• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

انگوٹھے چومنے کی حدیث

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
ایک حدیث ہے ، اس کی جیسی تیسی سند ہے ۔
دوسری ہے ، جس کی سرے سےسند ہے ہی نہیں ۔
سند موجود تھی ، کذاب راوی سامنے آگیا ، حدیث موضوع کہہ دی گئی ۔
سند موجود ہی نہیں تھی ، کہہ دیا گیا کہ یہ بے اصل ہے ، یا بلا سند ہے ۔ یا صحیح نہیں ، یا غیر ثابت ہے وغیرہ ۔
اب اس آخری صورت حال کو پہلی سے بہتر سمجھ لینا ، درست نہیں ۔
اس طرح تو ہر موضوع روایت کو دوسری حالت میں لایا جاسکتا ہے ، کہ کذاب راوی کا سرے سے ذکر کیا ہی نہ جائے ۔
امام مالک اگر نام سن کر جھکتے بھی تھے ، تو انہوں نے کون سا اس کے لیے کوئی حدیث گھڑ لی تھی ۔ کہ جو جھکے گا ، سب گناہ گِر جائیں گے ۔ انگوٹھے چومنے کے لیے دلیل حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث چاہیے ، کسی جھوٹے راوی یا سچے امام کا قول یا فعل نہیں ۔
 
شمولیت
دسمبر 13، 2020
پیغامات
15
ری ایکشن اسکور
3
پوائنٹ
31
*تحقیق حدیث :*
*قیصر عباس عطاری*


*انگوٹھے چومنے والی حدیث کا حکم*

*حدیث مبارکہ*

عن ابی بکر الصدیق رضی اللّٰہ عنہ انہ لما سمع قول المؤذن : أشهد أن محمدا رسول الله قال ھذا و قبل باطن الانملتین السبابتین و مسح عینیہ فقال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم : من فعل ذلك فقد حلت عليه
شفاعتي۔۔۔

*حوالہ جات:*

(ذکرہ الدیلمی فی الفردوس، الاسرار المرفوعہ جلد 1 صفحہ 306 حدیث 435، المقاصد الحسنہ صفحہ 604 حدیث 1021, کشف الخفاء جلد 2 صفحہ 241 حدیث 2296)


*اسانید:*
اگرچہ اس حدیث کی سند تک محدثین کرام کو رسائی نہ ہو سکی تاہم اس حدیث کو بہت سارے آئمہ محدثین نے اپنی کتابوں میں بغیر سند کے ذکر کیا ہے۔


*شواہد و آثار:*


اس حدیث کے کئی آثار مقاصد حسنہ میں بیان کیے گئے ہیں جن میں سے کچھ ذیل میں عرض کیے جاتے ہیں ۔

1۔۔۔حضرت خضر علیہ السلام سے بھی اسی کی مثل منقول ہے جیسا کہ *امام سخاوی* نے لکھا ہے کہ
وكذا ما أورده أبو العباس أحمد بن أبي بكر الرداد اليماني المتصوف في
کتابه و موجبات الرحمة وعزائم المغفرة ، بسند فيه مجاهيل مع انقطاعه عن
الخضر عليه السلام أنه : من قال حين يسمع المؤذن يقول أشهد أن محمدا
رسول الله : مرحبا بحبيبي وقرة عيني محمد بن عبد الله ، ثم يقبل ابهاميه
ويجعلهما على عينيه - لم يرصد أبدا

اس کے بعد امام سخاوی ایک اور اثر لائے ہیں کہ اس طرح کرنے سے آنکھوں کے مسئلے سے شفاء مل گئی تھی۔آپ لکھتے ہیں کہ

ثم روی بسند فيه من لم أعرفه عن أخي الفقيه محمد بن البابا ، فيما
حکی عن نفسه : أنه هبت ريح فوقعت منه حصاة في عينه ، فأعياه خروجها ،
والمته أشد الألم ، وأنه لما سمع المؤذن يقول أشهد أن محمدا رسول الله قال ذلك ، فخرجت الحصاة من فوره ، قال الرداد : وهذا يسير في جنب فضائل الرسول الا

اسی طرح آپ نے ایک اور اثر بیان کیا ہے کہ

وحكى الشمس محمد بن صالح المدني امامها وخطيبها في تاريخه ، عن
المجد أحد القدماء من المصريين ، أنه سمعه يقول : من صلى على النبي ﷺ
إذا سمع
ذكره في الأذان ،
وجمع
أصبعيه المسبحة والابهام وقبلهما ومسح بهما
عينيه ، لم يرقد أبدا

اور اسی کی تائید میں یہ بھی لے کر آئے ہیں کہ

قال ابن صالح : وسمعت ذلك أيضا من الفقيه محمد بن الزرندي
، عن
بعض شيوخ العراق أو العجم : أنه يقول عندما يمسح عينيه : صلى الله عليك يا
سيدي يا رسول الله يا حبيب قلبي ويا نور بصري ويا قرة عيني ، وقال لي : كل
منهما منذ فعله لم ترمد عيني۔۔۔

اس کے بعد بھی آپ نے دو آثار ذکر کیے ہیں

*وبعدہ:*

اور انہی آثار کو *امام عجلونی* نے کشف الخفاء میں بھی ذکر کیا ہے۔۔۔۔

*ملا علی قاری:*

ملا علی قاری نے بھی اس حدیث کو الاسرار المرفوعہ میں ذکر کیا ہے
اور اس کے بعد حضرت خضر علیہ السلام والی روایت کو بھی ذکر کیا ہے
اس کے ملا علی قاری اپنا ذاتی موقف بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ
"قلت و اذا ثبت رفعہ علی الصدیق فیکفی العمل بہ لقولہ علیہ السلام *علیکم بسنتی و سنة الخلفاء الراشدین*۔

ملا علی قاری فرماتے ہیں کہ
جب اس حدیث کا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ سے مرفوع ہونا ثابت ہو گیا ہو تو پس اس حدیث پر عمل کرنے کےلیے یہی ہی کافی ہے نبی علیہ السلام کے اس فرمان کی وجہ سے کہ

"تم پر میری اور میرے خلفائے راشدین کی سنت کو پکڑنا لازم ہے"

پس ثابت ہوا کہ یہ جائز ہے کہ ملا علی قاری نے اس کے جواز کا قول کیا ہے۔۔

یعنی کہ ملا علی قاری اس حدیث کو درجہ ضعف پہ رکھا ہے۔

*اعتراضات :*

دیابنہ اور وہابیہ اس حدیث پر امام سخاوی کے قول *لا یصح* کو لے کر ڈھنڈورا پیٹتے ہیں حالانکہ لا یصح کے الفاظ کسی بھی حدیث کے بطلان و وضع کو مسلتزم نہیں ہیں بلکہ لا یصح سے اس حدیث کی صحة کی نفی ہے اور محققین کے علم میں یہ بات واضح طور پہ موجود ہے کہ صحیح اور موضوع کے درمیان بہت سارے واسطے ہیں اور خاص *لا یصح* کے حوالے سے بھی آئمہ محدثین کے کثیر اقوال موجود ہیں لیکن میں یہاں پر طوالت کے خوف کی وجہ سے چند حوالے ہی نقل کرتا ہوں

*امام ابن ححر عسقلانی* فرماتے ہیں کہ
"من نفی الصحة لاینتفی الحسن"

(نتائج الفکار فی تخریج احادیث الاذکار)

*ملا علی قاری* موضوعات کبیر میں فرماتے ہیں کہ
لایصح لاینافی الحسن

شیخ محقق شرح صراط مستقیم میں فرماتے ہیں کہ
"اصطلاح محدثین میں عدم صحت کا ذکر غرابت کا حکم نہیں رکھتا کیونکہ حدیث کا صحیح ہونا اس کا اعلی ترین درجہ ہے"

ان کے علاوہ بھی کئی محدثین نے اس کی تصریح فرمائی ہے

اور دوسرا اعتراض یہ کیا جاتا ہے کہ اس کی سند مذکور نہیں ہے لہذا یہ حدیث موضوع ہے حالانکہ یہ بات بھی درست نہیں ہے کہ ایسا مطلق نہیں ہے کہ جس بھی حدیث کی سند ذکر نہ ہو تو وہ وضع کو ہی مستلزم ہے اس پر بھی چند تصریحات ذکر کرتا ہوں تاکہ حق واضح ہو جائے ۔

*اعلی حضرت فاضل بریلوی* نے اپنے رسالے منیر العین فی حکم تقبیل الابہامین میں اس اعتراض کا وسیع جواب دیا آپ نے باقاعد اس حوالے سے ایک *فائدہ* نامی فصل قائم کی جس کا نام *"حدیث بے سند مذکور علماء کے قبول میں نفیس و جلیل احقاق اور اوہام قاصرین زماں کا ابطال و ازہاق"* رکھا جسے اختصار کے ساتھ نقل کرنے کی کوشش کرتا ہوں

آپ نے لکھا کہ

"غیر صحابی جو قول یا فعل یا حال حضور سید المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف بے سند متصل نسبت کرے محدثین کے نزدیک باختلاف حالات و اصطلاحات مرسل،منقطع،معلق معضل ہے اور فقہاء اصولین کی اصطلاح ميں سب کا نام مرسل اصطلاح حدیث پر تعلیق و اعضال یا اصطلاح فقہ و اصول پر ارسال میں کچھ بعض سند کا ذکر ہر گز لازم نہیں بلکہ تمام وسائط حذف کرکے علمائے مصنفین جو قال یا فعل رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم وامثال ذلک کہتے ہیں یہ بھی معضل و مرسل ہے
*امام اجل ابن صلاح* کتاب معرفة انواع علم الحدیث میں فرماتے ہیں کہ

معضل حدیث وہ ہوتی ہے جس کے سند سے دو یا دو
سے زائد راوی ساقط ہوں مثلا وہ جسے تبع تابعی یہ کہتے ہوئے روایت کرے کہ رسول اکرم صلی اللہ تعالى وآلہ وسلم نے فرمایا ، اور اسی طرح وہ روایت ہے
تبع تابعی کے بعد کا کوئی شخص حضور علیہ السلام سے
یا ابوکر وعمریا دیگر کسی صحابی سے حضور اور صحابہ کے درمیان واسطہ ذکر کیے بغیر روایت کرے۔۔۔

پھر آگے جا کر ارشاد فرمایا کہ

*"پھر باجماع محدثین و علماء فقہاء یہ سب انواع نوعِ موضوع سے بیگانہ ہیں اور مادون الاحکام مثل فضائل اعمال ومناقب رجال و سیرو احوال میں سلفا خلفا مأخؤذ و مقبول"*

اور سند کے بارے میں امام سفیان ثوری و عبداللہ بن مبارک رحمہما اللہ کے کلام دربارہ عقائد و احکام ہیں"

اور مزید مسلم الثبوت کے حوالے سے فرماتے ہیں کہ

مرسل اگر صحابی کی ہو تو مطلقا اتفاقا اسے قبول کیا جائے گا اور غیرصحابی کی مرسل کے بارے میں اکثر علماء جن میں امام اعظم ابو حنیفہ ، امام مالک اور امام احمد رضی الله تعالی عنہم ہیں، کی رائے
یہ ہے کہ مطلقا مقبول ہے بشرطیکہ راوی ثقہ ہو ، ابن ابان رحمہ الله تعالی جو ہمارے مشائخ کرام میں سے ہیں فرماتے ہیں کہ قرون ثلثہ ( تین زمانوں) کی مرسل مطلا مقبول ہے اور تین قرون کے بعد ائمہ قتل کی مرسل کبھی مقبول ہے، متاخرین کی ایک جماعت جن میں ابن حاجب مالکی اور شیخ کمال الدین بن الہمام ہم سے (یعنی احناف سے) کی رائے یہ ہے کہ ائمہ نقل کی مرسل مطلقا قبول ہے


( فتاوی رضویہ جلد 5 منیر العین فی حکم تقبیل الابہامین صفحہ 625 تا 629 )

لہذا مذکورہ بالا تصریحات کو سامنے رکھتے ہوئے یہ روزِ روشن کی طرح عیاں ہو گیا کہ یہ حدیث موضوع نہیں بلکہ ضعیف ہے اور بمطابق قول ملا علی قاری فضائل اعمال میں ضعیف احادیث پر عمل باجماع درست ہے۔


اور آخر میں ایک قاعدہ اور بھی بیان کرتا چلوں کہ جس حدیث ضعیف پر اہل علم کا عمل ہو تو وہ بھی مزید قوت پاتی ہے لہذا مذکورہ حدیث پر عمل کے جواز سے امتناع سراسر جہالت ہے۔

وہ *کتب احادیث* جن میں اس حدیث کو ذکر کیا گیا ہے درج ذیل ہیں۔۔

1۔۔۔مقاصد حسنہ
2۔۔۔الاسرار المرفوعہ
3۔۔۔کشف الخفاء
4۔۔۔المنتقی
5۔۔۔تذکرة الموضوعات
6۔۔۔اللؤلؤ
7۔۔۔الاتقان
8۔۔۔المصنوع
9۔۔۔التمییز


*حکم الروایہ:*

ضعیف ولکن یعمل بہ لان ھذا موجود فی فضائل اعمال و ایضا انہ قوی بعمل اہل العلم۔

واللہ اعلم بالصواب وارجو العفو بالتواب

*تحقیق:*
*قیصر عباس عطاری*
 

zahra

رکن
شمولیت
دسمبر 04، 2018
پیغامات
203
ری ایکشن اسکور
7
پوائنٹ
48
jazak Allah
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,416
ری ایکشن اسکور
2,733
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!ٰ
*اسانید:*
اگرچہ اس حدیث کی سند تک محدثین کرام کو رسائی نہ ہو سکی تاہم اس حدیث کو بہت سارے آئمہ محدثین نے اپنی کتابوں میں بغیر سند کے ذکر کیا ہے۔
یعنی یہ بات آپ کو تسلیم ہے، کہ اس روایت کی کوئی متصل سند موجود نہیں!
*ملا علی قاری:*

ملا علی قاری نے بھی اس حدیث کو الاسرار المرفوعہ میں ذکر کیا ہے
اور اس کے بعد حضرت خضر علیہ السلام والی روایت کو بھی ذکر کیا ہے
اس کے ملا علی قاری اپنا ذاتی موقف بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ
"قلت و اذا ثبت رفعہ علی الصدیق فیکفی العمل بہ لقولہ علیہ السلام *علیکم بسنتی و سنة الخلفاء الراشدین*۔

ملا علی قاری فرماتے ہیں کہ
جب اس حدیث کا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ سے مرفوع ہونا ثابت ہو گیا ہو تو پس اس حدیث پر عمل کرنے کےلیے یہی ہی کافی ہے نبی علیہ السلام کے اس فرمان کی وجہ سے کہ
ملا علی القاری کو اس روایت کی سند ملی؟
کیا ملا علی القاری نے اس کی سند بیان کی؟
جب ملا علی القاری کو اس کی سند ہی نہیں ملی، تو ملا علی القاری کا یہ کہنا کہ ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ سے ثابت ہو گیا کیسے مقبول ہو سکتا ہے؟
یا تو ملا علی القاری اس روایت کی مقبول سند ثابت کریں، یا آپ کردیں، جب تک یہ نہ ہو گا، ملا علی القاری اور آپ کا ثبوت کا دعوی بلا دلیل و مردود ہو گا!
آگے جو آپ نے بحث کی ہے، اس پر اتنا سمجھنا ہی کافی ہے کہ:
''لا يصح'' نہ موضوع کو مستلزم ہے، اور نہ ہی موضوع و ضعیف ہونے کے منافی ہے!

دوسری بات، پہلے قرآن و صحیح و مقبول احادیث سے انگوٹھے چومنے کا عمل ثابت کرو، پھر بعد میں اس عمل کی فضیلت پر ضعیف روایات پیش کیجیئے گا!
یہ عجیب منطق ہے، عمل کا ثبوت نہیں، اور اس پر فضیلت ثابت کرنے کی سعی کی جا رہی ہے!
 
Last edited:

عدیل سلفی

مشہور رکن
شمولیت
اپریل 21، 2014
پیغامات
1,717
ری ایکشن اسکور
430
پوائنٹ
197
علامہ شامی نے فتاوی صوفیہ سے اسے نقل کیا ہے اور جو ضعیف روایات ان کے ثبوت میں انہیں ملیں ان کے پیش نظر اس عمل کو مستحب کہا اور آخر میں کہہ دیا کہ حضور ﷺ سے اس بات میں کوئی صحیح حدیث نہیں ملی!
ولم يصح في المرفوع من كل هذا شيء

بریلویوں کے عالم مولانا محمود احمد رضوی لکھتے ہیں:
فقہاء احناف بہ تصریح فرماتے ہیں کہ جو شخص کسی اَمرِ مستحب کو فرض واجب سمجھنے لگے یا کسی اَمرِ مستحب کو فرض و واجب کا دَرجہ دے تو جان لو کہ اِس پر شیطان کا داوچل گیا، علامہ طیبی شرح مشکوٰة میں (حضرت عبد اللہ اِبن مسعود رضی اللہ عنہ کی حدیث بالا کے ذیل میں) لکھتے ہیں کہ اِس کا حاصل یہ ہے کہ جو شخص کسی اَمرِ مستحب کو ضروری سمجھے اَور رُخصت پر عمل نہ کرے تو شیطان کا داو اُس پر چل گیا (کہ شیطان نے اِسے گمراہ کر دیا) جب کسی مستحب کو ضروری سمجھنے کا یہ حکم ہے تو اَندازہ لگاو کہ کسی بدعت یا منکر (بری بات) کو ضروری سمجھنے والے کا کیا حال ہوگا۔
[بصیرت:۲۳۷]
[شرح الطيبي على مشكوٰة المصابيح:۱۰۵۱]

حنفی عالم مولانا مفتی عبدالرحیم لاجپوری لکھتے ہیں:
نام مبارک لے کر یا سُن کر انگوٹھے چومنے کی حدیث سے ثابت شدہ ماننا اور مسنون سمجھنا اور اس کو آپ کی تعظیم ٹھہرانا غلط اور بے دلیل ہے یہ بدعتیوں کی ایجاد ہے اور اس سے احتراز کرنا ضروری ہے۔
[فتاوی رحیمیہ:۵۹/۲]
 
شمولیت
دسمبر 13، 2020
پیغامات
15
ری ایکشن اسکور
3
پوائنٹ
31
*تحقیق حدیث :*


*انگوٹھے چومنے والی حدیث کا حکم*


*حدیث مبارکہ*


عن ابی بکر الصدیق رضی اللّٰہ عنہ انہ لما سمع قول المؤذن : أشهد أن محمدا رسول الله قال ھذا و قبل باطن الانملتین السبابتین و مسح عینیہ فقال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم : من فعل ذلك فقد حلت عليه شفاعتي۔۔۔

*حوالہ جات:*
(ذکرہ الدیلمی فی الفردوس، الاسرار المرفوعہ جلد 1 صفحہ 306 حدیث 435، المقاصد الحسنہ صفحہ 604 حدیث 1021, کشف الخفاء جلد 2 صفحہ 241 حدیث 2296)


*اسانید:*

اگرچہ اس حدیث کی سند تک محدثین کرام کو رسائی نہ ہو سکی تاہم اس حدیث کو بہت سارے آئمہ محدثین نے اپنی کتابوں میں بغیر سند کے ذکر کیا ہے۔

*شواہد و آثار:*

اس حدیث کے کئی آثار مقاصد حسنہ میں بیان کیے گئے ہیں جن میں سے کچھ ذیل میں عرض کیے جاتے ہیں ۔

1۔۔۔حضرت خضر علیہ السلام سے بھی اسی کی مثل منقول ہے جیسا کہ *امام سخاوی* نے لکھا ہے کہ

وكذا ما أورده أبو العباس أحمد بن أبي بكر الرداد اليماني المتصوف في

کتابه و موجبات الرحمة وعزائم المغفرة ، بسند فيه مجاهيل مع انقطاعه عن

الخضر عليه السلام أنه : من قال حين يسمع المؤذن يقول أشهد أن محمدا

رسول الله : مرحبا بحبيبي وقرة عيني محمد بن عبد الله ، ثم يقبل ابهاميه

ويجعلهما على عينيه - لم يرصد أبدا

اس کے بعد امام سخاوی ایک اور اثر لائے ہیں کہ اس طرح کرنے سے آنکھوں کے مسئلے سے شفاء مل گئی تھی۔آپ لکھتے ہیں کہ

ثم روی بسند فيه من لم أعرفه عن أخي الفقيه محمد بن البابا ، فيما

حکی عن نفسه : أنه هبت ريح فوقعت منه حصاة في عينه ، فأعياه خروجها ،

والمته أشد الألم ، وأنه لما سمع المؤذن يقول أشهد أن محمدا رسول الله قال ذلك ، فخرجت الحصاة من فوره ، قال الرداد : وهذا يسير في جنب فضائل الرسول الا

اسی طرح آپ نے ایک اور اثر بیان کیا ہے کہ
وحكى الشمس محمد بن صالح المدني امامها وخطيبها في تاريخه ، عن المجد أحد القدماء من المصريين ، أنه سمعه يقول : من صلى على النبي ﷺإذا سمعذكره في الأذان ،وجمع أصبعيه المسبحة والابهام وقبلهما ومسح بهماعينيه ، لم يرقد أبدا اور اسی کی تائید میں یہ بھی لے کر آئے ہیں کہ

قال ابن صالح : وسمعت ذلك أيضا من الفقيه محمد بن الزرندي، عن بعض شيوخ العراق أو العجم : أنه يقول عندما يمسح عينيه : صلى الله عليك يا سيدي يا رسول الله يا حبيب قلبي ويا نور بصري ويا قرة عيني ، وقال لي : كل منهما منذ فعله لم ترمد عيني۔۔۔

اس کے بعد بھی آپ نے دو آثار ذکر کیے ہیں

*وبعدہ:*

اور انہی آثار کو *امام عجلونی* نے کشف الخفاء میں بھی ذکر کیا ہے۔۔۔۔

*ملا علی قاری:*

ملا علی قاری نے بھی اس حدیث کو الاسرار المرفوعہ میں ذکر کیا ہے

اور اس کے بعد حضرت خضر علیہ السلام والی روایت کو بھی ذکر کیا ہے
اس کے ملا علی قاری اپنا ذاتی موقف بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ
"قلت و اذا ثبت رفعہ علی الصدیق فیکفی العمل بہ لقولہ علیہ السلام *علیکم بسنتی و سنة الخلفاء الراشدین*۔

ملا علی قاری فرماتے ہیں کہ

جب اس حدیث کا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ سے مرفوع ہونا ثابت ہو گیا ہو تو پس اس حدیث پر عمل کرنے کےلیے یہی ہی کافی ہے نبی علیہ السلام کے اس فرمان کی وجہ سے کہ

"تم پر میری اور میرے خلفائے راشدین کی سنت کو پکڑنا لازم ہے"

پس ثابت ہوا کہ یہ جائز ہے کہ ملا علی قاری نے اس کے جواز کا قول کیا ہے۔۔

یعنی کہ ملا علی قاری اس حدیث کو درجہ ضعف پہ رکھا ہے۔


*اعتراضات :*


دیابنہ اور وہابیہ اس حدیث پر امام سخاوی کے قول *لا یصح* کو لے کر ڈھنڈورا پیٹتے ہیں حالانکہ لا یصح کے الفاظ کسی بھی حدیث کے بطلان و وضع کو مسلتزم نہیں ہیں بلکہ لا یصح سے اس حدیث کی صحة کی نفی ہے اور محققین کے علم میں یہ بات واضح طور پہ موجود ہے کہ صحیح اور موضوع کے درمیان بہت سارے واسطے ہیں اور خاص *لا یصح* کے حوالے سے بھی آئمہ محدثین کے کثیر اقوال موجود ہیں لیکن میں یہاں پر طوالت کے خوف کی وجہ سے چند حوالے ہی نقل کرتا ہوں

*امام ابن ححر عسقلانی* فرماتے ہیں کہ

"من نفی الصحة لاینتفی الحسن"

(نتائج الفکار فی تخریج احادیث الاذکار)

*ملا علی قاری* موضوعات کبیر میں فرماتے ہیں کہ

لایصح لاینافی الحسن

شیخ محقق شرح صراط مستقیم میں فرماتے ہیں کہ

"اصطلاح محدثین میں عدم صحت کا ذکر غرابت کا حکم نہیں رکھتا کیونکہ حدیث کا صحیح ہونا اس کا اعلی ترین درجہ ہے"

ان کے علاوہ بھی کئی محدثین نے اس کی تصریح فرمائی ہے

اور دوسرا اعتراض یہ کیا جاتا ہے کہ اس کی سند مذکور نہیں ہے لہذا یہ حدیث موضوع ہے حالانکہ یہ بات بھی درست نہیں ہے کہ ایسا مطلق نہیں ہے کہ جس بھی حدیث کی سند ذکر نہ ہو تو وہ وضع کو ہی مستلزم ہے اس پر بھی چند تصریحات ذکر کرتا ہوں تاکہ حق واضح ہو جائے ۔


*اعلی حضرت فاضل بریلوی* نے اپنے رسالے منیر العین فی حکم تقبیل الابہامین میں اس اعتراض کا وسیع جواب دیا آپ نے باقاعد اس حوالے سے ایک *فائدہ* نامی فصل قائم کی جس کا نام *"حدیث بے سند مذکور علماء کے قبول میں نفیس و جلیل احقاق اور اوہام قاصرین زماں کا ابطال و ازہاق"* رکھا جسے اختصار کے ساتھ نقل کرنے کی کوشش کرتا ہوں
آپ نے لکھا کہ "غیر صحابی جو قول یا فعل یا حال حضور سید المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف بے سند متصل نسبت کرے محدثین کے نزدیک باختلاف حالات و اصطلاحات مرسل،منقطع،معلق معضل ہے اور فقہاء اصولین کی اصطلاح ميں سب کا نام مرسل اصطلاح حدیث پر تعلیق و اعضال یا اصطلاح فقہ و اصول پر ارسال میں کچھ بعض سند کا ذکر ہر گز لازم نہیں بلکہ تمام وسائط حذف کرکے علمائے مصنفین جو قال یا فعل رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم وامثال ذلک کہتے ہیں یہ بھی معضل و مرسل ہے

*امام اجل ابن صلاح* کتاب معرفة انواع علم الحدیث میں فرماتے ہیں کہ
معضل حدیث وہ ہوتی ہے جس کے سند سے دو یا دو سے زائد راوی ساقط ہوں مثلا وہ جسے تبع تابعی یہ کہتے ہوئے روایت کرے کہ رسول اکرم صلی اللہ تعالى وآلہ وسلم نے فرمایا ، اور اسی طرح وہ روایت ہے

تبع تابعی کے بعد کا کوئی شخص حضور علیہ السلام سے یا ابوکر وعمریا دیگر کسی صحابی سے حضور اور صحابہ کے درمیان واسطہ ذکر کیے بغیر روایت کرے۔۔۔

پھر آگے جا کر ارشاد فرمایا کہ
*"پھر باجماع محدثین و علماء فقہاء یہ سب انواع نوعِ موضوع سے بیگانہ ہیں اور مادون الاحکام مثل فضائل اعمال ومناقب رجال و سیرو احوال میں سلفا خلفا مأخؤذ و مقبول"*

اور سند کے بارے میں امام سفیان ثوری و عبداللہ بن مبارک رحمہما اللہ کے کلام دربارہ عقائد و احکام ہیں"

اور مزید مسلم الثبوت کے حوالے سے فرماتے ہیں کہ

مرسل اگر صحابی کی ہو تو مطلقا اتفاقا اسے قبول کیا جائے گا اور غیرصحابی کی مرسل کے بارے میں اکثر علماء جن میں امام اعظم ابو حنیفہ ، امام مالک اور امام احمد رضی الله تعالی عنہم ہیں، کی رائے یہ ہے کہ مطلقا مقبول ہے بشرطیکہ راوی ثقہ ہو ، ابن ابان رحمہ الله تعالی جو ہمارے مشائخ کرام میں سے ہیں فرماتے ہیں کہ قرون ثلثہ ( تین زمانوں) کی مرسل مطلا مقبول ہے اور تین قرون کے بعد ائمہ قتل کی مرسل کبھی مقبول ہے، متاخرین کی ایک جماعت جن میں ابن حاجب مالکی اور شیخ کمال الدین بن الہمام ہم سے (یعنی احناف سے) کی رائے یہ ہے کہ ائمہ نقل کی مرسل مطلقا قبول ہے

( فتاوی رضویہ جلد 5 منیر العین فی حکم تقبیل الابہامین صفحہ 625 تا 629 )


لہذا مذکورہ بالا تصریحات کو سامنے رکھتے ہوئے یہ روزِ روشن کی طرح عیاں ہو گیا کہ یہ حدیث موضوع نہیں بلکہ ضعیف ہے اور بمطابق قول ملا علی قاری فضائل اعمال میں ضعیف احادیث پر عمل باجماع درست ہے۔


اور آخر میں ایک قاعدہ اور بھی بیان کرتا چلوں کہ جس حدیث ضعیف پر اہل علم کا عمل ہو تو وہ بھی مزید قوت پاتی ہے لہذا مذکورہ حدیث پر عمل کے جواز سے امتناع سراسر جہالت ہے۔


وہ *کتب احادیث* جن میں اس حدیث کو ذکر کیا گیا ہے درج ذیل ہیں۔۔


1۔۔۔مقاصد حسنہ

2۔۔۔الاسرار المرفوعہ

3۔۔۔کشف الخفاء

4۔۔۔المنتقی

5۔۔۔تذکرة الموضوعات

6۔۔۔اللؤلؤ

7۔۔۔الاتقان

8۔۔۔المصنوع

9۔۔۔التمییز

*حکم الروایہ:*

ضعیف ولکن یعمل بہ لان ھذا موجود فی فضائل اعمال و ایضا انہ قوی بعمل اہل العلم۔
واللہ اعلم بالصواب وارجو العفو بالتواب

*تحقیق:*
*قیصر عباس*
 
Top