• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کا غسل اور ڈاکٹر شبیرکی غلط فہمی

جاءالحق

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 12، 2011
پیغامات
48
ری ایکشن اسکور
263
پوائنٹ
56
ابو سلمہ رضی اللہ تعالی عنہا کہتے ہیں کہ میں اور عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا کے بھائی عائشہ رضی اللہ تعالی عنہاکے پاس گئے اور ان سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے غسل جنابت کے بارے میں پوچھا ۔ انھوں نے غسل کرکے دکھایا اور اپنے سر پر پانی بہایا ہمارے اور ان کے درمیان ایک پردہ حائل تھا ۔(کتاب الغسل بخاری صفحہ:185)

ڈاکٹر شبیررقمطراز ہیں ،

مظاہرہ کرنا قطعی ضروری نہ تھا زبانی بتادیا ہوتا یا ابو سلمہ اپنی بیوی کو بھیج کر صحیح غسل کا پتاچلا سکتا تھا بعد میں خود ان سے سیکھتا۔ (اسلام کے مجرم صفحہ: 45.46)
ازالہ:۔
ڈاکٹر شبیرکو یہاں پر فاش غلط فہمی ہوئی ہے ۔ غسل کے معنی صرف نہانے کے نہیں بلکہ غسل کے معنی ’’پانی‘‘ کے بھی ہیں اور ان معنوں میں یہ لفظ احادیث میں بھی استعمال ہوا ہے ۔ سیدہ میمونہ رضی اللہ عنہافرماتی ہیں کہ وضعت لرسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم غسلاً (صحیح بخاری کتاب الغسل باب من افرغ بیمینہ علٰی شمالہ رقم الحدیث266)

’’میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے غسل کا پانی رکھا ۔‘‘
خود امام بخاری رحمہ اللہ نے اس حدیث پر باب باندھا ہے کہ
’’ باب الغسل (بالصاع) ونحوہ‘‘
’’غسل ایک صاع پانی سے کرنا چاہئیے ۔‘‘
اب فسألھا عن غسل النبی صلی اللہ علیہ وسلم کا مطلب یہ ہوا کہ انھوں نے نہانے کے پانی کے متعلق سوال کیا؟ اس سوال کے جواب میں ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا نے جوجواب دیا خود ان ہی الفاظ کے آگے مذکور ہے کہ ’’فدعت باناء ‘‘(صحیح بخاری کتاب الغسل باب الغسل بالصاع ونحوہ رقم الحدیث 251)انھوں نے ایک برتن پانی منگوایا اور اس برتن کے ذریعے سے یہ سمجھادیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اتنے پانی سے نہایا کرتے تھے ، حدیث میں غسل کی کیفیت کا بیان نہیں بلکہ غسل کے پانی کا بیان ہے غسل کی کیفیت تو ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہانے زبانی بتلادی تھی ۔
ابو سلمہ رضی اللہ عنہا فرماتے ہیں :
’’قالت عائشہ کان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اء ذا غسل بدأ بیمینہ فصب علیھا من الماء فغسلھا ثم صب الماء علی الأذی الذی بہ بیمینہ وغسل عنہ بشمالہ حتی اء ذا فرغ من ذلک صب علی رأسہ‘‘ (2صحیح مسلم کتاب الحیض باب القدر المستحب من الماء فی غسل الجنابۃ رقم الحدیث 321)

’’ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب غسل فرماتے تو دائیں ہاتھ سے شروع کرتے اور اس پر پانی بہاکر اسے دھوتے پھر شرم گاہ کے اطراف کی گندگی پر دائیں ہاتھ سے پانی ڈال کر بائیں ہاتھ سے دھو ڈالتے پھر فارغ ہوکر اپنے سر پر پانی بہالیتے ۔‘‘
غرض یہ کہ غسل کی کیفیت بتانے کے لئے عائشہ رضی اللہ عنہانے غسل تو نہیں کیا بلکہ جب انھوں نے پانی کی مقدار کا ذکر کیا تو ابو سلمہ رضی اللہ عنہ وغیرہ نے تعجب کا اظہار کیا کہ اتنے کم پانی سے کیسے نہایا جاسکتا ہے تو سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ یہ ممکن ہے اور اب میں نہانے جارہی ہوں اور اتنے ہی پانی سے نہاؤں گی پس انھوں نے پردہ ڈالا اور غسل فرمایا اور ثابت کردیاکہ اتنے کم پانی سے غسل ممکن ہے ۔
اور رہی بات ڈاکٹر شبیر کے تبصرے کی کہ ،
’’مظاہرہ کرنا قطعی ضروری نہ تھا زبانی بتادیا ہوتا یا ابو سلمہ اپنی بیوی کو بھیج کر صحیح غسل کا پتا چلا سکتا تھا بعد میں ان
سے خود سیکھ لیتااسکا جواب یہ ہے کہ،
(1) ابو سلمہ رضی اللہ عنہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے رضاعی بھانجے تھے اور دوسرے شخص سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے سگے بھائی اور دونوں محرم تھے۔
(2)سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے غسل کے پانی کی مقدار پوچھنے آئے تھے ڈاکٹر شبیرفرماتے ہیں کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے غسل کا مظاہرہ کیا تھا یہ بات سراسر امہات المؤمنین کے خلاف ذہن میں بھری ہوئی گندگی کا اظہار ہے ۔
(3) مسئلہ تو درپیش آیا ابو سلمہ رضی اللہ عنہ کواور بھیج اپنی بیوی کو دیں اب اس کو اس مثال سے سمجھیں ۔ ڈاکٹر شبیر اگر کوئی شخص میڈیکل کی فیلڈ میں ہے اور اسے کچھ عورتوں کے مخصوص اعضاء کے بارے میں پڑھایا جائے تو کیا وہ یہ کہے گا کہ مجھے نہ پڑھاؤ بلکہ میں اپنی بیوی کو بھیجتا ہوں تاکہ وہ ان مسائل کو پڑھنے کے بعد مجھے آگاہ کردے۔ ایسا نہیں ہوتا بلکہ ہر چیز کا اپنا ایک وقت ہوتا ہے جہاں تک شرم وحیا کا تعلق ہے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور ازواج مطہرات رضی اللہ عنھن شرم وحیا کے پیکر تھے لیکن جہاں مسائل کا معاملہ آتا ہے وہاں وضاحت کرنا ضروری ہے تاکہ ہر مسئلہ پر رہنمائی ہوجائے اور یہی مطلب ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوۃ حسنۃ کا کہ ہر باریک سے باریک مسئلہ پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں رہنمائی فرمائی ۔ لہٰذا اس میں کوئی اعتراض نہیں ۔ڈاکٹر شبیر اگر میڈیکل ڈاکٹر ہیں تو یقینا انھوں نے Embryologyکے مسائل ضرور پڑھے ہونگے اور انکو پڑھانے والے اساتذہ یقینا لیڈی ڈاکٹر زبھی ہونگی تو ڈاکٹرشبیر کو جنسیات کے متعلق سوال کرتے ہوئے یقینا شرم بھی محسوس ہوتی ہوگی تو ان مسائل کے لئے ڈاکٹر شبیر نے اپنی بیوی کو کیوں نہ بھیجا ۔ تاکہ وہ Embryologyکے مسائل ’’صحیح طریقے‘‘ سے سیکھ کر ڈاکٹر شبیر کو آکر با خبر کرتی۔
بشکریہ: دفاع حدیث ڈات کام
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,555
پوائنٹ
641
ما شاء اللہ !
اچھا موضوع ہے۔ ایسے حدیث کے معترضین کو یہ جواب بھی دیا جانا چاہیے کہ جو اعتراض تم حدیث پر وارد کرتے ہوئے اسی اعتراض کو غیر مسلم یعنی عیسائی اور یہودی قرآن پر وارد کر کے قرآن کا رد کرتےہیں مثلا منکرین حدیث ، احادیث پر یہ اعتراض وارد کرتے ہیں کہ ان میں بے حیائی اور عریانی کی باتیں ہیں اور عیسائی یہی اعتراض قرآن پر وارد کرتے ہیں۔ بعضے عیسائیوں نے تو سورۃ یوسف کو داستان عشق قرار دیا ہے، معاذ اللہ!اسی طرح قرآنی آیات مثلا سورۃ تحریم کی آخری آیت ومریم ابنت عمران التی احصنت فرجھا فنفخنا فیہ من روحنا پر اعتراضات وارد کیے ہیں۔ کیا ان اعتراضات کی وجہ سے یہی منکرین حدیث قرآن کی ان آیات کا انکار کر دیتے ہیں یا تاویل کر کے عیسائیوں کو غلط ثابت کرتے ہیں۔ جب قرآن کے بارے یہ حسن ظن ہے اور وہاں اعتراضات پر سر دھننے کی بجائے ان کی مناسب تاویل کی جاتی ہے تو احادیث کے ساتھ کیا بیر ہے کہ ان پر اعتراض وارد ہوتے ہی سینے سے لگا لیا جاتا ہے اور پوری امت مسلمہ اور کبار محدثین کی جماعت کو مطعون کرنا شروع کر دیا جاتا ہے۔
 

siddique

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
170
ری ایکشن اسکور
900
پوائنٹ
104
assalm ulukun
bahut hi zabar dast jawab diya aap nay.yeh sawal rafze kartay hai.hamare maa kay baray main.hamare maa ke pakki ki shaan main quran main ayat utre hai.aur aap shabbir sahab istarha ka sawal apnay zayhen main mat laye.aur bura na manay please magar hamaray yaha shabbir naam rafze bahut rakhtay hai.allah hafeez
 

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,397
پوائنٹ
891
ماشاءاللہ طلحہ بھائی،
بہت ہی عمدہ جوابات ہیں۔ خصوصاً اب انٹرنیٹ پر فورمز کے ذریعے یہ حضرات اس طرح کی احادیث سے غلط نتائج اخذ کر کے صحیح بخاری و امام بخاری رحمہ اللہ کی شان میں گستاخیاں کرتے رہتے ہیں اور جوان نسل ان اعتراضات اور ان کے ساتھ اٹیچ کردہ لمبی چوڑی جذباتی تقاریر سے متاثر ہو کر گمراہ ہو رہے ہیں۔ ہمیں اس قسم کے اعتراضات کے جوابات خوب پھیلانے کی ضرورت ہے۔!
والسلام
 

muslim

رکن
شمولیت
ستمبر 29، 2011
پیغامات
467
ری ایکشن اسکور
567
پوائنٹ
86
Ggusl k barey mey article parha. Wazahat karen k 2 sahaba ko ghusl karna nahee ata tha
Duniya mey koi ye nahee poochta k ghusl k leey kitna panee darkar hoga kia sahaba kee terbeeat es terha kee ho saktee ha k woh es terha k sawalat Hazrat Aisha se karen. kia Nabee ney wazahat nahee kardee ha. Sahaba orr Hazrat Aish k mutalliq ye bohat non sence baat lagtee ha, wazahat kee jae.
 

muslim

رکن
شمولیت
ستمبر 29، 2011
پیغامات
467
ری ایکشن اسکور
567
پوائنٹ
86
Abul hasan alvi sahab. Quran Allah kee kitab ha. Dunya kee koi kitab us ka muqabla nahee karsaktee. Kia kisee bhee hadees kee kitab per aap ye likh saktey hen k....... Zalikal Kitabu la reeba feeh...... dunya kee har kitab mey doubt ha elawa Allah kee kitab ke. Quran mey Millat e Ibrahim kee itteba ka hukm ha surah3 ayah 95. Ab Ibraheem pbuh kee hadees kahan se laen ge. Ibraheem pbuh k naam k saath itteba ka hukm ha. Jawab den.
 

فہد اقبال

مبتدی
شمولیت
اگست 20، 2011
پیغامات
21
ری ایکشن اسکور
130
پوائنٹ
0
جواب تو آپکو میں بھی دے سکتا ہوں جناب لیکن وقت کی کمی کے باعث علوی یا شاکر بھائی سے درخواست ہے کہ مسلم بھائی کی غلط فہمی دور کی جائے ورنہ وقت ملتے ہی جواب لکھتا ہوں ان شاءاللہ۔
السلام و علیکم
 
Top