محمد ارسلان
خاص رکن
- شمولیت
- مارچ 09، 2011
- پیغامات
- 17,859
- ری ایکشن اسکور
- 41,096
- پوائنٹ
- 1,155
اس حدیث کے ایک لفظ کے اظہار سے گریز :
اس حدیث کے حوالہ کے لئے مولانا مئوی کا اصل اعتماد دو کتابوں پر ہے ایک امام سیوطی کی المصابیح اور دوسری امام بیہقی کی سنن کبریٰ ۔ ان دونوں کتابوں میں اس حدیث کے جو الفاظ منقول ہیں ان میں تھوڑا سا فرق ہے ۔ بیہقی کی روایت میں ایک لفظ زائد ہے ، جو المصابیح میں نہیں ہے ۔ اس لفظ زائد کے بعد یہ حدیث حنفی مذہب کے لئے کچھ مفید ہونے کے بجائے الٹی سخت مضر پڑ جاتی ہے ، بلکہ یوں کہیے کہ حنفی مذہب کے دعوؤں کا سارا تارو پود ہی بکھر کر رہ جاتا ہے ۔ اس لئے مولانا مئوی نے یہاں اس حدیث کا جو ترجمہ پیش کیا ہے اس کے لئے انہوں نے المصابیح والی روایت کے الفاظ کا ہی انتخاب مناسب سمجھا ہے ۔ بیہقی والی روایت کے اس لفظ زائد کا ذکر تو در کنار اس کی طرف وہ کوئی ادنیٰ سا اشارہ بھی نہیں کرتے ۔ مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ہم اس موقع پر دونوں کتابوں سے حدیث کے اصل الفاظ آپ کے سا منے پیش کر دیں ۔
المصابیح میں اس روایت کے الفاظ یہ ہیں :
عن ابن عباس ان رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کان یصلی فی رمضان عشرین رکعة والوتر انتہیٰ ۔
اور سنن کبریٰ للبیہقی ص٤٩٦ ج٢ میں یہ حدیث بایں الفاظ مروی ہے :
عن ابن عباس قال کان النبی صلی اللہ علیہ وسلم یصلی فی شہر رمضان فی غیر جماعة بعشرین رکعة والوتر تفرد بہ ابو شیبة ابراہیم بن عثمان العبسیٰ الکوفی وہو ضعیف انتہیٰ ۔
'' یعنی حضرت ابن عباس سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم رمضان کے مہینے میں بیس رکعت اور وتر بغیر جماعت کے پڑھتے تھے ''۔
اس حدیث کے جو الفاظ ان دونوں کتابوں میں منقول ہیں ان کو سامنے رکھنے سے یہ فرق واضح ہو جاتا ہے کہ المصابیح میں فی غیر جماعة کا لفظ نہںف ہے اور بیہقی میں ہے ۔ حافظ ذہبی نے میزان الاعتدال میں ابو شیبہ ابراہیم بن عثمان کے ترجمہ میں اس حدیث کا ذکر کیا ہے اس میں بھی ''فی غیر جماعة'' کی صراحت موجود ہے ۔ (میزان ص٢٣ طبع مصر)
اس حدیث کا احناف کے دعووں سے کوئی تعلق نہیں
اب ہم ''علامہ'' مئوی سے پوچھتے ہیں کہ جب حضرت ابن عباس ہی کا یہ بیان اسی روایت میں بصراحت موجود ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بیس رکعتیں اور وتر جماعت کے ساتھ نہیں بلکہ تنہا پڑھتے تھے ۔ تو اس حدیث کو حنفی مذہب کے ان دعؤوں کے ساتھ کیا لگاؤ ہوا کہ تراویح کی بیس رکعتیں باجماعت سنتِ مؤکدہ ہیں ۔ ان کا تارک گنہگار اور شفاعت نبوی سے محروم ہے ۔ ''مؤکدہ'' تو بالائے طاق پہلے بیس رکعتوں کا جماعت کے سا تھ نفس سنت نبویہ ہونا تو ثابت کر لیجئے؟
جماعت کے ساتھ بیس رکعت تراویح کو سنت نبویہ کہنا یکسر با طل ہے :۔
ہم پورے وثوق کے ساتھ کہتے ہیں کہ ایک علامہ مئوی کیا ، پوری حنفی دنیا مل کر بھی صحیح تو درکنار کوئی ضعیف روایت بھی ایسی نہیں پیش کر سکتی جس سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قول یا فعل یا تقریر سے جماعت کے ساتھ تراویح کی بیس رکعتوں کا ثبوت ہوتا ہو ۔ اس لئے اس کو ''سنتِ نبویہ'' کہنا یکسر باطل ، قطعًا بے ثبوت اور بالکل بے دلیل دعویٰ ہے ۔
ابو شیبہ کوفی کی مذکورہ بالا روایت (جس کے ضعف پر تمام محدثین کا اتفاق ہے) کے علاوہ بیس رکعات کی کوئی مرفوع روایت نہیں ہے ۔ لیکن انصاف سے کہیے ! کیا ''فی غیر جماعة'' کا لفظ ہوتے ہوئے اس حدیث کو حنفی مذہب کی دلیل میں پیش کیا جا سکتا ہے ؟ تعجب ہے ''علامہ'' مئوی کی اس ڈھٹائی اور دیدہ دلیری پر کہ کیسے انہوں نے اس حدیث کو حنفی مذہب کی سب سے پہلے اور بنیادی دلیل قرار دے دیا ؟ جب کہ انہوں نے بہیقی کا حوالہ صفحہ اور جلد کی قید کے ساتھ دیاہے ۔ جس سے صاف ظاہر ہے کہ بہیقی میں انہوں نے یہ حدیث اور اس کے پورے الفاظ دیکھ کر یہ حوالہ دیاہے ۔
حیرت انگیز بے باکی :۔
ان سے بڑھ کر حیرت تو اس بے باکی اور جرات پر ہوتی ہے کہ آٹھ رکعت تراویح (بلا وتر)کے ''سنت'' ہونے سے انکار کیا جاتا ہے ۔ جس کا باجماعت ادا کرنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فعل اور تقریر سے ثابت ہے ۔ اور بیس رکعت باجماعت ادا کرنے کو ''سنت'' ہی نہیں بلکہ ''سنتِ مؤکدہ'' کہا جاتاہے جس کے ثبوت میں کوئی مرفوع حدیث ضعیف تک موجود نہیں ہے ، صحیح تو کجا ؟
خامہ انگشت بد نداں کہ اسے کیا لکھیے
ناطقہ سر بگریباں کہ اسے کیا کہیے
آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے انفرادًا بھی بیس(٢٠) رکعات کا پڑھنا ثابت نہیں ہے :۔
ہماری اس گرفت سے گھبرا کر کوئی حنفی یہ کہنے لگے کہ خیر باجماعت نہ سہی بغیر جماعت کے اور انفرادًا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیس رکعت تراویح کا پڑھنا اس حدیث سے ثابت ہو جاتا ہے ؟
تو اس کا جواب یہ ہے کہ جی نہیں ! آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے انفرادًا اور بغیر جماعت کے بھی بیس رکعات کا پڑھنا ثابت نہیں ہے ۔ کیونکہ مذکورہ بالا روایت باقرارِ علماء احناف بالااتفاق ضعیف اور ناقابل احتجاج ہے ۔ اس حدیث کی بابت اب تک جو گفتگو ہم نے کی ہے وہ الزامی جواب کے لئے بالفرض صحیح مان کر کی ہے ۔ ورنہ حقیقت میں یہ حدیث اس قابل ہی نہیں ہے کہ اس کو معرض استدلال میں پیش کیا جائے یا کسی حکم شرعی کے اثبات کے لئے اس کوما خذ قرار دیا جائے ۔
حدیث ِ ابو شیبہ کے ضعف پر چند حنفی اور غیر حنفی علماء کی شہادتیں :۔
اب ہم ذیل میں چند ایسے حنفی اور غیر حنفی علماء کی شہادتیں پیش کرتے ہیں جنہوں نے ابو شیبہ ا ور اس کی اس حدیث کو ضعیف اور ناقابل احتجاج کہا ہے ۔
(١) امام بیہقی کا قول ابھی اوپر گزار ہے کہ وہ اس حدیث کو روایت کرنے کے بعد ساتھ ہی یہ بھی لکھتے ہیں کہ : '' اس روایت کے بیان کرنے میں ابو شیبہ ابراہیم بن عثمان متفرد ہے اور وہ ضعیف ہے ''۔
(٢) امام سیوطی نے اسی المصابیح میں جس کے حوالہ سے مولانا مئوی نے اس حدیث کا ترجمہ پیش کیا ہے ۔ اس حدیث کو نقل کرنے کے بعد ہی صاف صاف لکھا ہے ہٰذا الحدیث ضعیف جدًا لا تقوم بہ حجة (ص٢) یعنی یہ حدیث بالکل ضعیف ہے ۔ حجت کے قابل نہیں ہے ۔ آگے چل کر ابو شیبہ کے متعلق کبار محدثین کی جرحیں نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں : ومن اتفق ہولاء الئمة علیٰ تضعیفہ لا یحل الاحتجاج بحدیثہ (ص٣) یعنی جس شخص کی تضعیف پر یہ سب ائمہ حدیث متفق ہوں اس کی حدیث سے حجت پکڑنا حلال نہیں ہے ۔
(٣) اس حدیث کی بابت حافظ ابن حجر کا یہ قول پہلے گزر چکا ہے :
فاسنادہ ضعیف وقد عارضہ حدیث عائشہ الذی فی الصحیحین مع کونہا علم بحال النبی صلی اللہ علیہ وسلم لیلا من غیرہا
یعنی اس حدیث کی اسناد ضعیف ہے اور یہ حضرت عائشہ کی اس حدیث کے معارض بھی ہے جو صحیحین میں مروی ہے کہ (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رمضان اور غیر رمضان میں گیارہ رکعات سے زیادہ نہیں پڑھتے تھے ) اور حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے رات کے حالات کو دوسرے صحابہ سے زیادہ جانتی تھیں ۔
(٤) علامہ زیلعی حنفی لکھتے ہیں :
وہو معلول بابی شیبة ابراہیم بن عثمان جد الامام ابی بکر بن ابی شیبة وہو متفق علیٰ ض عفہ ولینہ ابن عدی فی الکامل ثم انہ مخالف للحدیث الصحیح عن ابی سلمة بن عبدالرحمن انہ سال عائشہ الحدیث ۔ (نصب الرایہ ص٢٩٣)
یعنی ابو شیبہ کی وجہ سے یہ حدیث معلول (ضعیف) ہے اور اس کے ضعف پر سب محدثین کا اتفاق ہے او رابن عدی نے اس کو لین کہا ہے اور یہ حدیث حضرت عائشہ کی صحیح حدیث کی مخالف بھی ہے ۔ (لہٰذا قابل قبول نہیں ہے) فیقبل الصحیح ویطرح غیرہ کذا فی التعلیق الممجد عند نقل ہٰذا الکلام عن الزیلعی وابن الہمام وغیرہما ۔
(٥) ابن ہمام حنفی لکھتے ہیں :
واما ما روی ابن ابی شیبة فی مصنفہ ..... فضعیف بابی شیبة ابراہیم بن عثمان جد الامام ابی بکر بن ابی شیبة متفق علیٰ ضعفہ مخالفتہ للصحیح ۔ (فتح القدیر جلد اول ص٣٣٣ طبع مصر)
یعنی یہ حدیث ضعیف ہے اور ابو شیبہ کے ضعف پر سب متفق ہیں ۔نیز یہ حدیث حضرت عائشہ کی صحیح حدیث کے مخالف ہے ۔ (اس لئے قابل حجت نہیں )۔
(٦) علامہ عینی حنفی اس حدیث کو شرح بخاری میں ذکر کرنے کے بعد لکھتے ہیں :
کذبہ شعبة وضعفہ احمد وابن معین والبخاری والنسائی وغیرہم واوردلہ ابن عدی ہٰذا الحدیث فی الکامل فی مناکیرہ انتہیٰ (عمدة القاری طبع مصر ص٣٥٩ جلد پنجم)
یعنی اس حدیث کے راوی ابو شیبہ کو شعبہ نے کاذب کہا ہے اور امام احمد و ابن معین و بخاری ونسائی اورغیرہم نے ضعیف قرار دیا ہے اور ابن عدی نے اپنی کتاب ''کامل'' میں اس حدیث کو ابو شیبہ کی مناکیر میں ذکر کیا ہے ۔
علامہ عینی نے ان جرحوں میں سے کسی جرح پر کوئی اعتراض نہیں کیا ہے ۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ ابو شیبہ پر کی گئی یہ سب جرحیں ان کے نزدیک مقبول اورمعتبر ہیں ۔ لہٰذا یہ حدیث بلا شبہہ ان کے نزدیک بھی ضعیف اور ناقابل احتجاج ہے ۔
(٧) علامہ ابو الطیب محمد بن عبدالقادر سندھی ثم المدنی نقشبندی حنفی اپنی ترمذی کی شرح ص ٤٢٣ ج١ میں لکھتے ہیں :
وورد عن ابن عباس قال کان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یصلی فی رمضان عشرین رکعة والوتر رواہ ابن ابی شیبة واسنادہ ضعیف وقد عارضہ حدیث عائشة ہٰذا وہو فی الصحیحین فلا تقوم بہ الحجة انتہیٰ ۔
یعنی اس حدیث کی سند ضعیف ہے اور حضرت عائشہ کی صحیحین والی روایت کے یہ معارض بھی ہے ۔ لہٰذا یہ حجت کے قابل نہیں ہے ۔
(٨) مولانا عبد الحٔ لکھنوی حنفی نے بھی اپنے مجموعہ فتاویٰ میں صراحةً اس حدیث کو ضعیف لکھا ہے ۔ (دیکھو جلد اوّل ص٣٥٤)
(٩) مولانا انور شاہ کشمیری فرما تے ہیں :
واما النبی صلی اللہ علیہ وسلم فصح عنہ ثمان رکعات واما عشرون رکعة فہو عنہ صلی اللہ علیہ وسلم بسند ضعیف وعلیٰ ضعفہ اتفاق انتہیٰ ۔ (العرف الشذی ص٣٢٠)
یعنی نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے تراویح کی آٹھ ہی رکعتیں صحیح طور پر ثابت ہیں ، بیس رکعت والی روایت کی سند ضعیف ہے اور ایسی ضعیف ہے کہ اس کے ضعف پر سب کا اتفاق ہے ۔
(١٠) مولانا محمد زکریا کاندھلوی حنفی اپنی شرح مؤطا میں لکھتے ہیں :
لا شک فی ان تحدید التراویح فی عشرین رکعة لم یثبت مرفوعا عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم بطریق صحیح اصول المحدثین وما ورد فیہ من روایة ابن عباس فمتکلم فیہا علی اصولہم انتہیٰ ۔ (اوجز المسالک جلد اوّل ص٣٩٧)
یعنی اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ تراویح کی بیس رکعتوں کی تحدید و تعیین رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اصولِ محدثین کے طریق پر ثابت نہیں ہے اور جو روایت حضرت ابن عباس سے بیس رکعات کے متعلق مروی ہے وہ باصول محدثین مجروح اور ضعیف ہے ۔
(١١) خود مؤلف '' رکعات تراویح) مولانا حبیب الرحمن مئوی کو بھی ہزار ہیرا پھیری کے باوجود یہ تسلیم کرنا پڑا ہے کہ یہ حدیث ضعیف ہے ۔ چنانچہ لکھتے ہیں :
'' بہر حال ہم کو اتنا تسلیم ہے کہ ابراہیم ضعیف راوی ہے اور اس کی وجہ سے یہ حدیث بھی ضعیف ہے ''۔ (رکعات ص٥٩)
ابو شیبہ پر کی گئی بعض جرحوں پر اعتراض :
'' علامہ '' مئووی کو یہ تو تسلیم ہے کہ یہ حدیث ضعیف ہے ، کیوں کہ اس کا بنیادی راو ی ابو شیبہ ابراہیم بن عثمان مجروح اور ضعیف راوی ہے ۔ وہ یہ بھی مانتے ہیں کہ ابراہیم پر سخت سخت جرحیں کی گئی ہیں ، لیکن اس کے باوجود وہ اس بات کے بھی مدعی ہیں کہ '' جتنی جرحیں نقل کی جاتی ہیں سب مقبول نہیں ہیں ۔ بعض ان میں سے مردود بھی ہیں ''۔ اس کی مثال میں انہوں نے شعبہ کی تکذیب کو پیش کیا ہے ۔ چنانچہ وہ لکھتے ہیں :
'' مثلاً نقل کیا جاتا ہے کہ شعبہ نے ابراہیم کی تکذیب کی ہے ، مگر حق یہ ہے کہ شعبہ کی تکذیب قابل قبول نہیں ہے ۔ جیسا کہ ذہبی کے بیان سے ظاہر ہے ۔ ذہبی نے میزان الاعتدال میں لکھا ہے :
کذبہ شعبة لکونہ روی عن الحکم عن ابن ابی لیلی انہ قال شہد صفین من اہل بدر سبعون فقال شعبة کذب وﷲ لقد ذاکرت الحکم فما وجدنا شہد صفین احدًا من اہل بدر غیر خزیمة قلت سبحان اﷲ اما شہدہا علی اما شہدہا عمار انتہیٰ ''
ترجمہ کے بعد فاضل مئوی لکھتے ہیں :
''دیکھئے اس بیان سے شعبہ کی تکذیب کی حقیقت کھل گئی اور معلوم ہو گیا کہ انہوں نے اس وجہ سے تکذیب کی تھی کہ ابراہیم نے حَکم کے واسطہ سے ابن ابی لیلیٰ کا یہ بیان روایت کیا تھا کہ صفین میں ستر بدری صحابی شریک تھے ، مگر جب شعبہ نے حکم سے مذاکرہ کیا تو ایک سے زیادہ بدری صحابی کی شرکت معلوم نہ ہو سکی ۔ تو اس ابراہیم کا جھوٹ کیوں کر ثابت ہوا ۔ ان کا جھوٹ تو جب ثابت ہوتا کہ شعبہ جب حکم سے مذاکرہ کرنے گئے تھے تو وہ یہ کہتے کہ میں نے ابراہیم سے یہ بیان نہیں کیا ۔ مگر شعبہ حکم کا انکار نقل نہیں کرتے ، بلکہ یہ کہتے ہیں کہ مذاکرہ سے صرف ایک صحابی ثابت ہوا ۔لہٰذا اس سے یہ تو پتا چلتا ہے کہ حکم نے ضرور بیان کیا تھا ، مگر مذاکرہ کے وقت وہ ستّر کا نام نہیں بتا سکے ۔ ایسی صورت میں الزام جو کچھ عائد ہو گا وہ حکم پر نہ کہ ابراہیم پر ''۔ (رکعات ٥٧)
اس اعتراض کا جواب :
مولانا ! حافظ ذہبی کے اس بیان پر ذرا غور کیجئے ۔ واقعہ کی صورت یہ ہے کہ ابراہیم نے حکم سے یہ قول نقل کیا کہ صفین میں ستر بدری صحابی شریک تھے اور ابراہیم ہی نے یہ بھی بیان کیا کہ حکم نے یہ بات ابن ابی لیلیٰ سے روایت کی ہے ۔ اب شعبہ کہتے ہیں کہ ابراہیم کا یہ بیان جھوٹ ہے ۔ بس اس لئے کہ میں نے خود حکم سے اس کے بارے میں مذاکرہ کیا تو ہم نے سوائے خزیمہ کے کوئی ایسا بدری صحابی نہیں پایا جو صفین میں حاضر رہا ہو ۔ یعنی اس مذاکرہ میں دو چار صحابہ کی تعداد بھی ثابت نہ ہو سکی ۔ ستر تو بڑی بات ہے ۔ لہٰذا حکم کی طرف سے اس تعداد کے بیان کی نسبت کرنا جھوٹ ہے ۔
رہی یہ بات کہ '' ابراہیم کا جھوٹ اس وقت ثابت ہوتاہے جب حکم نے اس بیان سے انکار کیا ہوتا '' ۔ تو گزارش یہ ہے کہ انکار تو جب کرتے کہ شعبہ نے اپنے مذاکرہ میں ان سے یہ پوچھا ہوتا کہ آپ نے ابراہیم سے یہ بیان کیا ہے یا نہیں ؟ اگر انہوں نے یہ سوال کیا ہوتا تو ا س کو '' مذاکرہ'' سے تعبیر نہ کرتے ۔ اہل علم سمجھ سکتے ہیں کہ اس قسم کے سوال کو '' مذاکرہ'' نہیں کہا جاتا ۔ '' مذاکرہ'' کی تعبیر سے معلوم ہوتا ہے کہ شعبہ اور حکم کی گفتگو اس موضوع پر نہ تھی کہ حکم نے ابراہیم سے یہ بیان کیا ہے یا نہیں ، بلکہ گفتگو اس موضوع پر تھی کہ جنگِ سفین میں کتنے بدری صحابی شریک تھے ۔ اور بظاہر یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اس سلسلے میں ان دونوں حضرات نے اپنی اپنی معلومات پیش کی تھیں ۔ اسی لئے اس کو ''مذاکرہ'' سے تعبیر کیا ہے اور نتیجہ میں بھی فما وجدنا شہد صفین احد من اہل بدر غیر خزیمة کہا ہے ۔ (یعنی ہم نے سوائے خزیمہ کے کوئی ایسا بدری صحابی نہیں پایا جو صفین میں حاضر رہا ہو ) اس عبارت میں فما وجدنا (ہم نے نہیں پایا ) کا لفظ خاص طور سے قابل غور ہے ۔ یہ نہیں کہا کہ : فما اخبرنا باحد ممن شہد صفین من اہل بدر غیر خزیمة (یعنی مذاکرہ کے وقت حکم مجھ کو خزیمہ کے سوا کسی دوسرے کا نام نہ بتا سکے ) ۔
پس '' علامہ'' مئوی کا یہ کہنا کہ '' حکم نے ابراہیم سے ضرور بیان کیا تھا'' .........نرا تحکم اور محض بے دلیل دعویٰ ہے اور عبارت کے ظاہرالفاظ کے بالکل خلاف ہے اور وہ بیان کیسے کرتے جب کہ ان کو خود ہی اس تعداد کا علم نہ تھا ۔ جیسا کہ شعبہ نے بتایا ۔ ''علامہ'' مئوی کی یہ دیدہ دلیری بھی قابل داد ہے کہ'' ایک طرف تو بقول ان کے شعبہ جیسا محتاط اور پرہیزگار عالم ہے '' ۔ جو ابراہیم اورحکم دونوں کا شاگرد ہے اور دونوں کے حالات سے پو ری طرح باخیر ہے وہ اپنی ذاتی معلومات اور پوری واقفیت کی بنا پر اس واقعہ کا سارا الزام ابراہیم پر عائد کرتا ہے ۔ او رحلف کے ساتھ کہتا ہے کذب واﷲ (بخدا ابراہیم نے جھوٹ کہا ہے) اور دوسری طرف ''علامہ''مئوی ہیں جو آج سینکڑوں برس کے بعد مجض ظن و تخمین سے یہ فیصلہ صادر فرما رہے ہیں کہ '' ایسی صورت میں الزام جو کچھ عائد ہو گا وہ حکم پر نہ کہ ابراہیم پر'' ۔ جل جلالہ
قولہ : پھر حافظ ذہبی نے شعبہ کے اس بیان کو بھی ایک ہی صحابی ثابت ہو سکا ، یوں ردّ کر دیا کہ صفین میں حضرت علی اور حضرت عمار بالیقین شریک تھے تو ایک ہی کیسے ثابت ہوا ۔ کم سے کم تین کہیے ۔ یعنی اسی طرح اور تحقیق کیجئے تو ممکن ہے اور نکل آئیں ۔ (رکعات ص٥٨)
ج: حافظ ذہبی کے اس اعتراض نے تو شعبہ کی تکذیب کو اور قوت پہنچا دی ۔ اس لئے ہ جس شخص کو ایسے مشہور صحابہ کی شرکت بھی یاد نہ آئے اور وہ تین کی تعداد بھی نہ بتا سکے بھلا وہ کیسے کہہ سکتا ہے کہ ستر بدری صحابی صفین میں شریک تھے ۔ ا سکے تو صاف معنی یہ ہیں کہ اس کی طرف تعداد کے بیان کرنے کی نسبت کرنا یقینا جھوٹ ہے ۔
رہا یہ کہ ''تحقیق سے ممکن ہے اور نکل آئیں '' تو حضرت وہ آپ کی تحقیق کا نتیجہ ہوں گے حکم کی تحقیق کا نہیں ۔ اور یہاں زیر بحث حکم کی تحقیق اور بیان ہے ۔ زید وبکر کی تحقیق نہیں ۔
قولہ : بہر حال اس بیان سے شعبہ کی تکذیب کا ناقابل قبول ہونا واضح ہو گیا ۔ (رکعات ص٥٨)
ج: جی نہیں ! اس بحث کے بعد تو شعبہ کی تکذیب کا حق ہونا او رزیادہ محقق اور مدلل ہو گیا ۔ اسی لئے آج تک کسی محدث او رفقیہ نے شعبہ کی اس تکذیب کو ناقابل قبول قرار نہیں دیا ۔ خودحافظ ذہبی نے بھی اس تکذیب کو مردود نہیں ٹھہرایا ، بلکہ اس بات پر تعجب کا اظہار کیا کہ '' خزیمہ کے سوا ہم نے کسی دوسرے بدری صحابی کی حاضری کو صفین میں نہیں پایا '' انہوں نے ابراہیم کے بیان کی تصدیق نہیں کی ہے ۔ تاکہ شعبہ کی تکذیب کا ردّ لازم آئے ۔ علامہ عینی کا حوالہ گزر چکا کہ انہوں نے ابو شیبہ پر محدثین کی جو جرحین بلا کسی رد و انکار کے نقل کی ہیں ان میں سب سے پہلے اسی جرح کو ذکر کیا ہے کہ کذبة شعبة ۔ اس کے بعد امام احمد بن حنبل ، امام بخاری ، ابن معین ، نسائی وغیرہم کی تضعیف کو بیان کیا ہے ۔
امام سیوطی فرماتے ہیں : ومن یکذبہ مثل شعبة فلایلتفت الیٰ حدیثہ (المصابیح ص٣) یعنی شعبہ جیسا حاذق محدث جس شخص کی تکذیب کرے اس کی حدیث قابل التفات بھی نہیں ۔
بتائیے ! یہ باتیں شعبہ کی تکذیب کے ناقابل قبول ہونے کو واضح کرتی ہیں ؟ یا اس کے بکمال درجہ مقبول ہونے کو ؟
قولہ : علاوہ بریں کذب کا اطلاق ہمیشہ تعمد کذب (قصدًا جھوٹ بولنے) پر نہیں ہوتا بلکہ بلا ارادہ محض سہو و نسیان سے خلاف واقعہ بات بولنے پر بھی اسکا اطلاق بکثرت ہوتا ہے......... شعبہ کی تکذیب کا مطلب اس سے زیادہ اور کچھ نہیں ہوسکتا کہ ابراہیم نے بے تحقیق بات نقل کر دی ، یا ان سے بھول ہوئی ہے ۔ (رکعات ص ٥٨)
ج: افسوس ہے کہ مولانا مئوی نے اس موقع پر بڑے تجاہل سے کام لیا ہے
اور عوام کی ناواقفیت سے پوری طرح فائدہ اٹھانے کی کوشش کی ہے ۔ اگر وہ رجال کی انہی کتابوں سے جن میں شعبہ کی یہ تکذیب منقول ہے ۔ شعبہ کے بعض وہ دوسرے اقوال بھی ذکر کردیتے جو انہوں نے ابراہیم کے متعلق کہے ہیں تو ان کی اس ''نکتہ آفرینی'' کا سارا بھرم کھل جاتا ۔ او ردنیا جان لیتی کہ شعبہ نے ابراہیم کی تکذیب کس معنی میں کی ہے ۔
سنیے ! تہذیب التہذیب میں ہے :
قال معاذ بن معاذ العنبری کتبت الیٰ شعبة وہو فی بغداد سالہ عن ابی شیبة القاضی اروی عنہ فکتب الیٰ لا ترو عنہ فانہ رجل مذموم واذا قرت کتابی فمزقہ (ص١٢٥ ج١)
یعنی معاذ عنبری بیان کرتے ہیں کہ شعبہ بغداد میں تھے ۔ میں نے ان کے پاس خط لکھ کر دریافت کیا کہ کیا ابو شیبہ قاضی واسط(کو اپنا استاد مان کر) ان سے حدیثیں روایت کروں ؟ تو شعبہ نے مجھے جواب میں لکھا کہ نہین ۔ ان سے کچھ مت روایت کرو وہ برا آدمی ہے ۔ شعبہ نے یہ بھی لکھا تھاکہ میرا یہ خط پڑھنے کے بعد پھاڑ دینا ۔ امام مسلم نے بھی مقدمہ صحیح مسلم میں شعبہ کے اس خط کا ذکر کیا ہے ۔ لکھتے ہیں :
حدثنی عبیداللہ بن معاذ العنبری قال نا ابی قال کتبت الیٰ شعبة اسلہ عن ابی شیبة قاضی واسط فکتب الیٰ لا تکتب عنہ شیئا و مزق کتابی انتہیٰ ۔ (مسلم ص١٧)
شعبہ نے اپنا خط پھاڑ دینے کا حکم کیوں دیا تھا اس کی بابت امام نووی لکھتے ہیں :
امرہ بتمزیقہ مخافة من بلوغہ الیٰ ابی شیبة ووقوفہ علٰی ذکرہ لہ بما یکرہ لئلا ینالہ منہ اذا اویترتب علٰی ذالک مفسدة (انتہیٰ....)
'' یعنی اس خط کو پھاڑ دینے کا حکم اس خوف سے تھا کہ شائد ابو شیبہ کو (جو دوسرے شہر واسط کے جج تھے) اس جرح و تنقید کی اطلاع ہو جائے تو وہ خفا ہو کر ان کے (شعبہ کی) درپے آزار ہو جائیں یا کوئی فساد کھڑا ہو جائے ''۔
حافظ ابو الحجاج مزی کی تہذیب الکمال کے حوالہ سے شعبہ کا یہ قول تحفة الاخیار ص٢٠ اور المصابیح للسیوطی ص٣ میں بھی موجود ہے ۔
اس حدیث کے حوالہ کے لئے مولانا مئوی کا اصل اعتماد دو کتابوں پر ہے ایک امام سیوطی کی المصابیح اور دوسری امام بیہقی کی سنن کبریٰ ۔ ان دونوں کتابوں میں اس حدیث کے جو الفاظ منقول ہیں ان میں تھوڑا سا فرق ہے ۔ بیہقی کی روایت میں ایک لفظ زائد ہے ، جو المصابیح میں نہیں ہے ۔ اس لفظ زائد کے بعد یہ حدیث حنفی مذہب کے لئے کچھ مفید ہونے کے بجائے الٹی سخت مضر پڑ جاتی ہے ، بلکہ یوں کہیے کہ حنفی مذہب کے دعوؤں کا سارا تارو پود ہی بکھر کر رہ جاتا ہے ۔ اس لئے مولانا مئوی نے یہاں اس حدیث کا جو ترجمہ پیش کیا ہے اس کے لئے انہوں نے المصابیح والی روایت کے الفاظ کا ہی انتخاب مناسب سمجھا ہے ۔ بیہقی والی روایت کے اس لفظ زائد کا ذکر تو در کنار اس کی طرف وہ کوئی ادنیٰ سا اشارہ بھی نہیں کرتے ۔ مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ہم اس موقع پر دونوں کتابوں سے حدیث کے اصل الفاظ آپ کے سا منے پیش کر دیں ۔
المصابیح میں اس روایت کے الفاظ یہ ہیں :
عن ابن عباس ان رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کان یصلی فی رمضان عشرین رکعة والوتر انتہیٰ ۔
اور سنن کبریٰ للبیہقی ص٤٩٦ ج٢ میں یہ حدیث بایں الفاظ مروی ہے :
عن ابن عباس قال کان النبی صلی اللہ علیہ وسلم یصلی فی شہر رمضان فی غیر جماعة بعشرین رکعة والوتر تفرد بہ ابو شیبة ابراہیم بن عثمان العبسیٰ الکوفی وہو ضعیف انتہیٰ ۔
'' یعنی حضرت ابن عباس سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم رمضان کے مہینے میں بیس رکعت اور وتر بغیر جماعت کے پڑھتے تھے ''۔
اس حدیث کے جو الفاظ ان دونوں کتابوں میں منقول ہیں ان کو سامنے رکھنے سے یہ فرق واضح ہو جاتا ہے کہ المصابیح میں فی غیر جماعة کا لفظ نہںف ہے اور بیہقی میں ہے ۔ حافظ ذہبی نے میزان الاعتدال میں ابو شیبہ ابراہیم بن عثمان کے ترجمہ میں اس حدیث کا ذکر کیا ہے اس میں بھی ''فی غیر جماعة'' کی صراحت موجود ہے ۔ (میزان ص٢٣ طبع مصر)
اس حدیث کا احناف کے دعووں سے کوئی تعلق نہیں
اب ہم ''علامہ'' مئوی سے پوچھتے ہیں کہ جب حضرت ابن عباس ہی کا یہ بیان اسی روایت میں بصراحت موجود ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بیس رکعتیں اور وتر جماعت کے ساتھ نہیں بلکہ تنہا پڑھتے تھے ۔ تو اس حدیث کو حنفی مذہب کے ان دعؤوں کے ساتھ کیا لگاؤ ہوا کہ تراویح کی بیس رکعتیں باجماعت سنتِ مؤکدہ ہیں ۔ ان کا تارک گنہگار اور شفاعت نبوی سے محروم ہے ۔ ''مؤکدہ'' تو بالائے طاق پہلے بیس رکعتوں کا جماعت کے سا تھ نفس سنت نبویہ ہونا تو ثابت کر لیجئے؟
جماعت کے ساتھ بیس رکعت تراویح کو سنت نبویہ کہنا یکسر با طل ہے :۔
ہم پورے وثوق کے ساتھ کہتے ہیں کہ ایک علامہ مئوی کیا ، پوری حنفی دنیا مل کر بھی صحیح تو درکنار کوئی ضعیف روایت بھی ایسی نہیں پیش کر سکتی جس سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قول یا فعل یا تقریر سے جماعت کے ساتھ تراویح کی بیس رکعتوں کا ثبوت ہوتا ہو ۔ اس لئے اس کو ''سنتِ نبویہ'' کہنا یکسر باطل ، قطعًا بے ثبوت اور بالکل بے دلیل دعویٰ ہے ۔
ابو شیبہ کوفی کی مذکورہ بالا روایت (جس کے ضعف پر تمام محدثین کا اتفاق ہے) کے علاوہ بیس رکعات کی کوئی مرفوع روایت نہیں ہے ۔ لیکن انصاف سے کہیے ! کیا ''فی غیر جماعة'' کا لفظ ہوتے ہوئے اس حدیث کو حنفی مذہب کی دلیل میں پیش کیا جا سکتا ہے ؟ تعجب ہے ''علامہ'' مئوی کی اس ڈھٹائی اور دیدہ دلیری پر کہ کیسے انہوں نے اس حدیث کو حنفی مذہب کی سب سے پہلے اور بنیادی دلیل قرار دے دیا ؟ جب کہ انہوں نے بہیقی کا حوالہ صفحہ اور جلد کی قید کے ساتھ دیاہے ۔ جس سے صاف ظاہر ہے کہ بہیقی میں انہوں نے یہ حدیث اور اس کے پورے الفاظ دیکھ کر یہ حوالہ دیاہے ۔
حیرت انگیز بے باکی :۔
ان سے بڑھ کر حیرت تو اس بے باکی اور جرات پر ہوتی ہے کہ آٹھ رکعت تراویح (بلا وتر)کے ''سنت'' ہونے سے انکار کیا جاتا ہے ۔ جس کا باجماعت ادا کرنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فعل اور تقریر سے ثابت ہے ۔ اور بیس رکعت باجماعت ادا کرنے کو ''سنت'' ہی نہیں بلکہ ''سنتِ مؤکدہ'' کہا جاتاہے جس کے ثبوت میں کوئی مرفوع حدیث ضعیف تک موجود نہیں ہے ، صحیح تو کجا ؟
خامہ انگشت بد نداں کہ اسے کیا لکھیے
ناطقہ سر بگریباں کہ اسے کیا کہیے
آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے انفرادًا بھی بیس(٢٠) رکعات کا پڑھنا ثابت نہیں ہے :۔
ہماری اس گرفت سے گھبرا کر کوئی حنفی یہ کہنے لگے کہ خیر باجماعت نہ سہی بغیر جماعت کے اور انفرادًا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیس رکعت تراویح کا پڑھنا اس حدیث سے ثابت ہو جاتا ہے ؟
تو اس کا جواب یہ ہے کہ جی نہیں ! آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے انفرادًا اور بغیر جماعت کے بھی بیس رکعات کا پڑھنا ثابت نہیں ہے ۔ کیونکہ مذکورہ بالا روایت باقرارِ علماء احناف بالااتفاق ضعیف اور ناقابل احتجاج ہے ۔ اس حدیث کی بابت اب تک جو گفتگو ہم نے کی ہے وہ الزامی جواب کے لئے بالفرض صحیح مان کر کی ہے ۔ ورنہ حقیقت میں یہ حدیث اس قابل ہی نہیں ہے کہ اس کو معرض استدلال میں پیش کیا جائے یا کسی حکم شرعی کے اثبات کے لئے اس کوما خذ قرار دیا جائے ۔
حدیث ِ ابو شیبہ کے ضعف پر چند حنفی اور غیر حنفی علماء کی شہادتیں :۔
اب ہم ذیل میں چند ایسے حنفی اور غیر حنفی علماء کی شہادتیں پیش کرتے ہیں جنہوں نے ابو شیبہ ا ور اس کی اس حدیث کو ضعیف اور ناقابل احتجاج کہا ہے ۔
(١) امام بیہقی کا قول ابھی اوپر گزار ہے کہ وہ اس حدیث کو روایت کرنے کے بعد ساتھ ہی یہ بھی لکھتے ہیں کہ : '' اس روایت کے بیان کرنے میں ابو شیبہ ابراہیم بن عثمان متفرد ہے اور وہ ضعیف ہے ''۔
(٢) امام سیوطی نے اسی المصابیح میں جس کے حوالہ سے مولانا مئوی نے اس حدیث کا ترجمہ پیش کیا ہے ۔ اس حدیث کو نقل کرنے کے بعد ہی صاف صاف لکھا ہے ہٰذا الحدیث ضعیف جدًا لا تقوم بہ حجة (ص٢) یعنی یہ حدیث بالکل ضعیف ہے ۔ حجت کے قابل نہیں ہے ۔ آگے چل کر ابو شیبہ کے متعلق کبار محدثین کی جرحیں نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں : ومن اتفق ہولاء الئمة علیٰ تضعیفہ لا یحل الاحتجاج بحدیثہ (ص٣) یعنی جس شخص کی تضعیف پر یہ سب ائمہ حدیث متفق ہوں اس کی حدیث سے حجت پکڑنا حلال نہیں ہے ۔
(٣) اس حدیث کی بابت حافظ ابن حجر کا یہ قول پہلے گزر چکا ہے :
فاسنادہ ضعیف وقد عارضہ حدیث عائشہ الذی فی الصحیحین مع کونہا علم بحال النبی صلی اللہ علیہ وسلم لیلا من غیرہا
یعنی اس حدیث کی اسناد ضعیف ہے اور یہ حضرت عائشہ کی اس حدیث کے معارض بھی ہے جو صحیحین میں مروی ہے کہ (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رمضان اور غیر رمضان میں گیارہ رکعات سے زیادہ نہیں پڑھتے تھے ) اور حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے رات کے حالات کو دوسرے صحابہ سے زیادہ جانتی تھیں ۔
(٤) علامہ زیلعی حنفی لکھتے ہیں :
وہو معلول بابی شیبة ابراہیم بن عثمان جد الامام ابی بکر بن ابی شیبة وہو متفق علیٰ ض عفہ ولینہ ابن عدی فی الکامل ثم انہ مخالف للحدیث الصحیح عن ابی سلمة بن عبدالرحمن انہ سال عائشہ الحدیث ۔ (نصب الرایہ ص٢٩٣)
یعنی ابو شیبہ کی وجہ سے یہ حدیث معلول (ضعیف) ہے اور اس کے ضعف پر سب محدثین کا اتفاق ہے او رابن عدی نے اس کو لین کہا ہے اور یہ حدیث حضرت عائشہ کی صحیح حدیث کی مخالف بھی ہے ۔ (لہٰذا قابل قبول نہیں ہے) فیقبل الصحیح ویطرح غیرہ کذا فی التعلیق الممجد عند نقل ہٰذا الکلام عن الزیلعی وابن الہمام وغیرہما ۔
(٥) ابن ہمام حنفی لکھتے ہیں :
واما ما روی ابن ابی شیبة فی مصنفہ ..... فضعیف بابی شیبة ابراہیم بن عثمان جد الامام ابی بکر بن ابی شیبة متفق علیٰ ضعفہ مخالفتہ للصحیح ۔ (فتح القدیر جلد اول ص٣٣٣ طبع مصر)
یعنی یہ حدیث ضعیف ہے اور ابو شیبہ کے ضعف پر سب متفق ہیں ۔نیز یہ حدیث حضرت عائشہ کی صحیح حدیث کے مخالف ہے ۔ (اس لئے قابل حجت نہیں )۔
(٦) علامہ عینی حنفی اس حدیث کو شرح بخاری میں ذکر کرنے کے بعد لکھتے ہیں :
کذبہ شعبة وضعفہ احمد وابن معین والبخاری والنسائی وغیرہم واوردلہ ابن عدی ہٰذا الحدیث فی الکامل فی مناکیرہ انتہیٰ (عمدة القاری طبع مصر ص٣٥٩ جلد پنجم)
یعنی اس حدیث کے راوی ابو شیبہ کو شعبہ نے کاذب کہا ہے اور امام احمد و ابن معین و بخاری ونسائی اورغیرہم نے ضعیف قرار دیا ہے اور ابن عدی نے اپنی کتاب ''کامل'' میں اس حدیث کو ابو شیبہ کی مناکیر میں ذکر کیا ہے ۔
علامہ عینی نے ان جرحوں میں سے کسی جرح پر کوئی اعتراض نہیں کیا ہے ۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ ابو شیبہ پر کی گئی یہ سب جرحیں ان کے نزدیک مقبول اورمعتبر ہیں ۔ لہٰذا یہ حدیث بلا شبہہ ان کے نزدیک بھی ضعیف اور ناقابل احتجاج ہے ۔
(٧) علامہ ابو الطیب محمد بن عبدالقادر سندھی ثم المدنی نقشبندی حنفی اپنی ترمذی کی شرح ص ٤٢٣ ج١ میں لکھتے ہیں :
وورد عن ابن عباس قال کان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یصلی فی رمضان عشرین رکعة والوتر رواہ ابن ابی شیبة واسنادہ ضعیف وقد عارضہ حدیث عائشة ہٰذا وہو فی الصحیحین فلا تقوم بہ الحجة انتہیٰ ۔
یعنی اس حدیث کی سند ضعیف ہے اور حضرت عائشہ کی صحیحین والی روایت کے یہ معارض بھی ہے ۔ لہٰذا یہ حجت کے قابل نہیں ہے ۔
(٨) مولانا عبد الحٔ لکھنوی حنفی نے بھی اپنے مجموعہ فتاویٰ میں صراحةً اس حدیث کو ضعیف لکھا ہے ۔ (دیکھو جلد اوّل ص٣٥٤)
(٩) مولانا انور شاہ کشمیری فرما تے ہیں :
واما النبی صلی اللہ علیہ وسلم فصح عنہ ثمان رکعات واما عشرون رکعة فہو عنہ صلی اللہ علیہ وسلم بسند ضعیف وعلیٰ ضعفہ اتفاق انتہیٰ ۔ (العرف الشذی ص٣٢٠)
یعنی نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے تراویح کی آٹھ ہی رکعتیں صحیح طور پر ثابت ہیں ، بیس رکعت والی روایت کی سند ضعیف ہے اور ایسی ضعیف ہے کہ اس کے ضعف پر سب کا اتفاق ہے ۔
(١٠) مولانا محمد زکریا کاندھلوی حنفی اپنی شرح مؤطا میں لکھتے ہیں :
لا شک فی ان تحدید التراویح فی عشرین رکعة لم یثبت مرفوعا عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم بطریق صحیح اصول المحدثین وما ورد فیہ من روایة ابن عباس فمتکلم فیہا علی اصولہم انتہیٰ ۔ (اوجز المسالک جلد اوّل ص٣٩٧)
یعنی اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ تراویح کی بیس رکعتوں کی تحدید و تعیین رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اصولِ محدثین کے طریق پر ثابت نہیں ہے اور جو روایت حضرت ابن عباس سے بیس رکعات کے متعلق مروی ہے وہ باصول محدثین مجروح اور ضعیف ہے ۔
(١١) خود مؤلف '' رکعات تراویح) مولانا حبیب الرحمن مئوی کو بھی ہزار ہیرا پھیری کے باوجود یہ تسلیم کرنا پڑا ہے کہ یہ حدیث ضعیف ہے ۔ چنانچہ لکھتے ہیں :
'' بہر حال ہم کو اتنا تسلیم ہے کہ ابراہیم ضعیف راوی ہے اور اس کی وجہ سے یہ حدیث بھی ضعیف ہے ''۔ (رکعات ص٥٩)
ابو شیبہ پر کی گئی بعض جرحوں پر اعتراض :
'' علامہ '' مئووی کو یہ تو تسلیم ہے کہ یہ حدیث ضعیف ہے ، کیوں کہ اس کا بنیادی راو ی ابو شیبہ ابراہیم بن عثمان مجروح اور ضعیف راوی ہے ۔ وہ یہ بھی مانتے ہیں کہ ابراہیم پر سخت سخت جرحیں کی گئی ہیں ، لیکن اس کے باوجود وہ اس بات کے بھی مدعی ہیں کہ '' جتنی جرحیں نقل کی جاتی ہیں سب مقبول نہیں ہیں ۔ بعض ان میں سے مردود بھی ہیں ''۔ اس کی مثال میں انہوں نے شعبہ کی تکذیب کو پیش کیا ہے ۔ چنانچہ وہ لکھتے ہیں :
'' مثلاً نقل کیا جاتا ہے کہ شعبہ نے ابراہیم کی تکذیب کی ہے ، مگر حق یہ ہے کہ شعبہ کی تکذیب قابل قبول نہیں ہے ۔ جیسا کہ ذہبی کے بیان سے ظاہر ہے ۔ ذہبی نے میزان الاعتدال میں لکھا ہے :
کذبہ شعبة لکونہ روی عن الحکم عن ابن ابی لیلی انہ قال شہد صفین من اہل بدر سبعون فقال شعبة کذب وﷲ لقد ذاکرت الحکم فما وجدنا شہد صفین احدًا من اہل بدر غیر خزیمة قلت سبحان اﷲ اما شہدہا علی اما شہدہا عمار انتہیٰ ''
ترجمہ کے بعد فاضل مئوی لکھتے ہیں :
''دیکھئے اس بیان سے شعبہ کی تکذیب کی حقیقت کھل گئی اور معلوم ہو گیا کہ انہوں نے اس وجہ سے تکذیب کی تھی کہ ابراہیم نے حَکم کے واسطہ سے ابن ابی لیلیٰ کا یہ بیان روایت کیا تھا کہ صفین میں ستر بدری صحابی شریک تھے ، مگر جب شعبہ نے حکم سے مذاکرہ کیا تو ایک سے زیادہ بدری صحابی کی شرکت معلوم نہ ہو سکی ۔ تو اس ابراہیم کا جھوٹ کیوں کر ثابت ہوا ۔ ان کا جھوٹ تو جب ثابت ہوتا کہ شعبہ جب حکم سے مذاکرہ کرنے گئے تھے تو وہ یہ کہتے کہ میں نے ابراہیم سے یہ بیان نہیں کیا ۔ مگر شعبہ حکم کا انکار نقل نہیں کرتے ، بلکہ یہ کہتے ہیں کہ مذاکرہ سے صرف ایک صحابی ثابت ہوا ۔لہٰذا اس سے یہ تو پتا چلتا ہے کہ حکم نے ضرور بیان کیا تھا ، مگر مذاکرہ کے وقت وہ ستّر کا نام نہیں بتا سکے ۔ ایسی صورت میں الزام جو کچھ عائد ہو گا وہ حکم پر نہ کہ ابراہیم پر ''۔ (رکعات ٥٧)
اس اعتراض کا جواب :
مولانا ! حافظ ذہبی کے اس بیان پر ذرا غور کیجئے ۔ واقعہ کی صورت یہ ہے کہ ابراہیم نے حکم سے یہ قول نقل کیا کہ صفین میں ستر بدری صحابی شریک تھے اور ابراہیم ہی نے یہ بھی بیان کیا کہ حکم نے یہ بات ابن ابی لیلیٰ سے روایت کی ہے ۔ اب شعبہ کہتے ہیں کہ ابراہیم کا یہ بیان جھوٹ ہے ۔ بس اس لئے کہ میں نے خود حکم سے اس کے بارے میں مذاکرہ کیا تو ہم نے سوائے خزیمہ کے کوئی ایسا بدری صحابی نہیں پایا جو صفین میں حاضر رہا ہو ۔ یعنی اس مذاکرہ میں دو چار صحابہ کی تعداد بھی ثابت نہ ہو سکی ۔ ستر تو بڑی بات ہے ۔ لہٰذا حکم کی طرف سے اس تعداد کے بیان کی نسبت کرنا جھوٹ ہے ۔
رہی یہ بات کہ '' ابراہیم کا جھوٹ اس وقت ثابت ہوتاہے جب حکم نے اس بیان سے انکار کیا ہوتا '' ۔ تو گزارش یہ ہے کہ انکار تو جب کرتے کہ شعبہ نے اپنے مذاکرہ میں ان سے یہ پوچھا ہوتا کہ آپ نے ابراہیم سے یہ بیان کیا ہے یا نہیں ؟ اگر انہوں نے یہ سوال کیا ہوتا تو ا س کو '' مذاکرہ'' سے تعبیر نہ کرتے ۔ اہل علم سمجھ سکتے ہیں کہ اس قسم کے سوال کو '' مذاکرہ'' نہیں کہا جاتا ۔ '' مذاکرہ'' کی تعبیر سے معلوم ہوتا ہے کہ شعبہ اور حکم کی گفتگو اس موضوع پر نہ تھی کہ حکم نے ابراہیم سے یہ بیان کیا ہے یا نہیں ، بلکہ گفتگو اس موضوع پر تھی کہ جنگِ سفین میں کتنے بدری صحابی شریک تھے ۔ اور بظاہر یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اس سلسلے میں ان دونوں حضرات نے اپنی اپنی معلومات پیش کی تھیں ۔ اسی لئے اس کو ''مذاکرہ'' سے تعبیر کیا ہے اور نتیجہ میں بھی فما وجدنا شہد صفین احد من اہل بدر غیر خزیمة کہا ہے ۔ (یعنی ہم نے سوائے خزیمہ کے کوئی ایسا بدری صحابی نہیں پایا جو صفین میں حاضر رہا ہو ) اس عبارت میں فما وجدنا (ہم نے نہیں پایا ) کا لفظ خاص طور سے قابل غور ہے ۔ یہ نہیں کہا کہ : فما اخبرنا باحد ممن شہد صفین من اہل بدر غیر خزیمة (یعنی مذاکرہ کے وقت حکم مجھ کو خزیمہ کے سوا کسی دوسرے کا نام نہ بتا سکے ) ۔
پس '' علامہ'' مئوی کا یہ کہنا کہ '' حکم نے ابراہیم سے ضرور بیان کیا تھا'' .........نرا تحکم اور محض بے دلیل دعویٰ ہے اور عبارت کے ظاہرالفاظ کے بالکل خلاف ہے اور وہ بیان کیسے کرتے جب کہ ان کو خود ہی اس تعداد کا علم نہ تھا ۔ جیسا کہ شعبہ نے بتایا ۔ ''علامہ'' مئوی کی یہ دیدہ دلیری بھی قابل داد ہے کہ'' ایک طرف تو بقول ان کے شعبہ جیسا محتاط اور پرہیزگار عالم ہے '' ۔ جو ابراہیم اورحکم دونوں کا شاگرد ہے اور دونوں کے حالات سے پو ری طرح باخیر ہے وہ اپنی ذاتی معلومات اور پوری واقفیت کی بنا پر اس واقعہ کا سارا الزام ابراہیم پر عائد کرتا ہے ۔ او رحلف کے ساتھ کہتا ہے کذب واﷲ (بخدا ابراہیم نے جھوٹ کہا ہے) اور دوسری طرف ''علامہ''مئوی ہیں جو آج سینکڑوں برس کے بعد مجض ظن و تخمین سے یہ فیصلہ صادر فرما رہے ہیں کہ '' ایسی صورت میں الزام جو کچھ عائد ہو گا وہ حکم پر نہ کہ ابراہیم پر'' ۔ جل جلالہ
قولہ : پھر حافظ ذہبی نے شعبہ کے اس بیان کو بھی ایک ہی صحابی ثابت ہو سکا ، یوں ردّ کر دیا کہ صفین میں حضرت علی اور حضرت عمار بالیقین شریک تھے تو ایک ہی کیسے ثابت ہوا ۔ کم سے کم تین کہیے ۔ یعنی اسی طرح اور تحقیق کیجئے تو ممکن ہے اور نکل آئیں ۔ (رکعات ص٥٨)
ج: حافظ ذہبی کے اس اعتراض نے تو شعبہ کی تکذیب کو اور قوت پہنچا دی ۔ اس لئے ہ جس شخص کو ایسے مشہور صحابہ کی شرکت بھی یاد نہ آئے اور وہ تین کی تعداد بھی نہ بتا سکے بھلا وہ کیسے کہہ سکتا ہے کہ ستر بدری صحابی صفین میں شریک تھے ۔ ا سکے تو صاف معنی یہ ہیں کہ اس کی طرف تعداد کے بیان کرنے کی نسبت کرنا یقینا جھوٹ ہے ۔
رہا یہ کہ ''تحقیق سے ممکن ہے اور نکل آئیں '' تو حضرت وہ آپ کی تحقیق کا نتیجہ ہوں گے حکم کی تحقیق کا نہیں ۔ اور یہاں زیر بحث حکم کی تحقیق اور بیان ہے ۔ زید وبکر کی تحقیق نہیں ۔
قولہ : بہر حال اس بیان سے شعبہ کی تکذیب کا ناقابل قبول ہونا واضح ہو گیا ۔ (رکعات ص٥٨)
ج: جی نہیں ! اس بحث کے بعد تو شعبہ کی تکذیب کا حق ہونا او رزیادہ محقق اور مدلل ہو گیا ۔ اسی لئے آج تک کسی محدث او رفقیہ نے شعبہ کی اس تکذیب کو ناقابل قبول قرار نہیں دیا ۔ خودحافظ ذہبی نے بھی اس تکذیب کو مردود نہیں ٹھہرایا ، بلکہ اس بات پر تعجب کا اظہار کیا کہ '' خزیمہ کے سوا ہم نے کسی دوسرے بدری صحابی کی حاضری کو صفین میں نہیں پایا '' انہوں نے ابراہیم کے بیان کی تصدیق نہیں کی ہے ۔ تاکہ شعبہ کی تکذیب کا ردّ لازم آئے ۔ علامہ عینی کا حوالہ گزر چکا کہ انہوں نے ابو شیبہ پر محدثین کی جو جرحین بلا کسی رد و انکار کے نقل کی ہیں ان میں سب سے پہلے اسی جرح کو ذکر کیا ہے کہ کذبة شعبة ۔ اس کے بعد امام احمد بن حنبل ، امام بخاری ، ابن معین ، نسائی وغیرہم کی تضعیف کو بیان کیا ہے ۔
امام سیوطی فرماتے ہیں : ومن یکذبہ مثل شعبة فلایلتفت الیٰ حدیثہ (المصابیح ص٣) یعنی شعبہ جیسا حاذق محدث جس شخص کی تکذیب کرے اس کی حدیث قابل التفات بھی نہیں ۔
بتائیے ! یہ باتیں شعبہ کی تکذیب کے ناقابل قبول ہونے کو واضح کرتی ہیں ؟ یا اس کے بکمال درجہ مقبول ہونے کو ؟
قولہ : علاوہ بریں کذب کا اطلاق ہمیشہ تعمد کذب (قصدًا جھوٹ بولنے) پر نہیں ہوتا بلکہ بلا ارادہ محض سہو و نسیان سے خلاف واقعہ بات بولنے پر بھی اسکا اطلاق بکثرت ہوتا ہے......... شعبہ کی تکذیب کا مطلب اس سے زیادہ اور کچھ نہیں ہوسکتا کہ ابراہیم نے بے تحقیق بات نقل کر دی ، یا ان سے بھول ہوئی ہے ۔ (رکعات ص ٥٨)
ج: افسوس ہے کہ مولانا مئوی نے اس موقع پر بڑے تجاہل سے کام لیا ہے
اور عوام کی ناواقفیت سے پوری طرح فائدہ اٹھانے کی کوشش کی ہے ۔ اگر وہ رجال کی انہی کتابوں سے جن میں شعبہ کی یہ تکذیب منقول ہے ۔ شعبہ کے بعض وہ دوسرے اقوال بھی ذکر کردیتے جو انہوں نے ابراہیم کے متعلق کہے ہیں تو ان کی اس ''نکتہ آفرینی'' کا سارا بھرم کھل جاتا ۔ او ردنیا جان لیتی کہ شعبہ نے ابراہیم کی تکذیب کس معنی میں کی ہے ۔
سنیے ! تہذیب التہذیب میں ہے :
قال معاذ بن معاذ العنبری کتبت الیٰ شعبة وہو فی بغداد سالہ عن ابی شیبة القاضی اروی عنہ فکتب الیٰ لا ترو عنہ فانہ رجل مذموم واذا قرت کتابی فمزقہ (ص١٢٥ ج١)
یعنی معاذ عنبری بیان کرتے ہیں کہ شعبہ بغداد میں تھے ۔ میں نے ان کے پاس خط لکھ کر دریافت کیا کہ کیا ابو شیبہ قاضی واسط(کو اپنا استاد مان کر) ان سے حدیثیں روایت کروں ؟ تو شعبہ نے مجھے جواب میں لکھا کہ نہین ۔ ان سے کچھ مت روایت کرو وہ برا آدمی ہے ۔ شعبہ نے یہ بھی لکھا تھاکہ میرا یہ خط پڑھنے کے بعد پھاڑ دینا ۔ امام مسلم نے بھی مقدمہ صحیح مسلم میں شعبہ کے اس خط کا ذکر کیا ہے ۔ لکھتے ہیں :
حدثنی عبیداللہ بن معاذ العنبری قال نا ابی قال کتبت الیٰ شعبة اسلہ عن ابی شیبة قاضی واسط فکتب الیٰ لا تکتب عنہ شیئا و مزق کتابی انتہیٰ ۔ (مسلم ص١٧)
شعبہ نے اپنا خط پھاڑ دینے کا حکم کیوں دیا تھا اس کی بابت امام نووی لکھتے ہیں :
امرہ بتمزیقہ مخافة من بلوغہ الیٰ ابی شیبة ووقوفہ علٰی ذکرہ لہ بما یکرہ لئلا ینالہ منہ اذا اویترتب علٰی ذالک مفسدة (انتہیٰ....)
'' یعنی اس خط کو پھاڑ دینے کا حکم اس خوف سے تھا کہ شائد ابو شیبہ کو (جو دوسرے شہر واسط کے جج تھے) اس جرح و تنقید کی اطلاع ہو جائے تو وہ خفا ہو کر ان کے (شعبہ کی) درپے آزار ہو جائیں یا کوئی فساد کھڑا ہو جائے ''۔
حافظ ابو الحجاج مزی کی تہذیب الکمال کے حوالہ سے شعبہ کا یہ قول تحفة الاخیار ص٢٠ اور المصابیح للسیوطی ص٣ میں بھی موجود ہے ۔