قولہ : ثانیا اگر بالفرض اس حدیث کا تعلق تراویح ہی سے ہو تو بھی اس سے ہرگز یہ ثابت نہیں ہوسکتا کہ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے گیارہ سے زیادہ تراویح نہیں پڑھی ۔ اس لئے کہ حضرت عائشہ نے ایک دوسری صحیح روایت میں یہ بھی فرمایا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تیرہ رکعت پڑھتے تھے ... تو اہلحدیث کا یہ دعویٰ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا مع وتر گیارہ رکعت سے زیادہ پڑھنا ثابت نہیں ۔ جیسا کہ حافظ عبداللہ صاحب نے رکعات التراویح میں لکھا ہے کہ باطل ہو گیا ۔(ص ١٩)
ج : اسی شبہ کے دفع کرنے کے لئے حضرت حافظ صاحب مرحوم نے اس مقام میں مدلل حاشیہ لکھا ہے اور تحفة الاحوذی میں بھی اس کا جواب دیا گیا ہے ، مگر مولانا مئوی اس کے ذکر سے بالکل خاموش ہیں ۔ اس لئے کہ بات معقول ہے ۔ مولانا نے سوچا عافیت اسی میں ہے کہ نگاہیں بچا کر نکل چلو ۔
زاہد ندا شت تاب وصال پر رخاں
کنجے گرفت و ترس خدا را بہانہ ساخت
بہر حال پہلے ہم حافظ عبداللہ صاحب اور تحفة الاحوذی کے جواب کو ذرا وضاحت سے پیش کرتے ہیں اس کے بعد ایک دوسرا جواب خود عرض کریں گے
اس سلسلہ میں ایک بات ملحوظ خاطر ر ہے کہ حدیث عائشہ (زیر بحث) میں لیالی رمضان اور لیالی غیر رمضان دونوں کی نمازوں کے بارے میں گیارہ رکعت سے زیادہ ہونے کی نفی کی گئی ہے ۔ لہذا تیرہ رکعت والی روایت سے جو اعتراض کے حصر پر وارد ہوتا ہے وہی اعتراض تہجد پر بھی ہوتا ہے ۔ اس لئے جو جواب تہجد کی بابت دیا گیا ہے ، وہی جواب تراویح کی بابت بھی ہو گا ۔
اس تمہید کے بعد گذارش یہ ہے کہ حافظ عبداللہ صاحب نے رکعات التراویح کے حاشیہ میں اور مولانا مبارک پوری نے تحفة الاحوذی میں جواب دیا ہے ۔ یہ جواب دراصل حافظ ابن حجر کے کلام سے ماخوذ ہے ۔ حافظ ابن حجر نے گیارہ اور تیرہ والی روایتوں کے درمیان تطبیق و توجیہہ کی ۔ پہلے یہ دو صورتیں ذکر کی ہیں
فیحتمل ان تکون اضافت الی صلوة اللیل سنة العشاء لکونہ کان یصلیھا فی بیتہ او ما کان یفتتح بہ صلاة اللیل فقد ثبت عند مسلم من طریق سعد بن ھشام عنہا انہ کان یفتتحھا برکعتین خفیفتین وھذا ارجح فی نظری لان روایة ابی سلمة التی دلت علی الحصر فی احدی عشرة جاء فی صفتھا عند المصنف وغیرہ یصلی اربعاً ثم اربعاً ثم ثلاثاً فدل علی انھا لم تتعرض للرکعتین الخفیفتین وتعرضت لھما فی روایة الزھری والزیادة من الحافظ مقبولة وبھذا یجمع بین الروایات انتھی (فتح الباری باب کیف صلوة اللیل وکم کان النبی صلی اللہ علیہ وسلم یصلی باللیل )
اس عبارت کا ما حصل یہ ہے کہ جس روایت میں تیرہ رکعت کا ذکر ہے ۔ ہو سکتا ہے کہ حضرت عائسہ رضی اللہ عنہا نے اس میں عشاء کی سنت کو بھی صلوة اللیل میں شمار کیا ہو ۔ کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس کو بھی گھر ہی میں پڑھا کرتے تھے ۔ یا یہ کہا جائے کہ حضرت عائشہ ہی کا بیان ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم صلوٰة اللیل کا افتتاح رکعتین خففتین سے فرمایا کرتے تھے ۔ اس لئے ابوسلمہ عن عائشہ کی جس روایت میں گیا رہ رکعتوں کا حصر ہے ، اس میں رکعتین خفیفتین کے علاوہ لمبی لمبی رکعتیں مراد ہیں ۔ جیسا کہ ان الفاظ سے معلوم ہوتا ہے :
یصلی اربعاً فلا تسئل عن حسنھن وطولھن ثم یصلی اربعاً الخ
اور جس روایت میں تیرہ رکعت کا ذکر ہے اس میں ان دونوں ہلکی اور افتتاحی رکعتوں کو بھی ملا لیا گیا ہے ۔ اس طرح ان دونوں روایتوں میں بلا تکلف تطبیق ہو جاتی ہے ۔ اس توجیہہ کی بابت حافظ ابن حجر نے لکھا ہے وھذا ارجح فی نظری (میری نظر میں یہی راجح ہے ) ۔ گویا تہجد اور تراویح کی اصل رکعات آٹھ ہی ہیں ۔ دو خفیف رکعتیں مبادی سے ہیں ۔ ان کو شمار کیا جائے تو تیرہ رکعت ہوں گی ۔ ورنہ گیارہ ۔ چنانچہ مولانا شبیر احمد عثمانی لکھتے ہیں :
قلت والذی یظھر للعبد الضعیف من مجموع الروایات واﷲ اعلم ان النبی صلی اللہ علیہ وسلم کان یفتتح صلوٰتہ باللیل برکعتین خفیفتین وھما من مبادی التھجد ثم یصلی ثمان رکعات وھی اصل التہجد ثم یوتر بثلاث رکعات الخ (فتح الملہم جلد ثانی ص ٢٨٨)
پھر حضرت ابن عباس کی شرح کے ذیل میں لکھتے ہیں :
فالحاصل ان صلوة صلی اللہ علیہ وسلم باللیل کان ثلاث عشرة رکعة مع الرکعتین الخفیفتین اللتین کانتا من مبادی التہجد واحدی عشرة رکعة بدونھا فاصل التہجد منھا ثمان رکعات والوتر ثلاث وھذا العدد یوافق ما تقدم عن عائشة رضی اللہ عنھا وﷲ الحمد انتھی (فتح الملہم جلد ثانی ص ٣٢٧)
مولانا عثمانی نے اگرچہ یہ بات تہجد کے متعلق کہی ہے ، مگر یہاں تراویح کا بھی یہی حکم ہے جیسا کہ ہم نے شروع میں عرض کر دیا ۔
حافظ ابن حجر نے مذکور بالا دونوں توجیہیں بیان کرنے کے بعد ایک سوال اٹھایا ہے کہ وتر کے بعد جن دو رکعتوں کا ذکر بعض حدیثوں میں ہے ، آیا یہ کوئی مستقل نماز ہے یا اس سے فجر کی سنت مراد ہے ؟ شق اول کی تائید میں احمد و ابوداؤد کے حوالے سے حضرت عائشہ کی ایک حدیث نقل کی ہے جس میں بیان ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مع وتر ٧ ۔ ٩ ۔ ١١ ۔ ١٣ رکعتیں پڑھتے تھے ۔ اس کے بعد بعض علماء کا یہ قول ذکر کیا ہے کہ صلوٰة اللیل کی بابت حضرت عائشہ کی روایات میں اضطراب ہے ۔ اسی قول کی تردید کرتے ہوئے حافظ نے کہا ہے :
وھذا انما یتم لو کان الراوی عنھا واحداً واخبرت عن وقت واحد والصواب ان کل شٔ ذکرتہ من ذلک محمول علی اوقات متعددة واحوال مختلفة بحسب النشاط وبیان الجواز واﷲ اعلم انتھی (فتح الباری ص ١٦ ص ٣ ) ۔
اسی توجیہہ کو مولانا مئوی نے اپنی کتاب میں جگہ دی ہے ۔ حالانکہ یہ توجیہہ بحث کے بالکل آخر میں ہے اور ایک دوسرے مبحث کے ضمن میں ہے ۔ اور ٧ ، ٩ ، ١١ ، ١٣ ان سب اعداد کے اعتبار سے ہے ۔ اور وہ اصل توجیہہ جو شروع میں ہے اور جو خود حافظ ابن حجر کی نظر میں ہے اور خاص اس حدیث کے متعلق ہے جو اس وقت نزاعی یعنی حدیث ابوسلمہ عن عائشہ اس کو علامہ مئوی نے چھوڑ دیا ہے ۔ حالانکہ موقع کے لحاظ سے اسی کا یہاں ذکر کرنا زیادہ مناسب تھا لیکن چونکہ تحقیقِ حق مقصود نہیں ہے ، بلکہ حمایت مذہب پیش نظر ہے اس لئے مولانا کی دوربیں نگاہوں نے مصلحت نہیں سمجھا کہ حلقہء ارادت کے عوام کو اس توجیہہ سے روشناس کیا جائے کیونکہ اعتراض کے پوری طرح دفعیہ کے ساتھ ساتھ اس توجیہ کے ضمن میں حافظ ابن حجر کے یہ الفاظ
لان روایة ابی سلمة التی دلت علی الحصر فی احدی عشرة کھلے طور اہل حدیث کے مذہب کی تائید کر رہے ہیں اور مولانا جیسا متعصب حنفی عالم یہ کب گوارا کر سکتا تھا کہ حق کی آواز حنفی عوام کے کانوں میں بھی گونجے اور وہ بھی ان کے قلم سے ۔
نیز اس توجیہہ سے اغماض کرنے کی دوسری وجہ یہ ہے کہ اسے صرف گیارہ اور تیرہ والی روایتوں کا اختلاف دور ہوتا ہے ۔ دوسرے قسم کے اختلافات پر یہ توجیہہ منطبق نہیں ہو سکتی اور مولانا کو فکر یہ ہے کہ اس موقع پر جب کہ اختلاف روایات کے بین تطبیق پر گفتگو ہو رہی ہے ۔ کلامِ محدثین میں کوئی ایسی گنجائش نکال رکھی جائے جو بیس والی ضعیف روایت پر بحث کے سلسلے میں کام آ سکے ''یہ مطلب'' صرف آخری ہی توجیہہ سے بظاہر پورا ہوتا نظر آتا ہے ۔ اس لئے اس کو نمایاں کیا گیا ہے اور دوسری توجیہہ موقع کے لحاظ سے خواہ کتنی ہی اقرب اور انسب سہی مگر اپنے ''مطلب'' کی نہیں ، بلکہ فی الجملہ مضر ہے ۔ اس لئے مولانا مئوی نے اس کو چھپانا ہی بہتر سمجھا ۔
خیر اب ہمارا دوسرا جواب سنیئے ! لیکن اس جواب سے پہلے اعتراض اور اس کے پچھلے جواب کا خلاصہ پھر سمجھ لیجئے :
مولانا مئوی کے اعتراض کا منشاء یہ ہے کہ ''اہل حدیث کا یہ دعویٰ گیارہ رکعات پر حصر کا ہے حالانکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے تیرہ رکعت پڑھنا بھی ثابت ہے ۔ لہذا گیارہ رکعات پر حصر کا دعویٰ باطل ہو گیا '' ۔
اس کے جواب میں اب تک جو کچھ کہا گیا ہے اس کا خلاصہ یہ ہے کہ ''حصر'' کا دعویٰ اہلحدیث کا نہیں بلکہ خود حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا کا ہے ۔ لہذا اس ہدیث میں اپنے زعم کے مطابق صرف تہجد مراد لیجئے ، یا اہل حدیث کے قول کے مطابق تہجد اور تراویح دونوں مراد لیجئے ، بہر حال اعتراض مشترک ہے ، پس جو جواب تہجد کے ''حصر'' کی بابت آپ کا ہے وہی جواب تراویح کی بابت ہمارا ہے اور وہ حافظ ابن حجر اور مولانا شبیر احمد عثمانی کے بیان کے مطابق یہی ہے کہ یہ ''حصر'' مطلقاً نہیں بلکہ لمبی لمبی رکعتوں کے اعتبار سے ہے ۔ گویا بالفاظ دیگر یہ حصر حقیقی نہیں بلکہ اضافی ہے ۔ یہ بھی یاد رہے کہ یہ حصر گیارہ سے ''زیادہ'' کے اعتبار سے کم کے اعتبار سے نہیں ہے ۔
اسی کی روشنی میں ہم دوسرا جواب یہ عرض کرتے ہیں کہ اہل حدیث کا یہ دعوی یا بقول آپ کے ''شور و غوغا'' ان ضدی اور متعصب حنفیوں کے مقابلے میں ہے جو اس تعداد کے ''سنت'' ہونے کا انکار کرتے ہیں اور اس کے بجائے صرف بیس رکعات کے مسنون اور قابل عمل ہونے کا ڈھنڈورا پیٹے ہیں ۔ گویا اہل حدیث جب یہ کہتے ہیں کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کے قول یا فعل سے بسند صحیح مع وتر گیارہ رکعات سے زیادہ ثابت نہیں ... تو اس ''زیادہ'' سے ان کی مراد مطلق زیادتی کی نفی نہیں ہے بلکہ وہ زیادتی جو اس وقت عام طور پر معہود اور متعارف ہے جس کی بابت جھگڑا اور چرچا ہے یعنی بیس رکعات ۔
لہذا جب تک بیس رکعات کا ثبوت آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے قول یا فعل سے نہیں ہو گا ، اہل حدیث کا دعویٰ باطل نہیں ہوگا ۔ تیرہ رکعات کا ثبوت اہل حدیث کے مدعا کے منافی نہیں ہے ، بلکہ یہ حصر حقیقی نہیں اضافی ہے اور مضاف الیہ ایک خاص اور معہود امر ہے اور وہ ہے بیس رکعات ۔
قولہ : اور جب کہ حضرت عائشہ کی حدیث میں باقرار اہل حدیث رمضان و غیر رمضان کی تمام راتوں کا حال مذکور نہیں ، بلکہ بعض یا اکثر کا تو اہل حدیث کا اپنے مدعا کے ثبوت میں اس کو پیش کرنا نادانی اور تجاہل ہے (رکعات ص ٣٠)
ج : اہل حدیث کا یہ اقرار گیارہ سے کم اعداد (٧ یا ٩) کے اعتبار سے ہے جو صحیح احادیث سے ثابت نہیں ہیں ۔ ١١ یا ١٣ سے ''زیادہ'' کے اعتبار سے تو حدیث عائشہ میں تمام راتوں کا ہی حال بیان کیا گیا ہے ۔ اگر آپ اتنی سی بات نہ سمجھیں یا سمجھ کر بے سمجھ بنیں تو یہ آپ کی نادانی یا تجاہل ہے اہلحدیث کی نہیں ۔
قولہ : نیز جب اس حدیث میں تمام راتوں کا نہیں بلکہ زیادہ سے زیادہ اکثر راتوں کا حال مذکورہے تو اگر کوئی شخص یہ دعوی کرے کہ بعض راتوں میں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے گیارہ سے زیادہ بھی پڑھی ہیں اور اس کے ثبوت میںکوئی حدیث بیان کرے تو اس حدیث کو حدیث عائشہ کے معارض و مخالف قرار دینا سخت بھول اور غفلت پر مبنی ہے ۔ (رکعات ص )
ج : ہم آپ کی ''پہیلی بوجھ'' رہے ہیں یہ بیس رکعت والی ضعیف روایت کو اصول محدثین میں گھسانے کے لئے ''چور دروازہ'' کی تلاش ہے ، لیکن ان نفوسِ قدسیہ کے یہاں چور دروازہ کہاں ۔ ہم تو اسی وقت آپ کا ''مطلب'' پا گئے تھے جب آپ نے حافظ ابن حجر کی ارجح اور انسب توجیہہ کو چھوڑ کر ضمنی توجیہہ کو اختیار کیا تھا ۔
حنفی مذہب کیسا یتیم مذہب ہے کہ اس غریب کا سہارا یا تو کوئی ضعیف حدیث ہے یا کوئی کمزور توجیہہ ۔
خیر ابھی تو آپ اشاروں ہی اشارے میں باتیں کر رہے ہیں جب کھل کر سامنے آئیں گے اس وقت ہم آپ کو بتائیں گے کہ غفلت اور بھول میں کون مبتلا ہے ؟ ۔
قولہ : ثالثاً حضرت عائشہ کی اس حدیث کا پہلا فقرہ جس کا مفہوم یہ ہے کہ ''آپ رمضان و غیر رمضان میں گیارہ سے زیادہ نہیں پڑھتے تھے '' ۔ ذرا مبہم ہے ... مگر حضرت عائشہ نے دوسرے فقرے میں اس ابہام کو دور کر کے گیارہ سے زیادہ نہ پڑھنے کی ایک صورت متعین کر دی کہ نہ سات، نہ نو بلکہ گیارہ پڑھتے تھے اور یہ کہ وتر کی تین رکعتیں پڑھتے تھے ۔ نہ اس سے کم نہ زیادہ ۔ اسی کے ساتھ یہ بھی سن لیجئے کہ مولانا عبدالرحمن مبارکپوری نے تحفتہ الاحوذی میں اس بات کو بھی صاف کر دیا ہے کہ ظاہر یہی ہے کہ یہ پہلی چار چار رکعتیں ایک ایک سلام سے اور پچھلی تین رکعتیں ایک سلام سے تھیں (ملخصاً ص ٢١)
ج : حیرت ہے کہ جس مضمون کو حدیث کا ایک مبتدی طالب علم سمجھ سکتا ہے ، اس کو ایک ''محدث'' سمجھنے سے قاصر ہے ۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا خود بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سات بھی پڑھتے تھے اور نو بھی اور گیارہ بھی ۔
عن مسروق قال سئالت عائشة عن صلوٰة رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم باللیل فقالت سبع و تسع واحدی عشرة سوی رکعتی الفجر (بخاری شریف ص ١/١٥٣)
آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اسی عمل کو سامنے رکھ کر حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا گیارہ سے ''زیادہ'' مثلاً بیس ، تیس ، چھتیس وغیرہ کی نفی کر رہی ہیں ۔ گیارہ سے کم کی نہیں ، مگر ہمارے ''محدث ِ شہیر'' فرماتے ہیں نہ سات، نہ نو، بلکہ صرف گیارہ ۔
ع ناطقہ سربگریباں کہ اسے کیا کہیے ۔
جب یہ ثابت ہو گیا کہ گیارہ سے ''زیادہ'' کی نفی سے گیارہ ، سات ، نو اور تینوں صورتوں کی نفی نہیں بلکہ ان کو برقرار رکھنا مقصود ہے تو ظاہر ہے کہ اس کے بعد دوسرے فقرے میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا نے ان رکعات کے ادا کرنے کی جو کیفیت بیان کی ہے ، وہ ان تینوں اعداد میں سے صرف ایک عدد کی ہے ۔ یعنی گیارہ کی ، کیونکہ ان اعداد میں زیادہ عمل گیارہ ہی پر تھا ۔ سات اور نو رکعات کے ادا کرنے کی کیفیت اس موقع پر نہیں بتائی ۔ اس موقع پر تحفتہ الاحوذی کا حوالہ بالکل بے محل ہے ۔ جیسا کہ آگے آ رہا ہے ۔
قولہ : اس تمہید کے بعد اب ہماری گذارش یہ ہے کہ جب حدیث کے پہلے فقرے سے اہل حدیث کے خیال میں آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا دائمی معمول یہ ثابت ہو گا کہ آپ گیارہ سے زیادہ نہیں پڑھتے تھے ، تو دوسرے فقرے سے جس میں پہلے ہی فقرے کی توضیح و تشریح کی گئی ہے ، یہ ثآبت ہوا کہ آپ کا دائمی معمول گیارہ پڑھنے کا اس طرح تھا کہ پہلے چار چار رکعتیں ایک سلام سے پڑھتے تھے ، پھر وتر کی تین رکعتیں ایک سلام سے پڑھتے تھے ۔ (رکعات ٢١)
ج : سخن فہمی عالم بالا معلوم شد ۔ اجی حضرت ! پہلے فقرے میں تو یہ صراحت ہے :
ما کان یزید ...... علی احدی عشرة رکعة (گیارہ رکعت سے زیادہ نہیں پڑھتے تھے) لیکن کیا دوسرے فقرے میں بھی اس قسم کی کوئی صراحت ہے کہ ادائے رکعات کی یہ کیفیت دائمی تھی ؟ اگر نہیں ہے اور یقینا نہیں ہے تو پھر اس کیفیت کا دوام کیسے لازم آیا ۔ اگر رکعات کی تعداد گیارہ سے زیادہ نہ رہی ہو ، لیکن ادا کی کیفیت کبھی یہ رہی ہو کہ چار چار رکعتیں ایک سلام سے پڑھی ہوں اور کبھی یہ رہی ہو کہ دو دو رکعتوں پر سلام پھیرا ہو ۔ اسی طرح کبھی وتر کی تین رکعتیں ایک ہی سلام کے ساتھ پڑھی ہوں اور کبھی دو سلام سے تو پہلے فقرے اور دوسرے فقرے اور دوسرے فقرے کے درمیان کیا منافات ہے لازم آگئی ہے۔اسی واسطے محدثین نے دوسرے فقرے کوان دونوں صورتوں کا محتمل بنایا ہے ۔ قرب اور بعد کا فرق ہو سکتا ہے ۔ خطا اور صواب کا نہیں ۔ نیز خود حضرت عائشہ ہی کی دوسری روایت سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ کیفیت دائمی نہ تھی ۔ کما سیاقی عنقریب تحفة الاحوذی میں مولانا مبارک پوری نے جو لکھا ہے ۔ یہی مولانا شبیر احمد عثمانی نے بھی لکھا ہے :
الظاہر انھا سلام واحد و یحتم کونھا بتسلیمتین (فتح الملہم جلد ثانی ص ٢٩١)
مولانا مبارک پوری نے ایک سلام سے پڑھنے کو حدیث کا ظاہر مدلول کہا ہے ، لیکن اس کیفیت کے ''دائمی معمول'' ہونے کو حدیث کا ظاہر مدلول نہیں کہا ہے ۔ اس لئے تحفة الاحوذی کا حوالہ اس موقع پر پیش کرنا آپ کی نادانی ہے یا تجاہل ۔
قولہ : لہذا اہل حدیث کو لازم تھا کہ وہ کبھی گیارہ رکعت سے کم تراویح نہ پڑھتے اور ہمیشہ چار چار رکعتوں پر سلام پھیرتے اور ہمیشہ وتر کی تین رکعتیں ایک سلام سے پڑتھے ، مگر اہل حدیث ایسا نہیں کرتے بلکہ عموماً نو رکعتیں پڑھتے ہیں اور اگر کوئی تین پڑھ بھی لیتا ہے تو دو سلام سے ۔ (ص ٢٢)
ج : مولانا نے حدیث کسی اہل حدیث سے پڑھی ہوتی تو یہ مظالطہ نہ کھاتے ہم نے بتا دیا کہ اس حدیث میں گیارہ سے کم پڑھنا بھی ثابت ہے جیسا کہ حدیث گذر چکی ۔لہذا یہ سنت کے خلاف نہیں ہے ۔ اسی طرح ادا کی کیفیت بیان کرتے ہوئے اگر حضرت عائشہ نے فرما دیا ہوتا کہ اس کیفیت کے خلاف آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کبھی نہیں پڑھتے تھے ، جیسا کہ تعداد کی بابت انہوں نے تصریح کر دی کہ گیارہ سے زیادہ نہیں پڑھتے تھے ۔ تو بلا شبہ اہل حدیث اس کیفیت کو بھی جرزجاں بناتے اور نفل ہونے کے اعتبار سے اگر اس کو ''لازم العمل'' نہیں تو افضل اور احسن تو ضرور سمجھتے ۔ تاہم سنت تو بحمد للہ اب بھی سمجھتے ہیں ۔ بعض علماء احناف کی طرح اس کا انکار نہیںکرتے ۔ جیسا کہ مولانا انور شاہ کشمیری نے کہا ہے
لان الاربع ھذہ لم تکن بسلام واحد (فیض الباری ج ٢ ص ٤٢١)
لیکن ہمیشہ اسی کیفیت کے ساتھ اس لئے نہیں پڑھتے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا ہی کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے گیارہ رکعتیں کبھی اس طرح بھی پڑھی ہیں کہ دو دو رکعتوں پر سلام پھیرتے تھے اور پھر وتر ایک رکعت پڑھتے تھے ۔ حدیث کے الفاظ یہ ہیں :
عن عائشة زوج النبی صلی اللہ علیہ وسلم قالت کان رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم یصلی ما بین ان یفرغ من صلوة العشاء وھی التی یدعون الناس العتمة الی الفجر احدی عشرة رکعة یسلم بین کل رکعتین ویوتر بواحدة الحدیث (مسلم شریف جلد اول ص ٢٥٤)
اس کے علاوہ دوسر ی صورتیں بھی حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اور دوسرے صحابہ سے صحیح احادیث میں مروی ہیں ، مگر تعداد کے متعلق کسی صحیح روایت میں نہیں ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی بھی گیارہ یا تیرہ رکعات سے زیادہ پڑھا ہو ۔
اسی طرح وتر اہل حدیث ایک رکعت بھی پڑھتے ہیں اور تین رکعات بھی اور جب تین رکعات پڑھتے ہیں تو کبھی دو سلام سے اور کبھی ایک سلام اور ایک تشہد سے ۔ کیونکہ یہ سب صورتیں صحیح اور مرفوع روایات سے ثابت ہیں ۔ حدیث کا ایک ادنی طالب علم بھی ان باتوں کو جانتا ہے ، مگر حیرت ہے کہ ''محدث شہیر'' کی اس ناواقفیت یا تجاہل پر ۔
ان کنت لا تدری فتلک مصیبة
وان کنت تدری فالمصیبة اعظم