ساجد
رکن ادارہ محدث
- شمولیت
- مارچ 02، 2011
- پیغامات
- 6,602
- ری ایکشن اسکور
- 9,379
- پوائنٹ
- 635
اَحادیث مبارکہ میں وارد شدہ قراء ات… ایک جائزہ
ڈاکٹراَحمد عیسیٰ المَعْصرَاوي
ترجمہ وانتخاب: عمران حیدر
ترجمہ وانتخاب: عمران حیدر
کتاب اللہ اور سنت رسولؐ کے درمیان ایک گہرا تعلق ہے اور یہ تعلق کئی اقسام پر مشتمل ہے۔ انہی میں سے سنت کا ایک تعلق قرآن اور قراء ات قرآنیہ سے بھی ہے، چاہے وہ اَدائیگی کے لحاظ سے ہو، آدابِ تلاوت کے لحاظ سے ہو یا قراء ات کی تعلیم و تعلّم کے لحاظ سے ہو۔ اس کی کتب احادیث میں بہت سی مثالیں موجود ہیں، جن میں سے چند ایک مندرجہ ذیل ہیں:اللہ کی ہدایت،جو اُس نے اپنے بندوں کو رسول اللہ ﷺکے ذریعے بھیجی ہے، دو صورتوں میں اُمت کوملی ہے۔ اس ہدایت کا ایک پہلو تو اللہ تعالیٰ کی کلام کے الفاظ کی صورت میں موجود ہے، جبکہ دوسرا پہلو مرادِ الٰہی اور سنت رسولؐ کی شکل میں محفوظ ہے۔ اللہ کا یہ درس ہم تک بذریعہ روایت و خبر پہنچا ہے اور دونوں کے استناد کے لیے ایک دوسرے کی تائید سے قطع نظر تحقیق راویت کے مسلمہ ضابطوں کی روشنی میں جو شے ثابت ہوجائے اسے بطورِ دین قبول کرنا ہر مسلمان کا فرض ہے۔ اس کے باوجود اِضافی طور پر ہادئ برحق نے سنت (وحی خفی) کے ثبوت کے دلائل قرآن (وحی جلی) میں اور قرآن بشمول قراء ات (وحی جلی) کے ثبوت کے دلائل سنت (وحی خفی) میں متنوع و متفرق طور پر بیان کردیئے ہیں۔وہ لوگ جو حدیث سبعہ اَحرف کے ثبوت و مفہوم میں تشکیک وانکار کا ذہن رکھتے ہیں، زیرنظر مضمون ایسے لوگوں کے لیے ان شاء اللہ ہدایت کا باعث ہوگا، کیونکہ اس میں حدیث سبعہ اَحرف سے قطع نظرحدیث وسنت کی روشنی میں متنوع نصوص سے ثبوتِ قراء ات کو موضوع بنایاگیاہے۔اس سلسلہ میں فاضل مترجم نے ڈاکٹراحمد عیسیٰ المعصراوی ؒ کی کتاب القراء ات الواردۃ في السنۃ کی کل۱۹۶ روایات میں سے ان ۲۶ منتخب اَحادیث کا ترجمہ پیش کیا ہے، جن میں برصغیر پاک و ہند میں مروج روایت حفص سے قراء ات کافرق موجود ہے اور اس کے ساتھ ساتھ ۴ روایات کا دیگر مصادر سے اضافہ بھی کیا گیا ہے ۔ ادارہ مکمل کتاب کو عنقریب شائع کرنے کاارادہ رکھتا ہے۔ اللہ حق قبول کرنے کی توفیق بخشے اور انکار ِقرآن کی جرأت سے محفوظ رکھے۔ آمین (ادارہ)
١ مسند احمدمیں ایسی بہت سی اَحادیث موجود ہیں جن کا تعلق قراء ات سے ہے۔ ان احادیث میں سے یہاں اختصار کی غرض سے صرف ایک مثال پیش کی جاتی ہے:
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریمﷺ نے ’’وَکَتَبْنَا عَلَیْھِمْ فِیْھَا أنَّ النَّفْسَ بِالنَّفْسِ وَالْعَیْنَ بِالْعَیْنِ‘‘ [المائدۃ:۴۵] میں لفظ ’النفس‘ کو منصوب اور ’العین‘ کو مرفوع پڑھا۔
٢ امام بخاری رحمہ اللہ نے بھی اپنی الجامع الصحیح میں بہت سی قراء ات کاذکر کیا ہے، جن میں سے ایک حدیث ’کتاب التفسیر‘ (فتح الباري:۸؍۱۵۵،۷۴۱) اور ’کتاب فضائل القرآن‘ (فتح الباري :۹؍۳۔۱۰۳) میں اس طرح سے مذکور ہے کہ اِمام بخاری رحمہ اللہ اپنی سند سے حضرت ابراہیم سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ کے ساتھی ابوالدرداءرضی اللہ عنہ کے پاس آئے تو ابوالدرداء رضی اللہ عنہ نے پوچھا کہ تم میں سے کون حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ کی قراء ت پڑھتا ہے؟ تو انہوں نے کہاکہ ہم سب ہی حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ کی قراء ت پڑھتے ہیں، تو پھر حضرت ابوالدرداء رضی اللہ عنہ نے پوچھا کہ تم میں سے سب سے زیادہ کس کو یاد ہے؟ تو انہوں نے حضرت علقمہ رحمہ اللہ کی طرف اشارہ کیا تو آپ نے ان سے کہا کہ آپ نے حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ کو سورہ ’’وَاللَّیْلِ اِذَا یَغْشٰی‘‘ (اللیل:۱) کیسے پڑھتے ہوئے سنا ہے تو حضرت علقمہ رحمہ اللہ نے جواب دیا: ’’وَالَّیْلِ اِذَا یَغْشی،وَالنَّھَارِ اِذَا تَجَلّٰی، وَالذَّکَرَ وَالاُنْثٰیٰ‘‘ (اللیل:۱۔۳) تو حضرت ابوالدرداء رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ ’’میں گواہی دیتا ہوں کہ میں نے رسول اللہﷺ کو ایسے ہی پڑھتے ہوئے سنا ہے اور لوگ مجھ سے یہ چاہتے ہیں کہ میں’’وَمَا خَلَقَ الذَّکَرَ وَالاُنْثٰی‘‘(اللیل:۳) پڑھوں، لیکن اللہ کی قسم میں ان کی بات نہیں مانوںگا۔
٣ امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی بہت سی قراء ات اپنی کتاب صحیح مسلم میں نقل کی ہیں، جن پر امام نووی رحمہ اللہ نے مندرجہ ذیل ابواب قائم کئے ہیں۔
’’باب فضائل القرآن وما یتعلق بہ‘‘
’’باب الأمر بتعھد القرآن و کراھۃ قول’’ نسیت آیۃ کذا ‘‘ وجواز قول’’ أنسیتھا ‘‘
’’باب استحباب تحسین الصوت بالقرآن‘‘
’’باب نزول السکینۃ لقراء ۃ القرآن‘‘
’’باب بیان أن القرآن علی سبعۃ أحرف و بیان معناہ‘‘
’’باب ترتیل القراء ۃ واجتناب الھذ‘‘
’’باب مایتعلق بالقراء ات‘‘
ان ابواب میں وارد شدہ روایات میں سے ایک روایت یوں ہے، جو کہ امام مسلم ؒ نے حضرت عبداللہ بن مسعودؓ سے بیان کی ہے کہ نبی کریمﷺ ’’فَھَلْ مِنْ مُدَّکِر‘‘(القمر:۱۵) کو دال کے ساتھ پڑھتے تھے۔
٤ امام ابوداؤدرحمہ اللہ اپنی سنن میں تقریباً چالیس احادیث قراء ات سے متعلقہ لائے ہیں، جن میں سے ایک حدیث یوں ہے کہ حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریمﷺ نے مجھے ’’إِنِّیْ أَنَا الرَّزَّاقُ ذُوْ الْقُوَّۃِ الْمَتِیْنِ‘‘ (الذاریات:۵۸) پڑھایا ہے۔
٥ امام ترمذی رحمہ اللہ نے اپنی کتاب میں قراء ات سے متعلق تقریباً گیارہ ابواب اور ۲۳؍ احادیث نقل کی ہیں، جن میں سے ایک یہ ہے کہ حضرت اُم سلمہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ نبی کریمﷺ ایک ایک آیت کرکے پڑھتے تھے،جیسے ’’اَلْحَمْدُ ﷲ ِرَبِّ الْعٰلَمِیْنَ‘‘، پھر رکتے اور پڑھتے: ’’اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم‘‘ پھر رکتے اور پڑھتے: ’’ مَلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ‘‘
مذکورہ احادیث سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ مختلف کتب احادیث میں قراء ات سے متعلقہ مذکورہ احادیث مندرجہ ذیل اقسام پر مبنی ہیں:
١ یا تو وہ نبی کریم ﷺ کی طرف منسوب ہیں یا کسی صحابی کی طرف۔
٢ ان اَحادیث میں کچھ صحیح اور کچھ صحت کے لحاظ سے کمزور ہیں۔
٣ کتب اَحادیث میں مذکور اَحادیث سند کے اعتبار سے تو صحیح ہیں، لیکن رسم عثمانی کے مخالف ہیں۔
٤ ان میں سے کچھ قراء ات متواترہ بھی ہیں۔
٥ بہت ساری اَحادیث تو آداب تلاوت سے تعلق رکھتی ہیں اور کچھ رسم اور کلمات قرآنیہ کے اختلاف کی ادائیگی سے اور کچھ قرآن اورقراء ات کے آپس کے تعلق کے بارے میں ہیں۔
٦ یہ کتب سنن ان قراء ات کی توجیہہ وغیرہ سے خالی ہیں،کیونکہ ان میں تو صرف اَحادیث کو جمع کرنا مقصود ہوتاہے۔ان کتب سنن میں مذکور قراء ات کو قبول یا ردّ کرنے کی بنیادی تین شرائط ہیں جن کو امام ابن جزری نے اپنی کتاب طیبۃ النشر(نظم) میں ذکر کیا ہے۔
فکل ما وافق وجہ نحو
وکان للرسم احتمالا یحوی
وصح إسناد ھو القرآن
فھذہ الثلاثۃ الارکان
وحیثما یختل رکن أثبت
شذوذہ لو أنہ فی السبعۃ
’’پس ہر وہ قراء ت جو کسی نحوی وجہ کے موافق ہو اور رسم عثمانی کے بھی موافق ہو چاہے احتمالاً ہو اور اس کی سند صحیح ہو تو وہ قرآن ہے یہ بنیادی تین شرائط ہیں اور جب بھی ان میں سے ایک شرط بھی زائل ہوجائے گی تو وہ قراء ت شاذ ہے اگرچہ قراء ات سبعہ میں سے ہی کیوں نہ ہو۔‘‘وکان للرسم احتمالا یحوی
وصح إسناد ھو القرآن
فھذہ الثلاثۃ الارکان
وحیثما یختل رکن أثبت
شذوذہ لو أنہ فی السبعۃ
مذکورہ اشعار میں امام ابن جزری رحمہ اللہ نے ان تین شرائط کاذکر کیا ہے، جن کو اُمت سے تلقی بالقبول حاصل ہے، وہ یہ ہیں:
١ متصل السند ہو۔
٢ رسم عثمانی کے موافق ہو اگرچہ احتمالاً ہی ہو۔
٣ نحوی وجوہ میں سے کسی ایک وجہ کے موافق ہو۔
یہ تین شرائط قراء ات عشرہ میں کامل و اکمل طور پر پائی جاتی ہیں، چنانچہ علامہ صفاقسی رحمہ اللہ غیث النفع میں فرماتے ہیں کہ ’’شاذ وہ ہے جو متواتر نہ ہو اور آج کے دور میں قراء ات عشرہ کے علاوہ تمام قراء ات شاذ ہیں۔‘‘
الدکتور سامی عبدالفتاح ہلال اپنی کتاب’’محاضرات فی القراء ات الشاذۃ‘‘کے صفحہ۳ اور ۴ میں یوں رقم طراز ہیں:علامہ ابن جزری رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’ہمارے زمانے میں جن قراء ات میں یہ تینوں شرطیں پائی جاتی ہیں، وہ قراء ات عشرہ ہیں، جن کو پوری امت سے تلقی بالقبول حاصل ہے اور ان قراء ات عشرہ کو روایت کرنے والے دس امام ابوجعفر، نافع، ابن کثیر، ابوعمرو، یعقوب، ابن عامر، عاصم، حمزہ، کسائی اور خلف العاشر ہیں۔‘‘ (منجد المقرئین:ص۱۶)
’’صدر اوّل سے لے کر آج تک تمام مسلمانوں کا اس بات پر اجماع ہے کہ جب تک کوئی قراء ۃ نقل تواتر سے ثابت نہیں ہوجاتی اس وقت تک نہ تو اسے مصحف میں لکھاجاسکتا ہے اور نہ ہی بطور قرآن اس کی تلاوت کرنا جائز ہے۔‘‘
نقل ِتواتر کا معنی یہ ہے کہ اس قراء ت کو اتنی زیادہ تعداد روایت کرے کہ جس سے علم یقینی حاصل ہوجائے اور اسی اصول کے پیش نظر صحابہ کرامؓ نے صرف وہی قراء ۃ مصحف میں لکھی تھی۔ جس میں یہ شرط بدرجہ اتم موجود تھی۔ اس بات کی تائید اس سے بھی ہوتی ہے کہ کتب اَحادیث میں ایسے بہت سارے صحابہ کرامؓ کے نام ملتے ہیں جنہوں نے قرآن کریم کو نبی1کی زندگی میں ہی حفظ کرلیاتھا جن میں مہاجرین صحابہ کرامؓ میں سے:سیدنا ابوبکرصدیق، سیدناعمر، سیدناعثمان غنی، سیدنا علی، سیدنا طلحہ بن عبیداللہ، سیدناسعد بن ابی وقاص، سیدنا عبداللہ بن مسعود، سیدنا حذیفہ بن یمان، سیدناسالم مولیٰ ابی حذیفہ، سیدناعبداللہ بن عمر، سیدناابوہریرہ،سیدناعبداللہ بن عباس، سیدنا عمرو بن العاص، سیدنا عبداللہ بن عمرو بن العاص، سیدنا عائشہ صدیقہ، حفصہ، خدیجہ اور اُم سلمہ امہات المؤمنین رضی اللہ علیہم اجمعین میں سے قابل ذکر ہیں اور انصار میں سے سیدناابی بن کعب،معاذ بن جبل، سیدنازیدبن ثابت، سیدنا ابوالدرداء، سیدنا انس بن مالک اور سیدنا مجمع بن حارثہ رضی اللہ علیہم اجمعین وغیرہ کے نام ہیں۔اس بات کی تائید اس سے بھی ہوتی ہے کہ بئر معونہ کی لڑائی میں مسلمانوں کے تقریباً ۷۰ کے قریب حفاظ کرام شہید ہوگئے تھے۔
یہ تمام وہ لوگ ہیں جو ایک راوی کی قراء ۃ کو قبول نہیں کرتے تھے، جیسا کہ مصحف لکھواتے وقت آیت رجم میں اختلاف ہوگیاتھا تو اس میں نقل ِتواتر نہ ہونے کی وجہ سے اسے مصحف میں نہیں لکھا گیا۔ (فتح الباري:۱۲؍۱۴۳) اور اس کی تصدیق مصاحف عثمانیہ کو دیکھ کر کی جاسکتی ہے۔ صحابہ کرامؓ نے صرف اسی قراء ۃ کو مصاحف میں لکھاتھا جو عرضۂ اخیرہ میں ثابت رہی اور نبی کریمﷺ نے جبریل سے اسے پڑھا اور پھر اسی طرح صحابہ کرامؓ کو پڑھایا اور اس پر جمہور صحابہ کااتفاق بھی تھا۔نبی کریمﷺکی وفات کے بعد حفاظ کرام کی تعداد میں معتدبہ اضافہ ہوگیا تھا اور وہ لوگ مختلف مفتوح اِسلامی ممالک میں پھیل گئے تھے اور انہوں نے مختلف جگہوں پر تعلیم و تعلم کا سلسلہ شروع کرلیاتھا جن میں عبداللہ بن مسعود، اُبی بن کعب، ابوموسیٰ الاشعری، زید بن ثابت رضی اللہ علیہم اجمعین مشہور ہیں۔ ان قراء کرام کا فیض اتنا زیادہ ہوگیاتھا کہ ان کے شاگردوں کی تعداد سینکڑوں سے تجاوز کرگئی تھی۔ (إبراز المعانی: ۳،۴، النشر :۱؍۶)
خلاصۂ کلام یہ ہے کہ قرآن صرف اور صرف تواتر سے ثابت ہوتا ہے اور یہ تواتر صرف قراء ات عشرہ میں موجود ہے، جو قراء ات ان کے علاوہ ہیں وہ شاذ ہیں، ان پر قرآن کا حکم نہیں لگایا جاسکتا اور نہ ہی اس کی تلاوت نماز میں جائز ہے۔ اس لیے وہ قراء ات جو احادیث میں آئی ہیں، ان میں اگر اتصال سند اور تواتر کی شرط پائی جاتی ہیں تو اسے قبول کرلیاجائے گا، ورنہ ردّ کردیا جائے گا، اگرچہ وہ ثقہ، عادل، امام، حجت ہی کیوں نہ ہو اور وہ قراء ۃ مصاحف عثمانیہ کے بھی موافق ہو اور نحوی وجہ کے موافق بھی ہو۔ یہ کوئی نئی اصطلاح نہیں ہے، بلکہ نبی کریم1 کے زمانے سے لے کر آج تک کے محقق علماء کا اس بات پر اتفاق ہے۔
اب ذیل میں ہم کتب احادیث میں وارد وہ قراء ات، جو ثبوت قرآن کے ضابطہ پر ثابت شدہ ہوں، کو نقل کرتے ہیں،اس کے ساتھ ساتھ ان کا مخرج اور قراء عشرہ میں وہ قراء ات کس امام کی ہے کی توضیح بھی کریں گے۔