Abul Hasan Alvee sahab. Aap ney tu meree baat kee tasdeeq kardee. Bhai ye sawalat as per Quran Nabee pbuh se keey gaey hen un kee azwaaj se nahee?? Orr inn sawalat ka jawab Allah ne Nabee pbuh se kehlwaya ha, Hazrat Aisha se nahee. Nabee pbuh kee azwaaj per jhoot iftra kerna chor den Ager aap mey jurrat ha tu sach batain kia aap bhee utney hee pani se ghusl e janabat kertey??? jitna aap Hazrat Aisha se mansoob ker rahey han.Aap ko andaza nahee ha k aap kitnee behooda baat kee tasdeeq mey lagey hooey han. Day of Judgement kia ye Hadeeth aap Allah ko suna saktey hen. Furthermore Allah ney apnee orr Rasool pbuh kee ataat ka hukm deea ha, Hazrat Aisha kee ataat ka hukm nahee deea. Wesey bhee ye Hazrat Aisha per sukht jhoot iftra ha
انکار حدیث کی برکات ہیں کہ حدیث تو درکنار ایک عام فہم بات سمجھنا بھی مشکل ہو گئی ہے۔ بہرحال اپنا سوال ان الفاظ میں دہراتا ہوں:
ایک عیسائی کو منکر حدیث پر یہ اعتراض ہے کہ کیا وہ اپنی والدہ یا بیٹی کو یہ آیات پڑھا سکتے ہیں یا نہیں؟
وَيَسْأَلُونَكَ عَنِ الْمَحِيضِ ۖ قُلْ هُوَ أَذًى فَاعْتَزِلُوا النِّسَاءَ فِي الْمَحِيضِ ۖ وَلَا تَقْرَبُوهُنَّ حَتَّىٰ يَطْهُرْنَ ۖ فَإِذَا تَطَهَّرْنَ فَأْتُوهُنَّ مِنْ حَيْثُ أَمَرَكُمُ اللَّـهُ ۚ إِنَّ اللَّـهَ يُحِبُّ التَّوَّابِينَ وَيُحِبُّ الْمُتَطَهِّرِينَ ﴿٢٢٢﴾ نِسَاؤُكُمْ حَرْثٌ لَّكُمْ فَأْتُوا حَرْثَكُمْ أَنَّىٰ شِئْتُمْ ۖ وَقَدِّمُوا لِأَنفُسِكُمْ ۚ وَاتَّقُوا اللَّـهَ وَاعْلَمُوا أَنَّكُم مُّلَاقُوهُ ۗ وَبَشِّرِ الْمُؤْمِنِينَ ﴿٢٢٣
آپ سے حیض کے بارے میں سوال کرتے ہیں، کہہ دیجیئے کہ وه گندگی ہے، حالت حیض میں عورتوں سے الگ رہو اور جب تک وه پاک نہ ہوجائیں ان کے قریب نہ جاؤ، ہاں جب وه پاک ہوجائیں تو ان کے پاس جاؤ جہاں سے اللہ نے تمہیں اجازت دی ہے، اللہ توبہ کرنے والوں کو اور پاک رہنے والوں کو پسند فرماتا ہے۔ تمہاری بیویاں تمہاری کھیتیاں ہیں، اپنی کھیتیوں میں جس طرح چاہو آؤ اور اپنے لئے (نیک اعمال) آگے بھیجو اور اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہا کرو اور جان رکھو کہ تم اس سے ملنے والے ہو اور ایمان والوں کو خوش خبری سنا دیجیئے۔
اگر ہاں تو جس شرم کے پیمانے اور معیار کی وجہ سے حدیث کا انکار کیا ہے، اس پیمانے و معیار کی بدولت قرآن کا انکار کیوں نہیں کرتے؟
اگر نہیں تو پھر تو بڑا اعتراض لازم آئے گا کہ یہ کیسا کلام الہی ہے کہ اپنی ماں بیٹی کے سامنے اس کا تذکرہ بھی مناسب نہیں ہے؟
اصل بات یہ ہے کہ منکرین حدیث کے یہ سارے منگھڑت معیارات شرم وحیا ہیں جنہیں وہ حدیث پر تو اپلائی کرتے ہیں لیکن قرآن پر نہیں کیونکہ پہلے سے خواہش نفس کے سبب سے یہ طے کیا ہوا ہے کہ قرآن کو ماننا ہے اور حدیث کا انکار کرنا ہے۔
زمان و مکان کے اعتبار سے تہذیب و تمدن اور کلچر تبدیل ہوتے رہتے ہیں مثلا دیہات کا کلچر اور ہے اور شہروں کا اور ہے۔ ہمارے ہاں دیہات میں کوئی غسل خانے یا بیت الخلاء نہیں ہوتے ہیں۔ عورتیں کھیتوں میں جایا کرتی تھیں اور نہانے کے لیے کنویں یا ٹیوب ویل پر جا کر کپڑا لگا کر نہا لیتی تھیں۔ اب اگر کسی شہری خاتون کو یہ بتلایا جائے تو یہ اس کے شرم وحیا کے منافی ہے۔
اس پر غور کریں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں بیت الخلا یا غسل خانے کیسے ہوتے تھے؟ یہ سب اس دور کا تمدن اور کلچر تھا۔ وہ دور سادگی کا دور تھا اور وہاں عورتوں کا کھیتوں میں بیت الخلا کے لیے جانا اور کنوؤں پر عارضی کپڑے تان کر یا کچی دیواروں کی اوٹ میں غسل کرنا ہی رواج وغیرہ کا حصہ تھا۔ آج کل کے واش روم یا باتھ روم کا تصور تو چالیس، پچاس سال سے زیادہ پرانا نہیں ہے۔