السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
اذان میں حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا نام اقدس سن کر انگوٹھے چومنے کی حدیث ضعیف ہے یا موضوع ؟
اگر ضعیف ہے تو ضعیف حدیث پر فضائل واعمال میں عمل کیا جاسکتا ہے۔
فضائل اعمال میں ضعیف حدیث پر عمل کی بحث تو بعد میں کریں گے، پہلے آپ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا نام سن کر انگوٹھے چومنے کا عمل کسی معتبر و مقبول حدیث سے ثابت کردیں!
پھر دیکھیں گے کہ اس کی فضیلت کیا ہے اور اعمال کی فضیلت کے متعلق ضعیف احادیث کا کیا معاملہ ہے!
ناچیز اسے ضعیف سمجھتا ہے جیسا کہ محدثین نے لکھا۔اسے موضوع کہنا جھوٹ ہے جس کا کوئی ثبوت نہیں۔
ویسے علم الحدیث کے معاملہ میں مقلدین احناف سے گفتگو کرنا ایسے ہی ہے جیسے کسی مچھلی کو کوہ پیمائی سکھلانا!
محدثین نے اس روایت و خضر علیہ السلام سے روایت کرنے کی علت بھی بیان کی ہے!
یہ بتلائیے کہ کوئی امتی ، وہ بھی جو نہ صحابی ہو، نہ تابعی ہو یہ تبع تابعین میں سے ہو، خضر علیہ السلام سے روایت کرے، وہ بدعتی صوفیوں کے ہا جو ہو سو ہو، محدثین کے ہاں مقبول نہیں ، بلکہ مردود و ضعیف اور من گھڑت و موضوع ہے!
محدثین نے اس حدیث کو بلا سند ذکر کرکے لایصح ہی کہا اور ضعیف قرار دیا۔علامہ طاہر پٹنی نے یہ بھی لکھا کہ کثیر لوگوں نے اس کا تجربہ کیا۔ آپ محدثین کی تحریروں کو نہیں مانتے تو نہ مانیں ، اس جھگڑے والی کون سی بات ہے۔
بلا سند اور لا يصح کو ضعیف و موضوع بھی کہا جائے گا!
علامہ طاہر پٹنی نے کہا ہے کہ ''وروي تجربة ذلك عن كثرين'' یعنی کہ '' بہت سے لوگوں سے اس کا تجربہ کرنا روایت کیا گیا ہے!
دو باتوں پر غور کریں! ایک تو یہ علامہ طاہر پٹنی نے ان تجربہ کاروں کا نہ نام لکھا ہے، اور نہ ان تک سند بیان کی ہے، بلکہ اتنا کہا کہ روایت کیا گیا ہے! اب یہ روایت کیسی ہے ، یہ نہیں بتلایا!
دوم کہ لوگوں نے تجربہ کیا۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا تجربہ کیا؟ یہ عمل یعنی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا نام سن کر انگھوٹے کا چوما، یہ عمل تو ممکن ہے، لیکن یہ کہ انہیں اس عمل کی وجہ سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت ملی! روایت کرنے والوں کو عالم آخرت کی یہ خبر کس نے لا کر دی؟ ان پر جبرائیل علیہ السلام نازل ہوئے تھے!
اور یہ کہا جائے کہ ان کی آنکھیں کبھی نہ دُکھیں، اور وہ نا بینا نہ ہوئے، تو اس سے یہ کہا لازم آتا ہے کہ سبب ان کا یہ عمل تھا!
اکثر کفار ، یہود و نصاری و ہندو سکھ بھی بینا ہی موت پاتے ہیں، اور یہ بھی کہیں وارد نہیں ہوا کہ ہر کسی کو آنکھیں دُکھنے کا مرض ضرور بالضرور لاحق ہونا ہے!
پھر علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کی آنکھیں تو غزوہ خیبر کے موقع پر دُکھیں تھیں! اس پر کیا کہا جائے گا!
دیکھیں میرے بھائی! ہمارا منہج یہ ہے کہ ہم کسی کی خطاء کی پیروی خود پر لازم قرار نہیں دیتے !
اول تو محدثین نے اس حدیث کو مقبول قرار نہیں دیا، نہ اعمال میں نہ فضائل اعمال میں! لہٰذا ہم پر اس معاملہ تو یہ الزام ہی باطل ہے کہ ہم محدچین کی تحریروں کو نہیں مانتے!
فقہ مالکی کے امام مالک رضی اللہ عنہ کے پاس کون سی حدیث تھی کہ آپ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا نام اقدس آنے پر ادب سےجھک جاتے تھے ؟
امام مالک کے اس عمل کا حوالہ مطوب ہے!
دوم کہ ادب سے جھکنے سے انگھوٹھوں کا چومنا ثابت نہیں ہوتا!
عمر اثری صاحب آپ بحث برائے بحث کررہے ہیں ،آپ نے غالباً سکین پڑھا نہیں ،علامہ طاہر پٹنی علیہ الرحمہ نے حدیث کی سند نہ ہونے پر ضعیف کا حکم لگایا ہے۔اور نہ آپ نے امام مالک رضی اللہ عنہ کے فعل پر کچھ کہا۔
میرے بھائی! وہی بات ہے کہ آپ کو بلا سند او ر لا یصح سے ضعیف کا حکم معلوم ہوتا ہے اور آپ ضعیف کے حکم کو موضوع کے حکم کے منافی سمجھتے ہو!
انہیں وجوہات کی بنا پر کہتا ہوں کہ مقلدین حنفیہ سے علم الحدیث کے بارے میں گفتگو کرنا مچھلی کو کوہ پیمائی سکھلانے کے مترادف ہوتی ہے!
(نوٹ: علامہ طاہر پٹنی الحنفی کا مؤقف اگر محدثین کے مؤقف کے موافق ہو تب تو اس بحث کی ضرورت نہیں، لیکن اگر علامہ طاہر پٹنی الحنفی کا مؤقف محدثین کے مؤقف کے موافق نہیں، تو علامہ طاہر پٹنی الحنفی کا مؤقف محدثین کے مؤقف میں شمار ہی نہیں کیا جائے گا! چہ جائے کہ اسے دوسرا مؤقف یا شذوذ سمجھا جائے۔ ہم علامہ طاہر پٹنی الحنفی کا حوالہ دلائل خصم کے اعتبار سے پیش کرتے ہیں!)