ڈالیں جو کہ اب وقت کے ساتھ ساتھ واضح ہوتا جا رہا ہے کہ پاکستان حکمت عملی کے تحت اس جنگ میں شرکت پر آمادہ ہوا تو جنگ میں اس طرح کی حکمت عملی( فرمان رسولﷺ کےمطابق )اختیار کی جاسکتی ہے۔
آپ ﷺ نے فرمایا:
"الحرب خدعۃ"
“ جنگ تو نام ہی دھوکہ دہی کا ہے ۔”(صحیح البخاری )
ہم دیانتداری سے یہ سمجھتےہیں کہ اس جنگ میں شرکت کے اسباب میں ڈر اور حکمت عملی دونوں ہی شامل ہیں پا کستان کی جغرافیائی صورت حال اس طرح کی ہے کہ ایک طرف بھارت ہے جو کہ پاکستان کا ازلی دشمن ہے اس کے ساتھ پاکستان کی چار جنگیں ہوچکی ہیں 2900 km(تقریباً )بارڈرپر انڈین آرمی بیٹھی ہوئی ہے اوردوسری طرف افغانستان ،کہ جس کے ساتھ پا کستان کا بارڈرتقریباً 2600kmلمبا ہے جہاں انڈیا نوازشمالی اتحادکی حکومت کی صورت میں پاکستان دو پاٹوں کے درمیان پس کررہ جاتا ۔
اس مشکل صورت حال میں پاکستان نے دوست ممالک کے مشورے سے ایک حکمت عملی اختیار کر کے امریکہ کو افغانستان پر حملہ کرنے کے لئے راستہ اور جگہ فراہم کی اور یوں امریکی بدمعاش اس جال میں ایسے پھنسے کہ اب راہ فرار کے لئے پاکستان اور طالبان کی منتیں کر رہے ہیں اور انہیں اپنی نام نہاد عزت بچانا مشکل ہو رہا ہے ۔
اب دشمن امریکہ و اتحادی چیخ چیخ کر کہہ رہے ہیں کہ پاکستان نے (امریکہ اور ناٹوکو) دھوکہ دیا ، مروادیا اوراب وہ پاکستان کے خلاف سازشیں کر رہے ہیں بلوچستان اور کراچی کے حالات اس بات کے گواہ ہیں لیکن ہمارے چند جذباتی اور ظاہر بین جوشیلے بھائی (جو نہ تو جنگی حربوں کو سمجھتے ہیں اور نہ دینی سمجھ بوجھ رکھتے ہیں ) اس بات پر ناراض ہیں اور نادانستگی میں امریکی اور بھارتی عزائم کی تکمیل کررہے ہیں ۔
افغان کوئٹہ شوری ،حقانی گروپ،اور اسامہ بن لادن کی پاکستان کے حساس ترین علاقوں میں موجودگی،کیا یہ بات ثابت کرنے کے لئے کافی نہیں کہ پاکستان کا اس جنگ میں حقیقی کردار کیا رہا ہے ۔۔؟؟
گوریلا جنگ کو سمجھنے والے لوگ اس بات کو جانتے ہیں کہ گوریلا جنگ کی کامیابی کے لئے ایک بیس کیمپ کی ضرورت ہوتی ہے جہاں یہ گوریلا ٹریننگ لے سکیں ،علاج ومعالجہ کروا سکیں اور آرام کرسکیں ۔اس بیس کیمپ کے بغیر گوریلا وار جیتنا ناممکن ہے ۔
پاکستان وہ واحد ملک ہے جس نے روس کے خلاف افغان مجاہدین کی سب سے زیادہ مدد کی تھی افغانستان میں طالبان حکومت بنوانے ،اسے سب سے پہلے تسلیم کرنے ،پاکستان میں سفارت خانے بنانے اور دنیا بھر میں رابطہ قائم کرنے کی سہولت پاکستان نے ہی دی تھی ۔اور اب بھی وہ افغان مجاہدین کا خفیہ تعاون جاری رکھے ہوئے ہے۔
کفر سے مسلمانوں کے خلاف جنگ میں تعاون یقینا ًایک سنگین جرم ہے اور یہ کام انسان کو کبیرہ گناہ سے کفروارتداد تک لے جاتا ہے، یہی وجہ ہے کہ ۲۰۰۱ میں تمام مکاتب فکر کے علماء نے متفقہ طور پر حکومت کو اس مسئلے پر خبردارکرنے اور اس معاملے کی سنگینی سے ڈرانے کی کوشش کی تھا اور اس کے ساتھ ساتھ امریکی خفیہ منصوبوں ( پاکستان کے ایٹمی پروگرام اور اسلامی و جہادی تشخص کو تباہ کرنا ) کے بارے میں خبردار کیا۔
لیکن ایک طرف تو سہمے اور ڈرے ہوئے بزدل حکمران مجبوری کی گردان کرتے نظر آئے تو دوسری طرف ،ہمارے کچھ نا سمجھ و نادان ، دینی علوم سے بے بہرہ یا سطحی علم رکھنے والے ، زمینی حقائق سے بے خبر افراد، اس کمزوری اور خوف زدہ تعاون کو صرف کفر اکبر اورارتدا د کے زمرے میں ڈالنے پر اصرار کرتےنظر آئے۔ حالانکہ کہ کفر سے تعاون ، کبیرہ گناہ بھی ہےاور کفر اکبر بھی ، جو کہ بہت سے اصول و ضوابط اور حالات کے صحیح علم اور تعاون کرنے والے کی حقیقی کیفیت کے علم کا متقاضی ہے۔
یہیں پر بس نہیں !
بلکہ غلو کا شکار یہ لوگ اس نظریہ کی بنیاد پر پاکستان میں باقاعدہ ’’قتال و جہاد‘‘ کا نعرہ لگانے لگے. پاکستان کو دارالحرب قرار دے دیا اور مسلمان معاشرے کو حکمرانوں کی نا اہلی اور جہالت کی سزا دینا شروع کر دی۔ امن تباہ ہوا ،مسجدیں پامال ہوئیں, بچے یتیم ہوئے، عورتیں بیوہ ہوئیں اور لوگ جہاد جیسی عظیم عبادت سے ڈرنے اور گھبرانے لگے (حالانکہ اگر یہ حقیقی جہاد ہوتا تو جو اثرات پاکستانی مسلمانوں پرمرتب ہوئے، یہ مسلمانوں کی بجائے امریکہ و ناٹو اور مشرکین ہند پر نظر آنے چاہئیں تھے)۔
ذرا سوچئے !
جو نقشہ اس وقت بن چکا ہے اور حالات دن بدن کھلتے جا رہے ہیں ، ان حالات میں کفروارتداد کے فتوے لگانا ، ملک میں دھماکے اور مسلح کاروائیوں سے اسلامیان پاکستان کو(دانستہ و غیر دانستہ) خون میں نہلانا ،کیسا جہاد اورکہاں کی دینداری ہے ؟
ان مشکل ترین حالات میں دشمن کو للکارنے کی بجائے اس کے دیرینہ عزائم(پاکستان کے ایٹمی پروگرام اور اسلامی و جہادی تشخص کو تباہ کرنا) کی تکمیل کا موقع فراہم کرنا کہا ں کی اسلام دوستی اور کیسی دانشمندی ہے ؟
روس کے خلاف افغان مجاہدین کی جتنی مدد پاکستان نے کی تھی ( اب تک لاکھوں افغان ،پاکستان میں پناہ گزیں ہیں )اس کی مثال موجودہ دور میں کہیں نہیں ملتی ، روس نے بھی اپنا بدلہ اور انتقام لینے کے لئے پاکستان میں تخریب کاری کروائی تھی اور اب امریکہ بھی (اپنے ایجنٹوں کے ہاتھوں ) یہی کام کروارہا ہے لیکن ہمارے بھولے بھالے بھائی ان چالوں اور سازشوں کو سمجھنے سے قاصرہیں ۔اللہ تعالیٰ انہیں درست بات سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے۔اٰمین
الشیخ ابو عمیر السلفی حفظہ اللہ تعالیٰ