• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

انجینیئر محمد علی مرزا کے ایک پمفلٹ "واقعہ کربلا ٧٢ صحیح احادیث کی روشنی میں" کا تحقیقی جائزہ

سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔

عبدہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 01، 2013
پیغامات
2,035
ری ایکشن اسکور
1,227
پوائنٹ
425
سہل بن سعد والی حدیث میں امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے بارے بات کرنا بذات خود بہت بڑی جہالت ہے واللہ اعلم
 

وجاہت

رکن
شمولیت
مئی 03، 2016
پیغامات
421
ری ایکشن اسکور
44
پوائنٹ
45
ان روایات سے متعلق گمراہی کا بیج حقیقت میں سبائی گروہ نے اس چالاکی سے بویا کہ اہل سنّت کے علماء کی اکثریت بھی اس جال میں بری طرح سے پھنس گئی اور ابھی بھی اسی طرح پھنسی ہوئی ہے- یہ تو بھلا ہو کہ الله رب العزت نے اہل سنّت میں ایسے جید علماء و مشائخ پیدا کیے جنہوں نے ان باطل نظریات کا جائزہ لے کر ان کا خوبصورتی سے علمی رد کیا-
آپ سے صرف یہ پوچھنا ہے کہ اس حدیث کے بارے میں آپ کا کیا موقف ہے - کیا یہ حدیث صحیح ہے یا ضعیف -
 

وجاہت

رکن
شمولیت
مئی 03، 2016
پیغامات
421
ری ایکشن اسکور
44
پوائنٹ
45
سہل بن سعد والی حدیث میں امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے بارے بات کرنا بذات خود بہت بڑی جہالت ہے واللہ اعلم
میں آپ کی بات سمجھا نہیں - کیا حدیث پڑھنا اور لکھنا اور اس پر موقف معلوم کرنا بھی جہالت ہو گا - اگر احادیث میں کسی کے بارے میں بات کرنا جہالت ہے تو جن محدثین نے یہ احادیث لکھی ہیں - ان کے بارے میں کیا کہیں گے آپ -

یہاں پر لمبی چوری بحثیں شروع ہو گئی ہیں - میں نے صرف یہ پوچھا ہے کہ اس حدیث کے بارے میں اہلحدیث حضرات کا موقف کیا ہے -

========

اور انتظامیہ کی طرف سے ابھی تک کوئی موقف نہیں آیا کہ یہ حدیث غلطی سے لکھنے سے رہ گئی محدث احادیث کے سافٹ ویئر سے - اور اس کو کب شامل کیا جایے گا - سافٹ ویئر میں پوری پوری بات شامل کرنی چاہیے -

===================================
غلطی مکتبہ شاملہ سافٹ ویئر میں بھی ہو سکتی ہے - مثال آپ کو دیتا ہوں -


امام ترمذی نے ابوحنیفہ کے بارے میں نقل کیا
وَقَالَ النُّعْمَانُ أَبُو حَنِيفَةَ لاَ تُصَلَّى صَلاَةُ الاِسْتِسْقَاءِ وَلاَ آمُرُهُمْ بِتَحْوِيلِ الرِّدَاءِ وَلَكِنْ يَدْعُونَ وَيَرْجِعُونَ بِجُمْلَتِهِمْ. قَالَ أَبُو عِيسَى خَالَفَ السُّنَّةَ
یعنی : امام ترمذی نے کہا ہے کہ : ابو حنیفہ نے سنت کی مخالفت کی

لیکن مکتبہ شاملہ میں ان الفاظ کو شامل نہیں کیا گیا
جب غلطی واضح ہو جایے تو اس وقت جلدی درست کر دینا چاہیے - یہ صرف ایک مثال دی ہے - اس کو تنقید نہ سمجھا جایے
==========================

میں امید کرتا ہوں محدث احادیث کے ذخیرہ والے سافٹ ویئر میں یہ حدیث جلد شامل کر دی جایے گی

میری سب بھایئوں سے گزارش ہے کہ میری کسی بات کو تنقید نہ سمجھا جایے -​
 

عبدہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 01، 2013
پیغامات
2,035
ری ایکشن اسکور
1,227
پوائنٹ
425
میں آپ کی بات سمجھا نہیں - کیا حدیث پڑھنا اور لکھنا اور اس پر موقف معلوم کرنا بھی جہالت ہو گا - اگر احادیث میں کسی کے بارے میں بات کرنا جہالت ہے تو جن محدثین نے یہ احادیث لکھی ہیں - ان کے بارے میں کیا کہیں گے آپ -
بھائی جان میں نیا آیا ہوں زیادہ تفصیل نہیں پڑھ سکا میں سمجھا ہوں کہ شاید اس سہل والی حدیث سے امیر معاویہ رضی اللہ عنہ پہ کوئی طعن کرنا چاہتا ہے تو اس پہ یہ لکھا تھا معذرت تفصیل کا میرے پاس وقت کم ہے اللہ آپ کو جزائے خیر دے امین
 

وجاہت

رکن
شمولیت
مئی 03، 2016
پیغامات
421
ری ایکشن اسکور
44
پوائنٹ
45
بھائی جان میں نیا آیا ہوں زیادہ تفصیل نہیں پڑھ سکا میں سمجھا ہوں کہ شاید اس سہل والی حدیث سے امیر معاویہ رضی اللہ عنہ پہ کوئی طعن کرنا چاہتا ہے تو اس پہ یہ لکھا تھا معذرت تفصیل کا میرے پاس وقت کم ہے اللہ آپ کو جزائے خیر دے امین
صحابہ پر
طعن کرنے والے کو اپنے ایمان کی فکر کرنی چاہیے -
 
شمولیت
ستمبر 21، 2015
پیغامات
2,697
ری ایکشن اسکور
762
پوائنٹ
290
یہ موافقت محض " ﺻﺤﺎﺑﮧ ﭘﺮ ﻃﻌﻦ ﮐﺮﻧﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﮐﻮ ﺍﭘﻨﮯ ﺍﯾﻤﺎﻥ ﮐﯽ ﻓﮑﺮ ﮐﺮﻧﯽ ﭼﺎﮨﯿﮯ - " اس فقرہ پر هے ۔
اللہ هم سب کے ایمان کی حفاظت کرے ۔
 

عدیل سلفی

مشہور رکن
شمولیت
اپریل 21، 2014
پیغامات
1,717
ری ایکشن اسکور
430
پوائنٹ
197
اب ایک اور حدیث پیش کرتا ہوں کہ صحابہ کرام کو کس طرح دوسروں کو گالیاں دینے پر کہا جاتا تھا - اب ایک عام قاری ان احادیث کو پڑھ کر کیا مطلب سمجھے

==============

صحيح مسلم: كِتَابُ فَضَائِلِ الصَّحَابَةِؓ

(بَابُ مِنْ فَضَائِلِ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍؓ)

صحیح مسلم: کتاب: صحابہ کرامؓ کے فضائل ومناقب

(باب: حضرت علی ؓ کے فضائل)

6229 . حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ يَعْنِي ابْنَ أَبِي حَازِمٍ، عَنْ أَبِي حَازِمٍ، عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ، قَالَ: اسْتُعْمِلَ عَلَى الْمَدِينَةِ رَجُلٌ مِنْ آلِ مَرْوَانَ قَالَ: فَدَعَا سَهْلَ بْنَ سَعْدٍ، فَأَمَرَهُ أَنْ يَشْتِمَ عَلِيًّا قَالَ: فَأَبَى سَهْلٌ فَقَالَ لَهُ: أَمَّا إِذْ أَبَيْتَ فَقُلْ: لَعَنَ اللهُ أَبَا التُّرَابِ فَقَالَ سَهْلٌ: مَا كَانَ لِعَلِيٍّ اسْمٌ أَحَبَّ إِلَيْهِ مِنْ أَبِي التُّرَابِ، وَإِنْ كَانَ لَيَفْرَحُ إِذَا دُعِيَ بِهَا، فَقَالَ لَهُ: أَخْبِرْنَا عَنْ قِصَّتِهِ، لِمَ سُمِّيَ أَبَا تُرَابٍ؟ قَالَ: جَاءَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَيْتَ فَاطِمَةَ، فَلَمْ يَجِدْ عَلِيًّا فِي الْبَيْتِ، فَقَالَ «أَيْنَ ابْنُ عَمِّكِ؟» فَقَالَتْ: كَانَ بَيْنِي وَبَيْنَهُ شَيْءٌ، فَغَاضَبَنِي فَخَرَجَ، فَلَمْ يَقِلْ عِنْدِي، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِإِنْسَانٍ «انْظُرْ، أَيْنَ هُوَ؟» فَجَاءَ فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللهِ هُوَ فِي الْمَسْجِدِ رَاقِدٌ، فَجَاءَهُ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ مُضْطَجِعٌ، قَدْ سَقَطَ رِدَاؤُهُ عَنْ شِقِّهِ، فَأَصَابَهُ تُرَابٌ، فَجَعَلَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَمْسَحُهُ عَنْهُ وَيَقُولُ «قُمْ أَبَا التُّرَابِ قُمْ أَبَا التُّرَابِ»

ابو حازم نے حضرت سہل بن سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی،کہا: کہ مدینہ میں مروان کی اولاد میں سے ایک شخص حاکم ہوا تو اس نے سیدنا سہل رضی اللہ عنہ کو بلایا اور سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو گالی دینے کا حکم دیا۔ سیدنا سہل رضی اللہ عنہ نے انکار کیا تو وہ شخص بولا کہ اگر تو گالی دینے سے انکار کرتا ہے تو کہہ کہ ابوتراب پر اللہ کی لعنت ہو۔ سیدنا سہل رضی اللہ عنہ نے کہا کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو ابوتراب سے زیادہ کوئی نام پسند نہ تھا اور وہ اس نام کے ساتھ پکارنے والے شخص سے خوش ہوتے تھے۔ وہ شخص بولا کہ اس کا قصہ بیان کرو کہ ان کا نام ابوتراب کیوں ہوا؟ سیدنا سہل رضی اللہ عنہ نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سیدہ فاطمۃالزہراء رضی اللہ عنہا کے گھر تشریف لائے تو سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو گھر میں نہ پایا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کہ تیرے چچا کا بیٹا کہاں ہے؟ وہ بولیں کہ مجھ میں اور ان میں کچھ باتیں ہوئیں اور وہ غصہ ہو کر چلے گئے اور یہاں نہیں سوئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک آدمی سے فرمایا کہ دیکھو وہ کہاں ہیں؟ وہ آیا اور بولا کہ یا رسول اللہ! علی مسجد میں سو رہے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے پاس تشریف لے گئے، وہ لیٹے ہوئے تھے اور چادر ان کے پہلو سے الگ ہو گئی تھی اور (ان کے بدن سے) مٹی لگ گئی تھی، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ مٹی پونچھنا شروع کی اور فرمانے لگے کہ اے ابوتراب! اٹھ۔ اے ابوتراب! اٹھ۔


======





حضرت علی رضی الله عنہ پر سب و شتم ثابت نہیں ہے البتہ مروان کے دور میں بعض شر پسند یہ کرتے تھے مسلم کی یہ حدیث ہے

مورخین ابن اثیر ابن کثیر نے انہی روایات کو آپس میں ملا کر جرح و تعدیل پر غور کیے بغیر یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ باقاعدہ معاویہ رضی الله عنہ اس کو کرواتے تھے جو صحیح نہیں ہے۔
 

عدیل سلفی

مشہور رکن
شمولیت
اپریل 21، 2014
پیغامات
1,717
ری ایکشن اسکور
430
پوائنٹ
197
اب ایک اور حدیث پیش کرتا ہوں کہ صحابہ کرام کو کس طرح دوسروں کو گالیاں دینے پر کہا جاتا تھا - اب ایک عام قاری ان احادیث کو پڑھ کر کیا مطلب سمجھے

==============

صحيح مسلم: كِتَابُ فَضَائِلِ الصَّحَابَةِؓ

(بَابُ مِنْ فَضَائِلِ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍؓ)

صحیح مسلم: کتاب: صحابہ کرامؓ کے فضائل ومناقب

(باب: حضرت علی ؓ کے فضائل)

6229 . حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ يَعْنِي ابْنَ أَبِي حَازِمٍ، عَنْ أَبِي حَازِمٍ، عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ، قَالَ: اسْتُعْمِلَ عَلَى الْمَدِينَةِ رَجُلٌ مِنْ آلِ مَرْوَانَ قَالَ: فَدَعَا سَهْلَ بْنَ سَعْدٍ، فَأَمَرَهُ أَنْ يَشْتِمَ عَلِيًّا قَالَ: فَأَبَى سَهْلٌ فَقَالَ لَهُ: أَمَّا إِذْ أَبَيْتَ فَقُلْ: لَعَنَ اللهُ أَبَا التُّرَابِ فَقَالَ سَهْلٌ: مَا كَانَ لِعَلِيٍّ اسْمٌ أَحَبَّ إِلَيْهِ مِنْ أَبِي التُّرَابِ، وَإِنْ كَانَ لَيَفْرَحُ إِذَا دُعِيَ بِهَا، فَقَالَ لَهُ: أَخْبِرْنَا عَنْ قِصَّتِهِ، لِمَ سُمِّيَ أَبَا تُرَابٍ؟ قَالَ: جَاءَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَيْتَ فَاطِمَةَ، فَلَمْ يَجِدْ عَلِيًّا فِي الْبَيْتِ، فَقَالَ «أَيْنَ ابْنُ عَمِّكِ؟» فَقَالَتْ: كَانَ بَيْنِي وَبَيْنَهُ شَيْءٌ، فَغَاضَبَنِي فَخَرَجَ، فَلَمْ يَقِلْ عِنْدِي، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِإِنْسَانٍ «انْظُرْ، أَيْنَ هُوَ؟» فَجَاءَ فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللهِ هُوَ فِي الْمَسْجِدِ رَاقِدٌ، فَجَاءَهُ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ مُضْطَجِعٌ، قَدْ سَقَطَ رِدَاؤُهُ عَنْ شِقِّهِ، فَأَصَابَهُ تُرَابٌ، فَجَعَلَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَمْسَحُهُ عَنْهُ وَيَقُولُ «قُمْ أَبَا التُّرَابِ قُمْ أَبَا التُّرَابِ»

ابو حازم نے حضرت سہل بن سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی،کہا: کہ مدینہ میں مروان کی اولاد میں سے ایک شخص حاکم ہوا تو اس نے سیدنا سہل رضی اللہ عنہ کو بلایا اور سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو گالی دینے کا حکم دیا۔ سیدنا سہل رضی اللہ عنہ نے انکار کیا تو وہ شخص بولا کہ اگر تو گالی دینے سے انکار کرتا ہے تو کہہ کہ ابوتراب پر اللہ کی لعنت ہو۔ سیدنا سہل رضی اللہ عنہ نے کہا کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو ابوتراب سے زیادہ کوئی نام پسند نہ تھا اور وہ اس نام کے ساتھ پکارنے والے شخص سے خوش ہوتے تھے۔ وہ شخص بولا کہ اس کا قصہ بیان کرو کہ ان کا نام ابوتراب کیوں ہوا؟ سیدنا سہل رضی اللہ عنہ نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سیدہ فاطمۃالزہراء رضی اللہ عنہا کے گھر تشریف لائے تو سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو گھر میں نہ پایا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کہ تیرے چچا کا بیٹا کہاں ہے؟ وہ بولیں کہ مجھ میں اور ان میں کچھ باتیں ہوئیں اور وہ غصہ ہو کر چلے گئے اور یہاں نہیں سوئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک آدمی سے فرمایا کہ دیکھو وہ کہاں ہیں؟ وہ آیا اور بولا کہ یا رسول اللہ! علی مسجد میں سو رہے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے پاس تشریف لے گئے، وہ لیٹے ہوئے تھے اور چادر ان کے پہلو سے الگ ہو گئی تھی اور (ان کے بدن سے) مٹی لگ گئی تھی، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ مٹی پونچھنا شروع کی اور فرمانے لگے کہ اے ابوتراب! اٹھ۔ اے ابوتراب! اٹھ۔


======








قتیبہ بن سعید، عبدالعزیز بن ابی حازم سے، وہ اپنے والد سے اور وہ حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ مروان کے خاندان کا ایک آدمی مدینہ منورہ میںکسی سرکاری عہدے پر مقرر کیا گیا۔ اس نے حضرت سہل بن سعد کو بلایا اور انہیں حکم دیا کہ وہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کو برا کہیں۔ حضرت سہل نے ایسا کرنے سے انکار کر دیا۔ اس عہدے دار نے حضرت سہل سے کہا: "اگرآپ انکار کر رہے ہیں تو یہی کہہ دیجیے کہ ابو تراب پر اللہ کی لعنت ہو۔" حضرت سہل فرمانے لگے: "علی کو تو ابو تراب سے زیادہ کوئی نام محبوب نہ تھا۔ جب انہیں اس نام سے پکارا جاتا تو وہ خوش ہوتے تھے۔ " وہ عہدے دار حضرت سہل سے کہنے لگا: "یہ بتائیے کہ ان کا نام ابو تراب کیوں رکھا گیا۔"[1]۔۔۔ (اس کے بعد حضرت سہل رضی اللہ عنہ نے وہی بات سنائی جو اوپر بیان ہوئی ہے۔)

اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ مروان کے خاندان کا ایک شخص ، جس کا نام معلوم نہیں، حضرت علی رضی اللہ عنہ سے بغض رکھتا تھا۔ روایت میں نہ تو اس کا نام مذکور ہے اور نہ ہی اس کا عہدہ۔یہ وہ واضح ہے کہ وہ گورنر نہیں تھا۔ پھر اس نے اپنے بغض کا اظہار برسر منبر نہیں بلکہ نجی محفل میں کیا۔ اس دور میں چونکہ ناصبی فرقے کا ارتقاء ہو رہا تھا، اس وجہ سے ایسے لوگوں کی موجودگیکا امکان موجود ہے۔ تاہم یہ نہ تو حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کا مقرر کردہ گورنر تھا اور نہ ہی کوئی اور اہم عہدے دار۔ کسی چھوٹے موٹے عہدے پر فائز رہا ہو گا اور اس کے زعم میں وہ حضرت علی رضی اللہ عنہ پر سب و شتم کروانے چلا تھا لیکن حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ نے اسے منہ توڑ جواب دے کر خاموش کر دیا۔مروان بن حکم سے متعلق طبری کی یہ روایت بھی قابل غور ہے:

علی بن حسین رضی اللہ عنہما نے مروان کے ساتھ یہ سلوک کیا تھا کہ جس زمانے میں بنو امیہ مدینہ سے نکالے گئے تھے، انہوں نے مروان کے مال و متاع کو اور ان کی بیوی ام ابان بنت عثمان رضی اللہ عنہ کو لٹنے سے بچا لیا تھا اور اپنے گھر میں پناہ دی تھی۔ پھر جب ام ابان طائف کی طرف روانہ ہوئیں تو علی بن حسین نے ان کی حفاظت کے لیے اپنے بیٹے عبداللہ کو ان کے ساتھ کر دیا تھا۔ مروان نے اس احسان کا شکریہ بھی ادا کیا تھا۔ [2]

اس روایت میں 63/683 میں ہونے والی اہل مدینہ کی بغاوت کا ذکر ہے۔ جب اہل مدینہ نے یزید کے خلاف بغاوت کی تو انہوں نے مدینہ میں مقیم بنو امیہ پر حملے کیے۔ اس موقع پر حضرت علی بن حسین زین العابدین رضی اللہ عنہما سامنے آئے اور انہوں نے مروان اور ان کی اہلیہ کو گھر میں پناہ دی۔ اگر مروان بن حکم ، برسر منبر حضرت علی رضی اللہ عنہ کو گالیاں دیتے، تو کیا انہی حضرت علی کے پوتے زین العابدین انہیں اپنے گھر میں پناہ دیتے؟ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی دو بیٹیوں کی شادیاں مروان کے دو بیٹوں معاویہ اور عبدالملک سے ہوئیں۔ اس کے علاوہ آپ کی متعدد پوتیوں کی شادیاں مروان کے گھرانے میں ہوئی۔ [3] اگر مروان بن حکم نے ایسی حرکت کی ہوتی تو پھر کم از کم یہ رشتے داریاں ہمیں نظر نہ آتیں۔

[1]مسلم، کتاب فضائل الصحابہ، حدیث 2409
[2]طبری۔ 4/1-263
[3]ابن حزم، جمہرۃ الانسابالعرب۔ 38, 87۔

کیا معاویہؓ نے علیؓ پرسب و شتم کا حکم دیا تھا؟

تحریر: شیخ صلاح الدین یوسف حفظ اللہ ـ
(خلافت و ملوکیت کی شرعی حیثیت:صفحہ 552)


مولانا مودودی نے اپنی مشہور زمانہ متنازعہ کتاب '' خلافت و ملوکیت '' میں کاتب وحی ، جلیل القدر صحابی ،ام المؤمنین حبیبہ بنت سفیان رضی اللہ عنہاکے بھائی معاویہ رضی اللہ عنہ پر یہ گھناؤنا الزام عائد کیا کہ ان کے دورِخلافت میں علیرضی اللہ عنہ اور آل بیت پر سب و شتم کی بدعت ایجاد ہوئیں ، معاویہ رضی اللہ عنہ نے اپنے گورنروں کو حکم دیا تھا کہ وہ خطبے میں علی رضی اللہ عنہ کو برا بھلا کہا کریں ـ شیخ صلاح الدین یوسف حفظ اللہ نے اپنی کتاب (خلافت و ملوکیت کی شرعی حیثیت)میں مسکت جواب دیا ہے ـ لکھتے ہیں :
تیسری مثال مولانا نے جو دی وہ یہ ہے کہ :
''ایک اور نہایت مکروہ بدعت معاویہؓ کے عہد میں شروع ہوئی کہ وہ خود اور ان کے حکم سے ان کے تمام گورنر خطبوں میں برسرِ منبرعلیؓ پر سب و شتم کی بوچھاڑ کرتے تھے ـ حتٰی کے مسجد نبوی میں منبر رسول پر عین روضہ نبوی کے سامنے اللہ کے نبی کے محبوب ترین عزیز کو گالیاں دی جاتی تھیں ـ اور علیؓ کی اولاد اور ان کے قریب ترین رشتہ دار اپنے کانوں سے سنتے تھے ـ کسی کے مرنے کے بعد اس کو گالیاں دینا شریعت تو درکنار انسانی اخلاق کے بھی خلاف تھا ـ اور خاص طور پر جمعہ کے خطبے کو اس گندگی سے آلودہ کرنا تو دین واخلاق کے لحاظ سخت گھناؤنا فعل تھا ـ عمربن عبدالعزیز نے آکر اس روایت کو بدلا''(خلافت و ملوکیت ص: 147)

گویا معاویہؓ اور دوسرے ان کے کئی صحابی گورنر ، دین واخلاق اور شریعت تو درکرنا ، انسانی اخلاق سے بھی عاری تھے ـ انا للہ وانا الیہ راجعون ـ افسوس اتنا سنگین اور گھناؤنا الزام عائد کرنے سے پہلے جن مضبوط دلائل کی ضرورت تھے ـ اس کا اہتمام نہیں کیا گیا اور انتہائی مبالغہ آمیزی کے ساتھ رائی کا پہاڑ بنا دیا گیا ہے ـ
مولانا مودوی نے اس کتاب پر جن کتابوں کے حوالے دئیے ہیں ان میں کسی میں ادنیٰ اشارہ بھی اس امر کے ثبوت میں نہیں ملتا بلکہ معاویہؓ بھی برسرِ منبر علیؓ پر سب و شتم کی بوچھاڑ کرتے تھے
دوسرا الزام کہ انھوں نے اپنے تمام گورنروں کو بھی ایسا کرنے کا حکم دیا ـ یہ بھی افترا کے ضمن میں آتا ہے ، اس کا کوئی ثبوت بھی محولہ صفحات میں نہیں ـ مولانا کے دئیے ہوئے حوالوں میں تین افراد کا نام ملتا ہے جو ایسا کرتے تھے ـ ان میں سے ایک گورنر ولید بن عبدالملک کے زمانے کے ہیں ، جو یمن کے گورنر تھے ـ یہ واقعہ 90ھـــ کے ہیں جو یمن کے گورنر تھے ـ یہ واقعہ 90ھــ یعنی معاویہؓ کی وفات سے تیس سال بعد کا ہے ، انہیں بھی معاویہؓ کے گورنروں میں شمار کرنا تعجب خیز امر ہے ، نیز ان صاحب کے متعلق وہیں یہ صراحت بھی ہے کہ انہوں نے اپنے ماتحت صوبے کے ایک حاکم کوبھی ایسا کرنے کا حکم دیا لیکن اس نے ایسا کرنے سے نہ صرف انکار کردیا بلکہ بَرملاکہا '' جو علیؓ پر طعن کرتا ہے وہ ملعون ہے "(البداية والنهاية ج 8،ص 80)
دوسرے صاحب جو ایسا کرتے تھے وہ مروان ہیں ، جو واقعی معاویہؓ کے مقرر کردہ گورنر تھے لیکن محولہ صفحات میں کہیں بھی یہ نہیں کہ معاویہؓ نے انہیں علیؓ پر سب و شتم کا حکم دیا تھا ، ہاں یہ ضرور ہے کہ وہ اپنے زمانہ گورنری میں علیؓ پر سب و شتم کرتے تھے ـ ظاہر ہے ، اگریہ صحیح ہے تو معاویہؓ کے حکم سے نہیں بلکہ از خود ایسا کرتے تھے ـ جس پر واضح قرینہ یہ ہے کہ معاویہؓ نے انہیں معزول کر کے ان کی جگہ سعید بن العاص کو مقرر کیا ـ انہوں نے کبھی علیؓ پر سب و شتم نہیں کیا(البداية والنهاية ج 8،ص 84) اگر معاویہؓ کی طرف سے گورنروں کویہ حکم ہوتا تو یہ بھی ایسا کرنے پر مجبور ہوتے ـ
ثانیا: بعض علمائے اہل سنت نے صراحت کی ہے کہ مروان کے متعلق جو اس قسم کی روایات آتی ہیں کہ وہ علیؓ پر یا اہل بیت پر سب و شتم کرتے تھے ـ ان میں سے کوئی بھی صحیح نہیں ـ لم یصح شی من ذلک(تطهير الجنان .ص 54)ـ
ثالثا : اس کی صحت اگر کسی درجے تسلیم کرلی جائے ، تب یہ چیز وضاحت طلب ہے کہ سب و شتم کی نوعیت کیا ہے ـ سب و شتم ایک عام لفظ ہے جو کئی موقعوں پر استعمال ہوتا ہے اس کی حقیقی معنی گالی دینے کے ہیں ـ اس میں بھی یہ استعمال ہوتا ہے ـ کسی کو گالی نہ دی جائے ـ لیکن اس پر نارواء تنقید کی جائے یا اپنے مخالفین کی پالیسیوں کو مضوع بحث بنایا جائے اس پر بھی سب و شتم کا اطلاق کردیا جاتا ہے ـ خود مولانا مودودی نے صحابہ کرامؓ کے اقدامات کو جو تنقید کا نشانہ بنایا ہے ، اہل سنت کے حلقوں میں تو اس کو صحابہ پرسب و شتم قراردیا ہی گیا ہے ـ خود شیعوں نے بھی اسے صحابہؓ پر سب و شتم قرار دیا ہے (هفت روزه : رضاكار لاهور ، 16 جولائى 1965)
ظاہر ہے مولانا نے صحابہؓ کو گالیاں نہیں دی ہیں ، ان کے بہت سے اقدامات کو غلط کہا ہے ، بلکل یہی کیفیت مروان کے متعلق سمجھی جانی چاہے ، کتب تاریخ میں اس کی صراحت ہوتی تب تو اس کی نوعیت بلکل واضح ہوتی ، کتب تاریخ اس بارے میں خاموش ہیں تو یہی سمجھنا چاہے کہ وہ علیؓ پر اس انداز کی تنقید ان کے بعض اقدامات کی وجہ سے کرتے ہونگے ـ جیسے خود مولانا نے عثمانؓ ،عمروبن العاصؓ ،عائشہؓ اور معاویہؓ کے اقدامات پر تنقید کی ہے ، یا وہ ان کا نام اس عزت و احترام کے ساتھ نہ لیتے ہونگے جن کے فی الواقع وہ مستحق تھے ـ جیسے خود مولانا نے ان صحابہؓ کو کہیں بھی عزت و احترام کے لفظ سے یاد نہیں کیا جنہیں عثمانؓ نے گورنر بنایا تھا ـ ظاہر ہے یہ بھی ان کی ایک گونہ اہانت ہے ، جس کو سب و شتم سے تعبیر کیا جا سکتا ہے ـ صحیح بخاری کی ذیل کی روایت سے مروانؓ کے '' سب و شتم '' کی یہی نوعیت معلوم ہوتی ہے ـ
'' ایک آدمی سہیل بن سعدؓ کے پاس آیا اور کہنے لگا کہ ، فلاں امیرِ مدینہ برسرِ منبر علیؓ کا ذکر غیر مناسب الفاظ میں کرتا ہے ـسہیل نے اس سے پوچھا کہ اس نے کیا کہا ـ اس نے کہاکہ '' وہ انہیں '' ابوتراب'' کہتا ہے '' سہیلؓ یہ سب کرہنس پڑے اور فرمایا : بخدا یہ نام تو ان کا خود نبیؓ نے رکھا ہے اور آپ کو ان کے اس نام سے زیادہ اور کوئی نام پیارا نہ تھا "(صحيح بخاري ، باب : مناقب علي)
اس روایت سے یہ صاف معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت مسلمانوں ضمیر بیدار تھا اور صحابہ کرامؓ کی عزت و ناموس کا انہیں بخوبی احساس تھا ـ کھلم کھلا سب و شتم تو درکرنا ، ان کا نام بھی اگر کوئی اس عزت و احترام کے ساتھ نہ لیتا تو جس کے وہ مستحق تھے ، تو یہ چیز بھی ان پر گراں گزرتی تھی ـ جس پر وہ نکیر ضروری سمجھتے تھے ـ
تیسرے صاحب جن پر علیؓ پر سب و شتم کا الزام منسوب ہے ، مولانا کے دیے ہوئے حوالوں کی رو سے مغیرہ بن شعبہؓ ہیں ـ یہ وہ واحد گورنر ہیں جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ معاویہؓ نے ان کو ایسا کرنے کا حکم دیا تھا ـ روایت کے اہم حصے ملاحظہ فرمائیں ،معاویہؓ نے مغیرہؓ کو تاکید کی کہ :
"علیؓ پر سب و شتم اور ان کی مذمت میں اور عثمانؓ کے لیے دعائے رحمت و مغفرت کرتے رہنا ـ علیؓ کے طرفداروں کے عیوب کی نشاندہی اور ان کو اپنے سے دور رکھنا ـ اصحاب عثمانؓ کی تعریف اور ان کو اپنے قریب رکھنا ـ ابومخنف کہتا ہے کہ مغیرہؓ کوفے میں سات سال اور کچھ مہینے گورنر رہے ـ سیرت و کردار میں سب سے بہتر اور سب زیادہ عافیت پسند تھے البتہ وہ علیؓ کی مذمت اور ان پر تنقید اور قاتلینِ عثمان کی عیب گری نیز عثمانؓ کے لیے دعائے رحمت و مغفرت اور ان کے اصحاب کی پاکیزگی بیان کرنا نہیں چھوڑتے تھے ـ ہمیشہ ان کا یہی طرزِ رہا ، اپنے آخری دورِ امارت میں ایک مرتبہ وہ کھڑے ہوئے اور علیؓ و عثمانؓ کے متعلق وہی کچھ کہا جو پہلے کہا کرتے تھے ـ انہوں نے کہا کہ '' ائے اللہ ! عثمانؓ پر رحم فرما اور ان سے درگزر فرما اور ان کو ان کے بہتر عمل کی جزا دے ـ انہوں نے تیری کتاب پر عمل کیا ، تیرے نبی کی سنت کی پیروی کی ـ ہمارے کلمہ کو جمع کیا اور ہمارے خونوں کی حفاظت کی اور خود مظلومانہ قتل ہو گئے ـ یا اللہ ! ان کے مددگاروں ، دوستوں ، ان سے محبت کرنے والوں اور ان کے خون کا مطالبہ کرنے والوں پر رحم فرما ـ اس کے بعد قاتلینِ عثمان کے لیے بددعا کی "(الطبري : ج ، 5- ص 253 -254)
اس روایت میں ضرور یہ صراحت ہے کہ معاویہؓ نے مغیرہؓ کو علیؓ پر سب و شتم کرنے کی تاکید کی ـ اور مغیرہؓ نے ایسا کرتےتھے ، لیکن ہمیں سوچنا چاہے کہ یہ دونوں حضرات ممتاز صحابی ہیں ـ دونوں سے یہ مستبعد ہے کہ وہ اپنے ہی ایک جلیل القدر ساتھی کے ساتھ اور وہ بھی اس کے مرنے کے بعد ایسا سلوک کرتے ـ اگر معاویہؓ سیاسی کش مکش کی بناء پر مغیرہؓ کو ایسا کرنے کا حکم دیتے تو مغیرہؓ یقننا ایسا کرنے سے انکار کردیتے ـ وہ فطرتا صلح جو اور عافیت پسند تھے ـ ان کے اس مزاج کی وضاحت اس روایت میں موجود ہے اور اس سے قبل بھی ان کی زندگی سے ثبوت ملتا ہے ـ جنگ جمل اور صفین کے معرکہ آرائیوں میں یہ مجتنب رہے ـ دونوں فریقوں میں سے کسی فریق کا انہوں نے ساتھ نہیں دیا ـ ایسے شخص کے متعلق یہ باور کرنا کہ ایک دم ان کے مزاج میں اتنی تبدیلی آگئی وہ برسرِ منبر علیؓ پر سب و شتم کی بوچھاڑ کرتے رہے نا ممکن ہے ـ
دوسرے خود اس روایت میں علیؓ کی مذمت اور ان پر سب و شتم کی حقیقت موجود ہے ـ روایت کے آخری کشیدہ فقرے راوی نے اسی طرزِ عمل کی وضاحت میں ذکر کیے ہیں ـ جو انہوں نے علیؓ و عثمان کے متعلق اختیار کئے رکھا ـ اس میں کہیں علیؓ پر سب و شتم نہیں ،صرف عثمانؓ اور ان کے طرفداروں کا ذکر ہے اور آخر میں قاتلینِ عثمان کے لیے بددعا ہے ـ
تیسرے قاتلینِ عثمان کے سلسلے میں علیؓ نے جوغیر واضح طرزِ عمل اختیار کیا تھا ـ اکابرصحابہؓ کی ایک معقول تعداد اسے پسند نہیں کرتی تھی ، جن میں ام المؤمنین عائشہ صدیقہ مطہرہؓ ،طلحہؓ ، زبیرؓ اور معاویہؓ نمایاں تھے ـ معاویہؓ نے فی الواقع یہ حکم دیا تھا تو اس مطلب یہی تھا کہ علیؓ کی اس پالیسی کی وضاحت کرتے رہنا ـ اس لیے ساتھ انہوں نے علیؓ کے طرفداروں کے عیوب کی نشاندہی کرنے کے بھی تاکید کی کیونکہ ایک شرپسند گروہ علیؓ کا نام لے کر انتشار و تخریب کی روش اختیار کئے ہوئے تھا ـ خود علیؓ کی حیات میں ان کی خلافت پر جو لوگ چھائے ہوئے تھے ، وہ وہی باغی تھے ، جنہوں نے عثمانؓ کو شہید کیا تھا ـ یہ لوگ چونکہ علیؓ کی زندگی میں بھی ان سے متعلق رہے اور ان کی شہادت کے بعد بھی بظاہر ان کی عقیدت و محبت کا دم بھرتے رہتے تھے ـ اس بناء پر ان کی مذمت کو راویوں نے علیؓ کی مذمت کو مستلزم سمجھ لیا ـ
مزید براں اس الزام کی تغلیط خود علیؓ کے قریب ترین اعزاز و اقارب کے طرزِ عمل سے ہو جاتی ہے ـ تاریخ میں نمایاں طور پر موجود ہے کہ حسنؓ ، حسینؓ ، علیؓ کے بیٹے ، عبد اللہ بن جعفرؓ ، عبداللہ بن عباسؓ وغیرہ معاویہؓ و یزید سے ہزارواں بلکہ لاکھوں روپے کے باقاعدہ سالانہ وظائف اور ہر آمدو رفت کے موقع پر الگ عطیات و تحائف وصول کرتے تھے ـ علیؓ کے ایک اور صاحبزادے '' محمد بن حنفیہ '' یزید کے پاس جا کر قیام کرتے ـ عبدالمطلب بن ربیعہ دمشق میں ہی جا کر اقامت پذیر ہوگئے تھے ـ ان کے اور یزید کے مابین خوشگوار تعلقات کا اندازا اس بات سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے کہ مرتے وقت انہوں نے یزید کو اپنا وصی بنایا ـ حسینؓ کے صاحبزادے زین العابدین کا یزید کے ساتھ تعلق کا یہ حال تھا کہ ایک ہی دسترخوان پر بیٹھ کر کھانا تناول فرماتے ،اسی طرح ان کا تعلق یزید رحمہ اللہ کے بعد بننے والےخلفاء مروان اور عبدالملک بن مروان کے ساتھ رہا۔((البداية والنهاية ج 8،ص 37،41،137,138,150،151،213،214،230،233،258،ج9، ص104،106))
یہ سمجھنا بہت ہی مشکل ہے کہ یہ تمام حضرات ایمانی غیرت اور خاندانی حمیت سے عاری تھے ـ ان کے خاندان کے سربراہ اور معزز ترین فرد علیؓ پر پوری مملکت میں '' سب و شتم کی بوچھاڑ '' ہوتی رہی ـ لیکن ان میں سے کسی نے معاویہؓ سے جا کر یہ نہیں کہا کہ آپ کے حکم سے یہ کیا بیہودگی ہو رہی ہے یا کم ازکم بطور احتجاج ان سے اپنے تعلقات منقطع اور وظائف لینے سے انکار کر دیا ہوتا ـ کچھ اور نہیں تو یہ تو وہ کر ہی سکتے تھے ،اور ایسی صورت میں ان کے ایمان ، کردار اور خاندانی غیرت کی طرف سے ایسا کرنا ضروری تھا ـ لیکن انھوں نے ایسا نہیں کیا تو اب دو ہی صورتیں ہیں یا تو وہ لوگ ہی اتنی اخلاقی جرات ، ایمانی غیرت اور خاندانی عصبیت و حمیت سے نعوذ باللہ عاری تھے ، یا یہ تمام افسانہ ہی طبع زاد ہے جس میں کوئی حقیقت نہیں ، پہلی صورت میں جس کوقبول ہو ـ وہ سب و شتم کا افسانہ صحیح سمجھتا ہے ، ہمارے نزدیک دوسری صورت ہی قابل قبول اور قرین صحت ہے ـ
ان تمام حقائق کے باوجود الزام کی صحت پر ہی اگر کسی کو اصرارہو ، تو اس کو یاد رکھنا چاہے کہ اس کا آغاز دورِ ملوکیت سے نہیں ، خلافتِ راشدہ سے ہوا ہے ، معاویہؓ کے طرزِ عمل سے نہیں خود علیؓ نے سب سے پہلے اس '' مکروہ بدعت '' کا آغاز کیا ہے ـ کتبِ تاریخ میں موجود ہے کہ تحکیم کے بعد علیؓ نے معاویہؓ ،عمروبن العاصؓ وغیرہ پر لعنت کی بوچھاڑ کردی ـ صبح کی نماز میں علیؓ بایں طور پر دعائے قنوت پڑھتے :''ائے اللہ ! معاویہ، عمروبن العاص ، ابوالاعور السلمی ، حبیب ، عبدالرحمن بن خالد ،ضحاک بن قیس اور ولید ان سب پر لعنت فرما"معاویہؓ کو جب یہ اطلاع پہنچی تو اسکے جواب میں انہوں نے قنوت میں علیؓ ، ابن عباسؓ ، حسنؓ ، حسین ؓ پر لعنت کہنی شروع کردیـ(الطبري : ج5،ص 71-الكامل ،ج3، 333-ابن خلدون ج2، ص-1117)
ظاہر ہے یہ روایت مولانا کے نزدیک صحیح ہونی چاہے ، اس کے بعد یہ مکروہ بدعت ملوکیت کا نتیجہ قراردی جا سکتی ہے ـ اس کانمایاں ثبوت خود خلافت راشدہ میں ہی پایا جاتا ہے یا مولانا کے الفاظ میں یوں کہ لیجئے سیاسی اغراض کی خاطر علیؓ نے شریعت کی عائد کردہ پابندی کو توڑ ڈالنے اور اس کی باندھی ہوئی حد کوپھاند جانے میں کوئی تامل نہ کیا اور حرام و حلال کی کوئی تمیز انہوں نے روا نہ رکھی'' اگر مولانا مودوی تاریخ کی بعض ضعیف روایات کو بنیار بنا کر معاویہؓ کے لیے اس قسم کے الفاظ استعمال کرنے میں جھجک محسوس نہیں کرتے تو دوسرے حضرات یہی الفاظ خود خلفائے راشدینؓ کے حق میں بھی استعمال کر سکتے ہیں ان کو اس سے روکنے کی کوئی معقول دلیل نہیں دی جا سکتی ـ

حضرت علی رضی اللہ عنہ پر سب و شتم ؟
خلافت و ملوکیت کی تاریخی اور شرعی حیثیت
 

وجاہت

رکن
شمولیت
مئی 03، 2016
پیغامات
421
ری ایکشن اسکور
44
پوائنٹ
45
قتیبہ بن سعید، عبدالعزیز بن ابی حازم سے، وہ اپنے والد سے اور وہ حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ مروان کے خاندان کا ایک آدمی مدینہ منورہ میںکسی سرکاری عہدے پر مقرر کیا گیا۔ اس نے حضرت سہل بن سعد کو بلایا اور انہیں حکم دیا کہ وہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کو برا کہیں۔ حضرت سہل نے ایسا کرنے سے انکار کر دیا۔ اس عہدے دار نے حضرت سہل سے کہا: "اگرآپ انکار کر رہے ہیں تو یہی کہہ دیجیے کہ ابو تراب پر اللہ کی لعنت ہو۔" حضرت سہل فرمانے لگے: "علی کو تو ابو تراب سے زیادہ کوئی نام محبوب نہ تھا۔ جب انہیں اس نام سے پکارا جاتا تو وہ خوش ہوتے تھے۔ " وہ عہدے دار حضرت سہل سے کہنے لگا: "یہ بتائیے کہ ان کا نام ابو تراب کیوں رکھا گیا۔"[1]۔۔۔ (اس کے بعد حضرت سہل رضی اللہ عنہ نے وہی بات سنائی جو اوپر بیان ہوئی ہے۔)

اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ مروان کے خاندان کا ایک شخص ، جس کا نام معلوم نہیں، حضرت علی رضی اللہ عنہ سے بغض رکھتا تھا۔ روایت میں نہ تو اس کا نام مذکور ہے اور نہ ہی اس کا عہدہ۔یہ وہ واضح ہے کہ وہ گورنر نہیں تھا۔ پھر اس نے اپنے بغض کا اظہار برسر منبر نہیں بلکہ نجی محفل میں کیا۔ اس دور میں چونکہ ناصبی فرقے کا ارتقاء ہو رہا تھا، اس وجہ سے ایسے لوگوں کی موجودگیکا امکان موجود ہے۔ تاہم یہ نہ تو حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کا مقرر کردہ گورنر تھا اور نہ ہی کوئی اور اہم عہدے دار۔ کسی چھوٹے موٹے عہدے پر فائز رہا ہو گا اور اس کے زعم میں وہ حضرت علی رضی اللہ عنہ پر سب و شتم کروانے چلا تھا لیکن حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ نے اسے منہ توڑ جواب دے کر خاموش کر دیا۔مروان بن حکم سے متعلق طبری کی یہ روایت بھی قابل غور ہے:

علی بن حسین رضی اللہ عنہما نے مروان کے ساتھ یہ سلوک کیا تھا کہ جس زمانے میں بنو امیہ مدینہ سے نکالے گئے تھے، انہوں نے مروان کے مال و متاع کو اور ان کی بیوی ام ابان بنت عثمان رضی اللہ عنہ کو لٹنے سے بچا لیا تھا اور اپنے گھر میں پناہ دی تھی۔ پھر جب ام ابان طائف کی طرف روانہ ہوئیں تو علی بن حسین نے ان کی حفاظت کے لیے اپنے بیٹے عبداللہ کو ان کے ساتھ کر دیا تھا۔ مروان نے اس احسان کا شکریہ بھی ادا کیا تھا۔ [2]

اس روایت میں 63/683 میں ہونے والی اہل مدینہ کی بغاوت کا ذکر ہے۔ جب اہل مدینہ نے یزید کے خلاف بغاوت کی تو انہوں نے مدینہ میں مقیم بنو امیہ پر حملے کیے۔ اس موقع پر حضرت علی بن حسین زین العابدین رضی اللہ عنہما سامنے آئے اور انہوں نے مروان اور ان کی اہلیہ کو گھر میں پناہ دی۔ اگر مروان بن حکم ، برسر منبر حضرت علی رضی اللہ عنہ کو گالیاں دیتے، تو کیا انہی حضرت علی کے پوتے زین العابدین انہیں اپنے گھر میں پناہ دیتے؟ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی دو بیٹیوں کی شادیاں مروان کے دو بیٹوں معاویہ اور عبدالملک سے ہوئیں۔ اس کے علاوہ آپ کی متعدد پوتیوں کی شادیاں مروان کے گھرانے میں ہوئی۔ [3] اگر مروان بن حکم نے ایسی حرکت کی ہوتی تو پھر کم از کم یہ رشتے داریاں ہمیں نظر نہ آتیں۔

[1]مسلم، کتاب فضائل الصحابہ، حدیث 2409
[2]طبری۔ 4/1-263
[3]ابن حزم، جمہرۃ الانسابالعرب۔ 38, 87۔

کیا معاویہؓ نے علیؓ پرسب و شتم کا حکم دیا تھا؟

تحریر: شیخ صلاح الدین یوسف حفظ اللہ ـ
(خلافت و ملوکیت کی شرعی حیثیت:صفحہ 552)


مولانا مودودی نے اپنی مشہور زمانہ متنازعہ کتاب '' خلافت و ملوکیت '' میں کاتب وحی ، جلیل القدر صحابی ،ام المؤمنین حبیبہ بنت سفیان رضی اللہ عنہاکے بھائی معاویہ رضی اللہ عنہ پر یہ گھناؤنا الزام عائد کیا کہ ان کے دورِخلافت میں علیرضی اللہ عنہ اور آل بیت پر سب و شتم کی بدعت ایجاد ہوئیں ، معاویہ رضی اللہ عنہ نے اپنے گورنروں کو حکم دیا تھا کہ وہ خطبے میں علی رضی اللہ عنہ کو برا بھلا کہا کریں ـ شیخ صلاح الدین یوسف حفظ اللہ نے اپنی کتاب (خلافت و ملوکیت کی شرعی حیثیت)میں مسکت جواب دیا ہے ـ لکھتے ہیں :
تیسری مثال مولانا نے جو دی وہ یہ ہے کہ :
''ایک اور نہایت مکروہ بدعت معاویہؓ کے عہد میں شروع ہوئی کہ وہ خود اور ان کے حکم سے ان کے تمام گورنر خطبوں میں برسرِ منبرعلیؓ پر سب و شتم کی بوچھاڑ کرتے تھے ـ حتٰی کے مسجد نبوی میں منبر رسول پر عین روضہ نبوی کے سامنے اللہ کے نبی کے محبوب ترین عزیز کو گالیاں دی جاتی تھیں ـ اور علیؓ کی اولاد اور ان کے قریب ترین رشتہ دار اپنے کانوں سے سنتے تھے ـ کسی کے مرنے کے بعد اس کو گالیاں دینا شریعت تو درکنار انسانی اخلاق کے بھی خلاف تھا ـ اور خاص طور پر جمعہ کے خطبے کو اس گندگی سے آلودہ کرنا تو دین واخلاق کے لحاظ سخت گھناؤنا فعل تھا ـ عمربن عبدالعزیز نے آکر اس روایت کو بدلا''(خلافت و ملوکیت ص: 147)

گویا معاویہؓ اور دوسرے ان کے کئی صحابی گورنر ، دین واخلاق اور شریعت تو درکرنا ، انسانی اخلاق سے بھی عاری تھے ـ انا للہ وانا الیہ راجعون ـ افسوس اتنا سنگین اور گھناؤنا الزام عائد کرنے سے پہلے جن مضبوط دلائل کی ضرورت تھے ـ اس کا اہتمام نہیں کیا گیا اور انتہائی مبالغہ آمیزی کے ساتھ رائی کا پہاڑ بنا دیا گیا ہے ـ
مولانا مودوی نے اس کتاب پر جن کتابوں کے حوالے دئیے ہیں ان میں کسی میں ادنیٰ اشارہ بھی اس امر کے ثبوت میں نہیں ملتا بلکہ معاویہؓ بھی برسرِ منبر علیؓ پر سب و شتم کی بوچھاڑ کرتے تھے
دوسرا الزام کہ انھوں نے اپنے تمام گورنروں کو بھی ایسا کرنے کا حکم دیا ـ یہ بھی افترا کے ضمن میں آتا ہے ، اس کا کوئی ثبوت بھی محولہ صفحات میں نہیں ـ مولانا کے دئیے ہوئے حوالوں میں تین افراد کا نام ملتا ہے جو ایسا کرتے تھے ـ ان میں سے ایک گورنر ولید بن عبدالملک کے زمانے کے ہیں ، جو یمن کے گورنر تھے ـ یہ واقعہ 90ھـــ کے ہیں جو یمن کے گورنر تھے ـ یہ واقعہ 90ھــ یعنی معاویہؓ کی وفات سے تیس سال بعد کا ہے ، انہیں بھی معاویہؓ کے گورنروں میں شمار کرنا تعجب خیز امر ہے ، نیز ان صاحب کے متعلق وہیں یہ صراحت بھی ہے کہ انہوں نے اپنے ماتحت صوبے کے ایک حاکم کوبھی ایسا کرنے کا حکم دیا لیکن اس نے ایسا کرنے سے نہ صرف انکار کردیا بلکہ بَرملاکہا '' جو علیؓ پر طعن کرتا ہے وہ ملعون ہے "(البداية والنهاية ج 8،ص 80)
دوسرے صاحب جو ایسا کرتے تھے وہ مروان ہیں ، جو واقعی معاویہؓ کے مقرر کردہ گورنر تھے لیکن محولہ صفحات میں کہیں بھی یہ نہیں کہ معاویہؓ نے انہیں علیؓ پر سب و شتم کا حکم دیا تھا ، ہاں یہ ضرور ہے کہ وہ اپنے زمانہ گورنری میں علیؓ پر سب و شتم کرتے تھے ـ ظاہر ہے ، اگریہ صحیح ہے تو معاویہؓ کے حکم سے نہیں بلکہ از خود ایسا کرتے تھے ـ جس پر واضح قرینہ یہ ہے کہ معاویہؓ نے انہیں معزول کر کے ان کی جگہ سعید بن العاص کو مقرر کیا ـ انہوں نے کبھی علیؓ پر سب و شتم نہیں کیا(البداية والنهاية ج 8،ص 84) اگر معاویہؓ کی طرف سے گورنروں کویہ حکم ہوتا تو یہ بھی ایسا کرنے پر مجبور ہوتے ـ
ثانیا: بعض علمائے اہل سنت نے صراحت کی ہے کہ مروان کے متعلق جو اس قسم کی روایات آتی ہیں کہ وہ علیؓ پر یا اہل بیت پر سب و شتم کرتے تھے ـ ان میں سے کوئی بھی صحیح نہیں ـ لم یصح شی من ذلک(تطهير الجنان .ص 54)ـ
ثالثا : اس کی صحت اگر کسی درجے تسلیم کرلی جائے ، تب یہ چیز وضاحت طلب ہے کہ سب و شتم کی نوعیت کیا ہے ـ سب و شتم ایک عام لفظ ہے جو کئی موقعوں پر استعمال ہوتا ہے اس کی حقیقی معنی گالی دینے کے ہیں ـ اس میں بھی یہ استعمال ہوتا ہے ـ کسی کو گالی نہ دی جائے ـ لیکن اس پر نارواء تنقید کی جائے یا اپنے مخالفین کی پالیسیوں کو مضوع بحث بنایا جائے اس پر بھی سب و شتم کا اطلاق کردیا جاتا ہے ـ خود مولانا مودودی نے صحابہ کرامؓ کے اقدامات کو جو تنقید کا نشانہ بنایا ہے ، اہل سنت کے حلقوں میں تو اس کو صحابہ پرسب و شتم قراردیا ہی گیا ہے ـ خود شیعوں نے بھی اسے صحابہؓ پر سب و شتم قرار دیا ہے (هفت روزه : رضاكار لاهور ، 16 جولائى 1965)
ظاہر ہے مولانا نے صحابہؓ کو گالیاں نہیں دی ہیں ، ان کے بہت سے اقدامات کو غلط کہا ہے ، بلکل یہی کیفیت مروان کے متعلق سمجھی جانی چاہے ، کتب تاریخ میں اس کی صراحت ہوتی تب تو اس کی نوعیت بلکل واضح ہوتی ، کتب تاریخ اس بارے میں خاموش ہیں تو یہی سمجھنا چاہے کہ وہ علیؓ پر اس انداز کی تنقید ان کے بعض اقدامات کی وجہ سے کرتے ہونگے ـ جیسے خود مولانا نے عثمانؓ ،عمروبن العاصؓ ،عائشہؓ اور معاویہؓ کے اقدامات پر تنقید کی ہے ، یا وہ ان کا نام اس عزت و احترام کے ساتھ نہ لیتے ہونگے جن کے فی الواقع وہ مستحق تھے ـ جیسے خود مولانا نے ان صحابہؓ کو کہیں بھی عزت و احترام کے لفظ سے یاد نہیں کیا جنہیں عثمانؓ نے گورنر بنایا تھا ـ ظاہر ہے یہ بھی ان کی ایک گونہ اہانت ہے ، جس کو سب و شتم سے تعبیر کیا جا سکتا ہے ـ صحیح بخاری کی ذیل کی روایت سے مروانؓ کے '' سب و شتم '' کی یہی نوعیت معلوم ہوتی ہے ـ
'' ایک آدمی سہیل بن سعدؓ کے پاس آیا اور کہنے لگا کہ ، فلاں امیرِ مدینہ برسرِ منبر علیؓ کا ذکر غیر مناسب الفاظ میں کرتا ہے ـسہیل نے اس سے پوچھا کہ اس نے کیا کہا ـ اس نے کہاکہ '' وہ انہیں '' ابوتراب'' کہتا ہے '' سہیلؓ یہ سب کرہنس پڑے اور فرمایا : بخدا یہ نام تو ان کا خود نبیؓ نے رکھا ہے اور آپ کو ان کے اس نام سے زیادہ اور کوئی نام پیارا نہ تھا "(صحيح بخاري ، باب : مناقب علي)
اس روایت سے یہ صاف معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت مسلمانوں ضمیر بیدار تھا اور صحابہ کرامؓ کی عزت و ناموس کا انہیں بخوبی احساس تھا ـ کھلم کھلا سب و شتم تو درکرنا ، ان کا نام بھی اگر کوئی اس عزت و احترام کے ساتھ نہ لیتا تو جس کے وہ مستحق تھے ، تو یہ چیز بھی ان پر گراں گزرتی تھی ـ جس پر وہ نکیر ضروری سمجھتے تھے ـ
تیسرے صاحب جن پر علیؓ پر سب و شتم کا الزام منسوب ہے ، مولانا کے دیے ہوئے حوالوں کی رو سے مغیرہ بن شعبہؓ ہیں ـ یہ وہ واحد گورنر ہیں جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ معاویہؓ نے ان کو ایسا کرنے کا حکم دیا تھا ـ روایت کے اہم حصے ملاحظہ فرمائیں ،معاویہؓ نے مغیرہؓ کو تاکید کی کہ :
"علیؓ پر سب و شتم اور ان کی مذمت میں اور عثمانؓ کے لیے دعائے رحمت و مغفرت کرتے رہنا ـ علیؓ کے طرفداروں کے عیوب کی نشاندہی اور ان کو اپنے سے دور رکھنا ـ اصحاب عثمانؓ کی تعریف اور ان کو اپنے قریب رکھنا ـ ابومخنف کہتا ہے کہ مغیرہؓ کوفے میں سات سال اور کچھ مہینے گورنر رہے ـ سیرت و کردار میں سب سے بہتر اور سب زیادہ عافیت پسند تھے البتہ وہ علیؓ کی مذمت اور ان پر تنقید اور قاتلینِ عثمان کی عیب گری نیز عثمانؓ کے لیے دعائے رحمت و مغفرت اور ان کے اصحاب کی پاکیزگی بیان کرنا نہیں چھوڑتے تھے ـ ہمیشہ ان کا یہی طرزِ رہا ، اپنے آخری دورِ امارت میں ایک مرتبہ وہ کھڑے ہوئے اور علیؓ و عثمانؓ کے متعلق وہی کچھ کہا جو پہلے کہا کرتے تھے ـ انہوں نے کہا کہ '' ائے اللہ ! عثمانؓ پر رحم فرما اور ان سے درگزر فرما اور ان کو ان کے بہتر عمل کی جزا دے ـ انہوں نے تیری کتاب پر عمل کیا ، تیرے نبی کی سنت کی پیروی کی ـ ہمارے کلمہ کو جمع کیا اور ہمارے خونوں کی حفاظت کی اور خود مظلومانہ قتل ہو گئے ـ یا اللہ ! ان کے مددگاروں ، دوستوں ، ان سے محبت کرنے والوں اور ان کے خون کا مطالبہ کرنے والوں پر رحم فرما ـ اس کے بعد قاتلینِ عثمان کے لیے بددعا کی "(الطبري : ج ، 5- ص 253 -254)
اس روایت میں ضرور یہ صراحت ہے کہ معاویہؓ نے مغیرہؓ کو علیؓ پر سب و شتم کرنے کی تاکید کی ـ اور مغیرہؓ نے ایسا کرتےتھے ، لیکن ہمیں سوچنا چاہے کہ یہ دونوں حضرات ممتاز صحابی ہیں ـ دونوں سے یہ مستبعد ہے کہ وہ اپنے ہی ایک جلیل القدر ساتھی کے ساتھ اور وہ بھی اس کے مرنے کے بعد ایسا سلوک کرتے ـ اگر معاویہؓ سیاسی کش مکش کی بناء پر مغیرہؓ کو ایسا کرنے کا حکم دیتے تو مغیرہؓ یقننا ایسا کرنے سے انکار کردیتے ـ وہ فطرتا صلح جو اور عافیت پسند تھے ـ ان کے اس مزاج کی وضاحت اس روایت میں موجود ہے اور اس سے قبل بھی ان کی زندگی سے ثبوت ملتا ہے ـ جنگ جمل اور صفین کے معرکہ آرائیوں میں یہ مجتنب رہے ـ دونوں فریقوں میں سے کسی فریق کا انہوں نے ساتھ نہیں دیا ـ ایسے شخص کے متعلق یہ باور کرنا کہ ایک دم ان کے مزاج میں اتنی تبدیلی آگئی وہ برسرِ منبر علیؓ پر سب و شتم کی بوچھاڑ کرتے رہے نا ممکن ہے ـ
دوسرے خود اس روایت میں علیؓ کی مذمت اور ان پر سب و شتم کی حقیقت موجود ہے ـ روایت کے آخری کشیدہ فقرے راوی نے اسی طرزِ عمل کی وضاحت میں ذکر کیے ہیں ـ جو انہوں نے علیؓ و عثمان کے متعلق اختیار کئے رکھا ـ اس میں کہیں علیؓ پر سب و شتم نہیں ،صرف عثمانؓ اور ان کے طرفداروں کا ذکر ہے اور آخر میں قاتلینِ عثمان کے لیے بددعا ہے ـ
تیسرے قاتلینِ عثمان کے سلسلے میں علیؓ نے جوغیر واضح طرزِ عمل اختیار کیا تھا ـ اکابرصحابہؓ کی ایک معقول تعداد اسے پسند نہیں کرتی تھی ، جن میں ام المؤمنین عائشہ صدیقہ مطہرہؓ ،طلحہؓ ، زبیرؓ اور معاویہؓ نمایاں تھے ـ معاویہؓ نے فی الواقع یہ حکم دیا تھا تو اس مطلب یہی تھا کہ علیؓ کی اس پالیسی کی وضاحت کرتے رہنا ـ اس لیے ساتھ انہوں نے علیؓ کے طرفداروں کے عیوب کی نشاندہی کرنے کے بھی تاکید کی کیونکہ ایک شرپسند گروہ علیؓ کا نام لے کر انتشار و تخریب کی روش اختیار کئے ہوئے تھا ـ خود علیؓ کی حیات میں ان کی خلافت پر جو لوگ چھائے ہوئے تھے ، وہ وہی باغی تھے ، جنہوں نے عثمانؓ کو شہید کیا تھا ـ یہ لوگ چونکہ علیؓ کی زندگی میں بھی ان سے متعلق رہے اور ان کی شہادت کے بعد بھی بظاہر ان کی عقیدت و محبت کا دم بھرتے رہتے تھے ـ اس بناء پر ان کی مذمت کو راویوں نے علیؓ کی مذمت کو مستلزم سمجھ لیا ـ
مزید براں اس الزام کی تغلیط خود علیؓ کے قریب ترین اعزاز و اقارب کے طرزِ عمل سے ہو جاتی ہے ـ تاریخ میں نمایاں طور پر موجود ہے کہ حسنؓ ، حسینؓ ، علیؓ کے بیٹے ، عبد اللہ بن جعفرؓ ، عبداللہ بن عباسؓ وغیرہ معاویہؓ و یزید سے ہزارواں بلکہ لاکھوں روپے کے باقاعدہ سالانہ وظائف اور ہر آمدو رفت کے موقع پر الگ عطیات و تحائف وصول کرتے تھے ـ علیؓ کے ایک اور صاحبزادے '' محمد بن حنفیہ '' یزید کے پاس جا کر قیام کرتے ـ عبدالمطلب بن ربیعہ دمشق میں ہی جا کر اقامت پذیر ہوگئے تھے ـ ان کے اور یزید کے مابین خوشگوار تعلقات کا اندازا اس بات سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے کہ مرتے وقت انہوں نے یزید کو اپنا وصی بنایا ـ حسینؓ کے صاحبزادے زین العابدین کا یزید کے ساتھ تعلق کا یہ حال تھا کہ ایک ہی دسترخوان پر بیٹھ کر کھانا تناول فرماتے ،اسی طرح ان کا تعلق یزید رحمہ اللہ کے بعد بننے والےخلفاء مروان اور عبدالملک بن مروان کے ساتھ رہا۔((البداية والنهاية ج 8،ص 37،41،137,138,150،151،213،214،230،233،258،ج9، ص104،106))
یہ سمجھنا بہت ہی مشکل ہے کہ یہ تمام حضرات ایمانی غیرت اور خاندانی حمیت سے عاری تھے ـ ان کے خاندان کے سربراہ اور معزز ترین فرد علیؓ پر پوری مملکت میں '' سب و شتم کی بوچھاڑ '' ہوتی رہی ـ لیکن ان میں سے کسی نے معاویہؓ سے جا کر یہ نہیں کہا کہ آپ کے حکم سے یہ کیا بیہودگی ہو رہی ہے یا کم ازکم بطور احتجاج ان سے اپنے تعلقات منقطع اور وظائف لینے سے انکار کر دیا ہوتا ـ کچھ اور نہیں تو یہ تو وہ کر ہی سکتے تھے ،اور ایسی صورت میں ان کے ایمان ، کردار اور خاندانی غیرت کی طرف سے ایسا کرنا ضروری تھا ـ لیکن انھوں نے ایسا نہیں کیا تو اب دو ہی صورتیں ہیں یا تو وہ لوگ ہی اتنی اخلاقی جرات ، ایمانی غیرت اور خاندانی عصبیت و حمیت سے نعوذ باللہ عاری تھے ، یا یہ تمام افسانہ ہی طبع زاد ہے جس میں کوئی حقیقت نہیں ، پہلی صورت میں جس کوقبول ہو ـ وہ سب و شتم کا افسانہ صحیح سمجھتا ہے ، ہمارے نزدیک دوسری صورت ہی قابل قبول اور قرین صحت ہے ـ
ان تمام حقائق کے باوجود الزام کی صحت پر ہی اگر کسی کو اصرارہو ، تو اس کو یاد رکھنا چاہے کہ اس کا آغاز دورِ ملوکیت سے نہیں ، خلافتِ راشدہ سے ہوا ہے ، معاویہؓ کے طرزِ عمل سے نہیں خود علیؓ نے سب سے پہلے اس '' مکروہ بدعت '' کا آغاز کیا ہے ـ کتبِ تاریخ میں موجود ہے کہ تحکیم کے بعد علیؓ نے معاویہؓ ،عمروبن العاصؓ وغیرہ پر لعنت کی بوچھاڑ کردی ـ صبح کی نماز میں علیؓ بایں طور پر دعائے قنوت پڑھتے :''ائے اللہ ! معاویہ، عمروبن العاص ، ابوالاعور السلمی ، حبیب ، عبدالرحمن بن خالد ،ضحاک بن قیس اور ولید ان سب پر لعنت فرما"معاویہؓ کو جب یہ اطلاع پہنچی تو اسکے جواب میں انہوں نے قنوت میں علیؓ ، ابن عباسؓ ، حسنؓ ، حسین ؓ پر لعنت کہنی شروع کردیـ(الطبري : ج5،ص 71-الكامل ،ج3، 333-ابن خلدون ج2، ص-1117)
ظاہر ہے یہ روایت مولانا کے نزدیک صحیح ہونی چاہے ، اس کے بعد یہ مکروہ بدعت ملوکیت کا نتیجہ قراردی جا سکتی ہے ـ اس کانمایاں ثبوت خود خلافت راشدہ میں ہی پایا جاتا ہے یا مولانا کے الفاظ میں یوں کہ لیجئے سیاسی اغراض کی خاطر علیؓ نے شریعت کی عائد کردہ پابندی کو توڑ ڈالنے اور اس کی باندھی ہوئی حد کوپھاند جانے میں کوئی تامل نہ کیا اور حرام و حلال کی کوئی تمیز انہوں نے روا نہ رکھی'' اگر مولانا مودوی تاریخ کی بعض ضعیف روایات کو بنیار بنا کر معاویہؓ کے لیے اس قسم کے الفاظ استعمال کرنے میں جھجک محسوس نہیں کرتے تو دوسرے حضرات یہی الفاظ خود خلفائے راشدینؓ کے حق میں بھی استعمال کر سکتے ہیں ان کو اس سے روکنے کی کوئی معقول دلیل نہیں دی جا سکتی ـ

حضرت علی رضی اللہ عنہ پر سب و شتم ؟
خلافت و ملوکیت کی تاریخی اور شرعی حیثیت
اتنی لمبی چوڑی تفصیل کی ضرورت نہیں ہے بھائی - آپ نے موقف دے دیا اوپر -

حضرت علی رضی الله عنہ پر سب و شتم ثابت نہیں ہے البتہ مروان کے دور میں بعض شر پسند یہ کرتے تھے مسلم کی یہ حدیث ہے

مورخین ابن اثیر ابن کثیر نے انہی روایات کو آپس میں ملا کر جرح و تعدیل پر غور کیے بغیر یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ باقاعدہ معاویہ رضی الله عنہ اس کو کرواتے تھے جو صحیح نہیں ہے۔
الله آپ کو جزایۓ خیر دے - امین
 
سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔
Top