دوتہائی مسائل میں اختلاف کوثابت کریں۔تو اس نچوڑ سے ابویوسف اور محمد رح نے کیوں نعمان بن ثابت رح سے دو تہائی مسائل میں اختلاف کیا ۔
دوتہائی مسائل میں اختلاف کوثابت کریں۔تو اس نچوڑ سے ابویوسف اور محمد رح نے کیوں نعمان بن ثابت رح سے دو تہائی مسائل میں اختلاف کیا ۔
بہت خوب۔دوتہائی مسائل میں اختلاف کوثابت کریں۔
لذلك استكنف ابو يوسف ومحمد من اتباعه في ثلثي مذهبه لما رأوا فيه من كثرة الخبط والتخليط والتورط في المناقضاتدوتہائی مسائل میں اختلاف کوثابت کریں۔
المنخول امام غزالی کی ابتدائے شباب کی تصنیف ہے جس کی بہت سی باتوں سے انہوں نے بعد میں رجوع کرلیاتھا جیساکہ انہوں نے اس کتاب میں امام ابوحنیفہ پر سخت تنقید کی ہے حتی کہ مجتہد تک ماننے سے انکاری ہیں لیکن بعد میں ان کانقطہ نظر بدل گیا۔یہ بات سب سے پہلے امام الحرمین نے کہی،امام الحرمین سے امام غزالی نے لی اوراس کے بعد جس نے بھی یہ بات کہی ہے کہ صاحبین نے دوتہائی مسائل میں امام ابوحنیفہ سے اختلاف کیاہے اس نے امام غزالی کی اسی بات پراندھااعتماد کیاہے۔لذلك استكنف ابو يوسف ومحمد من اتباعه في ثلثي مذهبه لما رأوا فيه من كثرة الخبط والتخليط والتورط في المناقضات
(المنخول من تعلیقات علم الأصول ص 608 )
ابن ابی العز کا معاملہ ذرادلچسپ ہے۔ حنفی ان کے نام کاٹائٹل ضرور ہے لیکن کسی بھی حنفی فقیہہ نے ان کی کتابوں کی جانب توجہ نہیں دیا۔ طبقات احناف پر لکھی گئی کسی کتاب میں ان کا کوئی تعارف نہیں ملتا۔ اس سے واضح ہے کہ اس دور کے احناف سے لے کر تاحال علماء احناف نے ان کو خود سے الگ سمجھاہے۔ اس کے علاوہ خود کی زندگی میں ان پر داروگیر ہوئی ہے۔ جس کے حالات کتابوں میں مذکور ہیں۔ اتنے اہم مسئلہ میں ان کی بات قابل اعتماد نہیں ہوسکتی۔علاوہ ازیں لاتکاد تحصی مبالغہ کاجملہ ہے جس کو دوسو مسائل میں اختلاف پر بھی بولاجاسکتاہے، دوہزار پر بھی اوردولاکھ پر بھی۔وكم قد خالف أبا حنيفة أبو يوسف ومحمد وزفر وغيرهم من أصحابه في مسائل لا تكاد تحصى
(الاتباع لابن أبی العز ص 40 )
جمشید بھائی!کمال یہ ہے کہ جولوگ رات دن تحقیق کا دعوی کرتے ہیں بھی وہ بقول خود ’’اندھے مقلدوں‘‘کی طرح اس قول کی جگالی کرتے رہے۔ کبھی اس کی توفیق نہیں ہوئی کہ اس قول کو تحقیق کے ترازو میں تول کردیکھیں کہ واقعیت کیاہے،حقیقت کیاہے اورصداقت کیاہے ۔
1۔المنخول امام غزالی کی ابتدائے شباب کی تصنیف ہے جس کی بہت سی باتوں سے انہوں نے بعد میں رجوع کرلیاتھا جیساکہ انہوں نے اس کتاب میں امام ابوحنیفہ پر سخت تنقید کی ہے حتی کہ مجتہد تک ماننے سے انکاری ہیں لیکن بعد میں ان کانقطہ نظر بدل گیا۔یہ بات سب سے پہلے امام الحرمین نے کہی،امام الحرمین سے امام غزالی نے لی اوراس کے بعد جس نے بھی یہ بات کہی ہے کہ صاحبین نے دوتہائی مسائل میں امام ابوحنیفہ سے اختلاف کیاہے اس نے امام غزالی کی اسی بات پراندھااعتماد کیاہے۔ (1)
ابن ابی العز کا معاملہ ذرادلچسپ ہے۔ حنفی ان کے نام کاٹائٹل ضرور ہے لیکن کسی بھی حنفی فقیہہ نے ان کی کتابوں کی جانب توجہ نہیں دیا۔ طبقات احناف پر لکھی گئی کسی کتاب میں ان کا کوئی تعارف نہیں ملتا۔ اس سے واضح ہے کہ اس دور کے احناف سے لے کر تاحال علماء احناف نے ان کو خود سے الگ سمجھاہے۔ اس کے علاوہ خود کی زندگی میں ان پر داروگیر ہوئی ہے۔ جس کے حالات کتابوں میں مذکور ہیں۔ اتنے اہم مسئلہ میں ان کی بات قابل اعتماد نہیں ہوسکتی۔علاوہ ازیں لاتکاد تحصی مبالغہ کاجملہ ہے جس کو دوسو مسائل میں اختلاف پر بھی بولاجاسکتاہے، دوہزار پر بھی اوردولاکھ پر بھی۔(2)
ان چیزوں سے قطع نظر لاتکادتحصی اوردوتہائی مسائل میں واضح فرق ہے۔
دوتہائی مسائل ایک واضح اورمعین عدد ہے جب کہ شمار سے باہر کالفظ غیرمعین ہے لہذا ابن ابی العز حنفی کی اس عبارت کو دوتہائی مسائل میں اختلاف کی دلیل میں نہیں پیش کیاجاسکتا۔
آخری بات رہ جاتی ہے کہ ارشاد النقاد کے مصنف کون ہیں۔ ارشاد النقاد کے مصنف نے اپنی کوئی بات نہیں کہی ہے بلکہ امام الحرمین کی بات کاہی حوالہ دیاہے سوال یہ ہے کہ فقہ حنفی کے تعلق سےکسی حنفی فقیہہ کی بات کا اعتبار ہوگا یاپھر کسی اورکا۔
اگرآپ کی نظروسیع ہوتی تودرمختار میں ابن عابدین شامی نے بھی غزالی کے حوالہ سے دوتہائی مسائل میں اختلاف کی بات نقل کی ہے۔لیکن وہ اپنی بات نہیں کہہ رہے ہیں صرف امام غزالی کا حوالہ دے رہے ہیں اور واضح رہے کہ کسی نے بھی اس موضوع پر تحقیق نہیں کیاہے جس نے بھی کہاہے ظن وتخمین سے کام لیاہے علاوہ ازیں امام الحرمین کا بھی نظریہ احناف کے تعلق سے صاف نہیں تھا لہذا امام الحرمین کے اس اقتباس میں واضح طورپر بھی مبالغہ ہے اوربعد کے لوگوں نے ان کی علمی بلندی کو مدنظررکھتے ہوئے بغیر تحقیق اسی بات کی جگالی کی ہے۔
سمجھنے کی بات یہ ہے کہ کیادوتہائی مسائل میں اختلاف کے بعد بھی صاحبین کو احناف میں شمار کیاجاسکتاہے۔ فقہ حنفی کے دائرے میں رکھاجاسکتاہے۔ قطعانہیں۔
امام شافعی اورامام احمد بن حنبل کےاختلافات کتنے ہیں۔ ایک تہائی سے بھی کم ہوں گے لیکن ان کو مستقل مذہب کابانی سمجھاگیا۔ امام ابوحنیفہ اورسفیان ثوری کے اختلافات کتنے ہیں بہت کم ہیں لیکن دونوں کو دومستقل دبستان فقہ کا بانی سمجھاگیا۔ امام شافعی اورامام مالک کے اختلاف دوتہائی سے کم ہیں لیکن اس کے باوجود دونوں الگ منہج فقہ پرعمل پیراہیں۔ امام شافعی اورابن جریر طبری کے اختلافات کتنے ہیں لیکن ان کو الگ مستقل فقہ کابانی سمجھاگیا۔ حقیقت یہ ہے کہ دوتہائی مسائل میں اختلاف صرف ایک مبالغہ کا بیان تھا لیکن جس کو بعد کےلوگوں نے بلاتحقیق حقیقت سمجھ لیا۔ (3)
کمال یہ ہے کہ جولوگ رات دن تحقیق کا دعوی کرتے ہیں بھی وہ بقول خود ’’اندھے مقلدوں‘‘کی طرح اس قول کی جگالی کرتے رہے۔ کبھی اس کی توفیق نہیں ہوئی کہ اس قول کو تحقیق کے ترازو میں تول کردیکھیں کہ واقعیت کیاہے،حقیقت کیاہے اورصداقت کیاہے (4)۔
اس سے قبل جن جن غیرمقلدوں نے دوتہائی کادعوی کیاہے ان کو اپنی غلطی پر شرمسار اوراعتراف غلطی کا موقع تودیجئے تاکہ پتہ چل سکے کہ ان کے اندر اپنی غلطی کے اعتراف کا حوصلہ ہے یانہیں ۔وہ پہلے یہ اعتراف توکریں کہ ہم نے تقلید کیاتھااس قول کی تحقیق نہیں کی تھی۔ اوریہ بھی طرفہ تماشاہے کہ دوتہائی کا دعوی ٰ آپ کی جماعت کافرد کرے اورسوال اسی سے پوچھاجائے جوان کی اس بات پر شک کرے اورتحقیق کی دعوت دے۔ذرا بتائیں کہ صاحبین کا اختلاف امام ابو حنیفہ سے کس قدر ہے ؟
مجھے نہیں پتہ کہ یہ کتاب کن کن مدارس میں داخل ہے۔ ہندوستان میں کسی بھی حنفی مسلک کے بڑے مدرسہ میں یہ کتاب شامل درس نہیں ہے۔ نہ دیوبند میں،نہ مظاہر میں اورنہ ہی ندوہ میں۔ ابن ابی العز الحنفی کاحوالہ آپ نے دیاہے مزید تحقیق آپ کوہی کرناچاہئے عقیدہ طحاویہ معتبر کتاب ہے لیکن اس کی شرح جو ابن ابی العز نے لکھی ہے اس پر احناف نے توجہ نہیں دی ہے۔ یہ تودورحاضر میں کچھ غیرمقلدین نے اس کی اشاعت اورتشہیر کا بیڑااٹھایاہے۔ سب سے بڑی بات یہ ہے کہ ابن ابی العز الحنفی کے بعد طبقات احناف پر تین چار کتابیں لکھی گئی کسی میں بھی ابن ابی العز الحنفی کا ذکر نہیں ہے۔ویسے ابن ابی العزالحنفی اپنی حیات میں ہی متنازع رہے ہیں۔ ان کی کسی بات کو احناف کے خلاف بطور دلیل پیش نہیں کیاجاسکتاکیونکہ ماقبل اورمابعد میں ان کی کسی تحریر پر احناف نے اعتماد نہیں کیاہے۔لگے ہاتھوں یہ بھی وضاحت کردیں کہ ابن ابی العز الحنفی کی کون کون سے کتاب یا کون کون سی بات معتبر ہے ؟ کیا شرح العقیدۃ الطحاویۃ لابن أبی العز معتبر ہے کہ نہیں ؟ یا پھر عقیدے کا مسئلہ آپ کے نزدیک ( صاحبین اور امام صاحب کے اختلاف کے ) مسئلہ سے اخف ہے اسی لیے احناف کی اکثریت اس کتاب کو داخل نصاب کیے ہوئے ہے ؟
میرے نزدیک تو وہ تیمی تھے یعنی ابن تیمیہ کے مقلد،(ابتسامہ) جوابن ابی العز کی کتابوں کے مطالعہ سے بآسانی معلوم ہوسکتاہے۔آپ کے نزدیک ابن ابی العز حنفی تھے یا کچھ اور مثلا شافعی ، حنبلی وغیرہ ؟
حنفی اکابرین نے اگریہ کیاتوان کی بات سمجھی جاسکتی ہے کہ وہ تقلید کے قائل تھے اس کو شرک اوربدعت نہیں سمجھتے تھےان سب باتوں کا سہرا اپنے حنفی اکابرین کے سر باندھیں اور دل کھول ان کی خدمات کو '' خراج '' پیش کریں ۔
توکیاہم مان لیں کہ آپ حضرات کی باتوں کے ساتھ جب تک بریکٹ میں تحقیق نہ لکھاہوگایہ سمجھاجائے کہ آپ تقلیدااس قول کو قبول کیاہے۔ ویسے تواس سے آپ کی اورآپ کی جماعت کی ساری تحقیق ہی مشتبہ ہوجاتی ہے پتہ نہیں کون سی بات تحقیق کے ساتھ بیان کی ہے اورکون سی بات تقلیدابیان کی ہے۔ اب فورم پر آپ کی ساری تحریر ہی مشتبہ نہیں ہوجائے گی۔ہمیں اس قول کی تحقیق کی ضرورت بالکل نہیں ہے ۔ آپ کے حنفیوں نے اس قول کو برضا و رغبت بلانقد اپنی کتابوں میں جگہ دی ہے ۔ بقول آپ کے ابن عابدین نے اس کو نقل کیا ہے ( البتہ مجھے نہیں مل سکا آپ نے خود دیکھا ہے ؟ ) عبد الحیی لکھنوی نے النافع الکبیر میں اس کو اپنی تحقیقات کے دوران بلانقد نقل کیا ہے ۔ حنفی اکابرین کی معتمد علیہ بات ہم نے آپ کے سامنے پیش کی ہے ۔ اس میں طعنے اپنے بڑوں کو دیں جن کے پاس خود سے مذہب کے بارے میں کوئی تحقیق نہیں تو دوسروں کے سامنے کشکول لیے پھرتے ہیں ۔
خضرحیات صاحب!
ترتیب وار جواب قبول کریں۔
1:لیکن وہ لوگ جوتحقیق کی رٹ لگائے رہتے ہیں اوردوسروں کو ’’مقلداوراندھے مقلد‘‘کا طعنہ دیتاہے ۔وہ کیوں خود اندھے مقلد بن جاتے ہیں امام غزالی اورامام الحرمین کے۔ کیوں ان کو توفیق نہیں ہوئی کہ وہ اس قول کوتحقیق کے ترازو پر تولیں۔ اس بنیادی سوال سے آپ نے بالکلیہ صرف نظرکرلیاہے۔ ہم نے تحقیق نہیں کی چونکہ ہم بقول خود مقلد ہیں۔ لہذا اگر ہم نے تحقیق نہیں کی تویہ اتنی بڑی بات نہیں ہے لیکن جن لوگوں کارات دن کاروناہی ’’تحقیق‘‘ہے۔ وہ کیوں ایسے مسائل میں مقلد ہوگئے ہیں۔اورمقلد بھی امام غزالی اورامام الحرمین کے جو علم کلام کے ماہرین میں شمار ہوتے ہین اورجن کو آپ کی جماعت اہل السنہ والجماعت میں ہی شامل کرنے پر تیار نہیں ہے۔
اس سے قبل جن جن غیرمقلدوں نے دوتہائی کادعوی کیاہے ان کو اپنی غلطی پر شرمسار اوراعتراف غلطی کا موقع تودیجئے تاکہ پتہ چل سکے کہ ان کے اندر اپنی غلطی کے اعتراف کا حوصلہ ہے یانہیں ۔وہ پہلے یہ اعتراف توکریں کہ ہم نے تقلید کیاتھااس قول کی تحقیق نہیں کی تھی۔ اوریہ بھی طرفہ تماشاہے کہ دوتہائی کا دعوی ٰ آپ کی جماعت کافرد کرے اورسوال اسی سے پوچھاجائے جوان کی اس بات پر شک کرے اورتحقیق کی دعوت دے۔
مجھے نہیں پتہ کہ یہ کتاب کن کن مدارس میں داخل ہے۔ ہندوستان میں کسی بھی حنفی مسلک کے بڑے مدرسہ میں یہ کتاب شامل درس نہیں ہے۔ نہ دیوبند میں،نہ مظاہر میں اورنہ ہی ندوہ میں۔ ابن ابی العز الحنفی کاحوالہ آپ نے دیاہے مزید تحقیق آپ کوہی کرناچاہئے عقیدہ طحاویہ معتبر کتاب ہے لیکن اس کی شرح جو ابن ابی العز نے لکھی ہے اس پر احناف نے توجہ نہیں دی ہے۔ یہ تودورحاضر میں کچھ غیرمقلدین نے اس کی اشاعت اورتشہیر کا بیڑااٹھایاہے۔ سب سے بڑی بات یہ ہے کہ ابن ابی العز الحنفی کے بعد طبقات احناف پر تین چار کتابیں لکھی گئی کسی میں بھی ابن ابی العز الحنفی کا ذکر نہیں ہے۔ویسے ابن ابی العزالحنفی اپنی حیات میں ہی متنازع رہے ہیں۔ ان کی کسی بات کو احناف کے خلاف بطور دلیل پیش نہیں کیاجاسکتاکیونکہ ماقبل اورمابعد میں ان کی کسی تحریر پر احناف نے اعتماد نہیں کیاہے۔
میرے نزدیک تو وہ تیمی تھے یعنی ابن تیمیہ کے مقلد،(ابتسامہ) جوابن ابی العز کی کتابوں کے مطالعہ سے بآسانی معلوم ہوسکتاہے۔
حنفی اکابرین نے اگریہ کیاتوان کی بات سمجھی جاسکتی ہے کہ وہ تقلید کے قائل تھے اس کو شرک اوربدعت نہیں سمجھتے تھے
لیکن آپ کی جماعت کے افراد جس دوہرے معیار میں مبتلاہیں کہ ایک جانب تقلید کو کفروشرک اوربدعت قراردیتے ہیں اوردوسری سانس میں اسی شرک وبدعت کا دھڑلے سے ارتکاب کرتے ہیں اس کی مجھے بڑی فکر ہے۔ آپ کو بھی ہوناچاہئے۔ کوشش کریں کہ آپ کی جماعت کے ایسے افراد دورنگی چھوڑ کر یک رنگی اختیار کرلے ویسے اقبال بھی نصیحت کرچکے ہیں۔
دورنگی چھوڑدے یک رنگ ہوجا
سراپاسنگ ہویاموم ہوجا
توکیاہم مان لیں کہ آپ حضرات کی باتوں کے ساتھ جب تک بریکٹ میں تحقیق نہ لکھاہوگایہ سمجھاجائے کہ آپ تقلیدااس قول کو قبول کیاہے۔ ویسے تواس سے آپ کی اورآپ کی جماعت کی ساری تحقیق ہی مشتبہ ہوجاتی ہے پتہ نہیں کون سی بات تحقیق کے ساتھ بیان کی ہے اورکون سی بات تقلیدابیان کی ہے۔ اب فورم پر آپ کی ساری تحریر ہی مشتبہ نہیں ہوجائے گی۔
اگرہمارے بڑے کشکول لئے پھرتے ہیں تو وہ تقلید کے قائل ہیں۔ اس لئے ان پر کوئی حرف نہیں آتالیکن آپ کے چھوٹے بڑے یہ کاسہ گدائی لئے کیوں پھرتے ہیں۔ اس کا جواب ہمیں چاہئے جس کی جانب آپ بالکل توجہ نہیں کررہے ہیں۔کیوں دوہرامعیار اپنایاہواہے ۔مذبذبین بین ذلک لاالی ھولائ ولاالی ھولاء
اگرہم نے دکھاناشروع کردیا کہ آپ کی جماعت کے اکابرین کے فتاوی کتنے زیادہ دوسروں کے قول سے مملو ہیں اوربغیر تحقیق کے تویہ ساری کشکول آپ پرہی الٹ جائے گی۔ ویسے بھی نواب صدیق حسن خان صاحب جیسے افراد کی ساری تحریریں ہی دوسروں کی ہوتی ہیں۔ اپناحصہ اس میں ان کابقدرزکوۃ ہی ہوتاہے۔کہئے تومثالیں پیش کردوں۔
اسے کہتےہیں خود رافضیت دیگر رانصیحت۔اتنی نصیحت کرکے جاتے تومیں مان لیاکہ چلو دومخاطبین کے درمیان دخل نہ دینے کی نصیحت کی گئی ہے لیکن اس نصیحت کے بعد جس طرح سے آپ نے میرے پورے پوسٹ کا جواب دے کر دخل اندازی فرمائی ہے توکیاوہ دخل اندازی نہ مانی جائے؟جب ایسی دخل اندازی آپ کرسکتے ہیں تومیں کیوں نہ کروں۔ اورجہاں تک مجھے یاد پڑتاہے ماضی میں کئی مرتبہ دخل نہ دینے کی بات پر یہی کہاگیاہے کہ یہ عوامی فورم ہے یہاں کوئی بھی جواب دے سکتاہے؟شاید آپ کو یاد ہو۔سوالات تو جمشید صاحب سے پوچھے گئے تھے۔ جب دو بزرگوں میں بات چل رہی ہے تو چلنے دیجئے یا آپ کو جمشید صاحب سے زیادہ علم ہے یا ان پر اعتماد نہیں۔؟
یعنی شرعی مسائل کیلئے تحقیق ضروری ہے اورغیرشرعی مسائل کیلئئے تحقیق ضروری نہیں ہے۔ اچھااصول ہے اب جواب سنئےپوری پوسٹ آپ نے بات سمجھے بغیر کر ڈالی۔ ارے بھئی، ہمیں کیا آپ کے مسلک میں کس کس عالم نے کیا کیا کہا اور کیا۔ صاحبین کا امام ابو حنیفہ سے اختلاف کیا تھا اور کتنا تھا، ہم اس کی تحقیق تو تب کرتے جب یہ کوئی شریعت کا مسئلہ ہوتا۔ یہ حوالہ بطور الزام آپ ہی پر پیش کیا گیا ہے۔ اگر درست ہے تب بھی اور غلط ہے تب بھی، حنفی ہی اس کے ذمہ دار ہیں۔ کیونکہ یہ حنفیوں کا اندرونی مسئلہ ہے اور ہمارے لئے اتنا کافی ہے کہ حنفی علماء اس کے قائل ہیں۔ ہاں حوالہ غلط ہوتا اور الزام ہوتا آپ پر، اور درحقیقت آپ اس کے قائل نہ ہوتے تو آپ ہمیں طعنہ دینے میں حق بجانب تھے۔
اب یہ بھی ثابت کردیجئے کہ ان حوالوں سے جس بھی اپنے مراسلہ کی زینت بڑھائی ہے اس کا مقصود الزامی جواب تھا؟مجھے توابھی تک سیاق وسباق سے کہیں بھی محسوس نہیں ہوا کہ الزامی طورپر پیش کیاگیاتھا ہاں میرے گرفت کرنے کے بعد اس کو الزامی جواب بنادیاجائے توپھر دوسری بات ہے۔ میں نے کہیں بھی یہ بات کہی ہی نہیں کہ میری تحقیق میں دوتہائی کی بات غلط ہے۔ہاں میں نے اس کا اشارہ ضرور دیاہے کہ یہ قول کیوں صحیح نہیں ہوسکتا۔میں نے توآپ سے صرف اس قول کی دلیل مانگی ہے جو نہ آئی ہے اورنہ قیامت تک آئی ہے۔یہ ایسے ہی ہے جیسے ہم عیسائیوں کو بطور الزام کہیں کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے حواریوں نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو خدا کے درجہ پر فائز کیا اور حوالہ ان کے کسی عالم کی کتاب کا دے دیں۔ اور کوئی آپ کی طرح اٹھ کر ہمیں لتاڑنا شروع ہو جائے کہ یہ بات عالم کی کتاب میں لکھی ضرور ہے، اور عیسائی علماء و عوام اسی عقیدہ کے قائل بھی ضرور ہیں، کہ حواریوں نے ہی ایسا کیا تھا، لیکن میری تحقیق میں یہ بات غلط ہے کہ حواریوں نے ایسا کیا تھا۔ لہٰذا تم لوگ جھوٹے ہو اور مقلد ہو اور وغیرہ وغیرہ۔۔۔
حقیقت یہ ہے کہ خضرحیات نے ایک بھی حوالہ نہیں دیاتھاحنفی علماء کا۔میں نے ہی ان کی رہنمائی اس جانب کی کہ ابن عابدین شامی نے شامی میں یہ بات کہی ہے۔اس کے بعد انہوں نے شاید شاملہ پر سرچ کیاتومولانا عبدالحی لکھنوی کابھی حوالہ مل گیاہوگا۔ لیکن ایک چیز ہے کسی بات کا نقل کرنااورایک ہے کسی چیز کو ماننا۔ مولانا عبدالحی نے صرف نقل کیاہے اس کا اعتراف نہ کہیں کیاہے اورنہ ہے کہ امام ابوحنیفہ سے صاحبین نے دوتہائی مسائل میں اختلاف کیاہے۔اور غالباً دنیائے حنفیت میں صاحبین کے دو تہائی اختلاف والی بات کا انکار کسی حنفی نے نہیں کیا۔ سوائے محترم جمشید صاحب اور اب ندوی صاحب کے۔ اگر اور حنفی علماء نے انکار کیا ہے تو حوالہ دیجئے۔ جیسے خضر حیات بھائی نے حنفی علماء کا اس قول کے قائل ہونے کے حوالہ جات دے دئے۔ ابن ابی العز بے چارے کی تو حنفی مسلک میں کوئی اہمیت نہیں، نا ہی ان کا شمار طبقات حنفیہ میں کیا گیا ہے، لیکن جمشید و ندوی برادران تو حنفی مسلک کے غالباً اکابرین میں شامل ہیں؟ اور طبقات حنفیہ میں ان کا نام غالباً سنہرے حروف میں لکھا گیا ہوگا؟ کاتب کی غلطی سے شاید رہ گیا ہو؟
آپ حضرات نے آج تک یہی نہیں سمجھاکہ تقلید کہتے کسے ہیں۔ تقلید فروعی مسائل میں مجتہد کے اقوال کو ماننے کا نام ہے۔ دوتہائی مسائل جس کو آپ بقول خود غیرشرعی مسائل کہہ چکے ہیں اس کو تقلید کیسے کہاجاسکتاہے؟دوسری بات یہ دوتہائی والی بات شروع ہی امام الحرمین نے کی ہے۔ کسی بھی قابل ذکر حنفی فقیہہ جو ان سے متقدم گزرے ہیں۔ یہ بات نہیں کہی ۔ دورآخر میں چل کر ابن عابدین ا ورمولانا عبدالحی لکھنوی نے کہی ضرور ہے۔ لیکن اس کا تعلق چونکہ فقہی مسائل سے نہیں بلکہ تاریخ فقہ سے ہے لہذا جب تک ان کی بات دلیل سے موید نہ ہو اس کی تائید نہیں ہوسکتی بالخصوص جب کہ قرائن اس کے خلاف ہوں۔1۔ جیسے آج تک حنفی علماء اس بات کو بلا تردید اور بلا انکار اپنی تحریر و تقریر میں جگہ دیتے آئے ہیں، تقلیداً۔ اور آپ کی تحقیق میں یہ بات غلط ہے۔ تو کیا دیگر شرعی مسائل میں ایسا ممکن نہیں؟ تو دیگر علمائے احناف کی مانند ہمیں تقلید کرنی چاہئے یا آپ اور جمشید صاحب کی مانند ہمیں تحقیق کرنی چاہئے؟ اگر دیگر علمائے احناف کی مانند جامد تقلید یا بقول آپ کے اندھے مقلد بن کر رہیں گے تو جیسے اس مسئلے میں آپ کے بقول علمائے احناف نے ٹھوکر کھائی ہے، ہم بھی گمراہ ہوں گے۔ اور اگر آپ اور جمشید صاحبان کے مانند تحقیق کریں گے تو غیر مقلدیت کا طعنہ سننا پڑے گا۔ ذرا اپنی قوم کو بھی یہ مسئلہ سمجھا دیجئے۔
میں نے ماقبل میں تشریح کردی ہے کہ تقلید کن مسائل میں ہوتی ہے۔ اگرکوئی تاریخی مسئلہ ہے تواس کو تاریخی اعتبار سے طے کیاجائے گا۔ فقہاء احناف کی بات نہیں مانی جائے۔ گی۔زبان وادب کا مسئلہ ہے تو وہاں پر لغت وادب کے اساطین کی بات پر فیصلہ ہوگا۔2۔ دیگر علمائے احناف کے برعکس آپ تحقیق کر کے غیر مقلد تو نہیں ہو گئے؟ اگر ہم کسی ایک مسئلے میں غلطی ہی کر جائیں اور بطور تائید ہی اسلاف میں سے کسی کی بات نقل کر دیں، تو فوراً آپ ہمیں مقلد ہونے کا طعنہ دیتے ہیں۔ تو آپ کیوں تحقیق کر کے غیر مقلد قرار نہیں پائیں گے؟
سمجھ کرنہ سمجھنے کی اچھی مثال ہے۔ اب تک جتنے فقہی مسائل آئے ہیں۔3۔ آپ دوسروں کو تحقیق نہ کرنے اور مجتہدین پر اعتماد کرنے کا مشورہ دیتے ہیں، ابھی دوسرے دھاگے میں جمشید صاحب یہی کہہ رہے ہیں کہ دلیل ہی نہیں پوچھنی چاہئے۔ تو آپ دونوں کا اپنا عمل کیوں اس کے خلاف ہے؟ آپ بھی دیگر علمائے احناف کی مانند جامد تقلید کے بجائے تحقیق کر کے غیرمقلدین کی صف میں کیوں کر کھڑا ہونا چاہتے ہیں؟
حقیقت یہ ہے کہ خضرحیات نے ایک بھی حوالہ نہیں دیاتھاحنفی علماء کا۔میں نے ہی ان کی رہنمائی اس جانب کی کہ ابن عابدین شامی نے شامی میں یہ بات کہی ہے۔
سمجھ نہیں آرہی کہ آپ کو ندوی کہوں یا جمشید کہوں یا جمشید ندوی صاحب کہوں ؟اگرآپ کی نظروسیع ہوتی تودرمختار میں ابن عابدین شامی نے بھی غزالی کے حوالہ سے دوتہائی مسائل میں اختلاف کی بات نقل کی ہے۔[/h2]