زبردستی بیعت کا افسانہ
جب لوگ اس حقیقت کا انکار نہیں کرپاتے کہ جلیل القدر صحابہ نے یزید کی بیعت کی ہے تو یہ جھوٹ گھڑلیتے ہیں کہ ان صحابہ پر زور زبردستی کرکے ان سے بیعت لی گئی تھی ، حالانکہ بیعت یزید سے متعلق ایسی کوئی ایک بھی روایت صحیح وثابت نہیں ہے ، ملاحظہ ہو:
پہلی روایت:
امام ابن سعد رحمه الله (المتوفى230)نے کہا:
قال محمد بن عمر ، قال ابن أبي سبرة وقد أخبرني عبد الله بن أبي بكر بن محمد بن عَمرو بن حزم۔۔۔ثم اعتمر معاوية في رجب, سنة ست وخمسين، وقدم المدينة، فكان بينه وبين الحسين بن علي, وعبد الله بن عُمَر, وعبد الرحمن بن أبي بكر, وعبد الله بن الزبير ما كان من الكلام في البيعة ليزيد بن معاوية، وقال: إني أتكلم بكلام فلا تردوا علي شيئا, فأقتلكم. فخطب الناس، فأظهر أنهم قد بايعوا، وسكت القوم, فلم يقروا ولم ينكروا خوفا منه۔۔
۔۔۔پھر امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ نے رجب 56 ہجری میں عمرہ کیا اور مدینہ آئے ، پھر یزیدبن معاویہ کی بیعت کے سلسلے میں حسین بن علی ، عبداللہ بن عمر ، عبدالرحمن بن ابی بکر اور عبداللہ بن زبیررضی اللہ عنہ سے ان کی بات چیت ہوئی ، اور معاویہ رضی اللہ عنہ نے کہا: میں ایک بات کہنے جارہا ہوں تم لوگ اس کی ذرہ برابر بھی تردید نہ کرنا ورنہ میں تمہیں قتل کردوں گا ۔ چنانچہ پھرامیرمعاویہ رضی اللہ عنہ نے لوگوں کی خطاب کیا اور یہ ظاہر کیا کہ ان حضرات نے بیعت کرلی ہے اور یہ حضرات خاموش رہے اور امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ کے ڈر سے نہ تو اقرار کیا اور نہ ہی انکار کیا ۔۔۔[الطبقات الكبير لابن سعد ت عمر: 6/ 27]
یہ روایت جھوٹی اور من گھڑت ہے ۔
سند میں موجود ’’محمدبن عمر واقدی ‘‘ کذاب ہے چنانچہ:
امام شافعي رحمه الله (المتوفى 204)نے کہا:
كتب الواقدي كذب
واقدی کی ساری کتابیں جھوٹی ہیں[الجرح والتعديل لابن أبي حاتم: 8/ 20 وسندہ صحیح]۔
امام إسحاق بن راهَوَيْه رحمه الله (المتوفى 237)نے کہا:
عندي ممن يضيع الحديث
میرے نزدیک یہ حدیث گھڑنے والوں میں سے تھا[الجرح والتعديل لابن أبي حاتم: 8/ 20 وسندہ صحیح]۔
امام نسائي رحمه الله (المتوفى303)نے کہا:
والكذابون المعروفون بِوَضْع الحَدِيث على رَسُول الله صلى الله عَلَيْهِ وَسلم أَرْبَعَة: ١- ابْن أبي يحيى بِالْمَدِينَةِ ٢- والواقدي بِبَغْدَاد ٣ - وَمُقَاتِل بن سُلَيْمَان بخراسان ٤ - وَمُحَمّد بن السعيد بِالشَّام
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر حدیث گھڑنے والے مشہور و معروف جھوٹے راوی چار ہیں (1) مدینہ میں ابن ابی یحیی۔ (2) بغداد میں واقدی ۔ (3) خراسان میں مقاتل بن سلیمان۔(4) شام میں محدبن سعید [ أسئلة للنسائي في الرجال المطبوع فی رسائل في علوم الحديث ص: 76]۔
امام ابن القيسراني رحمه الله (المتوفى507)نے کہا:
أجمعوا على تركه
اس کے متروک ہونے پر محدثین کا اجماع ہے[معرفة التذكرة لابن القيسراني: ص: 163]۔
امام ذهبي رحمه الله (المتوفى748)نے کہا:
قد انعقد الإجماع اليوم على أنه ليس بحجة، وأن حديثه في عداد الواهي
آج اس بات پر اجماع ہوچکا ہے کہ واقدی حجت نہیں ہے اور اس کی حدیث سخت ضعیف میں شمار ہوگی[سير أعلام النبلاء للذهبي: 9/ 469]۔
ان ائمہ کے علاوہ اوربھی متعدد ناقدین نے اس پر جرح کی ہے ملاحظہ ہو عام کتب رجال
فائدہ:
علامہ البانی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
محمد بن عمر هذا - وهو الواقدي - كذاب ، فلا يفرح بروايته
محمدبن عمر یہ واقدی کذاب ہے اس لئے اس کی روایت کسی کام کی نہیں[سلسلة الأحاديث الضعيفة والموضوعة وأثرها السيئ في الأمة 4/ 13]۔
اس سند میں ایک دوسرا راوی ’’ابن ابی سبرہ ہے‘‘ ہے۔
یہ بھی کذاب اور وضاع حدیث ہے۔
امام أحمد بن حنبل رحمه الله (المتوفى241)نے کہا:
كان يكذب ويضع الحديث
یہ جھوٹ بولتا تھا اور حدیث گھڑتا تھا [العلل ومعرفة الرجال 1/ 510]
امام ابن عدي رحمه الله (المتوفى365)نے کہا:
وهو في جملة من يضع الحديث
یہ ان لوگوں میں سے تھا جو حدیث گھڑتے تھے۔[الكامل في الضعفاء: 7/ 297]
اس کے علاوہ اور بھی بہت سارے محدثین نے اس پر جرح کی ہے دیکھئے عام کتب رجال۔
حیرت ہے کہ اس روایت کی سند میں دو دو کذاب ہونے کے باوجود بھی ابن الجوزی نے اس روایت کو یزید کی مذمت والی کتاب میں درج کرکے یہ استدلال کیا ہے کہ جن لوگوں نے یزید کی بیعت کی تھی انہوں نے ڈر کی وجہ سے بیعت کی تھی۔ دیکھئے:[الرد على المتعصب العنيد المانع من ذم يزيد لابن الجوزي ص: 45]۔
دوسری روایت:
امام خليفة بن خياط رحمه الله (المتوفى240)نے کہا:
وهب بن جرير قال حدثني جويرية بن أسماء قال سمعت أشياخ أهل المدينة يحدثون۔۔ الخبر وفیہ۔۔۔ثم دعا صاحب حرسه فقال أقم على رأس كل رجل من هؤلاء رجلين من حرسك۔۔۔الخ
اس کے بعد انہوں نے نگہبانوں کے سردار کو بلایا اور کہا کہ ان میں سے سے ہرشخص کے سر پر اپنے نگہبانوں میں سے دو نگہبان مقرر کردو ۔۔۔الخ[تاريخ خليفة بن خياط ص: 217]
یہ روایت مردوو وباطل ہے کیونکہ جویریہ نے اپنے مشائخ کا نام نہیں بتایا ہے ان کی ثقاہت تو دور کی بات ان کا نام تک معلوم نہیں ہے۔اس روایت سے متعلق مزید تفصیل کے لئے دیکھئے : مواقف المعارضہ :ص 128 تا 131 ۔
تیسری روایت:
امام خليفة بن خياط رحمه الله (المتوفى240)نے کہا:
حدثنا وهب قال حدثني أبي عن أيوب عن نافع قال خطب معاوية فذكر ابن عمر فقال والله ليبايعن أو لأقتلنه فخرج عبد الله بن عبد الله بن عمر إلى أبيه فأخبره وسار إلى مكة ثلاثا فلما أخبره بكى ابن عمر فبلغ الخبر عبد الله بن صفوان فدخل على ابن عمر فقال أخطب هذا بكذا قال نعم فقال ما تريد أتريد قتاله فقال يا بن صفوان الصبر خير من ذلك فقال ابن صفوان والله لئن أراد ذلك لأقاتلنه فقدم معاوية مكة فنزل ذا طوى فخرج إليه عبد الله بن صفوان فقال أنت الذي تزعم أنك تقتل ابن عمر إن لم يبايع لابنك فقال أنا أقتل ابن عمر إني والله لا أقتله
نافع کہتے ہیں کہ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے خطبہ دیا اور عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہ کا تذکرہ کیا اور کہا : ’’ اللہ کی قسم یہ بیعت کرلیں ورنہ میں انہیں قتل کردوں گا (!) ‘‘ ۔ یہ سن کر عبداللہ بن عبداللہ بن عمر اپنے والد کے پاس گئے انہیں اس بات سے آگاہ کیا، وہ تین دن کے اندر مکہ پہنچ گئے۔ ان کے والد نے جب یہ بات سنی تو روپڑے ۔ پھریہ بات عبداللہ بن صفوان رضی اللہ عنہ کو معلوم ہوئی وہ ابن عمررضی اللہ عنہ کےپاس آئے اور کہا: کیا انہوں نے اپنے خطاب میں یہ بات کہی ہے ؟ کہا: ہاں ۔ عبداللہ بن صفوان رضی اللہ عنہ نے کہا: آپ کیا چاہتے ہیں ؟ کیا آپ ان سے لڑنا چاہتے ہیں؟ عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہ نے جواب دیا: اے ابن صفوان ! صبر اس سے بہترہے۔ پھرعبداللہ بن صفوان رضی اللہ عنہ نے کہا: اللہ کی قسم اگر انہوں نے ایسا ارادہ کیا ہے تو میں ان سے لڑوں گا۔ پھرمعاویہ رضی اللہ عنہ مکہ آئے اور مقام ذی طوی میں نزول فرمایا تو عبداللہ بن صفوان رضی اللہ عنہ ان کے پاس گئے اور کہا: کیا آپ کا یہ ارادہ ہے کہ اگر عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے آپ کے بیٹے کی بیعت نہ کی تو آپ انہیں قتل کردیں گے ؟؟؟ تو معاویہ رضی اللہ عنہ نے (حیرت سے) کہا: میں انہیں قتل کردوں گا؟ اللہ کی قسم میں ان کو قتل نہیں کرسکتا۔[تاريخ خليفة بن خياط ص: 215 واسنادہ ضعیف لخطا جریر بن حازم فی ضبط بعض الالفاظ وجریر وان کا ثقۃ لکنہ متکلم فیہ من قبل حفظہ ، وباقی المتن صحیح بالمتابعات]
یہ روایت ضعیف ہے کیونکہ جرير بن حازم الأزدي نے أيوب السختياني نے یہ روایت نقل کرتے ہوئے ایک جملہ کے بیان میں غلطی کی ہے چنانچہ انہوں نے اس روایت میں کہا
’’والله ليبايعن أو لأقتلنه ‘‘(اللہ کی قسم یہ بیعت کرلیں ورنہ میں انہیں قتل کردوں گا)
جبکہ أيوب السختياني ہی سے اسی روایت کو إسماعيل بن إبراهيم الأسدي نے بیان کیا تو انہوں نے اس مقام پر کہا
’’لَيُقْتَلَنَّ ابْنُ عُمَر‘‘(ابن عمر رضی اللہ عنہ (کسی کے ہاتھوں) قتل کردئے جائیں گے)چنانچہ:
امام ابن سعد رحمه الله (المتوفى230)نے کہا:
أَخْبَرَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ الْأَسَدِيُّ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ نَافِعٍ قَالَ: لَمَّا قَدِمَ مُعَاوِيَةُ الْمَدِينَةَ حَلَفَ عَلَى مِنْبَرِ رَسُولِ اللَّهِ صلّى الله عليه وسلم لَيُقْتَلَنَّ ابْنُ عُمَر, فَلَمَّا دَنَا مِنْ مَكَّةَ تَلَقَّاهُ النَّاسُ وَتَلَقَّاهُ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ صَفْوَانَ فِيمَنْ تَلَقَّاهُ , فَقَالَ: إِيهِنْ مَا جِئْتَنَا بِهِ، جِئْتَنَا لِتَقْتُلَ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ؟ قَالَ: وَمَنْ يَقُولُ هَذَا؟ وَمَنْ يَقُولُ هَذَا؟ وَمَنْ يَقُولُ هَذَا؟ ثَلَاثًا
نافع کہتے ہیں کہ : جب امیر معاویہ رضی اللہ عنہ مدینہ آئے تو منبر رسول پر حلف لے کر کہا کہ ابن عمر رضی اللہ عنہ (کسی کے ہاتھوں)قتل کردئے جائیں گے ۔ اس کے بعد جب امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ مکہ کے قریب پہونچے تو لوگوں نے انہیں گھیرلیا ، انہیں لوگوں میں عبداللہ بن صفوان رضی اللہ عنہ بھی تھے انہوں نے کہا: یہی سب کرنے کے لئے تم ہمارے پاس آئے ہو ! کیا تمہارے آنے کا مقصد عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کا قتل ہے؟ تو امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے کہا: کون یہ بات کہتاہے ؟ کون یہ بات کہتا ہے؟ کون یہ بات کہتاہے؟ راوی کہتے ہیں کہ تین بار امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے یہ سوال دہرایا[الطبقات الكبرى ط دار صادر 4/ 183 واسنادہ صحیح]
بلکہ انہیں الفاظ کے ساتھ ابو ایوب کی متابعت کرتے ہوئے نے ابن عون نے بھی اسی روایت کو نافع سے بیان کیا اور انہوں نے بھی
’’ يُقْتَلَنَّ ابْنُ عُمَر‘‘(ابن عمر رضی اللہ عنہ (کسی کے ہاتھوں) قتل کردئے جائیں گے) کے الفاظ نقل کئے ہیں چنانچہ:
امام ابن سعد رحمه الله (المتوفى230)نے کہا:
أَخْبَرَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، عَنِ ابْنِ عَوْنٍ، عَنْ نَافِعٍ قَالَ: لَمَّا قَدِمَ مُعَاوِيَةُ الْمَدِينَةَ حَلَفَ عَلَى مِنْبَرِ رَسُولِ اللَّهِ صلّى الله عليه وسلم لَيُقْتَلَنَّ ابْنُ عُمَر، قَالَ: فَجَعَلَ أَهْلُنَا يَقْدُمُونَ عَلَيْنَا وَجَاءَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ صَفْوَانَ إِلَى ابْنِ عُمَرَ , فَدَخَلَا بَيْتًا، وَكُنْتُ عَلَى بَابِ الْبَيْتِ , فَجَعَلَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ صَفْوَانَ يَقُولُ: أَفَتَتْرُكُهُ حَتَّى يَقْتُلَكَ، وَاللَّهِ لَوْ لَمْ يَكُنْ إِلَّا أَنَا وَأَهْلُ بَيْتِي لَقَاتَلْتُهُ دُونَكَ , قَالَ: فَقَالَ ابْنُ عُمَرَ: أَفَلَا أَصْبِرُ فِي حَرَمِ اللَّهِ؟ قَالَ: وَسَمِعْتُ نَجِيَّهُ تِلْكَ اللَّيْلةَ مَرَّتَيْنِ، فَلَمَّا دَنَا مُعَاوِيَةُ تَلَقَّاهُ النَّاسُ وَتَلَقَّاهُ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ صَفْوَانَ فَقَالَ: إِيهِنْ مَا جِئْتَنَا بِهِ، جِئْتَ لِتَقْتُلَ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ؟ قَالَ: وَاللَّهِ لَا أَقْتُلُهُ
نافع کہتے ہیں کہ : جب امیر معاویہ رضی اللہ عنہ مدینہ آئے تو منبر رسول پر حلف لے کر کہا کہ ابن عمر رضی اللہ عنہ (کسی کے ہاتھوں)قتل کردئے جائیں گے ۔ اس کے بعدہمارے اقرباء ہمارے پاس آنے لگے اور عبداللہ بن صفوان رضی اللہ عنہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اورگھر میں داخل ہوئے۔ اس وقت میں دروازہ کے پاس تھا ۔ تو عبداللہ بن صفوان رضی اللہ عنہ کہنے لگے : کیا آپ امیر معاویہ کو چھوڑ دیں گے تاکہ وہ آپ کوقتل کردیں ؟ اللہ کی قسم اگر میں اور میرے گھر والوں کے علاوہ کوئی بھی نہ ہوتا تو بھی میں امیر معاویہ رضی اللہ عنہ سے لڑتا۔ تو عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہ نے کہا: کیا میں اللہ کے حرم میں صبر نہ اختیار کروں؟ نافع کہتے ہیں کہ میں نے اس رات دو بار عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کے سسکنے کی آواز سنی۔ پھر جب امیر معاویہ (مکہ کے ) قریب پہنونچے تو لوگوں نے انہیں گھیر لیا اور عبداللہ بن صفوان رضی اللہ عنہ نے بھی انہیں گھیرا اور کہا: یہی سب کرنے کے لئے تم ہمارے پاس آئے ہو ! کیا تمہارے آنے کا مقصد عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کا قتل ہے؟ [الطبقات الكبرى ط دار صادر 4/ 183 واسنادہ صحیح]
معلوم ہوا کہ نافع نے ’’
لَيُقْتَلَنَّ ابْنُ عُمَرَ(ابن عمر رضی اللہ عنہ (کسی کے ہاتھوں) قتل کردئے جائیں گے)‘‘ ہی کے الفاظ بیان کئے ہیں جیساکہ ان سے دولوگوں نے روایت کیا ہے ، اور جریربن حازم نے ان میں سے ایک سے روایت کیا تو یہ الفاظ بدل دئے اور یہ گرچہ ثقہ ہیں لیکن متکلم فیہ ان کے حافظہ پر جرح ہوئی ہے چنانچہ:
امام أحمد بن حنبل رحمه الله (المتوفى241)نے کہا:
في بعض حَدِيْثه شيءٌ
ان کی بعض احادیث محل نظر ہیں [العلل للإمام أحمد رواية المروذي ص: 73]
امام ابن حبان رحمه الله (المتوفى354)نے کہا:
كان يخطىء لأن أكثر ما كان يحدث من حفظه
یہ غلطی کرتے تھے کیونکہ اکثر یہ اپنے حافظہ سے حدیث بیان کرتے[الثقات لابن حبان ت االعثمانية: 6/ 145]
امام ترمذي رحمه الله (المتوفى279)نے کہا:
جرير بن حازم ربما يهم في الشيء
جریر بن حازم بسا اوقات بعض چیزوں میں وہم کے شکار ہوجاتے تھے[سنن الترمذي ت شاكر 2/ 394]
حافظ ابن حجر رحمه الله (المتوفى852)نے کہا:
له أوهام إذا حدث من حفظه
جب یہ اپنے حافظہ سے بیان کرتے ہیں تو اوہام کے شکار ہوتے ہیں[تقريب التهذيب لابن حجر: رقم 911]
الغرض یہ کہ جریر بن حازم کی یہ روایت غلط وغیر ثابت ہے اس میں انہوں ارادہ قتل کی نسبت امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ کی طرف کردی ہے جبکہ امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ نے دوسروں کی طرف سے قتل کے خدشہ کا اظہار کیا تھا۔
دراصل امیر معاویہ رضی اللہ عنہ بعض اہل شام کی طرف سے یہ خطرہ محسوس کررہے تھے اور انہیں کی جانب سے متوقع اقدام کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہہ رہے تھے کہ اگر عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ بیعت نہیں کریں گے تو بعض اہل شام کی طرف سے قوی خدشہ ہے کہ وہ انہیں قتل کردیں گے۔
چنانچہ ایک ضعیف روایت جسے بعض محققین حسن بھی کہتے ہیں اس میں صراحت کے ساتھ ذکر ہے کہ اہل شام کے بعض افراد نے کہا تھا کہ اگر عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ بیعت نہیں کریں گے تو انہیں قتل کردیا جائے گا یہ سن کر امیر معاویہ رضی اللہ عنہ انہیں بری طرح ڈانٹا اور کہا آئندہ میں اس طرح کی بات نہیں سننا چاہتا ہوں ۔ دیکھئے: مواقف المعارضہ : ص: 126۔
اسی پس منظر میں امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے کہا تھا:
''لَيُقْتَلَنَّ ابْنُ عُمَرَ'' یعنی ابن عمر (کسی کے ہاتھوں )قتل کردئے جائیں گے ۔ اور اس جملہ سے امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ کا اشارہ اہل شام کے بعض متشددین کی طرف تھا ۔
لیکن بعض سامعین نے اس کا غلط مطلب لے لیا اور یہ سمجھ لیا کہ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ قتل کی دھمکی دے رہے ہیں ۔حالانکہ یہ بات غلط تھی ، امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ نے ایسی بات ہرگزنہیں کہی تھی، جیساکہ درج بالا روایات کے اخیر میں امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی طرف سے انکار و تردید موجود ہے چنانچہ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے ایسی بات سے برات ظاہر کی اور واضح کیا کہ وہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کے قتل کا ارادہ نہیں رکھتے۔
خلاصہ کلام یہ کہ صحیح روایات میں صرف یہ بات ملتی ہے کہ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کے بارے میں یہ اندیشہ ظاہر کیا کوئی انہیں قتل کردے گا ۔لیکن کسی نے یہ سمجھ لیاکہ خود امیر معاویہ رضی اللہ عنہ قتل کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں ۔ اور اس غلط مفہوم کو عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ اور دیگر لوگوں تک پہنچا دیا گیا ۔ لیکن بعد میں جب عبداللہ بن صفوان رضی اللہ عنہ نے تحقیق کی غرض سے بذات خود امیر معاویہ رضی اللہ عنہ سے اس بابت دریافت کیا تو امیر معاویہ رضی اللہ عنہ اس افواہ پر دنگ رہ گئے اور فورا پوچھا: کس نے یہ بات کہی ہے ؟ کس نے یہ بات کہی ہے ؟ کس نے یہ بات کہی ہے ؟ تین بار یہ سوال دہرایا لیکن کسی نے بھی سامنے آخر یہ شہادت نہیں دی کہ میں نے آپ کو ایسا کہتے ہوئے سنا ہے۔
خلاصہ کلام یہ کہ:
ایسی کوئی ایک بھی صحیح روایت نہیں ملتی جس سے یہ پتہ چلتا ہوں کہ یزید کی بیعت زبردستی لی گئی ہو ، اہل شام کے بعض متشددین اس بابت سختی کا ارادہ رکھتے تھے۔ اوراس طرح کے متشددین تو علی رضی اللہ عنہ کے حامیان میں تھے جیساکہ گذشتہ سطور میں صحیح سند کے ساتھ آپ پڑھ چکے ہیں کہ کس طرح صحابی رسول اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ کو قتل کرنے کے لئے لوگ ٹوٹ پڑے جب انہوں نے یہ سچائی بتائی کہ طلحہ رضی اللہ عنہ نے ناپسندیدگی کے ساتھ علی رضی اللہ عنہ کی بیعت کی ہے۔
بہرحال اہل شام میں جو بھی متشددین تھے انہیں حکومت وقت یعنی امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی حمایت حاصل نہ تھی جس کے نتیجہ میں کسی کی طرف سے بھی ایسا کوئی پرتشدد اقدام قطعا نہیں ہوا۔
اس کے برخلاف زور زبردستی والی جو روایات بھی ملتی ہیں وہ سب کی سب موضوع یا مردود و سخت ضعیف ہیں۔
یادرہےکہ اگر اس طرح کی مردود روایات پر ایمان لایا جائے تو صرف یزید کی بیعت ہی نہیں بلکہ علی رضی اللہ عنہ کی بیعت بھی اسی نوعیت کی نظر آئے گی کیونکہ بعض ضعیف ومردود روایات میں علی رضی اللہ عنہ کی بیعت سے متعلق بھی یہ بات ملتی ہے کہ ان کی بیعت تلوار کے زرو پر زبردستی لی گئی تھی چنانچہ:
امام ابن جرير الطبري رحمه الله (المتوفى310)نے کہا:
حدثني أحمد بن زهير، قال: حدثني ابى، قال: حدثنا وهب ابن جرير، قال: سمعت أبي، قال: سمعت يونس بن يزيد الأيلي، عن الزهري، قال: بايع الناس علي بن أبي طالب، فأرسل إلى الزبير وطلحة فدعاهما إلى البيعة، فتلكأ طلحة، فقام مالك الاشتر وسل سيفه وقال: والله لتبايعن أو لأضربن به ما بين عينيك، فقال طلحة: وأين المهرب عنه! فبايعه، وبايعه الزبير والناس۔۔۔
لوگوں نے علی رضی اللہ عنہ کی بیعت پھر زبیر اورطلحہ رضی اللہ عنہما کو بلوایا گیا اور انہیں بیعت کرنے کے لئے کہا گیا ۔ توطلحۃ رضی اللہ عنہ نے پس وپیش کیا اس پر مالک اشتر کھڑا ہوا اس نے تلوارکھینچی اور کہا : اللہ قسم تو بیعت کر ورنہ میں تیری گردن ماردوں گا ۔ تو طلحہ رضی اللہ عنہ نے کہا: اس سے فرار کی گنجائش نہیں چانچہ انہوں نے بیعت کرلی اور زبیررضی اللہ عنہ اورلوگوں نے بھی بیعت کرلی[تاريخ الطبري: 4/ 429 واسنادہ ضعیف]
امام ابن جرير الطبري رحمه الله (المتوفى310)نے کہا:
كتب إلي السري، عن شعيب، عن سيف، عن محمد بن قيس، عن الحارث الوالبي، قال: جاء حكيم بن جبلة بالزبير حتى بايع، فكان الزبير يقول: جاءني لص من لصوص عبد القيس فبايعت واللج على عنقي.
زبیررضی اللہ عنہ کہتے تھے کہ : عبدالقیس کے غنڈوں میں سے ایک غنڈہ میرے پاس آیا پھر میں نے اس حالت میں بیعت کی کہ تلوار میرے سر پر تھی [تاريخ الطبري: 4/ 435 واسنادہ ضعیف]
امام ابن جرير الطبري رحمه الله (المتوفى310)نے کہا:
حدثني الحارث، قال: حدثنا ابن سعد، قال: أخبرنا محمد بن عمر، قال: حدثني أبو بكر بن إسماعيل بن محمد بن سعد بن أبي وقاص، عن أبيه، عن سعد، قال: قال طلحة: بايعت والسيف فوق رأسي
طلحۃ رضی اللہ عنہ نے کہا: میں نے اس حالت میں (علی رضی اللہ عنہ کی ) بیعت کی کہ تلوار میرے سر پرتھی[تاريخ الطبري: 4/ 431 واسنادہ ضعیف]
اس کے علاوہ اور بھی کئی روایات ہیں جو بتلاتی ہیں کہ علی رضی اللہ عنہ کی بیعت تلوار کے زور پر لی گی تھی ۔ اب سوال یہ ہے کہ ان روایات کی بنیاد پر علی رضی اللہ عنہ کے بارے میں کیا خیال قائم کیا جائے گا؟
اگر علی رضی اللہ عنہ سے متعلق اس طرح کی روایات ناقابل قبول ہیں تو پھر یزید سے متعلق اس طرح کی روایات کیونکر قابل قبول ہوسکتی ہیں۔
یادرہے کہ یزید کی بیعت سے متعلق کسی ایک بھی صحابی سے یا تابعی سے یہ ثابت نہیں کہ انہوں نے کراہت کے ساتھ یزید کی بیعت کی ہو لیکن علی رضی اللہ عنہ کی بیعت سے متعلق صحیح سند سے ثابت ہے کہ جنت کی بشارت یافتہ صحابی طلحہ رضی اللہ عنہ نے علی رضی اللہ عنہ کی بیعت کراہت کے ساتھ کی تھی، چنانچہ:
امام نعيم بن حماد رحمہ اللہ (المتوفى 228 ) نے کہا:
حدثنا ابن المبارك، عن شعبة، عن سعد بن إبراهيم، عن أبيه، قال: لما بلغ عليا رضي الله عنه أن طلحة يقول: إنما بايعت واللج على قفاي، أرسل ابن عباس إلى أهل المدينة فسألهم عما قال، فقال أسامة بن زيد: «أما اللج على قفاه فلا، ولكن بايع وهو كاره» ، فوثب الناس عليه حتى كادوا يقتلونه
جب علی رضی اللہ عنہ کو یہ بات بتائی گئی کہ کہ طلحہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ : میں نے اس حال میں بیعت کی کہ تلوار میرے سر پر تھی ۔ تو علی رضی اللہ عنہ نے ابن عباس رضی اللہ عنہ کو مدینہ بھیجا ، انہوں نے اہل مدینہ سے اس بابت دریافت کیا تو اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ نے کہا: جہاں تک سر پرتلوار ہونے کی بات ہے تو یہ درست نہیں لیکن انہوں نے کراہت و ناپسندیدگی کے ساتھ بیعت کی ہے۔ پھر لوگ (اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ کی اس حق گوئی کی بناپر) ان پرٹوٹ پڑے اور قریب تھا کہ انہیں قتل کرڈالیں [الفتن لنعيم بن حماد 1/ 159 و اسنادہ صحیح واخرجہ ایضا ابن ابن ابی شیبہ فی مصنفہ : 11/ 107 سلفية، وایضا 15/ 259 من طریق غندر عن شعبہ بہ واسنادہ صحیح جدا لا غبار علیہ]