• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

انوار المصابیح انوار المصابیح

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,859
ری ایکشن اسکور
41,096
پوائنٹ
1,155
سید صاحب لکھتے ہیں :۔
'' اہل حدیث'' کے نام سے ملک میں اس وقت بھی جو تحریک جاری ہے حقیقت کی رو سے وہ قدم نہیں ۔ صرف نقش قدم ہے.... بہرحال اس تحریک کے جو اثرات پیدا ہوئے ہیں اور اس زمانہ سے یعنی (مولانا اسماعیل شہید کے زمانے سے ناقل) آج تک دور ادبار کی ساکن سطح میں اس سے جو جنبش ہوئی وہ بھی ہمارے لئے بجائے خود مفید اور لائق شکریہ ہے ۔ بہت سی بدعتوں کا استیصال ہوا ۔ توحید کی حقیقت نکھاری گئی ۔ قرآن پاک کی تعلیم و تفہیم کا آغاز ہوا ۔ قرآن پاک سے براہ راست ہمارا رشتہ جوڑا گیا ۔ حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم و تدریس او رتالیف واشاعت کی کوششیں کامیاب ہوئیں اور دعویٰ کیا جا سکتا ہے کہ ساری دنیائے اسلام میں ہندوستان ہی کو صرف اس تحریک کی بدولت یہ دولت نصیب ہوئی ۔ نیز فقہ کے بہت سے مسئلوں کی چھان بین ہوئی (یہ اور بات ہے کہ کچھ لوگوں سے غلطیاں بھی ہوئی ہوں) لیکن سب سے بڑی بات یہ کہ دلوں سے اتباع نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کا جو جذبہ گم ہو گیا تھا وہ سالہا سال تک کے لئے دوبارہ پیدا ہو گیا ہے ، مگر افسوس ہے کہ اب وہ بھی جا رہا ہے'' (مقدمہ تراجم علماء حدیث ہند) ۔

یہ ہیں وہ اہل حدیث جن کو مؤلف '' رکعات '' نے بار بار '' فرقہ اہل حدیث '' کہہ کر اپنی کدورت ِ قلبی کا ثبوت دیا ہے ۔ اس اقتباس کو پڑھئیے اور دیکھئیے کہ '' صرف اس تحریک کی بدولت '' ہندوستان کو دین کی کیا کیا نعمتیں ملیں ۔ وہ نعمتیں جن سے ساری دنیائے اسلام محروم تھی اور آخر میں ' سب سے بڑی بات یہ بتائی گئی کہ سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کا جو جذبہ گم ہو گیا تھا وہ اسی تحریک کی بدولت دوبارہ پیدا ہوا ۔

پس ایک ایسی جماعت جو اتباع سنتِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم (علیٰ صاحبہا الصلوٰة والتحیة ) کے جذبے سے سرشار ہو اور یہ اسکا ایک امتیازی وصف بن گیا ہو اس کے مقابلے میں یہ کہنا کہ '' تراویح کی آٹھ رکعتوں پر جمہور کا عمل نہیں ہے '' یقینا کج بحثی ہے ۔ وہ تو اتنا جانتی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر عمل کیا ہے اس کے بعد اس کے نزدیک اس کی کوئی اہمیت نہیں ہے کہ دوسروں نے اس پر عمل کیا ہے یا نہیں

ما عا شقیم بے دل دلدار ما محمد صلی اللہ علیہ وسلم
ما بلبلانِ نالاں گلزارِ ما محمد صلی اللہ علیہ وسلم​

ندورة المصنفین دہلی ، دیوبندی مکتب ِ فکر کے علماء کا ایک علمی ادارہے اس کے ماہنامہ ''برہان'' بابت اگست ١٩٥٨ء کے شمار ہ میں مولانا مناظر حسن گیلانی کی ایک مضمون شائع ہوا ہے ۔ اس میں مولانا گیلانی ایک جگہ تحریک اہل حدیث کی بابت لکھتے ہیں :۔
'' بجائے خود یہ تحریک جو کچھ بھی ہو ، لیکن اس کو تسلیم کرنا چاہئے کہ اپنے دین کے اساسی سرچشموں (قرآن و حدیث) کی طرف توجہ ہندوستان کے حنفی مسلمانوں کی جوپلٹی اس میں اہل حدیث اور غیر مقلدیت کی اس تحریک کو بھی دخل ہے عمومیت تو غیر مقلد نہیں ہوئی ، لیکن تقلید جامد اور کورانہ اعتماد کا طلسم ضرور ٹوٹا '' ۔ ص٩

مولانا گیلانی اہل حدیث کے متعصب مخالفین میں سے ہیں ۔ اس لئے ان کی یہ شہادت یقینا الفضل ما شہدت بہ الاعداء کی مصداق ہے ۔ مولانا گیلانی کی اس شہادت کی روشنی میں مولانا مئوی کو سوچنا چاہئیے کہ جس تحریک نے ہندوستان کے حنفی مسلمانوں کی توجہ کو اللہ کی کتاب اور اس کے رسول علیہ السلام کی سنت کی طرف پلٹایا ہے کیا اس کے حاملین کو زید و بکر کی باتوں سے مرعوب کیا جا سکتا ہے ؟ کلاَّ ثم کلاَّ ۔
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,859
ری ایکشن اسکور
41,096
پوائنٹ
1,155
آٹھ رکعات کا ثبوت
اب موقع آ گیا ہے کہ ہم آپ کو یہ بتائیں کہ اہل حدیث تراویح کی آٹھ ہی رکعتوں کو کیوں سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سمجھتے ہیں ؟ یہیں سے اس بحث کا آغاز بھی ہو جائے گا جس کو مؤلف ِ '' رکعات'' نے اصل بحث قرار دیا ہے ۔ اہل حدیث اپنے مسلک کے ثبوت میں تین حدیثیں پیش کرتے ہیں ۔

پہلی حدیث
عن ابی سلمة بن عبدالرحمٰن انہ سل عائشة کیف کانت رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم فی رمضان فقالت ما کان رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم زید فی رمضان ولا فی غیرہ علی احدی عشرة رکعة یصلی اربعًا فلا تسل عن حسنہن وطولہن ثم یصلی اربعًا فلا سل عن حسنہن وطولہن ثم یصلی ثلاثا ۔ الحدیث (بخاری شریف جلد اوّل ص ١٥٤ ، ٢٦٩ و مسلم شریف جلد اوّل ص ٢٥٤)
ابو سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت عائشہ سے پوچھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رمضان میں رات کی نماز یعنی (تراویح ) کیسے پڑھتے تھے ؟ حضرت عائشہ نے فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم چاہے رمضان کا مہینہ ہو یا غیر رمضان کا گیارہ رکعتوں سے زیادہ نہیں پڑھتے تھے ۔ چار رکعت پڑھتے ان کی خوبی اور لمبائی نہ پوچھو اس کے بعد پھر چار رکعت پڑھتے ان کی خوبی اور لمبائی کا حال نہ پوچھو پھر تین رکعت وتر پڑھتے (کل گیارہ رکعتیں ہوئیں ) ۔
دوسری حدیث
عن جابر بن عبداﷲ قال صلی بنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فی شہر رمضان ثمان رکعات ثم اوتر فلما کانت القابلة اجتمعنا فی المسجد
جابر رضی اللہ تعالیٰ نے بیان کیاکہ رسول اللہ نے ہم لوگوں کو رمضان کے مہینے میں (تراویح کی نماز) آٹھ رکعات پڑھائیں ۔ اس کے بعد وتر
ورجونا ان یخرج فلم یخرج فلم نزل فیہ حتیٰ اصبحنا ثم دخلنا فقلنا یا رسول اﷲ اجتمعنا البارحة فی المسجد ورجونا ان تصلی بنا فقال انی خشیت ان یکتب علیکم رواہ ابن حبان و ابن خزیمة فی صحیحہما والطبرانی فی الصغیر ص١٠٨ ومحمد بن نصر المروزی فی قیام اللیل ص٩٠)
پڑھا۔ دوسرے روز جب رات ہوئی تو ہم لوگ پھر مسجد میں جمع ہو گئے۔ امید تھی کہ آں حضرت نکلیں گے اور نماز پڑھائیں گے مگر آپ نہ نکلے ہم صبح تک مسجد میں رہ گئے پھر رسول اللہ کی خدمت میں ہم لوگ گئے اور یہ بات بیان کی تو فرمایا کہ مجھے خطرہ ہوا کہ کہیں یہ نماز تم لوگوں پر فرض نہ ہو جائے (اس لئے میں گھر سے نہیں نکلا ) ۔

تیسری حدیث
عن جابر قال جاء ابی بن کعب الی اﷲ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم فقال یا رسول اﷲ انہ کان منی اللیلة شٔ یعنی فی رمضان قال وما ذاک یا ابی قال نسوة فی جاری قلن انا لا نقر القرآن فنصلی بصلاتک قال فصلیت بہن ثمان رکعات واوترت فسک فکان اشبہ الرض ولم یقل شیئا ۔ رواہ ابو یعلی
حضرت ابی بن کعب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آئے اور کہا اے اللہ کے رسول ! رات کو میں نے (اپنی سمجھ سے ) ایک کام کر دیا یہ رمضان کے مہینے کا واقعہ ہے ۔ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کیا بات ہے ؟ حضرت ابی نے کہا کہ میرے گھر کی عورتوں نے کہا کہ ہم لوگوں کو قرآن یاد نہیں ہے لہٰذا تراویح کی نماز
والطبرانی بنحوہ فی الاوسط قال الہیثمی فی مجمع الزوائد ص٧٤ ج٢ اسنادہ حسن وذکرہ ابن نصرا لمروزی فی قیام اللیل ص ٩٠)
آپ گھر پر ہی پڑھئیے ہم بھی آپ کے پیچھے پڑھ لیں گے چنانچہ میں نے ان کو آٹھ رکعتیں اور اس کے بعد وتر کے ساتھ نماز پڑھا دی ۔ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم خاموش رہ گئے اور ایسا معلوم ہوا کہ آپ نے اسکو پسند فرمایا
پہلی اور دوسری دونوں حدیثوں میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل کا بیان ہے کہ آپ نے رمضان میں تراویح کی آٹھ رکعتیں پڑھیں ۔ اس کے بعد وتر ادا فرمایا ۔
یہ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی '' فعلی سنت '' ہوئی ۔

تیسری حدیث میں حضرت ابی بن کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ایک واقعہ مذکور ہے کہ انہوں نے اپنے گھر کی عورتوں کو آٹھ رکعت تراویح پڑھائی اور پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے اس واقعہ کو بیان کیا ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے سن کر خاموشی اختیار کی ۔ یعنی اس پر کوئی اعتراض اور انکار نہیں فرمایا ۔ اس سے معلوم ہوا کہ یہ طریقہ آنحضرت کو پسند تھا ۔
یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی '' تقریری سنت '' ہوئی ۔

اس طرح '' فعل نبوی '' اور ''تقریر نبوی '' دونوں سے آٹھ رکعت تراویح کا '' سنت نبوی '' ہونا ثابت ہو جاتا ہے ........ یہی اہل حدیث کا مسلک اور معمول بھی ہے ۔
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,859
ری ایکشن اسکور
41,096
پوائنٹ
1,155
اس کے مقابلہ میں کسی بھی صحیح ، مرفوع ، غیر متکلم فیہ حدیث سے بیس یا بیس سے زائد رکعات کا ثبوت نہیں ہے ۔ نہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے قول سے نہ فعل سے نہ تقریر سے ۔ اس لئے اہل حدیث اس کو '' سنت '' نہیں سمجھتے ، لیکن چونکہ تراویح نفلی نماز ہے اس لئے اہل حدیث یہ بھی کہتے ہیں کہ اگر کوئی شخص آٹھ رکعتوں کی بابت '' سنت نبوی'' ہونے کاانکار نہ کرے اور قربت و ثواب کی زیادتی کا شوق رکھتا ہو تو اپنی طاقت کے مطابق نفلی طور پر مزید جتنی رکعتیں چاہے پڑھے ۔ جماعت سے پڑھے یا انفرادًا ۔ سب صورتیں بلا کراہت جائز ہیں ۔ تراویح کی رک عات کی تعین ویسی نہیں ہے جیسی فرض نمازوں کی رکعات کی کہ کمی زیادتی کی گنجائش ہی نہ ہو ۔ اس کی تفصیل آئندہ آئے گی ۔ انشا ء اللہ
مذکورہ بالا حدیثوں سے تراویح کی آٹھ رکعتوں کا '' سنت نبوی '' ہونا ثابت ہے یا نہیں ؟ اس کے متعلق ہم خود اکابر علمائے حنفیہ ہی کی شہادت پہلے آپ کے سامنے پیش کرتے ہیں ۔
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,859
ری ایکشن اسکور
41,096
پوائنٹ
1,155
علما ء حنفیہ کی شہادت
(١) امام محمد امام ابو حنیفہ رحمة اللہ علیہ کے اعاظم تلامذہ میں سے ہیں اور ایوان حنفیت کے صدر نشیں ہیں ۔ فقہ حنفی جن ائمہ کے تفقہ اور اجتہادات کے مجموعے کا نام ہے ۔ ان میں امام محمد ایک بلند شان رکھتے ہیں ۔ ان ہی کی کتابوں سے آج حنفیت زندہ ہے ۔ ان کی روایت اور نسبت سے جو '' موطا'' معروف ہے اس میں ایک عنوان ہے ۔ باب قیام شہر رمضان وما فیہ من الفضل اس کے محشی (مولانا عبد الحٔ لکھنوی ) نے قیام شہر رمضان پر حاشیہ لکھ کربتایا ہے ویسمی التراویح یعنی قیام شہر رمضان ہی کا نام تراویح ہے ۔

امام محمد رحمة اللہ علیہ اس باب کے ذیل میں سب سے پہلے حضرت عائشہ کی وہ روایت لائے ہیں جس میں تین روز تک آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی تراویح باجماعت کا ذکر ہے لیکن چونکہ اس میں رکعات کی تعداد کابیان نہیں ہے ۔ اس لئے اس کے بعد ہی حضرت عائشہ کی وہ روایت لائے ہیں جس میں رکعات کی تعداد کا بیان ہے اور وہ وہی روایت ہے جس کو ہم نے آٹھ رکعتوں کے ثبوت میں '' پہلی حدیث '' کے عنوان سے نقل کیا ہے ۔

امام محمد رحمة اللہ علیہ کے اس صینع سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ انہوںنے پہلے تراویح کی جماعت کا مسنون ہونا ثابت کیا ہے ۔
ا سکے بعد مع وتر اس کی گیارہ رکعتوں کا '' سنت نبوی'' ہونا ثابت کیا ہے ۔
یہ اس امام کی شہادت ہے جن کا شمار حنفی مذہب کے بانیوں میں ہے ۔

(٢) ابن الہمام نے فتح القدیر شرح ہدایہ میں فریقین کے دلائل ذکر کئے ہیں۔ بیس رکعت والی مرفوع روایت کو ضعیف قرار دیا ہے ۔ اس کے بعد حضرت عائشہ کی مذکورہ بالا روایت کی بنا پر یہ تسلیم کیا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت تو معع وتر گیارہ ہی رکعات ہیں ۔ ہاں خلفائے راشدین کی سنت بیس رکعات ہیں ۔ لکھتے ہیں :
فتحصل من ہہذا کلہ ان قیام رمضان سنة احدی عشرة رکعة بالوتر فعلہ صلی اللہ علیہ وسلم وترکہ لعذر افاد انہ لو لا خشیة ذالک لو اطبت بکم ولا شک فی تحقق الا من من ذالک بوفاتہ صلی اللہ علیہ وسلم فیکون سنة وکونہا عشرین سنة الخلفاء الراشدین ۔ (فتح القدیر جلد اوّل ص ٣٣٤ طبع مصر )
(تنبیہہ) بیس رکعات کے سنت خلفائے راشدین ہونے کی تحقیق آئندہ آئے گی یہاں ہمارا مقصد صرف یہ بتانا ہے کہ ابن ہمام وغیرہ علماء حنفیہ بھی آٹھ ہی رکعت کے سنت نبوی ہونے کے قائل ہیں ۔ بیس رکعت کو سنت نبوی وہ بھی نہیں کہتے ۔ فانہم ۔ ولا تکن من القاصرین ۔
(٣) بحر الرائق کے حوالہ سے ابن نجیم کا قول گزر چکا کہ شیخ ابن ہمام کی بات کو انہوںنے بھی بلاانکار نقل کیا ہے او رمان لیا ہے کہ وقد ثبت ان ذالک کان احدی عشرة رکعة بالوتر کما ثبت فی الصحیحین من حدیث عائشة ۔
(٤) طحطاوی نے بھی شرح در مختار میں یہی لکھا ہے جس کا حوالہ پہلے گزر چکا
(٥) امداد الفتاح میں ہے :
قال الکمال کونہا عشرین رکعة سنة الخلفاء الراشدین والذی فعلہ النبی صلی اللہ علیہ وسلم بالجماعة احدی عشرة بالوتر ۔ (مفاتیح لاسرار التراویح ص٩)
(٦) نفحات رشیدی میں ہے :
واختلفوا فی عدد رکعاتہا التی یقوم بہا الناس فی رمضان ما المختار منہا اذ لا نص فیہا فاختار بعضہم عشرین رکعة سوی الوتر واستحسن بعضہم ستا و ثلثین رکعة والوترثلث رکعات وہو الامر القدیم الذی کان علیہ الصدر الاول والذی اقول بہ فی ذالک ان لا توقیت فیہ فان کان لابد من الاقتد فالاقتداء برسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم فی ذالک فانہ ثبت عنہ صلی اللہ علیہ وسلم انہ ما زاد علی احدی عشرة رکعة بالوتر شیئا لا فی رمضان ولا فی غیرہ الا انہ کان یطولہا فہذا ہو الذی اختارہ للجمع بین قیام رمضان والاقتداء برسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم قال اﷲ تعالیٰ لقد کان لکم فی رسول اﷲ اسوة حسنة انتہٰی (حوالہ مذکور و مسک الختام مترجم ص٢٨٨)
یعنی تراویح کی رکعتوں کے بارے میں علماء کا اختلاف ہے کہ اس کی گنتی تعداد مختار ہے اس لئے کہ ا س کے متعلق کوئی نص نہیں ہے ۔ بعض نے وترکے علاوہ بیس رکعات کو پسند کیا ہے اور بعض نے ٣٦ کو ۔ یہی امر قدیم ہے ۔ اسی پر صدر اوّل کے مسلمانوں کا عمل رہا ہے ۔ اس کے بارے میں میرا خیال یہ ہے کہ (یہ نفلی نماز ہے اس لئے ) اس کی کوئی خاص تعداد مقرر نہیں ہے ، لیکن اگر کسی کی اقتداء کرنا ضروری ہے تو پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتداء کرنی چاہئیے کیوں کہ آپ سے صحیح طور پر ثابت ہے کہ آپ نے مع وتر گیارہ رکعتوں سے زیادہ نہیں پڑھا ہے۔ البتہ آپ کی یہ نماز لمبی ہوتی تھی ۔ میں اسی کو پسند کرتا ہوں اس لئے کہ اس پر عمل کرنے سے قیام رمضان (تراویح ) ا و راتباع سنت نبوی دونوں کا حق ادا ہو جاتا ہے ۔ (اللہ تعالیٰ نے ہم کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہی کی پیروی اور اقتداء کا حکم دیا ہے) جیساکہ ارشاد ہے ۔
لقد کان لکم فی رسو ل اﷲ اسوة حسنة ۔

(٧) علامہ عینی لکھتے ہیں :۔
فان قلت لم یبن فی الروایات المذکورة عدد الصلوة التی صلاھا رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم فی تلک اللیالی قلت روی ابن خزیمة وابن حبان من حدیث جابر رضی اﷲ عنہ قال صلی بنا رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم فی رمضان ثمان رکعات ثم اوتر انتھی (عمدة القاری ج ٣ صفحہ ٥٩٧) ۔
''یعنی اگر کوئی کہے کہ (بخاری کی) ان روایتوں میں جن میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے تراویح پڑھانے کا ذکر ہے ، رکعتوں کی تعداد بیان نہیں کی گئی ہے تو اس کے جواب میں مَیں کہوں گا کہ صحیح ابن خزیمہ اور صحیح ابن حبان کی روایتوں میں اس کا بیان آ گیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (ان راتوں میں) صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو آٹھ رکعتیں پڑھائی تھیں علاوہ وتر کے '' ۔

٨۔ ملا علی قاری ۔ امام ابن تیمیہ کا یہ کلام بلا کسی زدّ و انکار کے نقل کرتے ہیں
اعلم انہ لم یوقت رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم فی التراویح عدداً معیناً بل لا یزید فی رمضان ولا فی غیرہ علی احدی عشرة رکعة الخ (مرقاة)
یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تراویح کا کوئی خاص عدد (قولاً تو) تو مقرر نہیں فرمایا ہے لیکن (عملاً) گیارہ رکعات سے زیادہ نہیں پڑھتے تھے ۔ نیز ابن ہمام کے اس کلام پر بھی ان کو کوئی اعتراض نہیں ہے : فتحصل من ھذا کلہ ان التراویح فی الاصل احدی عشرة رکعة فعلہ صلی اللہ علیہ وسلم ثم ترکہ لعذر (مرقاة ص ١٧٥)
٩ ۔ شیح عبدالحق محدث دہلوی لکھتے ہیں :
لکن المحدثین قالوا ان ھذا الحدیث (ای حدیث ابن عباس) ضعیف والصحیح ما روتہ عئشة انہ کان بعض السلف فی عہد عمر بن عبدالعزیز یصلون باحدی عشرة رکعة قصدا للتشبہ برسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم انتھی ۔ (ما ثبت بالسنہ ص ١٢٢)
یعنی محدثین کے نزدیک صحیح یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے گیارہ رکعتیں مع وتر پڑھی ہیں جیسا کہ حضرت عائشہ نے بیان کیا اور منقول ہے کہ حضرت عمر بن عبدالعزیز کے زمانے میں بعض سلف کا اسی پر عمل تھا ۔ سنتِ نبوی علیہ السلام کی اتباع کے شوق میں ۔
١٠ ۔ ابوالحسن شرنبلالی لکھتے ہیں :
وصلاتھا بالجماعة سنة کفایة لما ثبت انہ صلی اللہ علیہ وسلم صلی بالجماعة احدی عشرة رکعة بالوتر علی سبیل التداعی ولم یجرھا مجری سائر النوافل ثم بین العذر فی الترک (مراتی الفلاح شرح نور الایضاح) ۔
یعنی تراویح کی نماز باجماعت سنت کفایہ ہے کیونکہ یہ ثابت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اعلان اور جماعت کے ساتھ گیارہ رکعتیں باوتر لوگوں کو پڑھائی تھیں ۔

١١۔ مولانا شوق نیموی نے آثار السنن صفحہ ٢/٥١ میں ایک عنوان مقرر کیا ہے باب التراویح بثمان رکعات ۔ اور اس کے ذیل میں سب سے پہلی حدیث یہی حضرت عائشہ والی ذکر کی ہے ۔ اس سے صاف ظاہر ہے کہ ان کو بھی تسلیم ہے کہ اس حدیث کا تعلق تراویح سے ہے یہ کہنا غلط ہے کہ اس حدیث کا تعلق صرف تہجد سے ہے تراویح سے نہیں ہے ۔ بالفاظ دیگر وہ یہ مان رہے ہیں کہ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے آٹھ رکعت بلاوتر (اور مع وتر گیارہ رکعت )تراویح باسناد صحیح ثابت ہے۔

١٢۔ مولانا عبدالحی لکھنوی لکھتے ہیں :
''آپ نے (یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ) تراویح دو طرح ادا کی ہے ۔ ایک بیس رکعتیں بے جماعت ... لیکن اس روایت کی سند ضعیف ہے ۔ اس کی تفصیل میں نے اپنے رسالہ تحفة الاخیار فی احیاء سنت الابرار میں اچھی طرح کی ہے ۔ دوسری آٹھ رکعتیں اور تین رکعت وتر باجماعت اور یہ طریقہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے تین راتوں کے علاوہ کسی رات میں منقول نہیں ہے اور امت پر فرض ہوجانے کے خوف سے بہ لحاظ شفقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا اہتمام نہیں کیا ۔'' (مجموعہ فتاو یٰ جلد ١ ص ٣٥٤)

واضح رہے کہ مولانا عبدالحئی نے بیس رکعت والی کو ضعیف قرار دیا ہے ، لیکن آٹھ رکعت والی روایت کو ضعیف نہیں کہا ہے ۔ اس سے معلوم ہوا کہ ان کے نزدیک بھی صحیح حدیث سے آں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا آٹھ ہی رکعات پڑھنا ثابت ہے ۔ چنانچہ عمدة الرعایہ میں لکھتے ہیں :
واما العدد فروی ابن حبان وغیرہ انہ صلی بہم فی تلک اللیالی ثمان رکعات وثلاث رکعات وترا نعم ثبت اہتمام الصحابة علی عشرین فی عہد عمر وعثمان و علی فمن بعدھم اخرجہ مالک وابن سعد والبیھقی وغیرہم (حاشیہ شرح وقایہ)
بیس رکعات اور سنتِ خلفاء راشدین پر گفتگو آئندہ آئے گی ۔

١٣۔ مولانا رشید احمد گنگوہی لکھتے ہیں :
''الحاصل قولاً کوئی عدد معین نہیں ، مگر آپ کے فعل سے مختلف اعداد معلوم ہوتے ہیں ۔ ازاں جملہ ایک دفعہ گیارہ رکعات بجماعت پڑھنا ہے ۔ چنانچہ جابر رضی اللہ عنہ نے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شب میں گیارہ تراویح بجماعت پڑھی '' ۔ (الرای ال نجیح ص ١٣ ) ۔

اپنے مسلک اور عقیدہ کے مطابق روایات میں تطبیق دیتے ہوئے دوسرے مقام پر لکھتے ہیں :
اور اگر یوں کہا جاوے کہ اول دفعہ آٹھ تراویح تھی اور تین وتر اور دوسری دفعہ اٹھارہ تراویح اور تین وتر اور تیسری دفعہ میں بیس تراویح اور تین وتر، درست ہے اور ہر سہ فعل ، باوقاتِ مختلفہ صحابہ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے معلوم تھے لہذا یہ سب سنت ہیں اور کوئی معارض ایک دوسرے کے نہیں ' '۔ (الرای النجیح صفحہ ١٨) ۔

اس اقتباس سے ہمارا منشا صرف یہ دکھانا ہے کہ مولانا گنگوہی کو بھی آٹھ رکعت تراویح کا ''سنت نبوی'' ہونا تسلیم ہے ۔ باقی جو باتیں خلاف تحقیق ہیں ان کا جواب آئندہ مباحث میں آئے گا ۔ ان شاء اللہ ۔
١٤۔ عین الہدایہ میں ہے : تراویح صحیح صحیح حدیث سے مع وتر کے گیارہ ہی رکعات ثابت ہیں صفحہ ٥٦٣ ۔
١٥۔ مولانا انور شاہ صاحب فرماتے ہیں :
''ولا مناص من تسلیم ان تراویحہ علیہ السلام کانت ثمانیة رکعات '' (العرف الشذی ص ٣٢٩) ۔
یعنی( علماء حنفیہ خواہ کتنا ہی ہیرا پھیری کریں اور ہزار باتیں بنائیں ، لیکن سچ تو یہ ہے کہ ) اس کے تسلیم کئے بغیر ہمارے لئے کہیں پناہ نہیں ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تراویح تو آٹھ ہی رکعت تھی ۔
تنبیہ : اس موقع پر یہ بات قابل ذکر ہے کہ اکابر حنفیہ کی ان شہادتوں کے باوجود نہ معلوم کس طرح دارالعلوم دیوبند کے مہتم کو یہ جرات ہوتی ہے کہ وہ ہر سال رمضان شریف کے موقع پر یہ اعلان کردیا کرتے ہیں کہ'' بعض لوگ آٹھ رکعت تراویح کو سنت کہتے ہیں ، یہ درست نہیں '' ۔ یہی فتنہ انگیز اشتہار اشتعال کا باعث ہوتا ہے ۔ ہر سال نزاع تازہ ہو جاتی ہے ۔ پر سکون اور پر امن فضا خراب ہو جاتی ہے ۔
اپنے مذہب کے مسائل کا بیان قابل اعتراض نہیں ، لیکن کیا یہ فرض دوسروں کے جذبات کو مشتعل اور مجروح کئے بغیر ادا نہیں کیا جا سکتا ؟ کاش ! مہتمم دارالعلوم دیوبند اپنے اکابر کی باتوں کا ادب و احترام کرتے اور یہ فساد انگیز مشغلہ چھوڑ دیتے ۔
کیا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے تراویح کا کوئی عدد ثابت نہیں ؟
ہمارے گذشتہ بیان سے اگرچہ یہ بات صاف ہو جاتی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی فعلی سنت سے جس طرح تراویح باجماعت کا ثبوت ہوتا ہے اسی طرح صحیح اور مستند روایات سے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی تراویح کی تعداد بھی ثابت ہوتی ہے اور وہ ہے گیارہ رکعات مع وتر اور آٹھ رکعات بلاوتر ۔
مگر مولانا حبیب الرحمن اعظمی نے ''رکعاتِ تراویح'' کے صفحہ ١٦ و صفحہ ١٧ پر جو تحقیق پیش کی ہے وہ اس سے بالکل مختلف ہے اور بظاہر بڑی معصوم اور غیر جانبدرانہ ہے ، لیکن در حقیقت بڑی پر فریب ہے ۔ ضرورت ہے کہ ہم اس کا منظر و پس منظر دونوں آپ کے سامنے رکھیں ۔ اور اس کے بعد اس فریب کا پردہ چاک کریں ۔ مولانا لکھتے ہیں :
''اہل حدیث کے ان دعووں کو پرکھنے سے پہلے اس مسئلہ پر روشنی ڈالنا مناسب سمجھتا ہوں کہ علماء اسلام کی تحقیق میں تراویح کا کوئی معین عدد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے یا نہیں ؟ اس مسئلہ میں علماء اسلام کے دو گروہ ہیں ۔ ایک گروہ جن میں شیخ الاسلام ابنِ تیمیہ ، علامہ سبکی اور سیوطی وغیرہم شامل ہیں ان کی تحقیق یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے قول و فعل سے تراویح کا کوئی معین عدد ثابت نہیں ...

(اس گروہ کے چند علماء کی کتابوں سے کچھ عبارتیں اور حوالے نقل کرنے کے بعد مولانا مئوی لکھتے ہیں :
لہذا اس جماعت کی تحقیق میں وہ تمام روایات جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تراویح کا معین عدد بتانے کے لئے پیش کی جاتی ہیں خواہ آٹھ ہو یا بیس، وہ سب روائتیں یا تو صحیح نہں ہیں یا غیر متعلق ہیں ۔ یعنی ان میں تراویح کا نہیں بلکہ کسی دوسری نماز کا عدد بتایا گیا ہے ' ۔

علماء کا دوسرا گروہ وہ ہے جو مانتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے عددِ معین ثابت ہے جیسے فقہائِ احناف میں قاضی خاں و طحطاوی وغیرہ اور شوافع میں رافع وغیرہ کہ یہ لوگ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے بیس کا عدد ثابت مانتے ہیں '' ۔ انتہی بلفظ رکعات صفحہ ١٥ ، ١٦ ، ١٧ ۔
دیکھئے مولانا مئوی نے کتنی ''احتیاط'' برتی ہے ۔ علماء اسلام کی دونوں رائیں آپ کے سامنے رکھدی ہیں ۔ کسی رائے کی بابت اپنی طرف سے کوئی فیصلہ نہیں دیا ۔ کسی کو راجح مرجوح تک نہیں کہا ۔ میدان مناظرہ میں یہ ''احتیاط'' بڑے ضبط و ہمت کی بات ہے ، مولانا سن لیں کہ

بہر رنگ کہ خواہی جامہ می پوش
من اندازِ قدت رامی شناسم​

ہم خوب سمجھتے ہیں کہ یہ دام ہمرنگ زمین صرف اہلحدیثوں کا شکار کرنے کے بچھایا گیا ہے کہ

بایں دام بر مرغ وگر نہ
کہ عنقا را بلند است آشیانہ​
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,859
ری ایکشن اسکور
41,096
پوائنٹ
1,155
پسِ منظر
آئیے اب ہم آپ کو اس کا پسِ منظر بتائیں ۔ قصہ یہ ہے کہ تعداد تراویح کے مسئلہ میں اہل حدیث کا اصل زور اسی بات پر ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فعل سے بسند صحیح صرف آٹھ ہی رکعات ثابت ہیں ۔ اس لئے وہ بیس رکعات کو خلفاء راشدین کی سنت ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,859
ری ایکشن اسکور
41,096
پوائنٹ
1,155
منشاء کیا ہے ؟
اس پس منظر کو سامنے رکھ کر اس بات پر غور کیجئے کہ مولانا نے جو ''اہل حدیث کے دعوؤں کے پرکھنے سے پہلے اس مسئلہ پر روشنی ڈالنا مناسب سمجھا ہے کہ علماء اسلام کی تحقیق میں تراویح کا کوئی عدد معین آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے یا نہیں ؟ ''۔ تو اس کا منشا یہی ہے کہ علماء اسلام کے ان دو گروہوں میں سے خواہ کسی کا مسلک اختیار کیا جائے ، بہر حال اہلحدیث کا مذہب غلط قرار پائے گا ۔ احناف کے مذہب پر اس کا کوئی اثر نہیں پڑے گا ۔ اس لئے کہ دوسرا گروہ جو عددِ معین کے ثبوت کا قائل ہے وہ تو بقول مولانا کے بیس ہی کا قائل ہے اس لئے اس کے مسلک کا اہل حدیث کے خلاف اور احناف کے موافق ہونا تو ظاہر ہی ہے ۔ اس لئے مولانا نے اس کو بہت اختصار و اجمال کے ساتھ بلا کسی حوالہ و ثبوت کے پیش کیا ہے ۔

اور پہلا گروہ جو کسی عددِ معین کے ثبوت کا قائل نہیں ہے وہ مولانا کے بیان کے مطابق جس طرح بیس رکعات والی روایت کو ضعیف یا غیر متعلق سمجھتا ہے اسی طرح آٹھ رکعت والی روایتوں کو بھی ضعیف یا غیر متعلق قرار دیتا ہے ۔ اس سے حنفیوں کا تو کچھ نہیں بگڑتا کیونکہ وہ تو خود ہی بیس والی روایت کو ضعیف کہتے ہیں ۔ اس کی زد جو کچھ پڑے گی وہ صرف اہلحدیث کے مذہب پر ۔ اسی لئے مولانا نے اس کو حوالہ اور ثبوت کے ساتھ ذرا تفصیل سے پیش کیا ہے ۔ کیونکہ ''لذیذ بود حکایت در از تر گفتیم '' ۔

ایسی صورت میں کیا ضرورت تھی کہ مولانا کسی گروہ کے مسلک کی بابت اپنا کوئی فیصلہ لکھ کر جنبہ داری کا الزام اپنے سر لیتے ۔

خوشتر آں باشد کہ سر دلبراں
گفتہ آید در حدیث دیگراں​

ایک اور مغالطہ : مولانا کا ایک اور مغالطہ بھی قابل ذکر ہے ۔ اس مسئلہ کا اہلحدیث کے دعوؤں کے ساتھ گہرا بلکہ بنیادی تعلق ہے اس لئے دعوؤں کے ذکر کے بعد ہی یہ بحث چھیڑی گئی ہے لیکن پھر بھی مولانا کس بھولے پن سے فرماتے ہیں کہ ''اہلحدیث کے ان دعوؤں کے پرکھنے سے پہلے اس مسئلہ پر روشنی ڈالنا مناسب سمجھتا ہوں ''

''پہلے '' کے لفظ پر غور کیجئے ۔ گویا اہل حدیث کے دعوؤں کی ''پرکھ'' سے اس مسئلہ کا کوئی تعلق نہیں ہے ۔ یہ تو بس یونہی اتفاقی طور سے یہاں ذکر کر دیا گیا ہے اور بلا کسی خاص لگاؤ کے دعوؤں کی ''پرکھ'' سے ''پہلے'' اس پر ''روشنی ڈالنا'' مناسب سمجھ لیا گیا ہے ۔
بتایئے ! یہ مغالطہ نہیں تو کیا ہے ؟ ۔
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,859
ری ایکشن اسکور
41,096
پوائنٹ
1,155
تفصیلی جواب :
''علامہ'' مئوی کی اس فسوں کاری کا منظر وپس منظر دکھانے کے بعد اب ہم اس کا تفصیلی جواب عرض کرنا چاہتے ہیں تاکہ حقیقت پوری طرح بے نقاب ہو کر آپ کے سامنے آ جائے ۔ ''علامہ'' کی عبارتوں کے لئے ''قولہ'' اور اپنے جواب کے لئے ''ج'' کا عنوان اختیار کیا گیا ہے
قولہ : اس مسئلہ میں علما اسلام کے دو گروہ ہیں ، ایک گروہ جن میں شیخ الاسلام ابن تیمیہ ، علامہ سبکی اور سیوطی وغیرہم شامل ہیں ۔ ان کی تحقیق یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے قول و فعل سے تراویح کا کوئی عددِ معین ثابت نہیں چنانچہ حافظ ابن تیمیہ فرماتے ہیں :
ومن ظن ان قیام رمضان فیہ عدد معین موقت عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم لا یزید ولا ینقص فقد اخطاً (مرقاة الانتقاد الرجیح ص ٦٣) (انتھی رکعات ص ١٦) ۔
ج ۔ جی نہیں اس مسئلہ میں علماء اسلام کے ما بین ہرگز کوئی گروہ بندی نہیں ہے جن عبارتوں سے آپ نے اختلاف کا مفہوم پیدا کیا ہے یا تو آپ نے ان کو سمجھا نہیں ہے اور یا جان بوجھ کر ان عبارتوں کو غلط معنی پہنایا ہے ۔ زیادہ قرین قیاس دوسری ہی صورت ہے ، کیونکہ عبارتوں کے نقل کرنے میں آپ نے جیسی کتر بیونت کی ہے اور جس افسوسناک حذف و اختصار سے کام لیا ہے ۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ دراصل آپ کی نیت تحقیق حق کی نہیں بلکہ تلبیس حق کی ہے

سب سے پہلے ایک بات یہ اچھی طرح سمجھ لیجئے کہ یہاں دو صورتیں ہیں :
(١) ایک یہ کہ نص نبوی سے رکعات تراویح کی تحدید و تعیین کا ثبوت ۔ یعنی قول یا فعلِ نبوی سے اس کی کوئی خاص مقدار مقرر کرکے ایسی حد بندی اور تعیین کر دی گئی ہو جس میں نہ کمی جائز ہو اور نہ زیادتی ۔ جیسا کہ فرض نمازوں میں رکعات کی تعداد ہے ۔
(٢) دوسری صورت یہ ہے کہ قول یا فعل نبوی میں کسی عدد کے ذکر کا ثبوت ۔ یعنی جس طرح احادیث اور روایات میں نفس نماز تراویح کی بابت یہ بیان کیا گیا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے ادا کرنے کی ترغیب دی ہے ۔ اس کے فضائل بیان کئے ہیں اور خود بھی ادا فرمایا ہے ۔ اسی طرح آیا روایتوں میں اس کا بھی کہیں کوئی ذکر ہے یا نہیں کہ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا ہو کہ اتنی رکعتیں پڑھا کرو ۔ یا خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اتنی رکعتیں پڑھی تھیں ۔
مولانا مئوی نے ان دونوں صورتوں میں فرق نہیں کیا اس لئے غلط بحث میں مبتلا ہو گئے ۔ ان کو معلوم ہونا چاہیئے کہ جن علماء نے ''عدد خاص'' سے انکار کیا ہے ۔ ان کی مراد وہی پہلی صورت ہے کیونکہ تراویح ایک نفلی نماز ہے ۔ اس کی رکعات میں شرعاً فرض نمازوںکی طرح تحدید اور تعیین نہیں ہے ۔ دوسرے گروہ کے علماء بھی اس کے قائل نہیں ہیں ۔ ہاں اگر کچھ تضییق و تحدید ہے تو ان حنفیوں کے یہاں جو یہ کہتے ہیں کہ بیس رکعات سے کم پڑھنے والا تارکِ سنت گنہگار ہے اور بیس سے زیادہ با جماعت پڑھنا مکروہ ہے اور دوسری صورت کی شق ثانی کا کوئی بھی منکر نہیں ہے ۔ یعنی پہلے گروہ کے علماء بھی یہ مانتے ہیں کہ قول اور امر نبوی سے نہیں مگر فعل نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں تعداد کا ذکر موجود اور ثابت ہے ۔ یہ دوسری بحث ہے کہ وہ تعداد کیا ہے ۔ اور کون صحیح ہے اور کون ضعیف ؟ ۔

پس اس مسئلہ میں علماء کے اختلاف کا افسانہ تو سرا سر غلط ہے ۔ رہا یہ کہ ہم نے جو کچھ کہا ہے اس کا ثبوت کیا ہے ؟ تو آئیے سب سے پہلے شیخ الاسلام ابن تیمیہ ہی کی عبارتوں پر غور کریں جن کا نام اس سلسلہ میں سرفہرست ہے ۔
امام ابن تیمیہ کی جو عبارت مولانا مئوی نے یہاں نقل کی ہے ۔ بنظر اختصار یا مصلحتا اس کے شروع کا حصہ حذف کر دیا ہے جس کی وجہ سے متکلم کا اصل منشا خبط ہو گیا۔
اور یہ ظلم مولانا نے صرف غریب ابن تیمیہ ہی پر نہیں کیا بلکہ آپ کو یہ سن کر تعجب ہو گا کہ تقریباً تمام ان عبارتوں کے ساتھ اسی قسم کا معاملہ ہوا ہے جو مولانا نے اس موقع پر نقل کی ہیں ۔
یہ بات یقینا ''علامہ کبیر اور محدث شہیر'' کی شان تقدس اور عالمانہ احتیاط کے بالکل منافی ہے ۔ الانتقاد الرجیح کا وہ صفحہ کھول کر دیکھئے جس کا حوالہ مولانا نے دیا ہے ۔ عبارت اس طرح شروع ہوئی ہے ۔
ان١ نفس قیام رمضان لم یوقت النبی صلی اللہ علیہ وسلم فیہ عدداً معیناً بل ھو کان صلی اﷲ علیہ وسلم لا یزید فی رمضان ولا غیر علی ثلث عشر رکعة الخ
یہی ابن تیمیہ فتاوی جلد اول ١٤٨ میں لکھتے ہیں
وکان النبی صلی اللہ علیہ وسلم قیامہ باللیل ھو وترہ یصلی باللیل فی رمضان وغیر رمضان احد عشرة رکعة اوثلاث عشرة رکعة
دیکھئے ایک طرف تو شیخ الاسلام آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ''عدد معین'' کی توقیت کی نفی کر رہے ہیں اور دوسری طرف خود ہی یہ تسلیم بھی کر رہے ہیں کہ آپ گیارہ یا تیرہ رکعات سے زیادہ نہیں پڑھتے تھے ۔ یہ دونوں باتیں وہ ساتھ ہی ساتھ کہہ رہے ہیں ۔ اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ یہ ''نفی اور اثبات'' انہیں دو صورتوں کے اعتبار سے ہیں جو اوپرہم نے بیان کی ہیں ۔ یعنی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے فعل کا جہاں تک تعلق ہے وہاں تو گیارہ یا تیرہ ہی رکعات کا ذکر ہے اور یہی تعداد ثابت ہے ، مگر اس کے باوجود اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اسی عدد خاص میں تراویح کی رکعتوںکی تحدید و تعیین کر دی گئی

(١) یہ عبارت آخر تک نواب صاحب نے الانتقاد الرجیح میں توشیخ الاسلام ابن تیمیکی بتایا ہے مگر عون الباری میں اس عبارت کو انہوں نے شیخ الاسلام ابن القیم کی طرف منسوب کیا ہے واللہ اعلم ۔
ہے کہ لا یزاد علیہ ولا ینقص ۔ جس کا یہ گمان ہو وہ غلطی پر ہے ۔ یعنی ''نفی'' ایسی تحدید و تعیین کے اعبار سے ہے جس میں کمی و زیادتی کو ناجائز سمجھا جائے اور ''ثبوت'' فعل نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں بیان وذکر کے اعتبار سے ہے یہی دو صورتیں ہم نے اوپر بیان کی ہیں ۔ اہل حدیث بھی یہی کہتے ہیں کہ نبیصلی اللہ علیہ وسلم کے فعل سے جو تعداد بسند صحیح ثابت ہے وہ سنت اور بہتر ہے باقی نفلی نماز کی حیثیت سے اس کی کوئی تحدید و تعیین نہیں ہے جس سے جتنی ہو سکے پڑھے ۔

چنانچہ ایک حدیث میں ہے :
الصلوة خیر موضوع فمن شاء استقل ومن شاء استکثر رواہ احمد والبزار و ابن حبان فی صحیحہ کذا فی التلخیص الجبیر صفحہ (١١٩) ۔
یہی بات تعبیر اور انداز بیان کے تھوڑے سے اختلاف کے ساتھ امام شافعی علامہ سبکی، علامہ شوکانی وغیرہ سب نے کہی ہے ۔

قولہ : اور سبکی شرح منہاج میں لکھتے ہیں :
اعلم انہ لم ینقل کم صلی صلی اللہ علیہ وسلم فی تلک اللیالی ھد ھو عشرون اواقل (تحفة الاخیار ص ١١٦ و مصابیح ص ٤٤ رکعات )
ج : یہاں بھی مولانا نے سلسلہ عبارت کے بعض ضروری حصے حذف کر دیئے ہیں جیسا کہ مصابیح ، تحفتہ الاخیار ، مسک الختام ۔ ان تینوں کتابوں کی طرف رجوع کرنے سے معلوم ہوتا ہے ۔ مصابیح للسیوطی میں یہ عبارت زیادہ تفصیل کے ساتھ منقول ہے ۔ چنانچہ اسی سلسلہ عبارت میں علامہ سبکی نے امام مالک کا یہ قول نقل کیا ہے :
قال(١) الجوزی من اصحابنا عن مالک انہ قال الذی جمع علیہ الناس عمر بن الخطاب احب الی وھو احدی عشرة رکعة و ھی صلوٰة رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم ۔
علامہ سبکی نے امام مالک کے اس قول کے نقل کرنے کے بعد نہ تو اس کی صحت سے انکار کیا ہے اور نہ یہ کہا ہے کہ تراویح کے علاوہ کسی دوسری نماز کے
(١) بعض علم نے اس عبارت کو علامہ سیوطی کا کلام سمجھا ہے ۔ لیکن تحفة الاخیار میں مولانا عبدالحئی نے سبکی کے اس کلام کا جو ملحض پیش کیا ہے اس کو اورمصابیح کی پوری عبارت کو مقابلہ میں رکھ کر دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ عبارت سیوطی کی نہیں ہے بلکہ شرح منہاج ہی کی ہے ۔
متعلق ہے ۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ گیارہ رکعات کی بابت ان کوامام مالک کا یہ قول تسلیم ہے کہ :
ھی صلوٰة رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم
اور جب اس تعداد کا فعلِ نبوی ہونا ثابت ہو گیا تو ماننا پڑے گا کہ علامہ سبکی نے جو یہ کہا ہے :
اعلم انہ لم ینقل کم صلی رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم فی تلک اللیالی ھل ھو عشرون او اقل ۔
تو ان کا مقصد یہ ہے کہ صحیحین یا سنن کی جن روایتوں میں تین راتوں کی تفصیلات مذکور ہیں ، ان روایتوں میں کوئی عدد منقول نہیں ہے کہ رکعات کی تعداد بیس تھی یا اس سے کم یہ منشا نہیں ہے کہ مطلقاً فعلِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے تراویح کا کوئی عدد منقول ہی نہیں ہے ۔ ایسی بدیہی البطلان بات سبکی جیسا محقق عالم کیسے کہ سکتا ہے ۔ پس کسی خاص قید اور کسی خاص ظرف سے ثبوت کی نفی سے مطلقاً عدد خاص کے ثبوت کی نفی لازم آتی ہے ۔ فاندفع ما توھم ۔

آخر میں علامہ سبکی نے یہ خاص بات صاف کر دی ہے کہ تراویح کوئیفرض نماز نہیں ہے کہ اس کی رکعات میں تحدید و تعیین ہو ،بلکہ یہ تو ایک نفلی نماز ہے ۔ اس لئے ا س کے پڑھنے والے کو اختیار ہے کہ وہ اپنی طاقت اور شوقِ عبادت کے لحاظ سے زیادہ پڑھے یا کم ۔ چنانچہ لکھتے ہیں :
الا(١) ان ھٰذا امر یسھل الخلاف فیہ فان ذالک من النوافل من
(١) نواب صاحب مرحوم نے مسک الختام میں اس عبارت کا جو ترجمہ پیش کیا ہے اس میں شرح منہاج ہی کا حوالہ دیا ہے ۔ اس سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ سب عبارت علامہ سبکی ہی کی ہے ۔ سیوطی کی نہیں ہے ۔
شاء اقل و من شاء اکثر (المصابیح ص ٩ )

قولہ :۔ سیوطی مصابیح میں لکھتے ہیں :
ان العلماء اختلفوا فی عددھا ولو ثبت ذالک من فعل النبی صلی اللہ علیہ وسلم لم یختلف فیہ (ص ٤٢ ) (رکعات )
ج : یہاں بھی مولانا نے حذف واختصار سے کام لے کر منشاء متکلم کو خبط کر دیا ہے ۔ اصل یہ ہے کہ امام سیوطی نے یہ کتاب ایک خاص سوال کے جواب میں لکھی ہے ۔ چنانچہ حمد و صلوٰة کے بعد ہی وہ لکھتے ہیں :
وبعد فقد سئلت مرات ہل صلی النبی صلی اللہ علیہ وسلم التراویح وہی العشرون رکعة المعہودة الآن وانا اجیب بلا ولا یقنع منی بذلک فاردت تحریر القول فیہا فاقول الخ
یعنی '' مجھ سے کئی مرتبہ یہ سوال کیا گیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تراویح کی بیس رکعتیں پڑھی تھیں جو آج کل مروج ہیں ؟ تو میں جواب یہی دیتا رہا کہ نہیں ۔ لیکن اتنے جواب پر لوگ مطمئن نہ ہوتے تھے تو میں نے ارادہ کیا کہ اس پر کچھ لکھوں '' ۔
اس عبارت میں '' المعہودة الان'' کے لفظ پر غور کیجئے ۔ وہی بیس رکعات جن کے '' تعامل'' کا ڈھنڈورا علامہ مئوی پیٹ رہے ہیں ۔انہی کی بابت علامہ سیوطی سے سوال کیا گیا اور اسی کے جواب میں انہوں نے یہ مفصل کتاب (المصابیح فی صلوٰة التراویح ) لکھی جس میں چند پرزور وجوہ و دلائل سے ثابت کیا ہے کہ ان مروجہ بیس رکعتوں کا ثبوت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے نہیں ہے ۔
لم یثبت انہ صلی اللہ علیہ وسلم صلی عشرین رکعة ص١
پھر صفحہ ٦ پر لکھتے ہیں :
فالحاصل ان العشرین لم یثبت من فعلہ صلی اللہ علیہ وسلم ۔
لیکن اس کے مقابلے میں وہ یہ تسلیم کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے گیارہ رکعتیں ثابت ہیں ۔ لکھتے ہیں :
الوجہ الثانی انہ قد ثبت فی صحیح البخاری وغیرہ ان عائشة سئلت عن قیام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فی رمضان فقالت ماکان یزید فی رمضان ولا فی غیرہ علی احدی عشرة رکعة (ص٣)
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے بیس رکعت ثابت نہ ہونے کی دوسری دلیل یہ ہے کہ صحیح بخاری وغیرہ میں ثابت ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تراویح کی بابت سوال کیا گیا تو انہوںنے کہا کہ آپ رمضان اور غیر رمضان میں گیارہ رکعتوں سے زیادہ نہیں پڑھتے تھے '' ۔ یہی امام سیوطی حضرت سائب بن یزید کے اس اثر کے نقل کرنے کے بعد فرماتے ہیں کہ :
کنا نقوم فی زمان عمر بن الخطاب باحدی عشرة رکعة الخ
لکھتے ہیں :
وہٰذا ایضا موافق لحدیث عائشة وکان عمر لما امر بالتراویح اقتصر ولا علی العدد الذی صلاہ النبی صلی اللہ علیہ وسلم ثم زاد فی لآآخر الامر (ص٧)
اس عبارت میں العدد الذی صلاہ النبی صلی اللہ علیہ وسلم ثم زاد فی اٰخر الامر خاص طور سے قابل غور ہے ۔
معلوم ہو گیا علامہ سیوطی کی تحقیق میں بیس رکعات تو نہیں ، مگر گیارہ رکعات بلا شبہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے فعل سے ثابت ہیں تو پھر اب وہ یہ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ فعل نبوی سے '' کوئی عدد '' بھی ثابت نہیں ہے ۔ اس لئے کہ جب ایجاب جزئی صادق ہے تو سلب کلی کا کاذب ہونا یقینی ہے ۔
اس کی یہ توجیہہ کرناجیسا کہ مولانا مئوی نے لکھاہے کہ '' ان کی تحقیق میں یہ روایتیں یا تو صحیح نہیں ہیں یا غیر متعلق ہیں '' سراسر تحریف اور توجیہہ القول بما لا یرضی بہ قائلہ کی مصداق ہے ۔
اس کی صحیح توجیہہ پیش کرنے سے پہلے ہم پوری عبارت آپ کے سامنے رکھنا چاہتے ہیں ۔ علامہ سیوطی لکھتے ہیں ۔ (الوجہ)
الرابع ان العلماء اختلفوا فی عددہا ولو ثبت ذالک من فعل النبی صلی اللہ علیہ وسلم لو یختلف فیہ کعدد الوتر وسنن الرواتب ( ص٤)
مولانا مئوی نے اس عبارت سے شروع کا ٹکڑا (الوجہ) الرابع حذف کر دیا ہے اور اس حذف کر دینے میں مصلحت یہ ہے کہ اگر اس لفظ کو باقی رکھا جائے تو پھر اس عبارت کا نعلق بھی اسی بات سے ہو جائے جس کے ساتھ دوسری ''وجوہ'' کا تعلق ہے ۔ یعنی بیس رکعات مروجہ کا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے فعل سے ثابت نہ ہوتا ۔
اور مولانا کو اس عبارت سے یہ دکھانا تھا کہ علامہ سیوطی بھی اسی بات کے قائل ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے فعل سے ''کوئی'' خاص عدد ثابت نہیں نہ آٹھ نہ بیس ۔ تو یہ مقصد ''ہاتھ کی صفائی کا یہ کرتب'' دکھائے بغیر اس عبارت سے کہاں حاصل ہو سکتا تھا ؟
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,859
ری ایکشن اسکور
41,096
پوائنٹ
1,155
بہر حال اب اس کی صحیح توجیہہ سنیئے : ۔
یہ آپ کو معلوم ہو چکا ہے کہ علامہ سیوطی کی یہ کتاب ایک خاص سوال کا جواب ہے گویا یہ ایک فتویٰ ہے اور مفتی اپنے جواب میں سوال کی خاص شکل کو ملحوظ رکھتا ہے ۔ سائل نے صورة مسؤلہ میں المعھودة الآن کی قید لگائی ہے ۔ یعنی وہ بیس رکعات جو مروج ہیں ۔ ظاہر ہے کہ اس مروجہ صورت میں وہ احناف بھی آ جاتے ہیں جو بیس رکعتوں کے التزام کے ساتھ یہ تحدید و تضییق بھی کرتے ہیں کہ بیس سے کم پڑھنا گناہ ہے ۔ کیونکہ اس میں سنتِ مؤکدہ کا ترک کرنا ہے اور بیس سے زیادہ باجماعت ادا کرنا مکروہ ہے ۔
اس چوتھی دلیل (الوجہ الرابع) میں علامہ سیوطی نے اسی مسلک کی تردید کی ہے ۔ ان کا منشا یہ ہے کہ جب بیس رکعات ہی کا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے فعل سے ثبوت نہیں ہے تو بھلا یہ تحدید و تضییق فعل نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے کہاں ثابت ہو سکتی ہے یہی وجہ ہے کہ علماء کا اس کی تعداد میں اختلاف ہے ۔
ولو ثبت ذالک (ای ذالک العدد الخاص بھذا التحدید والتضییق) من فعل النبی صلی اللہ علیہ وسلم لم یختلف فیہ کعدل الوتر وسنن الرواتب ۔
''یعنی اگر یہ بیس رکعات کی تعداد اس تحدید و تضییق کے ساتھ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے فعل سے ثابت ہوتی تو پھر اس میں علماء کا اختلاف نہ ہوتا '' ۔
تنبیہ : اگر کسی کو یہ شبہ ہو کہ امام سیوطی کے نزدیک بجائے بیس کے اگر آٹھ رکعات بلاوتر ثابت ہیں ۔ جیسا کہ صحیح بخاری اور صحیح ابن حبان وغیرہ کے حوالے سے انہوں نے بیان کیا ہے تو اس پر بھی تو یہ کہا جا سکتا ہے کہ :
لو ثبت ذالک من فعل النبی صلی اللہ علیہ وسلم لم یختلف فیہ ؟
تو اس شبہ کا جواب یہ ہے کہ یہ معارضہ اس وقت صحیح ہوتا جب امام سیوطی اس عدد کو تحدید و تضییق کے ساتھ ثابت مانتے ۔ یعنی نفلی طور پر بھی وہ اس میں کسی زیادتی مکروہ یا ممنوع سمجھتے ۔ حالانکہ ایسا نہیں ہے ۔ جیسا کہ اس عبارت میں بھی کعدد الوتر وسنن الرواتب کہہ کر انہوں نے اس کی طرف اشارہ کیا ہے اور کتاب کے آخر میں علامہ سبکی کا کلام شرح منہاج سے بلا رد و انکار نقل کرکے تو گویا اس کی صراحت ہی کر دی ہے ۔
قولہ : اور سب سے بڑھ کر یہ کہ امام شافعی نے فرمایا ہے :
لیس فی ذلک ضیق ولاحد ینتھی الیہ (رکعات ص )
ج : جی ہاں : ہے تو سب سے بڑھ کر ، لیکن افسوس یہ ہے کہ آپ ے اس کی بڑائی کا بھی کچھ خیال نہ کیا اور اپنا مطلب نکالنے کے لئے اس کا بھی مثلہ کر کے ہی چھوڑا ۔ امام شافعی نے اس کے بعد فرمایا ہے لانہ نافلة اس کو آپ حذف کر گئے حالانکہ اس کلام کی یہی اصل جان ہے ۔ یعنی امام شافعی فرماتے ہیں :
''تراویح کے عدد کی کوئی حد نہیں ہے کہ اس پر رک جایا جائے ۔ اس لئے یہ نفلی نماز ہے '' ۔

اس لئے نہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فعل سے کوئی خاص عدد ثابت نہیں ہے ۔ دیکھیے مولانا نے کتنی صفائی سے بات کا رخ کدھر سے کدھر پھیر دیا ۔
ایک اور بات بڑے لطف کی یہ ہے کہ امام شافعی کی یہی عبارت ہمارے مولانا مئوی نے رکعات تراویح کے صفحہ ١٩ پر بھی ذکر کی ہے ، لیکن وہاں حذف و اختصار سے کام نہیں لیا ہے ۔ بلکہ پورے سیاق و سباق اور شرح و بسط کے ساتھ پیش کیا ہے ۔ کیونکہ وہاں اپنے مطلب کے لئے یہی مناسب تھا ۔
خدا را انصاف سے بتائیے ! کیا حق پسند اہل علم کی یہی شان ہے ؟

قولہ : علامہ شوکانی نیل الاوطار میں فرماتے ہیں :
والحاصل ان الذی دلت علیہ احادیث الباب وما یشابھھما ھو مشروعیة القیام فی رمضان والصلوة فیہ جماعة وفرادی نقص الصلوة المسماة بالتراویح علی عدد معین و تخصیصھا بقراء ة مخصوصة لم ترد بہ سنة (رکعات صفحہ ١٦ ، ١٧)
ج : اس عبارت کے ساتھ بھی مولانا مئوی نے وہی سلوک کیا ہے جواب تک وہ اس سلسلے کی دوسری عبارتوں کے ساتھ برابر کرتے چلے آ رہے ہیں یعنی سلسلہ عبارت کا پہلا حصہ حذف کر دیا گیا ہے جس کی وجہ سے کلام کا مفہوم بدل گیا ہے ۔
علامہ شوکانی نے سب سے پہلے فتح الباری کے حوالہ سے رکعاتِ تراویح کی تعداد کے متعلق مختلف اقوال و آثار نقل کیے ہیں ۔ اس کے بعد لکھتے ہیں
ھٰذا ما ذکرہ فی الفتح من الاختلاف فی ذالک واما العدد الثابت عنہ صلی اللہ علیہ وسلم فی صلوتہ فی رمضان فاخرج البخاری وغیرہ عن عائشة انھا قالت ما کان النبی صلی اللہ علیہ وسلم یزید فی رمضان ولا فی غیرہ علی احدی عشرة رکعة واخرج ابن حبان فی صحیحہ من حدیث جابر انہ صلی اللہ علیہ وسلم بہم ثمان رکعات ثم اوتر ... (١) واما مقدار القراء ة فی کل رکعة فلم یرد بہ دلیل والحاصل ان الذی دلت ۔ الخ (نیل باب صلاة التراویح ) ۔
''یعنی عدد تراویح کے باب میں یہ وہ اختلافات ہیں جو فتح الباری میں بیان کئے گئے ہیں ، لیکن ان تمام اعداد میں وہ عدد جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فعل سے ثابت ہے وہ آٹھ رکعات بلاوتر اور گیارہ رکعت مع وتر ہے ۔ جیسا کہ بخاری وغیرہ میں حضرت
(١) یہاں امام شوکانی نے حضرت ابن عباس کی وہ روایت ذکر کی ہے جس میں بیان ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بیس رکعات تروایح پڑھی تھی ، لیکن اس کے ساتھ ہی پھر انہوں نے اس کا نصف بھی واضح کر دیا ہے ۔(منہ)
عائشہ اور صحیح ابن حبان میں حضرت جابر سے مروی ہے ۔ ہاں ہر رکعت میں قرا ت قرآن کی جو خاص مقدار بیان کی جاتی ہے اس کی کوئی دلیل نہیں ہے '' ۔

بتائیے اس عبارت میں واما لعدد الثابت عنہ صلی اللہ علیہ وسلم الخ کی صراحت ہوتے ہوئے بھی کوئی خدا ترس انسان صداقت و امانت کا خون کیے بغیر یہ کہنے کی جرات کرسکتا ہے کہ '' شوکانی کی تحقیق یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے قول یا فعل سے تراویح کا کوئی معین عدد ثابت نہیں ہے ''۔ کیا آٹھ کا عدد کوئی معین عدد نہیں ہے اگر ہے اور یقیناً ہے تو پھر غلط بات ان کی طرف کیوں منسوب کی جاتی ہے ؟ زیادہ صاف لفظوں میں سننا چاہتے ہو تو سنو! امام شوکانی نے جس عدد معین کے ثبوت کا انکار کیا ہے وہ بیس رکعت ہے ۔ چنانچہ بصراحت فرماتے ہیں :
و امام ما استحسنہ جماعة من اھل العلم من جعل ھٰذہ الصلوٰة عشرین رکعة و جعل القراء ة فی کل رکعة شیئا معیناً فھذا لم یکن ثابتا بخصوصہ لکنہ من جملة ما یصدق علیہ انہ صلاة و انہ جماعة و انہ فی رمضان انتھی ۔ ( عون الباری مع نیل ص ٣٧٧ ،ج ٤ )
''یعنی اہل علم کی ایک جماعت نے تراویح کی بیس رکعتوں کو اور اس کی ہر رکعت میں قرات کی ایک معین مقدار کو جو مستحسن قرار دیا ہے تو یہ ثابت نہیں ہے ، لیکن اس پر صادق ہے کہ یہ نماز ہے اور جماعت ہے اور رمضان میں ہے ''۔ بالفاظ دیگر امام شوکانی بیس رکعت کو رمضان شریف میں ایک نفلی عبادت کی حیثیت سے جائز تو کہتے ہیں مگر اس کا انکار کرتے ہیں کہ یہ عدد خاص آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے ۔ عدد ثابت تو بس آٹھ اور گیارہ ہی رکعات ہے ۔ لہذا یہ کہنا صریح مغالطہ ہے کہ امام شوکانی نے ''کسی '' عدد معین کے ''ثبوت '' کا انکار کیا ہے۔ ہاں یہ کہ سکتے ہیں کہ انہوں نے کسی عدد معین پر ''قصر '' اور ''حصر '' کا انکار کیا ہے ۔ یعنی آٹھ رکعات کا ''ثبوت '' فعل نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے تسلیم کرتے ہیں ، لیکن اس پر حصر کر دینا کہ'' نفلی طور پر بھی اس سے زیادہ نہیں پڑھ سکتے ''۔ اس کو وہ صحیح نہیں سمجھتے ۔
تو اس کا کون منکر ہے ؟ کس اہل حدیث نے کہا ہے کہ آٹھ رکعات تراویح سے زیادہ تنفلاً بھی جائز نہیں ہے ۔ نزاع کم و بیش عد د کے جواز میں نہیں ہے۔ نزاع اس میں ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے فعل سے کیا ثبوت ہے ۔ ؟

پس امام شوکانی کی یہ بات اہل حدیث کے مسلک کے خلاف تو قطعاً نہیں۔ جیسا کہ مولانا مئوی اپنی خوش فہمی سے سمجھ رہے ہیں ، یا سمجھانا چاہتے ہیں ، بلکہ یہی اہل حدیث کا مذہب ہے ۔ہاں ان حنفیوں کے خلاف ضرور ہے جو بیس کے عدد میں بھی تضییق و تحدید پیدا کرتے ہیں اور مقدار قراء ت کے بارے میں بھی کچھ تخصیصات بیان کرتے ہیں ۔ بیس کے عدد کے متعلق احناف کی تضییق و تحدید کا ذکر پہلے آچکا ہے ۔ اب مقدار قراء ت کے متعلق فقہ حنفی کی کچھ باتیں ہم آپ کو بتاتے ہیں :
قیل الافضل ان یقرا قدر قراء ة المغرب و قیل یقر فی کل رکعة ثلاثین آیة ۔ (فتح القدیر جلد اول ص ٣٣٥ مصری )
'' یعنی افضل یہ ہے کہ تراویح کی ہر رکعت میں اتنی قراء ت کرے جتنی مغرب کی نماز میں ہوتی ہے اور بعض نے کہا ہے کہ ہر رکعت میں تیس آیتیں پڑھے ''۔
و فی مختارات النوازل انہ یقرء فی کل رکعة عشر آیات (بحر الرائق ج ثانی ص ٦٨)
'' یعنی مختارات النوازل میں ہے کہ ہر رکعت میں دس آیتیں پڑھے ''۔
بعضھم اختارو اقراء ة سورة الفیل الی آخر القران و ھٰذا احسن (بحر الرائق ص ٦٨ ج ٢ طبع مصر )
''یعنی بعض فقہاء نے سورہ فیل سے لے کر آخر قرآن تک کی قراء ت کو اختیار کیا ہے اور یہ بہتر ہے ''۔
یہی وہ تخصیصات ہیں جن کی بابت امام شوکانی نے لکھا ہے :
و اما مقدارا القراء ة فی کل رکعة فلم یرد بہ دلیل یا و تخصیصھا بقراء ت مخصوصة لم ترد بہ سنة ۔
یعنی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت سے ان تخصیصات کا ثبوت نہیں ہے ۔ لہذا یہ باتیں بے دلیل ہیں ۔
قولہ : علماء کی ایک جماعت کی تو یہ تحقیق ہے ۔ لہذا اس جماعت کی تحقیق میں وہ تمام روایات جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تراویح کا معین عدد بتانے کے لئے پیش کی جاتی ہیں ۔ خواہ آٹھ ہو یا بیس ۔ وہ سب روایتیں یا تو صحیح نہیں ہیں ، یا غیر متعلق ہیں ۔ بعض ان میں تراویح کا نہیں بلکہ کسی دوسری نماز کا عدد بتایا گیا ہے ۔ (رکعات ص ١٧)

ج : جی نہیں علماء کی اس جماعت کی تحقیق وہ نہیں ہے جو آپ بتا رہے ہیں ۔ جو عبارتیں آپ نے یہاں نقل کی ہیں وہ سب ناقص اور نامکمل ہیں ۔ ان علماء کا پوراکلام دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ دراصل ان کی تحقیق یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے فعل سے تراویح کا ایک معین عدد ثابت ہے اور وہ عدد معین بخاری شریف وغیرہ کی صحیح روایتوں کی بناء پر آٹھ رکعات بلا وتر اور گیارہ رکعات مع وتر ہے ۔

البتہ اس عدد خاص پر حصر اور تحدید نہیں ہے ۔ کیونکہ تراویح نفلی نماز ہے ۔ ان سب باتوں کا حوالہ پچھلے صفحات میں موجود ہے ۔ پھر ملاحظہ کر لیجئے ۔
جب انکی تحقیق یہ ہے تو پھر وہ کیسے کہ سکتے ہیں کہ ''وہ تمام روایات جن میں اس عدد معین (٨ یا ١١ ) کا بیان ہے ۔ یا تو صحیح نہیں ہے یا ان میں تراویح کا نہیں بلکہ کسی دوسری نماز کا عد د بتایا گیا ہے '' ۔

حیرت ہوتی ہے کہ مولانا مؤی نے یہ بے ثبوت بات کس طرح ان کی طرف منسوب کرنے کی جرات کر ڈالی ؟
ہاں وہ مرفوع روایات جو بیس کا عدد بتانے کے لئے پیش کی جاتی ہے ۔ اس کو بلا شبہ سب نے ضعیف اور ناقابل احتجاج کہا ہے ۔
ان دونوں روایتوں کو ایک درجہ میںرکھنا یا تو عصبیت ہے یا حدیث اور فنِ حدیث سے ناواقفیت ۔
مولانا مؤی کی پریشانی بھی قابل رحم ہے ۔ بے چارے آٹھ والی روایتوں کی صحت پر باصول محدثین کوئی معقول جرح کر نہیں سکتے ۔ تو ان کو بیس رکعت والی ضعیف روایت کیساتھ جوڑ کر کم از کم تشکیک ہی پیدا کر کے اپنی بھڑاس نکالنا چاہتے ہیں ... مگر :

ع چشم خفا کجا رونق خورشید برد​
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,859
ری ایکشن اسکور
41,096
پوائنٹ
1,155
دلائل اہلِ حدیث پر بحث

پہلی دلیل پر بحث اور اس کا جواب
مؤلف '' رکعاتِ تراویح'' کے اس تمہیدی مغالطے کا جواب دینے کے بعد اب اس بحث و تنقید کے جوابات عرض کرتا ہوں جو براہ راست اہل حدیث کے دلائل سے متعلق ہیں ۔
'' آٹھ رکعات کا ثبوت'' کے ذیل میں ہم نے تین حدیثیں پیش کی ہیں ۔ پہلی حدیث جو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے اس کی بابت مؤلف ''رکعات'' لکھتے ہیں :
قولہ : اہل حدیث کا یہ استدلال بالکل بے محل ہے کہ اور کسی طرح مثبت مدعا نہیں ۔ اولاً اس لئے کہ گفتگو تراویح کی رکعات میں ہے اور تراویح خاص رمضان کی نماز ہے ۔ جیسا کہ ابن حجر، حافظ عبداللہ غازی پوری اور قسطلانی نے لکھا ہے ۔ اور حدیث عائشہ میں اس نماز کا ذکر ہے جو غیر رمضان میں بھی پڑھی جاتی تھی ۔ تو اس کو تراویح اور اہل حدیث کے مدعا سے کیا تعلق ہے؟۔ (انتھی ملخصاً از رکعات ص ١٨)
ج : مولانا مئوی نے یہاں بھی حدیث کے شروع کے الفاظ مصلحتاً حذف کر دیئے ہیں ۔ شروع کے حصہ سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے سوال کیا تھا :
کیف کانت صلوٰة رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم فی رمضان
(یعنی رمضان شریف میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رات کی نماز کیا کیفیت تھی ؟ ) ۔
سائل نے خاص رمضان کی نماز کی بابت سوال کیا تھا اور بقول آپ کے ''تراویح خاص رمضان کی نماز ہے '' ۔ تو گویا بالفاظ دیگرسائل نے ''تراویح'' کی بابت پوچھا تھا ۔
اب دو ہی صورتیں ہیں ۔ یا تو یہ کہئے کہ حضرت عائشہ کا جواب سوال کے مطابق نہیں ہے ۔ سائل نے تراویح کا حال دریافت کیا تھا ۔ اور جناب صدیقہ نے اس کو تہجد کا حال بتایا ۔ تہجد کے ساتھ تراویح کا کوئی لگاؤ نہیں ۔ یہ دونوں نمازیں الگ الگ ہیں ۔
یا یہ کہئے کہ نہیں جناب صدیقہ کا جواب سوال کے مطابق ہے ۔ مع افادہ زائد۔ یعنی سائل نے اگرچہ صرف لیالی رمضان کی نماز (تراویح ) کی بابت سوال کیا تھا مگر حضرت عائشہ نے اس کو لیالی غیر رمضان (تراویح اور تہجد ) دونوں کی نمازوں کا حال بتا یا ۔ کیونکہ تراویح اور تہجد دونوں بے لگاؤ نہیں ہیں ۔ بلکہ وہی نماز جو غیر رمضان میں تہجد کہی جاتی ہے اس کا نام رمضان میں تراویح ہے ۔
آپ ضد اور عناد میں پہلی صورت کو اختیار کریں تو کر لیں ، مگر اہل حدیث اس کو گوارا نہیں کر سکتے ۔ ان کے نزدیک جناب صدیقہ جیسی صاحب فضل و کمال شخصیت کے متعلق اسکا تصور بھی جائز نہیں ہے کہ ان کا کلام سوال از آسمان و جواب ر یسماں کا مصداق ہو ۔ لہذا یہاں دوسری ہی صورت متعین ہے ۔ اور جب یہ صورت متعین ہے تو اہل حدیث کا مدعا ثابت اور استدلال بالکل بر محل ہے ۔
ہمارے جواب کی اس تقریر سے یہ بھی واضح ہو جاتا ہے کہ حافظ ابن حجر وغیرہ نے جو یہ کہا ہے کہ :
سمیت الصلوٰة فی الجماعة فی لیالی رمضان التراویح
(یعنی جو نماز جماعت کے ساتھ رمضان کی راتوں میں پڑھی جاتی ہے اس کا نام تراویح ہے) تو یہ ہدیث حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے مدلول و مفہوم کے منافی نہیں ہے ۔ کیونکہ حدیث عائشہ کا مدلول عام ہے ۔ وہ رمضان اور غیر رمضان ، جماعت اور فرادی ، سب صورتوں کو شامل ہے ۔ یعنی حدیث عائشہ کے مدلولِ عام کا تراویح ایک فرد خاص ہے ۔ پس دونوں کا تعلق ظاہر ہے کون عاقل کہہ سکتا ہے کہ عام اور اس کے فرد خاص میں تعلق نہیں ہوتا ؟ ۔
قولہ : اس بات کی تائید کہ اس حدیث کا تعلق تراویح سے نہیں ہے ۔ اس سے بھی ہوتی ہے کہ حافظ ابن حجر نے حضرت عائشہ کے اس بیان کو تہجد سے متعلق قرار دے کر تہجد مع وتر کی رکعتوں کے گیارہ ہونے کی حکمت یہ ذکر کی ہے ... میرا مقصد یہ ہے کہ حافظ ابن حجر کی اس تقریر سے بھی حدیث عائشہ کا تہجد کے باب میں ہونا ثابت ہے ... (رکعات ص )
ج : اگر اتنا ہی مقصد تھا تو پھر اس فضول درد سری سے کیا حاصل ؟ کون کہتا ہے کہ یہ حدیث تہجد کے باب سے نہیں ہے ۔ ہم تو مانتے ہیں کہ اس حدیث کا تعلق باب تہجد اور باب تراویح دونوں سے ہے ۔ اسی لئے امیر المؤمنین فی الحدیث حضرت امام بخاری رحمة اللہ علیہ نے اس حدیث کو ان دونوں ابواب کے ذیل میں ذکر کیا ہے ۔ محتاجِ دلیل تو آپ کا یہ دعویٰ ہے کہ ''اس حدیث کا تعلق تراویح سے نہیں ہے '' ۔ اس کی آپ نے کوئی دلیل نہیں دی ۔

اگر آپ یہ سمجھ رہے ہیں کہ حافظ ابن حجر کی اس تقریر کا منشاء یہ ہے کہ حدیث عائشہ کا تعلق تراویح سے نہیں ہے تو یہ آپ کی بہت بڑی غفلت اور بھول ہے ۔ حافظ ابن حجرہرگز اس بات کے قائل نہیں ہیں ۔ اس کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ یہی حافظ ابن حجر ہیں جنہوں نے حضرت ابن عباس کی اس حدیث کو جو بروایت ابوشیبہ بیس رکعات تراویح کے ثبوت میں پیش کی جاتی ہے ، دو وجہوں سے مجروح قرار دیا ہے ۔ ایک تو یہ کہ اس کی اسناد ضعیف ہیںاور دوسری یہ کہ حدیث عائشہ (زیر بحث) اس کی معارض حافظ ابن حجر کے الفاظ میں :
واما مارواہ ابن ابی شیبة من حدیث ابن عباس کان رسول اﷲ یصلی فی رمضان عشرین رکعة والوتر فاسنادہ ضعیف وقد عارضہ حدیث عائشة ھذا الذی فی الصحیحن مع کونھا اعلم بحال النبی صلی اللہ علیہ وسلم من غیرھا انتھی (فتح الباری ص ٢٠٥ و صفحہ ٢٠٦ طبع مصر)
بتائیے اگر حدیث عائشہ کا تعلق تراویح سے نہیں ہے تو یہ حدیث ابوشیبہ کی معارض کیسے ہو گی ۔ جیسا کہ آپ نے خود بھی اس کو تسلیم کیا ہے ۔ ملاحظہ ہو رکعات تراویح صفحہ ٦٢ ۔ ٦٣ ۔
اب حافظ ابن حجر کی ان دونوں تقریروں کو (ایک وہ جس کو آپ نے نقل کیا ہے اور دوسری وہ جس کو ہم نے پیش کیا ہے) ملا کر غور کیجئے۔ نتیجہ اس کے سوا اور کیا نکلے گا کہ حافظ ابن حجر کی تحقیق میں حدیث عائشہ کا تعلق تہجد سے بھی ہے اور تراویح سے بھی ۔
یہی اہل حدیث بھی کہتے ہیں ۔ پھر حافظ ابن حجر کی اس تقریر سے آپ کو کیا فائدہ پہنچا ۔ ؟

ع اے بسا آرزو کہ خاک شدہ​

قولہ : اور اس بات کی تائید اس سے بھی ہوتی ہے کہ علامہ ابن تیمیہ اور علامہ شوکانی وغیرہما کی تصریح آپ اوپر پڑھ چکے ہیں کہ تراویح کا کوئی عدد معین آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں ہے (رکعات صفحہ ١٩) ۔
ج : وہیں ہم نے آپ کے اس فریب کی قلعی بھی کھول دی ہے اور بتا دیا ہے کہ ان علماء کی تحقیق یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے فعل سے تراویح کا عدد معین ثابت ہے ۔ اور وہ ہے آٹھ رکعت بلاوتر اور گیارہ رکعت مع وتر ۔ مگر چونکہ یہ نفلی نماز ہے اس لئے اس عددِ خاص میں حصر نہیں ہے ۔

قولہ : اورتراویح کو کسی خاص عدد میں منحصر کرنا (مثلاً یہ کہنا کہ تراویح کی گیارہ ہی رکعتیں سنت ہیں یا تیرہ ہی رکعتیں سنت ہیں اور تیرہ یا گیاہ پر زیادتی خلافِ سنت ہے ) ابن تیمیہ کے الفاظ میں خطا ہے اور شوکانی کے الفاظ میں ایسی بات ہے جس کا ثبوت کسی حدیث میں نہیں ملتا ۔ (رکعات ص ١١)
ج : ان رکعتو ں کو ''سنت'' اور ان پر زیادتی کو ''خلاف سنت'' کہنے سے ہماری مراد کیا ہے ؟ پہلے اس کو سمجھ لیجئے ۔
سنت کہنے سے ہماری مراد یہ ہے کہ آںحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے فعل سے یہ رکعات ثابت ہیں ۔ اور ''خلاف سنت'' سے مراد یہ ہے کہ اس سے زیادہ فعلِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے بسند صحیح ثابت نہیں ہے ۔ ''خلاف سنت'' سے مراد عدم جواز نہیں ہے ۔
سنت کی یہ مراد ابنِ تیمیہ اور شوکانی وغیرہماکو خود تسلیم ہے ۔ یعنی وہ مانتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے فعل سے گیارہ یا تیرہ رکعات ثابت ہیں ۔ جیسا کہ ان کی کتابوں کے ہوالے سے پہلے گذر چکا ہے ۔ اس لئے نہ ابن تیمیہ کے الفاظ میں خطا ہے اور نہ شوکانی کے الفاظ میں ۔ یہ ایسی بات ہے جس کا ثبوت حدیث میں نہیں ہے ۔ بالکل غلط ترجمانی آپ نے ان کی کی ہے ۔
ان کا اعتراض ایسے حصر اور تحدید پر ہے جس پر کمی ، زیادتی کو ناجائز کہا جائے ۔ ''سنت'' ہونے پر نہیں ۔ بات سمجھ کر اعتراض کیجئے ۔
قولہ : پس ان حضرات کے نزدیک بھی حدیثِ عائشہ میں تراویح کی رکعات کا بیان نہیں ہے اور اگر ہے تو ان کے نزدیک اس حدیث کا یہ مطلب نہیں کہ گیارہ سے زیادہ پڑھنا سنت کیخلاف ہے ۔ اس لئے کہ اگر یہ مطلب ہو تو یہ خود ان کی کہی ہوئی بات کے خلاف ہو گا اور عقلاء کے کلام میں ایسا تناقص نہیں ہوتا۔ (ص ١١)
ج : ان حضرات کے کلام سے نامکمل عبارتیں پیش کرکے آپ یہ ہوئی قلعہ تعمیر کر رہے ہیں ۔ ایک مرتبہ پھر ہم ان کی عبارتیں آپ کے سامنے رکھ دیتے ہیں ۔ علامہ ابن تیمیہ لکھتے ہیں :
النسة فی التراویح ان تصلی بعد العشاء الاخرة ... فان ھذہ تسمی قیام رمضان کما قال النبی صلی اللہ علیہ وسلم فرض علیکم یام رمضان و سننت لکم قیامہ ... وکان النبی صلی اللہ علیہ وسلم قیامہ بالیل ھو وترہ یصلی بالیل فی رمضان وغیر رمضان احدی عشرة رکعة او ثلث عشرة رکعة لکن کان (یطیلھا) فلما کان ذالک یشق علی الناس قام بھم ابی بن کعب فی زمن عمرابن الخطاب عشرین رکعة یوتر بعدھا و یخفف فیھا القیام فکان تضعیف العدد عرضا عن طول القیام وکان بعض السلف یقوم اربعین رکعة فیکون قیامھا اخف دیوتر بعدھا بثلاث وکان بعضھم یقوم بست ثلاثین رکعة یوتر بعدھا انتھی ۔ (فتاوی ابن تیمیہ ص ١٤٨ ج ١ )
اس عبارت میں اگرچہ حضرت عائشہ رضی ا للہ عنہا کا نام نہیں آیا ہے ، مگر فن حدیث کا ذوق رکھنے والے خوب سمجھتے ہیں کہ گیارہ اور تیرہ رکعات سے اشارہ انہی کی حدیث کی طرف ہے ۔ غور کیجئے ۔ شروع سے آخر تک تراویح کا بیان ہے اور اسی سلسلہ میں ١١ یا ١٣ رکعات کا ذکر فعل نبوی کی نسبت کے ساتھ آیا ہے ۔ ابن تیمیہ یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ عہد فاروقی وغیرہ میں جو عدد رکعات کا اضافہ ہوا ہے یہ طول قیام کے عوض میں ہے ۔ کیا یہ سب باتیں تراویح کے متعلق نہیں ہیں ؟ پھر یہ کہنا کیسی غفلت اور نا واقفیت کی بات ہے کہ امام ابن تیمیہ کے نزدیک حدیثِ عائشہ میں تراویح کا بیان نہیں ہے ۔
اسی طرح امام شوکانی لکھتے ہیں :
واما العدد الثآبت عنہ صلی اللہ علیہ وسلم فی صلوتہ فی رمضان فاخرج البخاری وغیرہ عن عائشة الی ان قال واخرج البیھقی عن ابن عباس کان یصلی فی شھر رمضان فی غیر جماعة عشرین رکعة والوتر زاد سلیم الرازی فی کتاب الترغیب لہ ویوتر بثلاث قال البیھقی تفرد بہ ابوشیبة ابراھیم بن عثمان وھو ضعیف انتھی ۔ (نیل الاوطار مع العون صفحہ ٢٩٩ ج ٢)
بتائیے ! اگر علامہ شوکانی کے نزدیک حدیث عائشہ میں تراویح کا بیان نہیں ہے تو اما لعدد الثابت عنہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جواب میں سب سے پہلے حدیث عائشہ اور اس کے بعد حدیث ابو شیبہ کا حوالہ دینے کا کیا مطلب ہے ؟ کیا عقلاء کے کلام میں ایسی ہی بے ربط اور بے جوڑ باتیں ہوا کرتی ہیں ؟ ۔
پس اس میں تو شبہ ہی نہیں ہے کہ ان حضرات کے نزدیک حدیث عائشہ میں تراویح کا بھی بیان ہے ۔ اب رہا یہ خیال کہ اگر ہے تو ان کے نزدیک اس حدیث کا یہ مطلب نہیں ۔ الخ ۔
تو اس کی بابت عرض ہے کہ ''سنت'' اور ''خلاف سنت'' کی جو مراد ہم نے اوپر بیان کی اس کے لحاظ سے یقینا اس حدیث کا مطلب ان کے نزدیک بھی یہی ہو گا کہ جو عدد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے فعل سے ثابت نہیں ہے وہ خلاف سنت ہے ۔ ہاں جس عدد کا پڑھنا ایک دفعہ بھی ثابت ہووہ بے شک سنت ہے ۔ کیونکہ بقول مولانا رشید احمد صاحب گنگوہی ''تسنن کے واسطے ایک دفعہ کا فعل بھی کافی ہے'' ۔ (الرای النجیح ص ١٦) ۔
مگر جس عدد کا پڑھنا ایک دفعہ بھی بسند صحیح ثابت نہ ہو جیسے بیس رکعات تو اس کو کیسے فعلِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم (سنت) کہا جائیگا ؟ ۔
اسی لئے امام ابن تیمیہ نے صرف ١١ یا ١٣ کو فعل نبوی بتایا ہے ۔ بیس کی مرفوع روایت کو تو انہوں نے قابل ذکر بھی نہیں سمجھا ۔ بعد میں تعداد رکعات میں جو اضافہ ہوا ہے اس کو وہ طولِ قیام کا عوض کہ رہے ہیں ۔ گویا ان کے نزدیک یہ ایک اجتہادی امر ہے ۔ فعل نبوی سے ثابت نہیں ۔ امام شوکانی نے بھی ''عدد ثابت '' گیارہ ہی کو بتایا ہے ۔ بیس کو ضعیف قرار دے دیا ہے ۔ لہذا ان حضرات کے نزدیک محقق امر یہی ہے کہ بیس یا اس سے زیادہ رکعات خلافِ سنت ہیں ۔ یعنی فعل نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں ہیں ۔
اور یہ ان کی کہی ہوئی بات کے ہرگز خلاف نہیں ۔ کیونکہ ''خلاف سنت'' سے مراد یہ نہیں ہے کہ یہ ''عدد ثابت'' فرض نماز کی رکعات کی طرح متعین اور محدود ہے ۔ لا یزاد علیہ ولا ینقص یہ نفلی نماز ہے اس لئے فعلِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے کسی عدد خاص کے ثبوت کے باوجود اس میں کمی زیادتی ہو سکتی ہے جیسا کہ لطائفِ قاسمیہ میں ہے :
''وتحدید رکعات آں نہ فرمودہ کہ کمی و زیادة دراں روا نبا شد ۔ چنانکہ در فرائض و رواتب سنن ست '' ۔ ص ١٤ ۔
ان حضرات کی عبارتوں پر پھر غور کیجئے ۔ ہم نے بار ہا آپ کو بتایا ہے کہ انہوں نے حصر و تحدید کی نفی کی ہے ۔ فعل نبوی سے ثبوت کی نہیں ۔ لہذا ان کے کلام میں ہرگز کوئی تناقض نہیں ۔
تنبیہ : اس موقع پر ہم اپنے قارئین کی توجہ اس طرف مبذول کرانا چاہتے ہیں کہ وہ ذرا تکلیف کر کے ایک مرتبہ پھر علماء حنفیہ کی ان شہادتوں کو پڑھ لیں جو پچھلے صفحات میں پیش کی گئی ہیں اور اندازہ لگائیں کہ احناف کے کیسے کیسے اکابراس بات کو تسلیم کر رہے ہیں کہ حدیث عائشہ میں تراویح کا بھی بیان ہے ۔
سوچنے کی بات ہے کہ کسی حدیث کے معنی و مدلول کے سمجھنے کا سلیقہ احناف میں سید الاحناف امام محمد اور علامہ ابن ہمام ، ابن نجیم ، طحطاوی ، زیلعی وغیرہم کو زیادہ حاصل ہے ؟ یا مولانا حبیب الرحمن اعظمی کو ؟ ۔
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,859
ری ایکشن اسکور
41,096
پوائنٹ
1,155
قولہ : ثانیا اگر بالفرض اس حدیث کا تعلق تراویح ہی سے ہو تو بھی اس سے ہرگز یہ ثابت نہیں ہوسکتا کہ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے گیارہ سے زیادہ تراویح نہیں پڑھی ۔ اس لئے کہ حضرت عائشہ نے ایک دوسری صحیح روایت میں یہ بھی فرمایا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تیرہ رکعت پڑھتے تھے ... تو اہلحدیث کا یہ دعویٰ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا مع وتر گیارہ رکعت سے زیادہ پڑھنا ثابت نہیں ۔ جیسا کہ حافظ عبداللہ صاحب نے رکعات التراویح میں لکھا ہے کہ باطل ہو گیا ۔(ص ١٩)
ج : اسی شبہ کے دفع کرنے کے لئے حضرت حافظ صاحب مرحوم نے اس مقام میں مدلل حاشیہ لکھا ہے اور تحفة الاحوذی میں بھی اس کا جواب دیا گیا ہے ، مگر مولانا مئوی اس کے ذکر سے بالکل خاموش ہیں ۔ اس لئے کہ بات معقول ہے ۔ مولانا نے سوچا عافیت اسی میں ہے کہ نگاہیں بچا کر نکل چلو ۔

زاہد ندا شت تاب وصال پر رخاں
کنجے گرفت و ترس خدا را بہانہ ساخت​

بہر حال پہلے ہم حافظ عبداللہ صاحب اور تحفة الاحوذی کے جواب کو ذرا وضاحت سے پیش کرتے ہیں اس کے بعد ایک دوسرا جواب خود عرض کریں گے
اس سلسلہ میں ایک بات ملحوظ خاطر ر ہے کہ حدیث عائشہ (زیر بحث) میں لیالی رمضان اور لیالی غیر رمضان دونوں کی نمازوں کے بارے میں گیارہ رکعت سے زیادہ ہونے کی نفی کی گئی ہے ۔ لہذا تیرہ رکعت والی روایت سے جو اعتراض کے حصر پر وارد ہوتا ہے وہی اعتراض تہجد پر بھی ہوتا ہے ۔ اس لئے جو جواب تہجد کی بابت دیا گیا ہے ، وہی جواب تراویح کی بابت بھی ہو گا ۔
اس تمہید کے بعد گذارش یہ ہے کہ حافظ عبداللہ صاحب نے رکعات التراویح کے حاشیہ میں اور مولانا مبارک پوری نے تحفة الاحوذی میں جواب دیا ہے ۔ یہ جواب دراصل حافظ ابن حجر کے کلام سے ماخوذ ہے ۔ حافظ ابن حجر نے گیارہ اور تیرہ والی روایتوں کے درمیان تطبیق و توجیہہ کی ۔ پہلے یہ دو صورتیں ذکر کی ہیں
فیحتمل ان تکون اضافت الی صلوة اللیل سنة العشاء لکونہ کان یصلیھا فی بیتہ او ما کان یفتتح بہ صلاة اللیل فقد ثبت عند مسلم من طریق سعد بن ھشام عنہا انہ کان یفتتحھا برکعتین خفیفتین وھذا ارجح فی نظری لان روایة ابی سلمة التی دلت علی الحصر فی احدی عشرة جاء فی صفتھا عند المصنف وغیرہ یصلی اربعاً ثم اربعاً ثم ثلاثاً فدل علی انھا لم تتعرض للرکعتین الخفیفتین وتعرضت لھما فی روایة الزھری والزیادة من الحافظ مقبولة وبھذا یجمع بین الروایات انتھی (فتح الباری باب کیف صلوة اللیل وکم کان النبی صلی اللہ علیہ وسلم یصلی باللیل )
اس عبارت کا ما حصل یہ ہے کہ جس روایت میں تیرہ رکعت کا ذکر ہے ۔ ہو سکتا ہے کہ حضرت عائسہ رضی اللہ عنہا نے اس میں عشاء کی سنت کو بھی صلوة اللیل میں شمار کیا ہو ۔ کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس کو بھی گھر ہی میں پڑھا کرتے تھے ۔ یا یہ کہا جائے کہ حضرت عائشہ ہی کا بیان ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم صلوٰة اللیل کا افتتاح رکعتین خففتین سے فرمایا کرتے تھے ۔ اس لئے ابوسلمہ عن عائشہ کی جس روایت میں گیا رہ رکعتوں کا حصر ہے ، اس میں رکعتین خفیفتین کے علاوہ لمبی لمبی رکعتیں مراد ہیں ۔ جیسا کہ ان الفاظ سے معلوم ہوتا ہے : یصلی اربعاً فلا تسئل عن حسنھن وطولھن ثم یصلی اربعاً الخ
اور جس روایت میں تیرہ رکعت کا ذکر ہے اس میں ان دونوں ہلکی اور افتتاحی رکعتوں کو بھی ملا لیا گیا ہے ۔ اس طرح ان دونوں روایتوں میں بلا تکلف تطبیق ہو جاتی ہے ۔ اس توجیہہ کی بابت حافظ ابن حجر نے لکھا ہے وھذا ارجح فی نظری (میری نظر میں یہی راجح ہے ) ۔ گویا تہجد اور تراویح کی اصل رکعات آٹھ ہی ہیں ۔ دو خفیف رکعتیں مبادی سے ہیں ۔ ان کو شمار کیا جائے تو تیرہ رکعت ہوں گی ۔ ورنہ گیارہ ۔ چنانچہ مولانا شبیر احمد عثمانی لکھتے ہیں :
قلت والذی یظھر للعبد الضعیف من مجموع الروایات واﷲ اعلم ان النبی صلی اللہ علیہ وسلم کان یفتتح صلوٰتہ باللیل برکعتین خفیفتین وھما من مبادی التھجد ثم یصلی ثمان رکعات وھی اصل التہجد ثم یوتر بثلاث رکعات الخ (فتح الملہم جلد ثانی ص ٢٨٨)
پھر حضرت ابن عباس کی شرح کے ذیل میں لکھتے ہیں :
فالحاصل ان صلوة صلی اللہ علیہ وسلم باللیل کان ثلاث عشرة رکعة مع الرکعتین الخفیفتین اللتین کانتا من مبادی التہجد واحدی عشرة رکعة بدونھا فاصل التہجد منھا ثمان رکعات والوتر ثلاث وھذا العدد یوافق ما تقدم عن عائشة رضی اللہ عنھا وﷲ الحمد انتھی (فتح الملہم جلد ثانی ص ٣٢٧)
مولانا عثمانی نے اگرچہ یہ بات تہجد کے متعلق کہی ہے ، مگر یہاں تراویح کا بھی یہی حکم ہے جیسا کہ ہم نے شروع میں عرض کر دیا ۔
حافظ ابن حجر نے مذکور بالا دونوں توجیہیں بیان کرنے کے بعد ایک سوال اٹھایا ہے کہ وتر کے بعد جن دو رکعتوں کا ذکر بعض حدیثوں میں ہے ، آیا یہ کوئی مستقل نماز ہے یا اس سے فجر کی سنت مراد ہے ؟ شق اول کی تائید میں احمد و ابوداؤد کے حوالے سے حضرت عائشہ کی ایک حدیث نقل کی ہے جس میں بیان ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مع وتر ٧ ۔ ٩ ۔ ١١ ۔ ١٣ رکعتیں پڑھتے تھے ۔ اس کے بعد بعض علماء کا یہ قول ذکر کیا ہے کہ صلوٰة اللیل کی بابت حضرت عائشہ کی روایات میں اضطراب ہے ۔ اسی قول کی تردید کرتے ہوئے حافظ نے کہا ہے :
وھذا انما یتم لو کان الراوی عنھا واحداً واخبرت عن وقت واحد والصواب ان کل شٔ ذکرتہ من ذلک محمول علی اوقات متعددة واحوال مختلفة بحسب النشاط وبیان الجواز واﷲ اعلم انتھی (فتح الباری ص ١٦ ص ٣ ) ۔
اسی توجیہہ کو مولانا مئوی نے اپنی کتاب میں جگہ دی ہے ۔ حالانکہ یہ توجیہہ بحث کے بالکل آخر میں ہے اور ایک دوسرے مبحث کے ضمن میں ہے ۔ اور ٧ ، ٩ ، ١١ ، ١٣ ان سب اعداد کے اعتبار سے ہے ۔ اور وہ اصل توجیہہ جو شروع میں ہے اور جو خود حافظ ابن حجر کی نظر میں ہے اور خاص اس حدیث کے متعلق ہے جو اس وقت نزاعی یعنی حدیث ابوسلمہ عن عائشہ اس کو علامہ مئوی نے چھوڑ دیا ہے ۔ حالانکہ موقع کے لحاظ سے اسی کا یہاں ذکر کرنا زیادہ مناسب تھا لیکن چونکہ تحقیقِ حق مقصود نہیں ہے ، بلکہ حمایت مذہب پیش نظر ہے اس لئے مولانا کی دوربیں نگاہوں نے مصلحت نہیں سمجھا کہ حلقہء ارادت کے عوام کو اس توجیہہ سے روشناس کیا جائے کیونکہ اعتراض کے پوری طرح دفعیہ کے ساتھ ساتھ اس توجیہ کے ضمن میں حافظ ابن حجر کے یہ الفاظ لان روایة ابی سلمة التی دلت علی الحصر فی احدی عشرة کھلے طور اہل حدیث کے مذہب کی تائید کر رہے ہیں اور مولانا جیسا متعصب حنفی عالم یہ کب گوارا کر سکتا تھا کہ حق کی آواز حنفی عوام کے کانوں میں بھی گونجے اور وہ بھی ان کے قلم سے ۔
نیز اس توجیہہ سے اغماض کرنے کی دوسری وجہ یہ ہے کہ اسے صرف گیارہ اور تیرہ والی روایتوں کا اختلاف دور ہوتا ہے ۔ دوسرے قسم کے اختلافات پر یہ توجیہہ منطبق نہیں ہو سکتی اور مولانا کو فکر یہ ہے کہ اس موقع پر جب کہ اختلاف روایات کے بین تطبیق پر گفتگو ہو رہی ہے ۔ کلامِ محدثین میں کوئی ایسی گنجائش نکال رکھی جائے جو بیس والی ضعیف روایت پر بحث کے سلسلے میں کام آ سکے ''یہ مطلب'' صرف آخری ہی توجیہہ سے بظاہر پورا ہوتا نظر آتا ہے ۔ اس لئے اس کو نمایاں کیا گیا ہے اور دوسری توجیہہ موقع کے لحاظ سے خواہ کتنی ہی اقرب اور انسب سہی مگر اپنے ''مطلب'' کی نہیں ، بلکہ فی الجملہ مضر ہے ۔ اس لئے مولانا مئوی نے اس کو چھپانا ہی بہتر سمجھا ۔

خیر اب ہمارا دوسرا جواب سنیئے ! لیکن اس جواب سے پہلے اعتراض اور اس کے پچھلے جواب کا خلاصہ پھر سمجھ لیجئے :
مولانا مئوی کے اعتراض کا منشاء یہ ہے کہ ''اہل حدیث کا یہ دعویٰ گیارہ رکعات پر حصر کا ہے حالانکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے تیرہ رکعت پڑھنا بھی ثابت ہے ۔ لہذا گیارہ رکعات پر حصر کا دعویٰ باطل ہو گیا '' ۔
اس کے جواب میں اب تک جو کچھ کہا گیا ہے اس کا خلاصہ یہ ہے کہ ''حصر'' کا دعویٰ اہلحدیث کا نہیں بلکہ خود حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا کا ہے ۔ لہذا اس ہدیث میں اپنے زعم کے مطابق صرف تہجد مراد لیجئے ، یا اہل حدیث کے قول کے مطابق تہجد اور تراویح دونوں مراد لیجئے ، بہر حال اعتراض مشترک ہے ، پس جو جواب تہجد کے ''حصر'' کی بابت آپ کا ہے وہی جواب تراویح کی بابت ہمارا ہے اور وہ حافظ ابن حجر اور مولانا شبیر احمد عثمانی کے بیان کے مطابق یہی ہے کہ یہ ''حصر'' مطلقاً نہیں بلکہ لمبی لمبی رکعتوں کے اعتبار سے ہے ۔ گویا بالفاظ دیگر یہ حصر حقیقی نہیں بلکہ اضافی ہے ۔ یہ بھی یاد رہے کہ یہ حصر گیارہ سے ''زیادہ'' کے اعتبار سے کم کے اعتبار سے نہیں ہے ۔
اسی کی روشنی میں ہم دوسرا جواب یہ عرض کرتے ہیں کہ اہل حدیث کا یہ دعوی یا بقول آپ کے ''شور و غوغا'' ان ضدی اور متعصب حنفیوں کے مقابلے میں ہے جو اس تعداد کے ''سنت'' ہونے کا انکار کرتے ہیں اور اس کے بجائے صرف بیس رکعات کے مسنون اور قابل عمل ہونے کا ڈھنڈورا پیٹے ہیں ۔ گویا اہل حدیث جب یہ کہتے ہیں کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کے قول یا فعل سے بسند صحیح مع وتر گیارہ رکعات سے زیادہ ثابت نہیں ... تو اس ''زیادہ'' سے ان کی مراد مطلق زیادتی کی نفی نہیں ہے بلکہ وہ زیادتی جو اس وقت عام طور پر معہود اور متعارف ہے جس کی بابت جھگڑا اور چرچا ہے یعنی بیس رکعات ۔
لہذا جب تک بیس رکعات کا ثبوت آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے قول یا فعل سے نہیں ہو گا ، اہل حدیث کا دعویٰ باطل نہیں ہوگا ۔ تیرہ رکعات کا ثبوت اہل حدیث کے مدعا کے منافی نہیں ہے ، بلکہ یہ حصر حقیقی نہیں اضافی ہے اور مضاف الیہ ایک خاص اور معہود امر ہے اور وہ ہے بیس رکعات ۔
قولہ : اور جب کہ حضرت عائشہ کی حدیث میں باقرار اہل حدیث رمضان و غیر رمضان کی تمام راتوں کا حال مذکور نہیں ، بلکہ بعض یا اکثر کا تو اہل حدیث کا اپنے مدعا کے ثبوت میں اس کو پیش کرنا نادانی اور تجاہل ہے (رکعات ص ٣٠)
ج : اہل حدیث کا یہ اقرار گیارہ سے کم اعداد (٧ یا ٩) کے اعتبار سے ہے جو صحیح احادیث سے ثابت نہیں ہیں ۔ ١١ یا ١٣ سے ''زیادہ'' کے اعتبار سے تو حدیث عائشہ میں تمام راتوں کا ہی حال بیان کیا گیا ہے ۔ اگر آپ اتنی سی بات نہ سمجھیں یا سمجھ کر بے سمجھ بنیں تو یہ آپ کی نادانی یا تجاہل ہے اہلحدیث کی نہیں ۔
قولہ : نیز جب اس حدیث میں تمام راتوں کا نہیں بلکہ زیادہ سے زیادہ اکثر راتوں کا حال مذکورہے تو اگر کوئی شخص یہ دعوی کرے کہ بعض راتوں میں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے گیارہ سے زیادہ بھی پڑھی ہیں اور اس کے ثبوت میںکوئی حدیث بیان کرے تو اس حدیث کو حدیث عائشہ کے معارض و مخالف قرار دینا سخت بھول اور غفلت پر مبنی ہے ۔ (رکعات ص )
ج : ہم آپ کی ''پہیلی بوجھ'' رہے ہیں یہ بیس رکعت والی ضعیف روایت کو اصول محدثین میں گھسانے کے لئے ''چور دروازہ'' کی تلاش ہے ، لیکن ان نفوسِ قدسیہ کے یہاں چور دروازہ کہاں ۔ ہم تو اسی وقت آپ کا ''مطلب'' پا گئے تھے جب آپ نے حافظ ابن حجر کی ارجح اور انسب توجیہہ کو چھوڑ کر ضمنی توجیہہ کو اختیار کیا تھا ۔
حنفی مذہب کیسا یتیم مذہب ہے کہ اس غریب کا سہارا یا تو کوئی ضعیف حدیث ہے یا کوئی کمزور توجیہہ ۔
خیر ابھی تو آپ اشاروں ہی اشارے میں باتیں کر رہے ہیں جب کھل کر سامنے آئیں گے اس وقت ہم آپ کو بتائیں گے کہ غفلت اور بھول میں کون مبتلا ہے ؟ ۔
قولہ : ثالثاً حضرت عائشہ کی اس حدیث کا پہلا فقرہ جس کا مفہوم یہ ہے کہ ''آپ رمضان و غیر رمضان میں گیارہ سے زیادہ نہیں پڑھتے تھے '' ۔ ذرا مبہم ہے ... مگر حضرت عائشہ نے دوسرے فقرے میں اس ابہام کو دور کر کے گیارہ سے زیادہ نہ پڑھنے کی ایک صورت متعین کر دی کہ نہ سات، نہ نو بلکہ گیارہ پڑھتے تھے اور یہ کہ وتر کی تین رکعتیں پڑھتے تھے ۔ نہ اس سے کم نہ زیادہ ۔ اسی کے ساتھ یہ بھی سن لیجئے کہ مولانا عبدالرحمن مبارکپوری نے تحفتہ الاحوذی میں اس بات کو بھی صاف کر دیا ہے کہ ظاہر یہی ہے کہ یہ پہلی چار چار رکعتیں ایک ایک سلام سے اور پچھلی تین رکعتیں ایک سلام سے تھیں (ملخصاً ص ٢١)
ج : حیرت ہے کہ جس مضمون کو حدیث کا ایک مبتدی طالب علم سمجھ سکتا ہے ، اس کو ایک ''محدث'' سمجھنے سے قاصر ہے ۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا خود بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سات بھی پڑھتے تھے اور نو بھی اور گیارہ بھی ۔
عن مسروق قال سئالت عائشة عن صلوٰة رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم باللیل فقالت سبع و تسع واحدی عشرة سوی رکعتی الفجر (بخاری شریف ص ١/١٥٣)
آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اسی عمل کو سامنے رکھ کر حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا گیارہ سے ''زیادہ'' مثلاً بیس ، تیس ، چھتیس وغیرہ کی نفی کر رہی ہیں ۔ گیارہ سے کم کی نہیں ، مگر ہمارے ''محدث ِ شہیر'' فرماتے ہیں نہ سات، نہ نو، بلکہ صرف گیارہ ۔
ع ناطقہ سربگریباں کہ اسے کیا کہیے ۔
جب یہ ثابت ہو گیا کہ گیارہ سے ''زیادہ'' کی نفی سے گیارہ ، سات ، نو اور تینوں صورتوں کی نفی نہیں بلکہ ان کو برقرار رکھنا مقصود ہے تو ظاہر ہے کہ اس کے بعد دوسرے فقرے میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا نے ان رکعات کے ادا کرنے کی جو کیفیت بیان کی ہے ، وہ ان تینوں اعداد میں سے صرف ایک عدد کی ہے ۔ یعنی گیارہ کی ، کیونکہ ان اعداد میں زیادہ عمل گیارہ ہی پر تھا ۔ سات اور نو رکعات کے ادا کرنے کی کیفیت اس موقع پر نہیں بتائی ۔ اس موقع پر تحفتہ الاحوذی کا حوالہ بالکل بے محل ہے ۔ جیسا کہ آگے آ رہا ہے ۔
قولہ : اس تمہید کے بعد اب ہماری گذارش یہ ہے کہ جب حدیث کے پہلے فقرے سے اہل حدیث کے خیال میں آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا دائمی معمول یہ ثابت ہو گا کہ آپ گیارہ سے زیادہ نہیں پڑھتے تھے ، تو دوسرے فقرے سے جس میں پہلے ہی فقرے کی توضیح و تشریح کی گئی ہے ، یہ ثآبت ہوا کہ آپ کا دائمی معمول گیارہ پڑھنے کا اس طرح تھا کہ پہلے چار چار رکعتیں ایک سلام سے پڑھتے تھے ، پھر وتر کی تین رکعتیں ایک سلام سے پڑھتے تھے ۔ (رکعات ٢١)
ج : سخن فہمی عالم بالا معلوم شد ۔ اجی حضرت ! پہلے فقرے میں تو یہ صراحت ہے : ما کان یزید ...... علی احدی عشرة رکعة (گیارہ رکعت سے زیادہ نہیں پڑھتے تھے) لیکن کیا دوسرے فقرے میں بھی اس قسم کی کوئی صراحت ہے کہ ادائے رکعات کی یہ کیفیت دائمی تھی ؟ اگر نہیں ہے اور یقینا نہیں ہے تو پھر اس کیفیت کا دوام کیسے لازم آیا ۔ اگر رکعات کی تعداد گیارہ سے زیادہ نہ رہی ہو ، لیکن ادا کی کیفیت کبھی یہ رہی ہو کہ چار چار رکعتیں ایک سلام سے پڑھی ہوں اور کبھی یہ رہی ہو کہ دو دو رکعتوں پر سلام پھیرا ہو ۔ اسی طرح کبھی وتر کی تین رکعتیں ایک ہی سلام کے ساتھ پڑھی ہوں اور کبھی دو سلام سے تو پہلے فقرے اور دوسرے فقرے اور دوسرے فقرے کے درمیان کیا منافات ہے لازم آگئی ہے۔اسی واسطے محدثین نے دوسرے فقرے کوان دونوں صورتوں کا محتمل بنایا ہے ۔ قرب اور بعد کا فرق ہو سکتا ہے ۔ خطا اور صواب کا نہیں ۔ نیز خود حضرت عائشہ ہی کی دوسری روایت سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ کیفیت دائمی نہ تھی ۔ کما سیاقی عنقریب تحفة الاحوذی میں مولانا مبارک پوری نے جو لکھا ہے ۔ یہی مولانا شبیر احمد عثمانی نے بھی لکھا ہے :
الظاہر انھا سلام واحد و یحتم کونھا بتسلیمتین (فتح الملہم جلد ثانی ص ٢٩١)
مولانا مبارک پوری نے ایک سلام سے پڑھنے کو حدیث کا ظاہر مدلول کہا ہے ، لیکن اس کیفیت کے ''دائمی معمول'' ہونے کو حدیث کا ظاہر مدلول نہیں کہا ہے ۔ اس لئے تحفة الاحوذی کا حوالہ اس موقع پر پیش کرنا آپ کی نادانی ہے یا تجاہل ۔
قولہ : لہذا اہل حدیث کو لازم تھا کہ وہ کبھی گیارہ رکعت سے کم تراویح نہ پڑھتے اور ہمیشہ چار چار رکعتوں پر سلام پھیرتے اور ہمیشہ وتر کی تین رکعتیں ایک سلام سے پڑتھے ، مگر اہل حدیث ایسا نہیں کرتے بلکہ عموماً نو رکعتیں پڑھتے ہیں اور اگر کوئی تین پڑھ بھی لیتا ہے تو دو سلام سے ۔ (ص ٢٢)
ج : مولانا نے حدیث کسی اہل حدیث سے پڑھی ہوتی تو یہ مظالطہ نہ کھاتے ہم نے بتا دیا کہ اس حدیث میں گیارہ سے کم پڑھنا بھی ثابت ہے جیسا کہ حدیث گذر چکی ۔لہذا یہ سنت کے خلاف نہیں ہے ۔ اسی طرح ادا کی کیفیت بیان کرتے ہوئے اگر حضرت عائشہ نے فرما دیا ہوتا کہ اس کیفیت کے خلاف آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کبھی نہیں پڑھتے تھے ، جیسا کہ تعداد کی بابت انہوں نے تصریح کر دی کہ گیارہ سے زیادہ نہیں پڑھتے تھے ۔ تو بلا شبہ اہل حدیث اس کیفیت کو بھی جرزجاں بناتے اور نفل ہونے کے اعتبار سے اگر اس کو ''لازم العمل'' نہیں تو افضل اور احسن تو ضرور سمجھتے ۔ تاہم سنت تو بحمد للہ اب بھی سمجھتے ہیں ۔ بعض علماء احناف کی طرح اس کا انکار نہیںکرتے ۔ جیسا کہ مولانا انور شاہ کشمیری نے کہا ہے
لان الاربع ھذہ لم تکن بسلام واحد (فیض الباری ج ٢ ص ٤٢١)
لیکن ہمیشہ اسی کیفیت کے ساتھ اس لئے نہیں پڑھتے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا ہی کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے گیارہ رکعتیں کبھی اس طرح بھی پڑھی ہیں کہ دو دو رکعتوں پر سلام پھیرتے تھے اور پھر وتر ایک رکعت پڑھتے تھے ۔ حدیث کے الفاظ یہ ہیں :
عن عائشة زوج النبی صلی اللہ علیہ وسلم قالت کان رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم یصلی ما بین ان یفرغ من صلوة العشاء وھی التی یدعون الناس العتمة الی الفجر احدی عشرة رکعة یسلم بین کل رکعتین ویوتر بواحدة الحدیث (مسلم شریف جلد اول ص ٢٥٤)
اس کے علاوہ دوسر ی صورتیں بھی حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اور دوسرے صحابہ سے صحیح احادیث میں مروی ہیں ، مگر تعداد کے متعلق کسی صحیح روایت میں نہیں ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی بھی گیارہ یا تیرہ رکعات سے زیادہ پڑھا ہو ۔
اسی طرح وتر اہل حدیث ایک رکعت بھی پڑھتے ہیں اور تین رکعات بھی اور جب تین رکعات پڑھتے ہیں تو کبھی دو سلام سے اور کبھی ایک سلام اور ایک تشہد سے ۔ کیونکہ یہ سب صورتیں صحیح اور مرفوع روایات سے ثابت ہیں ۔ حدیث کا ایک ادنی طالب علم بھی ان باتوں کو جانتا ہے ، مگر حیرت ہے کہ ''محدث شہیر'' کی اس ناواقفیت یا تجاہل پر ۔

ان کنت لا تدری فتلک مصیبة
وان کنت تدری فالمصیبة اعظم
 
Top