محدث اعظم حضرت مبارک پوری قُدِّسَ سرَہ نے ابکار المنن وغیرہ میں جہاں جہاں یہ اصل پیش کیا ہے ، مئوی صاحب کا طرح کہیں بھی صرف اتنا کہہ دینے پر اکتفا نہیں کیا ہے ، بلکہ ساتھ ہی دوسرے وجوہ دلائل سے اس کے متن کا معلول ہونا بھی ثابت کیا ہے ۔ پس حافظ ذہبی کے کلام سے اس متن کی '' نکارة'' کا کوئی ثبوت دئیے بغیر اسا قاعدہ سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کرنا اور یہ کہہ دینا کہ حافظ ذہبی کے نزدیک حدیث کا متن منکر ہے ۔ محض تحکم اور سرتاپا بے دلیل دعویٰ ہے جو ہر گز قابل التفات نہیں ۔
ثالثًا : اسنادہ وسط اس منطوق سے یہ مفہوم نکالنا کہ '' لیکن اس کا متن منکر ہے '' ۔ یہ استدلال بالمفہوم ہے جو حنفی اصول کے مطابق فاسد ہے ۔
قولہ : ثانیًا ۔ حافظ ذہبی کا اس کی اسناد کو وسط کہنا خود انہی کی ذکر کی ہوئی ان جرحوں کے پیش نظر جو انہوں نے عیسیٰ کے حق میں ائمۂ فن سے نقل کی ہیں ۔ حیرت انگیز اور بہت قابل غور ہے ۔ (رکعات ص٣١)
ج: اتنا ہی نہیں بلکہ یہ بھی کہیے کہ تکلیف دہ اور موجب کوفت بھی ہے ۔ اس لئے کہ اس سے اہل حدیث کے مسلک کو قوت پہنچ گئی ۔ مگر کیا کیجئے گا حق تو ظاہر ہو کر ہی رہے گا ۔ ولو رغم الف .......... ...... ....۔
عیسیٰ کی حق میں حافظ ذہبی نے صرف جرح ہی نہیں بلکہ تعدیل بھی نقل کی ہے ۔ اس لئے ان دونوں کے پیش نظر اس کی حدیث کی اسناد کو وسط کہنا نہ حیرت انگیز ہے اور نہ قابل غور ۔
قولہ : اسی وجہ سے علامہ شوق نیموی نے اس کو ناصواب قرار دیا ہے او رکہا ہے کہ وہ متوسط نہیں ، بلکہ اس سے بھی گھٹیا ہے ۔ (رکعات ص٣١)
ج: '' علامہ '' شوق نیموی اور '' علامہ'' مئوی دونوں ہی کی غفلت اور عصبیت ہے کہ اس کو ناصواب اور '' گھٹیا '' قرار دے رے ہیں ۔ حافظ ذہبی نے میزان میں عیسیٰ کے متعلق جرح و تعدیل کے جو الفاظ نقل کیے ہیں ۔ آئیے ہم ان کا مقابلہ کر کے آپ کو بتائیں کہ حافظ ذہبی کی رائے صحیح ہے یانیموی اور مئوی کی ۔
دیکھئیے حافظ ذہبی نے ابن معین اور نسائی انہی دو بزرگوں کی جرحیں نقل کی ہیں ۔ ابن معین نے عندہ مناکیر کہا ہے اور نسائی نے منکر الحدیث اور ایک قول کے مطابق متروک کہا ہے ۔ نسائی تو متعنت فی الرجال مشہور ہیں ۔ خود حافظ ذہبی نے بھی اسی میزان میں ان کو متعنت قرار دیا ہے ۔ دیکھو حارث اعور کا ترجمہ ۔ اس لئے کہ ان کی جرح تو بجائے خود معتبر نہیں ۔ '' علامہ '' مئوی نے خود بھی اس کو''
ا علام المرفوعہ '' میں تسلیم کیا ہے ۔جیسا کہ پہلے اس پر تفصیلی بحث گزر چکی ۔ رہے ابن معین تو قطع نظر اس کے ان کو بھی متعنتین میں شمار کیا گیاہے ۔ ان کے عندہ مناکیر کہنے سے عیسیٰ کا ضعیف ہونا لازم نہیں آتا ۔ حافظ سخاوی نے کہا ہے کہ اس قسم کے الفاظ کبھی ایسے راوی پر بھی اطلاق کر دیتے ہیں جو خود ثقہ ہوتا ہے لیکن ضعفاء سے منکر حدیثیں روایت کرتا ہے ۔ ان کے الفاظ یہ ہیں :
وقد یطلق ذلک علی الثقة اذا روی المناکیر عن الضعفاء قال الحاکم قلت الدار قطنی فسلیمان بنت شرجیل قال ثقة قلت الیس عندہ مناکیر قال یحدث بہا عن قوم ضعفاء اما ہو فثقة انتہیٰ (الفع والتکمیل ص١٤)
ان دونوں جرحوں کے بعد امام ابو زرعہ کی تعدیل نقل کی ہے جنہوں نے لا باس بہ کہا ہے ۔ میزان کے شروع میں حافظ ذہبی نے جرح و تعدیل کے کچھ الفاظ بھی ذکر کئے ہیں ۔ الفاظ تعدیل کے متعلق لکھتے ہیں :
فاعلی العبارات فی الرواة المقبولین ثبت حجة وثبت حافظ وثقة متقن وثقة تم ثقة ثم صدوق ، ولا باس بہ ولیس بہ باس ثم محلہ الصدق وجید الحدیث الخ :
لفظ ثم سے ذہبی نے جو فرقِ مراتب کی طرف اشارہ کیا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کے نزدیک لا باس بہ متوسط درجہ کا لفظ ہے ۔ حافظ عراقی نے شرح الفیہ میں ، سخاوی نے فتح المغیث میں اور دوسرے تمام محدثین نے اس لفظ کو الفاظ تعدیل میں متوسط درجہ ہی کی تعدیل قرار دیا ہے ۔ کسی نے بھی اس سے کم درجہ میں اس کو شمار نہیں کیا ہے ۔
اس کے بعد حافظ ذہبی کا اسنادہ وسط کہنا عین صواب ہے اس کو ناصواب کہنے والے معاند او رمحدثین کی تصریحات سے نابلد ہے۔ اسی واسطے حضرت محدث اعظم علامہ مبارکپوری قدس سرہ نے تحفة الاحوذی میں نیموی کی تردید او ر حافظ ذہبی کے اس فیصلہ کی تصویب فرمائی ہے ۔ اور نیموی کے مقابلہ میں ذہبی کا فضل و کمال فن ثابت کرنے کے لئے ایک دوسرے ماہر فن محدث (حافظ ابن حجر) کی شہادت پیش کی ۔ جس کا منشا یہ تھا کہ نیموی جیسے اناڑی لوگوں کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ ذہبی جیسے باکمال پر تنقید کریں ۔
ایاز قدر خود بشناس
''علامہ'' مئوی کو یہ بات بہت بری لگی ہے ۔ ا یسا معلوم ہوتا ہے کہ حضرت الشیخ مبارکپوری کے خلاف پہلے ہی سے بھرے بیٹھے تھے ۔ اک ذرا سی ٹھیس لگتے ہی ابل پڑے ہیں اور خوب دل کے پھپھولے پھوڑے ہیں ۔ تقریبًا تین صفحے اسی خفگی کی نذر کر دئیے ۔ لکھتے ہیں :
قولہ : او رمولانا عبدالرحمن مبارکپوری نے شوق نیموی کے اس کلام کا جو ردّ کیا ہے وہ قطعًا ناقابل التفات اور محض مقلدانہ ہے جو ان کی شان کے بالکل خلاف ہے ۔
ج : ''ناقابل التفات'' تو ضرور کہیے ۔ اس لئے کہ ا س کے بغیر اس حدیث سے جان چھڑانے کی کوئی اور صورت ہی نہیں ہے ۔ لیکن '' مقلدانہ'' کیسے ہے ؟ کیا حافظ ابن حجر نے بھی نیموی کے جواب میں یہی بات کہی ہے ۔ نیموی نہ سہی کسی دوسرے متقدم حنفی عالم کے جواب میں یہ کہا ہے ؟ اگر نہیں اور یقینا نہیں ، تو پھر مقلدانہ کیسے ہوا ؟ کیا حافظ ابن حجر کی یہ شہادت مان لینا کہ '' ذہبی نقد رجال میں اہل استقراء تام سے ہیں '' یہ تقلید ہے ؟ کیا ذہبی کی بادلیل بات کو مان لینا یہ تقلید ہے ؟
تقلید پر جان دینے والے بھی اگر تقلید کو نہ سمجھیں تو اس کے سوا ہم اور کیا کہیں کہ :
یا رب وہ نہ سمجھے ہیں نہ سمجھیں گے میری بات
دے اور دل ان کو جو نہ دے مجھ کو زباں اور
قولہ : مولانا ہوتے تو ہم ان سے گزارش کرتے کہ ... ..... (رکعات ص٣١)
ج : جب مولانا تھے تو اس وقت '' گزارش '' کرنے کی ہمت کیوں نہیں ہوئی ؟ کیا آپ نے مولانا کا زمانہ نہیں پایا ؟ کیا تحفة الاحوذی اور ابکار المنن یہ دونوں کتابیں مولانا کی زندگی میں شائع ہو کر ایوانِ حنفیت میں زلزلہ نہیں پیدا کر چکی تھیں ؟ اور آپ ان کے مطالعہ سے بہرہ مند نہیں ہو چکے تھے ؟
تحفة الاحوذی جلد ثانی (جس میں مسئلہ تراویح پر بحث کی گئی ہے ) ١٣٤٩ھ میں شائع ہوئی ہے ۔ ابکار المنن (جس کے حوالے سے آپ نے معارضات پیش کئے ہیں ١٣٣٨ھ میں شائع ہوئی ہے اور حضرت مؤلف علیہ الرحمة کی تاریخ وفات ١٦ شوال ١٣٥٣ھ ہے ۔ یعنی ابکار المنن کی اشاعت کے پندرہ برس بعد اور تحفة الاحوذی جلد ثانی کی اشاعت کے چار برس بعد ۔ کیا اتنی مدت میں آپ کو اپنی حسرت پوری کرنے کا موقع ہی نہ ملا ؟ در انحالیکہ '' مؤ '' اور ''مبارک پور'' دونوں قصبوں کا فاصلہ چندمیلوں سے زیادہ نہیں ۔
اب١٣٧٧ ھ میں جب کہ حضرت الشیخ نور اللہ مرقدہ کو وفات فرمائے ہوئے٢٤ سال اور تحفة الاحوذی جلد ثانی کو شائع ہوئے ٢٨ سال اور ابکار المنن کو شائع ہوئے ٣٩ سال ہو چکے ہیں ۔ آپ ہمارے سامنے اپنے دل کی یہ ''حسرت ''ظاہر فرماتے ہیں کہ '' اگر مولانا ہوتے تو ہم ان سے گذارش کرتے ۔'' کیا کہنا اس ''حسرت'' کا ۔
ع : خود سوئے ماند ید حیار ابہانہ ساخت
خیر مولانا تو اب نہیں ہیں ، لیکن ہم ان کے ادنیٰ ترین خدام موجود ہیں اور آپ کی خوش قسمتی سے آپ کے پڑوس ہی میں ہیں ۔ اپنی ہر ''گذارش''بے دریغ پیش کیجئے ۔ انشاء اللہ سب پر غور کیا جائے گا اور اللہ تعالی کی توفیق سے آپ کی ہر مراد پوری کی جائے گی ۔ لینصرن اﷲ من ینصرہ ۔
قولہ : جب آپ نقدر جال میں ان کو ایسا باکمال تسلیم کرتے ہیں کہ وہ اس باب میں جو بھی حکم فرمائیں وہی صواب ہے تو پھر الخ ۔ ( رکعات ص )
ج : دیکھیے بات بگاڑ کر پیش نہ کیجئے اس سے آپ کی کمزوری ثابت ہوتی ہے ۔ اگر ہمت ہے تو واقعی جو بات جس طرح کہی گئی ہے ، اس پر کوئی معقول گرفت کیجیے۔ حضرت الشیخ مبارک پوری علیہ الرحمة نے ہر گز یہ نہیں کہا ہے کہ ذہبی نقدر جال کے باب میں ''جو ''حکم فرمائیں وہی صواب ہے ۔ یہ صریح افترا ہے جو کسی مسلمان کی شان نہیں ۔ چہ جائیکہ وہ '' محدثِ شہیر'' اور ''علاّمہ کبیر'' بھی ہو ۔ گفتگو حافظ ذہبی کے قول اسنادہ وسط ۔پر ہو رہی ہے ۔ نیموی نے اس پر اعتراض کیا اور کہا :
قول الذھبی اسنادہ وسط لیس بصواب بل اسنادہ دون وسط
تو اس کے جواب میں حضرت الشیخ قدس سرہ نے فرمایا :
فلما حکم الذھبی بان اسنادہ وسط بعد ذکر الجرح والتعدیل فی عیسی بن جاریة وھو من اھل الاستقراء التام فی فقد الرجال فحکمہ بان اسنادہ وسط ھو الصواب ویؤیدہ اخراج ابن خزیمة وابن حبان ھذ الحدیث فی صحیحیھما ولا یلتفت الی ما قال النیموی ویشھد لحدیث جابر ھذا حدیث عائشة المذکورہ ما کان یزید فی رمضان ولا فی غیرہ علی احدی عشرة رکعة انتھی (تحفة الاحوذی ص ٧٤ ج ٢)
سیاق کلام پر غور کیجئے ! صاف ظاہر ہے کہ حضرت الشیخ نے نیموی کے قول لیس بصواب کے جواب میں ذہبی کے اس فیصلہ کو ھوالصواب کہا ہے ۔ کوئی ضابطہ کلیہ نہیں بیان کیا ہے کہ ''نقد رجال کے باب میں ذہبی جو حکم فرمائیں وہی صواب'' ۔ اور پھر ذہبی کے اس فیصلہ کی مولانا نے جو تصویب فرمائی ہے تو محض تقلیداً نہیں بلکہ ساتھ ہی اس کی تین دلیلیں دی ہیں ۔
١۔ پہلی دلیل تو یہ دی کہ ذہبی نے یہ فیصلہ عیسی بن جاریہ کے متعلق جرح و تعدیل دونوں کے ذکر کرنے اور ان دونوں کے فرقِ مراتب کو سمجھنے کے بعد کیا ہے اور نیموی کی نگاہ صرف جرحوں پر ہے ۔ جیسا کہ مؤلفِ ''رکعاتِ تراویح'' کو خود اس کا اعتراف ہے ۔ لکھتے ہیں :
''حافظ ذہبی کا اس کی اسناد کو وسط کہنا خود انہی کی ذکر کی ہوئی ان جرحوں کے پیش نظر جو انہوں نے عیسیٰ کے حق میں ائمہ فن سے نقل کی ہیں ۔ حیرت انگیز اور بہت قابل غور ہے ۔ اسی وجہ سے علامہ شوق نیموی نے اس کو ناصواب قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ متوسط نہیں بلکہ اس سے بھی گھٹیا ہے '' ۔ ( ص ٣١) ۔
بتائیے ! اس عبارت میں جرحوں کے سوا تعدیل کا بھی کہیں ذکر ہے بس جرحوں پر نگاہ ہے ۔ حالانکہ ذہبی نے امام ابوزرعہ کی تعدیل بھی نقل کی ہے وہ ابوزرعہ جن کی خصوصیات اور کمالِ فن کو حافظ ابن حجر نے تہذیب التہذیب میں تقریبا تین صفے میں ذکر کیے ہیں ۔ سب سے پہلا لفظ یہ ہے : ابوذرعة الرازی احد الائمة الحفاظ ۔ اسحق بن راہویہ نے ان کے متعلق کہا ہے : کل حدیث لا یعرفہ ابوزرعة لیس لہ اصل (ابوزرعہ جس حدیث کو نہ پہچانیں سمجھ جاؤ کہ وہ حدیث بے اصل ہے ) ۔ اور اسحق بن راہویہ جنہوں نے ابوزرعہ کی یہ تعریف کی ہے خود ان کا مرتبہ کیا ہے ۔ حافظ ابن حجر لکھتے ہیں : ۔
امیر المؤمنین فی الحدیث والفقہ اسحق بن ابراھیم الحنظلی المعرون بابن راھویہ (مقدمہ فتح ص ٥)
(یعنی وہ حدیث اور فقہ میں امیر المؤمنین ہیں ) ۔
یہاں یہ شبہ ہو سکتا تھا کہ ذہبی کی طرح نیموی کی نگاہ بھی جرح اور تعدیل دونوں پر ہے ۔ مگر نیموی کے نزدیک جرح کے مقابلہ میں تعدیل معتبر نہیں ہے ۔
اسی دخل مقدر کے دفع کرنے کے لئے حضرت الشیخ رحمہ اللہ نے حافظ ابن حجر کی شہادت پیش کی ہے اور بتایا ہے کہ جس فن میں گفتگو ہے اس میں ذہبی اور نیموی کا مقابلہ، ایک ماہر فن اور اناڑی کا مقابلہ ہے ۔ اس لئے ظاہر ہے کہ ایسی صورت میں ماہر فن کی بات مانی جائے گی ۔ اناڑی کی کون سنتا ہے ۔
فلا یلتفت الی ما قال النیموی
٢۔ دوسری دلیل یہ ہے کہ ابن خزیمہ اور ابن حبان دونوں نے اس حدیث کو اسی سند کے ساتھ اپنی اپنی ''صحیح'' میں روایت کیا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان دونوں حضرات کے نزدیک یہ روایت صحیح ہے ۔ اس سے بھی ذہبی کے فیصلہ کی تائید ہوتی ہے ۔
٣۔ تیسری دلیل ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا کی وہ حدیث اس کی شاہد ہے جس میں انہوں نے یہ بیان کیا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم رمضان ہو یا غیر رمضان گیارہ رکعات مع وتر سے زیادہ نہیں پڑھتے تھے ۔
یہی وہ جواب ہے جس کو ''علامہ'' مئوی نے ''مقلدانہ'' کہا ہے ۔ سچ ہے
ع حسود راچہ کنم کہ راضی نہ می شود
قولہ : تو پھر اس کی کیا وجہ ہے کہ جناب نے اس مقام پر جہاں ذہبی نے ایک حدیث کے باب میں فیصلہ کیا ہے کہ ... وہاں آپ نے لکھ دیا کہ اس سے دل مطمئن نہیں ہے اور یہ فرما دیا کہ:
جواب الذھبی محتاج الی الدلیل (دیکھو
ابکار المنن ص ٥٠ و رکعات ٣١ )
ج : یہ اعتراض تو آپ کے اس مفروضہ کی بنا پر ہے کہ مولانا نے یہ لکھا ہے کہ ذہبی کی بت بلا دلیل مان لو ۔ حالانکہ مولانا نے یہ ہرگز نںیے لکھا ہے اور نہ حدیث جابر زیر بحث کی بابت ذہبی کے فیصلہ کو مولانا نے لا دلیل مانا ہے ۔ ان دونوں باتوں کی تفصیل پہلے گذر چکی ہے ۔ اس لئے محولہ بالا مقام پر مولانا نے اگر یہ لکھا کہ ''ذہبی کا جواب محتاج دلیل ہے '' ۔ تو تحفت الاحوذی والی بات کے وہ ہرگز معارض نہیں ۔
ذہبی کے فضل و کمال کا اعتراف نیموی کے مقابلہ میں ہے ۔ یہ منشا نہیں ہے کہ جہاں کہیں بھی رواة کے جرح و تعدیل کی بحث آئے ، ہر مقام پر ، اور دنیا کے ہر محدث کے مقابلے میں ذہبی ہی کا فیصلہ صواب ہو گا ۔ یہ مفروضہ تو محض آپ کے ذہن کی اختراع ہے ۔ جو اپنی محدثیت کا رنگ جمانے کے لئے آپ نے گھڑ لیا ہے ۔
قولہ : اور جب ذہبی کو آپ رجال کے حالات سے ایسا با خبر مانتے ہیں تو محمد بن عبدالملک کے حق میں جو انہوں نے فیصلہ کیا ہے کہ لیس بحجة یکتب حدیثہ اعتباراً ، تو آپ نے اس کو یہ کہہ کر کیوں رد کر دیا کہ
جرح من غیر بیان السبب فلا یقدح (ابکار المنن ص ٧٨ و رکعات ص ٢١ ، ٢٢) ۔
ج : اس لئے رد کر دیا کہ ابکار المنن میں ساتھ ہی یہ بھی بتا دیا گیا ہے کہ محمد بن عبدالملک کی اس حدیث پر امام ابوداؤد اور امام منذری نے سکوت کیا ہے اور بقول علامہ نیموی ان دونوں کا کسی حدیث پر کلام کرنے سے سکوت کر جانا اس بات کی دلیل ہے کہ ان کے نزدیک یہ حدیث قابلِ احتجاج ہے ۔
وقال القاری فی المرقاة قال النووی حسن نقلہ میرک و قال ابن البھمام اسنادہ صحیح انتھی وقال الشوکانی فی نیل الاوطار صححہ ابن خزیمة انتھی
ان اقوال سے بھی محمد بن عبدالملک وغیرہ جو اس حدیث کے راوی ہیں ان کی تعدیل ثابت ہوتی ہے ۔ ان کے علاوہ ابکار المننن میں صراحة بھی یہ بتا دیا گیا ہے کہ محمد بن عبدالملک کی امام ابن حبان نے توثیق کی ہے اور حافظ ابن حجر نے تقریب التہذیب میں ان کو ''مقبول'' کہا ہے اور پچھلے صفحات میں محدثین کے اس قاعدہ کا حوالہ گذر چکا ہے کہ جب کسی راوی کی تعدیل و توثیق کسی حاذق اور ماہر فن محدث نے کی ہو تو اس کے حق میں جرح مفسر ہی مقبول ہو گی ۔ غیر مفسر اور مبہم جرحوں کا اعتبار نہ ہو گا ۔
ذہبی کو رجال کے حالات سے ''ایسا با خبر'' آپ کے ''علامہ'' نیموی کے مقابلے میں مانا گیا ہے ۔ یہ نہیں کہا ہے کہ دنیا میں کوئی محدث ذہبی کے ٹکر کا گذرا ہی نہیں ہے اور نہ یہ کہا گیا ہے کہ ذہبی کے فیصلہ کے مقابلہ میں اصول و قواعدِ محدثین کی پابندی بھی چھوڑ دی جائے گی ۔
قولہ : کوئی انصاف سے بتائے کہ جب ذہبی رجال کے حالات کا پورا پورا استقراء رکھتے ہیں تو محمد بن عبدالملک پر ان کی جرح بے سبب نہیں ہو سکتی ... لیکن جب تک وہ اسباب بیان نہ کریں ، مولانا عبدالرحمن ان کی جرح کو ماننے کے لئے تیار نہیں ہیں ۔ تو ہم سے وہ کیوں مطالبہ کرتے ہیں کہ ذہبی نے جو اسناد کو وسط کہہ دیا ہے بے سبب بیان کئے ہوئے اس کو تسلیم کر لو ۔ اس لئے کہ ذہبی اہل استقراء تام سے ہیں ۔ کیا حافظ ابن حجر کا حوالہ صرف ہم پر رعب جمانے کے لئے ہے ۔ اپنے عمل کرنے کے لئے نہیں ہے (رکعات ص ٢٣)
ج : ''علامہ'' مئوی اپنے زعم میں اس اعتراض کو بڑا گہرا ''نقطہ'' اور بڑی شدید ''گرفت'' سمجھ رہے ہیں ۔ اسی لئے قدرتی طور پر ان کی طبیعت میں جوش اور قلم میں زور پیدا ہو گیا ہے اور کیا عجب ہے جو حلقہ ارادت بھی جھوم اٹھا ہو ۔ اور ''علامہ'' کو اس ''نکتہ'' پر خوب خوب داد ملی ہو ۔ لیکن ''علامہ'' کو خبر نہیں کہ ذہبی ابن حبان ، ابن حجر یہ تینوں حضرات حذاقِ فن سے ہیں ۔ اور ہم ابھی بتا چکے ہیں کہ محمد بن عبدالملک پر اگر ذہبی نے جرح کی ہے تو ابن حبان اور حافظ ابن حجر نے اس کی توثیق و تعدیل کی ہے ۔ اس طرح یہ راوی مختلف فیہ ہو جاتا ہے اور مختلف فیہ راوی کے متعلق جمہور محدثین کا فیصلہ یہ ہے کہ جرح تو مفسر ہی مقبول ہو گی ۔ بغیر سبب بیان کئے ہوئے جرح کا اعتبار نہیں ہو گا ۔ ہاں تعدیل کے لئے سبب کا بیان کرنا ضروری نہیں ہے ۔ یہ مبہم بھی مقبول ہو جائے گی ۔ اس کے کچھ حوالے ہم پہلے نقل کر چکے ہیں ۔ مزید تفصیل کے لئے کتاب الرفع و التکمیل ص ١٠ ، ١١ ملا حظہ کیجئے ۔
اس قاعدہ کی رو سے ذہبی کے دونوں فیصلوں کے درمیان وجہ فرق بالکل ظاہر ہے یعنی لیس بحجة یہ جرح ہے ۔ اس لئے مختل فیہ راوی (محمد بن عبدالملک) کے حق میں بغیر سبب بیان کئے ہوئے معتبر نہیں اور اسنادہ وسط یہ تعدیل ہے ۔ اس لئے مختلف فیہ راوی (عیسی بن جاریہ) کے حق میں بلا سبب بیان کئے ہوئے بھی معتبر اور مقبول ہے
کہئے جناب ! اب تو بے انصافی نہیں ہے ؟ ۔
یہ بھی سمجھ میں آ گیا ہو گا کہ حافظ ابن حجر کا حوالہ ''صرف آپ پر رعب جمانے کے لئے نہیں '' ہے ، اپنے عمل کے لئے بھی ہے ۔
قولہ : اس سے بڑھ کر تعجب کی بات جو مولانا کی شان تقدس اور عالمانہ احتیاط کے بالکل منافی ہے یہ ہے کہ انہوں نے حافظ ابن حجر کا کلام بالکل ادھورا نقل کیا ہے اور ابن حجر نے ان کو اہل استقرء تام قرار دے کر ان کے جس فیصلہ کی اہمیت و قوت ظاہر کی ہے ، اس کو بالکل چھوڑ گئے ۔ اور اس کی جگہ اپنی طرف سے ذہبی کے ایک دوسرے فیصلہ کی قوت ثابت کرنے لگے ۔ (رکعات ٣٢) ۔
ج : اولاً ان سب سے بڑھ کر تعجب تو آپ کے اس نرے پروپیگنڈائی اعتراض پر ہے جو خود آپ کی ''شان تقدس''اور ''عالمانہ احتیاط'' کے بالکل منافی ہے ۔ کسی کا کلام ''ادھورا'' نقل کرنا اس صورت میں قابل اعتراض اور مستحق ملام ہے ، جب اس کلام کے بعض حصے جو اپنے مذہب اور مطلب کے لئے مفید معلوم ہوں ، ان کو لے لیا جائے اور جو حصہ اپنے مسلک اور مطلب کے لئے مضر یا خلاف معلوم ہو اس کو چھوڑ دیا جائے ۔ جیسا کہ آپ نے خود اسی ''رکعاتِ تراویح' ' کے بیشتر مقامات میں ایسا کیا ہے ۔ اور ہم نے آپ کو اس پر ٹوکا ہے یا جیسے آپ کے ''علامہ'' شوق نیموی نے اپنی کتاب ''آثارالسنن'' میں جا بجا یہ حرکت کی ہے اور حضرت محدث مبارکپوری علیہ الرحمہ نے ''ابکار المنن'' میں اس پر گرفت کی ہے ۔ مثلاً ایک جگہ لکھتے ہیں :
قلت قد خان النیموی فی نقل کلام الحافظ من الدرایة فلم ینقلہ بتمامہ بل نقل بقدر ما ینفعہ و ترک ما یضرہ فعلینا ان ننقل کلام الحافظ بتمامہ وکما لہ لتنجلی حقیقة الحال (ابکار المنن ص ٦٣)
یعنی نیموی نے حافظ ابن حجر کے کلام کو ''درایہ'' سے نقل کرنے میں خیانت کی ہے ۔ جتنا حصہ اپنے مذہب کے لئے مفید معلوم ہوا اتنا نقل کر دیا اور جو حصہ مضر معلوم ہوا اس کو چھوڑ دیا ۔ اس لئے ضروری ہے کہ میں حافظ کا پورا کلام یہاں نقل کر دوں ، تاکہ حقیقتِ حال واضح ہو جائے ۔
یا یہ صورت ہو کہ کسی عبارت کے بعض حصے کو نقلکرنے اور بعض حصے کو چھوڑ دینے سے کلام میں منشا بالکل ردوبدل اور الٹ پلٹ ہو جائے ۔ جیسے آپ نے ابن تیمیہ ، سیوطی ، شوکانی وغیرہ کی عبارتوں کے بعض حصے نقل کرکے ان کو اس بات کا قائل بنادیا کہ ان کے نزدیک آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے تراویح کا کوئی عدد معین ثابت نہیں ۔حالانکہ ان کے کلام کا جو حصہ آپ نے چھوڑ دیا ہے اس میں یہ صراحت موجود ہے کہ فعل نبوی سے گیارہ رکعت تراویح ثابت ہے ۔
الغرض جب تک کسی کلام کے حذف و اختصار میں کوئی چالاکی اور فریب کاری مضمر نہ ہو اس وقت تک یہ کوئی قابل اعتراض بات نہیں ہے اور ہم سر افتخار اونچا کر کے کہتے ہیں کہ بحمد للہ محدثِ اعظم مبارک پوری رحمة اللہ علیہ کا دامن ان فریب کاریوں سے بالکل پاک ہے ۔ انہوں نے کلام کے ا س حصہ کو چھوڑ دیا ہے ، نہ وہ اہل حدیث کے مذہب کے خلاف ہے اور نہ اس کے چھوڑ دینے سے حافظ کے کلام کا منشا ردوبدل ہوتا ہے ۔
ما اہل حدیثیم دغارا انشنا سیم صد شکر کہ در مذہب ما حیلہ و فن نیست
ثانیاً : سرے سے یہ الزام ہی غلط ہے کہ مولانا مبارک پوری نے ''ابن حجرکا کلام بالکل ادھورا نقل کیا ہے'' ۔ ''علامہ'' مئوی کے کلام کا جو اقتباس ہم نے اوپر نقل کیا ہے اس پر غور کیجئے ۔ اس میں محدث اعظم مبارکپوری پر دو الزام لگائے گئے ہیں :
(الف ) انہوں نے ابن حجر کا کلام ادھورا نقل کیا ہے۔
(ب) ابن حجر نے ذہبی کو اہل استقراء تام سے قرار دے کر ان کے جس فیصلہ کی اہمیت ثابت کی ہے ،اس کو چھوڑ کر اپنی طرف سے ذہبی کے ایک دوسرے فیصلہ کی قوت ثابت کرنے لگے ۔
(الف) پہلے الزام میں کہاں تک صداقت ہے اس کو معلوم کرنے کے لئے ضروری ہے کہ وہ پوری عبارت آپ کے سامنے ہو، جو اس وقت زیر بحث ہے ۔ مولانا مئوی نے وہ عبارت شرح نخبہ کے حوالے سے خود ہی نقل کی ہے ۔ لکھتے ہیں
حافظ ابن حجر کی پوری عبارت یہ ہے قال الذھبی وھو من اھل الاستقراء التام فی نقد الرجال لم یجتمع اثنان من علماء ھذ الشان قط علی توثیق ضعیف ولا علی تضعیف ثقة انتھی (رکعات ص ٣٣)
''علامہ'' مئوی اپنی خوش فہمی سے اس پوری عبارت کو حافظ ابن حجر ہی کا ''کلام'' سمجھ رہے ہیں ۔ اسی بنیاد پر انہوں نے پہلے الزام کی عمارت کھڑی کی ہے حالانکہ یہ عبارت ابن حجر اور ذہبی دونوں کے کلاموں کا مجموعہ ہے ۔ اس عبارت میں
لم یجتمع سے لے کر آخر تک یہ ذہبی کا مقولہ ہے ۔ اسی ٹکڑے کو مولانا مبارک پوری نے چھوڑ دیا ہے ۔ اور
وھو من اھل الاستقراء التام فی نقد الرجل بس یہی ٹکرا حافظ ابن حجر کا ''کلام'' ہے ۔ اس کو محدث مبارک پوری علیہ الرحمہ نے پورے کا پورا نقل کیا ہے ۔ صرف اتنا تصرف کیا ہے کہ وھو کے بجائے الذھبی لکھا ہے ۔ اس کے علاوہ اس جملہ کا ایک نقطہ بھی مولانا مبارک پوری نے نہیں چھوڑا ہے ۔ پھر یہ کیسا صریح افتراء ہے کہ ''ابن حجر کا کلام بالکل ادھورا نقل کیا ہے '' ۔ (ذرا بالکل کی تاکید پر بھی غور کیجئے ) ۔ کیا ایسے لوگوں کو بھی زیب دیتا ہے کہ وہ '' شان تقدس'' اور کی باتیں کریں ؟
اتنی نہ بڑھا پاکی داماں کی حکایت زاہد
دامن کو ذرا دیکھ ذرا بندِ قبا دیکھ
(ب) رہا دوسرا الزام تو مانا کہ نقد رجال کے باب میں ذہبی کو اہل استقراء تام قرار دے کر حافظ ابن حجر نے ان کے جس فیصلے کی اہمیت ثابت کی ہے ، مولانا مبارک پوری نے اس کو چھوڑ دیا اور اس کی بجائے اپنی طرف سے ایک دوسرے فیصلہ کو قوت پہنچائی ... لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ایسا کرنے سے حافظ ابن حجر کے کلام کو کوئی نقصان پہنچا ؟ کیا اس سے ابن حجر کے کلام کا منشاردووبدل ہو گیا ؟ یا کیا اگر مولانا مبارک پوری حافظ ذہبی کا وہ فیصلہ اپنی کتاب میں نقل کر دیتے تو اہل حدیث کے مسلک کو نقصان پہنچ جاتا ؟ اور اب جو حذف کر دیا تو اس سے مسلک اہل حدیث کوکوئی قوت پہنچ گئی ؟ اگر ان سب سوالوں کا جواب نفی میں ہے ، تو کوئی انصاف سے بتائے کہ پھر ایسی بات کا ذکر چھوڑ دینا آخر ''شان تقدس'' اور ''عالمانہ احتیاط'' کے منافی کیسے ہوا ؟ ۔
زیادہ سے زیادہ جو کچھ کہا جا سکتا ہے وہ یہ ہے کہ ایکہی بات کو دو عالموں نے دو الگ الگ موقعوں پر پیش کیا ہے ۔ یا یہ کہ دو الگ الگ نتیجے نکالے ہیں ، لیکن کسی صاحبِ ذوق سے پوچھو کہ اگر کلام اس کی صلاحیت رکھتا ہے کہ اس سے مختلف تفریعات پیدا کی جا سکیں تو ایسا کرنا اہل علم کے لئے کوئی نقص اور عیب کی بات ہے یا ہنر اور کمال کی ؟ پھر بلا وجہ پروپیگنڈائی انداز میں ایک سوال اٹھانااور طنز و تعریض کے فقرے استعمال کر کے عوام کے جذبات سے کھیلنے کی کوشش کرنا کہاں کی حق پسندی اور دیانتداری ہے ؟
قولہ : حافظ ابن حجر نے یہ نہیں کہا ہے کہ ذہبی اہل استقراء تام سے ہیں ، تو احادیث کی اسناد پر ان کا حکم صواب یہ تو مولانا مبارک پوری نے اپنی طرف سے لکھا ہے اور ذہبی کے صاحبِ استقراء تام ہونے پر اس بات کو زبردستی متضرع کر لیا ہے ۔ (رکعات ص ٣٣)
ج : یہ ضابطہ کلیہ تو مولانا مبارک پوری نے بھی نہیں لکھا ہے اور نہ ذہبی کے صاحبِ استقراء تام ہونے پر اس کو متضرع کیا ہے ۔ یہ تو آپ نے اپنی طرف سے لکھا ہے اور زبردستی مولانا مبارک پوری کے انتقال فرما جانے کے چوبیس برس بعد ان کے ذمہ لگادیاہے انا للہ الخ ۔
قولہ : ورنہ جولوگ استقراء کے معنی جانتے ہیں وہی اس بات کو سمجھ سکتے ہیں کہ جب کسی راوی کی جرح و تعدیل کا معاملہ پیش آ جائے تو اس موقع پر کسی اناڑی کی بات کو صحیح قرار دیا جائے گا ۔ یا اس کی جو نقد رجال کے باب میں صاحب استقراء تام ہو ۔ ظاہر ہے کہ اناڑی کے مقابلہ میں ماہر فن ہی کی بات قابل قبول ہو گی ۔ بس یہی بات محدث مبارک پوری علیہ الرحمہ نے بھی کہی ہے ۔جس کا تفصیلی بیان پہلے گذر چکا ۔ فافہم و تذکر ۔
قولہ : (حافظ ذہبی کے اس قول سے کہ کسی ''ثقہ راوی کو ضعیف قرار دینے پر دو ماہرین فن کا اتفاق نہیں ہوا ہے'' ۔ اسی طرح کسی ضعیف راوی کو ثقہ قرار دینے پر بھی دو ماہرین فن متفق نہیں ہوئے ہیں ) ۔ علامہ مئوی نے یہ نتیجہ نکالا ہے کہ(عیسی بن جاریہ جو حدیث جابر و زیر بحث) کا بنیادی راوی ہے ۔ چھ چھ ماہروں نے اس کی تضعیف کی ہے ۔ لہذا ذہبی کے قاعدہ سے وہ ضعیف نہیں ہو سکتا (١) دو ماہروں نے اس کی توثیق بھی کی ہے ۔ لہذا اس قاعدہ سے وہ ضعیف بھی نہیں ۔ اور جب وہ ثقہ بھی نہیں اور ضعیف بھی نہیں تو ظاہر ہے کہ اس کا حکم مجہول الحال کا ہو گا اور اس کی حدیث کا رد قبول اس کا قرار واقعی حال ہونے پر موقوف ہو گا ۔ حاصل یہکہ اس صورت میں بھی اس کی حدیث کار آمد نہیں ہو سکتی (رکعات ص ٣٣)
ج : ذہبی کے اس فیصلہ پر خود حافظ ابن حجر نے جو تفریع ذکر کی ہے وہ یہ ہے لکھتے ہیں :
ولھذا کان مذھب لسائی ان لا یترک حدیث الرجل حتی یجتمع الجمیع ترکہ انتھی
''یعنی اسی وجہ سے امام نسائی کا مذہب یہ ہے کہ کسی راوی کی حدیث اس وقت تک ترک نہیں کی جائے گی جب تک اس کے ترک پر سب متفق نہ ہو جائیں '' ۔ حافظ