• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

انوار المصابیح انوار المصابیح

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,859
ری ایکشن اسکور
41,096
پوائنٹ
1,155
قولہ : اس سے معلوم ہو ا کہ خود اہل حدیث کے ہی نزدیک یہ حدیث لازم العمل نہیں ۔ نہ اس کی خلاف ورزی سنت کی خلاف ورزی ہے ۔ ایسی حالت میں دوسروں پر اس سے حجت قائم کرنا یا کسی دعویٰ کے ثبوت میں اس کو پیش کرنا بالکل خلاف انصاف و دیانت ہے (رکعات ص ٢٢)
ج : اہل حدیث کے نزدیک کسی حدیث یا سنت کے اخذ و ترک کا معیار یہ نہیں ہے کہ فلاں امام نے اس کو اخذ کیا یا ترک کیا ہے ۔ وہ تو ہر وہ حدیث یا سنت جو باصول محدثین صحیح ثابت ہو جائے سر اور آنکھوں پر رکھتے ہیں ۔ اس لئے تعداد رکعات کی بابت جب گیارہ یا تیرہ سے زیادہ کا ثبوت قول یا فعل نبوی سے نہیںملا تو اس کو ''سنت'' نہیں سمجھا اور کیفیتِ ادا کے متعلق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے مختلف صورتیں ثابت ہیں ۔ اس لئے ان سب صورتوں کو سنت اور قابل عمل قرار دیا ہے
اگر دوسرے بھی تقلیدی جمود سے نکل کر انصاف و دیانت کی رو سے یہ تسلیم کر لیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فعل سے گیارہ رکعات تراویح ثابت ہے اور یہ بھی سنت ہے تو آج ساری نزاع ختم ہو جائے۔ اس حدیث سے دوسروں پر حجت اس لئے قائم ہو جاتی ہے کہ وہ اس ''سنت'' کو مٹانے کے درپے ہیں وہ صرف اس سنت کے تارک ہی نہیں بلکہ منکر اور جامد ہیں ۔ اس لئے اہل حدیث جنہوں نے احیائے سنت ہی کو اپنا مشن قرار دیا ہے ۔ اس دھاندلی کو کس طرح برداشت کر سکتے ہیں ۔
قولہ : اور اگر ہماری اس گرفت سے گبھرا کر اہل حدیث یہ کہنے لگیں کہ اس حدیث میں دوامی کیفیت کا بیان نہیں ہے تو گذارش ہے کہ دوامی نہیں تو اکثری تو ہے اوراہل حدیث کا عمل اکثر اوقات میں بھی اس کے مطابق نہیں ہے ۔ بلکہ اس کے خلاف ہے ۔ (ص ١١)
ج : اجی حضرت ! آپ جیسوں کی ''گرفت '' سے گبھرانا ؟ جو بقول امام السنہ احمد بن حنبل رحمہ اللہ حدیث کے معاملے میں '' اناڑی '' ہیں ۔ امام محمد بن نصرمروزی کا بیان ہے :
حدثنی علی بن سعید النسوی قال سمعت احمد بن حنبل یقول ھؤلاء اصحاب ابی حنیفة لھم بصر بشئی من الحدیث ما ھو الا الجرة (قیام اللیل ص ١٢٣)
''یعنی امام احمد بن حنبل نے فرمایا ہے کہ یہ اصحاب ابو حنیفہ صرف ڈھٹھائی کرتے ہیں ۔ ورنہ در حقیقت ان کو حدیث کے متعلق کچھ بھی بصیرت حاصل نہیں ہے ۔'' آپ کو ابھی تک یہ تو پتہ ہی نہ چلا کہ محدثین نے اس حدیث کوجو غالب احوال اور اکثر اوقات پر محمول کیا ہے تو وہ ''عدد'' کے اعتبار سے ہے ، یا '' کیفیتِ ادا''کے اعتبار سے ۔ کسی محدث ے یہ نہیں لکھا ہے کہ چار چار رکعتوں کو ایک سلام سے پڑھنا یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا اکثری عمل ہے بلکہ یہ لکھاہے کہ سات اور نو کے مقابلے میں گیارہ یا تیرہ رکعات پڑھنا یہ اکثری عمل ہے ۔ س الحمد للہ اہل حدیث کا بھی اکثری عمل یہی ہے ۔
ہماری بستی (املو ضلع اعظم گڈھ) آپ کے مئوسے دور نہیںہے ۔ آگر گیارہ رکعت تراویح پڑھنے کا طریقہ سیکھ جائیے ۔ بشرط یہ کہ جذبہ اتباع سنت کی کچھ رمق باقی ہو ۔
قولہ : رابعاً امام محمد بن نصر مروزی نے اپنی کتاب قیام اللیل میں ایک باب کا عنوان یہ قرار دیا ہے :
''باب عدد الرکعات التی یقوم بھا الامام للناس فی رمضان ''
اس باب میں وہ رکعاتِ تراویح کی تعداد بتانے کے لئے بہت سی روائتیں لائے ہیں مگر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی اس حدیث کی بابت اشارہ تک نہیں کیا ہے جس سے صاف ظاہر ہے کہ ان کے علم و تحقیق میںبھی اس حدیث کا کوئی تعلق تراویح سے نہیں ہے (ص١١)
ج : عنوان سے صاف ظاہر ہے کہ اس باب میں صرف ان روایتوں کا پیش کرنا مقصود ہے جن روایتوں میں امام اور مقتدی کا ذکر ہے اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث (زیر بحث) میں اس کی تخصیص نہیں ہے ۔ اس لئے وہ اس باب میںکس طرح لائی جا سکتی ہے ؟ رہا یہ کہ امام مروزی کے علم و تحقیق میں تہجد فی رمضان اور تراویح دونوں ایک ہی ہیں ۔ یا الگ الگ ۔ تو اس کے لئے اسی کتاب میں باب ذکر من اختار الصلوٰة وحدة علی القیام مع الناس اذا کان حافظاً للقرآن
کا بغور مطالعہ کیجئے جس میں امام مروزی نے صحابہ ، تابعین اور ائمہ دین کے بہت سے ایسے اقوال و افعال پیش کئے ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ حضرات ان دونوں نمازوں کو ایک ہی سمجھتے تھے اور اس کے مقابلے میں امام مروزی نے اس پوری کتاب میں کہیں ایک بھی کوئی ایسا قول و فعل نقل نہیں کیا ہے جس سے ان دونوں نمازوں کے دو ہونے پر استدلال کیا جا سکے ۔ پس امام مروزی کو اپنے مقصد کی تائیدمیں پیش کرنا یہ محض علامہ مئوی کی خوش فہمی ہے
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,859
ری ایکشن اسکور
41,096
پوائنٹ
1,155
تہجد اور تراویح کے فرق کی بحث
حدیث عائشہ پر ان اعتراضات سے فراغت کے بعد مولانا مئوی نے ایک ''شبہ کا ازالہ'' کے عنوان سے تہجد اور تراویح کے فرق پر بحث کی ہے اور اپنے زعم میںیہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ تہجد اور تراویح بالکل الگ الگ دو نمازیں ہیں ... لکھتے ہیں :
قولہ : اگر کوئی کہے کہ تہجد اور تراویح میں کوئی فرق نہیں ہے ۔ نماز ایک ہے ۔ نام دو ہیں ۔ اسی کو گیارہ مہینے تہجد کہتے ہیں اور اسی کو رمضان میں تراویح کے نام سے یاد کرتے ہیں تو سوال یہ ہے کہ اس کی دلیل کیا ہے ؟ اور جب ان دونوں میں متعدد وجوہ مغائرت کے موجود ہیں تو ان دونوں کو ایک کہنا کیونکر ممکن ہے ؟ (رکعات ص ٣٢)
ج : مولانا نے اپنی عادت کے مطابق اس موقع پر بھی کچھ مغالطے سے کام لیا ہے ۔ اہلحدیث یہ نہیں کہتے کہ تہجد اور تراویح میں کوئی فرق نہیں ہے بلکہ یہ کہتے ہیں کہ تہجد فی رمضان اور تراویح میں کوئی فرق نہیں ہے ، تفسیر ، حدیث ، فقہ ان سے سے یہ بات واضح ہو تی ہے کہ تہجد اور صلوٰة اللیل اور قیام اللیل یہ تینوں الفاظ ایک ہی نماز پر بولے جاتے ہیں ۔ (ملاحظہ ہو فتح القدیر جلد اول ص ٣١٩ ، ٣٢٠ ، بحر الرائق ج ٢ ص ٥٢ طبع مصر ) ۔
لہذا رمضان و غیرہ رمضان کے اعتبار سے جس طرح صلوة اللیل اور قیام اللیل کی دو قسمیں یا دو صورتیں ہوں گی ۔ اسی طرح تہجد کی بھی ہوں گی ۔ ایک تہجد فی رمضان اور دوسری تہجد فی غیر رمضان ، تہجد فی رمضان ۔ یا یوں کہئے کہ صلوة اللیل اور قیام اللیل فی رمضان ، اسی کو تراویح بھی کہتے ہیں ۔ (بالفاظ دیگر) تہجد (بلا تقیید) عام ہے اور تراویح (تہجد فی رمضان) خاص ہے ۔ البتہ تراویح ، اور تہجد فی رمضان و صلوة اللیل فی رمضان و قیام اللیل فی رمضان ۔ یہ چاروں الفاظ مترادف ہیں ، نماز ایک ہے اور نام چار ہیں ۔
ہماری اس تفصیل سے واضح ہو گیا کہ جس طرح یہ کہنا غلط ہے کہ تہجد (بلا تقیید) اور تراویح میں کوئی فرق نہیں ہے اسی طرح یہ کہنا بھی غلط ہے کہ ''اسی کو گیارہ مہینے تہجد کہتے ہیں اور اسی کو رمضان میں تراویح کے نام سے یاد کرتے ہیں'' ۔ کیونکہ دونوں میں عموم و خصوص کا فرق ہے ۔ اسی طرح جس کو گیارہ مہینے تہجد کہتے ہیں ''اسی'' کو رمضان میں تراویح کے نام سے یاد نہیں کرتے کیونکہ یہ تو دونوں آپس میں قسمین ہیں ۔ ایک قسیم دوسرے قسیم پر صادق نہیں آتا ۔ رہا یہکہ اس کی کیا دلیل ہے کہ تراویح ہی تہجد فی رمضان ہے تو سنیئے !
(١) اس کی پہلی دلیل یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان کی راتوںمیں تین روز صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم کو پڑھا کر اس سلسلہ کو جو بند فرما دیا تھا تو اس کی بابت بعض روایات میں ہے :
ولکن خشیت ان تفرض علیکم صلوٰة اللیل فتعجزوا عنھا
اور بعض روایات میں ہے :
خشیت ان یفرض علیکم قیام ھذا الشہر (فتح الملہم جلد ثانی ص ٣٢٢)
ان راتوں کی نماز کے متعلق سب کا اتفاق ہے کہ یہ تراویح تھی اور اسی نماز کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صلوة اللیل اور قیام ھذا الشھر فرمایا ہے اور یہ پہلے معلوم ہو چکا ہے کہ : صلوة الیل اور قیام اللیل ہی کا نام تہجد بھی ہے ۔
پس ثابت ہو گیا کہ تراویح ہی رمضان میں صلوة اللیل بھی ہے ، قیام اللیل بھی ہے اور تہجد بھی ہے ۔
(٢) دوسری دلیل یہ بھی ہے کہ کوئی نام نہاد ''محدث شہیر'' تو کیا پوری دنیائے حنفیت مل کر بھی کسی حدیث سے یہ ثابت نہیں کر سکتی کہ ان تینوں راتوں میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تراویح کے علاوہ تہجد بھی ادا فرمایا تھا ، اسی طرح جن صحابہ نے اس جماعت میں شرکت کی تھی ان کے متعلق بھی کوئی ثبوت نہیں دیا جا سکتا کہ انہوں نے اس جماعت کے علاوہ تہجد بھی پڑھا تھا ۔ اس سے صاف ظاہر ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور ان سے حضرات صحابہ کی وہ نماز تراویح ہی تہجد تھی ۔
پہلا استدال قول نبوی سے ہے اور دوسرا استدلال فعل نبوی اورتقریر نبوی سے ہے ۔
(٣) تیسری دلیل یہ ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی اسی بات کے قائل تھے ۔ جیسا کہ علماء دیوبند میں ایک بہت بڑے ممتاز عالم مولانا انور شاہ کشمیری کا بیان ہے :
ویؤیدہ فعل عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فانہ کان یصلی التراویح فی بیتہ فی آخر اللیل مع انہ کان امرہم ان یؤیدوہا بالجماعة فی المسجد ومع ذلک لم یکن یدخل فیہا وذالک لانہ کان یعلم ان عمل النبی صلی اللہ علیہ وسلم کان بادائہا فی آخر اللیل ثم نبہہم علیہ قال انہ الصلوٰة التی تقومون بہا اول اللیل مفضولة منہا لوکنتم تقیمونہا فی آخر اللیل فجعل الصلوة واحدة وفضل قیامہا فی آخر اللیل علی القیام بہا فی اول اللیل وعامتہم لہا لم یدرکوا مرادہ جعلوہ دلیلا علی تغایر الصلاتین وزعموا انہما کانتا صلاتین انتہیٰ (فیض الباری جلد ثانی ص٤٢٠)
یعنی '' اس مسلک کی تائید حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اس فعل سے بھی ہوتی ہے کہ وہ تراویخ آخر شب میں اپنے گھر پڑھا کرتے تھے ۔ حالانکہ لوگوں کو یہ حکم دیا تھا کہ وہ جماعت کے ساتھ مسجد میں پڑھا کریں ۔حضرت عمر خود اس جماعت میں شریک نہیں ہوا کرتے تھے ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ جانتے تھے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ یہی تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہ نماز آخر شب میں پڑھا کرتے تھے ۔ چنانچہ حضرت عمر نے لوگوں کو متنبہ بھی کردیا کہ جو نماز تم اول شب میں پڑھتے ہو اس کو اگر آخر شب میں پڑھا کرو تو یہ زیادہ بہتر ہے ۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے تراویح اور تہجد فی رمضان دونوں کو ایک ہی نماز قرار دیا ہے لیکن عام طورپر علماء نے ان کی مراد کو نہیں سمجھا اس لئے الٹی اس کو ان دونوں نمازوں میں مفایرت نما کی دلیل بنا دیا اور یہ زعم کر بیٹھے کہ تہجد اور تراویح دو نمازیں ہیں '' ۔
(٤) چوتھی دلیل یہ ہے کہ بقول مولانا انور شاہ صاحب امام محمد بن نصر مروزی نے اپنی کتاب قیام اللیل میں لکھا ہے کہ بعض علماء سلف اس بات کے قائل ہیں کہ جو شخص تراویح پڑھے اس کو پھر تہجد نہیں پڑھنا چاہئیے اور بعض علماء نے مطلق نفل کی اجازت دی ہے ۔
علماء سلف کا یہ اختلاف صاف دلیل ہے اس بات کی کہ ان کے نزدیک یہ دونوں نمازیں ایک ہی ہیں ۔
مولانا انور شاہ صاحب کا بیان یہ ہے :
ثم ان حمد بن نصر مروزی وضع عدة تراجم فی قیام اللیل وکتب ان بعض السلف ذہبوا الیٰ منع التہجد لمن صلی التراویح وبعضہم قالوا با با حة النفل المطلق فدل اختلافہم ہٰذا علیٰ اتحاد الصلوٰتین عندہم انتہیٰ (فیض الباری صفحہ مذکورہ )
ان دلائل کی روشنی میں انصاف و دیانت کی رو سے غور کرنے والے کے لئے تو اس میں کوئی شبہہ نہیں رہ جاتا کہ تراویح ہی تہجد فی رمضان ہے ۔ تاہم ان وجوہ مغائرت کا بھی ہمیں جائزہ لینا ہے جو مولانا مئوی نے اس سلسلہ میں پیش کئی ہیں ۔ ہر ہر وجہ کا تفصیلی جواب دینے سے پہلے ایک اجمالی جواب ہم مولانا انور شاہ صاحب کے لفظوں میں یہاں نقل کر دینا مناسب سمجھتے ہیں :
قال عامة العلماء ان التراویح وصلوٰة اللیل نوعان مختلفان والمختار عندی انہما واحد وان اختلف صفتاہما ......... وجعل اختلاف الصفات دلیلا علیٰ اختلاف فوعیہما لیس بجید عندی بل کانت تلک صلوٰة واحدة اذا تقدمت سمیت باسم التراویح واذا تاخرت سمیت باسم التہجد ولا بدع فی تسمیتہا باسمین عند تغایر الوصفین فانہ لا حجر فی التغایر الاسمی اذا اجتمعت علیہ الامة وانما یثبت تغایر النوعین اذا ثبت عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم انہ صلی التہجد مع القامة اقامة بالتراویح انتہیٰ (حوالہ مذکورہ )
یعنی '' عام طور پر علماء (حنفیہ ) یہ کہتے ہیں کہ تراویح اور صلوٰة اللیل (تہجد) دونوں نمازیں مختلف النوع ہیں ، لیکن میرے نزدیک مختار یہ ہے کہ دونوں نمازیں متحد النوع ہیں ۔ اگرچہ دونوں کے اوصاف میں کچھ اختلاف ہے جیسے .... مگر صفات کو نوعی اختلاف کی دلیل بنانا میرے نزدیک ٹھیک نہیں ہے ۔ حقیقت میں یہ دونوں نمازیں ایک ہی ہیں ۔ اول شب میں پڑھی گئی تو اس کا نام تراویح ہوا اور آخر شب میں پڑھی گئی تو اس کا نام تہجد ہوا اور جب دونوں کے اوصاف میں کچھ ا ختلاف بھی ہے تو اس لحاظ سے اگر اس کے دو نام بھی ہوں تو کیا تعجب ہے ؟ ہاں ! ان دونوں نمازوں کا متغائر النوع ہونا اس وقت ثابت ہوا گا جب یہ ثابت ہوجائے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تراویح کے ساتھ تہجد بھی ادا فرمایا تھا '' ۔
اب مولانا مئوی کے پیش کردہ وجوہ مغائرت کے تفصیلی جوابات سنئیے
قولہ : مغائرت (دونوں کے دو ہونے) کے وجوہ متعدد ہیں ۔ ایک وجہ یہ ہے کہ تہجد کی مشروعیت بنص قرآن ہوئی ہے :
فتہجد بہ نافلة اور : قم اللیل الا قلیلا ۔ وغیرہ کی تفسیر دیکھئے اور تراویح کی مسنونیت احادیث سے ہوئی ، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : سننت لکم قیامہ (نسائی) یعنی میں نے رمضان کے قیام کو مسنون کیا ۔ (رکعات ص٢٣)
ج : یہ استدلال علامہ مئوی کی قرآن فہمی اور حدیث فہمی دونوں کا '' شاہکار'' ہے ۔ غور کیجئے ان دونوں آیتوں سے یہ تو ظاہر ہی ہے کہ تہجد اور قیام اللیل دونوں ایک ہی نماز کے نام ہیں ۔ یہ بھی ظاہر ہے کہ جس قیام اللیل کی مشروعیت نص قرآن سے ثابت ہو رہی ہے اس میں رمضان یا غیر رمضان کی کوئی قید نہیں ہے ۔ لہٰذا یہ نص قرآنی اپنے عموم و اطلاق کے اعتبار سے قیام اللیل فی رمضان اور قیام اللیل فی غیر رمضان دونوں کو شامل ہے ۔
اب حدیث کو دیکھئے اس میں باقرار علامہ مئوی '' قیامہ'' سے مراد تراویح ہے گویا تراویح کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قیام اللیل فی رمضان فرمایا ہے جب تراویح قیام اللیل فی رمضان ہے تو اب کون کہہ سکتا ہے کہ نص قرآن اس کو شامل نہیں ہے ؟
پس خود مولانا ہی کی دلیلوں سے ثابت ہو جاتا ہے کہ تراویح کی مشروعیت بھی بنص قرآنی ہی ہوئی ہے ۔
اب رہا یہ شبہہ کہ پھر سننت لکم قیامہ میں اس کی نسبت آنحصرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی طرف کیوں فرمائی ہے ۔ تو یہ باعتبار مشروعیت کے نہیں ہے ۔ کیونکہ یہ تو مسلم ہے کہ شارع حقیقتًا اللہ تعالیٰ ہی ہے بلکہ اس اعتبار سے ہے کہ عام تہجد سے زیادہ خصوصیت کے ساتھ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے قیام رمضان (تراویح) کی طرف لوگوں کو توجہ اور شوق دلایا ہے اس کے فضائل اور برکات بیان کیے ہیں تعداد رکعات اور کیفیتِ ادا وغیرہ کی تفصیلات بتائی ہیں ۔ حدیث میں ہے :
عن ابی ہریرة قال کان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یرغب فی قیام رمضان من غیر ان یامرہم فیہ بعزیمة فیقول من قام رمضان ایمانا واحتسابا فغر لہ ما تقدم من ذنبہ الحدیث (مسلم شریف جلد اول ص٢٥٩ )
اس مضمون کی بہت سی حدیثیں موجود ہیں ۔
لہٰذا اس دلیل سے تہجد او رتراویح کا دو جدا جدا نمازیں ہونا ثابت نہیں ہوتا ۔
علامہ مئوی کی اس دلیل کا مقتضا تو یہ ہے کہ قیام لیلة القدر کو بھی قیام رمضان سے الگ کوئی نماز قرار دیا جائے کیونکہ اس کی مشروعیت اور مسنونیت کا ذکرخصوصی طور پر قیام رمضان سے الگ کیا گیاہے ۔ حالانکہ یہ ہداہةً باطل ہے پس جس طرح قیام لیلة القدر کا ذکر عام قیام رمضان سے الگ ہونے کی وجہ سے وہ کوئی جدا نماز نہیں ہے اسی طرح قیام رمضان تراویح کا ذکر تہجد سے الگ ہونے کی وجہ سے کوئی جدا نماز نہیں ہے ۔

یہ جواب تو اس تقدیر پر ہے کہ : سننت لکم قیامہ والی روایت کو صحیح تسلیم کیا جائے ورنہ حق تو یہ ہے کہ یہ روایت ہی صحیح نہیں ہے اس کا ایک راوی نضر بن شیبان بالکل ضعیف ہے تہذیب التہذیب میں ہے :
نضر بن شیبان الحدانی روی عن ابی سلمة بن عبدالرحمن بن عوف عن ابیہ فی فضل رمضان قال ابن ابی خیثمة عن ابن معین لیس حدیثہ بشٔ وقال البخاری فی حدیثہ ہٰذا لم یصح وقال النسائی لہا اخرج حدیثہ ہٰذا خطاء ..... وقد حزم جماعة من الائمة بان ابا سلمة لم یصح سماعہ من ابیہ تنضعیف النصر علی ہٰذا متعین (ص٤٣٨ ج ١٠)
میزان الاعتدال میں ہے :
قال ابن خراش لا یعرف الا بحدیث ابی سلمة یعنی فی شہر رمضان وقال یح بن معین لیس حدیثہ بشٔ وعلل البخاری والدارقطنی حدیثہ بانہ رواہ یح بن سعید والزہری ویح بن ابی کثیر عن ابی سلمة عن ابی ہریرة لکنہ لم یذکر وسننت لکم قیامہ (ص٢٣٤ ج ٣)
لیجئے ! اب تو جڑ ہی کٹ گئی نخل آرزو کی ۔

قولہ : دوسری وجہ یہ ہے کہ تہجد کی رکعات بالاتفاق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول و ماثور ہیں اور وہ زیادہ سے زیادہ مع الوتر تیرہ او رکم سے کم سات مع الوتر ہیں ..... .. برخلاف تراویح کے کہ اس کا کوئی معین عددعلامہ ابن تیمیہ وغیرہ کی تصریح کے بموجب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول نہیں ہے ۔ (ص...)
ج : پچھلے صفحات میں ہم نے آپ کے اس فریب کا پردہ چاک کر دیا ہے اور علامہ ابن تیمیہ وغیرہ کی عبارتوں سے ثابت کر دیا ہے کہ ان کے نزدیک تہجد او رتراویح دونوں کا عدد معین رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول و ماثور ہے اور وہ زیادہ سے زیادہ مع الوتر تیرہ ہے ۔ علامہ ابن تیمیہ نے تو اس کی بھی تصریح کی ہے کہ بعد میں رکعات کا جو اضافہ ہوا ہے یہ تطویل قراء ت کا عوض ہے ۔ کما مر ۔
لہٰذا آپ کا یہ حیلہ بھی ختم ہو گیا ۔

ع : ٹوٹی ہوئی جو شاخ ہو وہ پھل نہیں سکتی​

قولہ : اسی طرح تہجد کی رکعتیں بالاتفاق ائمہ کے نزدیک وتر کے ساتھ سات سے تیرہ تک ہیں اور تراویح کی رکعات میں ان کا اختلاف ہے بیس سے ٤٧ تک اس کا عدد پہونچ جاتا ہے ۔ (ص٢٣)
ج: تہجد کا یہ عدد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فعل سے ثابت ہے ا س کے باوجود اس سے زیادہ نفل کے طور پرپڑھنے کو کسی نے ممنوع قرار نہیں دیا ہے اسی طرح تراویح کے متعلق بھی سوائے ضدی حنفیوں کے خود اکابر علماء حنفیہ یہ تسلیم کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فعل سے مع وتر گیارہ یا تیرہ رکعات ہی ثابت ہیں ۔ اس سے زیادہ جن لوگوں نے پڑھا ہے وہ نفلی طور پر پڑھا ہے ۔ یہ کہیں ثابت نہیں ہے کہ یبس سے لے کر ٤٧ تک کے تمام اعداد کو یہ لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی فعل سنت سمجھ کر پڑھتے تھے ۔ ہمت ہو تو اس کا ثبوت دیجئے ۔

قولہ : تیسری وجہ یہ ہے کہ امام بخاری کا عمل بتاتا ہے کہ وہ دونوں کو علیحدہ علیحدہ سمجھتے تھے ۔ ان کا معمول تھا کہ رات کے ابتدائی حصہ میں اپنے شاگردوں کو لے کر باجماعت نماز پڑھتے تھے ......... اور سحر کے وقت اکیلے پڑھتے تھے۔ (ص ١١)
ج : صرف اتنی سی بات سے کہ امام بخاری رمضان شریف کی راتوں میں ابتدائی اور آخری دونوں حصوں میں نفلیں پڑھا کرتے تھے ، یہ سمجھ لینا کہ ان کے نزدیک تہجد اور تراویح دو نمازیں الگ الگ ہیں محض خوش فہمی ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ امام بخاری کے نزدیک یہ دونوں نمازیں ایک ہی ہیں ۔ جیسا کہ ان کی شہرہ آفاق کتاب الجامع الصحیح سے معلوم ہوتا ہے ، مگر قیامِ رمضان کے فضائل اور برکات کی تحصیل کے شوق میں وہ رات کے ابتدائی اور انتہائی دونوں حصوں میں رکعات کو تقسیم کر کے یہ نماز ادا کرتے تھے ۔ کچھ رکعتیں شروع رات میں با جماعت تخفیف ِ قراة کے ساتھ پڑھتے تھے اور کچھ رکعتیں آخر شب میں تنہا تطویل قرات کے ساتھ ادا فرماتے تھے ۔
تروایح بھی قیام اللیل ہی ہے اس لئے کچھ عجب نہیں ہے کہ امام بخاری نے تراویح کی رکعات کو رات کے مختلف حصوں میں تقسیم کر کے پڑھنے کے لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس سنت کو اپنے لئے اسوہ بنایا ہو ۔
عن ام سلمة قالت کان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یصلی ثم ینام قدر ما صلی ثم یصلی قدر ما ینام ثم ینام ثم ینام قدر ما صلی الحدیث (فتح الملہم جلد ثانی ص٢٩٤)
یعنی حضرت ام سلمة رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کچھ دیر تک نماز تہجد پڑھ کر سو جاتے تھے اور اتنی دیر تک سوتے تھے جتنی دیر تک نماز پڑھی تھی اس کے بعد پھر جاگ جاتے تھے اور نماز میں مشغول ہو جاتے تھے او راتنی دیر تک مشغول رہتے تھے جتنی دیر تک سوئے تھے ۔ اس کے بعد پھر اتنی ہی دیر تک سوتے تھے جتنی دیر تک نماز پڑھتے تھے ۔ گویا کچھ رکعتیں اول رات میں پڑھتے تھے اور کچھ آخر رات میں ۔
قولہ : اسی طرح فقہ حنفی نہیں بلکہ غیر حنفی فقہ کی جزئیات سے بھی دونوں کی مغائرت ثابت ہوتی ہے ۔ چنانچہ حنبلی مذہب کی فقہی کتاب مقنع میں ہے فان کان لہ تہجد جعل الوتر بعدہ (ص...)
ج: اول تو حنفی فقہ ہو یا غیر حنفی فقہ ، کسی فقیہ کی رائے ہم پر حجت نہیں ہے تا وقتیکہ اس کا ثبوت کتاب و سنت سے نہ دیا جائے :
فان تنازعتم فی شٔ فردہ الی اﷲ والرسول
یہی ہمارا اصل الاصول ہے ۔

نہ شبنم نہ شب پر ستم کہ حدیث خواب گویم
چو غلام آفتا بم ہمہ ز آ فتا ب گو یم​

ثانیاً : اس سے پہلے ہم حضرت فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا معمول بتا چکے ہیں جس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کے نزدیک یہ دونوں نمازیں ایک ہی ہیں پھر ان کے مقابلے میں کسی فقیہ اور امام کی رائے کا کیاوزن ہو سکتا ہے ۔
ثالثاً : اس مقنع کے جزئیہ یا امام احمد کے قول میں ہر گز اس کی صراحت نہیں ہے کہ تہجد فی رمضان او رتراویح دو جدا جدا نمازیں ہیں ۔ یہ علامہ مئوی کا قصور فہم ہے اگرامام احمدکے نزدیک یہ دو نمازیں ہوتیں تو وہ تراویح کے بعد وتر پڑھنے سے منع نہ کرتے ، کیونکہ سنت نبوی سے قطعًا ا سکا ثبوت نہیں دیا جا سکتا کہ تراویح یا تہجد کی رکعتیں تو پوری پڑھ لی گئیں ہوں لیکن اس کا خاتمہ وتر پر نہ ہواہو ۔ حدیثوں میں جہاں تراویح او رتہجد کا ذکر ہے ہر جگہ ان دونوں نمازوںکا خاتمہ وتر ہی بیان کیا گیا ہے ۔
امام احمد کا مقصد یہ ہے کہ اگر کوئی شخص غیر رمضان میں تہجد پڑھنے کا عادی ہے اور اس کا یہ وظیفہ ہے تو رمضان میں اگر چہ تراویح ہی سے قیام اللیل اور تہجد فی رمضان کا حق ادا ہو گیا کیونکہ دونوں ایک ہی ہیں لیکن اگر وہ اپنی عادت کے مطابق اپنا یہ وظیفہ الگ بھی کرنا چاہتا ہے تو اب تراویح کے ساتھ وتر پڑھ کر اس کو تہجد سے الگ نہ کرے ورنہ پھر تہجد کا خاتمہ بھی وتر پر کرنا پڑے گا ۔ تو ایک ہی شب میں دو وتر پڑھنا لازم آئے گا ۔ بلکہ اپنے معتاد تہجد کو تراویح ہی کی رکعات میں شامل کر کے تراویح کی رکعات کی تعداد بڑھا دے ۔ اس کے بعد آخر میں وتر پڑھے
امام احمد کے نزدیک تراویح ایک ایسی نماز ہے کہ اس کی رکعات میں تکثیر کی کافی گنجائش ہے جیسا کہ اس اثر سے معلوم ہوتا ہے : ۔
قال اسحٰق بن منصور قلت لاحمدبن حنبل کم من رکعة فی قیام شہر رمضان فقال قیل فیہ الوان نحوا من اربعین انما ہو تطوع انتہی ۔ (قیام اللیل للمروزی ص٩٢)
الغرض نہ امام بخاری علیہ الرحمة کے معمول سے اور نہ مقنع کے جزئیہ سے اور نہ امام احمد کے فتویٰ سے ، کسی سے بھی یہ ثابت نہیں ہوتا کہ یہ دونمازیں ہیں ۔ یہ محض علامہ مئوی کی ہوس ہی ہوس ہے ۔
قولہ : تراویح او رتہجد میں مغائرت کے وجوہ اور بھی ہیں ، لیکن بنظراختصار انہی تین وجہوں پراکتفا کرتا ہوں ۔ (رکعات ص١٥)
ج: بہت سے وجوہ میں سے آپ نے یہ '' تین وجہیں '' خاص طور سے منتخب کر کے پیش کی ہیں ، لیکن ان تینوں کا حشر آپ کو معلوم ہو گیا تو باقی وجہوں کا انجام بھی انہی پر قیاس کر لیجئے ۔

ع قیاس کن زگلستانِ من بہار مرا​

قولہ : اور اب احناف کے اطمینان کے لئے عرض کرتا ہوں کہ حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی اور حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی دونوں میں مغائرت کے قائل ہیں ۔ (ص )
ج : لیکن عوام میں ہی نہیں بلکہ خواص احناف (جن میں خود مولانارشید احمد گنگوہی اور مولانا محمد قاسم نانوتوی بھی داخل ہیں ) کے اطمینان کے لئے عرض کرتاہوں کہ حضرت امام محمد بن حسن شیبانی ان دونوں میں مغائرت کے قائل نہیں ہیں ، کیوں کہ وہ حدیث عائشہ :
(ما کان یزید فی رمضان ولا فی غیرہ علی احدی عشرة رکعة)
میں تراویح کو بھی داخل سمجھتے ہیں ، جس کی تفصیل ہم پہلے بیان کر چکے۔ فلیرجع الیہ ۔
دیو بندیوں کے مزید اطمینان کے لئے عرض کرتا ہوں کہ مولانا انور شاہ کشمیری مرحوم بھی ان دونوں میں مغائرت کے قائل نہیں ہیں اورانہوں نے نہایت مدلل طور پر دونوں کا ایک ہونا ثابت کیا ہے اورمخالفین کے دلائل کا رد بھی کیا ہے ۔ جس کو فیض الباری کے حوالے سے ہم پہلے ذکر کر چکے نا مناسب نہ ہوگا اگر اس موقع پر ہم مولانا محمد منظور نعمانی کی ایک تحریر کا کچھ اقتباس پیش کریں جس سے اندازہ ہو سکے گا کہ علماء دیوبند کی نگاہوں میں مولانا انور شاہ کے علم و فضل اور فہم و فراست کا کیا درجہ ہے ۔ مولانا نعمانی لکھتے ہیں :
''استاذنا مولانا محمد انور شاہ کشمیری نَوَّر اللہ مرقدہ جن کے متعلق بس جاننے والے ہی جانتے ہیں کہ علم و تفقہ اور ورع و تقوی میں ان کا مقام ہمارے اس دور کے خواص میں بھی کتنا بلند تھا ۔ حضرت مولانا شبیر احمد صاحب نے اپنی شرح مسلم میں ایک جگہ ان کے بارے میں جو یہ تحریر فرمایا ہے کہ : لم تر العیون ولم یر ھو نفسہ مشلہ یعنی اس زمانے کے لوگوں کی آنکھوں نے ان کی کوئی اور نظیراور مثال نہیں دیکھی اورانہوں نے خود بھی اپنے جیسا نہیں دیکھا ) علی ہذا حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی نے ان کے متعلق جو یہ فرمایا ہے کہ :
''اس امت میں ان کا وجود اسلام کی صداقت کی دلیل اور ایک مستقل معجزہ ہے '' تو جو لوگ حضرت شاہ صاحب سے اچھی طرح واقف نہیں ، ممکن ہے وہ ان بزرگوں کے ان ارشادات میں کوئی مبالغہ سمجھیں ، لیکن جو واقف ہیں ان کے نزدیک تو یہ بالکل حقیقت ہے جونپے تلے لفظوں میں ادا کی گئی ہے '' ۔ (الفرقان لکھنؤ جلد ٢٠ باب صفر ١٢٧١ ھ ) ۔
ان سے بڑھ کر یہ کہ خود مولانا رشید احمد صاحب گنگوہی مرحوم کے نزدیک بھی تحقیقی بات یہی ہے کہ تہجد رمضان اور تراویح فی الواقع دونوں ایک ہی ہیں ۔ چنانچہ فرماتے ہیں :
ر اہل علم پوشیدہ نیست کہ قیامِ رمضان و قیام لیل فی الواقع یک نماز است کہ درمضان برائے تیسیر مسلمین در اول شب مقرر کردہ شدہ و ہنوز عزیمة در ادایش آخر شب است ...........................
......................................................
...........................
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,859
ری ایکشن اسکور
41,096
پوائنٹ
1,155
اہل علم پر یہ بات پوشید نہیں ہے کہ قیام رمضان (تراویح) اور قیام اللیل( تہجد) فی الواقع دونوں ایک ہی نماز ہیں جو رمضان میں مسلمانوں کی آسانی کے لئے اول شب میں مقرر کر دی گئی ہے مگر اب بھی عزیمت اسی میں ہے کہ آخر شب میں ادا کی جائے .........
نزد ہموں قائل فرضیت تہجد بر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تراویح نفس تہجد است علی التحقیق ...............
جو لوگ تہجد کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حق میں فرضیت کے قائل ہیں ان کے نزدیک محقق بات یہ ہے کہ تراویح عین تہجد ہے ۔
وبر رائے کسے کہ تہجد را برآں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم منسوخ گوید چنانچہ قول حضرت عائشہ ہست رواہ مسلم فی سننہ پس مواظبت تہجد دلیل سنت مؤکدہ خواہد بود و دلائل قولیہ ناظر سحباب مگر تہجد رمضان کہ تراویح است بدلیل قولی
اور جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ تہجد کی فرضیت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حق میں بھی منسوخ ہو گئی چنانچہ حضرت عائشہ اسی کی قائل ہیں ۔ان کے مسلک کے مطابق تہجد پر آنحضرت کی مواظبت اس کے سنت مؤکدہ
سنت مؤکدہ خواہد ماند ۔ واللہ اعلم

ہونے کی دلیل ہو گی اور قولی حدیثیں استحباب پر دلالت کریں گی مگر رمضان کا تہجد جو عین تراویح ہے دلیل قولی کی بنا پر سنت مؤکدہ ہی رہے گا۔
غور کیجئے ! مولانا گنگوہی نے ہر مسلک کی رو سے اسی بات کو ترجیح دی ہے کہ تراویح اور تہجدِ رمضان ایک ہی ہیں ۔ ''فی الواقع'' اور ''علی التحقیق'' کے الفاظ بالخصوص قابل توجہ ہیں ۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ''الرای النجیح'' میں جو کچھ انہوں نے لکھا ہے وہ غیر تحقیقی بات ہے ۔
اب احناف انصاف و دیانت کی رو سے فیصلہ کریںکہ ان کے اطمینان کا باعث وہ حوالے ہیں جو مولانا مئوی نے پیش کئے ہیں یا وہ حوالہ ہیں جو ہم نے پیش کئے ہیں ۔
قولہ : حضرت گنگوہی نے بہت شرح و بسط کے ساتھ کئی اوراق میں نہایت مدلل طور پر دونوں کا جدا گانہ نماز ہونا ثابت کیا ہے (ص )
ج : لیکن خود مولانا گنگوہی کے بیان کے مطابق وہ سب باتیں غیر تحقیقی ہیں اگر آپ ان کو ذکر کرتے تو ہم ان کی بھی قلعی کھول دیتے ۔
قولہ : از انجملہ حضرت طلق بن علی کے عمل سے دونوں کا دو ہونا ثابت کیا ہے اور سنن ابو داؤد سے ان کا ایک واقعہ نقل کیا ہے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ اول شب میں تراویح اور آخر میں تہجد پڑھتے تھے
ج : حضرت طلق بن علی رضی اللہ عنہ کا یہ واقعہ سنن ابی داؤد میں ان الفاظکے ساتھ مروی ہے ۔
عن قیس بن طلق قال زار ناطلق بن علی فی یوم من رمضان رامسی عندنا وافطر ثم قام بناتلک اللیلة واوتر بنا ثم انحدر الی مسجدہ فصلی باصحابہ حتی اذا بقی الوتر قدم رجلا فقال اوتر باصحابک فانی سمعت رسول الہ صلی اللہ علیہ وسلم یقول لا وتران فی لیلة انتھی (ابو داؤد باب نقض الوتر )
قیس بن طلق نے کہا کہ (ہمارے باپ) طلق ایک دن رمضان میں ہماری ملاقات کوآئے ۔ شام تک ہمارے گھر رہ گئے یہیں روزہ افطار کیا پھر ہم کو اس رات میں نماز پڑھائی اور وتر بھی ہمارے ساتھ ہی پڑھا ۔ پھر اپنی مسجد کی طرف چلے گئے اور وہاں اپنے ساتھیوں کو نماز پڑھائی جب وتر باقی رہ گئے تو ایک شخص کو آگئے بڑھا دیا اور کہا کہ تم ان لوگوں کو
وتر پڑھا دو کیونکہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ ایک رات میں دو وتر نہیں ہے
مولانا گنگوہی اس حدیث کے ذیل میں لکھتے ہیں :
''اس حدیث سے ظاہر ہوا کہ طلق بن علی نے اول وقت میں تراویح ادا کی اور بعد اس کے اپنی مسجد میں جا کر آخیر وقت میں تہجد ادا کیا '' ۔ (الرای النجیح ص ١٠)
اس استدلال کی ساری عمارت ان دو مفروضہ باتوں پر کھڑی ہے ۔ ایک یہ کہ حضرت طلق بن علی نے دوسری مرتبہ جو نماز پڑھی تھی وہ ''آخر شب'' میں تھی ۔ اس لئے ان کی بنیاد پر جو عمارت کھڑی کی جائے گی اس کا حشر بھی معلوم ہے
اولاً : میر ی گذارش یہ ہے کہ حضرت طلق بن علی کا یہ واقعہ سنن ابی داؤد اور سنن نسائی دونوں میں تفصیل کے ساتھ مروی ہے ، لیکن کسی روایت میں بھی ''آخر شب'' یا ''آخیر وقت'' کا ذکر نہیں ہے ۔ حیرت ہے کہ پیر اور مرید (گنگوہی اور مئوی) دونوں کی اس غفلت اور جرات پر کہ کس طرح اپنی خیالی بات کو ''حدیث'' بنا دیا اور پھر اس پر ایک مسئلہ شرعیہ کی بنیاد رکھ دی ۔
ع ناطقہ سر بگریباں ہے کہ اسے کیا کہئے ؟​

حدیث کے پورے الفاظ آپ کے سامنے ہیں ، پڑھیئے ، بار بار پڑھئیے اور بتائیے کہ کہیں سے بھی ''آخر شب'' کا مفہوم پیدا ہوتا ہے ۔ ''ثم انحد والی المسجد ہ'' میں ''ثم'' کا ترجمہ آخر کس قاعدہ اور لغت کی رو سے ''آخر شب'' کیا جائے گا ؟ ۔
حدیث کے ظاہر سیاق سے تو یہی معلوم ہوتا ہے کہ یہ پورا واقعہ اول ہی شب کا ہے ۔ اسی لئے علامہ سندھی نے حاشیہ نسائی میں ا س کو فرض اور نفل دونوںپر محمول کیاہے اور اس سے اقتداء المفترض خلف المتنفل کا مسئلہ متنبط کیا ہے چنانچہ وہ لکھتے ہیں :
الظاہرانہ صلی بھم الفرض والنفل جمیعا فیکون اقتداء القوم بہ فی الفرض اقتداء المفترض بالمتنفل (حاشیہ نسائی ص ١٧٢)
علامہ سندھی کا منشا یہ ہے کہ حضرت طلق بن علی رضی اللہ عنہ کو جس عقیدت کی بنا پر امام بنایا گیا تھا اس کا تقاضا یہی ہے کہ فرض اور نفل دونوں نمازیں انہیں نے پڑھائی ہوں اور اگر فرض اور نفل دونوں دو اماموں کی اقتداء میں ادا کی گئی ہوتیں تو راوی اس کی ضرور وضاحت کرتا ۔ جیسا کہ وتر کے بارے میں اس نے اس کی وضاحت کی ہے ، لیکن خیر اگر اس واقعہ کو صرف نفل ہی پر محمول کیا جائے تب بھی اس حدیث سے بس اتنا ہی ثابت ہوتا ہے کہ حضرت طلق بن علی نے پہلے اپنے بیٹے کے گھر والوں کو تراویح مع الوتر پڑھایا ۔ اس کے بعد یہاں سے فارغ ہو کر وہ اپنی مسجد گئے اور وہاں بھی لوگوں کو امامت کرائی ۔ جب وتر کا موقع آیا تو خود نہیں پڑھا بلکہ دوسرے شخص کو آگے بڑھا دیا ۔
جب ''آخر شب'' کا افسانہ ہی من گھڑت ہے تو اب تراویح اور تہجد کے فرق کی بنیاد ہی ختم ہو گئی ۔
ثانیاً : بالفرض اگر یہ مان لیا جائے کہ حضرت طلق بن علی نے دوبارہ جو نماز پڑھائی تھی وہ ''آخر شب'' میں تھی ، تب بھی یہ سمجھنا غلط ہے کہ آخر شب میں جو نفل پڑھی جائے گی وہ تراویح نہیں ہو سکتی ۔ تہجد ہی ہو گی ۔
مولانا عبدالحق محدث دہلوی حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے قول : والتی تنامون عنھا افضل من التی تقومون کے ذیل میں لکھتے ہیں :
''اشارتست بافضلیت قیام تراویح در آخر شب جہت فضل وقت و زیادة مشقت ۔ (اشعة اللمعات ص ٥٨٥) قال الطیبی تنبیہ منہ علی ان صلوٰة التراویح فی اخر اللیل افضل (مرقاة ج ٢ ١٧٣) ۔
علامہ ابن الہمام لکھتے ہیں :
واختلف فی ادائھا (ای فی اداء التراویح) بعد النصف فقیل یکرہ لانھا تبع للعشاء کسنتھا والصحیح لا یکرہ لانھا بعد صلوة اللیل والافضل فیھا اخرہ انتھی (فتح القدیر ج ١ ص ٢٠٦)
در مختار میں ہے :
ووقتھا صلوٰة العشاء الاخرة الی الفجر قبل الوتر وبعدہ فی الاصح
اسی طرح ہدایہ میں ہے :
الاصح ان وقتھا بعد العشاء الی آخر اللیل قبل الوتر وبعدہ
ان عبارتوں سے صاف ظاہر ہے کہ تراویح آخر شب میں ، بلکہ وتر ادا کرنے کے بعد بھی پڑھی جا سکتی ہے ۔ لہذا یہ کہنا باطل ہو گیا کہ آخر شب میں جو نفل نماز پڑھی جائے گی وہ تراویح نہیں ہو سکتی ۔
پس حضرت طلق بن علی کی یہ نماز تراویح بھی تھی اور تہجد بھی ۔ نفل کی کی حیثیت سے اس کی رکعات کی تکثیر کوئی قابل اعتراض نہیں ، بلکہ فی الجملہ امر مرغوب فیہ ہے ۔
لیجئے اس دلیل سے بھی تہجد رمضان اور تراویح کا دو جداگانہ نماز ہونا ثابت نہ ہو سکا ۔ اگرچہ پیر اور مرید دونوں نے مل کر اس کی کوشش کی ۔ صحیح ہے :
(ما کل یتمنی المرء یدرکہ)

''علامہ '' مئوی سے پہلا سوال
قیس بن طلق کی مذکورہ بالا روایت پر ایک بار پھر نگاہ ڈالئے ... فی یوم من رمضان اور ...... تلک اللیلة ...... کے الفاظ صاف بتا رہے ہیں کہ یہ واقعہ کسی ایک شب کا ہے ۔ مگر علامہ مئوی فرماتے ہیں :
''سنن ابی داؤد سے ان کا (طلق بن علی کا) ایک واقعہ نقل کیا ہے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ اول شب میں تراویح اور آخر میں تہجد پڑھتے تھے ''
میں پوچھنا یہ چاہتا ہوں کہ ''پڑھتے تھے'' بصیغہ ماضی استمراری اس واقعہ سے کہاں ثابت ہوتا ہے ۔ استمرار نہ سہی ، تکرار اور کثرت ہی ثابت کیجئے ، مگر اسی واقعہ سے جیسا کہ آپ کا دعویٰ ہے ۔
حمایت مذہب کے جوش میں احادیث کے ساتھ اس قسم کی بے عنوانی یقینا ایک ''محدث'' کی شان کے منافی ہے ۔

''علامہ'' مئوی سے دوسرا سوال
مولانا گنگوہی اور ''علامہ'' مئوی دونوں نے حضرت طلق بن علی کے اس واقعہ کو اپنے زعم میں تہجد اور تراویح کی مغائرت ثابت کرنے کے لئے تو پیش کر دیا ہے ، لیکن کیا انہوں نے یہ بھی سوچا کہ اس واقعہ میں ایک بات یہ بھی بیان کی گئی ہے کہ حضرت طلق بن علی نے تہجد کی یہ نماز بالجماعتہ ادا کی تھی اور گنگوہی اور مئوی دونوں حضرات کے قول کے مطابق تہجد ''غیر تراویح'' ہے تو فقہ حنفی کی رو سے حضرت طلق بن علی اور ان کے تمام مقتدیوں کی یہ نماز مکروہ ہوئی جیسا کہ قاضی خاں وغیرہ میں ہے :
التنفل بالجماعة غیر التراویح مکروہ عندنا (فتاوی قاضی خاں ١/٣٢٢)
اب سوال ہے کہ کیا ''علامہ'' مئوی اس بات کا صاف صاف اعلان کریں گے کہ ان کے نزدیک صحابہ اور تابعین کی یہ نماز مکروہ تھی اور اسی مکروہ نماز کو انہوں نے اپنے مدعا کی دلیل بنایا ہے ؟ یا یہ تسلیم کریں گے کہ حنفی مذہب کا یہ مسئلہ ہی غلط ہے ؟ ۔
من نہ گویم کہ ایں مکن آن کن​
مصلحت بین و کار آساں کن​
علامہ مؤی سے تیسرا سوال
مولانا گنگوہی لکھتے ہیں :
جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فعل سے صراحةً یہ ثابت نہیں ہوا کہ جب آپ نے اول رات میں تین روزترا ویح پڑھی تو اخیر وقت میں تہجد پڑھا یا نہیں ۔ واللہ اعلم ، مگر فعل بعض صحابہ سے اس کا نشان ملتا ہے ۔ چنانچہ ابو داؤد نے قیس بن طلق سے روایت کی ہے :
'' اس حدیث سے ظاہر ہوا کہ طلق بن علی نے اول وقت میں تراویح ادا کی اور بعد اس کے اپنی مسجد میں جا کر آخیر وقت میں تہجد ادا کیا ۔ اس سے معلوم ہوا کہ دونوں وقت میں نماز پڑھی گئی ۔ اور صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم اتباعِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں نہایت سر گرم تھے ۔ سو معلوم ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوسرے وقت میں تہجد پڑھا ہو گا ۔'' (ملحصاً از الرای النجیح ص ١٠)
مولانا گنگوہی تو رحلت فرما چکے ہیں ۔ میں نے ان کا زمانہ بھی نہیں پایا ۔ اس لئے اب ان کے معتقد خاص ''علامہ '' مؤی سے دریافت کرتا ہوں کہ جب صحابہ اتباعِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں نہایت سرگرم تھے اور اسی بناء پر حضرت طلق بن علی کے اس فعل سے یہ استنباط کیا گیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اول شب میں تراویح اور آخر شب میں تہجد پڑھا ہو گا ۔
تو کیا اسی کے ساتھ اس واقعہ سے یہ بات بھی ثابت نہیں ہوتی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تراویح کے علاوہ تہجد بھی باجماعت پڑھا ہو گا ؟ بلکہ بقول آپ کے کے پڑھتے تھے یا پڑھتے رہے ہوں گے ؟
تو پھر مولانا گنگوہی نے دوسری جگہ یہ کیسے لکھ دیا ہے کہ '' رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تہجد کو ہمیشہ منفرد پڑھتے تھے '' ۔ (الرای النجیح ص٤)
نیز جب فعل صحابہ سے اس کا نشان ملتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تہجد باجماعت پڑھتے تھے یا کم از کم پڑھا ہو گا تو کیا ایک ایسا عمل جو سنت ہو ، یا کم سے کم یہ کہ مظنون السنتہ ہو اس کو مکروہ کہنا صحیح ہے ؟
نیز مولانا گنگوہی مرحوم کے بیان سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین روز جو تراویح پڑھی تھی تو ان تینوں راتوں میں آپ نے یہ نماز اول رات میں اس طرح ادا فرمائی تھی کہ آخیر رات میں اتنی گنجائش باقی رہ جاتی تھی کہ آپ اس میں تہجد پڑھ سکتے تھے ۔ حالانکہ اس واقعہ کے ایک عینی شاہد حضرت ابو ذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ تیسری رات کی بابت تصریح فرماتے ہیں :
فقام بنا حتی تخوفنا الفلاح (ترمذی مع تحفة الاحوذی ص٧٣ ، ج ٢)
یعنی اتنی دیر تک پڑھا کہ ہم ڈر گئے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ سحری کھانے کا وقت ہی نکل جائے ۔ تو اس شب کے متعلق مولانا گنگوہی کا یہ احتمال کیسے صحیح ہو سکتا ہے کہ '' رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوسرے وقت میں تہجد پڑھا ہو گا '' ۔ مولانا گنگوہی نے تیسری بات کو اس احتمال سے مستثنٰی نہیں فرمایا ہے ، بلکہ وہ تینوں راتوں کی بابت فرماتے ہیں کہ '' جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فعل سے صراحةً یہ ثابت نہیں ہواکہ جب آپ نے اول رات میں تین روز تراویح پڑھی تھی تو آخیر وقت میں تہجد پڑھا تھا یا نہیں ۔ واللہ اعلم ۔ مگر ......... الخ ''۔
اہل حدیث کی انہی گرفتوں سے جان بچا کر نکل بھاگنے کے لئے '' علامہ '' مئوی نے حضرت طلق بن علی کے اس واقعہ کی تفصیلات ذکر نہیں کی ہیں ، لیکن افسوس ان کی یہ تدبیر کارگر نہیں ہوئی ۔ آخر ہم نے ان کو اپنی گرفت میں لے ہی لیا ۔ دیکھیں اب کس طرح وہ اپنی گلو خلاصی کرتے ہیں ۔
اہل حدیث کی پہلی دلیل کے متعلق '' علامہ '' مئوی کے پیش کردہ تمام مباحث ختم ہو گئے ۔ اب دوسری دلیل کے متعلق ان کی بحثوں کے جوابات سنئے !
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,859
ری ایکشن اسکور
41,096
پوائنٹ
1,155
اہل حدیث کی دوسری دلیل پر بحث اوراس کے جوابات
اہل حدیث کی طرف سے آٹھ رکعات تراویح کے ثبوت میں دوسری حدیث حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی پیش کی جاتی ہے جس کو پچھے صفحات میں ہم بھی نقل کر چکے ہیں ۔ مؤلف ِ '' رکعات تراویح'' علامہ حبیب الرحمن مئوی اس پر اس پر بحث و تنقید کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
قولہ : ا س کے متعلق سب سے پہلے یہ جان لیجئے کہ یہ واقعہ فقط ایک رات کا ہے ....... اس کی نسبت یقین سے نہیں کہا جا سکتا کہ یہ وہی واقعہ ہے جس کو حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے بیان کیا ہے ۔ اس لئے کہ جابر کے بیان میں صرف ایک رات نماز پڑھنا اور دوسری رات میں نہ آنامذکور ہے او رحضرت عائشہ کی روایت میں تین راتوں میں پڑھنا او رچوتھی رات میں حجرہ سے برآمد نہ ہونا مذکور ہے ۔ اسی لئے حافظ ابن حجر نے ان دونوں واقعوں کے ایک ہونے میں تردّد کا اظہار کیا ہے ۔ (ملخصاً ص٢٥)
ج: لیکن آپ کے علامہ عینی نے تو ان دونوں واقعوں کے ایک ہونے میں کسی تردد کا اظہار نہیں کیا ہے بلکہ صاف صاف ان دونوں واقعوں کو وہ ایک ہی سمجھ رہے ہیں ۔ چنانچہ لکھتے ہیں :
فان قلت لم یبین فی الروایات المذکورة عدد الصلوٰة التی صلاہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فی تلک اللیالی قلت روی ابن خزیمة وابن حبان من حدیث جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ قال صلی بنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فی رمضان ثمان رکعات ثم اوتر انتہیٰ ۔ (عمدة القاری ص٥٩٧ ج٢)
یہ عبارت مع ترجمہ پہلے بھی گزر چکی ہے ۔ اس سے صاف ظاہر ہے کہ علامہ عینی کے نزدیک یہ دونوں واقعے ایک ہی ہیں ۔ اسی لئے انہوں نے حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت کو دوسری روایات کا مبیّن قرار دیا ہے ۔
مولانا عبد الحٔ لکھنوی نے تو بصراحت ان دونوں واقعوں کو ایک ہی کہا ہے اور ایک جگہ نہیں بلکہ متعدد مقامات میں لکھا ہے ۔ چنانچہ لکھتے ہیں :
'' آپ نے (یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ) تراویح دو طرح ادا کی ہے ۔ ایک بیس رکعات بے جماعت ....... لیکن اس روایت کی سند ضعیف ہے ............. دوسری آٹھ رکعتیں اور تین رکعتیں وتر باجماعت ۔ اور یہ طریقہ حضور سرور عالم صلی اللہ علیہ وسلم سے تین راتوں کے علاوہ کسی رات میں منقول نہیں ہے '' ۔ (مجموعہ فتاویٰ جلد اوّل ص٣٥٤)
عمدة الرعایہ میں لکھتے ہیں :
واما العدد فروی ابن حبان وغیرہ انہ صلی بہم فی تلک اللیالی ثمان رکعات وثلاث رکعات وترا انتہی ۔
تحفتہ الاخیار ص ٢٨ مطبع مصطفائی لکھنؤ میں لکھتے ہیں کہ :
قولہ : اس راوی کا ذکر حافظ ذہبی نے میزان الاعتدال میں اور حافظ ابن حجر نے تہذیب التہذیب وغیرہ میں کیا ہے اور لکھا ہے کہ امام فن جرح و تعدیل یح بن معین نے اس کی نسبت لکھا ہے '' لیس بذاک '' وہ قوی نہیں ہے اور یہ بھی فرمایا کہ اس کی پاس متعدد منکر روایتیں ہیں اور امام نسائی اور امام ابو داؤد نے کہا ہے کہ وہ منکر الحدیث ہے ۔ امام نسائی نے اس کو متروک بھی کہا ہے ۔ اور ساجی اور عقیلی نے اس کو ضعفاء میں ذکر کیا ہے اور ابن عدی نے کہا ہے کہ اس کی حدیثیں محفوظ نہیں ہیں ۔ (یعنی شاذو منکر ہیں ) ( رکعات ص ٢٧ ، ٢٨)

یہ چھ حضرات ہیں جنہوں نے عیسیٰ پر جرح کی ہے اور ان کے مقابل میں صرف ایک نور رعہ ہیں جنہوں نے عیسیٰ کو لا باس بہ (اس میں کوئی مضائقہ نہیں ) کہا ہے اور دوسرے ابن حبان ہیں جنہوں نے اس کو ثقات میں ذکر کیا ہے اور اصول حدیث کا قاعدہ ہے کہ جرح مفسر تعدیل پر مقدم ہوتی ہے ۔ لہٰذا عیسیٰ اصولاً مجروح قرارپائے گا ۔ بالخصوص جب کہ عیسیٰ پر جو جرحیں کی گئی ہیں وہ بہت سخت ہیں ۔ چنانچہ امام نسائی و ابو داؤد نے اس کو منکر الحدیث لکھا ہے او رمولانا عبدالرحمن مبارک پوری نے ابکار منن میں سخا وی کے حوالہ سے بغیر ردوکد کے یہ لکھا ہے :
انکر الحدیث وصف فی الرجل یستحق بہ الترک لحدیثہ (صفحہ ١٩١)

اس تصریح کے بموجب ازروئے اصل عیسیٰ کی یہ روایت قابل قبول نہیں ہو سکتی ۔ بالخصوص جب کہ حضرت جابر سے اس بات کو نقل کرنے میں وہ متفرد ہے دوسرا کوئی اس کا موید و متابع موجود نہیں ہے نہ کسی دوسرے صحابہ کی حدیث اس کی شاہد ہے ۔ انتہیٰ بلفظہ ۔
اب اس کا جواب عرض کرتا ہوں :
میزان الاعتدال او رتہذیب التہذیب کے حوالے سے علامہ مئوی نے یہاں جن ناقدین رجال کی جرحیں نقل کی ہیں وہ یہ ہیں : یحی بن معین ۔ امام نسائی ۔ امام ابو داؤد ۔ ساجی ۔ عقیل ابن عدی ۔ یہ کل چھ حضرات ہیں ۔ یہی تعداد ''رکعات تراویح '' میں چھپی بھی ہے ، مگر اس کتاب کے آخر میں جو صحت نامہ لگایا گیا ہے اس میں اس تعدادکو غلط اور اس کی بجائے '' سات '' کو صحیح بتایا ہے۔ معلوم نہیں کہ یہ کس حساب سے ۔
ہاں اگر حافظ ابن حجر کو بھی ان ناقدین میں شامل کر لیا جائے تو سات کی تعداد پوری ہو جائے گی ۔ کیوں کہ انہوں نے تقریب التہذیب میں عیسیٰ کی بابت لکھا : فیہ لین ۔ لیکن اگر ایسا تھا تو انکی اس جرح کو بھی یہاں نقل کرنا چاہئیے تھا ورنہ اس کے بغیر تو کہا جا سکتا ہے کہ انت لا تحسن الحساب ۔
بہر حال جارحین کی تعداد چھ ہو یا سات کسی صورت میں بھی ان جرحوں کی بنا پر اصول حدیث کے قواعد کی رو سے نہ عیسیٰ بن جاریہ مجروح قرار پائیں گے اور نہ ان کی یہ روایت ناقابل قبول ہو سکتی ہے ۔ علامہ مئوی یا تو اصول حدیث کے قواعد سے بے خبر ہیں یا جان بوجھ کر انہوں نے افسوس ناک تجاہل سے کام لیا ہے

عیسیٰ پر کی گئی جرحوں کا مفصل جواب اور ان کی توثیق کا مدلل بیان :۔
اس لئے کہ اوّلاً تو عیسیٰ پر جتنی جرحیں کی گئی ہیں یہ سب کی سب مبہم اور غیر مفسر ہیں ۔ کیوں کہ کسی میں بھی سبب جرح کا بیان نہیں ہے ۔ مولانا عبدالحٔ لکھنوی لکھتے ہیں :
اعلم ان التعدیل وکذا الجرح قد یکون مفسر او قد یکون مبہما فالاول ما یذکر فیہ المعدل او الجارح السبب والثانی ملا لا یبین السبب فیہ ۔ الخ (الرفع والتکمیل ص ٦)
اور جرح کے مبہم کے مقبول ہونے کے لئے شرط یہ ہے کہ وہ تعدیل سے خالی ہو یعنی جس راوی پر جرح کی گئی ہے اس کی کسی ماہر فن محدث نے تعدیل و توثیق نہ کی ہو ۔ اگر کسی ایک معتبر و مستند محدث نے بھی اس کی توثیق کی ہو گی تو وہ جرح ناقابل مقبول و مردود ہو گی ۔ علامہ سیوطی لکھتے ہیں :
والحاصل انہ صئل عن صلوٰة النبی صلی اللہ علیہ وسلم فی تلک اللیالی انہا کم کانت فالجواب انہا ثمان رکعات لحدیث جابر وان سئل انہ ہل صلی فی رمضان ولو احیانا عشرین رکعة فالجواب نعم ثبت ذلک بحدیث ضعیف فافہم انتہیٰ ۔
یہ علماء حنفیہ کے اقوال ہیں جن کے متعلق ہماری ذمہ داری صرف تصحیح نقل تک ہے ۔ آگے '' علامہ '' مئوی جانیں اور ان کے پیشرو اکابر ۔
حافظ ابن حجر نے بھی ان دونوں واقعوں کے ایک ہونے کے احتمال کو صحیح سمجھا ہے ۔ اسی لئے اس تقدیر پر انہوں نے حضرت جابر اور حضرت عائشہ کے بیانات میں جو اختلاف ہے ا س کو دور کرنے کی ایک معقول توجیہہ پیش کی ہے لکھتے ہیں :
فان کانت القصة واحدة احتمل ان یکون جابر ممن جاء فی اللیلة الثالثة فلذلک اقتصر علی وصف لیلتین انتہی (فتح الباری ص١٠ ج٢ طبع مصر )
حافظ کے اس کلام کا مقصد یہ ہے کہ ان راتوں میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ صحابہ کی شرکت تدریجًا ہوئی تھی ۔ کچھ پہلی شب میں شریک ہوئے تھے ۔ اس سے زیادہ دوسری شب میں اور اس سے زیادہ تیسری شب میں ۔ یہاں تک کہ: فلما کانت اللیلة الرابعة عجز المسجد عن اہلہ (بخاری عن عائشہ ص٢٦٩ و مسلم ص ٢٥٩ج ١) تو ہو سکتا ہے کہ حضرت جابر بھی انہی لوگوں میں سے ہوں جنہوں نے تیسری اور چوتھی شب میں شرکت کی تھی ۔ اس لئے انہوں نے ان دو راتوں کا حال بیان کیا ہے ۔ اورحضرت عائشہ نے چاروں شب کا حال دیکھااس لئے انہوں نے چاروں کا حال بیان کیا ہے ۔
اس توجیہہ کی بنا پر ان دونوں روایتوں کا اختلاف بڑی آسانی سے دور ہو جاتا ہے لیکن اگر یہ دونوں واقعے الگ الگ بھی مانے جائیں اور حضرت جابر نے فقط ایک ہی شب کا حال بیان کیا ہو تب بھی اس سے نفس مسئلہ پر کوئی اثر نہیں پڑتا ۔ آٹھ رکعت تراویح کی مسنونیت تو بہر حال ثابت ہو جائے گی ، کیونکہ بقول مولانا رشید احمد گنگوہی ''تسنن کے واسطے ایک دفعہ کا فعل بھی کافی ہے '' ۔ ملاحظہ ہو الرای النجیح ص ١٦۔

قولہ : اس سلسلہ کی چند روایتوں کا ذکر کے بعد مولانا مئوی لکھتے ہیں :
لیکن اس حالت میں کہ تراویح باجماعت کے واقعہ یاواقعات کے ناقل کئی صحابیوں کے شاگرد ہیں اور ان میں کوئی بھی رکعات کا ذکر نہیں کرتا ۔از بس ضروری ہو جاتا ہے کہ حضرت جابر کے راوی کا حال معلوم کیا جائے جو تنہا رکعات کا ذکر کرتا ہے ۔ (رکعات ص ٢٧)
ج: جی ہاں ! خصوصًا ایسی حالت میں تو اس ضرورت کی شدت اور بڑھ جاتی ہے کہ حضرت جابر کے اس راوی نے رکعات کی جو تعداد بیان کی ہے وہ آپ کے اور آپ کے آباء و اجداد کے معمول کے خلاف ہے اور ایسی خلاف ہے کہ کھینچ تان کر بھی کہیں سے اس کو اپنے معمول کے مطابق بنانے کی گنجائش نہیں نکلتی ۔ اگر ایسا ہوتا تو البتہ آپ اس راوی کا حال معلوم کرنے کی ضرورت نہ سمجھتے ۔ جیسا کہ سننت لکم قیامہ ۔ والی روایت کی بابت آپ نے کیا ہے ۔
قولہ : اس لئے میں حضرت جابر کے راوی عیسیٰ بن جاریہ کے متعلق رجال کی کتابوں سے ناقدین رجال کی تصریحات پیش کرتا ہوں ۔ (رکعات ص٢٧)
ج : ضرور پیش کیجئے ، لیکن ساتھ ہی ان ناقدین رجال کے ناموں کو اچھی طرح ذہن نشین کر لیجئے گا ۔ ا س لئے کہ ان میں وہ بھی ہیں جنہوں نے آ پ کے امام اعظم ابو حنیفہ رحمة اللہ علیہ پر بھی جرح کی ہے ۔ وہ بھی ہیں جنہوں نے بیس رکعات والی مرفوع روایت کے راوی ابو شیبہ ابراہیم بن عثمان پر بھ ی بہت سخت جرحیں کی ہیں ۔اگر یہ نام آپ کے ذہن میں محفوظ رہیں گے تو وقت ضرورت بہت کام دیں گے ۔
نے کی ہے ۔ لہذااس کے حق میں جرحیں اسی وقت قبول ہوں گی جب وہ مفسر ہوں اور یہاں کوئی بھی مفسر نہیں ۔ اس لئے سب نا مقبول ہیں ۔
رہی یہ بات کہ اس کا کیا ثبوت ہے کہ عیسیٰ کے جارحین میں اکثر حضرات متشدد اور متعنت فی الجرح ہیں ....... تو ا سکے ثبوت کے لئے ہم چند عبارتیں پیش کرتے ہیں ۔ ان پر غور کیجئے ۔
مولانا عبد الحٔ لکھنوی لکھتے ہیں :
وہذا (ای تجریح الراوی بہا لا یجرح بہ ) صیغ المتشددین حیث یجرحون الراوی بادنی جرح ویبالغون فیہ ویطعنون علیہ بما لا تترک بہ روایتہ کابن تیمیہ وابن الجوزی واضرابہما والعقیلی وابن حبان علی ما ذکرہ الذہبی فی میزان فی غیر موضع ورد علی جرحہما فی کثیر من الرواة ومن ا لمتعنتین فی الجرح النسائی وابن معین وابو حاتم وغیرہم عن مسند احمد وفی الہدی الساری مقدمة فتح الباری ومن ثم لم یقبل جرح الجارحین فی الامام ابی حنیفة حیث جرحہ بعضہم بکثرة القیاس وبعضہم بقلة معرفة العربیة وبعضہم بقلةروایة الحدیث فان ہذا کلہ جرح بما لا یجرح بہ الراوی انتہی (ظفر الامانی ص٢٧٢)
یہی مولانا لکھنوی الرفع والتکمیل میں لکھتے ہیں :
فمنہم ابو حاتم والنسائی وابن معین وابن القطان ویح القطان وابن حبان وغیرہم فانہم معروفون بالاسراف فی الجرح و التعنت فیہ(ص١٨)
حافظ ذہبی علی بن عبداللہ المدینی کے ترجمہ میں لکھتے ہیں :
ذکرہ العقیلی فی کتب الضعفاء فبئس ما صنع ....... الیٰ ان قال افما لک عقل یا عقیلی اتدری فیمن تکلم . انتہی (میزان ) وقد رد علیہ العلماء رای علی العقیلی فی کثیر من المواضع علی جرحہ بقولہ لا یتابع علیہ وعلی تجاسرہ فی الکلام فی الثقات الاثبات انتہی (الرفع والتکمیل ص٢٨)
مولانا حبیب الرحمن اعظمی نے خود عقیلی کے متعلق اپنی کتاب اعلام المرفوعہ میں لکھا ہے :
'' اس کے علاوہ عقیلی سے اس باب میں (یعنی عطاء خراسانی کی تصنیف کے باب میں ) سند پکڑنا غلط ہے ۔ اس لئے کہ محدثین ان کی تضعیف کا اعتبار نہیں کرتے ۔ (الاعلام ص٦)
یہی مولانا حبیب الرحمن اپنی اسی کتاب (الاعلام المرفوعہ ص٨) میں امام نسائی کے متعلق لکھتے ہیں : '' ہاں نسائی نے ان کی (زبیر بن سعید کی ) تضعیف کی ہے ، مگر اولا ان کی جرح مبہم ہے ۔ دوسرے وہ متعنت ہیں ۔ لہٰذا ان کی تضعیف نامعتبر ہے '' ۔
امام نسائی کتاب الضعفاء والمتروکین میں لکھتے ہیں :
نعمان بن ثابت ابو حنیفة لیس بالقوی فی الحدیث انتہی
حافظ ذہبی امام ابو حنیفہ کے پوتے کے ترجمہ میں لکھتے ہیں :
اسماعیل بن حماد بن النعمان بن ثابت الکوفی عن ابیہ عن جدہ قال ابن عدی ثلثتہم ضعفاء ۔
یعنی ابن عدی نے کہا ہے کہ امام ابو حنیفہ او ر ان کے لڑکے حماد اور ان کے پوتے اسماعیل یہ تینوں ضعیف ہیں ۔ (میزان الاعتدال)
ظاہر ہے کہ نسائی کی طرح ابن عدی کی اس جرح کو بھی کم از کم امام صاحب کے متعلق تو تعنت ہی قرار دیا جائے گا ۔ اس طرح جارحین عیسی میں سے چار حضرات ( ابن معین ، نسائی ، عقیلی ، ابن عدی ) کا متعنتین میں شمار ہونا تو بالکل واضح ہے ۔ اب رہے تین حضرات یعنی ساجی ، ابو داؤد ، ابن حجر ۔ تو ساجی کے متعلق عرض ہے کہ حافظ ذہبی نے میزان الاعتدال مین ابراہیم بن عبدالملک ابو اسماعیل القناد کے ترجمہ میں لکھا ہے : وضعفہ ذکریا الساجی بلا مستند ۔ یعنی ''ذکریا ساجی نے ان کو بلا کسی دلیل و ثبوت کے ضعیف کہہ دیا ہے '' ۔
اسی طرح حافظ ابن حجر نے مقدمۂ فتح الباری میں بہت سے راویوں کی بابت لکھاہے کہ ان کو ساجی نے بلادلیل مجروح قرار دیا ہے ۔ مثلاً :
اسماعیل بن ابراہیم بن عقبة تکلم فیہ الساجی والازدی بلا مستند ۔الجعید بن عبدالرحمن ضعفہ الساجی والازدی بلا مستند ۔ حمید الاسود بن ابی الاسود تکلم فیہ الساجی بلا حجة ۔شیبان بن عبدالرحمن النحوی تکلم فیہ الساجی بلا حجة ۔ القاسم بن مالک ضفہ الساجی بلا مستند کہمس بن الحسن ضعفہ الساجی بلا حجة (دیکھو ص ١٨٠ ، ١٨١ ، ١٨٢ ۔ ج٢)
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ساجی جرح و تعدیل کے باب میں متثبت او ر متیقظ نہ تھے ، بلکہ متساہل یا متشدد تھے ۔ اور ایسے لوگوں کی جرح وتعدیل مقبول نہیں ۔ حافظ ابن حجر فرماتے ہیں :
وینبغی ان لا یقبل الجرح والتعدیل الا من عدل متیقظ (شرح نخبہ ص١١٠)
والیحذر المتکلم فی ہذا الفن من التساہل فی الجرح والتعدیل (شرخ نخبہ ص١١١)

جارحین عیسیٰ میں صرف امام ابو داؤد اور حافظ ابن حجر یہی دو حضرات ایسے ہیں جن کے متعلق کہا جا سکتا ہے کہ نہ متشدد ہیں اور نہ متساہل ۔ امام ابو داؤد نے بے شک عیسیٰ کو منکر الحدیث کہا ہے ۔ یہی جرح اما م نسائی نے بھی کی ہے ۔ امام ابو داؤد نے ان کی موافقت نہ کی ہوتی تو بقول مولانامئوی نسائی کی جرح قابل اعتبار نہ تھی ، کیونکہ وہ متعنت فی الجرح ہیں ۔ مولانا عبدالحٔ لکھنوی لکھتے ہیں :
فمثل ہذا الجارح (ای المتعنت المتشدد ) توثیقہ معتبر وجرحہ لا یعتبر الا اذا وافقہ غیرہ ممن ینصف ویعتبراٰہ (الرفع والتکمیل ص١٨)
امام ابو داؤد کی موافقت لازمی تھی اگر کسی ماہر فن نے اس کی توثیق نہ کی ہوتی ، لیکن امام ابو زرعہ رازی اور ابن حبان بُستی جیسے ماہرین فن اور ائمۂ حدیث کی توثیق و تعدیل کے بعد ا سکا مجروح او رضعیف ہونا متعین نہیں رہا ، بلکہ کم از کم یہ کہ مختلف فیہ راوی قرار پائے گا اور مختلف فیہ راوی کے متعلق محدثین کا فیصلہ یہ ہے کہ جرح جب تک مفسر نہ ہو مقبول نہیں ۔ ہاں تعدیل مبہم بھی ہو تو اس کے حق میں معتبر ہے ۔ الرفع والتکمیل ١٩ کے حوالے سے حافظ سخاوی کا جو کلام ہم نے اوپر نقل کیا ہے اس کو ایک بار پھر ملاحظہ کر لیجئے اور اسی کے ساتھ مندرجہ ذیل عبارتوں پر بھی غور کیجئے ۔
حافظ ابن حجر لسان المیزان کے دیباچہ میں لکھتے ہیں :
اذا اختلف العلماء فی جرح رجل وتعدیلہ فالصواب التفصیل فان کان الجرح والحالت ہذہ مفسراً قبل والاعمل بالتعدیل فاما من جہل ولم یعلم فیہ سوی قول امام من ائمة الحدیث انہ ضعیف او متروک او نحو ذلک فان القول قولہ ولانطالبہ بتفصیر ذلک فوجہ قولہم ان الجرح لا یقبل لا مفسرا بہو فیمن اختلف فی توثیقہ وتجریحہ انتہیٰ (الرفع والتکمیل ص ١٠ ، ١١ )
محدثین کی کتابوں سے اس قسم کے بہت سے اقوال نقل کرنے کے بعد مولانا عبدالحٔ لکھتے ہیں :
فالحاصل ان الذی دلت علیہ کلمات الثقات وشہدت بہ جہل الاثبات ہو انہ وجد فی شان راو تعدیل و جرح مبہمان قدم التعدیل وکذا ان وجد الجرح مبہما والتعدیل مفسراً قدم التعدیل وتقدیم الجرح انما ہو اذا کان مفسراً سواء کان التعدیل مبہما او مفسرا فاحفظ ہذا فانہ ینجیک من المزلة والخطل ویحفظک عن المذلة والجدل (الرفع والتکمیل ص١١)
ان سب کے علاوہ ایک بڑی بات جو اس موقع پر ذکر کرنے اور یاد رکھنے کے قابل ہے وہ یہ ہے کہ پچھلے صفحات میں متعنتین فی الجرح کے سلسلے میں ابن حبان کا نام بھی آیا ہے اور متعنت فی الجرح کے متعلق مولانا عبد الحٔ کا قول ابھی گزرا کہ '' اس کی جرح معتبر نہیں تاوقتیکہ دوسرا غیر متعنت اس کی موافقت نہ کرے ، مگر اس کی توثیق معتبر ہے '' اور حافظ سخاوی نے تو بڑے زور دار الفاظ میں کہا ہے :
فہذا اذاوثق شخصا فعض علی قولہ بنوا جذک وتمسک بتوثیقہ
یعنی اس کی توثیق کو دانتوں سے مضبوط تھا م لو اور اس پر پورا پورا اعتماد کرو ۔
پس جب یہ تسلیم ہے کہ ابن حبان نے عیسیٰ کی توثیق کی ہے تو اس قاعدہ کے بموجب ہمیں اس پر پورا پورا اعتماد کرنا چاہئیے اور اس کو دانتوں سے مضبوط تھام لینا چاہئیے ۔
خود حافظ سخاوی اور دوسرے محدثین کے ان اقوال کی روشنی میں اب یہ بات بالکل واضح ہو جاتی ہے کہ سخاوی نے جو یہ لکھا ہے کہ منکر الحدیث وصف فی الرجل یستحق بہ الترک لحدثیہ تو یہ ایسے شخص کے متعلق ہے جس کی توثیق کسی دوسرے ماہر فن محدث نے نہ کی ہو لہٰذا عیسیٰ کے حق میں اس کلام کو پیش کرنا بالکل بے محل ہے ۔
ہماری اس تحقیق سے ثابت ہو گیا کہ ابو زرعہ او رابن حبان کی توثیق کے بعد امام ابو داؤد کے منکر الحدیث کہنے سے عیسیٰ کی تضعیف لازم نہیں آتی ۔ لہٰذا اصولاً اس کی روایت نا قابل قبول بھی نہیں کہی جا سکتی ۔ یہی حال حافظ ابن حجر کی جرح کا بھی ہے ۔ اس سے بھی عیسیٰ کی روایت کا قابل ترک ہونا لازم نہیں آتا ۔ انہوں نے تقریب التہذیب میں صرف فیہ لین من الرابعة کہا ہے ۔ محدثین نے فیہ لین اور لین الحدیث کو بہت ہلکے اور معمولی درجہ کے الفاظ جرح میں شمار کیے ہیں ۔ : اسہلہا قولہم فی مقال او ادنی مقال ..... اولین الحدیث او فیہ لین ...... (ظفرالامانی ص٣٤) حافظ ابن حجر لکھتے ہیں :
واسہلہا ای الالفاظ الداة علی الجرح قولہم فلان لین الحدیث وسیٔ الحفظ او فیہ ادنی مقال اٰہ ..... (شرح نحبہ ص١٠٩)
امام نووی تقریب میں لکھتے ہیں : فاذا قالوا لین الحدیث کتب حدیثہ ونظر فیہ اعتباراً ۔اسی کے بعد امام سیوطی لکھتے ہیں : ومن ہٰذہ المرتبة ما ذکرہ العراقی فیہ لین فیہ مقال .... (تدریب مع التقریب ص١٢٦)
معلوم ہواکہ جس راوی کے متعلقفیہ لین یا لین الحدیث کہا ہو اس کی روایت قابل طرح وترک نہیں ہے ۔ امام دارقطنی سے پوچھا گیا کہ آپ جب فلان لیّن کہتے ہیں تو اس سے آپ کی کیا مراد ہوتی ہے ؟ انہوں نے کہا :
لا یکون ساقطا متروک الحدیث ولکن مجروحا بشٔ لا یسقط عن العدالة اٰہ ۔ (ابن الصلاح النوع الثالث والعشرون ) اس سے صاف معلوم ہوا کہ امام دارقطنی جیسے ناقد رجال کے نزدیک ایسا راوی نہ ساقط العدالت ہے اور نہ اس کی حدیث قابل ترک ۔
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,859
ری ایکشن اسکور
41,096
پوائنٹ
1,155
حافظ ابن حجر نے تقریب التہذیب میں ہی اس کی بھی وضاحت کر دی ہے کہ لین الحدیث کا لفظ وہ ایسے راوی کے حق میں بولتے ہیں جس کا اگرچہ کوئی متابع نہ ہو ، تاہم اس کے بارے میں کوئی ایسی بات بھی ثابت نہیں ہے جس کی وجہ سے اس کی حدیث قابل ترک ہو ۔ چنانچہ لکھتے ہیں :
السادسة من الیس لہ من الحدیث الا القلیل ولم یثبت فیہ ما یترک حدیثہ من اجلہ والیہالاشارة بلفظ مقبول حیث یتابع والا فلین الحدیث انتہی (تقریب التہذیب ص٣)
مولانا مئوی نے حافظ کی یہ عبارت بعینہ اپنی کتاب (رکعات تراویح) کے صفحہ ٧٥ پر نقل کی ہے مگر یہاں اس کو نظر انداز کر گئے ہیں ۔ اس لئے کہ یہاں ان کے منشا کے خلاف ہے اور وہاں بظاہر ان کے منشاء کے موافق ہے ۔
حافظ نے یہ بھی لکھا ہے :
انی احکم علی کل شخص منہم یحکم یشمل اصح ما قیل فیہ اعدل ما وصف بہ (تقریب ص١)
یعنی اس کتاب میں کسی راوی پر میں وہی حکم لگاؤں گا جو اس کے حق میں کہے گئے اقوال میں سب سے زیادہ صحیح اور اس کے متعلق بیان کیے گئے اوصاف میں سب سے زیادہ مناسب ہو گا ۔
اس سے ثابت ہوتا ہے کہ حافظ کے نزدیک عیسیٰ کے متعلق کوئی سخت جرح مقبول نہیں ۔
پس ائمۂ حدیث کی تصریحات اور اصو ل حدیث کے مسلّمہ قواعد کی رو سے جب عیسیٰ پر کی گئی تمام جرحیں غیر مقبول اور غیر ثابت ہیں اور اس کے مقابلے میں اس کی توثیق و تعدیل متحقق ہے تو اب کسی ناواقف فن کی یہ دھاندلی کون مان سکتا ہے کہ '' ازروئے اصل عیسیٰ کی یہ روایت قابل قبول نہیں ہو سکتی '' ۔ بلکہ اس کے برخلاف یہ کہنا چاہئیے کہ بلا شبہہ ازروئے اصول عیسیٰ کی یہ روایت صحیح، مقبول اور قابل احتجاج ہے ۔
تنبیہہ : '' علامہ '' مئوی نے ابن عدی کی جرح کا جو ترجمہ کیا ہے اور پھر قوسین میں جو اس کی تفسیر و توضیح کی ہے ، علم و فن کے اعتبار سے یہ دونوں ہی قابل گرفت ہیں ۔ تہذیب التہذیب میں اصل الفاظ یہ ہیں : وقال ابن عدی احادیثہ غیر محفوظة ۔ '' علامہ'' مئوی اس کا ترجمہ کرتے ہیں : '' اور ابن عدی نے کہا ہے کہ اس کی حدیثیں محفوظ نہیں ہیں ۔ (یعنی شاذو منکر ہیں ) ۔
'' احادیثہ غیر محفوظة '' یہ جملہ منطقی اصطلاح کے اعتبار سے قضیہ موجبہ معدولة المحمول ہے اور '' فاضل'' مئوی نے جو اس کا ترجمہ کیا ہے وہ قضیہ سالبہ بسیطہ ہے ''موجبہ '' کو '' سالبہ '' بنا دینا کون کہہ سکتا ہے کہ یہ بالکل صحیح اور ناقابل گرفت ترجمہ ہے ۔ مانا کہ وجود موضوع کی صورت میں ان دونوں میں تلازم ہوتا ہے ، لیکن وہ تحقق کے اعتبار سے ہے ۔ مفہوم کے اعتبار سے نہیں ۔ مفہوم کا تغایر تو بہر حال قائم رہتا ہے ۔ اس لئے ترجمہ میں ( جس میں مفہوم کا بیان ہوتا ہے ) یہ فرق ملحوظ ہونا چاہئیے ۔ لہٰذا اس کا صحیح ترجمہ یہ ہے کہ : '' اس کی حدیثیں غیر محفوظ ہیں '' ( یعنی محفوظ کا مقابل اور اس کا غیر ہیں ۔ جس کا اصطلاحًا شاذ کہتے ہیں ) ۔
ترجمہ کی اسی غلطی پر تفسیر کی یہ غلطی مبنی ہے کہ '' محفوظ '' کا مقابل ''شاذ'' اور '' منکر'' دونوں کو بنا دیا گیا ہے ۔ حالانکہ باصطلاح اصول حدیث '' محفوظ'' کا مقابل صرف '' شاذ'' ہے ۔ '' منکر'' نہیں ۔ '' منکر'' کا مقابل '' معروف'' ہے ۔ جیساکہ شرح نخبہ میں ہے :
فان خولف بارجح منہ فالراجح یقالہ المحفوظ ومقابلہ وہو المرجوح یقال لہ الشاذ ....... وان وقعت المخالفة مع الضعف فالراجح یفالہ المعروف ومقابلہ یقال لہ المنکر (ص٣٩ و ص٤٠)
ثالثًا : محدثین کے اطلاقات میں منکر الحدیث کا لفظ مختلف معانی میں مستعمل ہے ۔ بعض معنی کے اعتبار سے تو یہ سرے سے کوئی جرح کا لفظ ہی نہیں ۔ فضلا عن ان یکون جرحًا شدیدا ۔ چنانچہ حافظ عراقی لکھتے ہیں :
کثیرا ما یطلقون المنکر علی الراوی لکونہ روی حدیثا واحد انتہیٰ
یعنی '' بسا اوقات محدثین کسی راوی پر منکر الحدیث کا اطلاق اس لئے کر دیتے ہیں کہ اس نے صرف ایک ہی حدیث روایت کی ہے '' ۔ (الرفع والتکمیل ص١٤)
بتائیے ! کیا صرف ایک حدیث کا راوی ہونا بھی کوئی جرح اور عیب کی بات ہے ؟
حافظ سخاوی فتح المغیب میں لکھتے ہیں :
وقد یطلق ذلک علی الثقة اذا روی المناکیر عن الضعفاء (حوالہ مذکور )
یعنی کبھی یہ لفظ ثقہ راوی پر بھی بول دیتے ہیں ۔ جب کہ اس نے ضعیف راویوں سے منکر حدیثیں روایت کی ہوں ۔ حافظ ذہبی میزان الاعتدال میں لکھتے ہیں :
قولہم منکر الحدیث لا یعلون بہ ان کل ما رواہ منکر بل اذا روی الرجل جملة وربعض ذلک مناکیر فہو منکر الحدیث
انتہیٰ (حوالہ مذکور)
یعنی '' محدثین جب کسی راوی کی با بت منکر الحدیث کا لفظ بولتے ہیں تواس سے ان کی مراد یہ نہیں ہوتی کہ اس کی جتنی روایتیں ہیں وہ سب منکر ہیں ، بلکہ اس کی چند روایتوں میں سے اگر بعض بھی منکر ہوں تو اس کومنکر الحدیث کہہ دیتے ہیں '' ۔
دیکھئے ! ان اطلاقات کے مفہوموں میں باہم کتنا فرق ہے ۔ اس لئے جب تک کسی معتبر دلیل سے یہ ثابت نہ ہو جائے کہ امام ابو داؤد وغیرہ نے عیسیٰ بن جاریہ کو کس معنی کے اعتبار سے منکر الحدیث کہا ہے اس وقت تک قطعی طور سے یہ حکم لگا دینا کہ '' اس کی یہ روایت قابلِ قبول نہیں ہو سکتی '' نری زبردستی ہے ۔
ایک شبہہ کا ازالہ :۔ ہم نے اپنے ثانی جواب میں دوسرے الفاظ جرح کے ساتھ ''منکر الحدیث '' کو بھی جرح مبہم کہا ہے ۔شاید اس کے متعلق کسی کو شبہہ ہوا ہو ، اس لئے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اسی سلسلہ میں اس کا ازالہ کر دیا جائے ۔سو پہلی بات تو یہ ہے کہ ابھی تیسرے جواب میں معلوم ہوا کہ ''منکر ا لحدیث '' کا لفظ محدثین کے نزدیک مختلف معانی میں مستعمل ہے ۔ اس لئے بغیر کسی قرینہ اور دلیل کے اس کی مراد کا مشتبہ اور مبہم ہونا ظاہر ہے ۔
دوسری بات یہ ہے کہ مستند علماء نے ا س کے جرح مبہم ہونے کی تصریح کی ہے ۔ چنانچہ علامہ ابو المحاسن السندی ثم المدنی لکھتے ہیں :
فاذا احطت بہذاعلمت ان اقول من قال فی احد ہو منکر الحدیث جرح مجرد اذ حاصلہ انہ ضعیف خالف الثقات ولا ریب ان قولہم ہٰذا ضعیف جرح مجرد فیمکن انیکون ضعفہ عند الجارح بہا لا یراہ المجتہد العامل برویتہ جرحا فان قیل ان الانکار جرح مفسر کما صرح بہ الحفاظ اجیب بان معنی منکر الحدیث کما سمعت ضعیف خالف الثقة والاسبا ب الحاملةللائمة علی الجرح متفاوتہ منہا ما یقدح ومنہا لا یقدح فربما ضعف بشٔ لا یراہ الاٰخر جرحا ومع قطع النظر عن ہذا التحقیق لا تضر النکارة الا عند کثرة المخالفة للثقات انتہی (الرفع والتکمیل ص١٤)
اس عبارت کا خلاصہ یہ ہے کہ (شاذ ومنکر کی جو تعریف ہم نے بیان کی ہے) اگر تم اس کا احاطہ کر لوگے تو جان لو گے کہ کسی محدث کا کسی راوی کے حق میں منکر الحدیث کہنا یہ ایسی جرح ہے جو بیان سبب سے خالی ہے (اس لئے یہ جرح مبہم ہے ) کیونکہ اس جرح کا حاصل یہ ہے کہ (انہ ضعیف خالف الثقات ) یہ راوی ضعیف ہے اور اسی کے ساتھ اس نے ثقات کی مخالفت کی ہے ۔ ہذا ضعیف کہنا تو بلا شبہہ جرح مبہم ہے ۔ کیونکہ بہت ممکن ہے کہ تضعیف کرنے والے جارح نے جس امر کو موجب تضعیف سمجھ کر اس پر جرح کی ہے ، دوسرے مجتہد کے نزدیک یہ امر موجب جرح و تضعیف نہ ہو ۔ لہٰذا انکار کامفہوم اگر چہ واضح او رمفسر ہے مگر منکر الحدیث کامفہوم مفسر نہیں ۔ اس لئے کہ اس کا ایک جزو ''ضعیف'' مبہم ہے (جزو کا ابہام کل کے ابہام کو مستلزم ہے ) پس '' منکر الحدیث'' جرح مبہم ہے ۔
تفرد کا جواب :۔ عیسیٰ پر کی گئی ان نامقبول اور غیر ثابت شدہ جرحوں کا ذکر کرنے کے بعد '' علامہ '' مئوی نے اس روایت کے غیر مقبول ہونے کی ایک خاص وجہ عیسیٰ کے تفرد کو قرار دیا ہے ۔ چنانچہ لکھتے ہیں :
'' بالخصوص جب کہ حضرت جابر سے اس بات کو نقل کرنے میں وہ متفرد ہے دوسرا کوئی اس کا موید و متابع موجود نہیں ہے ، نہ کسی دوسرے صحابہ کی حدیث اس کی شاہد ہے ''۔ (رکعات ص٢٨)
اصول حدیث سے ادنیٰ لگاؤ رکھنے والے بھی جانتے ہیں کہ راوی کے تفرد کی مختلف صورتیں ہیں اور رد و قبول کے اعتبار سے ان کے احکام بھی مختلف ہیں ۔ نہ ہر تفرد مقبول ہے اور نہ ہر تفرد مردود ۔ اس لئے اس موقع پر سب سے پہلے ان دو باتوں کی تنقیح ضروری ہے ۔
ایک یہ کہ عیسیٰ کے تفرد کی صورت کیا ہے ؟ دوسری یہ کہ تفرد کی یہ صورت عند المحدثین مقبول ہے یا مردود ؟
پہلی تنقیح کے جواب کے لئے ص ٢٦ و ص٢٧ کو پڑھئیے ۔ مولانا مئوی نے بڑی وضاحت سے یہ تسلیم کیا ہے کہ رمضان میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز باجماعت کے راوی بہت سے صحابہ ہیں اور ان صحابہ سے اس بات کو نقل کرنے والے ان کے بہت سے شاگرد ہیں ۔ اتنی بات میں تو حضرت جابر اور ان کے شاگرد عیسیٰ کے بیان میں اور دوسرے صحابہ اور ان کے شاگردوں میں کوئی اختلاف نہیں ہے ۔ اختلاف ہے تو صرف اس بات کا کہ حضرت جابر کے علاوہ دوسرے صحابہ اور ان کے شاگردوں نے ان رکعتوں کی تعداد نہیں بتائی جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان راتوں میں پڑھی تھیں اور حضرت جابر اور ان کے شاگرد عیسیٰ کی روایت میں ان رکعتوں کی تعداد کا بھی بیان ہے ۔
گویا عیسیٰ کے تفرد کی صورت یہ ہے کہ اس نے ایک ایسی بات بیان کی ہے جس کے بیان سے دوسرے راوی '' ساکت'' ہیں ۔ ظاہر ہے کہ '' سکوت'' اور '' بیان'' میں کوئی مخالفت او رمعارضہ نہیں ہے۔ مثلاً قرآن حکیم نمازوں کی رکعات اور ان کی تعداد کے بیان سے ساکت ہے اور حدیثوں میں ان کا بیان ہے ۔ تو کیا کوئی عقل مند یہ کہہ سکتا ہی کہ یہ حدیثیں قرآن کے خلاف اور اس کی معارض ہیں ؟
اب دوسری تنقیح کی رو سے یہ دیکھنا ہے کہ تفرد کی یہ صورت عند المحدثین مقبول ہے یا مردود؟ تو اس کے جواب کے لئے ہم مقدمہ ابن صلاح کا ایک اقتباس آ پ کے سامنے پیش کرتے ہیں جس سے معلوم ہو جائے گا کہ ایسا تفرد مقبول ہے یا نہیں ؟
وہ لکھتے ہیں :
اذا ترد الراوی بشٔ نظر فیہ فان کان ا نفرد بہ مخالفا لما رواہ من ہو اولی منہ بالحفظ لذلک واضبط کان ماتفرد بہ شاذ امردودًا وان لم یکن فیہ مخالفة لما رواہ غیرہ وانما ہو المر رواہ ہو ولم یروہ غیرہ فینظر فی ہذا الراوی المنفرد فان کان عدلا حافظا موثوقا باتقانہ و ضبطہ قبل ما انفرد بہ ولم یقدح الانفراد فیہ کما سبق من الا مثلة وان لم یکن ممن یوثف بحفظہ واتقانہ لذلک الذی انفرد بہ کان انفرادہ خارمًا لہ مزحزحًا لہ من حیزا الصحیح ثم ہو بعد ذلک دائر بین مراتب متفاوتة بحسب الحال فان کان المنفرد بہ غیر بعید من درجة الحافظ الضابط لامقبول تفرد واستحسانا ذٰلک ولم ینحط الی
قبیل الحدیث الضعیف وان کان بعیدا من ذلک رددنا ما انفرد بہ وکان من قبیل الشاذ المنکر انتہیٰ (النوع الثاث عشر)

دیکھئے ! حافظ ابن صالح صاف صاف لکھ رہے ہیں کہ اگر راوی کے انفراد کی یہ صورت ہے کہ جس بات کے بیان کرنے میں وہ متفرد ہے ۔ یہ بات دوسرے احفظ و اضبط راوی کے بیان کے مخالف نہیں ہے بلکہ (انما ہو امر رواہ ہو ولم یروہ غیرہ) اس نے جوبات کہی ہے ، دوسرے اس کے بیان سے ساکت ہیں ۔ تو اب اس راوی کو دیکھنا چاہئیے کہ حفظ و ضبط کے اعتبار سے کس پایہ کا ہے ۔ اگر ضبط و اتقان کے اعتبار سے یہ متفرد راوی قابل وثوق ہے تو اس کی روایت مقبول ہے اور یہ تفرد اس کے لئے کچھ مضرنہیں اور اگر اس کا حفظ و ضبط (پوری طرح) قابل وثوق نہیں ہے تو بے شک اس کی روایت صحیح نہیں کہی جائے گی ، مگر پھر بھی یہ ضروری نہیں ہے کہ وہ ضعیف ہی ہو ۔ اگرحفظ کے اعتبارسے بہت گرا ہوا راوی نہ ہو تو اس کی حدیث حسن ہو گی اور اگر اس کے خلاف ہو تو البتہ وہ روایت شاذو منکر کہی جائے گی ۔
اس بیان کے لحاظ سے عیسیٰ کا یہ تفرد غیر مقبول نہیں کہا جا سکتا ۔ اس لئے کہ جو جرحیں اس پر کی گئی ہیں وہ سب غیر مقبول اور غیر ثابت ہیں اور ان کے مقابلے میں اس کی تعدیل و توثیق معتبر ہے ۔ لہٰذا حفظ و ضبط کے اعتبار سے اگر وہ بہت اعلیٰ درجہ پر نہ ہو ، تو بہت گرا ہوا بھی نہیں ہے ۔ بنابریں اس کی یہ حدیث کم سے کم حسن کے درجہ میں ہو گی ۔ ضعیف یاشاذو منکر تو کسی حال میں بھی نہیں کہی جا سکتی ۔ حافظ ابن حجر لکھتے ہیں :
وزیادة روایہما ای الحسن والصحیح مقبولة مالم تقع منافیة لروایة من ہو اوثق لم یذکر تلک الزیادة لان الزیادة اما ان تکون لاتنا فی بینہما وبین روایة من لم یذکرہا فہذہ تقبل مطلقا لانہا فی حکم الحدیث المستقل الذی یتفرد بہ الثقة ولا یرویہ عن شیخہ غیرہ واما ان تکون منافیة بحیث یلزم من قبولہا رد الرویاة لاخرٰی فہذہ التی یقع الترجیح بینہا و بین معارضہا فیقبل الراجح ویرد المرجوح انتہیٰ (شرح نخبہ ص٣٧)
اس کلام کا حاصل یہ ہے کہ '' اگر دو ثقہ راویوں میں کسی بات کے ذکر اور عدم ذکر کا اختلاف ہو (جیسے یہاں رکعات کی تعداد کے ذکر اور عدم ذکر کا اختلاف ہے) تو ان دونوں روایتوں کے مضمون میں اگر ایسی مخالفت او رمنافات ہو کہ ایک روایت کے ماننے سے دوسری روایت کی تردید و تکذیب لازم آئے تو اس صورت میں جو روایت وجوہ ترجیح کے اعتبار سے راجح ہو گی وہ مقبول ہو گی اور مرجوح غیر مقبول ہ و گی ۔ اور اگر ان دونوں روایتوں میں اختلاف کی یہ صورت نہ ہو تو راجح مرجوح کا مقابلہ کیے بغیر ثقہ راوی کی زیادتی مقبول ہو گی '' ۔
جب یہ ثابت ہو چکا کہ عیسیٰ ثقہ راوی ہے اور اس کے بیان میں اور دوسرے راویوں کے بیان میں کوئی منافات نہیں ہے ۔ اس لئے کہ اگر بہت سے لوگ یہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان کی راتوں میں باجماعت نمازیں پڑھی تھیں اور ایک شخص یہ کہتاہے کہ یہ نمازیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے آٹھ رکعات (بلا وتر) پڑھی تھی تو ان دونوں بیانوں میں کیامنافات اور تعارض ہے؟
پس حافظ ابن حجر کے بیان کے مطابق عیسیٰ کی یہ '' زیادة'' راجح اور مرجوح کا مقابلہ کیے بغیر مقبول ہو گی اور اس '' زیادة'' میں اس کا متفرد ہونا ہر گز اس کی روایت کے لئے کسی قدح کا موجب نہیں ہے ۔ یہ کہنا بھی غلط ہے کہ اس حدیث کا کوئی شاہد نہیں ہے ۔ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت ما کان یزید فی رمضان ولا فی غیرہ علی احدی عشرة رکعة اس کی شاہد ہے ۔ اور اگر بالفرض کوئی شاہد یا متابع نہ بھی ہو تو محض متابع اور شاہد کا نہ ہونا بھی کوئی قدح کی بات نہیں ۔ جب تک اس کے ساتھ دوسرے وجوہ قادحہ موجود نہ ہوں ۔ رواةِ حدیث میں بہت سے ایسے راوی ہیں جن کا کوئی متابع نہیں اور نہ دوسرے صحابہ کی روایت اس کی روایت کی شاہد ہے ، لیکن اس کی روایت عند المحدثین مقبول اور معتبر ہے ۔ مثالیں نقل کروں تو بات لمبی ہو جائے کی ۔ اس لئے صرف حوالے پر اکتفا کرتا ہوں ۔ ملاحظہ ہو :
شرح نخبہ ص ١٤ ، وظفر الامانی ص ٢٨ ، ٢٩ ، و تدریب الراوی طبع مصر ص ٨٤ ، و ص١١٦ ، و ص٢٢٤ ۔
دور کیوں جائیے جامع ترمذی ہی کو دیکھ لیجئے ، کتنی مقبول روایتیں ہیں جن کی بابت امام ترمذی نے کہا ہے : حدیث غریب لا نعرفہ الا من ہذا لاوجہ شیخ عبدالحق محدث دہلوی مقدمۂ شرح مشکوٰة میں لکھتے ہیں :
وعلم مما ذکر ان الغرابة لاتنا فی الصحة ویجوز ان یکون الحدیث صحیحا غریبا بان یکون کل واحد من رجالہ ثقة انتہیٰ ۔
یعنی راوی کا متفرد ہونا حدیث کی صحت کے منافی نہیں ہے ۔ ہو سکتا ہے کہ حدیث غریب ہو ۔ (یعنی اس کا کوئی راوی متفرد ہو) اور صحیح بھی ہو ۔ بایں طور کہ اس کا ہر راوی (متفرد اور غیر متفرد) ثقہ ہو ۔
الغرض عیسیٰ کی توثیق ثابت ہو جانے کے بعد ، تفرد کے باوجود حضرت جابر کی یہ روایت قابل قبول اور لائق احتجاج ہے ۔
قولہ : یہی وجہ ہے (یعنی اس حدیث کا ضعیف و منکر ہونا ) کہ حافظ ذہبی نے عیسیٰ کے تذکرہ میں اس کی اس اس روایت کو میزان الاعتدال میں نقل کیا ہے ان کی عادت ہے کہ وہ اس کتاب میں جس مجروح راوی کا ذکر کرتے ہیں ، اگر اس کی روایات میں کوئی منکر روایت ہوتی ہے تو وہ اس منکر روایت کو بھی ذکر کرتے ہیں ۔ اصل میں یہ طرز ابن عدی کا ہے جو انہوں نے اپنی کتاب کامل میں اختیار کیا ہے ۔ انہی کا طرز حافظ ذہبی نے اختیار کیا ہے ۔ (رکعات ٢٩)
ج: افسوس ہے کہ'' علامہ'' مئوی نے اپنی عادت کے مطابق یہاں بھی ''ہاتھ کی صفائی'' کا وہ کرتب دکھایا ہے کہ دیانت اپنا سر پیٹ کر رہ گئی ۔ محض اس لئے کہ عیسیٰ کی یہ روایت ( جو حنفی مذہب کے خلاف ہے ) کسی طرح ضعیف اور منکر ثابت ہو جائے ۔ ابن عدی اور ذہبی کے متعلق بات کا صرف ایک رخ پیش کیا گیا ہے اور اسی تلبیس کی وجہ سے صورت معاملہ بالکل مسخ ہو گئی ہے ۔
حافظ ابن حجر مقدمہ فتح الباری میں عکرمہ کے ترجمہ میں ابن عدی کے متعلق لکھتے ہیں :
ومن عادتہ فیہ رای من عدة ابن عدی فی الکامل ان یخرج الاحادیث التی انکرت علی الثقة او علی الثقة اور علی غیر الثقة انتہیٰ ۔ (ص٥٠٢ طبع فاروقی دہلی)
یعنی ابن عدی کی یہ عادت ہے کہ وہ اپنی کتاب کامل میں ثقہ او رغیر ثقہ (مجروح اور غیر مجروح) دونوں قسم کے راویوں کی ان کی روایات کا ذکر کرتے ہیں ۔ جن پر انکار کیا گیا ہے ۔ یا جن کو منکر کہا گیا ہے ۔
ابن عدی کا یہ صنیع صرف مجروح راوی کے ساتھ خاص نہیں ہے ۔ جیسا کہ مئوی صاحب کے بیان سے معلوم ہوتا ہے اور نہ یہ بات ہے کہ ''وہ روایت منکر ہوتی ہے'' ۔
جیسا علامہ مئوی کہہ رہے ہیں ، بلکہ روایت ذکر کرتے ہیں جس پر جرح و انکارکیا گیا ہے ۔ یہ ضروری نہیں ہے کہ فی الواقع وہ منکر ہو بھی ۔
حافظ زین الدین عراقی شرح الفیہ میں لکھتے ہیں :
فیہ(ای فی معرفة الثقات والضعفائ) لائمةالحدیث تصانیف منہا ما افرد فی الضعفاء وصنف فیہ البخاری ... الیٰ ان قال وابن عدی ولکنہ ذکر فی کتابہ الکامل کل من تکلم فیہ وان کان ثقة وتبعہ علیٰ ذلک الذہبی فی المیزان انتہیٰ ۔
فتح المغیث میں ہے :
وجمع الذہبی معظمہا فی میزانہ فجاء کتابا نفیسا علیہ معول من جاء بعدہ مع انہ تبع ابن عدی فی ایراد من تکلم فیہ ولو کان ثقة انتہیٰ ۔
اسی کے ساتھ حافظ ذہبی کا خود اپنا بیان بھی پڑھ لیجئے تو بات اور صاف ہو جاتی ہے ۔ میزان الاعتدال کے بالکل آخر میں لکھتے ہیں :
فاصلہ وموضوعہ فی الضعفاء وفیہ خلق کما قدمنا فی الخطبة من الثقات ذکرتہم للذب عنہم اولان الکلام فیہم غیر مؤثر ضعفا انتہیٰ ۔
یعنی ''اس کتاب (میزان الاعتدال) کا اصل موضوع تو ضعفاء ہی کا تذکرہ لکھنا ہے ، لیکن ثقات کی ایک بڑی تعداد کا ذکر بھی اس میں آگیا ہے ۔ ان کا تذکرہ میں نے یا تو اس لئے کیا ہے کہ ان پر جو جرح و انکا رکیا ہے اس کاجواب دوں یا اس لئے کہ ان جرحوں سے ان کا ضُعف ثابت نہیں ہوتا ''۔
انصاف سے کہیے ۔ اگر تصویر کے یہ دونوں رخ سامنے ہوتے توکیا اس وقت بھی یہ نتیجہ نکالا جا سکتا تھا کہ '' چونکہ عیسیٰ مجروح راوی ہے اور اس کی یہ روایت منکر اور ضعیف ہے ۔ اسی وجہ سے حافظ ذہبی نے اس کو میزان الاعتدال میں نقل کیا ہے ''۔ یہ غلط نتیجہ تو اسی صورت میں نکلتا ہے جب کہ معاملہ کا وہی رخ سامنے ہو جو '' علامہ'' مئوی نے پیش کیا ہے ۔
پھر اگر میں نے یہ کہا تو کیا غلط کہا کہ بات کا ایک رخ پیش کر کے صورت معاملہ مسخ کر دی گئی ہے ۔ اور '' ہاتھ کی صفائی'' کا وہ کرتب دکھایاکہ دیانت سر پیٹ کر رہ گئی ۔
'' علامہ'' مئوی نے اگر عصبیت سے کام نہ لیا ہوتا تو بات بالکل صاف تھی کہ عیسیٰ پر جو جرحیں کی گئی ہیں ، حافظ ذہبی کے نزدیک وہ موجب ضعف نہیں ہیں ۔ اسی لئے جرحیں نقل کرنے کے بعد عیسیٰ کی یہ روایت پیش کر کے للذب عنہم اولان الکلام فیہم غیر مؤثر ضعفا کے مطابق انہوں نے اسنادہ وسط کہہ کر اس کی توثیق کر دی ۔

قولہ : اس پر اگر یہ شبہہ کیا جائے کہ حافظ ذہبی نے میزان الاعتدال میں اس کو ذکر کرنے کے بعداس کی اسناد کو متوسط درجہ کی اسناد قرار دیا ہے ۔ لہٰذا میزان میں ذکر کرنے سے اس حدیث کا ضعیف و منکر ہونا ثابت نہ ہو گا ۔ نہ یہ لازم آئے گا کہ انہوں نے اس
کوضعیف ومنکر سمجھ کر نقل کیا ہے ۔ تو اس کا جواب یہ ہے کہ اولاً مولانا عبدالرحمن مبارک پوری نے ابکار المنن میں متعدد مقامات میں نہایت زور و شور سے یہ لکھا ہے کہ سند کے صحیح یا حسن ہونے سے حدیث کا صحیح ہونا لازم نہیں آتا (ابکار المنن سے کچھ حوالے نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں ) اسی طرح ہم کہہ سکتے ہیں کہ حافظ ذہبی نے جو اپنی عادت کے مطابق عیسیٰ کی حدیث کو اس کے مناکیر میں ذکر کیا ہے اور اس کی اسناد کو متوسط کہا تو انکا مقصود یہ ہے کہ اسناد تو بہت گری ہوئی نہیں ہے ، لیکن حدیث کا متن منکر ہے ۔ (رکعات ص٢٩ وص٣٠)
ج: اولاً یہ شبہہ خود '' علامہ '' مئوی کے قصور فہم یا قصور بیان کا نتیجہ ہے ۔ کسی اہل حدیث کے ذہن میں تو یہ شبہہ پیدا ہی نہیں ہو سکتا ۔ اس لئے کہ جب حافظ ذہبی کی یہ عادت ہی نہیں ہے کہ وہ صرف ایسی روایت ذکر کرتے ہیں جو فی الواقع منکر اور ضعیف ہوتی ہے ۔ یا ان کے نزدیک ضعیف ہوتی ہے ۔ تو حافظ ذہبی اگر اس روایت کے بعد اسنادہ وسط نہ بھی کہتے تب بھی محض میزان الاعتدال میں نقل کرنے کی وجہ سے کوئی اہلحدیث اس کے ضعیف اور منکر ہونے کا جزم نہ کر لیتا ۔ ہاں البتہ یہ سمجھتا کہ اس راوی یا روایت پر کچھ جرحیں کی گئی ہیں ، مگر یہ ضروری نہیں ہے کہ و ہ جرحیں مقبول اور ثابت بھی ہوں ۔
ثانیاً : اس شبہہ کا جو جواب مولانا مئوی نے دیا وہ بھی اصلاً غلط ہے ۔ محدثین کا یہ اصل بجائے خود بالکل صحیح اور مسلم ہے کہ ا سناد کی صحت متن کی صحت کو مستلزم نہیں ، لیکن اس کے یہ معنی نہیں ہیں کہ صحیح الاسناد حدیثوں سے جان چھڑانے کے لئے اس قاعدہ کو بہانہ بنا لیا جائے اورجب کوئی بوالہوس کسی حدیث کو اپنی مذہب اور آبائی معمول کے خلاف پائے تو یہ کہہ کر اس کو ردّ کر دے کہ اسناد کی صحت متن کی صحت کومستلزم نہیں ۔
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,859
ری ایکشن اسکور
41,096
پوائنٹ
1,155
محدث اعظم حضرت مبارک پوری قُدِّسَ سرَہ نے ابکار المنن وغیرہ میں جہاں جہاں یہ اصل پیش کیا ہے ، مئوی صاحب کا طرح کہیں بھی صرف اتنا کہہ دینے پر اکتفا نہیں کیا ہے ، بلکہ ساتھ ہی دوسرے وجوہ دلائل سے اس کے متن کا معلول ہونا بھی ثابت کیا ہے ۔ پس حافظ ذہبی کے کلام سے اس متن کی '' نکارة'' کا کوئی ثبوت دئیے بغیر اسا قاعدہ سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کرنا اور یہ کہہ دینا کہ حافظ ذہبی کے نزدیک حدیث کا متن منکر ہے ۔ محض تحکم اور سرتاپا بے دلیل دعویٰ ہے جو ہر گز قابل التفات نہیں ۔
ثالثًا : اسنادہ وسط اس منطوق سے یہ مفہوم نکالنا کہ '' لیکن اس کا متن منکر ہے '' ۔ یہ استدلال بالمفہوم ہے جو حنفی اصول کے مطابق فاسد ہے ۔
قولہ : ثانیًا ۔ حافظ ذہبی کا اس کی اسناد کو وسط کہنا خود انہی کی ذکر کی ہوئی ان جرحوں کے پیش نظر جو انہوں نے عیسیٰ کے حق میں ائمۂ فن سے نقل کی ہیں ۔ حیرت انگیز اور بہت قابل غور ہے ۔ (رکعات ص٣١)
ج: اتنا ہی نہیں بلکہ یہ بھی کہیے کہ تکلیف دہ اور موجب کوفت بھی ہے ۔ اس لئے کہ اس سے اہل حدیث کے مسلک کو قوت پہنچ گئی ۔ مگر کیا کیجئے گا حق تو ظاہر ہو کر ہی رہے گا ۔ ولو رغم الف .......... ...... ....۔
عیسیٰ کی حق میں حافظ ذہبی نے صرف جرح ہی نہیں بلکہ تعدیل بھی نقل کی ہے ۔ اس لئے ان دونوں کے پیش نظر اس کی حدیث کی اسناد کو وسط کہنا نہ حیرت انگیز ہے اور نہ قابل غور ۔
قولہ : اسی وجہ سے علامہ شوق نیموی نے اس کو ناصواب قرار دیا ہے او رکہا ہے کہ وہ متوسط نہیں ، بلکہ اس سے بھی گھٹیا ہے ۔ (رکعات ص٣١)
ج: '' علامہ '' شوق نیموی اور '' علامہ'' مئوی دونوں ہی کی غفلت اور عصبیت ہے کہ اس کو ناصواب اور '' گھٹیا '' قرار دے رے ہیں ۔ حافظ ذہبی نے میزان میں عیسیٰ کے متعلق جرح و تعدیل کے جو الفاظ نقل کیے ہیں ۔ آئیے ہم ان کا مقابلہ کر کے آپ کو بتائیں کہ حافظ ذہبی کی رائے صحیح ہے یانیموی اور مئوی کی ۔
دیکھئیے حافظ ذہبی نے ابن معین اور نسائی انہی دو بزرگوں کی جرحیں نقل کی ہیں ۔ ابن معین نے عندہ مناکیر کہا ہے اور نسائی نے منکر الحدیث اور ایک قول کے مطابق متروک کہا ہے ۔ نسائی تو متعنت فی الرجال مشہور ہیں ۔ خود حافظ ذہبی نے بھی اسی میزان میں ان کو متعنت قرار دیا ہے ۔ دیکھو حارث اعور کا ترجمہ ۔ اس لئے کہ ان کی جرح تو بجائے خود معتبر نہیں ۔ '' علامہ '' مئوی نے خود بھی اس کو''ا علام المرفوعہ '' میں تسلیم کیا ہے ۔جیسا کہ پہلے اس پر تفصیلی بحث گزر چکی ۔ رہے ابن معین تو قطع نظر اس کے ان کو بھی متعنتین میں شمار کیا گیاہے ۔ ان کے عندہ مناکیر کہنے سے عیسیٰ کا ضعیف ہونا لازم نہیں آتا ۔ حافظ سخاوی نے کہا ہے کہ اس قسم کے الفاظ کبھی ایسے راوی پر بھی اطلاق کر دیتے ہیں جو خود ثقہ ہوتا ہے لیکن ضعفاء سے منکر حدیثیں روایت کرتا ہے ۔ ان کے الفاظ یہ ہیں :
وقد یطلق ذلک علی الثقة اذا روی المناکیر عن الضعفاء قال الحاکم قلت الدار قطنی فسلیمان بنت شرجیل قال ثقة قلت الیس عندہ مناکیر قال یحدث بہا عن قوم ضعفاء اما ہو فثقة انتہیٰ (الفع والتکمیل ص١٤)
ان دونوں جرحوں کے بعد امام ابو زرعہ کی تعدیل نقل کی ہے جنہوں نے لا باس بہ کہا ہے ۔ میزان کے شروع میں حافظ ذہبی نے جرح و تعدیل کے کچھ الفاظ بھی ذکر کئے ہیں ۔ الفاظ تعدیل کے متعلق لکھتے ہیں :
فاعلی العبارات فی الرواة المقبولین ثبت حجة وثبت حافظ وثقة متقن وثقة تم ثقة ثم صدوق ، ولا باس بہ ولیس بہ باس ثم محلہ الصدق وجید الحدیث الخ :
لفظ ثم سے ذہبی نے جو فرقِ مراتب کی طرف اشارہ کیا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کے نزدیک لا باس بہ متوسط درجہ کا لفظ ہے ۔ حافظ عراقی نے شرح الفیہ میں ، سخاوی نے فتح المغیث میں اور دوسرے تمام محدثین نے اس لفظ کو الفاظ تعدیل میں متوسط درجہ ہی کی تعدیل قرار دیا ہے ۔ کسی نے بھی اس سے کم درجہ میں اس کو شمار نہیں کیا ہے ۔
اس کے بعد حافظ ذہبی کا اسنادہ وسط کہنا عین صواب ہے اس کو ناصواب کہنے والے معاند او رمحدثین کی تصریحات سے نابلد ہے۔ اسی واسطے حضرت محدث اعظم علامہ مبارکپوری قدس سرہ نے تحفة الاحوذی میں نیموی کی تردید او ر حافظ ذہبی کے اس فیصلہ کی تصویب فرمائی ہے ۔ اور نیموی کے مقابلہ میں ذہبی کا فضل و کمال فن ثابت کرنے کے لئے ایک دوسرے ماہر فن محدث (حافظ ابن حجر) کی شہادت پیش کی ۔ جس کا منشا یہ تھا کہ نیموی جیسے اناڑی لوگوں کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ ذہبی جیسے باکمال پر تنقید کریں ۔
ایاز قدر خود بشناس
''علامہ'' مئوی کو یہ بات بہت بری لگی ہے ۔ ا یسا معلوم ہوتا ہے کہ حضرت الشیخ مبارکپوری کے خلاف پہلے ہی سے بھرے بیٹھے تھے ۔ اک ذرا سی ٹھیس لگتے ہی ابل پڑے ہیں اور خوب دل کے پھپھولے پھوڑے ہیں ۔ تقریبًا تین صفحے اسی خفگی کی نذر کر دئیے ۔ لکھتے ہیں :
قولہ : او رمولانا عبدالرحمن مبارکپوری نے شوق نیموی کے اس کلام کا جو ردّ کیا ہے وہ قطعًا ناقابل التفات اور محض مقلدانہ ہے جو ان کی شان کے بالکل خلاف ہے ۔
ج : ''ناقابل التفات'' تو ضرور کہیے ۔ اس لئے کہ ا س کے بغیر اس حدیث سے جان چھڑانے کی کوئی اور صورت ہی نہیں ہے ۔ لیکن '' مقلدانہ'' کیسے ہے ؟ کیا حافظ ابن حجر نے بھی نیموی کے جواب میں یہی بات کہی ہے ۔ نیموی نہ سہی کسی دوسرے متقدم حنفی عالم کے جواب میں یہ کہا ہے ؟ اگر نہیں اور یقینا نہیں ، تو پھر مقلدانہ کیسے ہوا ؟ کیا حافظ ابن حجر کی یہ شہادت مان لینا کہ '' ذہبی نقد رجال میں اہل استقراء تام سے ہیں '' یہ تقلید ہے ؟ کیا ذہبی کی بادلیل بات کو مان لینا یہ تقلید ہے ؟
تقلید پر جان دینے والے بھی اگر تقلید کو نہ سمجھیں تو اس کے سوا ہم اور کیا کہیں کہ :

یا رب وہ نہ سمجھے ہیں نہ سمجھیں گے میری بات
دے اور دل ان کو جو نہ دے مجھ کو زباں اور​

قولہ : مولانا ہوتے تو ہم ان سے گزارش کرتے کہ ... ..... (رکعات ص٣١)
ج : جب مولانا تھے تو اس وقت '' گزارش '' کرنے کی ہمت کیوں نہیں ہوئی ؟ کیا آپ نے مولانا کا زمانہ نہیں پایا ؟ کیا تحفة الاحوذی اور ابکار المنن یہ دونوں کتابیں مولانا کی زندگی میں شائع ہو کر ایوانِ حنفیت میں زلزلہ نہیں پیدا کر چکی تھیں ؟ اور آپ ان کے مطالعہ سے بہرہ مند نہیں ہو چکے تھے ؟
تحفة الاحوذی جلد ثانی (جس میں مسئلہ تراویح پر بحث کی گئی ہے ) ١٣٤٩ھ میں شائع ہوئی ہے ۔ ابکار المنن (جس کے حوالے سے آپ نے معارضات پیش کئے ہیں ١٣٣٨ھ میں شائع ہوئی ہے اور حضرت مؤلف علیہ الرحمة کی تاریخ وفات ١٦ شوال ١٣٥٣ھ ہے ۔ یعنی ابکار المنن کی اشاعت کے پندرہ برس بعد اور تحفة الاحوذی جلد ثانی کی اشاعت کے چار برس بعد ۔ کیا اتنی مدت میں آپ کو اپنی حسرت پوری کرنے کا موقع ہی نہ ملا ؟ در انحالیکہ '' مؤ '' اور ''مبارک پور'' دونوں قصبوں کا فاصلہ چندمیلوں سے زیادہ نہیں ۔
اب١٣٧٧ ھ میں جب کہ حضرت الشیخ نور اللہ مرقدہ کو وفات فرمائے ہوئے٢٤ سال اور تحفة الاحوذی جلد ثانی کو شائع ہوئے ٢٨ سال اور ابکار المنن کو شائع ہوئے ٣٩ سال ہو چکے ہیں ۔ آپ ہمارے سامنے اپنے دل کی یہ ''حسرت ''ظاہر فرماتے ہیں کہ '' اگر مولانا ہوتے تو ہم ان سے گذارش کرتے ۔'' کیا کہنا اس ''حسرت'' کا ۔

ع : خود سوئے ماند ید حیار ابہانہ ساخت​

خیر مولانا تو اب نہیں ہیں ، لیکن ہم ان کے ادنیٰ ترین خدام موجود ہیں اور آپ کی خوش قسمتی سے آپ کے پڑوس ہی میں ہیں ۔ اپنی ہر ''گذارش''بے دریغ پیش کیجئے ۔ انشاء اللہ سب پر غور کیا جائے گا اور اللہ تعالی کی توفیق سے آپ کی ہر مراد پوری کی جائے گی ۔ لینصرن اﷲ من ینصرہ ۔
قولہ : جب آپ نقدر جال میں ان کو ایسا باکمال تسلیم کرتے ہیں کہ وہ اس باب میں جو بھی حکم فرمائیں وہی صواب ہے تو پھر الخ ۔ ( رکعات ص )
ج : دیکھیے بات بگاڑ کر پیش نہ کیجئے اس سے آپ کی کمزوری ثابت ہوتی ہے ۔ اگر ہمت ہے تو واقعی جو بات جس طرح کہی گئی ہے ، اس پر کوئی معقول گرفت کیجیے۔ حضرت الشیخ مبارک پوری علیہ الرحمة نے ہر گز یہ نہیں کہا ہے کہ ذہبی نقدر جال کے باب میں ''جو ''حکم فرمائیں وہی صواب ہے ۔ یہ صریح افترا ہے جو کسی مسلمان کی شان نہیں ۔ چہ جائیکہ وہ '' محدثِ شہیر'' اور ''علاّمہ کبیر'' بھی ہو ۔ گفتگو حافظ ذہبی کے قول اسنادہ وسط ۔پر ہو رہی ہے ۔ نیموی نے اس پر اعتراض کیا اور کہا :
قول الذھبی اسنادہ وسط لیس بصواب بل اسنادہ دون وسط
تو اس کے جواب میں حضرت الشیخ قدس سرہ نے فرمایا :
فلما حکم الذھبی بان اسنادہ وسط بعد ذکر الجرح والتعدیل فی عیسی بن جاریة وھو من اھل الاستقراء التام فی فقد الرجال فحکمہ بان اسنادہ وسط ھو الصواب ویؤیدہ اخراج ابن خزیمة وابن حبان ھذ الحدیث فی صحیحیھما ولا یلتفت الی ما قال النیموی ویشھد لحدیث جابر ھذا حدیث عائشة المذکورہ ما کان یزید فی رمضان ولا فی غیرہ علی احدی عشرة رکعة انتھی (تحفة الاحوذی ص ٧٤ ج ٢)
سیاق کلام پر غور کیجئے ! صاف ظاہر ہے کہ حضرت الشیخ نے نیموی کے قول لیس بصواب کے جواب میں ذہبی کے اس فیصلہ کو ھوالصواب کہا ہے ۔ کوئی ضابطہ کلیہ نہیں بیان کیا ہے کہ ''نقد رجال کے باب میں ذہبی جو حکم فرمائیں وہی صواب'' ۔ اور پھر ذہبی کے اس فیصلہ کی مولانا نے جو تصویب فرمائی ہے تو محض تقلیداً نہیں بلکہ ساتھ ہی اس کی تین دلیلیں دی ہیں ۔
١۔ پہلی دلیل تو یہ دی کہ ذہبی نے یہ فیصلہ عیسی بن جاریہ کے متعلق جرح و تعدیل دونوں کے ذکر کرنے اور ان دونوں کے فرقِ مراتب کو سمجھنے کے بعد کیا ہے اور نیموی کی نگاہ صرف جرحوں پر ہے ۔ جیسا کہ مؤلفِ ''رکعاتِ تراویح'' کو خود اس کا اعتراف ہے ۔ لکھتے ہیں :
''حافظ ذہبی کا اس کی اسناد کو وسط کہنا خود انہی کی ذکر کی ہوئی ان جرحوں کے پیش نظر جو انہوں نے عیسیٰ کے حق میں ائمہ فن سے نقل کی ہیں ۔ حیرت انگیز اور بہت قابل غور ہے ۔ اسی وجہ سے علامہ شوق نیموی نے اس کو ناصواب قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ متوسط نہیں بلکہ اس سے بھی گھٹیا ہے '' ۔ ( ص ٣١) ۔
بتائیے ! اس عبارت میں جرحوں کے سوا تعدیل کا بھی کہیں ذکر ہے بس جرحوں پر نگاہ ہے ۔ حالانکہ ذہبی نے امام ابوزرعہ کی تعدیل بھی نقل کی ہے وہ ابوزرعہ جن کی خصوصیات اور کمالِ فن کو حافظ ابن حجر نے تہذیب التہذیب میں تقریبا تین صفے میں ذکر کیے ہیں ۔ سب سے پہلا لفظ یہ ہے : ابوذرعة الرازی احد الائمة الحفاظ ۔ اسحق بن راہویہ نے ان کے متعلق کہا ہے : کل حدیث لا یعرفہ ابوزرعة لیس لہ اصل (ابوزرعہ جس حدیث کو نہ پہچانیں سمجھ جاؤ کہ وہ حدیث بے اصل ہے ) ۔ اور اسحق بن راہویہ جنہوں نے ابوزرعہ کی یہ تعریف کی ہے خود ان کا مرتبہ کیا ہے ۔ حافظ ابن حجر لکھتے ہیں : ۔
امیر المؤمنین فی الحدیث والفقہ اسحق بن ابراھیم الحنظلی المعرون بابن راھویہ (مقدمہ فتح ص ٥)
(یعنی وہ حدیث اور فقہ میں امیر المؤمنین ہیں ) ۔
یہاں یہ شبہ ہو سکتا تھا کہ ذہبی کی طرح نیموی کی نگاہ بھی جرح اور تعدیل دونوں پر ہے ۔ مگر نیموی کے نزدیک جرح کے مقابلہ میں تعدیل معتبر نہیں ہے ۔
اسی دخل مقدر کے دفع کرنے کے لئے حضرت الشیخ رحمہ اللہ نے حافظ ابن حجر کی شہادت پیش کی ہے اور بتایا ہے کہ جس فن میں گفتگو ہے اس میں ذہبی اور نیموی کا مقابلہ، ایک ماہر فن اور اناڑی کا مقابلہ ہے ۔ اس لئے ظاہر ہے کہ ایسی صورت میں ماہر فن کی بات مانی جائے گی ۔ اناڑی کی کون سنتا ہے ۔ فلا یلتفت الی ما قال النیموی
٢۔ دوسری دلیل یہ ہے کہ ابن خزیمہ اور ابن حبان دونوں نے اس حدیث کو اسی سند کے ساتھ اپنی اپنی ''صحیح'' میں روایت کیا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان دونوں حضرات کے نزدیک یہ روایت صحیح ہے ۔ اس سے بھی ذہبی کے فیصلہ کی تائید ہوتی ہے ۔
٣۔ تیسری دلیل ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا کی وہ حدیث اس کی شاہد ہے جس میں انہوں نے یہ بیان کیا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم رمضان ہو یا غیر رمضان گیارہ رکعات مع وتر سے زیادہ نہیں پڑھتے تھے ۔
یہی وہ جواب ہے جس کو ''علامہ'' مئوی نے ''مقلدانہ'' کہا ہے ۔ سچ ہے

ع حسود راچہ کنم کہ راضی نہ می شود​

قولہ : تو پھر اس کی کیا وجہ ہے کہ جناب نے اس مقام پر جہاں ذہبی نے ایک حدیث کے باب میں فیصلہ کیا ہے کہ ... وہاں آپ نے لکھ دیا کہ اس سے دل مطمئن نہیں ہے اور یہ فرما دیا کہ: جواب الذھبی محتاج الی الدلیل (دیکھو ابکار المنن ص ٥٠ و رکعات ٣١ )
ج : یہ اعتراض تو آپ کے اس مفروضہ کی بنا پر ہے کہ مولانا نے یہ لکھا ہے کہ ذہبی کی بت بلا دلیل مان لو ۔ حالانکہ مولانا نے یہ ہرگز نںیے لکھا ہے اور نہ حدیث جابر زیر بحث کی بابت ذہبی کے فیصلہ کو مولانا نے لا دلیل مانا ہے ۔ ان دونوں باتوں کی تفصیل پہلے گذر چکی ہے ۔ اس لئے محولہ بالا مقام پر مولانا نے اگر یہ لکھا کہ ''ذہبی کا جواب محتاج دلیل ہے '' ۔ تو تحفت الاحوذی والی بات کے وہ ہرگز معارض نہیں ۔
ذہبی کے فضل و کمال کا اعتراف نیموی کے مقابلہ میں ہے ۔ یہ منشا نہیں ہے کہ جہاں کہیں بھی رواة کے جرح و تعدیل کی بحث آئے ، ہر مقام پر ، اور دنیا کے ہر محدث کے مقابلے میں ذہبی ہی کا فیصلہ صواب ہو گا ۔ یہ مفروضہ تو محض آپ کے ذہن کی اختراع ہے ۔ جو اپنی محدثیت کا رنگ جمانے کے لئے آپ نے گھڑ لیا ہے ۔
قولہ : اور جب ذہبی کو آپ رجال کے حالات سے ایسا با خبر مانتے ہیں تو محمد بن عبدالملک کے حق میں جو انہوں نے فیصلہ کیا ہے کہ لیس بحجة یکتب حدیثہ اعتباراً ، تو آپ نے اس کو یہ کہہ کر کیوں رد کر دیا کہ جرح من غیر بیان السبب فلا یقدح (ابکار المنن ص ٧٨ و رکعات ص ٢١ ، ٢٢) ۔
ج : اس لئے رد کر دیا کہ ابکار المنن میں ساتھ ہی یہ بھی بتا دیا گیا ہے کہ محمد بن عبدالملک کی اس حدیث پر امام ابوداؤد اور امام منذری نے سکوت کیا ہے اور بقول علامہ نیموی ان دونوں کا کسی حدیث پر کلام کرنے سے سکوت کر جانا اس بات کی دلیل ہے کہ ان کے نزدیک یہ حدیث قابلِ احتجاج ہے ۔ وقال القاری فی المرقاة قال النووی حسن نقلہ میرک و قال ابن البھمام اسنادہ صحیح انتھی وقال الشوکانی فی نیل الاوطار صححہ ابن خزیمة انتھی
ان اقوال سے بھی محمد بن عبدالملک وغیرہ جو اس حدیث کے راوی ہیں ان کی تعدیل ثابت ہوتی ہے ۔ ان کے علاوہ ابکار المننن میں صراحة بھی یہ بتا دیا گیا ہے کہ محمد بن عبدالملک کی امام ابن حبان نے توثیق کی ہے اور حافظ ابن حجر نے تقریب التہذیب میں ان کو ''مقبول'' کہا ہے اور پچھلے صفحات میں محدثین کے اس قاعدہ کا حوالہ گذر چکا ہے کہ جب کسی راوی کی تعدیل و توثیق کسی حاذق اور ماہر فن محدث نے کی ہو تو اس کے حق میں جرح مفسر ہی مقبول ہو گی ۔ غیر مفسر اور مبہم جرحوں کا اعتبار نہ ہو گا ۔
ذہبی کو رجال کے حالات سے ''ایسا با خبر'' آپ کے ''علامہ'' نیموی کے مقابلے میں مانا گیا ہے ۔ یہ نہیں کہا ہے کہ دنیا میں کوئی محدث ذہبی کے ٹکر کا گذرا ہی نہیں ہے اور نہ یہ کہا گیا ہے کہ ذہبی کے فیصلہ کے مقابلہ میں اصول و قواعدِ محدثین کی پابندی بھی چھوڑ دی جائے گی ۔

قولہ : کوئی انصاف سے بتائے کہ جب ذہبی رجال کے حالات کا پورا پورا استقراء رکھتے ہیں تو محمد بن عبدالملک پر ان کی جرح بے سبب نہیں ہو سکتی ... لیکن جب تک وہ اسباب بیان نہ کریں ، مولانا عبدالرحمن ان کی جرح کو ماننے کے لئے تیار نہیں ہیں ۔ تو ہم سے وہ کیوں مطالبہ کرتے ہیں کہ ذہبی نے جو اسناد کو وسط کہہ دیا ہے بے سبب بیان کئے ہوئے اس کو تسلیم کر لو ۔ اس لئے کہ ذہبی اہل استقراء تام سے ہیں ۔ کیا حافظ ابن حجر کا حوالہ صرف ہم پر رعب جمانے کے لئے ہے ۔ اپنے عمل کرنے کے لئے نہیں ہے (رکعات ص ٢٣)
ج : ''علامہ'' مئوی اپنے زعم میں اس اعتراض کو بڑا گہرا ''نقطہ'' اور بڑی شدید ''گرفت'' سمجھ رہے ہیں ۔ اسی لئے قدرتی طور پر ان کی طبیعت میں جوش اور قلم میں زور پیدا ہو گیا ہے اور کیا عجب ہے جو حلقہ ارادت بھی جھوم اٹھا ہو ۔ اور ''علامہ'' کو اس ''نکتہ'' پر خوب خوب داد ملی ہو ۔ لیکن ''علامہ'' کو خبر نہیں کہ ذہبی ابن حبان ، ابن حجر یہ تینوں حضرات حذاقِ فن سے ہیں ۔ اور ہم ابھی بتا چکے ہیں کہ محمد بن عبدالملک پر اگر ذہبی نے جرح کی ہے تو ابن حبان اور حافظ ابن حجر نے اس کی توثیق و تعدیل کی ہے ۔ اس طرح یہ راوی مختلف فیہ ہو جاتا ہے اور مختلف فیہ راوی کے متعلق جمہور محدثین کا فیصلہ یہ ہے کہ جرح تو مفسر ہی مقبول ہو گی ۔ بغیر سبب بیان کئے ہوئے جرح کا اعتبار نہیں ہو گا ۔ ہاں تعدیل کے لئے سبب کا بیان کرنا ضروری نہیں ہے ۔ یہ مبہم بھی مقبول ہو جائے گی ۔ اس کے کچھ حوالے ہم پہلے نقل کر چکے ہیں ۔ مزید تفصیل کے لئے کتاب الرفع و التکمیل ص ١٠ ، ١١ ملا حظہ کیجئے ۔
اس قاعدہ کی رو سے ذہبی کے دونوں فیصلوں کے درمیان وجہ فرق بالکل ظاہر ہے یعنی لیس بحجة یہ جرح ہے ۔ اس لئے مختل فیہ راوی (محمد بن عبدالملک) کے حق میں بغیر سبب بیان کئے ہوئے معتبر نہیں اور اسنادہ وسط یہ تعدیل ہے ۔ اس لئے مختلف فیہ راوی (عیسی بن جاریہ) کے حق میں بلا سبب بیان کئے ہوئے بھی معتبر اور مقبول ہے
کہئے جناب ! اب تو بے انصافی نہیں ہے ؟ ۔
یہ بھی سمجھ میں آ گیا ہو گا کہ حافظ ابن حجر کا حوالہ ''صرف آپ پر رعب جمانے کے لئے نہیں '' ہے ، اپنے عمل کے لئے بھی ہے ۔

قولہ : اس سے بڑھ کر تعجب کی بات جو مولانا کی شان تقدس اور عالمانہ احتیاط کے بالکل منافی ہے یہ ہے کہ انہوں نے حافظ ابن حجر کا کلام بالکل ادھورا نقل کیا ہے اور ابن حجر نے ان کو اہل استقرء تام قرار دے کر ان کے جس فیصلہ کی اہمیت و قوت ظاہر کی ہے ، اس کو بالکل چھوڑ گئے ۔ اور اس کی جگہ اپنی طرف سے ذہبی کے ایک دوسرے فیصلہ کی قوت ثابت کرنے لگے ۔ (رکعات ٣٢) ۔
ج : اولاً ان سب سے بڑھ کر تعجب تو آپ کے اس نرے پروپیگنڈائی اعتراض پر ہے جو خود آپ کی ''شان تقدس''اور ''عالمانہ احتیاط'' کے بالکل منافی ہے ۔ کسی کا کلام ''ادھورا'' نقل کرنا اس صورت میں قابل اعتراض اور مستحق ملام ہے ، جب اس کلام کے بعض حصے جو اپنے مذہب اور مطلب کے لئے مفید معلوم ہوں ، ان کو لے لیا جائے اور جو حصہ اپنے مسلک اور مطلب کے لئے مضر یا خلاف معلوم ہو اس کو چھوڑ دیا جائے ۔ جیسا کہ آپ نے خود اسی ''رکعاتِ تراویح' ' کے بیشتر مقامات میں ایسا کیا ہے ۔ اور ہم نے آپ کو اس پر ٹوکا ہے یا جیسے آپ کے ''علامہ'' شوق نیموی نے اپنی کتاب ''آثارالسنن'' میں جا بجا یہ حرکت کی ہے اور حضرت محدث مبارکپوری علیہ الرحمہ نے ''ابکار المنن'' میں اس پر گرفت کی ہے ۔ مثلاً ایک جگہ لکھتے ہیں :
قلت قد خان النیموی فی نقل کلام الحافظ من الدرایة فلم ینقلہ بتمامہ بل نقل بقدر ما ینفعہ و ترک ما یضرہ فعلینا ان ننقل کلام الحافظ بتمامہ وکما لہ لتنجلی حقیقة الحال (ابکار المنن ص ٦٣)
یعنی نیموی نے حافظ ابن حجر کے کلام کو ''درایہ'' سے نقل کرنے میں خیانت کی ہے ۔ جتنا حصہ اپنے مذہب کے لئے مفید معلوم ہوا اتنا نقل کر دیا اور جو حصہ مضر معلوم ہوا اس کو چھوڑ دیا ۔ اس لئے ضروری ہے کہ میں حافظ کا پورا کلام یہاں نقل کر دوں ، تاکہ حقیقتِ حال واضح ہو جائے ۔
یا یہ صورت ہو کہ کسی عبارت کے بعض حصے کو نقلکرنے اور بعض حصے کو چھوڑ دینے سے کلام میں منشا بالکل ردوبدل اور الٹ پلٹ ہو جائے ۔ جیسے آپ نے ابن تیمیہ ، سیوطی ، شوکانی وغیرہ کی عبارتوں کے بعض حصے نقل کرکے ان کو اس بات کا قائل بنادیا کہ ان کے نزدیک آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے تراویح کا کوئی عدد معین ثابت نہیں ۔حالانکہ ان کے کلام کا جو حصہ آپ نے چھوڑ دیا ہے اس میں یہ صراحت موجود ہے کہ فعل نبوی سے گیارہ رکعت تراویح ثابت ہے ۔
الغرض جب تک کسی کلام کے حذف و اختصار میں کوئی چالاکی اور فریب کاری مضمر نہ ہو اس وقت تک یہ کوئی قابل اعتراض بات نہیں ہے اور ہم سر افتخار اونچا کر کے کہتے ہیں کہ بحمد للہ محدثِ اعظم مبارک پوری رحمة اللہ علیہ کا دامن ان فریب کاریوں سے بالکل پاک ہے ۔ انہوں نے کلام کے ا س حصہ کو چھوڑ دیا ہے ، نہ وہ اہل حدیث کے مذہب کے خلاف ہے اور نہ اس کے چھوڑ دینے سے حافظ کے کلام کا منشا ردوبدل ہوتا ہے ۔
ما اہل حدیثیم دغارا انشنا سیم صد شکر کہ در مذہب ما حیلہ و فن نیست
ثانیاً : سرے سے یہ الزام ہی غلط ہے کہ مولانا مبارک پوری نے ''ابن حجرکا کلام بالکل ادھورا نقل کیا ہے'' ۔ ''علامہ'' مئوی کے کلام کا جو اقتباس ہم نے اوپر نقل کیا ہے اس پر غور کیجئے ۔ اس میں محدث اعظم مبارکپوری پر دو الزام لگائے گئے ہیں :
(الف ) انہوں نے ابن حجر کا کلام ادھورا نقل کیا ہے۔
(ب) ابن حجر نے ذہبی کو اہل استقراء تام سے قرار دے کر ان کے جس فیصلہ کی اہمیت ثابت کی ہے ،اس کو چھوڑ کر اپنی طرف سے ذہبی کے ایک دوسرے فیصلہ کی قوت ثابت کرنے لگے ۔
(الف) پہلے الزام میں کہاں تک صداقت ہے اس کو معلوم کرنے کے لئے ضروری ہے کہ وہ پوری عبارت آپ کے سامنے ہو، جو اس وقت زیر بحث ہے ۔ مولانا مئوی نے وہ عبارت شرح نخبہ کے حوالے سے خود ہی نقل کی ہے ۔ لکھتے ہیں
حافظ ابن حجر کی پوری عبارت یہ ہے قال الذھبی وھو من اھل الاستقراء التام فی نقد الرجال لم یجتمع اثنان من علماء ھذ الشان قط علی توثیق ضعیف ولا علی تضعیف ثقة انتھی (رکعات ص ٣٣)
''علامہ'' مئوی اپنی خوش فہمی سے اس پوری عبارت کو حافظ ابن حجر ہی کا ''کلام'' سمجھ رہے ہیں ۔ اسی بنیاد پر انہوں نے پہلے الزام کی عمارت کھڑی کی ہے حالانکہ یہ عبارت ابن حجر اور ذہبی دونوں کے کلاموں کا مجموعہ ہے ۔ اس عبارت میں لم یجتمع سے لے کر آخر تک یہ ذہبی کا مقولہ ہے ۔ اسی ٹکڑے کو مولانا مبارک پوری نے چھوڑ دیا ہے ۔ اور وھو من اھل الاستقراء التام فی نقد الرجل بس یہی ٹکرا حافظ ابن حجر کا ''کلام'' ہے ۔ اس کو محدث مبارک پوری علیہ الرحمہ نے پورے کا پورا نقل کیا ہے ۔ صرف اتنا تصرف کیا ہے کہ وھو کے بجائے الذھبی لکھا ہے ۔ اس کے علاوہ اس جملہ کا ایک نقطہ بھی مولانا مبارک پوری نے نہیں چھوڑا ہے ۔ پھر یہ کیسا صریح افتراء ہے کہ ''ابن حجر کا کلام بالکل ادھورا نقل کیا ہے '' ۔ (ذرا بالکل کی تاکید پر بھی غور کیجئے ) ۔ کیا ایسے لوگوں کو بھی زیب دیتا ہے کہ وہ '' شان تقدس'' اور کی باتیں کریں ؟

اتنی نہ بڑھا پاکی داماں کی حکایت زاہد
دامن کو ذرا دیکھ ذرا بندِ قبا دیکھ​

(ب) رہا دوسرا الزام تو مانا کہ نقد رجال کے باب میں ذہبی کو اہل استقراء تام قرار دے کر حافظ ابن حجر نے ان کے جس فیصلے کی اہمیت ثابت کی ہے ، مولانا مبارک پوری نے اس کو چھوڑ دیا اور اس کی بجائے اپنی طرف سے ایک دوسرے فیصلہ کو قوت پہنچائی ... لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ایسا کرنے سے حافظ ابن حجر کے کلام کو کوئی نقصان پہنچا ؟ کیا اس سے ابن حجر کے کلام کا منشاردووبدل ہو گیا ؟ یا کیا اگر مولانا مبارک پوری حافظ ذہبی کا وہ فیصلہ اپنی کتاب میں نقل کر دیتے تو اہل حدیث کے مسلک کو نقصان پہنچ جاتا ؟ اور اب جو حذف کر دیا تو اس سے مسلک اہل حدیث کوکوئی قوت پہنچ گئی ؟ اگر ان سب سوالوں کا جواب نفی میں ہے ، تو کوئی انصاف سے بتائے کہ پھر ایسی بات کا ذکر چھوڑ دینا آخر ''شان تقدس'' اور ''عالمانہ احتیاط'' کے منافی کیسے ہوا ؟ ۔

زیادہ سے زیادہ جو کچھ کہا جا سکتا ہے وہ یہ ہے کہ ایکہی بات کو دو عالموں نے دو الگ الگ موقعوں پر پیش کیا ہے ۔ یا یہ کہ دو الگ الگ نتیجے نکالے ہیں ، لیکن کسی صاحبِ ذوق سے پوچھو کہ اگر کلام اس کی صلاحیت رکھتا ہے کہ اس سے مختلف تفریعات پیدا کی جا سکیں تو ایسا کرنا اہل علم کے لئے کوئی نقص اور عیب کی بات ہے یا ہنر اور کمال کی ؟ پھر بلا وجہ پروپیگنڈائی انداز میں ایک سوال اٹھانااور طنز و تعریض کے فقرے استعمال کر کے عوام کے جذبات سے کھیلنے کی کوشش کرنا کہاں کی حق پسندی اور دیانتداری ہے ؟

قولہ : حافظ ابن حجر نے یہ نہیں کہا ہے کہ ذہبی اہل استقراء تام سے ہیں ، تو احادیث کی اسناد پر ان کا حکم صواب یہ تو مولانا مبارک پوری نے اپنی طرف سے لکھا ہے اور ذہبی کے صاحبِ استقراء تام ہونے پر اس بات کو زبردستی متضرع کر لیا ہے ۔ (رکعات ص ٣٣)
ج : یہ ضابطہ کلیہ تو مولانا مبارک پوری نے بھی نہیں لکھا ہے اور نہ ذہبی کے صاحبِ استقراء تام ہونے پر اس کو متضرع کیا ہے ۔ یہ تو آپ نے اپنی طرف سے لکھا ہے اور زبردستی مولانا مبارک پوری کے انتقال فرما جانے کے چوبیس برس بعد ان کے ذمہ لگادیاہے انا للہ الخ ۔
قولہ : ورنہ جولوگ استقراء کے معنی جانتے ہیں وہی اس بات کو سمجھ سکتے ہیں کہ جب کسی راوی کی جرح و تعدیل کا معاملہ پیش آ جائے تو اس موقع پر کسی اناڑی کی بات کو صحیح قرار دیا جائے گا ۔ یا اس کی جو نقد رجال کے باب میں صاحب استقراء تام ہو ۔ ظاہر ہے کہ اناڑی کے مقابلہ میں ماہر فن ہی کی بات قابل قبول ہو گی ۔ بس یہی بات محدث مبارک پوری علیہ الرحمہ نے بھی کہی ہے ۔جس کا تفصیلی بیان پہلے گذر چکا ۔ فافہم و تذکر ۔
قولہ : (حافظ ذہبی کے اس قول سے کہ کسی ''ثقہ راوی کو ضعیف قرار دینے پر دو ماہرین فن کا اتفاق نہیں ہوا ہے'' ۔ اسی طرح کسی ضعیف راوی کو ثقہ قرار دینے پر بھی دو ماہرین فن متفق نہیں ہوئے ہیں ) ۔ علامہ مئوی نے یہ نتیجہ نکالا ہے کہ(عیسی بن جاریہ جو حدیث جابر و زیر بحث) کا بنیادی راوی ہے ۔ چھ چھ ماہروں نے اس کی تضعیف کی ہے ۔ لہذا ذہبی کے قاعدہ سے وہ ضعیف نہیں ہو سکتا (١) دو ماہروں نے اس کی توثیق بھی کی ہے ۔ لہذا اس قاعدہ سے وہ ضعیف بھی نہیں ۔ اور جب وہ ثقہ بھی نہیں اور ضعیف بھی نہیں تو ظاہر ہے کہ اس کا حکم مجہول الحال کا ہو گا اور اس کی حدیث کا رد قبول اس کا قرار واقعی حال ہونے پر موقوف ہو گا ۔ حاصل یہکہ اس صورت میں بھی اس کی حدیث کار آمد نہیں ہو سکتی (رکعات ص ٣٣)
ج : ذہبی کے اس فیصلہ پر خود حافظ ابن حجر نے جو تفریع ذکر کی ہے وہ یہ ہے لکھتے ہیں :
ولھذا کان مذھب لسائی ان لا یترک حدیث الرجل حتی یجتمع الجمیع ترکہ انتھی
''یعنی اسی وجہ سے امام نسائی کا مذہب یہ ہے کہ کسی راوی کی حدیث اس وقت تک ترک نہیں کی جائے گی جب تک اس کے ترک پر سب متفق نہ ہو جائیں '' ۔ حافظ
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,859
ری ایکشن اسکور
41,096
پوائنٹ
1,155
(١) اصل کتاب میں ایسا ہی ہے ۔ صحت نامہ میں بھی ا س کو درست نہیں کیا گیا ہے (حالانکہ اسی سطر کی ایک دوسری غلطی کی اصلاح کی گئی ہے) لیکن یہ غلط ہے ۔ صحیح یہ ہے کہ ''وہ ثقہ نہیں ہو سکتا '' ۔ رحمانی ۔
ابن حجر کی اس تفریع کی رو سے تو عیسیٰ بن جار یہ کی حدیث قابل ترک قرار نہیں پاتی کیونکہ اس کے ترک پر سب کا اتفاق نہیں ہے ۔
''علامہ'' مئوی نے حافظ کی یہ تفریع نقل کرنے سے قصداً گریز کیا ہے ، کیونکہ ان کے منشا کے خلاف ہے حالانکہ ذہبی کے فیصلہ کے ساتھ ہی اسی شرح نخبہ میں یہ کلام بھی موجود ہے اور اس کی جگہ اپنی طرف سے ایک دوسری تفریع ذہبی کے اس فیصلہ کے ساتھ زبردستی جوڑ دی ہے ۔ گویا ابھی چند منٹ پہلے حضرت محدث اعظم مبارک پوری غفراللہ کو جس الزام میں بلا وجہ مطعون کر رہے تھے ، خدا کی شان خود ہی اس کا شکار ہو گئے سچ ہے :

گر خدا خواہد کہ پردہ کس درد
میلش اندر طعنہ پاکاں دہد​

بہر حال ابن حجر کی اس تفریع سے اور اس بات سے بھی قطع نظر کرتے ہوئے کہ جس راوی کی جرح و تعدیل کی بابت ائمہ کا اختلاف ہو ۔ عندالمحدثین اس کا کیا حکم ہے ، بالفرض اگر ہم ''علامہ'' مئوی کی اس خوش فہمی کو تسلیم کر لیں کہ ایسا راوی بقاعدہ: ذہبی ثقہ بھی نہیں اور ضعیف بھی نہیں ۔ لہذا اس کا حکم مجہول الحال راوی کا ہو گا ... تو یاد رکھئے کہ اس کی زد صرف غریب عیسی بن جاریہ ہی پر نہیں پڑے گی ، بلکہ عیسی سے زیادہ اس کی چوٹ امام اعظم ابو حنیفہ رحمة اللہ علیہ پر پڑے گی ۔

اس لئے کہ اگر عیسی کی تضعیف چھ چھ ماہروں نے کی ہے تو امام ابو حنیفہ رحمة اللہ علیہ کی تضعیف نو نو ماہروں نے کی ہے ۔ امام بخاری ، نسائی ، ابن المدینی ، ابن عبدالبر ، دارقطنی ، ابن عدی ، ابن القطان، ذہبی ، سفیان ثوری ۔ ان سب نے روایت حدیث کی بابت (ورع و تقوے سے قطع نظر) امام صاحب پر جرح کی ہے اور ابن معین ، ابن المدینی ، شعبہ ، سفیان ، ان چار ماہروں نے (جن میں بعض کا نام جارحین کی فہرست میں بھی ہے) امام صاحب کی توثیق کی ہے (ملاحظہ ہو تحقیق الکلام حصہ دوم از ص ١٣٨ تا ١٤٧ طبع اول) ۔

اب ''علامہ'' مئو ی کے زعم کے مطابق بقاعدہ ذہبی ، امام صاحب نہ ثقہ ہو سکتے ہیں اور نہ ضعیف ۔ لہذا وہ مجہول الحال کے حکم میں ہوں گے ۔ تاوقت یہ کہ ان کا قرار واقعی حال معلوم نہ ہو جائے ان کی کوئی حدیث کار آمد نہیں ہو سکتی ۔
اگر ''علامہ'' مئوی امام اعظم ہی کی صف میں عیسی بن جاریہ کو بھی کھڑا کرتے ہیں تو چلئے یہی سہی ۔ ہم کو بھی منظور ہے ، لیکن صاف صاف اس کا اعلان کریں کہ امام ابوحنیفہ اور عیسی بن جاریہ دونوں ایک ہی درجہ کے راوی ہیں ۔

ع مشکل بہت پڑے گی برابر کی چوٹ ہے​

عیسی بن جاریہ کے خلاف ''علامہ'' مئوی کے ترکش کا یہ آخری تیر تھا۔ والحمد للہ وہ بھی نشانہ سے خطا کر گیا اور الٹا انہی کو زخمی کر گیا ۔ اب ان کا میگزین بالکل خالی ہے ۔ اس لئے عیسی کی جرح و تعدیل کی بحث بھی ختم ہو گئی ۔
آپ نے دیکھا کہ ''علامہ'' مئوی نے اس حدیث سے جان چھڑانے کے لئے کیسے کیسے ''کرتب'' دکھائے اور کس کس طرح ہاتھ پاؤں مارے ... مگر نہ عیسی کا ضعف ثابت کر سکے اور نہ اس کی حدیث کا ناقابل قبول ہونا ۔ اسلئے کہ شعبدہ بازیوں سے حقیقت نہں بدلا کرتی ۔
اب ہم چاہتے ہیں کہ حضرت جابر کی زیر بحث حدیث کے متعلق اکابر علماء امت کی (جن میں اکثر حنفی ہیں ) کچھ شہادتیں بھی آپ کے سامنے پیش کر دیں ۔ جن سے ثابت ہوتا ہے ۔ کہ ان کے نزدیک یہ حدیث صحیح اور قابلِ حجت ہے ۔ اس سے اچھی طرح واضح ہو جائے گا کہ ''علامہ'' مئوی نے اس حدیث کی اسناد پر جو رد و قدح کی ہے وہ محض ان کی زبردستی ہے اور ضد میں آ کر انہوں نے اپنے علمائے احناف کے فیصلے کے خلاف بھی ایک مقبول حدیث کو رد کرنے کی کوشش کی ہے ۔

حنفی علما اور غیر حنفی علماء کی شہادتیں
(١) امام ابن حبان اور ان کے استاذ امام ابن خزیمہ ان دونوں حضرات نے حضرت جابر کی اس حدیث کوا پنی اپنی ''صحیح'' میں روایت کیا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان دونوں کے نزدیک بلا شبہ یہ حدیث صحیح ہے ۔
حافظ ابن الصلاح اپنے مقدمہ میں لکھتے ہیں :
ویکفی مجرد کونہ موجود انی فی کتاب من اشترط منہم الصحیح فیما جمعہ ککتا ب ابن خزیمة الخ (ص٩ طبع مصر)
یعنی کسی حدیث کے صحیح ہونے کے لئے اتنا کافی ہے کہ وہ ان کتابوں میں موجود ہے جن کے مؤلفین نے اپنی کتابوں میں صحیح احادیث لانے کا التزام کیا ہے ۔ جیسے ابن خزیمہ کی کتاب '' الصحیح لابن خزیمہ '' ۔
'' علامہ'' مئوی نے ایک دو جگہ نہیں بلکہ اپنی کتاب کے متعدد مقامات میں ابن الصلاح کے اقوال کو استنادًا و احتجاجًا بڑے شدو مد سے پیش کیا ہے ۔ دیکھیں اب وہ اس حوالہ کی بابت کیا فرماتے ہیں ؟ اسی سے اندازہ ہوگا کہ ابن الصلاح کا نام بار بار صرف ہم پر رعب جمانے کے لئے لیا گیا ہے یا اپنے عمل کرنے کے لئے بھی ہے ؟
(٢) حافظ ابن حجر نے فتح الباری میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے فعل سے تراویح کا عدد ثابت کرنے کے لئے اسی روایت کو پیش کیا ہے ۔ چنانچہ لکھتے ہیں :
ولم ارفی شیٔ من طرقة بیان عدد صلوتہ فی تلک اللیالی لکن روی ابن خزیمة وابن حبان من حدیث جابر قال صلی بنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فی رمضان ثمان رکعات ثم اوتر الحدیث ۔ (فتح الباری طبع ولی ص٥٩٧)
حافظ نے اس روایت پر قطعًا کسی قسم کی کوئی جرح نہیں کی ہے ، بلکہ بلا کسی ردّ و انکار اور جرح وقدح کے اسستدلالاً اس کو پیش کیا ہے ۔ مولانا مئوی کے اختیار کردہ اصول کے مطابق یہ زبردست دلیل ہے ۔ اس بات کی کہ حافظ کے نزدیک یہ روایت بلا شبہہ صحیح اور قابل احتجاج ہے ۔
(٢) دوسری بات یہ ہے کہ احناف وتر کے وجوب کے قائل ہیں ۔ حافظ ابن حجر نے درایہ فی تخریج احادیث الہدایہ میں ان کے اس مسلک کی تردید کی ہے اور حنفیہ کے خلاف دلیل میں اسی حدیث کو پیش کیا ہے ۔ لکھتے ہیں :
ویعارض القول بوجوبہ حدیث جابر ان النبی صلی اللہ علیہ وسلم قام بہم فی رمضان فصلی ثمان رکعات واوتر ثم انتظروہ من القابلة فلم یخرج الیہم فسالوہ فقال خشیت ان یکتب علیکم الوتر اخرجہ ابن حبان ہٰکذا انتہی ۔ (ص١١٣ )
اس سے ثابت ہوتا ہے کہ حافظ ابن حجر کے نزدیک یہ حدیث نامقبول نہیں ہے ۔ بلکہ مقبول اور قابل احتجاج ہے ۔
(٣) علامہ جلال الدین سیوطی نے ابن عبدالبر کا یہ قول بلا ردّ و انکار نقل کیا ہے :
واخرج ابن حبان فی صحیحہ من حدیث جابر انہ صلی اللہ علیہ وسلم صلی بہم ثمان رکعات ثم اوتر وہٰذا صح انتہیٰ۔ (تنویر الحوالک ص١٠٣ ج١)
المصابیح فی صلوٰة ا لتراویح میں بھی سیوطی نے اس حدیث کو معرض استدلال و احتجاج میں پیش کیا ہے ۔
(٤) علامہ زرقانی نے بھی ابن عبدالبر کا قول مذکور بلا کسی ادنیٰ انکار کے نقل کیا ہے ۔ (دیکھو زرقانی ، جلد اوّل ص٢١٠ ج١ طبع مصر )
(٥) علامہ شوکانی نے اس حدیث سے بلا کسی جرح کے تراویح کی تعداد پر استدلال کیا ہے اور اس کے مقابلہ میں بیس والی مرفوع روایت کی تضعیف کی ہے (حوالہ پہلے گزر چکا ہے ) ۔
یہی وہ شوکانی ہیں جن کی ایک عبارت کا بالکل ادھورا ٹکڑا نقل کر کے مولانا مئوی نے یہ مغالطہ دیا ہے کہ شوکانی کے نزدیک آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے تراویح کا کوئی معین عدد ثابت نہیں ہے ۔
(٦) علامہ عینی (حنفی) نے بھی فعل نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے رکعاتِ تراویح کا عدد معین اسی حدیث سے ثابت کیا ہے ۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کے نزدیک یہ حدیث صحیح اور قابل احتجاج ہے ۔ (حوالہ پہلے بتایا جا چکا ہے )۔
(٧) علامہ ابن الہمام (حنفی) نے فتح القدیر جلد اوّل ص١٨١ میں یہ حدیث پیش کی ہے اور اس پر کسی قسم کا کلام کرنے سے بالکل سکوت اختیار کیا ہے ۔ معلوم ہوا کہ ان کو بھی اس کی صحت تسلیم ہے ۔
(٩) ملا علی قاری (حنفی) نے اپنے استاذ ابن حجر مکی کا یہ قول بلا کسی ردّ و کد کے نقل کیا ہے :
وفی صحیحی ابن خزیمة وابن حبان انہ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) صلی بہم ثمان رکعات والوتر ۔ (مرقاة)
بلکہ دوسری جگہ تو صحت کی صراحت ہی کر دی ہے ۔ لکھتے ہیں : انہ صح عنہ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) صلی بھم ثمان رکعات والوتر (مرقاة ص ١٧٤ ج ٢) یعنی صحیح طور پر یہ ثابت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تراویح کی آٹھ رکعتیں پڑھائیں اور اس کے بعد وتر پڑھایا ۔
١٠۔ مولانا انور شاہ کشمیری (حنفی) لکھتے ہیں :
اذا التراویح التی صلاھا صلی اللہ علیہ وسلم فی رمضان بھم کانت احدی عشرة رکعة کما عند ابن خزیمة ومحمد بن نصر و ابن حبان عن جابر ثمان رکعات واوتر ثلاث ھناک ایضا کما ھٰھنا انتھی (کشف الستر ص ٢٧ ، ٣٣)
یعنی ''رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تراویح کی جو نماز صحابہ کو پڑھائی تھی وہ کل گیارہ رکعت تھی ۔ تین وتر اور آٹھ تراویح ، جیسا کہ حضرت جابر سے ابن حبان وغیرہ میں مروی ہے'' ... مولانا انور شاہ نے اس حدیث کو تین رکعت وتر کے ثبوت میں پیش کیا ہے ۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کے نزدیک حضرت جابر کی یہ روایت صحیح اور قابل احتجاج ہے ۔
اکابر دیوبند کی نظروں میں مولانا انور شاہ کے علم و فضل کا کیا مقام ہے ۔ یہ پہلے ہم آپ کو با حوالہ بتا چکے ہیں ۔ اس لئے ان کے اس فیصلہ کے بعد تو اب کسی دیوبندی حنفی کو اس حدیث کے قبول کرنے میں کوئی تامل ہی نہ ہونا چاہیئے، مگر ضد اور عناد کو کیا کیا جائے ۔
فائدہ : اگر کوئی کہے کہ بعض علماء کا حدیث جابر کو نقل کر کے اس پر سکوت کرنے سے یہ لازم نہیں آتا کہ ان کے نزدیک یہ حدیث صحیح اور قابل قبول ہے ۔ تو اس کا جواب یہ ہے کہ ہمارے مقابل مولانا حبیب الرحمن صاحب اعظمی مئوی نے اپنی کتاب (رکعاتِ تراویح) میں کئی جگہ اس طریق استدلال سے کام لیا ہے اس لئے ہم نے بھی ان کے جواب میں یہی طریقہ اختیار کیا ہے چنانچہ وہ لکھتے ہیں
(الف) ''اور مولانا عبدالرحمن مبارکپوری نے ابکار المننن مںا سخاوی کے حوالہ سے بغیر رد و کد کے یہ لکھا ہے '' ...... (ص ٢٨) ۔
(ب) ''بلکہ تحفت الاحوذی جلد ٢ ص ٧٦ میں اس کو نقل بھی کیا ہے اور امکان تطبیق و دفع تعارض پر کوئی اعتراض بھی نہیں کیا ہے جس سے ظاہر ہے کہ ان کو یہ امکان تسلیم ہے '' ۔ (ص ٥٠ ، ٥١) ۔
(ج) نیز حافظ ذہبی نے اپنے مختصر میں ابن تیمیہ کے اس استدلال پر ادنی کلام نہیں کیا ۔ یہ دلیل ہے کہ ان کے نزدیک ابنِ تیمیہ کا یہ استدلال اور اثر دونوں صحیح ہیں ۔ (صفحہ ٧٢) ۔
(د) ''اور یہی وجہ ہے کہ نواب صدیق حسن صاحب نے ان کو ذکر کرکے کوئی اعتراض نہیں کیا ، بلکہ سکوت اختیار کیا ہے '' ۔ (ص ٨٦) ۔
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,859
ری ایکشن اسکور
41,096
پوائنٹ
1,155
اہل حدیث کی تیسری دلیل پر بحث اور اس کا جواب
سلسلہ بحث سمجھنے میں سہولت ہو گی اگر اس تیسری حدیث پر ایک مرتبہ پھر نگاہ ڈال لیں جس کو ہم نے ''آٹھ رکعتوں کے ثبوت '' کے ذیل میں پیش کیا ہے ۔
''علامہ مئوی'' اس پر اپنی بحث کا آغا ز کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
قولہ : اس کی نسبت ہماری پہلی گذارش یہ ہے کہ اس روایت کو حافظ عبداللہ صاحب نے قیام اللیل سے نقل کیا ہے اور قیام اللیل میں اس کی سند بعینہ وہی ہے جو حضرت جابر کی مذکورہ بالا حدیث کی سند ہے ۔ یعنی اس کے بھی راوی وہی حضرت عیسی بن جاریہ ہیں جس کا مفصل حال ہم بیان کر چکے ہیں ۔ لہذا یہ روایت بھی قابل احتجاج و استدلال نہیں ہے ۔ (رکعات ٣٤)
ج : عیسیٰ بن جاریہ پر جتنی جرحیں کی گئی ہیں اور ان جرحوں کے ساتھ ان کی جو تعدیل و توثیق کی گئی ہے ان دونوں کا مفصل حال محدثین کے قواعد و اصول کی روشنی میں ہم آپ کو بتا چکے ہیں اور اچھی طرح یہ ثابت کر دیا ہے کہ عیسیٰ پر کی گئی جرحیں سب غیر مقبول ہیں اور ان کے مقابلہ میں ان کی تعدیل و توثیق ہی مقبول و معتبر ہے ۔ لہذا جس طرح ان کی پہلی روایت (خود اکابر علماء حنفیہ کے اعتراف و تسلیم کے مطابق) قابلِ احتجاج و استدلال ہے ۔ اسی طرح ان کی یہ دوسری روایت بھی بلا شبہ قابل احتجاج و استدلال ہے اور آپ کی ساری بحث محض ضد اور عناد پر مبنی ہے ۔
قولہ : غالباً یہی وجہ ہے کہ اس روایت کو مولانا عبدالرحمن صاحب قیام اللیل سے نہیں نقل کرتے ۔ حالانکہ ان کے استاذ حافظ صاحب نے اسی سے نقل کیا ۔ مولانا خوب سمجھتے تھے کہ قیام اللیل سے نقل کرنے میں اس کی اسناد کو صحیح ثابت کرنا پڑے گا اور یہ ممکن نہیںہے۔ اس لئے انہوں نے مجمع الزوائد سے نقل کیا کہ اس میں تو سند مذکور ہوتی نہیں ہے ۔ لہذا سند کو ذکر کرنے اور اس کی صحت ثابت کرنے کا بوجھ نہ پڑے گا اور چونکہ ہیثمی نے اس کی سند نقل کیے بغیر اس کو حسن کہ دیا ہے لہذا دوسروں کو مرعوب بھی کر دیا جائے گاکہ دیکھو ہیثمی نے اس کی سند کو حسن کہا ہے ، لیکن افسوس ہے کہ یہ تدبیر کارگر نہیں ہوئی ۔ قیام اللیل سے اس کی سند کا حال زار معلوم ہو گیا ۔ (رکعات ص )
ج : داد دیجئے ''علامہ'' مئوی کو اس ''ذہانت'' کی ۔ کیسی دور کی کوڑی لائے ہیں ۔

ع تیر ظفر اس طبعِ خدا داد کو شاباش​

کوئی پوچھے ان بھلے مانس سے کہ حضرت حافظ غازی پوری رحمة اللہ علیہ کے بتانے سے (اپنی تحقیق سے نہیں) جب آپ کو اس کی سند قیام اللیل میں مل گئی اور پتہ چل گیا کہ اس روایت کی سند میں بھی وہی عیسیٰ بن جاریہ ہیں جن کی جرح و تعدیل پر محدث مبارک پوری قدس سرہ تحفت الاحوذی میں گفتگو فرما چکے ہیں ...... تو اب اس تک بندی کا کیا موقع رہا کہ مولانا مبارک پوری قدس سرہ نے جن بوجھ کر اس کی سند چھپانے کی کوشش کی ہے ۔ اس تہمت کی گنجائش تو اس وقت نکل سکتی تھی جب کہ اس کی سند میں کوئی ایسا راوی ہوتا جس کی جرح و تعدیل پر شیخ مبارک پوری مرحوم نے کوئی گفتگو نہ فرمائی ہوتی اور آپ اپنی وسعتِ معلومات سے اس کا پتہ لگا لیتے ۔ جب وہی راوی ہے جس کی تعدیل وہ پہلے ثابت کر چکے ہیں تو اب اس کے اظہار سے گھبرانے کے کیا معنی ؟ اس بوجھ کو تو وہ اپنے کندھوں سے اتار چکے اور اس کی صحت ثابت کر چکے ہیں ۔
رہا یہ سوال کہ پھر قیام اللیل کا حوالہ کیوں نہیں دیا اور صرف مجمع الزوائد کے حوالہ پر اکتفا کیوں فرمایا ؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ حضرت حافظ صاحب غازی پوری علیہ الرحمہ کی کتاب (رکعات التراویح) تحفت الاحوذی جلد ثانی کی اشاعت سے برسوں پہلے شائع ہوکر اہل حدیث اور احناف ، عوام اور خواص سب کے ہاتھوں میں پہنچ چکی تھی ۔ اور لوگوں کو اس روایت کی سند کا علم ہو چکا تھا ، لیکن حافظ صاحب کی کتاب میں مجمع الزوائد کا حوالہ اور ہیثمی کی تحسین کا ذکر نہیں ہے ۔ غالباً انہوں نے اس کی ضرورت نہیں سمجھی ۔ کیونکہ پہلی روایت اور اس کی سند کی صحت پر وہ تفصیلی گفتگو فرما چکے تھے ۔ مگر محدث مبارک پوری علیہ الرحمہ کو احناف کی نفسیات کا زیادہ علم تھا ۔ انہوں نے قیام اللیل کے حوالہ کے بعد ہیثمی کی تحسین کو نظر انداز کرنا مناسب نہیں سمجھا اور اس طرح اپنے استاذ جناب حافظ صاحب مرحوم کے حوالہ کو مزید تقویت پہنچا دی ۔ گویا یہ کوئی مستقل حوالہ نہیں ، بلکہ دراصل حافظ صاحب کے حوالہ کا تتمہ و تکملہ ہے اور جس طرح دوسری روایت کی بابت ہیثمی کا فیصلہ ''اسنادہ حسن'' اس کی تقویت کا موجب ہے ۔
اسی لئے ''علامہ '' مئوی کو یہ حوالہ کھل گیا اور وہ محدث مبارک پوری سے ناراض ہو گئے ۔ وہ تو سمجھے تھے کہ عیسٰی کو ''مجروح کہہ کر اپنی جان چھڑا لیں گے''مگر جب دیکھا کہ علامہ ہیثمی جیسا مشہور محدث عیسی بن جاریہ کے باوجود اس کی اسناد کو ''حسن'' کہ رہا ہے ۔ اب تو کسی ایرے غیرے کی یہ بات نہیں چل سکتی کہ ''عیسی'' بن جاریہ کی وجہ سے یہ روایت بھی قابل وثوق نہیں ہے ۔ تو برہم ہو گئے اور بہکی بہکی باتیں کرنے لگے ۔
قولہ : (ہیثمی کی تحسین ہذا کے جواب میں مولانا مئوی نے ابکار المننن ص ١٧٥ اور ص ١٩٩ کے حوالے سے محدث مبارک پوری کا یہ قول نقل کر کے معارضہ کیا ہے)
لو یذکر النیموی اسنادہ ینظر ولا یطمئن القلب بتحسین الھیثمی فان لہ اوھا ما فی مجمع الزوائد الخ
جب نیموی نے ایک روایت کی سند نہیں ذکر کی اور ہیثمی کی تحسین نقل کر دی تو آپ نے اس کو رد کر دیا ، لیکن جب اپنی باری آئی اور آپ نے بھی وہی کیا جو نیموی نے کہا ہے تو کوئی قابل اعتراض بات نہیں ہوئی (رکعات ٣٥)
ج: ہم نے آپ کو بتا دیا کہ حدیث زیر بحث کے سلسلے میں محدث مبارکپوری نے ہیثمی کا جو حوالہ دیا ہے ، یہ دراصل '' رکعات تراویح'' کے حوالہ کا تتمہ اور تکملہ ہے ۔ اس لئے سند کا حال معلوم ہو جانے کے بعد ہیثمی کی تحسین کا ذکر قابل اعتراض نہیں ، بلکہ موجب تقویت ہے اور علامہ نیموی نے جہاں جہاں ہیثمی کی تحسین کا ذکر کیا ہے ، کہیں بھی سندکا حال معلوم نہیں ہوا ۔ اس لئے وہاں محدثِ مبارک پوری کا اعتراض بالکل صحیح ہے ۔ آپ کا معارضہ غفلت اور قلت ِ تدبُّر پر مبنی ہے ۔
تنبیہہ : یاد ہو گا کہ عیسیٰ بن جاریہ کی پہلی روایت کے ضعیف اور منکر ہونے کی ایک دلیل مولانا مئوی نے یہ بھی دی تھی کہ حافظ ذہبی نے اس کو میزان الاعتدال میں ذکر کیا ہے ۔ '' ان کی عادت ہے کہ وہ ا س کتاب میں مجروح راوی کا ذکر کرتے ہیں ، اگر اس کی روایات میں کوئی منکر روایت ہوتی ہے تو اس منکر روایت کو بھی ذکر کرتے ہیں '' ۔ (دیکھو رکعاتِ تراویح ص٢٩)
مولانا مئوی کے زعم میں عیسیٰ بن جاریہ '' مجروح'' راوی ہے اور حافظ ذہبی نے میزان الاعتدال میں اس کا ذکر بھی کیا ہے ، لیکن اس کی ''منکر روایات'' میں اس (واقعہ ابی والی) روایت کو انہوںنے اس کتاب میں ذکر نہیں کیا ....... تو مولانا مئوی کے بیان کے مطابق اس سے ثابت ہوتا ہے کہ حافظ ذہبی کے نزدیک عیسیٰ بن جاریہ کی یہ روایت اس کی ضعیف اور منکر روایات میں سے نہیں ہے ، بلکہ صحیح ، محفوظ اور قابل حجت ہے ۔

لو آپ اپنے دام میں صّیاد آ گیا​

قولہ : ثانیاً حضرت ابی کے اس واقعہ کو تراویح سے متعلق قرار دینا محض تحکم اور بالکل بے دلیل ہے ۔ روایت کے کسی ایک لفظ سے بھی ثابت نہیں ہوتا کہ یہ تراویح کا واقعہ ہے ، بلکہ اس کا گھر کے اندر کا واقعہ ہونا اس بات کا قوی قرینہ ہے کہ وہ تہجد کا واقعہ ہے ........ مگر افسوس ہے کہ مولانا عبد الرحمن مبارک پوری نے اس پر کوئی توجہ نہیں دی ۔ (رکعات ص٣٦)
ج: جب اس روایت میں فی رمضان کا لفظ بصراحت موجود ہے تو اب مولانا مبارک پوری اس پرکیوں توجہ دیتے کہ یہ تہجد کا واقعہ ہے یا تراویح کا ۔ اس لئے کہ تہجد فی رمضان اور تراویح یہ دونوں تو ایک ہی ہیں ۔ صرف نام اور تعبیر کا فرق ہے ۔ جیسا کہ پہلے ثابت کیا جا چکا ہے ۔
ہاں افسوس تو آپ جیسے متعصب اور جامد حنفی عالم پر ہے کہ آپ نے اس پر کوئی توجہ نہ دی کہ حضرت ابی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہ نماز باجماعت ادا کی تھی اور جماعت بھی تداعی او راہتمام کے ساتھ تھی ۔ یہ نہ تھا کہ انہوں نے منفردًا نماز شروع کی اور پیچھے سے کوئی آ کر مل گیا ہو ۔ اور حنفی فقہ کی رو سے غیر تراویح میں ایسی جماعت مکروہ ہے ۔ فتاویٰ قاضی خان کے حوالہ سے یہ عبارت ہم پہلے نقل کرچکے ہیں ۔ التنفل بالجماعت غیر التراویح مکروہ عندنا یعنی تراویح کے سوا دوسری نفل نماز جماعت کے ساتھ ادا کرنا حنفیوں کے نزدیک مکروہ ہے ۔ مولانا رشید احمد گنگوہی لکھتے ہیں : '' ان کے (یعنی حنفیہ) کے نزدیک جماعتِ نفل بتداعی مکروہ ہے'' ۔ (الرای النجیح ص١٣) اسی کتاب میں دوسری جگہ لکھتے ہیں: '' رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تہجد کو ہمیشہ منفرد ًا پڑھتے تھے ۔ کبھی تداعی جماعت نہیں فرمائی ۔ اگر کوئی شخص آ کھڑا ہو تو مضائقہ نہیں ''۔ (ص٤)
اب دوحال سے خالی نہیں ، یا تو یہ کہیے کہ حضرت ابی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی یہ نماز (جو انہوںنے اپنے گھر کے اندر باجماعت ادا کی تھی اور جس کی اطلاع رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہوئی تو اس پر آپ نے کوئی انکار نہیں فرمایا) تہجد اور تراویح دونوں تھی ۔ (جیسا کہ اہل حدیث کہتے ہیں ) تو آپ کا یہ دعویٰ باطل ہوا کہ حضرت ابی کے اس واقعہ کو تراویح سے متعلق قرار دینا محض تحکم اور بالکل بے دلیل ہے ۔
یہ کہیے کہ حضرت ابی کی یہ نماز باجماعت صرف تہجد تھی (تراویح نہیں ) تو پھر فقہ حنفی کا مسئلہ غلط ثابت ہوا کہ تراویح کے سوا تنفل بالجماعت مکروہ ہے ، کیونکہ جو عمل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قول یا فعل یا تقریر سے ثابت ہو وہ مکروہ شرعی کیسے ہو سکتا ہے ؟
دوسری گزا رش یہ ہے کہ آپ نے اپنی کتاب (رکعاتِ تراویح) کے صفحہ ٥٦ پر تراویح کی مروجہ بیس رکعات کے ثبوت میں سب سے پہلی دلیل حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اس روایت کو قرار دیا ہے کہ '' آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم رمضان میں بیس رکعتیں اور وتر پڑھتے تھے '' ۔
اس روایت پر تفصیلی گفتگو تو آگے آئے گی ، لیکن سرِدست میں '' علامہ'' مئوی سے پوچھنا چاہتا ہوں کہ حضرت ابن عباس کے اس بیان کو تراویح سے متعلق قرار دینے کی آپ کے پاس کیا دلیل ہے ؟ روایت کے تو کسی لفظ سے بھی یہ ثابت نہیںہوتا کہ یہ خاص تراویح کا واقعہ ہے ، بلکہ بیہقی اور میزان الاعتدال وغیرہ میں تو فی غیر جماعة کی صراحت موجود ہے ۔ (یعنی بیس رکعتیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم منفردًا پڑھتے تھے ) یہ (حنفی مسلک کی رو سے) قوی قرینہ ہے اس بات کا کہ حضرت ابن عباس کا بیان تہجد کے متعلق ہے ، تراویح کے نہیں ۔کیوں کہ مولانا گنگوہی کا ارشاد ابھی گذراکہ '' رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تہجد ہمیشہ منفردًا پڑھتے تھے''
پس جس دلیل سے آپ حضرت ابن عباس کے اس بیان کو خاص تراویح سے متعلق ہونا ثابت کر دیں گے اسی دلیل سے ہم بھی حضرت ابی کے اس (زیر بحث) واقعہ کو تراویح سے متعلق ہونا ثابت کر دیں گے ۔ ماہو جوابکم فہو جوابنا ۔
'' علامہ'' مئوی کا یہ کہنا کہ'' اس کا گھر کے اندر کا واقعہ ہونا اس بات کا قوی قرینہ ہے کہ وہ تہجد کا واقعہ ہے'' ۔ خود اپنے مذہب کے مسائل سے ناواقفیت پر مبنی ہے ۔ فقہ حنفی کا مسئلہ یہ ہے : والوادی التراویح بغیر جماعة او النساء واحدانا بیوتہن یکون تراویح کذا فی معراج الدرایہ ۔ (عالمگیری ص١١٦ ج١ طبع مصر) یعنی کوئی شخص بے جماعت کے پڑھے یا عورتیں اپنے گھروں میں تنہا پڑھیں تو تراویح ادا ہو جائے گی ۔ حضرت ابی کا یہ واقعہ بھی گھر کے اندر عورتوں کے ساتھ پڑھنے کا ہے ۔ جب گھر کے اندر تنہا پڑھنے سے تراویح ہو سکتی ہے تو باجماعت پڑھنے کی صورت میں وہ تراویح کیوں نہیں ہو سکتی ؟ بلکہ فقہ حنفی کی رو سے تو یہ اس بات کا قوی قرینہ ہے کہ وہ واقعہ تہجد کا نہیں ، تراویح کا ہے ۔

قولہ : ا سکے بعد مجھ کو یہ بھی گزارش کرنا ہے کہ تراویح تو بالائے طاق ، یہی محقق نہیں ہے کہ یہ رمضان کا واقعہ ہے ۔ (رکعات ص٢٦)
ج: حدیث کے ظاہر سیاق سے تو قطعًا یہ محقق ہے کہ یہ رمضان کا واقعہ ہے لیکن تقلیدی جمود اور مسلکی عصبیت کی ضد میں اگر کوئی شخص یہ تہیّہ کر لے کہ حدیث کو ناقابل قبول اور نا قابل عمل ثابت کرنا ہے تا کہ اس سے اپنی جان چھ٫ٹ جائے تب تو بات دوسری ہے پھر تو ظاہر کے خلاف اور سیاق و سباق کوبالائے طاق رکھ کر جیسے جیسے بھی بے ثبوت احتمالات پیدا کئے جائیں اور جیسی جیسی بھی بے دلیل جرحیں نکالی جائیں وہ کچھ بعید نہیں ہیں ۔
قولہ : جس نے اس واقعہ کی روایت میں فی رمضان کا لفظ بول دیا ہے وہ اپنی طرف سے اضافہ اور اصل روایت سے ایک زائد بات ہے ۔ (رکعات ص......)
ج: جناب حافظ عبداللہ صا حب غازی پوری رحمة اللہ علیہ نے قیام اللیل کے حوالہ سے یہ روایت پیش کی ہے ۔ قیام اللیل میں شروع کے الفاظ یہ ہیں :
عن جابر جاء ابی بن کعب فی رمضان فقال یا رسول اﷲ کان منی اللیلة شٔ قال وما ذاک یا ابی الحدیث (ص٩٠)
یعنی حضرت جابر نے بیان کیا کہ ابی بن کعب رمضان میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آئے اور کہا کہ اے اللہ کے رسول ! مجھ سے رات ایک بات ہو گئی ہے ۔ آپ نے فرمایا وہ کیا بات ہے اے ابی؟ (الیٰ آخرہ ) اس روایت کے ظاہر سیاق کے لحاظ سے کون کہہ سکتا ہے کہ فی رمضان کا لفظ حضرت جابر کا بیان نہیں ہے بلکہ کسی دوسرے راوی کا اپنی طرف سے اضافہ ہے ؟
اسی حوالہ کے تتمہ وتکملہ کے طور پر مجمع الزوائد کے حوالہ سے جو روایت تحفة الاحوذی میں نقل کی گئی ہے اب ذرا اس کے الفاظ پر بھی غور کیجئے ۔ اس میں شروع کے الفاظ یہ ہیں :
رواہ ابو یعلیٰ من حدیث جابر بن عبداللہ قال جاء ابی بن کعب الی رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم فقال یا رسول اﷲ انہ کان من اللیلة شٔ یعنی فی رمضان قال وما ذاک یا ابی الحدیث (تحفة الاحوذی ص٧٤ ج٢)
اس روایت سے صاف ظاہر ہے کہ جاء ابی بن کعب الی رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم جس کا مقولہ ہے اس کا مقولہ یعنی '' فی رمضان '' بھی ہے اور وہ ہیں حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ۔ ان کے علاوہ اس کو کسی دوسرے راوی کا اضافہ قرار دینا محض زبردستی کی بات ہے ۔
قولہ : یعنی اصطلاحِ محدثین میں فی رمضان کا لفظ اس روایت میں مدرج ہے ۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ حضرت جابر کی یہ روایت مسند احمد ص ١١٥ ج٥ (زیادات عبداللہ) میں بھی موجود ہے اور اس میں رمضان کا قطعًا ذکر نہیں ہے ۔(رکعات ص......)
ج: اسی لئے تو میںنے کہا ہے کہ یہ محض زبر دستی کی بات ہے ۔ اس وقت زیر بحث حضرت ابی بن کعب کا واقعہ ہے اور مسند احمدکی محولہ بالا روایت میں حضرت ابی بن کعب کا نہیں ، بلکہ کسی دوسرے صحابی کا واقعہ بیان کیا گیا ہے ۔ پھر اس کو حضرت ابی کے واقعہ کے ساتھ جوڑنا زبردستی نہیں تو اور کیا ہے ؟ ....... مسند احمد کی روایت کے الفاظ یہ ہیں :
عن جابر بن عبداللہ عن ابی بن کعب قال جاء رجل الی النبی صلی اللہ علیہ وسلم عملت اللیلة عملا قال ما ہو قال نسوة معی فی الدار قلن انک تقر ولا نقر فصل بنا فصلیت ثمانیا والوتر قال فسکت النبی صلی اللہ علیہ وسلم قال فرینا ان سکوتہ رضا بما کان انتہیٰ ۔
اس روایت میں خط کشیدہ الفاظ پر غور کیجئے ۔ صاف ظاہر ہے کہ یہ حضرت ابی کے علاوہ کسی دوسرے صحابی کا واقعہ ہے ۔ نیز دونوں روایتوں میں فرق کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ حضرت ابی کا زیر بحث واقعہ مسند جابر سے ہے اور مسند احمد والی روایت مسند ابی بن کعب سے ہے ۔ لہٰذا دونوں کو ایک قرار دینا محض دھاندلی ہے ۔
اور اگر بالفرض یہی مان لیا جائے کہ یہ دونوں واقعے ایک ہی ہیں ، تو دونوں روایتوں میںصرف اطلاق اور تقلید کا فرق ہے ۔ حنفیہ کا یہ مسلمہ اصول ہے کہ حادثہ واحدہ میں مطلق کومقیّد پر محمول کیا جائے گا ۔ لہہذا یہ اختلاف کوئی ایسا اختلاف نہیں ہے جو روایت کے لئے کسی قدح کا موجب ہو ۔
قولہ : او رمجمع الزوائد میں جس کے حوالے سے تحفة الاحوذی میں یہ روایت نقل ہوئی ہے اس میں '' یعنی فی رمضان'' کا لفظ ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ حضرت جابر نے رمضان کا نام نہیں لیا تھا ۔ عیسیٰ یا اس سے نیچے کا کوئی راوی کہتا ہے کہ جابر کی مراد رمضان سے تھی ۔ (ص...)
ج: مجمع الزوائد کی اس روایت کے ابتدائی الفاظ ہم نے ابھی اوپر نقل کئے ہیں ۔ ان پر ایک مرتبہ پھر نگاہ ڈالیے '' یعنی فی رمضان'' کا لفظ جس سیاق میں مذکور ہے ، اس سے صاف ظاہر ہے کہ یہ حضرت جابر ہی کا کلام ہے ۔ عیسیٰ یا اس سے نیچے کے راوی کا بیان نہیں ہے ۔ حضرت جابر نے حضرت ابی بن کعب کا یہ واقعہ بیان کرتے ہوئے جب ابی کا یہ کلام نقل کیا یا رسول اﷲ انہ کان منی اللیلة تو اللیلة کا ابہام دور کرتے ہوئے حضرت جابر نے بتایا کہ ابی کی مراد رمضان کی رات ہے ۔ کیونکہ وہ رمضان ہی میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس یہ واقعہ بتانے کے لئے آئے تھے ۔ جیسا کہ قیام اللیل والی روایت سے معلوم ہوتا ہے ۔ پس قطعی طور پر یہ کہہ دینا کہ '' حضرت جابر نے رمضان کا نام نہیں لیا تھا'' محض تحکم اور بالکل بے ثبوت بات ہے اور ظاہر سیاق کے قطعًا خلاف ہے ۔ اس لئے ایسے بے دلیل احتمالات ہرگز قابل التفات نہیں ہیں ۔
قولہ : اب رہی قیام اللیل کی روایت ، تو اس میں بے شک جاء ابی فی رمضان کا لفظ ہے ، لیکن اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ وہ راوی کا تصرف اور ادراج ہے ۔ (ص٣٧)
ج: مسند احمد او رمجمع الزوائد کی جن روایتوں کی بنیاد پر آپ نے یہ عمارت کھڑی کی ہے ، ہم نے ثابت کر دیا کہ وہ بنیاد ہی غلط ہے ۔ لہٰذا اس بنیاد پر جو عمارت کھڑی کی جائے گی ، ظاہر ہے کہ وہ بھی غلط ہی ہو گی ۔ یہ لفظ ہرگز کسی راوی کا تصرف اور ادراج نہیں ہے ،بلکہ پورے واقعہ کے راوی اور عینی شاہد حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہی کا لفظ یہ بھی ہے ۔
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,859
ری ایکشن اسکور
41,096
پوائنٹ
1,155
دلائل اہلحدیث پر بحث ختم:
تراویح کے باب میں مسلک اہل حدیث کی تیسری دلیل پر بھی '' علامہ'' مئوی کے تمام ایرادات و نقوص ختم ہو گئے ۔ گو یا اہل حدیث کے دلائل پر مؤلف ''رکعات ِتراویح'' نے جتنے اعتراضات اور شکوک و شبہات پیش کئے تھے ، ان سب کے مدلل او رمفصل جوابات دے کر الحمدللہ ہم بحث کے اس حصہ سے فارغ ہو گئے ۔ اب آئے اس کے مقابلہ میں ذرا احناف کے ان دلائل کا بھی جو ''علامہ'' مئوی نے اپنے مذہب کے ثبوت کے لئے خاص اہتمام کے ساتھ اپنی اس کتاب میں پیش کئے ہیں ۔
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,859
ری ایکشن اسکور
41,096
پوائنٹ
1,155
احناف کے دلائل پر بحث
ہم نے اس کتاب کے شروع ہی میں مولانا مئوی کی اس ہوشیاری پر متنبہ کر دیا ہے کہ انہوں نے تراویح کی بحث میں احناف کے مذہب کو پوری طرح پیش کرنے اور مستقلاً اس کو زیر بحث لانے سے گریز کی راہ اختیار کی ہے ۔ ظاہر میں تو رعب جمانے کے لئے انہوں نے '' جمہور امت'' اور ''دنیائے اسلام'' جیسے شاندار الفاظ استعمال کئے ہیں ، لیکن حقیقت میں یہ حنفی مذہب کی کمزوریوں کو چھپانے کے لئے ایک آڑ کھڑا کیا گیا ہے ۔ چنانچہ اس موقع پر بھی انہوں نے '' احناف کے دلائل'' کے بجائے'' جمہور امت'' کے دلائل کا عنوان قائم کیا ہے ۔ اس لئے کہ احناف جن قیود اور شرائط کے ساتھ تراویح کی بیس رکعتوں کو مسنون کہتے ہیں ان کا ثبوت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کسی قول یا فعل سے پیش کرنا ممکن نہ تھا

حق تو یہ تھا کہ جس طرح '' علامہ '' مئوی نے اہل حدیث کے دلائل پر بحث کرنے سے پہلے اہل حدیث کے دعوؤں کو پیش کیا ہے، اسی طرح احناف کے مسلک کی تائید میں بھی دلائل ذکر کرنے سے پہلے وہ اس باب میں احناف کے پورے مذہب کو صاف صاف پیش کرتے ۔ پھر جودلائل لاتے ان کو اس مذہب پر منطبق کرکے دکھاتے ، لیکن مولانا خوب سمجھتے تھے کہ اس ذمہ داری سے وہ عہدہ برآ نہ ہو سکیں گے ا سلئے کمال دور اندیشی سے کام لیتے ہوئے انہوں نے سرے سے یہ ذمہ داری اپنی سر کی ہی نہیں ۔ اب تو انہوں نے صرف ''دلائل'' پیش کر دئیے ہیں ۔ رہا یہ سوال کہ یہ '' دلائل'' حنفی مذہب کے دعؤوں کے مطابق بھی ہیں یا نہیں ؟ تو اس سے ان کوکوئی سروکار نہیں ۔
مگر ہم تو جو گفتگو کریں گے وہ قواعد او راصول کے ماتحت ہی کریں گے ۔ اس لئے ضروری ہے کہ ان دلائل پر بحث کرنے سے پہلے ہم حنفی مذہب کے دعوؤں کی طرف اپنے ناظرین کی توجہ مبذول کرائیں ۔

تراویح کی بیس اور ا س سے زائد رکعتوں کی بابت حنفیہ کا مسلک کیا ہے ؟ اس کوکسی قدر تفصیل کے ساتھ ہم ا س کتاب کے شروع میں بتا چکے ہیں ۔ یہاں مختصراً اتنا سمجھ لیجئے کہ ان کے نزدیک تراویح کی بیس رکعتیں سنتِ مؤکدہ ہیں ۔ اسی طرح ان کا باجماعت ادا کرنا بھی سنتِ مؤکدہ ہے اور سنت مؤکدہ کا حکم یہ ہے کہ وہ عمل کے اعتبار سے واجب کے قریب تر ہے ۔ اس کا تارک گنہگار اور شفاعتِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے محروم ہے ، بلکہ '' علیٰ قول بعض'' بدعتی ہے ۔ (ان سب باتوں کا حوالہ پہلے گزر چکا ہے )۔
ان دعوتوں کو سامنے رکھ کر اب ذرا ان دلیلوں پر غور کیجئے جو ''علامہ'' مئوی نے اس موقع پر اپنے مذہب کے ثبوت کے لئے پیش کی ہیں ۔ان کی سب سے پہلی دلیل جو گویا ان کے نگاہ میں بڑی اہم اور بنیادی دلیل ہے ۔ ابو شیبہ ابراہیم بن عثمان کی وہ روایت ہے جو حضرت ابن عباس سے مروی ہے کہ ''آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم رمضان میں بیس رکعتیں اور وترپڑھتے تھے ''۔ (رکعات ص٥٦) ۔
 
Top