• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اولاد کی تربیت !!!

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
بعد از رضاعت بلوغت تک
بچہ جب ذرا سمجھ دار ہو جاتا ہے تو وہ ایک چھوٹا سا سائنس دان ہوتا ہے۔ مدت رضاعت کے بعد اس میں تجسس کا مادہ بہت زیادہ پایا جاتا ہے وہ ہر نئی شے تک پہنچنے اور پرکھنے کی جستجو میں لگا رہتا ہے۔ اپنی ذہنی استعداد کے مطابق بہت کچھ خود ہی سیکھ اور سمجھ لیتا ہے۔ یہ وہ ذہنی استعداد ہے جو رحم مادر سے لے کر باہر کا ماحول اسے فراہم کرتا ہے۔ اس کا لاشعور جو تربیت پا چکا ہوتا ہے وہ شعوری طور پر اس کا اظہار کرنا چاہتا ہے، تاکہ اگلے مرحلے میں وہ مزید اپنے ذہن کی نشوونما کر سکے۔
بچے کی روحانی غذا شروع دن سے اسی طرح بڑھانی چاہیے، جیسے کہ جسمانی غذا بتدریج بڑھائی جاتی ہے۔ اگر جسمانی غذا شروع دن سے ناقص ہو گی، کم ہوگی، بروقت نہ ملے گی تو بچہ جسمانی طور پر کمزور ہوگا۔ مختلف بیماریوں کا شکار ہو جائے گا اور وہ معذور بھی ہو سکتاہ ے، اگرچہ وہ صحت مند پیدا ہوا ہو۔
بالکل اسی طرح شروع دن سے روحانی غذا بروقت نہ ملے گی، نامکمل اور ناقص ہوگی تو بچہ روحانی طور پر کمزور، بیمار اور شاید معذور ہوگا۔ جس طرح حاملہ عورت کو کچھ بیماریوں سے بچاؤ کے لئے حفاظتی ٹیکے لگانا ضروری سمجھا جاتا ہے، اسی طرح روحانی بیماریوں سے بچنے کے لئے بھی پیدائش سے پہلے حفاظتی اقدامات کرنے ہوں گے اور پیدائش کے بعد بھی ان کا علاج کرنا ہوگا۔ اور وہ نیت کی درستگی، فرائض کی ادائیگی میں پابندی، قلب و نگاہ کو شعور مسلمان بنانے کے علاوہ اور کیا ہے؟
جس طرح اپنے بچے کی جسمانی صحت کے بارے میں لاپرواہی برا فعل ہے، اسی طرح بچے کی روحانی زندگی سے لاتعلقی بھی نہایت غلط اقدام ہے۔جسمانی غذا اور روحانی غذا کے ساتھ ساتھ جسمانی و روحانی لباس کی بھی بڑی اہمیت ہے۔ جسمانی لباس بچے کو عمر، موسم اور حالات کے لحاظ سے پہنایا جاتا ہے۔ چند دن کے بچے کو چند سال کے بچے کی خوراک اور چند سال کے بچے کو ایک جوان بچے کی خوراک دینا مناسب نہیں۔ جس طرح چند دن کے بچے کا لباس چند سال کے بچے کو اور کسی جوان کو چند سال کے بچے کا لباس زیب نہیں دیتا اور نہ عقل اس کو قبول کرتی ہے، اسی طرح روحانی لباس یعنی تقوی کا لباس بھی عمر، موسم، حالات اور ذہنی استعداد کے مطابق ساتھ ساتھ تیار کرتے رہنا ضروری ہے، بلکہ تقوی کا لباس و خوراک اس سے بھی زیادہ حکمت عملی اور احتیاط کا متقاضی ہے۔
بچہ بہت جلد اپنے والدین کی خوشی و ناراضی کو محسوس کرنے لگتا ہے۔ ماں بھی بچے کو سمجھانے کی خاطر اسے باپ کی ناراضی کا احساس دلاتی ہے، یا اس کے خوش ہونے کی وجہ بتاتی ہے کہ کس کام سے ابو ناراض اور کس سے خوش ہوں گے۔ اسی طرح شروع ہی سے بچے کے دل اور دماغ میں اللہ تعالی کی محبت اور خوشی کا احساس دلاناچاہیےکہ اللہ تعالی کس قدر مہربان ہے اور ہر چیز وہی عطا کرنے والا ہے۔
بچے کو احساس دلایا جائے کہ وہ محبت کرنے والی ہستی باری تعالی ناراض ہو جائے تو پھر سب ناراض ہو سکتے ہیں کیونکہ اللہ تعالی ہی سب کے دلوں میں یہ خیال ڈالتا ہے کہ بچے سے محبت کی جائے، پیار کیا جائے، اس کو اچھی اچھی چیزیں لا کر دی جائیں۔ بچے کے دل میں یہ یقین بٹھا دیا جائے کہ اگر اللہ تعالی کوئی چیز دینا چاہے تو وہ مل سکتی ہے۔ اس لئے اللہ کو ہمیشہ راضی اور خوش رکھنے کے لئے ہر اچھا کام کرنے کا جذبہ بچے کے ذہن، قلب اور سانسوں تک میں اتار دیا جائے۔ اللہ تعالی کی محبت کو خوشبو کی طرح بچے کے دل میں بٹھا دیا جائے۔ اللہ تعالی کی ذات کا تعارف: مہربان، شفیق، پیار کرنے والا، ہر چیز سے آگاہ اور وحدہ لاشریک کے طور پر کرایا جائے۔
بچے کی شخصیت کا خاکہ بن جانے کے لئے پہلے پانچ سال اہم ہیں۔ باقی عمر اس خاکے میں رنگ بھرتے رہنا ہے۔ کسی بھی عمارت میں بنیادوں کی جو اہمیت ہوتی ہے، عمر کے ابتدائی پانچ سال کی حیثیت بھی ویسی ہی ہے۔ سفید اور کورے کپڑے پر جو رنگ چڑھ جائے وہ ساری عمر باقی کے رنگوں میں اپنی جھلک دکھاتا رہے گا۔ خارجی ماحول اور عارضی حالات بچے کو کسی وقت بدل بھی دیں، اس تبدیلی میں یہ ابتدائی عمر کے احساسات ضرور اپنا حصہ محفوظ رکھیں گے۔ یہ عمر انسان کے عیوب و محاسن کی نشان دہی کر دیتی ہے۔ اس کے بعد تعلیم و تربیت، ماحول اور حالات یا تو عیوب کو اجاگر کرتے چلے جاتے ہیں یا محاسن کو، اور اسی کے مطابق دماغی نشوونما ہوتی چلی جاتی ہے۔
مسلمان ماؤں کے لئے بچے ہی ان کے امتحانی پرچے ہیں۔ جس کے جتنے بچے ہیں اس کے اتنے ہی پرچے ہیں اور انہی پرچوں کے نتیجے پر ان کی دنیا و آخرت کی کامیابی کا دارومدار ہے۔ ان پرچوں کا نتیجہ بھی خود اللہ تعالی نے تیار کرنا ہے۔ کامیاب ہونے پر انعام سے نوازنا ہے اور انعام بھی کیا ہے؟ جنت جیسی عظیم نعمت اور اپنی رضا کی بشارت اور رب سے ملاقات کی نوید۔
اسکول بھیجنے سے پہلے بچے میں اپنے مسلمان ہونے پر فخر کا جذبہ ضرور پیدا کر دینا چاہیے۔ اسکول کا ماحول گھر کے اور مسلمان والدین کے ذہن سے مطابقت رکھتا ہو تو بہت خوش نصیبی ہےورنہ والدین کو بہت سمجھ بوجھ اور ذمہ داری کا ثبوت دینا ہوگا۔ دین داری کو احساس کمتری کا نشان نہ بنایا جائے۔ دین اسلام کے بارے میں کسی معذرت خواہانہ طرز عمل سے اسے بچایا جائے۔ بچے کے دل میں یہ جرأت پیدا کی جائے کہ وہ پورے یقین کے ساتھ جانے اور اظہار کرے کہ اس کا لباس اسلامی ہے اور یہی سب سے بہتر ہے۔ اس کا طریقہ سب سے اچھا ہے۔ والدین کے خود اپنے ایمان میں پختگی ہوگی تو وہ اپنے بچے کو بھی یہ چیز بہتر طریقہ سے منتقل کر سکیں گے۔ بچے کو اتنا طاقتور ہونا چاہیے کہ وہ دوسروں کو دلیل اور شائستگی کے ساتھ بدل دینے کا اور خود کو بہتر راستے پر گامزن رکھنے کا احساس زندہ رکھ سکے۔
مسلمان ہونے پر احساس تشکر و مسرت پیدا کیا جائے۔ دوسرے مسلمان بچوں کو اپنے اوپر استہزاء کا موقع نہ دیا جائے۔ بچے کو یہ یقین دلایا جائے کہ جو آپ کا لباس ہے، جو آپ کا طریقہ ہے وہی اللہ تعالی نے بتایا ہے۔ اللہ تعالی سب سے اچھے ہیں تو ان کا بتایا ہوا طریقہ بھی سب سے اچھا ہے۔
بچے کے دل میں شیطان سے نفرت بٹھائی جائے۔ ساری گندی باتوں کا سکھانے والا شیطان ہے۔ وہ ہی اصل دشمن ہے۔ غصہ، نفرت، عداوت کے تمام احساسات اسی دشمن اور اس کا کہنا ماننے والوں کے خلاف ہوں۔
والدین کا اپنا طرز عمل بچوں کے لئے سب سے بڑا استاد ہے۔ بچے خاموشی سے اس طرز عمل کو دیکھتے اور اسی پر عمل کرتے ہیں۔ اپنے بچوں کو دوستوں کے ساتھ گفتگو کرتے، یا آپس میں کھیلتے اور پلاننگ پر غور کرتے ہوئے دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ اپنے والدین، رشتہ داروں اور استادوں سے حقیقت میں کیا سیکھ رہے ہیں اور “کہتی ہے تجھ کو خلق خدا غائبانہ کیا” کی حیثیت بھی سمجھ میں آ جاتی ہے۔
جس بچے کی تربیت کے لئے دعا اور دوا کا اہتمام نکاح کے رشتے میں جڑنے کے ساتھ ہی شروع ہو گیا تھا، لازماً اللہ تعالی ایسے ماں باپ کے لئے آسانیاں فراہم کر دے گا۔اللہ تعالی سے محبت اور شکر گزاری کے جذبات پیدا کرنا والدین کی ذمہ داری ہے۔ جو بچہ اپنے رب کا شکر گزار ہو کر آسودگی کی دولت پا لیتا ہے، اسی کے والدین کامیاب ہیں۔ بچے کے ذہن میں اس حقیقت کا حصہ بنایا جائے کہ جو نعمتیں، خوشیاں ملی ہیں، اسے ان کا شکریہ ادا کرنا ہے اور پھر مزید چیزیں بھی تو مانگنی ہیں۔ بچے کو روزمرہ کی ننھی منی آرزوئیں اپنے رب کے سامنے پیش کرنے کا سلیقہ سکھایا جائے۔ ہر مشکل کام میں اسے اللہ سے مدد مانگنے کا، اللہ سے قربت کا احساس دلایا جائے۔
مثال کے طور پر نماز کی پابندی کروانے کے سلسلے میں یہ ضروری ہے کہ اسے ابتدا میں یعنی تین سال کی عمر ہی سے ضرور اپنی نماز ادا کرنے کے دوران اپنے ساتھ رکھا جائے۔ دن میں پانچ مرتبہ نماز کی ادائیگی اس کی آنکھوں کے سامنے اور شعور کے اندر، رچ بس جائے۔ اسی عمر میں نماز کے کلمات یاد کروانے شروع کر دیے جائیں۔ جتنے بھی کلمات ترجمے کے ساتھ یاد ہو جائیں، انہی کے ساتھ نماز کی ادائیگی شروع کروائی جائے۔ لڑکے تو مسجد میں جا کر رکوع و سجود کرنے کے عادی ہو جاتے ہیں۔ لڑکیوں کو بھی گھر میں اس کی مکمل پہچان کروائی جائے۔ شروع میں بچے کو ایک نماز اور وہ بھی صرف فرض کی عادت ڈالی جائے اور یہ فجر کی نماز ہے۔ بچہ چاہے جس وقت بھی سو کر اٹھے، اسے معلوم ہو جائے کہ اٹھنے کے بعد پہلا کام نماز کا ہوتا ہے۔ پہلے وضو اور نماز پھر ناشتہ۔صبح اپنے رب کے حضور حاضری کا تصور اس کے لازمی معمولات کا حصہ بن جائے۔ پھر پوری نماز فجر کی فرض و سنت کے ساتھ پابندی کروائی جائے۔
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
بچے کی بقا اور نشوونما
بچے کی بقا

اللہ تعالی کا ارشاد ہے کہ : وَلا تَقْتُلُوا أَوْلادَكُمْ مِنْ إِمْلاقٍ نَحْنُ نَرْزُقُكُمْ وَإِيَّاهُمْ (١٥١) الانعام
اور اپنی اولاد کو مفلسی کے ڈر سے قتل نہ کرو، ہم تمہیں بھی رزق دیتے ہیں اور ا ن کو بھی دیں گے
اور ایک مقام پر اللہ تعالی فرماتے ہیں: يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا قُوا أَنْفُسَكُمْ وَأَهْلِيكُمْ نَارًا (
٦) التحریم
اے لوگو جو ایمان لائے ہو، بچاؤ اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کو آگ سے۔
دونوں آیات اولاد کی بقا اور اس کی مناسب تربیت پر دلالت کرتی ہیں سچی بات تو یہ ہے کہ بچے کی بقا اور تحفظ کا اسلامی تصور بذات خود ایک اختیار ہے جو امت اسلامیہ کو ودیعت کیا گیا ہے خواہ اس کی نوعیت جسمانی ہو یا روحانی یا ذہنی ۔ اسلامی نقطہ نظر سے صحت مند جسم نہ صرف مناسب ذہنی کارکردگی کا باعث ہوتے ہیں بلکہ ایسا بچہ معاشرے کے مسائل کے حل میں ممد و معاون ثابت ہوتا ہے لہذا اسلام نے انسان کی جان کے تحفظ کے لیے باقاعدہ قوانین وضع کیے اور ان کی پابندی کو لازم قرار کر دیا ۔ حقیقت تو یہ ہے کہ ایمان کے بعد جو سب سے بڑی نعمت انسان کو عطا کی گئی وہ صحت و تندرستی ہے اس لیے کہ اس کے بغیر وہ اپنا کوئی بھی کام مکمل طور پر سرانجام نہیں دے سکتا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ :

إن أول ما يحاسب به العبد يوم القيامة أن يقال له : ألم أصح لك جسمك ۔۔۔۔۔(مستدرک)
قیامت کے دن بندے سے سب سے پہلے یہ پوچھا جائے گا کہ کیا ہم نے تمہارے جسم کو صحت و تندرستی عطا نہیں کی تھی
یعنی جتنی بھی نعمتیں عطا کی گئی ہیں ان میں سے سے پہلے صحت و تندرستی کے بارے میں پوچھا جائے گا
اور ایک حدیث میں تو اولاد کی صحیح نگہداشت نہ کرنے والے کو گناہ گار قرار دیا گیا اسے ضائع کرنے کے مترادف قرار دیا ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ:
کفی بالمرء اثما ان یضیع من یعول (ح)
اس سے بڑا کوئی گناہ نہیں ہے کہ اہل و عیال کو نظر انداز کیا جائے۔
اولاد اگر اللہ تعالی کی نعمت ہے تو اس نعمت کے بارے میں اس سے پوچھا بھی جائے گا اور مذکورہ بالا آیت جس میں اپنے گھر والوں کو جھنم کی آگ سے بچانے کا حکم دیا ہے وہ درحقیقت وہ تحفظ ہے جو والدین کو روز قیامت حاصل ہو گا اور لازمی بات ہے یہ اس امر کا نتیجہ ہو گا کہ اس نے اپنی اولاد کی تربیت میں کوئی کوتاہی نہیں کی ہو گی۔ لہذا دنیاوی زندگی میں تحفظ دینے سے مراد بیماریوں اور وبائی امراض سے بچاؤ بھی ہے غفلت اور لاپرواہی برتنے کی صورت میں یہ تمام باتیں انسان کی صحت پر اثرانداز ہوتی ہیں اس اعتبار سے علاج کو مشروع قرار دیا گیا جیسا کہ فرمان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہے کہ: "
ما أنزل الله داء إلا أنزل له شفاء " (بخاری)
اللہ تعالی نے کوئی بھی بیماری ایسی پیدا نہیں کی جس کی دوا نہ پیدا کی ہو۔
اسلامی شریعت نے والدین کو اپنے بچوں کی بقا اور نشوونما کا اس بنیاد پر ذمہ دار ٹھہرایا ہے کہ یہ ایک عطا کردہ نعمت ہے لہذا ان کی پرورش ضروری ہے اور اس حوالے سے وہ اللہ کے سامنے جواب دہ ہوں گے۔اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ بچہ اپنی ابتدائی عمر میں ان حقیقی خطرات سے جو اسے لاحق ہو سکتے ہیں ان سے بالکل ہی نابلد ہوتا ہے اس کے علاوہ موسم سے بچاؤ اور خوراک کی فراہمی وغیرہ سب ایک قابل مؤاخذہ کیفیت میں شامل ہیں ۔ اسی مسؤولیت کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس طرح بیان کیا ہے :
تم سب اپنے اہل خانہ کے کفیل اور ذمہ دار ہو باپ اپنے خاندان کی کفالت کرتا ہے اور اپنے گھر والوں کا ذمہ دار ہے عورت اپنے شوہر کے مال اور اولاد کی نگراں ہے اور اپنے فرائض کی ذمہ دار ہے ۔۔۔۔ (ح)
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
بچے کی پیدائش میں وقفہ
قرآن مجید میں یہ مذکور ہے کہ بچے کے حمل میں رہنے سے لے کر اس کے دودھ چھڑانے تک کا عرصہ تیس ماہ پر محیط ہے : حملہ و فصالہ ثلاثون شھرا۔ (الاحقاف 15) اور حمل میں رہنا اور دودھ چھوڑنا تیس مہینے ہیں
علاوہ ازیں اسلام اس امر کی تائید بھی کرتا ہے کہ مدت رضاعت پورے دو سال تک ہو خصوصا ان لوگوں کے لیے جو اسے مکمل کرنے کے خواہش مند ہوں اس کا سب سے بڑا فائدہ ماں کو ہوتا ہے کہ وہ اپنی صحت اور ضروری اجزا ئے قوی کو بحال کر لے جو دوران حمل اور وضع حمل میں ضائع ہوتے ہیں ۔ لہذا کہا جا سکتا ہے کہ اسلام کا اس حوالے سے جو مزاج ہے وہ فطرت کے بالکل عین مطابق ہے اور اگر مدت رضاعت پر قیاس کیا جائے تو اس سے اولاد کی پیدائش کے مابین کم از کم وقفہ دو سال کا قرار دیا جا سکتا ہے جو کہ لازمی بات ہے اگلے حمل کی مدت کو ملا کر تقریبا تین سال کا ہو جاتا ہے اس کی سب سے بڑی وجہ ماں اور بچے کی صحت کا برقرار رکھنا ہے ۔
اور یہ وقفہ اس کیفیت میں بھی جائز ہے جب ماں کی صحت اجازت نہ دیتی ہو یا وہ کسی ایسی بیماری میں ہو جس کا علاج دیرپا ہو تو اس حالت میں فقہاء بھی وقفہ کو جائز قرار دیتے ہیں۔
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
تربیت اطفال اور شخصی و ماحولیاتی حفظان صحت
اسلام میں صفائی و ستھرائی کو کو پاکیزگی کے مترادف سمجھا گیا ہے اور اس اسلامی شریعت میں بدن ، کپڑے اور رہنے کی جگہ کو پاک صاف رکھنا ہے ۔ قرآن مجید میں تیس سے زائد مقامات پر پاکی و صفائی کا تذکرہ تسلسل کے ساتھ کیا گیا ہے ۔
ان اللہ یحب التوابین و یحب المتطہرین (البقرۃ )
اللہ تعالی توبہ کرنے سے محبت رکھتا ہے اور پاک صاف رہنے والوں سے بھی محبت رکھتا ہے
صفائی و طہارت کا تربیت اولاد کےک ساتھ تعلق
اسلام نے ہر عبادت سے قبل انسانی جسم کے لیے صفائی اور پاکی کو ضروری قرار دیا ہے بچے کو بچپن سے ہی صفائی رکھنا سکھائیں ۔ ماں باپ کی ذمہ داری ہوتی ہے اور ان کو یہ سمجھائیں کہ اللہ رب العزت پاکیزہ رہنے والوں سے محبت فر ماتے ہیں حق تعالیٰ کا ارشاد ہے واللہ یحب المتطھرین ۔ترجمہ ۔اور اللہ تعالیٰ طہارت کرنے والوں سے محبت فر ماتے ہیں کہیں فر مایا الطھور شطر الایمان ۔ پاکیزگی تو آدھا ایمان ہے !اگر آپ بچے کو اچھی طرح سمجھائیں گے تو پھر بچہ صاف رہنا پسند کرے گا ۔ چنانچہ اچھے لوگ پیدا نہیں ہوتے اچھے لوگ تو بنائے جاتے ہیں ماں اپنی گودوں میں لوگوں کو اچھا بنا دیا کرتی ہیں گر می کے موسم میں بچے کو روزآنہ غسل کروائیں کپڑا گندہ دیکھیں تو فوراً بدل دیں بستر ناپاک ہر گز نہ رہنے دیں فوراً اسے پاک کریں بہر حال بچے کی یہ ڈیوٹی تو دینی ہی پڑتی ہے اور اسی پر ماں کو اس کا اجر وثواب ملتا ہے لہذا بچوں کی صفائی کا خاص خیال رکھیں۔ اور حوالے سےجسم کے مختلف اعضاء کی صفائی جیسے ہاتھ، سر، آنکھوںناک، کان، منہ، کپڑے، وغیرہ قابل ذکر ہیں۔اس لیے کہ ماہرین نفسیات اپنی تحقیقات کے نتیجے میں لکھتے ہیں کہ : وہ بچہ جو جسمانی صفائی اور طہارت کے ساتھ رہتا ہے اس کی روحانی اور ذہنی تربیت بہت آسان ہو جاتی ہے
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
تربیت اطفال اور اسالیب نبوی نفسیات کی رو سے
اسلام نے جن امور کو خاصی اہمیت دی ہے ان میں مسلمان کی دماغی اور تفسیاتی بہتری بھی شامل ہے عمدہ دماغی صحت اور نفسیاتی بہتری کا راز دو چیزوں میں مضمر ہے اول بچے کی تربیت میں نفسیات کے اصولوں کو مدنظر رکھتے ہوئے ایسی انداز اورع اسالیب اختیار کیے جائیں جن سے بچے میں کوئی منفی انداز نہ در آئے اور دوسرا اہم عمل بچے کو سب سے پہلا سبق اللہ تعالی کے حوالے سے دینا چاہیے جس کے بعد اس کی مکمل زندگی توحید کے زیر اثر گزرتی ہے۔
علم نفسیات میں بہت ترقی ہوئی ہے اس کے باعث ماہرین نفسیات انسانی رویے کو کنٹرول کرنے اور مخفی قوتوں کو پانے میں کامیاب ہوئے ہیں ۔یہی عناصر مخصوص حالات میں کسی بھی فرد کے مزاج پر گہرے اثرات مرتب کرتے ہیں ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ کا جب اس اعتبار سے جائزہ لیا جاتا ہے تو یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ بچے کی نشوونما کے مختلف مراحل میں مختلف اسلوب اختیار کیے جانا چاہیے کیونکہ ان میں مختلف خصوصیتیں پوشیدہ ہیں ۔ مزید برآں ایسی پیدائشی جبلتیں بھی پائی جاتی ہیں جو بچے کی نشوونما کے ہر مرحلے میں اس کے طور اطوار پر اثرانداز ہو کرتی ہیں جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کی تربیت کے حوالے سے انتہائی خوبصورت موقف سامنے آتا ہے ۔
عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ میں نے اپنی خالہ حضرت میمونہ کے یہاں رات گذاری، شام کو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم گھر تشریف لائے تو پوچھا کہ کیا لڑکے نے نماز پڑھ لی؟ گھروالوں نے کہا ہاں پڑھ لی پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم لیٹ گئے جب رات گزری جتنی کہ خدا کو منظور تھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوئے اور وضو کیا پھر نماز پڑھی (سنن ابو داؤد:1150)۔
اس حدیث پاک میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم ہم لوگوں کو یہ سکھا رہے ہیں کہ بچوں کی پرورش و پرداخت کرنے میں ان کی دیکھ
ـ بھال کرنے کے لئے ہمیں کس طرح سے ہوشیار رہنا چاہئے۔۔، اور کس قدر دینی معاملے کا اہتمام کرنا چاہئے۔۔۔ جیسا کہ یہاں حدیث میں ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ام المؤمنین حضرت میمونہ رضی اللہ تعالی عنہا کے پاس رات کے وقت آئے اور ان کے پاس عبد اللہ بن عباس رضی اللہ کو پایا اور وہ (عبد اللہ بن عباس) اس وقت چھوٹے تھے۔۔۔ اور اپنے خالہ کے پاس ہی سو گئے تھے اور یہ مل جل کر رہنے نیز صلہ رحمی کی ایک جھلک ہے جو اپنے اعزاء و اقارب کے درمیان تعلقات کو مضبوط کرتی ہے۔۔۔ تو سب سے پہلی چیز جو آپ نے ان کے بارے میں دریافت کی وہ بچے – عبد اللہ بن عباس- کے نماز کے بارے میں، اور یہ ایسا فرض ہے جو دین پر دلالت کرتا ہے کیونکہ بچے کو اس کے سوا کسی چیز کا حکم نہیں دیا گیا۔۔۔ لہذا بچے پر زکوۃ واجب ہے اور نہ ہی حج اور اس وقت روزے کا ٹائم نہیں تھا کیونکہ آپ کا یہ پوچھنا رات میں ہوا تھا جیسا کہ حدیث میں عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کے الفاظ ( بعد ما امسی) سے واضح ہوتا ہے۔ اور اس وقت تک ایک مسلم آدمی اپنی دن بھر کی ساری نمازیں پڑھ چکا ہوتا ہے اسی طرح حدیث میں سرپرست (ذمّہ دار) کے اپنے رعایا کی دیکھـ بھال کی طرف بھی اشارہ ہے۔۔۔ اور اس کی طرف بھی اشارہ ہے کہ ذمہ داری صرف کھانا پانی اور امن و امان والے گھروغیرہ کا انتظام کرنے کا نام نہیں۔۔۔۔ بلکہ وہ اس سے بھی بڑھ کر ہے اور وہ (بچوں کو) دین و اخلاق کی تربیت دینا ہے۔
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم نے بچے کے کھانے کے بارے میں شاید دو وجہوں میں سے کسی ایک کی بنیاد پر نہیں پوچھا، یا تو آپ کو معلوم تھا کہ ماں یا خالہ سے خود اپنے گھر میں یہ چیز چھوٹ ہی نہیں سکتی کیونکہ یہی طریقہ اس کے پیار و محبت کو زیب دیتا ہے۔۔۔ یا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم) ہمارے لئے یہ بیان کرنا چاہتے ہیں کہ بہتر یہ ہے کہ ہم دین اور اللہ رب العالمین کی اطاعت وفرمانبرداری کے بارے میں سوال کریں۔۔۔۔ اور حدیث شریف میں اس بات کی طرف بھی اشارہ ہے کہ سرپرست اور ذمّہ دار حضرات اپنی رعایا کی خیر و عافیت سے مطمئن ہونے کے بعد خود بھی آرام کریں۔۔۔ اوراگران کے بارے میں اللہ کے حضور ان سے دریافت کیا گیا تو ان کا جواب ہوگا: اے میرے رب میں نے تیری امانت پہونچا دی تھی اور تیرے عہد وپیمان کی بھی حفاظت کی تھی۔
یعنی بچوں کی تربیت میں پیدائشی جبلت اور ماحول دونوں ہی اس کی تعمیر و تشکیل اور نشوونما میں بھرپور کردار ادا کرتے ہیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ سے تربیت اولاد کے حوالے سے ایک اہم پہلو یہ بھی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بچوں کو اپنی مجالس میں بٹھایا کرتے تھے جس میں وہ بڑوں سے مختلف مباحث سن کر ان کی نظریاتی تربیت ہوا کرتی تھی ایک سے زائد احادیث میں یہ مذکور ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ ولسم اپنے نواسوں اور نواسیوں کو اپنی معاشرتی زندگی میں اپنے ساتھ رکھا کرتے تھے جس سے ان میں اعتماد پیدا ہوتا تھا ۔
ہمیشہ اپنی رائے کے اظہار کے قابل ہوجاتا ہے
اس کی غلطی یا غیر موزوں فیصلے کی اصلاح اسے اپنی رائے تبدیل کرنے کا موقع دیتی ہے اور اس ککے بعد وہ صحیح فیصلہ کرنے کے قابلل ہو جاتا ہے۔
بڑوں کی مجلس میں بیٹھ کر ان سے قوت فیصلہ سیکھتا ہے
کسی مسئلہ پر کس طرح بحث کی جاتی ہے وہ سیکھتا ہے اور کسی طرح نیتجے تک پہنچا جا سکتا ہے وہ بھی سکھنے کا موقع ملتا ہے۔
زندگی کے مصائب و مسکلات سے نبرد آزما ہونے کے قابل ہو جاتا ہے
سطحی سوچ اختیار کرنے سے بچے گا ہر معاملہ کو گہرے غور و فکر کے بعد حل کرنے کی کوشش کرے گا
بچوں سے اپنا قلبی و ذہنی تعلق مضبوط کرنے کے لئے گھر میں قرآن و سنت کی ہفتہ وار مجلس رکھی جائے۔ ضروری نہیں کہ اس میں خشک اور یبوست زدہ ماحول ہی ہو۔ خوشگوار ماحول کے ساتھ علمی و ادبی گفتگو اور مسائل پر تبادلہ خیال ہو۔ بچوں کے آپس کے تنازعات پہ افہام و تفہیم ہو۔
بچوں کو دوسروں کی طرف سے صرف اپنی تعریف سننے کا عادی نہ بنایا جائے۔ وہ بچہ جو صرف اپنی تعریف سننا چاہتا ہو، تنقید، محاسبہ یا نصیحت سننا گوارا نہ کرتا ہو اور دوسروں کی اخلاقی برتری برداشت نہ کرتا ہو، وہ کبھی اپنے کردار کو خوب سے خوب تر نہیں بنا سکتا۔ عمر کے ساتھ ساتھ یہ عادت اپنے لئے بھی اور دوسروں کے لئے بھی باعث تکلیف و آزار بن جاتی ہے۔ بچوں میں اس بات کا شعور ہونا چاہیے کہ غلطی کی سزا ملنا عدل ہے اور حوصلہ افزائی کے لئے اچھے کام پر انعام دینا بچوں کا حق ہے۔
والدین بچوں کی بہت سے عادات کو کھیل کود کی عمر کہہ کر نظر انداز کرتے رہتے ہیں، مگر بالغ ہو جانے پر ایک دم ان کو احساس ہوتا ہے کہ یہ تو غلط رخ پر جا رہے ہیں۔ پھر وہ راتوں رات ان کو ہر لحاظ سے معیاری درجے پر دیکھنا چاہتے ہیں، یہی ناسمجھی کی بات ہے۔ بچے کی پرورش، تعلیم و تربیت ہر سال، ہر دن اور ہر لحظہ کی ختم نہ ہونے والی منصبی ذمہ داری ہے۔ مغربی تہذیب میں بلوغت کی عمر کے بعد بچوں کو توجہ کے قابل تو کیا، گھروں میں رکھنے کے قابل تک نہیں سمجھا جاتا۔ اس غلطی کا خمیازہ وہ تہذیب بھگت رہی ہے۔ اسلام نے اولاد اور والدین کا تعلق دنیا سے لے کر آخرت تک قائم رکھا ہے۔ وہ دونوں جہانوں میں ایک دوسرے کا قرب پا کر ہی تکمیل پائیں گے۔
خود مختاری، اظہار رائے کی آزادی، معاشی طور پر خود کفیل ہونا، سماجی طور پر اپنا مقام بنانا، اپنے شریک زندگی کے بارے میں اپنی رائے رکھنے جیسے انفرادی حقوق اسلام نے عطا کئے ہیں، مگر اجتماعیت کا جو تصور اسلام نے دیا ہے، اس میں حسن بھی ہے، تکمیل بھی اور اعتدال بھی۔ حقیقت میں کسی بھی کام اور چیز میں اعتدال ہی اس کا حقیقی حسن ہے۔ 14 سے 16 اور 18 سے 22 سال تک کی عمر نئی جہتیں سامنے لاتی ہے۔ اس عمر میں والدین کی اپنے بچوں کے ساتھ دل وابستگی سب سے زیادہ اہمیت رکھتی ہے۔
جس طرح زمین کے اندر بیج ہر قسم کے موسم اور مصائب و آلام سے گزر کر ایک پھل دار درخت بنتا ہے، اس درخت کو پہلے سے زیادہ حفاظت کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس کے ثمرات کو سمیٹنا اور آئندہ کی منصوبہ بندی کرنا ہی عقل مندی کی نشانی ہے، اسی طرح جوان اولاد، والدین کے لئے پھل دار باغ ہے۔ اس کو ضائع کرنا، اس سے لاپرواہ ہونا، غیروں کے رحم و کرم پہ چھوڑ دینا، ساری محنت اکارت کر دینے کے مترادف ہے۔
نفسیاتی، ذہنی، جسمانی و صنفی تبدیلیاں بچوں کو ایک نئے موڑ پہ لا کھڑا کرتی ہیں۔ اس وقت والدین کی شفقت، اعتماد اور گھر کے ماحول میں بچوں کی اہمیت انہیں سکون مہیا کرتی ہے۔ اس دور کے ذہنی، جسمانی اور ارتقائی مراحل، قابل اعتماد رشتے کی تلاش میں ہوتے ہیں۔ لڑکے کے لئے باپ کی بھرپور توجہ، رہنمائی اور محبت، بھٹکنے سے بچا لیتی ہے۔ صنف مخالف کی توجہ حاصل کرنا، اس عمر کا ایک فطری مسئلہ ہے۔
الل ٹپ پرورش پانے والے بچے غلط انداز فکر میں کھو کر اپنا بہت کچھ ضائع کر بیٹھتے ہیں۔ الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا نے نوجوانوں کو انتہائی گھٹیا اور پست سوچ کا حامل بنانے میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھی، بلکہ بچے اور بوڑھے بھی اسی پستی کا شکار نظر آتے ہیں۔ صنفی جذبات میں اکساہٹ پیدا کرنے والے عوامل پیش کرنا شیطانی کام ہے۔ وہ سب لوگ جو فواحش کو پھیلاتے ہیں، لعنت کے مستحق ہیں۔
معاشرے میں جس بے راہ روی کو فروغ دیا جا رہا ہے، وہ ہماری معاشرتی زندگی کا المیہ ہے۔ الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کو راہ راست پر لانے کے لئے خصوصی منصوبہ بندی اور فوری عمل درآمد کی ضرورت ہے۔ بچوں کو اس کے متبادل چیزیں لا کر دینے میں دیر کرنا بہت بڑے نقصان کا باعث ہو سکتا ہے۔
عموماً محرم رشتے دار، جوان اولاد کے بہت سے مسائل حل کرنے کے لئے باہم اعتماد کی فضا قائم نہیں کر پاتے۔ بے وجہ کی جھجک بڑی گہری دوریاں پیدا کرتی ہے جس سے شخصیت میں ایک خلا رہ جاتا ہے۔ محصنات اور محصن شخصیت پورے خاندان کی بھرپور توجہ، محبت، شفقت، نگہبانی و اعتماد کے نتیجے میں سامنے آتی ہے۔ یہی “خاندانی” لوگ اخلاقی اقدار کی ایک محفوظ پناہ گاہ میں تعلیم و تربیت حاصل کرنے والے ہوتے ہیں۔ اگر وہ مددگار و معاون اور مخلص رشتے بے جا گریز کی بند کوٹھڑیوں میں دبکے اور گونگے بنے رہیں تو پھر نوجوان بچوں کی زندگی میں ایک خوفناک خلا پیدا ہوتا ہے۔ اس خلا کو پر کرنے کے لئے ناقابل اعتماد اور اپنے جیسے کچے ذہنوں کی مشاورت انہیں بڑی غلط راہوں پہ لے جاتی ہے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ اس عمر میں بچوں کو گھر کے ماحول سے سکون و طمانیت ملے۔ ننھیال، ددھیال میں ان کی شخصیت کو مانا اور تسلیم کیا جائے۔ لڑکے کو گھر کی خواتین والدہ، بہنیں، خالائیں، پھپھیاں غرض محرم خواتین شفقت و محبت دیں۔ والد اسے اپنا دست و بازو گردانے تو اس کی ایک پراعتماد شخصیت سامنے آتی ہے۔ اسی طرح لڑکی کو گھر کے مرد، والد، بھائی، ماموں، چچا اپنے دست شفقت سے نوازیں اور والدہ اور دیگر رشتہ دار خواتین اس کی شخصیت کو تسلیم کریں تو شائستہ اطور اور زیادہ نکھر کر سامنے آئیں گے۔
 

ام حماد

رکن
شمولیت
ستمبر 09، 2014
پیغامات
96
ری ایکشن اسکور
66
پوائنٹ
42
چھوٹا منہ بڑی بات اگر نہ سمجھا جائے تو
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم طور ماہر نفسیات از سعدیہ غزنوی کا مطالعہ اس حوالے سے بہت مفید رہے گا
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,800
پوائنٹ
1,069
اولاد کی اصلاح کا ایک نرالہ انداز

مختار احمد جامعی ۔ جدۃ

میں جب بھی کسی سلجھے ہوئے خوشحال نوجوانوں کو دیکھتا ہوں تو یقین ہوجاتا ہے کہ ضرور اس کا باپ صالح اور نیک آدمی ہوگا۔ فرمان الہی وَكَانَ أَبُوهُمَا صَالِحًا کی صداقت ہونے لگتی ہے۔ باپ اگر نیک ہو تو اس کا فائدہ دنیا ہی میں اس کی اولاد کو ہونے لگتا ہے ۔ڈاکٹر نبیل عوضہ کہتے ہیں کہ’’ مجھے جب نوافل کی ادائیگی میں سستی اور کاہلی ہونے لگتی ہے تو مجھے میرے بیٹے اور دنیا کی پریشانیاں یاد آتی ہیں ،،کہیں نوافل کی ادائیگی میں میری سستی اور کاہلی میری اولاد کی پریشانیوں کا سبب نہ بن جائے۔ اپنی اولاد کو خوشحال زندگی اور دنیا کی پریشانیوں سے نجات دلانے کا ایک اہم ذریعہ ہماری صالحیت اور نیک بختی پرمنحصر ہے ۔ہرشخص کی تمنا ہوتی ہے کہ اس کی اولاد نیک اور فرمانبردار ہولیکن صرف خواہش سے کچھ نہیں ہوتا اس کے لئے اپنے آپ کو بھی نیک اور صالح بننے کی ضرورت ہے۔

سیدنا عبداللہ ابن مسعودؓ جب رات میں نوافل کی ادائیگی کررہے ہوتے سامنے اپنے چھوٹے بچے کو سویا ہوا دیکھ کر کہاکرتے تھے "من اجلک یا بنی،، یہ تیرے روشن مستبقل کے لئے ہے اور روتے ہوئے وَكَانَ أَبُوهُمَا صَالِحًا کی تلاوت کرتے۔ حضرت سعيد ابن المسيب كا بهي يهي حال تها فرمايا: اني لأصلي فأذكر ولدي فأزيد في صلاتي.

سورہ کہف کے طویل واقعہ سے بھی اس کی صداقت ہوتی ہے کہ باپ اگر نیک ہوتو اسکا فائدہ اسکی اولاد کو بھی ہوتا ہے۔

ڈاکٹر نبیل عوضہ کہتے ہیں کہ میرا ایک دوست ہے جو کویت میں ایک حکومتی ادارہ میں اچھے منصب پر فائز ہے لیکن روزانہ چند گھنٹے فلاحی کاموں میں لگاتا ہے۔میں نے کہاکہ تم اپنے کام زیادہ دلچسپی لوتو شاید تمہارا منصب اور مقام اور زیادہ ہوجائے گا ۔

کہنے لگا: ’’ جناب تم جانتے ہو کہ میں چھے بچوں کا باپ ہوں جن میں سے اکثریت میرے بیٹوں کی ہے اور مجھے ڈر ہے کہ کہیں یہ بے راہ روی کے شکار نہ ہوجائیں ۔ جب سے میں نے کان ابوہما صالحا کی تفسیر پڑھی ہے اپنی زندگی کا ایک حصہ فلاحی کاموں کے لئے وقف کردیا ہے اور میں اس کے بہترین اثرات میرے بیٹوں میں دیکھ رہا ہوں ۔کیا آپ چاہتے ہیں کہ آپ کی اولاد نیک صالح اورفرمانبردار ہو؟ آپ اپنے آپ کو صالح اور نیک بنائیے اور اپنی زندگی کا ایک حصہ فلاحی کاموں میں لگائیے اس لئے کہ اللہ بھی اس بندے کی مدد میں رہتا ہے جب تک کہ بندہ اپنے بھائی کی مدد میں لگارہتا ہے۔
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,800
پوائنٹ
1,069
ھماری اولاد نافرمان کیوں ہے؟

تحرپر ڈاکٹر فرحت ھاشمی

ھماری اولاد نافرمان کیوں ہے؟

بہت سے لوگ ایک بہت بڑا شکوہ لیےہوئے پریشان ہیں، اپنی اولادوں کا شکوہ، کہ نافرمان ہیں، ہمارا کہنا نہیں مانتے۔ مہربانی فرما کر اس کا علاج تجویز کیا جائے، کوئی تعویذ دے دیا جائے، کوئی پانی دم کر دیا جائے یا کوئی ذکر بتا دیں ۔
کیا ایسا ممکن ہے کے تعویذ دے دینے سے، پانی دَم کر دینے سے یا ذکر بتا دینے سے اولاد فرماں بردار ہو جائے گی؟

کیا یہ ممکن ہے؟
کیا یہ اللہ کے سسٹم کا حصہ ہے؟
ہرگز نہیں ہے۔ دھوکا دیا جا سکتا ہے اس طرح، علاج نہیں ہو سکتا۔ کیونکہ اس کا علاج اُُس بندے کے اپنے پاس ہوتا ہے جو یہ ڈیمانڈ لے کرآتا ہے۔

پہلے نمبر پر وہ یہ دیکھے کہ میں نے اولاد کو پالا کس طرح ہے؟

تربیت کیسی دی ہے؟

موسیقی کی اجازت تو نہیں دی؟

فلمیں اور گانے سننے دیکھنے کی اولاد کو چھوٹ دی یا قرآن سیکھنے سمجھنے پر بھی مجبور کیا؟

نماز نہ پڑھنے پر ڈانٹا یا نرمی کرتے رہے؟

اسکے دوستوں اور اسکی تنہائی پر نظر رکھی؟

کس دولت پر اس کو پروان چڑھایا ہے؟

کیا اُس میں استحصال کا پیسہ ہے؟

کیا اُس میں حرام کا پیسہ ہے؟ لوٹ مار کا پیسہ ہے؟ رشوتوں کا پیسہ ہے؟ نمبر دو کاروبار کا پیسہ ہے؟
پہلے اِس کو کھوجے گا، وہ اپنی آمدن کو تلاش کرے گا۔ اگر وہ واقعی چاہتا ہے کہ اُسکی اولاد فرماں بردار ہو ۔۔۔۔

دوسری بات وہ یہ سوچے کہ اُس کا اپنا رویہ والدین سے کیا رہا ہے؟

اُس نے والدین سے کیسا سلوک اختیار کیا؟

کیا اُنکی فرماں برداری کرتا رہا یا بے ادبی کرتا رہا؟
ت
و میں اُن سے یہ کہتی ہوں کہ اگر آپکے والدین زندہ ہیں تو آج سے اُنکی فرماں برداری شروع کر دیں۔ اور اگر آپکے والدین گزر گئے ہیں تو اُنکے لیے مغفرت کی دعائیں کریں کثرت کے ساتھ۔
آپکے گزرے ہوئے والدین کا آپ کا اُن کے پیچھے رہ جانے والوں سے اچھا سلوک اُنکی مغفرت کا باعث بنتا ہے۔ تو جو یہ چاہے کے میری اولاد فرماں بردار ہو جائے تو ایک تو اگر والدین زندہ ہیں تو اُنکی فرماں برداری ٹُوٹ کر کرے، اور اگر وہ دنیا سے گزر گئے ہیں تو اُنکے لئے اللہ سے بخشش اور مغفرت طلب کرے۔۔۔۔

اور جو تیسری سب سے اہم بات ہے، جو میں لوگوں کو بطورِ فارمولا کہتی ہوں کہ جس خالق نے آپ کو پیدا کیا ہے، آپ اُس کے کتنے فرماں بردار ہے؟ اگر آپ یہ چاہتے ہیں کہ آپ کے بطن سے نکلے ہوئے بچے، جن کے آپ خالق نہیں ہیں، بلکہ ایک ذریعہ ہیں ایک Source ہیں، وہ آپ کے فرماں بردار ہوں جائیں، تو جس نے آپ کو پیدا کیا ہے وہ بھی چاہتا ہے کہ آپ اُس کے فرمانبردار ہو جائیں، آپ اپنی فرماں برداری پروردگار کے لیے بڑھا دیں تاکہ آپ کی اولاد آپ کی فرماں بردار ہو جائے اور زندگی کا صحیح سکون اور راحت آپ کو نصیب ہو۔

یہ بہت بڑا المیہ ہے ہمارا۔ اس کے ہاتھوں بڑے بڑے صاحبِِ حیثیت لوگ بھی پریشان ہیں، لیکن اسکا فارمولا وہی ہے جو اوپر بتا دیا گیا ہے۔ نیازیں اور تعویذ اس کا فارمولا نہیں ہیں، اس میں مت پھنسیں۔ کیونکہ آپکی اولاد کو صرف اللہ ہی فرماں بردار بنا سکتا ہے، کوئی اور نہیں بنا سکتا۔
 
Top