جناب
میں پھر عرض کر رہا ہوں جذبات سے نہیں احادیث سے سمجھتے ہیں
(1) 30 سال خلافت والی حدیث کو سلف سے خلف تک تمام محدثین نے قبول کیا ہے اور اس کی سند بھی صحیح ہے اس کے ایک راوی سَعِيدِ بْنِ جُمْهَان پر صرف ابن حاتم نے کچھ کلام کیا ہے وہ بھی اس طرح کا جیسا انہوں اکثر بخاری اور مسلم کے راویوں کے بارے میں کیا ہے " يكتب حديثه ، و لا يحتج به" مگر عصر حاضر کے تمام محدثین البانی زبیر علی زئی شعیب اروناط وغیرہ نے اس حدیث کو صحیح کہا ہے اور یہ آپ بھی مانتے ہی ہیں کہ یہ حدیث صحیح ہے۔
(2) آپ کی دوسری بات کہ میں نے اس سے بظاہر اہل تشیع کا مطلب اخذ کر رہا ہوں اور وہ مطلب اخذ کرنا اہل سنت کو شیوہ نہیں دیتا ہے اور مودوی کی اقتدا میں
ان جیسے اور عالم فاضل علماء نے بھی رافضیوں کی اقتداء میں ملوکیت قرار دے دیا ہے
میں بڑے مودبانہ انداز میں عرض کرنا چاہتا ہوں کہ اس حدیث سے اہل سنت کے اتنے علماء اور اکابرین نے 30 سال بعد ملوکیت کہا ہے کہ میرے خیال سے اہل سنت کے پاس اکابرین کی تعداد ہی انتہائی کم رہ جائے گی آپ گنا شروع کریں۔
(1) حافظ ابن حجر (2) امام ذہبی(3) امام ابن کثیر(4) امام ابن تیمیہ(5) صفی الرحمن مبارکپوری(6) شمس الدین مراد ابادی (شرح ابوداود)(7) ملا علی قاری(10) ناصر الدین البانی۔ ثم عشرہ کاملین۔
اس میں ابھی اور بھی نام تھے مگر اپ کہ لیے یہ کافی ہے۔ ان میں سے کوئی بھی رافضی نہیں اور اگر کہیں گے تو سب کی الگ الگ عبارات بھی پیش کر دوں گا۔
اور یہ امام ابن تیمیہ کا فتاوی سے عبارت پڑھ لو
وَثَبَتَ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ قَالَ: {خِلَافَةُ النُّبُوَّةِ ثَلَاثُونَ سَنَةً ثُمَّ تَصِيرُ مُلْكًا} وَقَالَ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ {عَلَيْكُمْ بِسُنَّتِي وَسُنَّةِ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ الْمَهْدِيِّينَ مِنْ بَعْدِي تَمَسَّكُوا بِهَا وَعَضُّوا عَلَيْهَا بِالنَّوَاجِذِ وَإِيَّاكُمْ وَمُحْدَثَاتِ الْأُمُورِ فَإِنَّ كُلَّ بِدْعَةٍ ضَلَالَةٌ} . وَكَانَ أَمِيرُ الْمُؤْمِنِينَ عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ آخِرَ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ الْمَهْدِيِّينَ. وَقَدْ اتَّفَقَ عَامَّةُ أَهْلِ السُّنَّةِ مِنْ الْعُلَمَاءِ وَالْعِبَادِ وَالْأُمَرَاءِ وَالْأَجْنَادِ عَلَى أَنْ يَقُولُوا: أَبُو بَكْرٍ ثُمَّ عُمَرُ؛ ثُمَّ عُثْمَانُ؛ ثُمَّ عَلِيٌّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ.(مجموع فتاوی جلد 3 ص 406
پڑھ لیا اخری خلیفۃ علی رضی اللہ عنہ ہے اور امام ابن تیمیہ بھی اسی حدیث سے استدلال فرما رہے ہیں اس پر اتفاق نقل کر رہے ہیں یہ اتفاق رافضیوں کا نہیں ہے بلکہ اہل سنت و الجماعت کا ہے۔ اور ذرا یہ لنک بھی دیکھ لیجیے گا۔
http://saifmaslool.blogspot.com/2014/12/blog-post.html
(3) ابن عمر رضی اللہ عنہ کے حوالے سے جو اپ نے نقل کیا ہے ابن عمر رضی اللہ عنہ نے اخرت کو پسند کر لیا تھا اور اسی پر اکتفا کر لیا اور وہ فتنہ کی وجہ سے ہر کسی کی بیعت کر لیتے تھے جیسا میں نے پہلے بھی نقل کیا تھا۔
قَالَ ابْنُ عُمَرَ حِينَ أَتَتْهُ بَيْعَةُ يَزِيدَ: «إِنْ كَانَ خَيْرًا رَضِينَا، وَإِنْ كَانَ بَلَاءً صَبَرْنَا»
الصبر ابن ابی دنیا رقم 168
اور فتح الباری میں ابن حجر فرماتے ہیں۔
بن عُمَرَ بِخِلَافِ ذَلِكَ وَأَنَّهُ لَا يُبَايَعُ الْمَفْضُولُ إِلَّا إِذَا خُشِيَ الْفِتْنَةُ وَلِهَذَا بَايَعَ بَعْدَ ذَلِكَ مُعَاوِيَةَ ثُمَّ ابْنَهُ يَزِيدَ وَنَهَى بَنِيهِ عَنْ نَقْضِ بَيْعَتِهِ كَمَا سَيَأْتِي فِي الْفِتَنِ وَبَايَعَ بَعْدَ ذَلِكَ لِعَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ مَرْوَان (فتح الباری تحت رقم 4108 باب غزوہ الخندق)
اس میں صاف موجود ہے کہ انہوں نے معاویہ رضی اللہ عنہ پھر یزید اور اس کے بعد عبدالملک بن مروان کی بیعت فتنہ کی وجہ سے کی تھی۔
(4) اب اخری بات میں نے جو مظالم کے واقعات نقل کیے تھے وہ کسی ابو مخف واقدی اور نہ کسی رافضی سے نقل کیےتھے یہ بخاری اور مسلم کی احادیث ہے آپ کو یقین نہیں ہوا اس لیے اب متن سمیت روایت کر رہا ہوں۔
صحیح مسلم کی روایت
عَادَ عُبَيْدُ اللهِ بْنُ زِيَادٍ مَعْقِلَ بْنَ يَسَارٍ الْمُزَنِيَّ فِي مَرَضِهِ الَّذِي مَاتَ فِيهِ، فَقَالَ مَعْقِلٌ: إِنِّي مُحَدِّثُكَ حَدِيثًا سَمِعْتُهُ مِنْ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، لَوْ عَلِمْتُ أَنَّ لِي حَيَاةً مَا حَدَّثْتُكَ، إِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: «مَا مِنْ عَبْدٍ يَسْتَرْعِيهِ اللهُ رَعِيَّةً، يَمُوتُ يَوْمَ يَمُوتُ وَهُوَ غَاشٌّ لِرَعِيَّتِهِ، إِلَّا حَرَّمَ اللهُ عَلَيْهِ الْجَنَّةَ»(صحیح مسلم کتاب امارہ باب فَضِيلَةِ الْإِمَامِ الْعَادِلِ، وَعُقُوبَةِ الْجَائِر
اور اس کی شرح میں یہ لکھا ہے
لولا أني في الموت لم أحدثك به يحتمل أنه كان يخافه على نفسه
انہوں نے مرنے کے وقت حدیث اس لئے بتائی کہ اس سے قبل ان کو جان کا خوف تھا۔
اس کی دوسری حدیث
أَنَّ عَائِذَ بْنَ عَمْرٍو، وَكَانَ مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ دَخَلَ عَلَى عُبَيْدِ اللهِ بْنِ زِيَادٍ، فَقَالَ: أَيْ بُنَيَّ، إِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «إِنَّ شَرَّ الرِّعَاءِ الْحُطَمَةُ، فَإِيَّاكَ أَنْ تَكُونَ مِنْهُمْ» ، فَقَالَ لَهُ: اجْلِسْ فَإِنَّمَا أَنْتَ مِنْ نُخَالَةِ أَصْحَابِ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّم
اس کے الفاظ پڑھو "نُخَالَةِ أَصْحَابِ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّم"
تو آصحاب محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی بھوسی ہے یہ صحابہ کی عزت کی جاتی تھی نعوذ باللہ۔
اب بخاری میں دیکھتے ہیں
أَنَّ عُبَيْدَ اللَّهِ بْنَ زِيَادٍ، عَادَ مَعْقِلَ بْنَ يَسَارٍ فِي مَرَضِهِ الَّذِي مَاتَ فِيهِ، فَقَالَ لَهُ مَعْقِلٌ إِنِّي مُحَدِّثُكَ حَدِيثًا سَمِعْتُهُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «مَا مِنْ عَبْدٍ اسْتَرْعَاهُ اللَّهُ رَعِيَّةً، فَلَمْ يَحُطْهَا بِنَصِيحَةٍ، إِلَّا لَمْ يَجِدْ رَائِحَةَ الجَنَّةِ»
بخاری رقم 7150
ابن حجر نے بھی معقل بن یسا کے وفات کے قصہ کے تحت حسن بصری رحمہ اللہ کا یہ قول ابن زیاد کے بارے میں نقل کیا ہے کہ"الْحَسَنِ قَالَ لَمَّا قَدِمَ عَلَيْنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ زِيَادٍ أَمِيرًا أَمَّرَهُ عَلَيْنَا مُعَاوِيَةُ غُلَامًا سَفِيهًا يَسْفِكُ الدِّمَاءَ سَفْكًا شَدِيدًا"
ابن زیاد سفاک بیوقوف چھوکرا جو خون پانی کی طرح بہاتا تھا۔(فتح الباری تحت رقم7150)
اب مروان کے بارے میں پڑھو
قَالَ أَبُو سَعِيدٍ: «فَلَمْ يَزَلِ النَّاسُ عَلَى ذَلِكَ حَتَّى خَرَجْتُ مَعَ مَرْوَانَ - وَهُوَ أَمِيرُ المَدِينَةِ - فِي أَضْحًى أَوْ فِطْرٍ، فَلَمَّا أَتَيْنَا المُصَلَّى إِذَا مِنْبَرٌ بَنَاهُ كَثِيرُ بْنُ الصَّلْتِ، فَإِذَا مَرْوَانُ يُرِيدُ أَنْ يَرْتَقِيَهُ قَبْلَ أَنْ يُصَلِّيَ، فَجَبَذْتُ بِثَوْبِهِ، فَجَبَذَنِي، فَارْتَفَعَ، فَخَطَبَ قَبْلَ الصَّلاَةِ» ، فَقُلْتُ لَهُ: غَيَّرْتُمْ وَاللَّهِ، فَقَالَ أَبَا سَعِيدٍ: «قَدْ ذَهَبَ مَا تَعْلَمُ» ، فَقُلْتُ: مَا أَعْلَمُ وَاللَّهِ خَيْرٌ مِمَّا لاَ أَعْلَمُ، فَقَالَ: «إِنَّ النَّاسَ لَمْ يَكُونُوا يَجْلِسُونَ لَنَا بَعْدَ الصَّلاَةِ، فَجَعَلْتُهَا قَبْلَ الصَّلاَةِ»
صحیح بخاری کتاب الجمعہ رقم 956
اس کی شرح میں موجود ہے کہ خطبہ کیوں پہلے پڑھا جاتا تھا اس کی وجہ یہ تھی کہ خطبوں میں علی رضی اللہ عنہ پر لعنت کی جاتی تھی لوگ سنتے نہیں تھے اٹھ کر چلے جاتے اس لیے لوگوں کو سنانے کے لیے خطبہ پہلے کیا جاتا تھا۔ یہ چند حوالے ہیں جو میں نے نہ کسی تاریخ کی کتاب سے دیے ہیں اور نہ کسی رافضی کی کتاب سے بلکہ یہ اہل سنت و الجماعت کی سب سے معتبر کتب ہیں اس ظلم کے خلاف حیسن رضی اللہ عنہ کھڑے ہوے تھے اللہ سب کو ہدایت دے