ہابیل
سینئر رکن
- شمولیت
- ستمبر 17، 2011
- پیغامات
- 967
- ری ایکشن اسکور
- 2,912
- پوائنٹ
- 225
اسلام علیکموعلیکم السلام
فقہی جواب تو برادر برادر اسحاق سلفی نے دے دیا ہے، جس پر عمل در آمد کرنا چاہئے۔
میں صرف ایک ”نکتہ“ کی طرف توجہ دلانا کرنا چاہتا ہوں کہ اکثر لوگ ”دینے دلانے“ کے سارے کام زکوٰۃ سے ہی ادا کرنا چاہتے ہیں۔ اور جس مد میں زکوٰۃ نہیں بھی دی جاسکتی، علمائے کرام سے اس میں ”گنجائش“ پیدا کرنے کی اپیل کی جاتی ہے ۔ کیونکہ ”استثنیٰ“ تو ہر دنیوی اور شرعی قانون میں موجود ہوتا ہے۔
اب اوپر ہی کی مثال لیجئے۔ (قطع نظر اس بات کے کہ شادی شدہ بیٹی کو زکوٰۃ دینا جائز ہے) عمومی طور پر ہم سب کو معلوم ہے کہ ہم زکوٰۃ سے اپنی اولاد کی مدد نہیں کرسکتے۔ اس کے باوجود وہ صاحب یہ چاہتے ہیں کہ وہ زکوٰۃ ہی سے اپنی اولاد کی مدد کریں کیونکہ، بقول خود اُن کے، وہ خود ”غریب“ ہیں اور اپنی اولاد کی مدد نہیں کرسکتے البتہ ”کچھ زکوٰۃ“ بنتی ہے، تو اس زکوٰۃ سے مدد کرسکتے ہیں۔ صرف ”شرعی اجازت“ درکار ہے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ زکوٰۃ جس فرد پر فرض ہے، وہ تو ”صاحب نصاب“ ہوتا ہے۔ اور جو صاحبِ نصاب ہوتا ہے، اس کے پاس کم از کم ایک سال سے ساڑھے سات تولہ سونا یا اس کی مالیت کے برابر رقم (آج کے حساب سے تین لاکھ 73 ہزار 65 روپے) بطور ”فاضل“ موجود ہوتا ہے۔ جس کی زکوٰۃ 9،326 روپے بنتی ہے۔ گویا اس ”غریب باپ“ کے پاس سال بھر سے کم از کم پونے چار لاکھ روپے موجود ہیں، جس کی زکوٰۃ نو ہزار روپے انہیں ہر حال میں ادا کرنی ہے۔ اور اب وہ چاہتے ہیں کہ اسی زکوٰۃ کی رقم سے اپنی اولاد کی مدد کریں کیونکہ وہ ”غریب“ ہیں اور زکوٰۃ کے علاوہ (اپنے پاس موجود فاضل پونے چار لاکھ روپے سے) اپنی اولاد کی ”ضرورت“ پوری نہیں کرسکتے جو محض نو ہزار روپے یا اس سے بھی کم ہوگی۔
کیا ایک ”صاحب نصاب“ مسلمان کا اپنے ”فاضل مال“ سے اس قدر محبت، فرض زکوٰۃ کے علاوہ نفلی صدقات و خیرات سے ”انکار“ اور فرض زکوٰۃ کو بھی اپنی ہی اولاد پر خرچ کرنے پر ”اصرار“ ۔ ۔ ۔ ایک مسلمان کا ”شیوہ“ ہونا چاہئے ؟ ذرا سوچئیے کہ یہ تحریر صرف ”سوچنے“ کے لئے ہے۔
بھائیوں کابہت شکریہ جزاک اللہ
سونے کے علاوہ 52 تولے چاندی اور کاروباروغیرہ پر بھی زکوۃ بنتی ہے
بھائی ہمارےاور آپ کے لیے تو یہ رقم کچھ بھی نہ ہو مگر آدھی دنیا سے زیادہ لوگ مہینہ میں بھی اتنا نہیں کما پاتےزکوٰۃ 9،326 روپے بنتی ہے
جزاک اللہ یوسف بھائی