• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

انجینیئر محمد علی مرزا کے ایک پمفلٹ "واقعہ کربلا ٧٢ صحیح احادیث کی روشنی میں" کا تحقیقی جائزہ

سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔

difa-e- hadis

رکن
شمولیت
جنوری 20، 2017
پیغامات
294
ری ایکشن اسکور
28
پوائنٹ
71
حضرت علی رضی الله عنہ کو ایک ایسا دیو ملائی انسان بنا کر پیش کردیا کہ وہ معصوم عن الخطاء تھے اور ان سے غلطی کا صدور ممکن ہی نہیں

موصوف
اپنے گھر والوں کی غلطی سرے عام بتاتے ہیں
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,416
ری ایکشن اسکور
2,733
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
کچھ دیر رک جائیں! جزاک اللہ!
 

عدیل سلفی

مشہور رکن
شمولیت
اپریل 21، 2014
پیغامات
1,717
ری ایکشن اسکور
430
پوائنٹ
197
پمفلٹ کی حدیث نمبر 2 میں یہ روایت ہے
سنن ترمذی
حدیث نمبر: 2226
كتاب الفتن عن رسول الله صلى الله عليه وسلم
48- باب مَا جَاءَ فِي الْخِلاَفَةِ
حدثنا احمد بن منيع، حدثنا سريج بن النعمان، حدثنا حشرج بن نباتة، عن سعيد بن جمهان، قال:‏‏‏‏ حدثني سفينة، قال:‏‏‏‏ قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:‏‏‏‏ " الخلافة في امتي ثلاثون سنة ثم ملك بعد ذلك "، ‏‏‏‏‏‏ثم قال لي سفينة:‏‏‏‏ امسك خلافة ابي بكر، ‏‏‏‏‏‏ثم قال:‏‏‏‏ وخلافة عمر، ‏‏‏‏‏‏وخلافة عثمان، ‏‏‏‏‏‏ثم قال لي:‏‏‏‏ امسك خلافة علي، ‏‏‏‏‏‏قال:‏‏‏‏ فوجدناها ثلاثين سنة، ‏‏‏‏‏‏قال سعيد:‏‏‏‏ فقلت له:‏‏‏‏ إن بني امية يزعمون ان الخلافة فيهم، ‏‏‏‏‏‏قال:‏‏‏‏ كذبوا بنو الزرقاء بل هم ملوك من شر الملوك، ‏‏‏‏‏‏قال ابو عيسى:‏‏‏‏ وفي الباب عن عمر، ‏‏‏‏‏‏وعلي، ‏‏‏‏‏‏قالا:‏‏‏‏ لم يعهد النبي صلى الله عليه وسلم في الخلافة شيئا، ‏‏‏‏‏‏وهذا حديث حسن، ‏‏‏‏‏‏قد رواه غير واحد، ‏‏‏‏‏‏عن سعيد بن جمهان، ‏‏‏‏‏‏ولا نعرفه إلا من حديث سعيد بن جمهان.
سعید بن جمہان کہتے ہیں کہ ہم سے سفینہ رضی الله عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میری امت میں تیس سال تک خلافت رہے گی، پھر اس کے بعد ملوکیت آ جائے گی“، پھر مجھ سے سفینہ رضی الله عنہ نے کہا: ابوبکر رضی الله عنہ کی خلافت، عمر رضی الله عنہ کی خلافت، عثمان رضی الله عنہ کی خلافت اور علی رضی الله عنہ کی خلافت، شمار کرو ۱؎، راوی حشرج بن نباتہ کہتے ہیں کہ ہم نے اسے تیس سال پایا، سعید بن جمہان کہتے ہیں کہ میں نے سفینہ رضی الله عنہ سے کہا: بنو امیہ یہ سمجھتے ہیں کہ خلافت ان میں ہے؟ کہا: بنو زرقاء جھوٹ اور غلط کہتے ہیں، بلکہ ان کا شمار تو بدترین بادشاہوں میں ہے۔
حدیث خلافت تیس (30)سال ،تحقیقی جائزہ
 

عدیل سلفی

مشہور رکن
شمولیت
اپریل 21، 2014
پیغامات
1,717
ری ایکشن اسکور
430
پوائنٹ
197
پمفلٹ کی حدیث نمبر 6 میں یہ روایت ہے

حَدَّثَنِي إِبْرَاهِيمُ بْنُ مُوسَى،‏‏‏‏ أَخْبَرَنَا هِشَامٌ،‏‏‏‏ عَنْ مَعْمَرٍ،‏‏‏‏ عَنْ الزُّهْرِيِّ،‏‏‏‏ عَنْ سَالِمٍ،‏‏‏‏ عَنْ ابْنِ عُمَرَ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ وَأَخْبَرَنِي ابْنُ طَاوُسٍ،‏‏‏‏ عَنْ عِكْرِمَةَ بْنِ خَالِدٍ،‏‏‏‏ عَنْ ابْنِ عُمَرَ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ دَخَلْتُ عَلَى حَفْصَةَ وَنَوْسَاتُهَا تَنْطُفُ،‏‏‏‏ قُلْتُ:‏‏‏‏ قَدْ كَانَ مِنْ أَمْرِ النَّاسِ مَا تَرَيْنَ فَلَمْ يُجْعَلْ لِي مِنَ الْأَمْرِ شَيْءٌ،‏‏‏‏ فَقَالَتْ:‏‏‏‏ الْحَقْ فَإِنَّهُمْ يَنْتَظِرُونَكَ وَأَخْشَى أَنْ يَكُونَ فِي احْتِبَاسِكَ عَنْهُمْ فُرْقَةٌ،‏‏‏‏ فَلَمْ تَدَعْهُ حَتَّى ذَهَبَ فَلَمَّا تَفَرَّقَ النَّاسُ خَطَبَ مُعَاوِيَةُ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ مَنْ كَانَ يُرِيدُ أَنْ يَتَكَلَّمَ فِي هَذَا الْأَمْرِ فَلْيُطْلِعْ لَنَا قَرْنَهُ فَلَنَحْنُ أَحَقُّ بِهِ مِنْهُ وَمِنْ أَبِيهِ،‏‏‏‏ قَالَ حَبِيبُ بْنُ مَسْلَمَةَ:‏‏‏‏ فَهَلَّا أَجَبْتَهُ،‏‏‏‏ قَالَ عَبْدُ اللَّهِ:‏‏‏‏ فَحَلَلْتُ حُبْوَتِي وَهَمَمْتُ أَنْ أَقُولَ أَحَقُّ بِهَذَا الْأَمْرِ مِنْكَ مَنْ قَاتَلَكَ وَأَبَاكَ عَلَى الْإِسْلَامِ،‏‏‏‏ فَخَشِيتُ أَنْ أَقُولَ كَلِمَةً تُفَرِّقُ بَيْنَ الْجَمْعِ وَتَسْفِكُ الدَّمَ وَيُحْمَلُ عَنِّي غَيْرُ ذَلِكَ،‏‏‏‏ فَذَكَرْتُ مَا أَعَدَّ اللَّهُ فِي الْجِنَانِ،‏‏‏‏ قَالَ حَبِيبٌ:‏‏‏‏ حُفِظْتَ وَعُصِمْتَ. قَالَ مَحْمُودٌ:‏‏‏‏ عَنْ عَبْدِ الرَّزَّاقِ:‏‏‏‏ وَنَوْسَاتُهَا.
مجھ سے ابراہیم بن موسیٰ نے بیان کیا ‘ کہا ہم کو ہشام نے خبر دی ‘ انہیں معمر بن راشد نے ‘ انہیں زہری نے ‘ انہیں سالم بن عبداللہ نے اور ان سے ابن عمر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا اور معمر بن راشد نے بیان کیا کہ مجھے عبداللہ بن طاؤس نے خبر دی ‘ ان سے عکرمہ بن خالد نے اور ان سے ابن عمر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ میں حفصہ رضی اللہ عنہا کے یہاں گیا تو ان کے سر کے بالوں سے پانی کے قطرات ٹپک رہے تھے۔ میں نے ان سے کہا کہ تم دیکھتی ہو لوگوں نے کیا کیا اور مجھے تو کچھ بھی حکومت نہیں ملی۔ حفصہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ مسلمانوں کے مجمع میں جاؤ ‘ لوگ تمہارا انتظار کر رہے ہیں۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ تمہارا موقع پر نہ پہنچنا مزید پھوٹ کا سبب بن جائے۔ آخر حفصہ رضی اللہ عنہا کے اصرار پر عبداللہ رضی اللہ عنہ گئے۔ پھر جب لوگ وہاں سے چلے گئے تو معاویہ رضی اللہ عنہ نے خطبہ دیا اور کہا کہ خلافت کے مسئلہ پر جسے گفتگو کرنی ہو وہ ذرا اپنا سر تو اٹھائے۔ یقیناً ہم اس سے زیادہ خلافت کے حقدار ہیں اور اس کے باپ سے بھی زیادہ۔حبیب بن مسلمہ رضی اللہ عنہ نے ابن عمر رضی اللہ عنہما سے اس پر کہا کہ آپ نے وہیں اس کا جواب کیوں نہیں دیا؟ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا کہ میں نے اسی وقت اپنے لنگی کھولی (جواب دینے کو تیار ہوا) اور ارادہ کر چکا تھا کہ ان سے کہوں کہ تم سے زیادہ خلافت کا حقدار وہ ہے جس نے تم سے اور تمہارے باپ سے اسلام کے لیے جنگ کی تھی۔ لیکن پھر میں ڈرا کہ کہیں میری اس بات سے مسلمانوں میں اختلاف بڑھ نہ جائے اور خونریزی نہ ہو جائے اور میری بات کا مطلب میری منشا کے خلاف نہ لیا جانے لگے۔ اس کے بجائے مجھے جنت کی وہ نعمتیں یاد آ گئیں جو اللہ تعالیٰ نے (صبر کرنے والوں کے لیے) جنت میں تیار کر رکھی ہیں۔ حبیب ابن ابی مسلم نے کہا کہ اچھا ہوا آپ محفوظ رہے اور بچا لیے گئے ‘ آفت میں نہیں پڑے۔ محمود نے عبدالرزاق سے («نسواتها‏.» کے بجائے لفظ) «ونوساتها‏.» بیان کیا (جس کے معنی چوٹی کے ہیں جو عورتیں سر پر بال گوندھتے وقت نکالتی ہیں)۔

کیا معاویہ رضی اللہ عنہ خود کو عمرفاروق رضی اللہ عنہ سے زیادہ خلافت کا حقدار سمجھتے تھے۔
 

saeedimranx2

رکن
شمولیت
مارچ 07، 2017
پیغامات
178
ری ایکشن اسکور
16
پوائنٹ
71
واقعہ کربلا نبی کریم صل الله علیہ و اله وسلم کی وفات کے تقریباً ٥٠ سال بعد پیش آیا - احادیث نبوی میں اس واقعہ سے متعلق کوئی بھی واضح اور دو ٹوک روایت موجود نہیں ہے- کچھ لوگوں نے صح ستہ کی چند ایک صحیح احادیث نبوی کو بنیاد بنا کر معاویہ رضی الله عنہ اور ان کے بیٹے یزید بن معاویہ رحم الله کو تحقیر و تنقید کا نشانہ بنایا ہے جن کا تعلق احکام خلافت اور اس کی مدت سے متعلق تھا- ایسے واقیعات کی حیثیت صرف پیشنگیوں کی سی ہے- جن کا وقوع پذیر ہونا مختلف حالات و اسباب کے پیش نظر ہے- ان کے بارے میں کوئی حتمی راے قائم کرنا ہرگز دانشمندی نہیں- جب تک کہ اس کے بارے میں کوئی واضح دلیل موجود نہ ہو- بہت سے علماء مشائخ اس معاملے میں افراط و تفریط کا شکار ہوے- یزید بن معاویہ رحم الله کی شخصیت تو ایک طرف - ان کے والد اور صحابی رسول سیدنا امیر معاویہ رضی الله عنہ کی شخصیت کو بھی ان روایات کے غلط مفاہیم کے زیر اثر داغدار بنانے کی مذموم کوشش کی گئی - جب کہ دوسری طرف علی رضی الله عنہ کی شخصیت کو مکمل و پاک صاف اور ہر اجتہادی غلطی سے مبرّا قرار دیا گیا حتیٰ کہ ان پر نبی ہونے کا گمان ہونے لگا (نعوز باللہ)- ان روایات سے متعلق گمراہی کا بیج حقیقت میں سبائی گروہ نے اس چالاکی سے بویا کہ اہل سنّت کے علماء کی اکثریت بھی اس جال میں بری طرح سے پھنس گئی اور ابھی بھی اسی طرح پھنسی ہوئی ہے- یہ تو بھلا ہو کہ الله رب العزت نے اہل سنّت میں ایسے جید علماء و مشائخ پیدا کیے جنہوں نے ان باطل نظریات کا جائزہ لے کر ان کا خوبصورتی سے علمی رد کیا-
یہ سبائی گروہ کون ہے ذرا صحیح حدیث کی روشنی میں صریح وضاحت کی ضرورت ہے۔۔۔اور دوسرے حضرت علی کی کسی ایک ی بند غلطیوں کی وضاحت کریں ۔۔۔تیسرے یہ کہ حضرت علی تو دور کی بات آج کل تو ابن تیمیہ کو بھی اسی طرح سامنے لایا جاتا ہے کہ انہوں نے کوئی غلطی کی ہی نہیں۔تو ان کے بارے میں بھی وضاحت کریں ۔۔
 

MD. Muqimkhan

رکن
شمولیت
اگست 04، 2015
پیغامات
248
ری ایکشن اسکور
46
پوائنٹ
70
اس کے لیے آنخهیں کهلی رکهنی پڑیں گی ورنہ رافضیت کے چشمے سے سبائیت نظر نہیں آتی. بس کسرائیت کا احیا ہدف ہوتا ہے
 

saeedimranx2

رکن
شمولیت
مارچ 07، 2017
پیغامات
178
ری ایکشن اسکور
16
پوائنٹ
71
اس کے لیے آنخهیں کهلی رکهنی پڑیں گی ورنہ رافضیت کے چشمے سے سبائیت نظر نہیں آتی. بس کسرائیت کا احیا ہدف ہوتا ہے
سبائیت کہیں نظر بھی آئے تو بات ہے نا۔۔۔دلیل مضبوط ہو تو نہ ماننے والے پر اعتراض کیا جائے۔۔۔عام طور سبائیت کی تھیوری کی طرف داری کرنے والے راویوں کی ثقاہت کی بنیاد پر سبائیت کے خلاف والی روایات کو چیلنج کرتے ہیں مگر تضاد یہ ہے کہ اسی سٹینڈرڈ پر اگر سبائییت والی روایات کی جائیں تو ان میں بھی شاید ہی کوئی صحیح روایت ملے
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,553
پوائنٹ
304
یہ سبائی گروہ کون ہے ذرا صحیح حدیث کی روشنی میں صریح وضاحت کی ضرورت ہے۔۔۔اور دوسرے حضرت علی کی کسی ایک ی بند غلطیوں کی وضاحت کریں ۔۔۔تیسرے یہ کہ حضرت علی تو دور کی بات آج کل تو ابن تیمیہ کو بھی اسی طرح سامنے لایا جاتا ہے کہ انہوں نے کوئی غلطی کی ہی نہیں۔تو ان کے بارے میں بھی وضاحت کریں ۔۔
سبائی گروہ عبدللہ بن سبا یمنی کے پیروکار تھے -صحیح احادیث نبوی میں اس شخص کا ذکر نہیں ہے - اس کا اور اس کے پیروکاروں کا ظہور نبی کریم صل الله علیہ و آله وسلم کی وفات کے تقریباً ١٨ -٢٠ سال بعد حضرت عثمان غنی رضی الله عنہ کے دور خلافت میں ہوا - اسلامی تاریخی کتب میں اس منافق کا ذکر کثرت سے ملتا ہے - خود رافضی جو ابن سبا کی شخصیت کے انکاری ہیں اور اس کو افسانوی قرار دیتے ہیں ان کی اپنی ضغیم کتابوں میں (جن کو وہ مستند مانتے ہیں) جیسے کشی، رجال کشی وغیرہ میں اس نام کی شخصیت کا ذکر جا بجا موجود ہے-

جس طرح بشری کمزوری کے سبب دیگر صحابہ کرام رضوان الله اجمعین سے خلافت کے باب میں اجتہادی غلطیاں ہوئیں اسطرح حضرت علی رضی الله عنہ سے بھی اس معاملے میں ہوئیں - لیکن ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم نے ہمیشہ اپنی اسلامی تاریخ کو انصاف کے پیمانے پر پرکھنے کے بجاے جذبات کے پیمانے پر اس کو پرکھا- جس کا نتیجہ یہ ظاہر ہوا کہ ایک شخصیت کو خدائی اختیار دے دیا گیا اور اس کے بالمقابل دوسری جید شخصیات کو فاسق و فاجر قرار دیا گیا-

جہاں تک ابن تیمیہ رحم الله کا تعلق ہے تو وہ تاریخ اسلام کی نامور شخصیت ہیں - کچھ معملات ان سے اجتہادی غلطیاں سرزد ہوئیں- جیسے سماع موتہ کا مسلہ وغیرہ -اور اس معامله میں چند ایک اہل حدیث علماء نے ان پر نکیر بھی کی ہے - لہٰذا آپ کا یہ کہنا صحیح نہیں کہ "آج کل تو ابن تیمیہ کو بھی اسی طرح سامنے لایا جاتا ہے کہ انہوں نے کوئی غلطی کی ہی نہیں" - حقیقت یہ ہے کہ اپنے مشائخ اور آئمہ کو معصوم قرار دینے کی روش حقیقت میں احناف اور اثناء عشری شیعوں کی ہے - ہاں البتہ دور حاضر میں چند ایک غیر مقلدین بھی اس روش کی زد میں آ گئے-

الله سب کو ہدایت دے (آمین)-
 

saeedimranx2

رکن
شمولیت
مارچ 07، 2017
پیغامات
178
ری ایکشن اسکور
16
پوائنٹ
71
اگر صحیح روایات میں اس کا ذکر نہیں توپھر افسانوی شخصیت ہی ہوئی نا۔۔۔جہاں تک بات رجال الکشی یا رجال النجاشی کی ہے تو اس میں بھی اس کا کوئ واضح ذکر تو ہے نہیں کہ کون تھا کیاتھا ۔۔رجال الکشی اور نجاشی نہایت مختصر کتابیں ہیں تنقیح المقال اور رجال الخوئی میں بھی اس کی توثیق نہیں ۔۔۔سو اس کی شخصیت بنیادی طور پر گھڑی گئی ہے صرف چند لوگوں کا دفاع کرنے کو۔۔اگر میں کوئی بات کروں گا کہ ان حضرات نے یہ کیوں کیا وہ کیوں کیا تو مجھ سے سند کا مطالبہ کیا جائے گا۔۔جبکہ اس معاملے میں علی کو غلط ثابت کرنے کے لیے اگر عبداللہ بن سبا کو بے سند بھی پیش کیا جائے گا تو اس کی خیر ہے ۔۔بنیادی طور پر یہی سوچ سبائی گروپ کی ہے۔۔
جہاں تک علی کی
 
سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔
Top