• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

انجینیئر محمد علی مرزا کے ایک پمفلٹ "واقعہ کربلا ٧٢ صحیح احادیث کی روشنی میں" کا تحقیقی جائزہ

عمر اثری

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 29، 2015
پیغامات
4,404
ری ایکشن اسکور
1,128
پوائنٹ
412
شمولیت
اکتوبر 27، 2017
پیغامات
42
ری ایکشن اسکور
8
پوائنٹ
41
السلام عليكم و رحمۃ اللہ وبرکاتہ!
کوئی اہل علم بھائی صحیح مسلم کی اس حدیث کے الفاظ امر معاوية بن ابي سفيان سعدا، فقال: ما منعك ان تسب ابا التراب؟ کا مطلب سمجھا دیں انجینئر مرزا کے ماننے والے نے اس بارے مجھ سے سوال پوچھا ہے ، پوری درج ذیل ہے
4. باب مِنْ فَضَائِلِ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ:
4. باب: سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی بزرگی کا بیان۔
حدیث نمبر: 6220
حدثنا قتيبة بن سعيد ، ومحمد بن عباد ، وتقاربا في اللفظ، قالا: حدثنا حاتم وهو ابن إسماعيل ، عن بكير بن مسمار ، عن عامر بن سعد بن ابي وقاص ، عن ابيه ، قال: " امر معاوية بن ابي سفيان سعدا، فقال: ما منعك ان تسب ابا التراب؟ فقال: اما ما ذكرت ثلاثا، قالهن له رسول الله صلى الله عليه وسلم، فلن اسبه لان تكون لي واحدة منهن احب إلي من حمر النعم، سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول له: خلفه في بعض مغازيه، فقال له علي: يا رسول الله، خلفتني مع النساء والصبيان، فقال له رسول الله صلى الله عليه وسلم: اما ترضى ان تكون مني بمنزلة هارون من موسى، إلا انه لا نبوة بعدي، وسمعته يقول يوم خيبر: لاعطين الراية رجلا يحب الله ورسوله، ويحبه الله ورسوله "، قال: فتطاولنا لها، فقال: ادعوا لي عليا، فاتي به ارمد فبصق في عينه، ودفع الراية إليه ففتح الله عليه، ولما نزلت هذه الآية: فقل تعالوا ندع ابناءنا وابناءكم سورة آل عمران آية 61، دعا رسول الله صلى الله عليه وسلم عليا، وفاطمة، وحسنا، وحسينا، فقال: اللهم هؤلاء اهلي.
‏‏‏‏ سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، سیدنا معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہ نے سیدنا سعد رضی اللہ عنہ کو امیر کیا تو کہا: تم کیوں برا نہیں کہتے ابوتراب کو؟ سیدنا سعد رضی اللہ عنہ نے کہا: میں تین باتوں کی وجہ سے، جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمائیں سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو برا نہیں کہوں گا، اگر ان باتوں میں سے ایک بھی مجھ کو حاصل ہو تو وہ مجھے لال اونٹوں سے زیادہ پسند ہے، میں نے سنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جب آپ نے کسی لڑائی پر جاتے وقت ان کو مدینہ میں چھوڑا، انہوں نے کہا: یا رسول اللہ! آپ نے مجھے عورتوں اور بچوں کے ساتھ چھوڑ دیا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم اس بات سے راضی نہیں ہو کہ تمہارا درجہ میرے پاس ایسا ہو جیسا ہارون علیہ السلام کا تھا موسیٰ علیہ السلام کے پاس، پر اتنا ہے کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں ہے .“ اور میں نے سنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے خیبر کے دن: ”کل میں ایسے شخص کو نشان دوں گا جو محبت رکھتا ہے اللہ اور اس کے رسول سے اور اللہ اور رسول بھی محبت رکھتا ہے اس سے .“ یہ سن کر ہم انتظار کرتے رہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”علی کو بلاؤ.“ وہ آئے تو ان کی آنکھیں دکھتی تھیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی آنکھ میں تھوک ڈالا اور نشان (علم) ان کے حوالے کیا، پھر اللہ تعالیٰ نے فتح دی ان کے ہاتھ پر اور جب یہ آیت اتری «نَدْعُ أَبْنَاءَنَا وَأَبْنَاءَكُمْ» ”بلائیں ہم اپنے بیٹوں کو اور تم اپنے بیٹوں کو۔“ (یعنی آیت مباہلہ) تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بلایا سیدنا علی رضی اللہ عنہ اور سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا اور حسن اور حسین رضی اللہ عنہما کو، پھر فرمایا: ”یا اللہ! یہ میرے اہل ہیں۔“
 

مدثر

رکن
شمولیت
اکتوبر 05، 2017
پیغامات
5
ری ایکشن اسکور
1
پوائنٹ
32
السلام عليكم و رحمۃ اللہ وبرکاتہ!
کوئی اہل علم بھائی صحیح مسلم کی اس حدیث کے الفاظ امر معاوية بن ابي سفيان سعدا، فقال: ما منعك ان تسب ابا التراب؟ کا مطلب سمجھا دیں انجینئر مرزا کے ماننے والے نے اس بارے مجھ سے سوال پوچھا ہے ، پوری درج ذیل ہے
4. باب مِنْ فَضَائِلِ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ:
4. باب: سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی بزرگی کا بیان۔
حدیث نمبر: 6220
حدثنا قتيبة بن سعيد ، ومحمد بن عباد ، وتقاربا في اللفظ، قالا: حدثنا حاتم وهو ابن إسماعيل ، عن بكير بن مسمار ، عن عامر بن سعد بن ابي وقاص ، عن ابيه ، قال: " امر معاوية بن ابي سفيان سعدا، فقال: ما منعك ان تسب ابا التراب؟ فقال: اما ما ذكرت ثلاثا، قالهن له رسول الله صلى الله عليه وسلم، فلن اسبه لان تكون لي واحدة منهن احب إلي من حمر النعم، سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول له: خلفه في بعض مغازيه، فقال له علي: يا رسول الله، خلفتني مع النساء والصبيان، فقال له رسول الله صلى الله عليه وسلم: اما ترضى ان تكون مني بمنزلة هارون من موسى، إلا انه لا نبوة بعدي، وسمعته يقول يوم خيبر: لاعطين الراية رجلا يحب الله ورسوله، ويحبه الله ورسوله "، قال: فتطاولنا لها، فقال: ادعوا لي عليا، فاتي به ارمد فبصق في عينه، ودفع الراية إليه ففتح الله عليه، ولما نزلت هذه الآية: فقل تعالوا ندع ابناءنا وابناءكم سورة آل عمران آية 61، دعا رسول الله صلى الله عليه وسلم عليا، وفاطمة، وحسنا، وحسينا، فقال: اللهم هؤلاء اهلي.
‏‏‏‏ سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، سیدنا معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہ نے سیدنا سعد رضی اللہ عنہ کو امیر کیا تو کہا: تم کیوں برا نہیں کہتے ابوتراب کو؟ سیدنا سعد رضی اللہ عنہ نے کہا: میں تین باتوں کی وجہ سے، جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمائیں سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو برا نہیں کہوں گا، اگر ان باتوں میں سے ایک بھی مجھ کو حاصل ہو تو وہ مجھے لال اونٹوں سے زیادہ پسند ہے، میں نے سنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جب آپ نے کسی لڑائی پر جاتے وقت ان کو مدینہ میں چھوڑا، انہوں نے کہا: یا رسول اللہ! آپ نے مجھے عورتوں اور بچوں کے ساتھ چھوڑ دیا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم اس بات سے راضی نہیں ہو کہ تمہارا درجہ میرے پاس ایسا ہو جیسا ہارون علیہ السلام کا تھا موسیٰ علیہ السلام کے پاس، پر اتنا ہے کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں ہے .“ اور میں نے سنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے خیبر کے دن: ”کل میں ایسے شخص کو نشان دوں گا جو محبت رکھتا ہے اللہ اور اس کے رسول سے اور اللہ اور رسول بھی محبت رکھتا ہے اس سے .“ یہ سن کر ہم انتظار کرتے رہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”علی کو بلاؤ.“ وہ آئے تو ان کی آنکھیں دکھتی تھیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی آنکھ میں تھوک ڈالا اور نشان (علم) ان کے حوالے کیا، پھر اللہ تعالیٰ نے فتح دی ان کے ہاتھ پر اور جب یہ آیت اتری «نَدْعُ أَبْنَاءَنَا وَأَبْنَاءَكُمْ» ”بلائیں ہم اپنے بیٹوں کو اور تم اپنے بیٹوں کو۔“ (یعنی آیت مباہلہ) تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بلایا سیدنا علی رضی اللہ عنہ اور سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا اور حسن اور حسین رضی اللہ عنہما کو، پھر فرمایا: ”یا اللہ! یہ میرے اہل ہیں۔“
السلام علیکم میرے بھائی! میں ایک لمبا عرصہ اہل حدیث رہ چکا ہوں اور ہمیں بہت اچھے اور دلائل کے ساتھ جواب بتاۓ جاتے تھے، اور ہم جب مقلدین کے قرآن اور حدیث کے غیر مطابق جواب دیکھتے تھے تو ہمیں پتا چل جاتا تھا کہ ان کے پاس کوئی صحیح جواب نہیں ہے- میں اب بھی اہل حدیث کو باقی تمام مسلک میں سے سب سے زیادہ قرآن اور احادیث کے قریب سمجھتا ہوں لیکن میں آج سے غالبا ٨ آٹھ سال پہلے اہل حدیث مسلک کے کچھ علماء کے کچھ مسائل کے بارے میں قرآن اور احادیث کے خلاف آئیں باہیں شاہیں کرنے کی وجہ سے علیحدہ ہوا اور ویسے بھی مجھے اپنے آپ کو اہل حدیث کی بجاۓ مسلمان کہنا اچھا لگتا تھا کیونکہ یہی قرآن نے بتایا-
پھر آج سے ایک یا دو سال پہلے انجنیئر محمد علی مرزا کو سنا تو وہی باتیں جو میں سمجھ چکا تھا، وہی باتیں دل کو لگیں-

اب آتا ہوں حدیث شریف کی طرف- یہ ایک بہت سخت حدیث ہے اور اس حدیث کے بارے میں بھی پوچھنے پر آپ کو اہل حدیث ایسے ہی جواب دینگے جیسے مقلدین اپنے غیر شرعی بات کو ثابت کرنے کے لئے دیتے ہیں لیکن مانتے نہیں- کہتے ہیں کہ سب کرنے کا کہا گیا تھا لیکن یہ بس تنقید ہوتا ہے- یہ برا یا گلی دینا نہیں ہوتا- لیکن اسی محدث فورم پر حدیث پڑی ہے اس نام سے-

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب کو گالی دینے کی ممانعت اور بعد والوں پر ان کی فضیلت
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لَا تَسُبُّوا أَصْحَابِي، لَا تَسُبُّوا أَصْحَابِي، فَوَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَوْ أَنَّ أَحَدَكُمْ أَنْفَقَ مِثْلَ أُحُدٍ ذَهَبًا، مَا أَدْرَكَ مُدَّ أَحَدِهِمْ، وَلَا نَصِيفَهُ»صحیح مسلم،حدیث نمبر: (2540)
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
میرے اصحاب کو برا مت کہو، میرے اصحاب کو برا مت کہو، قسم اس کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ اگر کوئی تم میں سے احد پہاڑ کے برابر سونا (اللہ کی راہ میں) خرچ کرے تو ان کے دیئے ایک مُد (آدھ کلو) یا آدھے مد کے برابر بھی نہیں ہو سکتا۔

اس میں، میں نے بولڈ کیے ہوے الفاظ پر غور کیا- یہ تو وہی لفظ ہے جس کے کرنے کا حضرت امیر معاویہ رضی الله عنہ حکم دے رہے ہیں اور نہ کرنے پر پوچھ رہے ہیں کہ تم علی پر سب کیوں نہیں کرتے- اسی سب کرنے سے تو رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے منع فرمایا تھا- میں حضرت امیر معاویہ کو نہ تو کافر کہتا ہوں، نہ میں انکو معصوم عن الخطاء کا عقیدہ رکھتا ہوں اور نہ یہ سمجھتا ہوں کہ الله لازمی انکی غلطیوں کی وجہ سے انکو دوزخ میں ڈالے گا- میرا یہ عقیدہ ہے کہ صحیح احادیث کی روشنی میں ان سے کچھ غلطیاں ہوئیں جو کافی سنگین ہیں اور ہمیں اس کو واضح کرنا چاہیے اور بے جا غیر منصفانہ ڈیفنڈ (دفاع) نہیں کرنا چاہیے کیونکہ اگر ہم ایسا نہ کریں گے تو ان کے مقابل خلیفہ راشد علی رضی الله عنہ ہیں، نہیں تو کیا ہم خلیفہ راشد کو برا کہیں گے؟

الله پاک ہمیں دین اسلام کو صحیح سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرماۓ- آمین​
 
Top