- شمولیت
- اگست 25، 2014
- پیغامات
- 6,372
- ری ایکشن اسکور
- 2,589
- پوائنٹ
- 791
جی بالکل ساس کو زکوٰۃ دی جاسکتی ہے ،کیا ساس کو زکوٰۃ دی جا سکتی ہے؟
ذیل میں فتویٰ دیکھیں :
السؤال
بسم الله الرحمان الرحيم
سؤالي هو:في الزكاة
أم زوجتي في هولندا لاتوجد عندها تعويضات ولا أوراق الإقامة وتسكن مع بنتها الأخرى المطلقة,مع العلم بأنها هي التي تقوم برعايتها في كل المصاريف هل يجوز أن أدفع إليها زكاة الفطر ؟ وجزاكم الله عنا أحسن الجزاء
سوال :
میری ساس ہالینڈ میں رہتی ہیں ،ان کا کوئی ذریعہ آمدن نہیں ،اور وہاں انہیں ملازمت کا اجازت نامہ بھی حاصل نہیں ،ان کے ساتھ ان کی ایک طلاق یافتہ بیٹی رہتی ہے ،جو ان کے سارے اخراجات اٹھاتی ہے ،اس صورت حال میں کیا میں اپنی ساس کو زکاۃ فطر دے سکتا ہوں ؟
الإجابــة
الحمد لله والصلاة والسلام على رسول الله وعلى آله وصحبه أما بعد:
فالأصل أن لا مانع من إعطاء زكاة الفطر لأم الزوجة لأنها ليست ممن تجب نفقتهم على زوج ابنتها، لكن إذا كانت عندها من ينفق عليها من ابنة أو نحوها لم يجز ولم يجزىء دفع الزكاة إليها ما دامت النفقة تكفيها، إذ لا حظ في الزكاة لغنى بنفسه، أو بمن تلزمه نفقته وعليه فإذا كانت أم زوجتك تنفق عليها ابنتها المطلقة وتقوم عليها فلا تدفع زكاة مالك لها لأنها ليست من مصارف الزكاة، وراجع الفتوى رقم: 25067، والفتوى رقم: 40503.
والله أعلم،
جواب :
حمد و ثناء کے بعد :واضح رہے کہ اس مسئلہ میں شریعت کی اصل یہ ہے کہ اپنی بیوی کی ماں کو زکوٰۃ فطر دینے میں کوئی مانع نہیں ،کیونکہ ساس ان افراد میں شامل نہیں جن کے اخراجات اٹھانے داماد پر واجب ہوں ،
لیکن اگر ساس کے اخراجات کا ذمہ اس کی بیٹی یا کسی اور رشتہ دار نے اٹھا رکھا ہو ،اور اسے کوئی محتاجی بھی نہ ہو تو اسے زکاۃ دینا جائز نہیں ،
کیونکہ جسے زکاۃ کی حاجت نہیں اسے زکوٰۃ دینا جائز نہیں ،
تو جب تک انکے ساتھ رہنے والی ان کی بیٹی ان کے خرچ کا ذمہ داری نبھا رہی ہے اس وقت تک انہیں زکوٰۃ دینا جائز نہ ہوگا ،
http://fatwa.islamweb.net/fatwa/index.php?page=showfatwa&Option=FatwaId&Id=43543
ـــــــــــــــــــــــ
شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ "الاختيارات" (ص 104)میں فرماتے ہیں کہ:
" ويجوز صرف الزكاة إلى الوالدين وإن علوا – يعني الأجداد والجدات - وإلى الولد وإن سفل – يعني الأحفاد - إذا كانوا فقراء وهو عاجز عن نفقتهم ، وكذا إن كانوا غارمين أو مكاتبين أو أبناء السبيل ، وإذا كانت الأم فقيرة ولها أولاد صغار لهم مال ونفقتها تضر بهم أعطيت من زكاتهم " انتهى باختصار .
"والدین اور آباؤ اجداد کو اسی طرح اپنی اولاد ،نیچے تک یعنی پوتے پوتیوں کو زکاۃ دینا جائز ہے، بشرطیکہ یہ لوگ زکاۃ کے مستحق ہوں اور زکاۃ دینے والے کے پاس اتنا مال نہ ہو جس سے ان کا خرچہ برداشت کر سکے، یا ان میں سے کوئی مقروض ہو یا ،مکاتب ہو یا مسافر ہو تب بھی ان پر خرچ کر سکتا ہے، اسی طرح اگر ماں غریب ہو، اور اس کے بچوں کے پاس مال ہو، تو ماں کو بچوں کے مال کی زکاۃ دی جا سکتی ہے"