کنعان
فعال رکن
- شمولیت
- جون 29، 2011
- پیغامات
- 3,564
- ری ایکشن اسکور
- 4,425
- پوائنٹ
- 521
سورج کا مغرب سے نکلنا
اب کونسی طاقت اس کو اس گردش سے روک کر دوسری طرف گھما دے۔ وہ صرف اور صرف اللہ تعالیٰ ہی ایسی قدرت کے مالک ہیں۔
مگر ایسا معاملہ ہونا چونکہ قانونِ فطرت کے خلاف ہے لہٰذا یہ معجزاتی عمل ہوگا۔
مگر معجزہ کا تعلق انبیاء اور رسل سے ہے اور ان کا ظہور اب ہونا نہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خاتم النبیین ہیں ان کے بعد کسی نبی کا ظہور بطور نبی نہیں ہونے کا۔
کیا قانونِ فطرت میں ایسا ممکن ہے کہ سورج مغرب سے طلوع ہو؟
وَالْأَمْرُ يَوْمَئِذٍ لِّلَّهِ
اور حکم فرمائی اُس دن ﷲ ہی کی ہو گی
(الانفطار، 82 : 19)
اور حکم فرمائی اُس دن ﷲ ہی کی ہو گی
(الانفطار، 82 : 19)
نہ ہی قانون فطرت کے خلاف اور نہ ہی معجزہ "اور حکم فرمائی اس دن اللہ ہی کی ہو گی "
قرآنِ مجید اِنعقادِ قیامت کے ضمن میں کائنات کے تمام موجودات کی کششی دھماکے سے رُونما ہونے والی حالت اور اُس کی بے تحاشا تباہی کو یوں واضح کرتا ہے :
إِذَا وَقَعَتِ الْوَاقِعَةُO لَيْسَ لِوَقْعَتِهَا كَاذِبَةٌO خَافِضَةٌ رَّافِعَةٌO إِذَا رُجَّتِ الْأَرْضُ رَجًّاO وَبُسَّتِ الْجِبَالُ بَسًّاOفَكَانَتْ هَبًَاء مُّنبَثًّاO
(یاد رکھو) جب قیامت واقع ہو جائے گیo
تب اُسے جھوٹ سمجھنے کی گنجائش کسی کے لئے نہ ہو گیo
کسی کو پست اور کسی کو بلند کرنے والیo
جب زمین کپکپا کر لرزنے لگے گیo
اور پہاڑ ٹوٹ پھوٹ کر ریزہ ریزہ ہو جائیں گےo
پھر (مکمل طور پر) غبار بن کر اُڑنے لگیں گےo
(الواقعه، 56 : 1 - 6)
يَوْمَ تَرْجُفُ الْأَرْضُ وَالْجِبَالُ وَكَانَتِ الْجِبَالُ كَثِيبًا مَّهِيلًاO
جس دِن زمین اور پہاڑ کانپنے لگیں گے اور پہاڑ (ریزہ ریزہ ہو کر) ریت کے بُھربُھرے تودّے ہو جائیں گےo
(المزمل، 73 : 14)
السَّمَاءُ مُنفَطِرٌ بِهِ كَانَ وَعْدُهُ مَفْعُولًاO
جس (دِن کی دہشت) سے آسمان پھٹ جائے گا، (یاد رکھو کہ) اُس کا وعدہ (پورا) ہو کر رہے گاo
(المزمل، 73 : 18)
وَحُمِلَتِ الْأَرْضُ وَالْجِبَالُ فَدُكَّتَا دَكَّةً وَاحِدَةًO فَيَوْمَئِذٍ وَقَعَتِ الْوَاقِعَةُO وَانشَقَّتِ السَّمَاءُ فَهِيَ يَوْمَئِذٍ وَاهِيَةٌO
اور زمین اور پہاڑ اُٹھائے جائیں، گے پھر یکبارگی (لپک کر) ریزہ ریزہ کر دیئے جائیں گےo
پس اُسی وقت جس (قیامت) کا ہونا یقینی ہے وہ واقع ہو جائے گیo
اور آسمان پھٹ جائے گا، پھر اُس دن وہ بالکل بودا (بے حقیقت) ہو جائے گاo
(الحاقه، 69 : 14 - 16)
وَنَرَاهُ قَرِيبًاO يَوْمَ تَكُونُ السَّمَاءُ كَالْمُهْلِO وَتَكُونُ الْجِبَالُ كَالْعِهْنِO
اور وہ ہماری نظر میں قریب ہےo
جس دِن آسمان پگھلے ہوئے تانبے کی مانند ہو گاo
اور پہاڑ رنگین اُون کے گالے کی طرح ہلکے ہوں گےo
(المعارج، 70 : 7 - 9)
إِذَا الشَّمْسُ كُوِّرَتْO وَإِذَا النُّجُومُ انكَدَرَتْO وَإِذَا الْجِبَالُ سُيِّرَتْO
جب سورج لپیٹ کر بے نور کر دیا جائے گاo
اور جب ستارے (اپنی کہکشاؤں سے) گِر پڑیں گےo
اور جب پہاڑ (غبار بنا کر فضا میں) چلا دیئے جائیں گےo
(التکوير، 81 : 1 - 3)
إِذَا السَّمَاءُ انفَطَرَتْO وَإِذَا الْكَوَاكِبُ انتَثَرَتْO وَإِذَا الْبِحَارُ فُجِّرَتْO
جب (سب) آسمانی کرے پھٹ جائیں گےo
اور سیارے گِر کر بھر جائیں گےo
اور جب سمندر (اور دریا) اُبھر کر بہہ جائیں گےo
(الانفطار، 82 : 1 - 3)
وَالْأَمْرُ يَوْمَئِذٍ لِّلَّهِO
اور حکم فرمائی اُس دن ﷲ ہی کی ہو گیo
(الانفطار، 82 : 19)
يَسْـئَلُ أَيَّانَ يَوْمُ الْقِيَامَةِO فَإِذَا بَرِقَ الْبَصَرُOوَخَسَفَ الْقَمَرُO وَجُمِعَ الشَّمْسُ وَالْقَمَرُO يَقُولُ الْإِنسَانُ يَوْمَئِذٍ أَيْنَ الْمَفَرُّO
وہ پوچھتا ہے کہ قیامت کا دِن کب ہو گاo
پھر جب (ربُّ العزت کی تجلی قہری سے) آنکھیں چکا چوند ہو جائیں گیo
اور چاند بے نور ہو جائے گاo
اور سورج اور چاند ایک سی حالت پر آ جائیں گےo
اُس روز اِنسان کہے گا کہ (اب) کہاں بھاگ کر جاؤںo
(القيامة، 75 : 6 - 10)
إِنَّمَا تُوعَدُونَ لَوَاقِعٌO فَإِذَا النُّجُومُ طُمِسَتْO وَإِذَا السَّمَاءُ فُرِجَتْO وَإِذَا الْجِبَالُ نُسِفَتْO
بیشک تم سے جو وعدہ کیا جاتا ہے وہ ضرور (پورا) ہو کر رہے گاo
پھر جب تارے بے نور ہو جائیں گےo
اور جب آسمان پھٹ جائے گاo اور جب پہاڑ (ریزہ ریزہ ہو کر) اُڑتے پھریں گےo
(المرسلات، 77 : 7 - 10)
وَفُتِحَتِ السَّمَاءُ فَكَانَتْ أَبْوَابًاO وَسُيِّرَتِ الْجِبَالُ فَكَانَتْ سَرَابًاO
اور آسمان کے طبقات پھاڑ دیئے جائیں گے تو (پھٹنے کے باعث گویا) وہ دروازے ہی دروازے ہو جائیں گےo
اور پہاڑ (غبار بنا کر فضا میں) اُڑا دیئے جائیں گے، سو وہ سراب (کی طرح کالعدم) ہو جائیں گےo
(النباء، 78 : 19، 20)
الْقَارِعَةُO مَا الْقَارِعَةُO وَمَا أَدْرَاكَ مَا الْقَارِعَةُO يَوْمَ يَكُونُ النَّاسُ كَالْفَرَاشِ الْمَبْثُوثِO وَتَكُونُ الْجِبَالُ كَالْعِهْنِ الْمَنفُوشِO
(زمین و آسمان کی ساری کائنات کو) کھڑکھڑا دینے والا شدید جھٹکا اور کڑکo
وہ (ہر شے) کو کھڑکھڑا دینے والا شدید جھٹکا اور کڑک کیا ہے؟o
اور آپ کیا سمجھے ہیں کہ (ہر شے کو) کھڑکھڑا دینے والے شدید جھٹکے اور کڑک سے کیا مُراد ہے؟o
(اِس سے مُراد) وہ یومِ قیامت ہے جس دِن سارے لوگ بکھرے ہوئے پروانوں کی طرح ہو جائیں گےo
اور پہاڑ رنگ برنگ دُھنکی ہوئی اُون کی طرح ہو جائیں گےo
(القارعة، 101 : 1 - 5)
كَلَّا إِذَا دُكَّتِ الْأَرْضُ دَكًّا دَكًّاO
یقیناً جب زمین پاش پاش کر کے ریزہ ریزہ کر دی جائے گیo
(الفجر، 89 : 21)
وَإِذَا السَّمَاءُ كُشِطَتْO
(التکوير، 81 : 11)
اور جب سماوِی طبقات کو پھاڑ کر اپنی جگہوں سے ہٹا دیا جائے گاo
يَوْمَ نَطْوِي السَّمَاءَ.
اُس دِن ہم (ساری) سماوِی کائنات کو لپیٹ دیں گے۔
(الأنبياء، 21 : 104)
وَالْأَرْضُ جَمِيعًا قَبْضَتُهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَالسَّماوَاتُ مَطْوِيَّاتٌ بِيَمِينِهِ.
اور قیامت کے دِن تمام زمین اُس کی مٹھی میں (ہو گی) اور آسمان (کاغذ کی طرح) لپٹے ہوئے اُس کے داہنے ہاتھ میں ہوں گے۔
(الزُمر، 39 : 67)
فَارْتَقِبْ يَوْمَ تَأْتِي السَّمَاءُ بِدُخَانٍ مُّبِينٍO
پس اُس دِن کا اِنتظار کرو جب آسمان سے ایک واضح دُھواں ظاہر ہو گا
(الدُخان، 44 : 10)o
اِسی حقیقت کو سرورِکائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یوں واضح کیا ہے :
إنّ السّاعةَ لَا تَکُوْنُ حَتّٰی عَشَر آيَاتِ. . . الدُّخَانُ. . . وَ طُلُوْعُ الشَّمْسِ مِنْ مَّغْرِبِهَا. . .
قیامت اُس وقت تک برپا نہیں ہو گی جب تک 10 علامات ظاہر نہ ہو جائیں۔ دُخان اور سورج کا مغرب سے طلوع ہونا (بھی اُنہی میں سے ہے)۔
(سنن ابنِ ماجه : 302)/ (مسند احمد بن حنبل، 2 : 372)/ (مسند احمد بن حنبل، 4 : 7)
سیدنا حذیفہ بن اُسید غفاری رضی اللہ عنہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کرتے ہیں :
إِنَّهَا لَنْ تَقُوْمَ حَتّٰی تَرَوْا قَبْلَهَا عَشرَ آيَاتٍ، فَذَکَرَ الدُّخَان. . . وَ طُلُوْعَ الشَّمْسِ مِنْ مَغْرِبِهَا.
قیامت اس وقت تک واقع نہیں ہو گی جب تک اس سے پہلے تم دس نشانیاں نہ دیکھ لو- پھر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے (مشرق سے مغرب تک محیط) دھوئیں کا ذکر فرمایا۔ ۔ ۔ (اور آگے) سورج کے الٹی سمت سے (مغرب سے) طلوع ہونے کا بھی ذکر کیا۔
(الصحيح لمسلم، : 2 393)/ (مشکوة المصابيح : 472)
سورج کے اُلٹی سمت (مغرب) سے طلوع ہونے کا معنی بھی یہی ہے کہ وہ کشش جو تمام اَجرام کو اپنے اپنے مستقر اور مدار پر مقررہ سمت میں گردِش پذیر رکھتی ہے جب اُس میں تبدیلی واقع ہو جائے گی تو اُن کی حرکت کی سمتیں بھی متضاد اور متصادم ہو جائیں گی اور اُسی کے نتیجے میں بالآخر سب کچھ آپس میں ٹکرا کر پاش پاش ہو جائے گا۔ (گویا زمین کی گردش اُلٹی ہو جائے گی جس سے سورج مغرب سے طلوع ہوتا نظر آئے گا)۔
واللہ اعلم
بھٹی صاحب کے جواب کا انتطار رہے گا۔