• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

امیر یزید کی بیعت سے بعض صحابہ کا اختلاف اور اس کی نوعیت

سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,999
ری ایکشن اسکور
9,800
پوائنٹ
722
یزید کی مذمت میں ایک بات یہ بھی کہی جاتی ہے کہ جب یزید کی بیعت لی گئی تو بعض صحابہ کی طرف سےاس کی مخالفت ہوئی ۔

عرض ہے کہ سب سے پہلے یہ بات اچھی طرح ذہن نشین کرلینی چاہئے کہ جن حضرات نے بھی بیعت یزید کی مخالفت کی تھی ان کی مخالفت فی نفسہ یزید کی شخصیت سے نہیں تھی بلکہ ان کی مخالفت اس اندیشہ پر قائم تھی کہ اگر باپ کے بعد بیٹے کو خلیفہ بنادیا گیا تو کہیں ایسا نہ ہو کہ آگے چل کر یہ اصول بن جائے اور ہرخلیفہ کے بعد اس کے بیٹے ہی کو خلیفہ بنا یا جانے لگے۔

اس لئے سدباب کے لئے محض اس آئین سے بعض صحابہ نے اختلاف کیا ،یادرہے کہ بیعت یزید کی تجویز پیش کرنے والے اوراسے عملی شکل دینے والے سب صحابہ ہی تھے ،اس لئے جن سے اختلاف کیا گیا وہ بھی صحابہ تھے اور جنہوں نے اختلاف کیا وہ بھی صحابہ تھے ،یزید کی شخصیت کا فی نفسہ اس اختلاف سے کوئی تعلق نہیں ،کسی بھی صحابی نے اس موقع پریزید کے اخلاق و کردار کو موضوع بحث نہیں بنایااورنہ ہی یزید کی عدالت وصلاحیت سے انکارکیا،بلکہ اختلاف صرف باپ کے بعد بیٹے کی بیعت سے تھا ، اورمحض چندصحابہ کااختلاف وہ بھی یزید کی شخصیت سے نہیں بلکہ باپ کے بعد بیٹے کی بیعت سے ،اس سے یزید پرکوئی حرف نہیں آتا ورنہ علی رضی اللہ عنہ کے بارے میں کیا کہیں گے ان کی تو صرف چندصحابہ نہیں بلکہ صحابہ کی ایک بڑی جماعت نے مخالفت کی جن میں ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا بھی تھیں ،اورمبشربالجنہ صحابہ کرام بھی تھے، یہاں بھی اختلا ف علی رضی اللہ عنہ کی شخصیت سے نہیں بلکہ بعض اصولوں سے تھاجن کی تفصیل کا یہ موقع نہیں ۔
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,999
ری ایکشن اسکور
9,800
پوائنٹ
722
صرف دو صحابہ نے ہی بیعت یزید کی مخالف کی

اوپر وضاحت کی جاچکی ہے کہ فی نفسہ یزید کی شخصیت سے کسی کو اختلاف نہیں تھا بلکہ اختلاف صرف باپ کے بعد بیٹے کو خلیفہ بنانے سے تھا اور یہ فیصلہ یزید کا نہیں بلکہ صحابہ ہی کا تھا ، اس لئے بعض کا یہ اختلاف بھی یزید سے نہیں بلکہ صحابہ ہی سے تھا اور یہ اختلاف کرنے والے نہ تو کبار صحابہ میں سے تھے اور نہ ہی یہ لوگ کوئی بڑی تعداد میں تھے بلکہ صحیح روایات کی روشنی صرف اور صرف دو صحابہ کا اختلاف ثابت ہے ایک عبدالرحمن بن ابی بکر رضی اللہ عنہ اور دوسرے عبداللہ بن زبیررضی اللہ عنہ۔ ملاحظہ ہو:
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,999
ری ایکشن اسکور
9,800
پوائنٹ
722
عبدالرحمان بن ابی بکررضی اللہ عنہ کی مخالفت:
امام بخاري رحمه الله (المتوفى256)نے کہا:
حدثنا موسى بن إسماعيل، حدثنا أبو عوانة، عن أبي بشر، عن يوسف بن ماهك، قال: كان مروان على الحجاز استعمله معاوية فخطب، فجعل يذكر يزيد بن معاوية لكي يبايع له بعد أبيه، فقال له عبد الرحمن بن أبي بكر شيئا، فقال: خذوه، فدخل بيت عائشة فلم يقدروا، فقال مروان: إن هذا الذي أنزل الله فيه، {والذي قال لوالديه أف لكما أتعدانني} ، فقالت عائشة من وراء الحجاب: «ما أنزل الله فينا شيئا من القرآن إلا أن الله أنزل عذري»
یوسف بن ماہک نے بیان کیا کہ مروان کو معاویہ رضی اللہ عنہ نے حجاز کا امیر (گورنر) بنایا تھا۔ اس نے ایک موقع پر خطبہ دیا اور خطبہ میں یزید بن معاویہ کا باربار ذکر کیا، تاکہ اس کے والد (معاویہ رضی اللہ عنہ) کے بعد اس سے لوگ بیعت کریں۔ اس پر عبدالرحمٰن بن ابی بکر رضی اللہ عنہما نے اعتراضاً کچھ فرمایا۔ مروان نے کہا اسے پکڑ لو۔ عبدالرحمٰن اپنی بہن عائشہ رضی اللہ عنہا کے گھر میں چلے گئے تو وہ لوگ پکڑ نہیں سکے۔ اس پر مروان بولا کہ اسی شخص کے بارے میں قرآن کی یہ آیت نازل ہوئی تھی «والذي قال لوالديه أف لكما أتعدانني‏» کہ "اور جس شخص نے اپنے ماں باپ سے کہا کہ تف ہے تم پر کیا تم مجھے خبر دیتے ہو۔" اس پر عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ ہمارے (آل ابی بکر کے) بارے میں اللہ تعالیٰ نے کوئی آیت نازل نہیں کی بلکہ تہمت سے میری برات ضرور نازل کی تھی۔[صحيح البخاري 6/ 133 رقم 4827]

صحیح بخاری کی اس روایت میں صرف یہ ذکر ہے کہ عبدالرحمن بن ابی بکر رضی اللہ عنہ نے کچھ کہا لیکن کیا کہا ؟ اس کا تذکرہ اس روایت میں نہیں ہے لیکن ایک دوسری روایت میں اس کا تذکرہ ہے چنانچہ:
امام ابن أبي خيثمة رحمه الله (المتوفى279)نے کا:
حدثنا موسى بن إسماعيل، قال: حدثنا القاسم بن الفضل الحداني، عن محمد بن زياد، قال: قدم زياد المدينة فقام خطيبا۔۔۔الخبر وفیہ۔۔۔فقام عبد الرحمن بن أبي بكر فقال : يا معشر بني أمية اختاروا منا ثلاث سنن : سنة رسول الله صلى الله عليه وسلم ، أو سنة أبي بكر ، أو سنة عمر ، إن هذا الأمر قد كان وفي أهل بيت رسول الله صلى الله عليه وسلم من لو ولاه لكان لذلك أهلا ، ثم كان أبو بكر بعده فكان في أهل بيته من لو ولاه لكان لذلك أهلا ، فولي عمر ، وكان في أهل بيت عمر من لو ولاه لكان لذلك أهلا ، فجعلها في نفر من المسلمين وإنما أردتم أن تجعلوها قيصرية كلما هلك قيصر كان قيصر.
عبدالرحمن بن ابی بکر رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے اور انہوں نے کہا: اے بنوامیہ ! آپ ہماری طرف سے پیش کردہ تین طریقوں میں سے کوئی ایک طریقہ منتخب کرلو۔ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقہ کو اپناؤ یا ابوبکر رضی اللہ عنہ کے طریقہ کو اپناؤ یا عمرفاروق رضی اللہ عنہ کے طریقہ کو اپناؤ۔ یہ معاملہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے بھی تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے خاندان میں ایسے لوگ تھے جن کو اگر اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ولی عہد بنادیتے تو وہ اس کے اہل تھے ، اس کے بعد ابوبکر رضی اللہ عنہ کا دور آیا ان کے خاندان میں بھی ایسے لوگ تھے جنہیں اگر ابوبکررضی اللہ عنہ ولی عہد بنادیتے تو وہ اس کے اہل تھے ۔اس کے بعد عمررضی اللہ عنہ کا دور آیا ان کے خاندان میں بھی ایسے لوگ تھے جنہیں اگر عمررضی اللہ عنہ ولی عہد بنادیتے تو وہ اس کے اہل تھے ، لیکن انہوں نے یہ معاملہ مسلمانوں کی ایک جماعت پر چھوڑدیا۔ اور تم لوگ چاہتے ہو کہ اس معاملہ کو قیصریت اور کسرویت بناڈالو ! جب ایک قیصر فوت ہو تو دوسرا قیصر اس کی جگہ لے[ تاريخ ابن أبي خيثمة - السفر الثالث 2/ 71 واسنادہ صحیح]

اسی طرح امام ابن كثير رحمه الله (المتوفى774)نے بھی نقل کیا:
قال عبد الرحمن لمروان جعلتموها والله هرقلية وكسروية يعنى جعلتم ملك الملك لمن بعده من ولده
عبدالرحمن بن ابی بکر رضی اللہ عنہ نے کہا: تم لوگوں نے خلافت کو ہرقلیت اور قیصریت بنادیا ہے یعنی تم نے اسے بادشاہ کی بادشاہت بنادیاہے جس کے بعد بادشاہ کا بیٹا وارث ہوتاہے[البداية والنهاية : 8/ 89 نقلا عن عبدالرزاق واسنادہ صحیح]

ان روایات سے معلوم ہوا کہ عبدالرحمن بن ابی بکر رضی اللہ عنہ نے یزید کی بیعت سے اختلاف کیا لیکن ساتھ ساتھ ان روایات سے دو باتیں اور بھی معلوم ہوئیں ایک یہ کہ عبدالرحمن بن بکر رضی اللہ عنہ کا یہ اختلاف امیر معاویہ رضی اللہ عنہ اور ان کے موافقین صحابہ ہی سے تھا کیونکہ انہوں نے ہی یزید کی بیعت کا فیصلہ کیا تھا ۔ اور دوسری بات یہ معلوم ہوئی کہ اس اختلاف کی بنیاد یزید کی شخصیت یا اس کا فاسق یا فاجر ہونا نہیں تھا بلکہ یہ اختلاف اس اندیشہ پر مبنی تھا کہ کہیں باپ کے بعد بیٹے کو خلیفہ بنانے سے خلافت ملوکیت میں نہ تبدیل ہوجائے اور ہرخلیفہ کے بعد اس کا بیٹا ہی خلیفہ بننے لگے ، چنانچہ روایات میں غور کیجئے عبدالرحمن بن ابی بکر رضی اللہ عنہ نے اس موقع پر یزید کی قطعا مذمت نہیں بلکہ یہ کہا کہ تم لوگوں نے یہ فیصلہ کرکے خلافت کو قیصریت وکسرویت والی بادشاہت بنادیا ہے یعنی اب تو بادشاہوں کی طرح خلیفہ کے بعد بھی اس کی جگہ اس کا بیٹا لے رہا ہے۔

بلک تاریخ ابن ابی خیثہ کی روایت کے سیاق پر غور کریں تو معلوم ہوتا کہ خود عبدالرحمن بن ابی بکر رضی اللہ عنہ بھی اس بات کے معترف تھے کہ یزید خلافت کا اہل ہے اسی لئے انہوں نے مثال دیتے ہوئے کہا کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ، ابوبکر رضی اللہ عنہ اور عمرفاروق رضی اللہ عنہم کے خاندان میں ایسے لوگ موجود تھے جو ان کے بعد خلافت سنبھالنے کے اہل تھے۔
اگرعبدالرحمن بن ابی بکر رضی اللہ عنہ کی نظر میں یزید خلاف کے اہل نہ ہوتے تو آپ یہ تمثیل نہ دیتے یا کم از کم اس کے بعد آپ یزید کو خلافت کے لئے نا اہل بتاتے لیکن انہوں نے ایسا نہیں کیا ۔اس سے معلوم ہوا کہ ان کی نظر میں یزید خلافت کے اہل تھے لیکن چونکہ یزید موجودہ خلیفہ کے بیٹے تھے اس لئے ان کی نظر میں انہیں خلیفہ بنایا جانا درست نہیں تھا۔


فائدہ:
کچھ لوگ عبدالرحمن بن ابی بکر رضی اللہ عنہ کی اس مخالفت کو جذباتی رنگ دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ خلیفہ اول اور امت میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد سب سے افضل ابوبکر رضی اللہ عنہ کے بیٹے نے یزید کی مخالفت کی ۔
ان حضرات کی خدمت میں سب سے پہلے تو یہ عرض کہ عبدالرحمن بن ابی بکررضی اللہ عنہ کا اختلاف یزید کی شخصیت سے نہیں تھا جیساکہ گذشتہ سطور میں تفصیل پیش کی گئ ہے ۔ دوسری بات یہ عرض ہے کہ خلیفہ اول ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ ہی کے ایک بیٹے محمدبن ابی بکر تھے انہوں نے تو خلیفہ سوم عثمان رضی اللہ عنہ کی شدید مخالفت کی حتی کہ انہیں قتل کرنے پر بھی آمادہ ہوگئے اور ارادہ قتل سے عثمان رضی اللہ عنہ کے پاس پہنچ بھی گئے لیکن عثمان رضی اللہ عنہ نے ان سے ایک بات کہی جس سے شرمندہ ہوکر وہ رک گئے۔[تاريخ خليفة بن خياط ص: 174 واسنادہ صحیح]
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,999
ری ایکشن اسکور
9,800
پوائنٹ
722
عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کی مخالفت

امام أبو نعيم رحمه الله (المتوفى430)نے کہا:
حدثنا محمد بن علي، ثنا الحسين بن مودود، ثنا سليمان بن يوسف، ثنا يعقوب بن إبراهيم بن سعد، ثنا أبي، عن صالح بن كيسان، عن ابن شهاب، قال: أخبرني القاسم بن محمد بن أبي بكر، أن معاوية، أخبر " أن عبد الله بن عمر وعبد الرحمن بن أبي بكر وعبد الله بن الزبير خرجوا من المدينة عائذين بالكعبة من بيعة يزيد بن معاوية، قال: فلما قدم معاوية مكة تلقاه عبد الله بن الزبير بالتنعيم فضاحكه معاوية وسأله عن الأموال (لعل الصواب : الاحوال)، ولم يعرض بشيء من الأمر الذي بلغه، ثم لقي عبد الله بن عمر وعبد الرحمن بن أبي بكر فتفاوضا معه في أمر يزيد، ثم دعا معاوية ابن الزبير فقال له: هذا صنيعك أنت، استزللت هذين الرجلين، وسننت هذا الأمر، وإنما أنت ثعلب رواغ لا تخرج من جحر إلا دخلت في آخر، فقال ابن الزبير: «ليس بي شقاق، ولكن أكره أن أبايع رجلين، أيكما أطيع بعد أن أعطيكما العهود والمواثيق؟ فإن كنت مللت الإمارة فبايع ليزيد، فنحن نبايعه معك» فقام معاوية حين أبوا عليه فقال: ألا إن حديث الناس ذات غور(لعل الصواب: ذات عوار)، وقد كان بلغني عن هؤلاء الرهط أحاديث وجدتها كذبا، وقد سمعوا وأطاعوا ودخلوا في صلح ما دخلت فيه الأمة "
قاسم بن محمدبن ابی بکر کہتے ہیں کہ معاویہ رضی اللہ عنہ کو خبردی گئی کہ عبداللہ بن عمر، عبدالرحمن بن ابی بکر اور عبداللہ بن زبیررضی اللہ عنہم بیعت یزید سے بچنے کے لئے مدینہ سے نکل کر مکہ آگئے ہیں ۔ راوی کہتے ہیں کہ پھر معاویہ رضی اللہ عنہ جب مکہ آئے تو مقام تنعیم پر عبداللہ بن زبیررضی اللہ عنہ کا ان سے سامنا ہوا، معاویہ رضی اللہ عنہ خندہ پیشانی کے ساتھ ان سے ملے اور ان کی خیر وعافیت دریافت کی ، لیکن ان کے تعلق سے انہیں جو خبر ملی تھے اس بارے میں کسی کا تذکرہ نہیں کیا۔اس کے بعد معاویہ رضی اللہ عنہ نے عبداللہ بن عمر اور عبداللہ بن زبیررضی اللہ عنہ سے ملاقات کی اور ان دونوں حضرات نے یزید کے مسئلہ پر امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ سے بات چیت کی ۔ اس کے بعد امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے عبداللہ بن زبیررضی اللہ عنہ کو بلایا اور ان سے کہا: یہ سب آپ ہی کا کیا دھرا ہے ، آپ ہی نے ان دونوں حضرات کو بہکایا ہے اور اس چیز کی شروعات کی ہے۔آپ کی مثال خود کو چھپانے والی اس لومڑی کی طرح ہے جو ایک سوراخ سے نکل کردوسرے سوراخ میں داخل ہوجاتی ہے۔تو زبیررضی اللہ عنہ نے کہا: میں اختلاف نہیں کرتا لیکن میں اس بات کو ناپسند کرتاہوں کہ دو دو لوگوں سے بیعت کروں ، اگر میں نے آپ دونوں کو عہد ومیثاق دے دیا تو پھر میں آپ دونوں میں سے کس کی اطاعت کروں گا؟ اگر آپ امارت سے اکتا گئے ہیں تو یزید کی بیعت کرلیں ہم بھی آپ کے ساتھ یزید کی بیعت کرلیتے ہیں ۔تو جب ان لوگوں نے (اس طرح کی) مخالفت کی تو معاویہ رضی اللہ کھڑے ہوئے اور کہا: لوگوں کی باتیں بے سر پیر کی ہیں ، مجھ تک ان حضرات کے بارے میں ایسی باتیں پہونچی تھیں جنہیں میں نے جھوٹ پایا، ان لوگوں نے سمع وطاعت کرلی ہے اور امت جس چیز پر رضامند ہوگئی ہے اس میں یہ حضرات بھی داخل ہوگئے ہیں [حلية الأولياء وطبقات الأصفياء 1/ 331 واسنادہ صحیح]

نوٹ:- امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کا جملہ ''انت ثعلب رواغ(خود کو چھپانے والی لومڑی) '' عربی محاورہ ہے دیکھئے [أساس البلاغة :1/ 396 ]۔ لہٰذا اس سے کوئی غلط مفہوم مراد لینا درست نہیں ہے۔

اس روایت سے معلوم ہوا کہ عبدالرحمن بن ابی بکر رضی اللہ عنہ نے یزید کی بیعت سے اختلاف کیا لیکن ساتھ ساتھ اس روایت سے دو باتیں اور بھی معلوم ہوئیں ایک یہ کہ یہ اختلاف امیر معاویہ رضی اللہ عنہ اور ان کے موافقین صحابہ ہی سے تھا کیونکہ انہوں نے ہی یزید کی بیعت کا فیصلہ کیا تھا ۔ اور دوسری بات یہ معلوم ہوئی کہ اس اختلاف کی بنیاد یزید کی شخصیت یا اس کا فاسق یا فاجر ہونا نہیں تھا، بلکہ یہ اختلاف اس اندیشہ پر مبنی تھا کہ کہیں باپ کے بعد بیٹے کو خلیفہ بنانے سے خلافت ملوکیت میں نہ تبدیل ہوجائے اور ہرخلیفہ کے بعد اس کا بیٹا ہی خلیفہ بننے لگے ۔ جیساکہ عبدالرحمن بن ابی بکررضی اللہ عنہ نے اس کی طرف واضح اشارہ کیا اور معاویہ رضی اللہ عنہ نے بتایا کہ عبدالرحمن بن ابی بکر رضی اللہ عنہ کی یہ مخالفت عبداللہ بن زبیررضی اللہ عنہ ہی کے اشارہ پر ہے۔
اوربعد میں عبداللہ بن زبیررضی اللہ عنہ نے بیعت کی مخالفت کی ایک دوسری وجہ پیش کردی وہ یہ کہ ایک ساتھ دو خلیفہ کی بیعت نہیں ہوسکتی ہے۔حالانکہ یہ عذر بالکل بے معنی تھا کیونکہ یزید کو اسی وقت خلیفہ بنانے کے لئے بیعت نہیں لی جارہی تھی بلکہ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی وفات کے بعد انہیں خلیفہ بنانے پر بیعت ہورہی تھی۔اس لئے یہ عذر بے معنی تھا ۔
علاوہ بریں امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ کی وفات کے بعد تو یہ عذر ختم ہوگیا لیکن اس کے باوجود بھی عبداللہ بن زبیررضی اللہ عنہ نے بیعت نہیں کی ، معلوم ہوا کہ ان کی مخالفت کی بھی اصل بنیاد یہی تھی کہ باپ کے بعد بیٹے کو خلیفہ نہیں بناجاسکتا۔

الغرض یہ کہ عبداللہ بن زبیررضی اللہ عنہ کی مخالفت بھی فی نفسہ یزید کی شخصیت سے مخالفت نہیں بلکہ عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ نے امیر معاویہ رضی اللہ عنہ سے جو یہ کہا کہ: ''میں اس بات کو ناپسند کرتاہوں کہ دو دو لوگوں سے بیعت کروں ، اگر میں نے آپ دونوں کو عہد ومیثاق دے دیا تو پھر میں آپ دونوں میں سے کس کی اطاعت کروں گا؟ اگر آپ امارت سے اکتا گئے ہیں تو یزید کی بیعت کرلیں ہم بھی آپ کے ساتھ یزید کی بیعت کرلیتے ہیں ۔''اس سے تو صراحتا ثابت ہوتا کہ عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کی نظر میں یزید کی شخصیت داغدار نہیں تھی بلکہ یزید خلافت کے اہل تھے۔

اورچونکہ ان حضرات سے گفتگو کے بعد امیر معاویہ رضی اللہ کو معلوم ہوگیا کہ ان حضرات کے پاس بیعت یزید کی مخالفت کے لئے کوئی بنیاد نہیں ہے بلکہ یہ مخالفت محض اندیشہ پر مبنی ہے اور جمہورامت کے اتفاق کے بعد اس مخالفت کا جواز باقی نہیں رہتا ہے بلکہ عمومی اتفاق کے بعد ان حضرات کو اپنی مخالفت ختم کردینی چاہئے اورحسن ظن کا تقاضہ یہی ہے کہ سب کے اتفاق کے بعد یہ حضرات بھی اپنی مخالفت ختم کردیں گے اسی لئے امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے ان حضرات کے موقف کی ترجمانی کرتے ہوئے کہا کہ یہ لوگ بھی امت کے فیصلہ میں داخل ہوگئے نیز دیکھئے : مواقوف المعارضہ : 126 تا 128۔

یادرہے کہ علی رضی اللہ عنہ نے بھی اپنی بیعت سے متعلق طلحہ رضی اللہ عنہ کے موقف کی ترجمانی کرتے ہوئے کہا:
إن طلحة والزبير قد بايعا طائعين غير مكرهين ثم أرادا أن يفسدا الأمر ويشقا عصا المسلمين
طلحہ اور زبیررضی اللہ عنہما نے بغیر کسی اکراہ وزبردستی کے اپنی مرضی سے بیعت کی ، اور اب یہ لوگ معاملہ کو بگاڑنا اور مسلمانوں کی صفوں میں اختلاف برپا کرنا چاہتے ہیں[مصنف ابن أبي شيبة. سلفية: 15/ 273 واسنادہ صحیح]

حالانکہ طلحہ رضی اللہ عنہ کے بارے میں بسند صحیح ثابت ہے کہ انہوں نے علی رضی اللہ عنہ کی بیعت کراہت و ناپسندیدگی کے ساتھ کی ہے چنانچہ:
امام نعيم بن حماد رحمہ اللہ (المتوفى 228 ) نے کہا:
حدثنا ابن المبارك، عن شعبة، عن سعد بن إبراهيم، عن أبيه، قال: لما بلغ عليا رضي الله عنه أن طلحة يقول: إنما بايعت واللج على قفاي، أرسل ابن عباس إلى أهل المدينة فسألهم عما قال، فقال أسامة بن زيد: «أما اللج على قفاه فلا، ولكن بايع وهو كاره» ، فوثب الناس عليه حتى كادوا يقتلونه
جب علی رضی اللہ عنہ کو یہ بات بتائی گئی کہ کہ طلحہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ : میں نے اس حال میں بیعت کی کہ تلوار میرے سر پر تھی ۔ تو علی رضی اللہ عنہ نے ابن عباس رضی اللہ عنہ کو مدینہ بھیجا ، انہوں نے اہل مدینہ سے اس بابت دریافت کیا تو اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ نے کہا: جہاں تک سر پرتلوار ہونے کی بات ہے تو یہ درست نہیں لیکن انہوں نے کراہت و ناپسندیدگی کے ساتھ بیعت کی ہے۔ پھر لوگ (اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ کی اس حق گوئی کی بناپر) ان پرٹوٹ پڑے اور قریب تھا کہ انہیں قتل کرڈالیں [الفتن لنعيم بن حماد 1/ 159 و اسنادہ صحیح واخرجہ ایضا ابن ابن ابی شیبہ فی مصنفہ : 11/ 107 سلفية، وایضا 15/ 259 من طریق غندر عن شعبہ بہ واسنادہ صحیح ]

علی رضی اللہ کا طلحہ رضی اللہ عنہ کی بیعت کے تذکرہ کے ساتھ ان کی بیعت کو من پسند اور عدم اکراہ سے متصف کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ انہیں اس بارے میں علم تھا کہ کچھ لوگ ان کی بیعت کو کراہت و ناپسدندگی اور اکراہ سے متصف کرتے ہیں بلکہ مؤخر الذکر صحیح روایت کے مطابق علی رضی اللہ عنہ نے اس معاملہ کی تحقیق بھی کروائی اور اس کے بعد یہ حقیقت سامنے آئی کہ طلحہ رضی اللہ عنہ نے کراہت و ناپسندیدگی ساتھ بیعت کی تھی۔
غور کریں علی رضی اللہ عنہ تک ایک صحابی کی شہادت پہنچ گئی کہ طلحہ رضی اللہ عنہ نے کراہت و ناپسندیدگی ساتھ بیعت کی تھی اس کے باوجود بھی علی رضی اللہ عنہ کہہ رہے کہ طلحہ رضی اللہ عنہ نے طائع ہوکر یعنی اپنی مرضی وپسند سے میری بیعت کی ہے۔
ظاہر ہے کہ علی رضی اللہ عنہ نے ایسا حسن ظن ہی کی بنیادپر کہا یعنی ان کی نظر میں طلحہ رضی اللہ عنہ کے پاس ان کی بیعت کو ناپسند کرنے کی کوئی معقول وجہ نہیں تھی ۔

واضح رہے کہ عبدللہ بن عمررضی اللہ عنہ کا طرزعمل مخالفت کا نہیں بلکہ کنارہ کشی کا تھا آپ اپنے آپ کو ان سیاسی معاملات سے الگ رکھتے ہوئے جمہور امت کے فیصلہ کا انتطار کرتے اور جمہور کا جو فیصلہ ہوتا اسے قبول کرلیتے۔ لہٰذا عبداللہ بن عمررضی اللہ کا یہ طرزعمل مخالفت نہیں بلکہ جمہور امت کا فیصلہ آنے تک سکوت کا ہے لہٰذا ان کے اس طرزعمل کو مخالفت کا نام نہیں دیا جاسکتا۔ یہی وجہ ہے کہ ان سے بات کرنے کے بعد امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے انہیں کوئی نصیحت نہیں کی کیونکہ وہ بیعت یزید کے مخالف تھے ہی نہیں بلکہ جمہور امت کا فیصلہ آنے تک سکوت اختیار کیے ہوئے تھے ۔چنانچہ جب جمہور امت واکثریت کی طرف سے یزید کی بیعت ہوگئی تو عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہ نے بھی یزید کی باقاعدہ بیعت کرلی اور ہمیشہ اس پرباقی رہے۔

نیز اس موقع پر یہ بتادینا فائدہ سے خالی نہیں ہے کہ عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہ نے علی رضی اللہ عنہ کی بیعت سے بھی کنارہ کشی اختیار کی تھی بلکہ ان کے مطالبہ سختی کے ساتھ بیعت سے انکار کردیا تھا اور ہمیشہ اسی انکار پرباقی رہے ۔
امام ابن أبي شيبة رحمه الله (المتوفى235)نے کہا:
حدثنا ابن علية ، عن أيوب ، عن نافع ، عن ابن عمر ، قال : لما بويع لعلي أتاني فقال : إنك امرؤ محبب في أهل الشام ، وقد استعملتك عليهم ، فسر إليهم ، قال : فذكرت القرابة وذكرت الصهر ، فقلت : أما بعد فوالله لا أبايعك ، قال : فتركني وخرج ، فلما كان بعد ذلك جاء ابن عمر إلى أم كلثوم فسلم عليها وتوجه إلى مكة ۔۔۔
نافع رحمہ اللہ عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہ نے کہا: جب علی رضی اللہ عنہ کی بیعت کی گئی تو علی رضی اللہ عنہ میرے پاس آئے اور کہا: آپ ایسے شخص ہیں جو اہل شام کی نظر میں محبوب ہیں ، اور میں آپ کو ان پر عامل بناتاہوں لہذا آپ ان کی طرف جائیں ۔ عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ پھر میں نے قرابت و رشتہ داری کا ذکر کیا اس کے بعد کہا: اللہ کی قسم ! میں آپ کی بیعت نہیں کروں گا۔اس کے بعد ابن عمررضی اللہ عنہ ام کلثوم کے پاس آئے انہیں سلام کیا اور مکہ روانہ ہوگئے۔۔۔[مصنف ابن أبي شيبة. سلفية: 11/ 133 واسنادہ صحیح علی شرط الشیخین]
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,999
ری ایکشن اسکور
9,800
پوائنٹ
722
غیرثابت مخالفتیں

صحیح روایات کی روشنی میں صرف اور صرف دو صحابہ عبدالرحمن بن ابی بکر اور عبداللہ بن زبیررضی اللہ عنہما ہی سے بیعت یزید کی مخالفت ثابت ہے اس کے علاوہ بیعت یزید کی مخالفت کسی بھی دوسرے صحابی سے ثابت نہیں ۔ اس سلسلے کی جو دیگر روایات ملتی ہیں ان میں سے کوئی ایک بھی ثابت نہیں ہے ملاحظہ ہو:
امام ابن جرير الطبري رحمه الله (المتوفى310)نے کہا:
حدثني يعقوب بن إبراهيم قال حدثنا إسماعيل بن إبراهيم قال حدثنا ابن عون قال حدثني رجل بنخلة قال بايع الناس ليزيد بن معاوية غير الحسين بن علي وابن عمر وابن الزبير وعبدالرحمن بن أبي بكر وابن عباس۔۔۔
ایک نامعلوم آدمی کا بیان ہے کہ لوگوں نے یزید بن معاویہ کی بیعت کرلی سوائے حسین بن علی ، عبداللہ بن عمر، عبداللہ بن زبیر ، عبداللہ بن ابی بکر اور عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہم کے۔۔۔[تاريخ الأمم والرسل والملوك- الطبري 3/ 248]

اس روایت میں یزید کی مخالفت کرنے والوں میں مزید دو صحابہ کا ذکر ہے اور یہ حسین رضی اللہ عنہ اور عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما ہیں ، لیکن ان دونوں صحابہ سے بیعت یزید کی مخالفت ثابت نہیں ہے کیونکہ یہ روایت مردود ہے اسے بیان کرنے والا رجل نامی شخص نا معلوم ہے اس کی ثقاہت وعدالت تو دور کی بات اس کا نام تک مذکور نہیں لہٰذا اس مجہول ونامعلوم شخص کی وجہ سے یہ روایت مردودہے۔

امام ابن کثیر رحمہ اللہ نے بغیر کسی حوالہ اور بغیر کسی سند کے سعیدبن عثمان کو بھی بیعت یزید کے مخالفین میں پیش کیا ہے چنانچہ لکھتے ہیں:
وقد عاتب معاوية فى ولايته يزيد سعيد بن عثمان بن عفان وطلب منه أن يوليه مكانه وقال له سعيد فيما قال إن أبى لم يزل معتنيا بك حتى بلغت ذروة المجد والشرف وقد قدمت ولدك على وأنا خير منه أبا واما ونفسا ۔۔۔۔
یزید کو ولی عہدبنانے کی بناپر سعید بن عثمان نے معاویہ رضی اللہ عنہ کی سرزنش کی اور ان سے مطالبہ کیا کہ وہ یزید کی جگہ انہیں ولی عہد بنادیں ، اور س موقع پر سعیدبن عثمان نے امیر معاویہ رضی اللہ عنہ سے جو کچھ کہا تھا اس میں یہ بات بھی تھی کہ : میرے والد برابر آپ کی دیکھ بھال کرتے رہے یہاں تک کہ آپ مجد وشرف کے اس مقام پر پہونچے اور آپ نے مجھ پر اپنے بیٹے کو فوقیت دے کی جبکہ میں اس سے ماں ، باپ اور ذات کے لحاظ سے افضل ہوں۔۔۔[البداية والنهاية : 8/ 80]۔

عرض ہے کہ یہ بات بھی مردود ہے کیونکہ امام ابن کثیر رحمہ اللہ نے بغیر کسی حوالہ اور بغیر کسی سند کے اسے ذکر کیا ہے۔
الغرض یہ کہ صرف دو صحابہ کے علاوہ کسی بھی تیسرے صحابی سے بیعت یزید کی مخالفت ثابت نہیں ہے ۔ جو روایات اس ضمن میں مزید نام پیش کرتی ہیں وہ مردود ہیں جیساکہ گذشتہ سطور میں وضاحت کی گئی۔
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,999
ری ایکشن اسکور
9,800
پوائنٹ
722
بیعت سے فرار کے لئے مکہ میں پناہ

یادرہے کہ جس طرح امیر یزید کی بیعت سے متعلق یہ ملتاہے کہ ان کی بیعت سے فرار کے لئے بعض صحابہ مدینہ سے مکہ روانہ ہوگئے تھے ، ٹھیک اسی طرح علی رضی اللہ عنہ کی بیعت سے متعلق بھی روایات میں ملتا ہے کہ ان کی بیعت سے بھی انکار کرکے بعض صحابہ مکہ روانہ ہوگئے تھے۔
اس سلسلے میں عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہ کی صحیح روایت اوپر درج کی جاچکی ہے اس کے علاوہ امام طبری رحمہ اللہ نے دیگر صحابہ کا بھی یہی طرزعمل نقل کیا ہے لیکن اس کی سندیں ہماری نظرمیں صحیح نہیں ہیں ملاحظہ ہو:

امام ابن جرير الطبري رحمه الله (المتوفى310)نے کہا:
كتب إلي السري، عن شعيب، عن سيف، عن أبي حارثة وأبي عثمان، قالا: لما كان يوم الخميس على رأس خمسة أيام من مقتل عثمان رضي الله عنه، جمعوا أهل المدينة فوجدوا سعدا والزبير خارجين، ووجدوا طلحة في حائط له، ووجدوا بني أمية قد هربوا إلا من لم يطق الهرب، وهرب الوليد وسعيد إلى مكة في أول من خرج، وتبعهم مروان، وتتابع على ذلك من تتابع،
عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت کے پانچ دن بعد اہل مدینہ کو لوگوں نے جمع کیا تو پایا کہ سعد اور زبیررضی اللہ عنہ مدینہ سے نکل چکے ہیں ، اور طلحۃ رضی اللہ عنہ کو ان کے باغ میں پایا گیا اور بنوامیہ (سب کے سب) فرار ہوگئے سوائے ان کے جو فرار کی طاقت نہیں رکھتے تھے اور ولید اور سعید رضی اللہ عنہ بھی پہلے نکلنے والے لوگوں کے ساتھ فرار ہوگئے اور مروان بھی ان کے پیچھے گئے اس کے بعد پے درپے کوئی لوگوں نے ان کی پیروی کی ۔[تاريخ الطبري: 4/ 433 واسنادہ ضعیف]

امام ابن جرير الطبري رحمه الله (المتوفى310)نے کہا:
حدثني عمر، قال: حدثنا أبو الحسن ۔۔۔قال: وحدثني من سمع الزهري يقول: هرب قوم من المدينة إلى الشام ولم يبايعوا عليا، ولم يبايعه قدامة بن مظعون، وعبد الله بن سلام، والمغيره ابن شعبة وقال آخرون: إنما بايع طلحة والزبير عليا كرها.
امام زہری کہتے ہیں کہ مدینہ کی ایک جماعت نے شام کی طرف راہ فرار اختیار کی اور علی رضی اللہ عنہ کی بیعت نہیں کی ، اور قدامہ بن مظمون ، عبداللہ بن سلام اور مغیربن شعبہ نے بھی بیعت نہیں کی ، اور دیگرلوگوں نے بیان کیا کہ طلحہ اور زبیر نے زبردستی کرنے کے سبب بیعت کی ۔[تاريخ الطبري: 4/ 430]
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,999
ری ایکشن اسکور
9,800
پوائنٹ
722
زبردستی بیعت کا افسانہ


جب لوگ اس حقیقت کا انکار نہیں کرپاتے کہ جلیل القدر صحابہ نے یزید کی بیعت کی ہے تو یہ جھوٹ گھڑلیتے ہیں کہ ان صحابہ پر زور زبردستی کرکے ان سے بیعت لی گئی تھی ، حالانکہ بیعت یزید سے متعلق ایسی کوئی ایک بھی روایت صحیح وثابت نہیں ہے ، ملاحظہ ہو:

پہلی روایت:
امام ابن سعد رحمه الله (المتوفى230)نے کہا:
قال محمد بن عمر ، قال ابن أبي سبرة وقد أخبرني عبد الله بن أبي بكر بن محمد بن عَمرو بن حزم۔۔۔ثم اعتمر معاوية في رجب, سنة ست وخمسين، وقدم المدينة، فكان بينه وبين الحسين بن علي, وعبد الله بن عُمَر, وعبد الرحمن بن أبي بكر, وعبد الله بن الزبير ما كان من الكلام في البيعة ليزيد بن معاوية، وقال: إني أتكلم بكلام فلا تردوا علي شيئا, فأقتلكم. فخطب الناس، فأظهر أنهم قد بايعوا، وسكت القوم, فلم يقروا ولم ينكروا خوفا منه۔۔
۔۔۔پھر امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ نے رجب 56 ہجری میں عمرہ کیا اور مدینہ آئے ، پھر یزیدبن معاویہ کی بیعت کے سلسلے میں حسین بن علی ، عبداللہ بن عمر ، عبدالرحمن بن ابی بکر اور عبداللہ بن زبیررضی اللہ عنہ سے ان کی بات چیت ہوئی ، اور معاویہ رضی اللہ عنہ نے کہا: میں ایک بات کہنے جارہا ہوں تم لوگ اس کی ذرہ برابر بھی تردید نہ کرنا ورنہ میں تمہیں قتل کردوں گا ۔ چنانچہ پھرامیرمعاویہ رضی اللہ عنہ نے لوگوں کی خطاب کیا اور یہ ظاہر کیا کہ ان حضرات نے بیعت کرلی ہے اور یہ حضرات خاموش رہے اور امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ کے ڈر سے نہ تو اقرار کیا اور نہ ہی انکار کیا ۔۔۔[الطبقات الكبير لابن سعد ت عمر: 6/ 27]

یہ روایت جھوٹی اور من گھڑت ہے ۔
سند میں موجود ’’محمدبن عمر واقدی ‘‘ کذاب ہے چنانچہ:

امام شافعي رحمه الله (المتوفى 204)نے کہا:
كتب الواقدي كذب
واقدی کی ساری کتابیں جھوٹی ہیں[الجرح والتعديل لابن أبي حاتم: 8/ 20 وسندہ صحیح]۔

امام إسحاق بن راهَوَيْه رحمه الله (المتوفى 237)نے کہا:
عندي ممن يضيع الحديث
میرے نزدیک یہ حدیث گھڑنے والوں میں سے تھا[الجرح والتعديل لابن أبي حاتم: 8/ 20 وسندہ صحیح]۔

امام نسائي رحمه الله (المتوفى303)نے کہا:
والكذابون المعروفون بِوَضْع الحَدِيث على رَسُول الله صلى الله عَلَيْهِ وَسلم أَرْبَعَة: ١- ابْن أبي يحيى بِالْمَدِينَةِ ٢- والواقدي بِبَغْدَاد ٣ - وَمُقَاتِل بن سُلَيْمَان بخراسان ٤ - وَمُحَمّد بن السعيد بِالشَّام
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر حدیث گھڑنے والے مشہور و معروف جھوٹے راوی چار ہیں (1) مدینہ میں ابن ابی یحیی۔ (2) بغداد میں واقدی ۔ (3) خراسان میں مقاتل بن سلیمان۔(4) شام میں محدبن سعید [ أسئلة للنسائي في الرجال المطبوع فی رسائل في علوم الحديث ص: 76]۔

امام ابن القيسراني رحمه الله (المتوفى507)نے کہا:
أجمعوا على تركه
اس کے متروک ہونے پر محدثین کا اجماع ہے[معرفة التذكرة لابن القيسراني: ص: 163]۔

امام ذهبي رحمه الله (المتوفى748)نے کہا:
قد انعقد الإجماع اليوم على أنه ليس بحجة، وأن حديثه في عداد الواهي
آج اس بات پر اجماع ہوچکا ہے کہ واقدی حجت نہیں ہے اور اس کی حدیث سخت ضعیف میں شمار ہوگی[سير أعلام النبلاء للذهبي: 9/ 469]۔

ان ائمہ کے علاوہ اوربھی متعدد ناقدین نے اس پر جرح کی ہے ملاحظہ ہو عام کتب رجال

فائدہ:
علامہ البانی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
محمد بن عمر هذا - وهو الواقدي - كذاب ، فلا يفرح بروايته
محمدبن عمر یہ واقدی کذاب ہے اس لئے اس کی روایت کسی کام کی نہیں[سلسلة الأحاديث الضعيفة والموضوعة وأثرها السيئ في الأمة 4/ 13]۔

اس سند میں ایک دوسرا راوی ’’ابن ابی سبرہ ہے‘‘ ہے۔
یہ بھی کذاب اور وضاع حدیث ہے۔

امام أحمد بن حنبل رحمه الله (المتوفى241)نے کہا:
كان يكذب ويضع الحديث
یہ جھوٹ بولتا تھا اور حدیث گھڑتا تھا [العلل ومعرفة الرجال 1/ 510]

امام ابن عدي رحمه الله (المتوفى365)نے کہا:
وهو في جملة من يضع الحديث
یہ ان لوگوں میں سے تھا جو حدیث گھڑتے تھے۔[الكامل في الضعفاء: 7/ 297]

اس کے علاوہ اور بھی بہت سارے محدثین نے اس پر جرح کی ہے دیکھئے عام کتب رجال۔

حیرت ہے کہ اس روایت کی سند میں دو دو کذاب ہونے کے باوجود بھی ابن الجوزی نے اس روایت کو یزید کی مذمت والی کتاب میں درج کرکے یہ استدلال کیا ہے کہ جن لوگوں نے یزید کی بیعت کی تھی انہوں نے ڈر کی وجہ سے بیعت کی تھی۔ دیکھئے:[الرد على المتعصب العنيد المانع من ذم يزيد لابن الجوزي ص: 45]۔

دوسری روایت:
امام خليفة بن خياط رحمه الله (المتوفى240)نے کہا:
وهب بن جرير قال حدثني جويرية بن أسماء قال سمعت أشياخ أهل المدينة يحدثون۔۔ الخبر وفیہ۔۔۔ثم دعا صاحب حرسه فقال أقم على رأس كل رجل من هؤلاء رجلين من حرسك۔۔۔الخ
اس کے بعد انہوں نے نگہبانوں کے سردار کو بلایا اور کہا کہ ان میں سے سے ہرشخص کے سر پر اپنے نگہبانوں میں سے دو نگہبان مقرر کردو ۔۔۔الخ[تاريخ خليفة بن خياط ص: 217]

یہ روایت مردوو وباطل ہے کیونکہ جویریہ نے اپنے مشائخ کا نام نہیں بتایا ہے ان کی ثقاہت تو دور کی بات ان کا نام تک معلوم نہیں ہے۔اس روایت سے متعلق مزید تفصیل کے لئے دیکھئے : مواقف المعارضہ :ص 128 تا 131 ۔

تیسری روایت:
امام خليفة بن خياط رحمه الله (المتوفى240)نے کہا:
حدثنا وهب قال حدثني أبي عن أيوب عن نافع قال خطب معاوية فذكر ابن عمر فقال والله ليبايعن أو لأقتلنه فخرج عبد الله بن عبد الله بن عمر إلى أبيه فأخبره وسار إلى مكة ثلاثا فلما أخبره بكى ابن عمر فبلغ الخبر عبد الله بن صفوان فدخل على ابن عمر فقال أخطب هذا بكذا قال نعم فقال ما تريد أتريد قتاله فقال يا بن صفوان الصبر خير من ذلك فقال ابن صفوان والله لئن أراد ذلك لأقاتلنه فقدم معاوية مكة فنزل ذا طوى فخرج إليه عبد الله بن صفوان فقال أنت الذي تزعم أنك تقتل ابن عمر إن لم يبايع لابنك فقال أنا أقتل ابن عمر إني والله لا أقتله
نافع کہتے ہیں کہ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے خطبہ دیا اور عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہ کا تذکرہ کیا اور کہا : ’’ اللہ کی قسم یہ بیعت کرلیں ورنہ میں انہیں قتل کردوں گا (!) ‘‘ ۔ یہ سن کر عبداللہ بن عبداللہ بن عمر اپنے والد کے پاس گئے انہیں اس بات سے آگاہ کیا، وہ تین دن کے اندر مکہ پہنچ گئے۔ ان کے والد نے جب یہ بات سنی تو روپڑے ۔ پھریہ بات عبداللہ بن صفوان رضی اللہ عنہ کو معلوم ہوئی وہ ابن عمررضی اللہ عنہ کےپاس آئے اور کہا: کیا انہوں نے اپنے خطاب میں یہ بات کہی ہے ؟ کہا: ہاں ۔ عبداللہ بن صفوان رضی اللہ عنہ نے کہا: آپ کیا چاہتے ہیں ؟ کیا آپ ان سے لڑنا چاہتے ہیں؟ عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہ نے جواب دیا: اے ابن صفوان ! صبر اس سے بہترہے۔ پھرعبداللہ بن صفوان رضی اللہ عنہ نے کہا: اللہ کی قسم اگر انہوں نے ایسا ارادہ کیا ہے تو میں ان سے لڑوں گا۔ پھرمعاویہ رضی اللہ عنہ مکہ آئے اور مقام ذی طوی میں نزول فرمایا تو عبداللہ بن صفوان رضی اللہ عنہ ان کے پاس گئے اور کہا: کیا آپ کا یہ ارادہ ہے کہ اگر عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے آپ کے بیٹے کی بیعت نہ کی تو آپ انہیں قتل کردیں گے ؟؟؟ تو معاویہ رضی اللہ عنہ نے (حیرت سے) کہا: میں انہیں قتل کردوں گا؟ اللہ کی قسم میں ان کو قتل نہیں کرسکتا۔[تاريخ خليفة بن خياط ص: 215 واسنادہ ضعیف لخطا جریر بن حازم فی ضبط بعض الالفاظ وجریر وان کا ثقۃ لکنہ متکلم فیہ من قبل حفظہ ، وباقی المتن صحیح بالمتابعات]

یہ روایت ضعیف ہے کیونکہ جرير بن حازم الأزدي نے أيوب السختياني نے یہ روایت نقل کرتے ہوئے ایک جملہ کے بیان میں غلطی کی ہے چنانچہ انہوں نے اس روایت میں کہا ’’والله ليبايعن أو لأقتلنه ‘‘(اللہ کی قسم یہ بیعت کرلیں ورنہ میں انہیں قتل کردوں گا)
جبکہ أيوب السختياني ہی سے اسی روایت کو إسماعيل بن إبراهيم الأسدي نے بیان کیا تو انہوں نے اس مقام پر کہا ’’لَيُقْتَلَنَّ ابْنُ عُمَر‘‘(ابن عمر رضی اللہ عنہ (کسی کے ہاتھوں) قتل کردئے جائیں گے)چنانچہ:
امام ابن سعد رحمه الله (المتوفى230)نے کہا:
أَخْبَرَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ الْأَسَدِيُّ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ نَافِعٍ قَالَ: لَمَّا قَدِمَ مُعَاوِيَةُ الْمَدِينَةَ حَلَفَ عَلَى مِنْبَرِ رَسُولِ اللَّهِ صلّى الله عليه وسلم لَيُقْتَلَنَّ ابْنُ عُمَر, فَلَمَّا دَنَا مِنْ مَكَّةَ تَلَقَّاهُ النَّاسُ وَتَلَقَّاهُ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ صَفْوَانَ فِيمَنْ تَلَقَّاهُ , فَقَالَ: إِيهِنْ مَا جِئْتَنَا بِهِ، جِئْتَنَا لِتَقْتُلَ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ؟ قَالَ: وَمَنْ يَقُولُ هَذَا؟ وَمَنْ يَقُولُ هَذَا؟ وَمَنْ يَقُولُ هَذَا؟ ثَلَاثًا
نافع کہتے ہیں کہ : جب امیر معاویہ رضی اللہ عنہ مدینہ آئے تو منبر رسول پر حلف لے کر کہا کہ ابن عمر رضی اللہ عنہ (کسی کے ہاتھوں)قتل کردئے جائیں گے ۔ اس کے بعد جب امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ مکہ کے قریب پہونچے تو لوگوں نے انہیں گھیرلیا ، انہیں لوگوں میں عبداللہ بن صفوان رضی اللہ عنہ بھی تھے انہوں نے کہا: یہی سب کرنے کے لئے تم ہمارے پاس آئے ہو ! کیا تمہارے آنے کا مقصد عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کا قتل ہے؟ تو امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے کہا: کون یہ بات کہتاہے ؟ کون یہ بات کہتا ہے؟ کون یہ بات کہتاہے؟ راوی کہتے ہیں کہ تین بار امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے یہ سوال دہرایا[الطبقات الكبرى ط دار صادر 4/ 183 واسنادہ صحیح]

بلکہ انہیں الفاظ کے ساتھ ابو ایوب کی متابعت کرتے ہوئے نے ابن عون نے بھی اسی روایت کو نافع سے بیان کیا اور انہوں نے بھی ’’ يُقْتَلَنَّ ابْنُ عُمَر‘‘(ابن عمر رضی اللہ عنہ (کسی کے ہاتھوں) قتل کردئے جائیں گے) کے الفاظ نقل کئے ہیں چنانچہ:
امام ابن سعد رحمه الله (المتوفى230)نے کہا:
أَخْبَرَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، عَنِ ابْنِ عَوْنٍ، عَنْ نَافِعٍ قَالَ: لَمَّا قَدِمَ مُعَاوِيَةُ الْمَدِينَةَ حَلَفَ عَلَى مِنْبَرِ رَسُولِ اللَّهِ صلّى الله عليه وسلم لَيُقْتَلَنَّ ابْنُ عُمَر، قَالَ: فَجَعَلَ أَهْلُنَا يَقْدُمُونَ عَلَيْنَا وَجَاءَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ صَفْوَانَ إِلَى ابْنِ عُمَرَ , فَدَخَلَا بَيْتًا، وَكُنْتُ عَلَى بَابِ الْبَيْتِ , فَجَعَلَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ صَفْوَانَ يَقُولُ: أَفَتَتْرُكُهُ حَتَّى يَقْتُلَكَ، وَاللَّهِ لَوْ لَمْ يَكُنْ إِلَّا أَنَا وَأَهْلُ بَيْتِي لَقَاتَلْتُهُ دُونَكَ , قَالَ: فَقَالَ ابْنُ عُمَرَ: أَفَلَا أَصْبِرُ فِي حَرَمِ اللَّهِ؟ قَالَ: وَسَمِعْتُ نَجِيَّهُ تِلْكَ اللَّيْلةَ مَرَّتَيْنِ، فَلَمَّا دَنَا مُعَاوِيَةُ تَلَقَّاهُ النَّاسُ وَتَلَقَّاهُ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ صَفْوَانَ فَقَالَ: إِيهِنْ مَا جِئْتَنَا بِهِ، جِئْتَ لِتَقْتُلَ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ؟ قَالَ: وَاللَّهِ لَا أَقْتُلُهُ
نافع کہتے ہیں کہ : جب امیر معاویہ رضی اللہ عنہ مدینہ آئے تو منبر رسول پر حلف لے کر کہا کہ ابن عمر رضی اللہ عنہ (کسی کے ہاتھوں)قتل کردئے جائیں گے ۔ اس کے بعدہمارے اقرباء ہمارے پاس آنے لگے اور عبداللہ بن صفوان رضی اللہ عنہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اورگھر میں داخل ہوئے۔ اس وقت میں دروازہ کے پاس تھا ۔ تو عبداللہ بن صفوان رضی اللہ عنہ کہنے لگے : کیا آپ امیر معاویہ کو چھوڑ دیں گے تاکہ وہ آپ کوقتل کردیں ؟ اللہ کی قسم اگر میں اور میرے گھر والوں کے علاوہ کوئی بھی نہ ہوتا تو بھی میں امیر معاویہ رضی اللہ عنہ سے لڑتا۔ تو عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہ نے کہا: کیا میں اللہ کے حرم میں صبر نہ اختیار کروں؟ نافع کہتے ہیں کہ میں نے اس رات دو بار عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کے سسکنے کی آواز سنی۔ پھر جب امیر معاویہ (مکہ کے ) قریب پہنونچے تو لوگوں نے انہیں گھیر لیا اور عبداللہ بن صفوان رضی اللہ عنہ نے بھی انہیں گھیرا اور کہا: یہی سب کرنے کے لئے تم ہمارے پاس آئے ہو ! کیا تمہارے آنے کا مقصد عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کا قتل ہے؟ [الطبقات الكبرى ط دار صادر 4/ 183 واسنادہ صحیح]


معلوم ہوا کہ نافع نے ’’لَيُقْتَلَنَّ ابْنُ عُمَرَ(ابن عمر رضی اللہ عنہ (کسی کے ہاتھوں) قتل کردئے جائیں گے)‘‘ ہی کے الفاظ بیان کئے ہیں جیساکہ ان سے دولوگوں نے روایت کیا ہے ، اور جریربن حازم نے ان میں سے ایک سے روایت کیا تو یہ الفاظ بدل دئے اور یہ گرچہ ثقہ ہیں لیکن متکلم فیہ ان کے حافظہ پر جرح ہوئی ہے چنانچہ:

امام أحمد بن حنبل رحمه الله (المتوفى241)نے کہا:
في بعض حَدِيْثه شيءٌ
ان کی بعض احادیث محل نظر ہیں [العلل للإمام أحمد رواية المروذي ص: 73]

امام ابن حبان رحمه الله (المتوفى354)نے کہا:
كان يخطىء لأن أكثر ما كان يحدث من حفظه
یہ غلطی کرتے تھے کیونکہ اکثر یہ اپنے حافظہ سے حدیث بیان کرتے[الثقات لابن حبان ت االعثمانية: 6/ 145]

امام ترمذي رحمه الله (المتوفى279)نے کہا:
جرير بن حازم ربما يهم في الشيء
جریر بن حازم بسا اوقات بعض چیزوں میں وہم کے شکار ہوجاتے تھے[سنن الترمذي ت شاكر 2/ 394]

حافظ ابن حجر رحمه الله (المتوفى852)نے کہا:
له أوهام إذا حدث من حفظه
جب یہ اپنے حافظہ سے بیان کرتے ہیں تو اوہام کے شکار ہوتے ہیں[تقريب التهذيب لابن حجر: رقم 911]

الغرض یہ کہ جریر بن حازم کی یہ روایت غلط وغیر ثابت ہے اس میں انہوں ارادہ قتل کی نسبت امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ کی طرف کردی ہے جبکہ امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ نے دوسروں کی طرف سے قتل کے خدشہ کا اظہار کیا تھا۔
دراصل امیر معاویہ رضی اللہ عنہ بعض اہل شام کی طرف سے یہ خطرہ محسوس کررہے تھے اور انہیں کی جانب سے متوقع اقدام کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہہ رہے تھے کہ اگر عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ بیعت نہیں کریں گے تو بعض اہل شام کی طرف سے قوی خدشہ ہے کہ وہ انہیں قتل کردیں گے۔

چنانچہ ایک ضعیف روایت جسے بعض محققین حسن بھی کہتے ہیں اس میں صراحت کے ساتھ ذکر ہے کہ اہل شام کے بعض افراد نے کہا تھا کہ اگر عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ بیعت نہیں کریں گے تو انہیں قتل کردیا جائے گا یہ سن کر امیر معاویہ رضی اللہ عنہ انہیں بری طرح ڈانٹا اور کہا آئندہ میں اس طرح کی بات نہیں سننا چاہتا ہوں ۔ دیکھئے: مواقف المعارضہ : ص: 126۔

اسی پس منظر میں امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے کہا تھا:
''لَيُقْتَلَنَّ ابْنُ عُمَرَ'' یعنی ابن عمر (کسی کے ہاتھوں )قتل کردئے جائیں گے ۔ اور اس جملہ سے امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ کا اشارہ اہل شام کے بعض متشددین کی طرف تھا ۔

لیکن بعض سامعین نے اس کا غلط مطلب لے لیا اور یہ سمجھ لیا کہ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ قتل کی دھمکی دے رہے ہیں ۔حالانکہ یہ بات غلط تھی ، امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ نے ایسی بات ہرگزنہیں کہی تھی، جیساکہ درج بالا روایات کے اخیر میں امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی طرف سے انکار و تردید موجود ہے چنانچہ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے ایسی بات سے برات ظاہر کی اور واضح کیا کہ وہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کے قتل کا ارادہ نہیں رکھتے۔

خلاصہ کلام یہ کہ صحیح روایات میں صرف یہ بات ملتی ہے کہ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کے بارے میں یہ اندیشہ ظاہر کیا کوئی انہیں قتل کردے گا ۔لیکن کسی نے یہ سمجھ لیاکہ خود امیر معاویہ رضی اللہ عنہ قتل کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں ۔ اور اس غلط مفہوم کو عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ اور دیگر لوگوں تک پہنچا دیا گیا ۔ لیکن بعد میں جب عبداللہ بن صفوان رضی اللہ عنہ نے تحقیق کی غرض سے بذات خود امیر معاویہ رضی اللہ عنہ سے اس بابت دریافت کیا تو امیر معاویہ رضی اللہ عنہ اس افواہ پر دنگ رہ گئے اور فورا پوچھا: کس نے یہ بات کہی ہے ؟ کس نے یہ بات کہی ہے ؟ کس نے یہ بات کہی ہے ؟ تین بار یہ سوال دہرایا لیکن کسی نے بھی سامنے آخر یہ شہادت نہیں دی کہ میں نے آپ کو ایسا کہتے ہوئے سنا ہے۔

خلاصہ کلام یہ کہ:
ایسی کوئی ایک بھی صحیح روایت نہیں ملتی جس سے یہ پتہ چلتا ہوں کہ یزید کی بیعت زبردستی لی گئی ہو ، اہل شام کے بعض متشددین اس بابت سختی کا ارادہ رکھتے تھے۔ اوراس طرح کے متشددین تو علی رضی اللہ عنہ کے حامیان میں تھے جیساکہ گذشتہ سطور میں صحیح سند کے ساتھ آپ پڑھ چکے ہیں کہ کس طرح صحابی رسول اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ کو قتل کرنے کے لئے لوگ ٹوٹ پڑے جب انہوں نے یہ سچائی بتائی کہ طلحہ رضی اللہ عنہ نے ناپسندیدگی کے ساتھ علی رضی اللہ عنہ کی بیعت کی ہے۔
بہرحال اہل شام میں جو بھی متشددین تھے انہیں حکومت وقت یعنی امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی حمایت حاصل نہ تھی جس کے نتیجہ میں کسی کی طرف سے بھی ایسا کوئی پرتشدد اقدام قطعا نہیں ہوا۔

اس کے برخلاف زور زبردستی والی جو روایات بھی ملتی ہیں وہ سب کی سب موضوع یا مردود و سخت ضعیف ہیں۔
یادرہےکہ اگر اس طرح کی مردود روایات پر ایمان لایا جائے تو صرف یزید کی بیعت ہی نہیں بلکہ علی رضی اللہ عنہ کی بیعت بھی اسی نوعیت کی نظر آئے گی کیونکہ بعض ضعیف ومردود روایات میں علی رضی اللہ عنہ کی بیعت سے متعلق بھی یہ بات ملتی ہے کہ ان کی بیعت تلوار کے زرو پر زبردستی لی گئی تھی چنانچہ:

امام ابن جرير الطبري رحمه الله (المتوفى310)نے کہا:
حدثني أحمد بن زهير، قال: حدثني ابى، قال: حدثنا وهب ابن جرير، قال: سمعت أبي، قال: سمعت يونس بن يزيد الأيلي، عن الزهري، قال: بايع الناس علي بن أبي طالب، فأرسل إلى الزبير وطلحة فدعاهما إلى البيعة، فتلكأ طلحة، فقام مالك الاشتر وسل سيفه وقال: والله لتبايعن أو لأضربن به ما بين عينيك، فقال طلحة: وأين المهرب عنه! فبايعه، وبايعه الزبير والناس۔۔۔
لوگوں نے علی رضی اللہ عنہ کی بیعت پھر زبیر اورطلحہ رضی اللہ عنہما کو بلوایا گیا اور انہیں بیعت کرنے کے لئے کہا گیا ۔ توطلحۃ رضی اللہ عنہ نے پس وپیش کیا اس پر مالک اشتر کھڑا ہوا اس نے تلوارکھینچی اور کہا : اللہ قسم تو بیعت کر ورنہ میں تیری گردن ماردوں گا ۔ تو طلحہ رضی اللہ عنہ نے کہا: اس سے فرار کی گنجائش نہیں چانچہ انہوں نے بیعت کرلی اور زبیررضی اللہ عنہ اورلوگوں نے بھی بیعت کرلی[تاريخ الطبري: 4/ 429 واسنادہ ضعیف]

امام ابن جرير الطبري رحمه الله (المتوفى310)نے کہا:
كتب إلي السري، عن شعيب، عن سيف، عن محمد بن قيس، عن الحارث الوالبي، قال: جاء حكيم بن جبلة بالزبير حتى بايع، فكان الزبير يقول: جاءني لص من لصوص عبد القيس فبايعت واللج على عنقي.
زبیررضی اللہ عنہ کہتے تھے کہ : عبدالقیس کے غنڈوں میں سے ایک غنڈہ میرے پاس آیا پھر میں نے اس حالت میں بیعت کی کہ تلوار میرے سر پر تھی [تاريخ الطبري: 4/ 435 واسنادہ ضعیف]

امام ابن جرير الطبري رحمه الله (المتوفى310)نے کہا:
حدثني الحارث، قال: حدثنا ابن سعد، قال: أخبرنا محمد بن عمر، قال: حدثني أبو بكر بن إسماعيل بن محمد بن سعد بن أبي وقاص، عن أبيه، عن سعد، قال: قال طلحة: بايعت والسيف فوق رأسي
طلحۃ رضی اللہ عنہ نے کہا: میں نے اس حالت میں (علی رضی اللہ عنہ کی ) بیعت کی کہ تلوار میرے سر پرتھی[تاريخ الطبري: 4/ 431 واسنادہ ضعیف]

اس کے علاوہ اور بھی کئی روایات ہیں جو بتلاتی ہیں کہ علی رضی اللہ عنہ کی بیعت تلوار کے زور پر لی گی تھی ۔ اب سوال یہ ہے کہ ان روایات کی بنیاد پر علی رضی اللہ عنہ کے بارے میں کیا خیال قائم کیا جائے گا؟
اگر علی رضی اللہ عنہ سے متعلق اس طرح کی روایات ناقابل قبول ہیں تو پھر یزید سے متعلق اس طرح کی روایات کیونکر قابل قبول ہوسکتی ہیں۔
یادرہے کہ یزید کی بیعت سے متعلق کسی ایک بھی صحابی سے یا تابعی سے یہ ثابت نہیں کہ انہوں نے کراہت کے ساتھ یزید کی بیعت کی ہو لیکن علی رضی اللہ عنہ کی بیعت سے متعلق صحیح سند سے ثابت ہے کہ جنت کی بشارت یافتہ صحابی طلحہ رضی اللہ عنہ نے علی رضی اللہ عنہ کی بیعت کراہت کے ساتھ کی تھی، چنانچہ:

امام نعيم بن حماد رحمہ اللہ (المتوفى 228 ) نے کہا:
حدثنا ابن المبارك، عن شعبة، عن سعد بن إبراهيم، عن أبيه، قال: لما بلغ عليا رضي الله عنه أن طلحة يقول: إنما بايعت واللج على قفاي، أرسل ابن عباس إلى أهل المدينة فسألهم عما قال، فقال أسامة بن زيد: «أما اللج على قفاه فلا، ولكن بايع وهو كاره» ، فوثب الناس عليه حتى كادوا يقتلونه
جب علی رضی اللہ عنہ کو یہ بات بتائی گئی کہ کہ طلحہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ : میں نے اس حال میں بیعت کی کہ تلوار میرے سر پر تھی ۔ تو علی رضی اللہ عنہ نے ابن عباس رضی اللہ عنہ کو مدینہ بھیجا ، انہوں نے اہل مدینہ سے اس بابت دریافت کیا تو اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ نے کہا: جہاں تک سر پرتلوار ہونے کی بات ہے تو یہ درست نہیں لیکن انہوں نے کراہت و ناپسندیدگی کے ساتھ بیعت کی ہے۔ پھر لوگ (اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ کی اس حق گوئی کی بناپر) ان پرٹوٹ پڑے اور قریب تھا کہ انہیں قتل کرڈالیں [الفتن لنعيم بن حماد 1/ 159 و اسنادہ صحیح واخرجہ ایضا ابن ابن ابی شیبہ فی مصنفہ : 11/ 107 سلفية، وایضا 15/ 259 من طریق غندر عن شعبہ بہ واسنادہ صحیح جدا لا غبار علیہ]
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,999
ری ایکشن اسکور
9,800
پوائنٹ
722
خلاصہ

  • بیعت یزید کے بارے میں جن صحابہ نے بھی اختلاف کیا ان کا اختلاف یزید سے نہیں بلکہ صحابہ ہی سے تھا کیونکہ یہ فیصلہ صحابہ نے ہی کیا تھا۔
  • جن حضرات نے بھی بیعت یزید کی مخالفت کی تھی ان کی مخالفت فی نفسہ یزید کی شخصیت سے نہیں تھی بلکہ باپ کے بعد بیٹے کو خلیفہ بنانے کے فیصلہ سے تھی۔
  • بیعت یزید کی مخالفت کرنے والے صحابہ میں سے کسی نے بھی یزید کے اخلاق و کردار پرکوئی تنقید نہیں کی۔
  • صرف اور صرف دو صحابہ ہی سے بیعت یزید کی مخالفت ثابت ہے۔باقی پوری امت نے اس فیصلہ کو تسلیم کرلیا تھا۔
  • سعیدبن عثمان ، عبداللہ بن عمر، حسین بن علی اور عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہم سے بیعت یزید کی مخالفت ثابت نہیں ہے۔
  • بیعت یزید کے سلسلے میں کسی پر بھی کوئی جبر قطعا نہیں کیا گیا اس بارے میں منقول روایات باطل ومردود ہیں۔
 
شمولیت
مئی 05، 2014
پیغامات
202
ری ایکشن اسکور
40
پوائنٹ
81
بیعت سے فرار کے لئے مکہ میں پناہ

یادرہے کہ جس طرح امیر یزید کی بیعت سے متعلق یہ ملتاہے کہ ان کی بیعت سے فرار کے لئے بعض صحابہ مدینہ سے مکہ روانہ ہوگئے تھے ، ٹھیک اسی طرح علی رضی اللہ عنہ کی بیعت سے متعلق بھی روایات میں ملتا ہے کہ ان کی بیعت سے بھی انکار کرکے بعض صحابہ مکہ روانہ ہوگئے تھے۔
اس سلسلے میں عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہ کی صحیح روایت اوپر درج کی جاچکی ہے اس کے علاوہ امام طبری رحمہ اللہ نے دیگر صحابہ کا بھی یہی طرزعمل نقل کیا ہے لیکن اس کی سندیں ہماری نظرمیں صحیح نہیں ہیں ملاحظہ ہو:

امام ابن جرير الطبري رحمه الله (المتوفى310)نے کہا:
كتب إلي السري، عن شعيب، عن سيف، عن أبي حارثة وأبي عثمان، قالا: لما كان يوم الخميس على رأس خمسة أيام من مقتل عثمان رضي الله عنه، جمعوا أهل المدينة فوجدوا سعدا والزبير خارجين، ووجدوا طلحة في حائط له، ووجدوا بني أمية قد هربوا إلا من لم يطق الهرب، وهرب الوليد وسعيد إلى مكة في أول من خرج، وتبعهم مروان، وتتابع على ذلك من تتابع،
عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت کے پانچ دن بعد اہل مدینہ کو لوگوں نے جمع کیا تو پایا کہ سعد اور زبیررضی اللہ عنہ مدینہ سے نکل چکے ہیں ، اور طلحۃ رضی اللہ عنہ کو ان کے باغ میں پایا گیا اور بنوامیہ (سب کے سب) فرار ہوگئے سوائے ان کے جو فرار کی طاقت نہیں رکھتے تھے اور ولید اور سعید رضی اللہ عنہ بھی پہلے نکلنے والے لوگوں کے ساتھ فرار ہوگئے اور مروان بھی ان کے پیچھے گئے اس کے بعد پے درپے کوئی لوگوں نے ان کی پیروی کی ۔[تاريخ الطبري: 4/ 433 واسنادہ ضعیف]

امام ابن جرير الطبري رحمه الله (المتوفى310)نے کہا:
حدثني عمر، قال: حدثنا أبو الحسن ۔۔۔قال: وحدثني من سمع الزهري يقول: هرب قوم من المدينة إلى الشام ولم يبايعوا عليا، ولم يبايعه قدامة بن مظعون، وعبد الله بن سلام، والمغيره ابن شعبة وقال آخرون: إنما بايع طلحة والزبير عليا كرها.
امام زہری کہتے ہیں کہ مدینہ کی ایک جماعت نے شام کی طرف راہ فرار اختیار کی اور علی رضی اللہ عنہ کی بیعت نہیں کی ، اور قدامہ بن مظمون ، عبداللہ بن سلام اور مغیربن شعبہ نے بھی بیعت نہیں کی ، اور دیگرلوگوں نے بیان کیا کہ طلحہ اور زبیر نے زبردستی کرنے کے سبب بیعت کی ۔[تاريخ الطبري: 4/ 430]
شیخِ محترم : اس پوسٹ کی یہ سرخی درست نہیں
بیعت سے فرار کے لئے مکہ میں پناہ
یہاں بیعت سے انکار کا لفظ تو مناسب ہے فرار کا نہیں ۔ صحابی رسول اور فرار ؟یہ نہیں ہو سکتا ۔
 

abdullah786

رکن
شمولیت
نومبر 24، 2015
پیغامات
428
ری ایکشن اسکور
25
پوائنٹ
46
یزید کی مذمت میں ایک بات یہ بھی کہی جاتی ہے کہ جب یزید کی بیعت لی گئی تو بعض صحابہ کی طرف سےاس کی مخالفت ہوئی ۔

عرض ہے کہ سب سے پہلے یہ بات اچھی طرح ذہن نشین کرلینی چاہئے کہ جن حضرات نے بھی بیعت یزید کی مخالفت کی تھی ان کی مخالفت فی نفسہ یزید کی شخصیت سے نہیں تھی بلکہ ان کی مخالفت اس اندیشہ پر قائم تھی کہ اگر باپ کے بعد بیٹے کو خلیفہ بنادیا گیا تو کہیں ایسا نہ ہو کہ آگے چل کر یہ اصول بن جائے اور ہرخلیفہ کے بعد اس کے بیٹے ہی کو خلیفہ بنا یا جانے لگے۔

اس لئے سدباب کے لئے محض اس آئین سے بعض صحابہ نے اختلاف کیا ،یادرہے کہ بیعت یزید کی تجویز پیش کرنے والے اوراسے عملی شکل دینے والے سب صحابہ ہی تھے ،اس لئے جن سے اختلاف کیا گیا وہ بھی صحابہ تھے اور جنہوں نے اختلاف کیا وہ بھی صحابہ تھے ،یزید کی شخصیت کا فی نفسہ اس اختلاف سے کوئی تعلق نہیں ،کسی بھی صحابی نے اس موقع پریزید کے اخلاق و کردار کو موضوع بحث نہیں بنایااورنہ ہی یزید کی عدالت وصلاحیت سے انکارکیا،بلکہ اختلاف صرف باپ کے بعد بیٹے کی بیعت سے تھا ، اورمحض چندصحابہ کااختلاف وہ بھی یزید کی شخصیت سے نہیں بلکہ باپ کے بعد بیٹے کی بیعت سے ،اس سے یزید پرکوئی حرف نہیں آتا ورنہ علی رضی اللہ عنہ کے بارے میں کیا کہیں گے ان کی تو صرف چندصحابہ نہیں بلکہ صحابہ کی ایک بڑی جماعت نے مخالفت کی جن میں ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا بھی تھیں ،اورمبشربالجنہ صحابہ کرام بھی تھے، یہاں بھی اختلا ف علی رضی اللہ عنہ کی شخصیت سے نہیں بلکہ بعض اصولوں سے تھاجن کی تفصیل کا یہ موقع نہیں ۔
شیخ صاحب،
جب ظلم اتنا بڑھ گیا تھا تو کس نے بولنا تھا عام لوگ تو ویسے ہی نہیں بولتے تھے ایک مثال دے دیتا ہوں۔

صحیح بخاری میں موجود ہے کہ لوگ ابن عمر رضی اللہ عنہ کے پاس آکر یہ سوال کرتے کہ ہم جب امیر وقت کے پاس جاتے ہیں تو اس کی تعریف کرتے ہیں اور جب وہاں سے باہر آتے ہیں تو اس کی برائی کرتے ہیں اس پر ابن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم اس کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں نفاق کہتے تھے۔ حافظ ابن حجر نے اس میں ان امیروں کے نام بھی بتائے ہیں َمروان، یزید،ابن زیاد وغیرہ یہ ہے ملوکیت اور خلافت کا فرق خلیفہ کے سامنے اتنی آذادی تھی کہ اپنی بات کہ دی جاتی تھی مگر اس ملوکیت میں ہاں میں ہاں ملائی جانے لگی تھی۔ یہ ظلم تھا جس کی وجہ سے عام آدمی تو بولے ہی نہیں وہ تو تعریف ہی کرتے تھے اور صحابہ کرام نے بھی صبر کا دامن تھام لیا تھا کہ ظلم اتنا بڑھ گیا تھا کہ حکومت کے خلاف بولنے نہیں دیا جاتا تھا تو مخالفت کیا خاک ہونی تھی۔
 
سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔
Top