ابو سلمہ رضی اللہ تعالی عنہا کہتے ہیں کہ میں اور عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا کے بھائی عائشہ رضی اللہ تعالی عنہاکے پاس گئے اور ان سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے غسل جنابت کے بارے میں پوچھا ۔ انھوں نے غسل کرکے دکھایا اور اپنے سر پر پانی بہایا ہمارے اور ان کے درمیان ایک پردہ حائل تھا ۔(کتاب الغسل بخاری صفحہ:185)
ڈاکٹر شبیررقمطراز ہیں ،
مظاہرہ کرنا قطعی ضروری نہ تھا زبانی بتادیا ہوتا یا ابو سلمہ اپنی بیوی کو بھیج کر صحیح غسل کا پتاچلا سکتا تھا بعد میں خود ان سے سیکھتا۔ (اسلام کے مجرم صفحہ: 45.46)
ازالہ:۔
ڈاکٹر شبیرکو یہاں پر فاش غلط فہمی ہوئی ہے ۔ غسل کے معنی صرف نہانے کے نہیں بلکہ غسل کے معنی ’’پانی‘‘ کے بھی ہیں اور ان معنوں میں یہ لفظ احادیث میں بھی استعمال ہوا ہے ۔ سیدہ میمونہ رضی اللہ عنہافرماتی ہیں کہ وضعت لرسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم غسلاً (صحیح بخاری کتاب الغسل باب من افرغ بیمینہ علٰی شمالہ رقم الحدیث266)
’’میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے غسل کا پانی رکھا ۔‘‘
خود امام بخاری رحمہ اللہ نے اس حدیث پر باب باندھا ہے کہ
’’ باب الغسل (بالصاع) ونحوہ‘‘
’’غسل ایک صاع پانی سے کرنا چاہئیے ۔‘‘
اب فسألھا عن غسل النبی صلی اللہ علیہ وسلم کا مطلب یہ ہوا کہ انھوں نے نہانے کے پانی کے متعلق سوال کیا؟ اس سوال کے جواب میں ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا نے جوجواب دیا خود ان ہی الفاظ کے آگے مذکور ہے کہ ’’فدعت باناء ‘‘(صحیح بخاری کتاب الغسل باب الغسل بالصاع ونحوہ رقم الحدیث 251)انھوں نے ایک برتن پانی منگوایا اور اس برتن کے ذریعے سے یہ سمجھادیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اتنے پانی سے نہایا کرتے تھے ، حدیث میں غسل کی کیفیت کا بیان نہیں بلکہ غسل کے پانی کا بیان ہے غسل کی کیفیت تو ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہانے زبانی بتلادی تھی ۔
ابو سلمہ رضی اللہ عنہا فرماتے ہیں :
’’قالت عائشہ کان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اء ذا غسل بدأ بیمینہ فصب علیھا من الماء فغسلھا ثم صب الماء علی الأذی الذی بہ بیمینہ وغسل عنہ بشمالہ حتی اء ذا فرغ من ذلک صب علی رأسہ‘‘ (2صحیح مسلم کتاب الحیض باب القدر المستحب من الماء فی غسل الجنابۃ رقم الحدیث 321)
’’ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب غسل فرماتے تو دائیں ہاتھ سے شروع کرتے اور اس پر پانی بہاکر اسے دھوتے پھر شرم گاہ کے اطراف کی گندگی پر دائیں ہاتھ سے پانی ڈال کر بائیں ہاتھ سے دھو ڈالتے پھر فارغ ہوکر اپنے سر پر پانی بہالیتے ۔‘‘
غرض یہ کہ غسل کی کیفیت بتانے کے لئے عائشہ رضی اللہ عنہانے غسل تو نہیں کیا بلکہ جب انھوں نے پانی کی مقدار کا ذکر کیا تو ابو سلمہ رضی اللہ عنہ وغیرہ نے تعجب کا اظہار کیا کہ اتنے کم پانی سے کیسے نہایا جاسکتا ہے تو سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ یہ ممکن ہے اور اب میں نہانے جارہی ہوں اور اتنے ہی پانی سے نہاؤں گی پس انھوں نے پردہ ڈالا اور غسل فرمایا اور ثابت کردیاکہ اتنے کم پانی سے غسل ممکن ہے ۔
اور رہی بات ڈاکٹر شبیر کے تبصرے کی کہ ،
’’مظاہرہ کرنا قطعی ضروری نہ تھا زبانی بتادیا ہوتا یا ابو سلمہ اپنی بیوی کو بھیج کر صحیح غسل کا پتا چلا سکتا تھا بعد میں ان
سے خود سیکھ لیتااسکا جواب یہ ہے کہ،
(1) ابو سلمہ رضی اللہ عنہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے رضاعی بھانجے تھے اور دوسرے شخص سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے سگے بھائی اور دونوں محرم تھے۔
(2)سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے غسل کے پانی کی مقدار پوچھنے آئے تھے ڈاکٹر شبیرفرماتے ہیں کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے غسل کا مظاہرہ کیا تھا یہ بات سراسر امہات المؤمنین کے خلاف ذہن میں بھری ہوئی گندگی کا اظہار ہے ۔
(3) مسئلہ تو درپیش آیا ابو سلمہ رضی اللہ عنہ کواور بھیج اپنی بیوی کو دیں اب اس کو اس مثال سے سمجھیں ۔ ڈاکٹر شبیر اگر کوئی شخص میڈیکل کی فیلڈ میں ہے اور اسے کچھ عورتوں کے مخصوص اعضاء کے بارے میں پڑھایا جائے تو کیا وہ یہ کہے گا کہ مجھے نہ پڑھاؤ بلکہ میں اپنی بیوی کو بھیجتا ہوں تاکہ وہ ان مسائل کو پڑھنے کے بعد مجھے آگاہ کردے۔ ایسا نہیں ہوتا بلکہ ہر چیز کا اپنا ایک وقت ہوتا ہے جہاں تک شرم وحیا کا تعلق ہے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور ازواج مطہرات رضی اللہ عنھن شرم وحیا کے پیکر تھے لیکن جہاں مسائل کا معاملہ آتا ہے وہاں وضاحت کرنا ضروری ہے تاکہ ہر مسئلہ پر رہنمائی ہوجائے اور یہی مطلب ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوۃ حسنۃ کا کہ ہر باریک سے باریک مسئلہ پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں رہنمائی فرمائی ۔ لہٰذا اس میں کوئی اعتراض نہیں ۔ڈاکٹر شبیر اگر میڈیکل ڈاکٹر ہیں تو یقینا انھوں نے Embryologyکے مسائل ضرور پڑھے ہونگے اور انکو پڑھانے والے اساتذہ یقینا لیڈی ڈاکٹر زبھی ہونگی تو ڈاکٹرشبیر کو جنسیات کے متعلق سوال کرتے ہوئے یقینا شرم بھی محسوس ہوتی ہوگی تو ان مسائل کے لئے ڈاکٹر شبیر نے اپنی بیوی کو کیوں نہ بھیجا ۔ تاکہ وہ Embryologyکے مسائل ’’صحیح طریقے‘‘ سے سیکھ کر ڈاکٹر شبیر کو آکر با خبر کرتی۔
بشکریہ: دفاع حدیث ڈات کام
ڈاکٹر شبیررقمطراز ہیں ،
مظاہرہ کرنا قطعی ضروری نہ تھا زبانی بتادیا ہوتا یا ابو سلمہ اپنی بیوی کو بھیج کر صحیح غسل کا پتاچلا سکتا تھا بعد میں خود ان سے سیکھتا۔ (اسلام کے مجرم صفحہ: 45.46)
ازالہ:۔
ڈاکٹر شبیرکو یہاں پر فاش غلط فہمی ہوئی ہے ۔ غسل کے معنی صرف نہانے کے نہیں بلکہ غسل کے معنی ’’پانی‘‘ کے بھی ہیں اور ان معنوں میں یہ لفظ احادیث میں بھی استعمال ہوا ہے ۔ سیدہ میمونہ رضی اللہ عنہافرماتی ہیں کہ وضعت لرسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم غسلاً (صحیح بخاری کتاب الغسل باب من افرغ بیمینہ علٰی شمالہ رقم الحدیث266)
’’میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے غسل کا پانی رکھا ۔‘‘
خود امام بخاری رحمہ اللہ نے اس حدیث پر باب باندھا ہے کہ
’’ باب الغسل (بالصاع) ونحوہ‘‘
’’غسل ایک صاع پانی سے کرنا چاہئیے ۔‘‘
اب فسألھا عن غسل النبی صلی اللہ علیہ وسلم کا مطلب یہ ہوا کہ انھوں نے نہانے کے پانی کے متعلق سوال کیا؟ اس سوال کے جواب میں ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا نے جوجواب دیا خود ان ہی الفاظ کے آگے مذکور ہے کہ ’’فدعت باناء ‘‘(صحیح بخاری کتاب الغسل باب الغسل بالصاع ونحوہ رقم الحدیث 251)انھوں نے ایک برتن پانی منگوایا اور اس برتن کے ذریعے سے یہ سمجھادیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اتنے پانی سے نہایا کرتے تھے ، حدیث میں غسل کی کیفیت کا بیان نہیں بلکہ غسل کے پانی کا بیان ہے غسل کی کیفیت تو ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہانے زبانی بتلادی تھی ۔
ابو سلمہ رضی اللہ عنہا فرماتے ہیں :
’’قالت عائشہ کان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اء ذا غسل بدأ بیمینہ فصب علیھا من الماء فغسلھا ثم صب الماء علی الأذی الذی بہ بیمینہ وغسل عنہ بشمالہ حتی اء ذا فرغ من ذلک صب علی رأسہ‘‘ (2صحیح مسلم کتاب الحیض باب القدر المستحب من الماء فی غسل الجنابۃ رقم الحدیث 321)
’’ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب غسل فرماتے تو دائیں ہاتھ سے شروع کرتے اور اس پر پانی بہاکر اسے دھوتے پھر شرم گاہ کے اطراف کی گندگی پر دائیں ہاتھ سے پانی ڈال کر بائیں ہاتھ سے دھو ڈالتے پھر فارغ ہوکر اپنے سر پر پانی بہالیتے ۔‘‘
غرض یہ کہ غسل کی کیفیت بتانے کے لئے عائشہ رضی اللہ عنہانے غسل تو نہیں کیا بلکہ جب انھوں نے پانی کی مقدار کا ذکر کیا تو ابو سلمہ رضی اللہ عنہ وغیرہ نے تعجب کا اظہار کیا کہ اتنے کم پانی سے کیسے نہایا جاسکتا ہے تو سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ یہ ممکن ہے اور اب میں نہانے جارہی ہوں اور اتنے ہی پانی سے نہاؤں گی پس انھوں نے پردہ ڈالا اور غسل فرمایا اور ثابت کردیاکہ اتنے کم پانی سے غسل ممکن ہے ۔
اور رہی بات ڈاکٹر شبیر کے تبصرے کی کہ ،
’’مظاہرہ کرنا قطعی ضروری نہ تھا زبانی بتادیا ہوتا یا ابو سلمہ اپنی بیوی کو بھیج کر صحیح غسل کا پتا چلا سکتا تھا بعد میں ان
سے خود سیکھ لیتااسکا جواب یہ ہے کہ،
(1) ابو سلمہ رضی اللہ عنہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے رضاعی بھانجے تھے اور دوسرے شخص سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے سگے بھائی اور دونوں محرم تھے۔
(2)سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے غسل کے پانی کی مقدار پوچھنے آئے تھے ڈاکٹر شبیرفرماتے ہیں کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے غسل کا مظاہرہ کیا تھا یہ بات سراسر امہات المؤمنین کے خلاف ذہن میں بھری ہوئی گندگی کا اظہار ہے ۔
(3) مسئلہ تو درپیش آیا ابو سلمہ رضی اللہ عنہ کواور بھیج اپنی بیوی کو دیں اب اس کو اس مثال سے سمجھیں ۔ ڈاکٹر شبیر اگر کوئی شخص میڈیکل کی فیلڈ میں ہے اور اسے کچھ عورتوں کے مخصوص اعضاء کے بارے میں پڑھایا جائے تو کیا وہ یہ کہے گا کہ مجھے نہ پڑھاؤ بلکہ میں اپنی بیوی کو بھیجتا ہوں تاکہ وہ ان مسائل کو پڑھنے کے بعد مجھے آگاہ کردے۔ ایسا نہیں ہوتا بلکہ ہر چیز کا اپنا ایک وقت ہوتا ہے جہاں تک شرم وحیا کا تعلق ہے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور ازواج مطہرات رضی اللہ عنھن شرم وحیا کے پیکر تھے لیکن جہاں مسائل کا معاملہ آتا ہے وہاں وضاحت کرنا ضروری ہے تاکہ ہر مسئلہ پر رہنمائی ہوجائے اور یہی مطلب ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوۃ حسنۃ کا کہ ہر باریک سے باریک مسئلہ پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں رہنمائی فرمائی ۔ لہٰذا اس میں کوئی اعتراض نہیں ۔ڈاکٹر شبیر اگر میڈیکل ڈاکٹر ہیں تو یقینا انھوں نے Embryologyکے مسائل ضرور پڑھے ہونگے اور انکو پڑھانے والے اساتذہ یقینا لیڈی ڈاکٹر زبھی ہونگی تو ڈاکٹرشبیر کو جنسیات کے متعلق سوال کرتے ہوئے یقینا شرم بھی محسوس ہوتی ہوگی تو ان مسائل کے لئے ڈاکٹر شبیر نے اپنی بیوی کو کیوں نہ بھیجا ۔ تاکہ وہ Embryologyکے مسائل ’’صحیح طریقے‘‘ سے سیکھ کر ڈاکٹر شبیر کو آکر با خبر کرتی۔
بشکریہ: دفاع حدیث ڈات کام