• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

الرحیق المختوم اُحد کے بعد کی فوجی مہمات

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
اُحد کے بعد کی فوجی مہمات

مسلمانوں کی شہرت اور ساکھ پر احد کی ناکامی کا بہت برا اثر پڑا۔ ان کی ہوا اکھڑ گئی ، اور مخالفین کے دلوں سے ان کی ہیبت جاتی رہی۔ اس کے نتیجے میں اہل ِ ایمان کی داخلی اور خارجی مشکلات میں اضافہ ہوگیا۔ مدینے پر ہرجانب سے خطرات منڈلانے لگے۔ یہود ، منافقین اور بدّوؤں نے کھُل کر عداوت کا مظاہرہ کیا، اور ہر گروہ نے مسلمانوں کو زک پہنچانے کی کوشش کی۔ بلکہ یہ توقع باندھ لی کہ وہ مسلمانوں کاکام تمام کرسکتا ہے۔ اور انہیں بیخ وبن سے اکھاڑ سکتا ہے۔ چنانچہ اس غزوے پر ابھی دومہینے بھی نہیں گزرے تھے کہ بنو اَسَد نے مدینے پر چھا پہ مارنے کی تیاری کی۔ پھر صفر ۴ھ میں عضل اور قارہ کے قبائل نے ایک ایسی مکارانہ چال چلی کہ دس صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو جامِ شہادت نوش کرنا پڑا۔ اور ٹھیک اسی مہینے میں رئیس بنوعامر نے اسی طرح کی ایک دغابازی کے ذریعے ستر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو شہادت سے ہمکنار کرایا۔ یہ حادثہ بئر معونہ کے نام سے معروف ہے۔ اس دوران بنو نَضِیر بھی کھُلی عداوت کا مظاہرہ شروع کر چکے تھے۔ یہاں تک کہ انہوں نے ربیع الاول ۴ھ میں خود نبی کریمﷺ کو شہید کرنے کی کوشش کی۔ ادھر بنو غطفان کی جرأت اس قدر بڑھ گئی تھی کہ انہوں نے جمادی الاولیٰ ۴ ھ میں مدینے پر حملہ کا پروگرام بنایا۔
غرض مسلمانوں کی جو ساکھ غزوہ احد میں اُکھڑ گئی تھی اس کے نتیجے میں مسلمان ایک مدت تک پیہم خطرات سے دوچار رہے ،, لیکن وہ تو نبی کریمﷺ کی حکمت بالغہ تھی جس نے سارے خطرات کا رُخ پھیر کر مسلمانوں کی ہیبت ِ رفتہ واپس دلادی۔ اور انہیں دوبارہ مجد وعزت کے مقامِ بلند تک پہنچا دیا۔ اس سلسلے میں آپ کا سب سے پہلا قدم حمراء الاسد تک مشرکین کے تعاقب کا تھا۔ اس کارروائی سے آپ کے لشکر کی آبروبڑی حد تک برقراررہ گئی۔ کیونکہ یہ ایسا پر وقار اور شجاعت پر مبنی جنگی اقدام تھا کہ مخالفین خصوصاً منافقین اور یہود کا منہ حیرت سے کھُلے کا کھلا رہ گیا۔ پھر آپﷺ نے مسلسل ایسی جنگی کارروائیاں کیں کہ ان سے مسلمانوں کی صرف سابقہ ہیبت ہی بحال نہیں ہوئی بلکہ اس میں مزید اضافہ بھی ہو گیا۔ اگلے صفحات میں انہی کا کچھ تذکرہ کیا جارہا ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
۱۔ سریۂ ابو سلمہ:
جنگ اُحد کے بعد مسلمانوں کے خلاف سب سے پہلے بنو اسد بن خزیمہ کا قبیلہ اٹھا۔ اس کے متعلق مدینے میں یہ اطلاع پہنچی کہ خُویلِد کے دو بیٹے طلحہ اور سلمہ اپنی قوم اور اپنے اطاعت شعاروں کو لے کر بنو اسد کو رسول اللہﷺ پر حملے کی دعوت دیتے پھر رہے ہیں۔ رسول اللہﷺ نے جھٹ ڈیڑھ سو انصار ومہاجرین کا ایک دستہ تیار فرمایا۔ اور حضرت ابو سلمہؓ کو اس کا عَلَم دے کر اور سپہ سالار بنا کر روانہ فرمادیا۔ حضرت ابو سلمہؓ نے بنو اسد کے حرکت میں آنے سے پہلے ہی ان پر اس قدر اچانک حملہ کیا کہ وہ بھاگ کر اِدھر اُدھر بکھر گئے۔ مسلمانوں نے ان کے اونٹ اور بکریوں پر قبضہ کرلیا۔ اورسالم وغانم مدینہ واپس آگئے۔ انہیں دوبُدو جنگ بھی نہیں لڑنی پڑی۔
یہ سریہ محرم ۴ ھکا چاند نمودار ہونے پر روانہ کیاگیاتھا۔ واپسی کے بعد حضرت ابو سلمہؓ کا ایک زخم -جو انہیں اُحد میں لگا تھا - پھُوٹ پڑا اور اس کی وجہ سے وہ جلد ہی وفات پاگئے۔1
۲۔ عبد اللہ بن اُنیسؓ کی مہم:
اسی ماہ محرم ۴ ھ کی ۵ / تاریخ کو یہ خبر ملی کہ خالد بن سفیان ہُذلی مسلمانوں پر حملہ کرنے کے لیے فوج جمع کررہا ہے۔ رسول اللہﷺ نے اس کے خلاف کارروائی کے لیے عبداللہ بن اُنیسؓ کو روانہ فرمایا۔
عبد اللہ بن اُنیسؓ مدینہ سے ۱۸ روز باہر رہ کر ۲۳/ محرم کو واپس تشریف لائے۔ وہ خالد کو قتل کرکے اس کا سر بھی ہمراہ لائے تھے۔ جب خدمتِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں حاضر ہوکر انہوں نے یہ سر آپﷺ کے سامنے پیش کیا تو آپ نے انہیں ایک عصا مرحمت فرمایا۔ اور فرمایاکہ یہ میرے اور تمہارے درمیان قیامت کے روز نشانی رہے گا۔ چنانچہ جب ان کی وفات کا وقت آیا تو انہوں نے وصیت کی کہ یہ عصا بھی ان کے ساتھ ان کے کفن میں لپیٹ دیا جائے۔2
رجیع کا حادثہ:
اسی سال ۴ ھ کے ماہ صفر میں رسول اللہﷺ کے پاس عضل اور قارہ کے کچھ لوگ حاضر ہوئے۔ اور ذکر کیا کہ ان کے اندر اسلام کا کچھ چرچا ہے۔ لہٰذا آپﷺ ان کے ہمراہ کچھ لوگوں کو دین سکھانے اور قرآن پڑھانے کے لیے روانہ فرمادیں۔ آپﷺ نے ابن اسحاق کے بقول چھ افراد کو اور صحیح بخاری کی روایت کے مطابق دس افراد کو روانہ فرمایا۔ اور ابن اسحاق کے بقول مرثد بن ابی مرثد غنوی کو اور صحیح بخاری کی روایت کے مطابق عاصم بن عمر بن خطاب کے نانا حضرت عاصم بن ثابت کو ان کا امیر مقرر فرمایا۔ جب یہ لوگ رابغ اور جدہ کے درمیان قبیلہ ہُذیل کے رجیع نامی ایک چشمے پر پہنچے تو ان پر عضل اور قارہ کے مذکورہ افراد نے قبیلہ ہذیل کی ایک شاخ بنو لحیان کو چڑھادیا۔ اور بنو لحیان کے کوئی ایک سو تیرانداز ان کے پیچھے لگ گئے۔ اور نشانات ِ قدم دیکھ دیکھ کر انہیں جالیا۔ یہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ایک ٹیلے پر پناہ گیر ہوگئے۔ بنو لحیان نے انہیں گھیر لیا، اور کہا: تمہارے لیے عہد وپیمان ہے کہ اگر ہمارے پاس اتر آؤ تو ہم تمہارے کسی آدمی کو قتل نہیں کریں گے۔ حضرت عاصم نے اترنے سے انکار کردیا اور اپنے رفقاء سمیت ان سے جنگ شروع کردی۔ بالآخر تیروں کی بو جھاڑ سے سات افراد شہید ہوگئے۔ اور صرف تین آدمی حضرت خبیب، زید بن دثنہ اور ایک صحابی باقی بچے۔ اب پھر بنو لحیان نے اپنا عہد وپیمان دہرایا۔ اور اس پریہ تینوں صحابی ان کے پاس اتر آئے لیکن انہوں نے قابو پاتے ہی بدعہدی کی۔ اور انہیں اپنی کمانوں کی تانت سے باندھ
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1 زادا لمعاد ۲/۱۰۸ 2 ایضاً ۲/۱۰۹۔ابن ہشام ۲/۶۱۹ ، ۶۲۰
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
لیا، اس پر تیسرے صحابی نے یہ کہتے ہوئے کہ یہ پہلی بد عہدی ہے ان کے ساتھ جانے سے انکار کردیا۔ انہوں نے کھینچ گھسیٹ کر ساتھ لے جانے کی کوشش کی لیکن کامیاب نہ ہوئے تو انہیں قتل کردیا۔ اور حضرت خبیب اور زید رضی اللہ عنہما کو مکہ لے جا کر بیچ دیا۔ ان دونوں صحابہ نے بدر کے روز اہل ِ مکہ کے سرداروں کو قتل کیا تھا۔
حضرت خبیب کچھ عرصہ اہل مکہ کی قید میں رہے۔ پھر مکے والوں نے ان کے قتل کا ارادہ کیا۔ اور انہیں حرم سے باہر تنعیم لے گئے۔ جب سولی پر چڑھانا چاہا تو انہوں نے فرمایا : مجھے چھوڑ دو، ذرا دورکعت نماز پڑھ لوں۔ مشرکین نے چھوڑ دیا اور آپ نے دورکعت نماز پڑھی۔ جب سلام پھیر چکے تو فرمایا: واللہ! اگر تم لوگ یہ نہ کہتے کہ میں جو کچھ کررہاہوں گھبراہٹ کی وجہ سے کررہا ہوں تو میں کچھ اور طول دیتا۔ اس کے بعد فرمایا : اے اللہ ! انہیں ایک ایک کر کے گن لے ،پھر بکھیر کر مارنا۔ اور ان میں سے کسی ایک کو باقی نہ چھوڑنا۔ پھر یہ اشعار کہے :


لقد أجمع الأحزاب حولـی وألـبوا قبائلہـــم واستجمعـوا کل مجـمـع​
وقـد قـربـوا أبنـاء ہم ونســاء ہم وقــربت مـن جـزع طـویـل ممـنــع​
إلـی اللہ أشکـو غربتی بعد کربتی وما جمع الأحزاب لی عند مضجـعی​
فذا العرش صبر لی علی ما یراد بی فقد بضعوا لحمی وقد بؤس مطعـمی​
وقـد خیرونی الکفر والموت دونـہ فقـد ذرفت عینـای من غیـر مدمـــع​
ولسـت أبالی حیـن أقتـل مسلمــاً علـی أی شــق کان للـہ مضـجـعـی​
وذلک فـی ذات الإلـــہ وإن یشـــأ یبـارک عـلی أوصـال شلــو ممــزع​


''لوگ میرے گرد گروہ در گروہ جمع ہوگئے ہیں۔ اپنے قبائل کو چڑھا لائے ہیں۔ اور سارا مجمع جمع کرلیا ہے، اپنے بیٹوں اور عورتوں کو بھی قریب لے آئے ہیں۔ اور مجھے ایک لمبے مضبوط تنے کے قریب کردیا گیا ہے، میں اپنی بے وطنی وبیکسی کا شکوہ اور اپنی قتل گاہ کے پاس گروہوں کی جمع کردہ آفات کی فریاد اللہ ہی سے کررہاہوں۔ اے عرش والے ! میرے خلاف دشمنوں کے جو ارادے ہیں اس پر مجھے صبر دے۔ انہوں نے مجھے بوٹی بوٹی کردیا ہے۔ اور میری خوراک بُری ہوگئی ہے۔ انہوں نے مجھے کفر کا اختیار دیا ہے۔ حالانکہ موت اس سے کمتر اور آسان ہے۔ میری آنکھیں آنسو کے بغیر امنڈ آئیں۔ میں مسلمان مارا جاؤں تو مجھے پروا نہیں کہ اللہ کی راہ میں کس پہلو پر قتل ہوں گا۔ یہ تو اللہ کی ذات کے لیے ہے۔ اور وہ چاہے تو بوٹی بوٹی کیے ہوئے اعضاء کے جوڑ جوڑ میں برکت دے ۔''
اس کے بعد ابو سفیان نے حضرت خبیبؓ سے کہا : کیا تمہیں یہ بات پسند آئے گی کہ (تمہارے بدلے ) محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس ہوتے۔ ہم ان کی گردن مارتے۔ اور تم اپنے اہل وعیال میں رہتے۔ انہوں نے کہا: نہیں۔ واللہ! مجھے تو یہ بھی گوارا نہیں کہ میں اپنے اہل وعیال میں رہوں اور (اس کے بدلے ) محمدﷺ کو جہاں آپ ہیں وہیں رہتے ہوئے کانٹا چبھ جائے ، اور وہ آپ کو تکلیف دے۔
اس کے بعد مشرکین نے انہیں سولی پر لٹکا دیا ، اور ان کی لاش کی نگرانی کے لیے آدمی مقرر کردیے لیکن حضرت عَمرو بن اُمیہ ضمریؓ تشریف لائے۔ اور رات میں جھانسہ دے کر لاش اٹھا لے گئے۔ اور اسے دفن کردیا۔ حضرت خبیب کا قاتل عُقبہ بن حارث تھا۔ حضرت خبیب نے اس کے باپ حارث کو جنگ ِ بدر میں قتل کیا تھا۔
صحیح بخاری میں مروی ہے کہ حضرت خُبیب پہلے بزرگ ہیں جنہوں نے قتل کے موقع پر دورکعت نماز پڑھنے کا طریقہ مشروع کیا۔ اور انہیں قید میں دیکھا گیا کہ وہ انگور کے گچھے کھا رہے تھے۔ حالانکہ ان دنوں مکے میں کھجور بھی نہیں ملتی تھی۔
دوسرے صحابی جو اس واقعے میں گرفتار ہوئے تھے ، یعنی حضرت زید بن دثنہ ، انہیں صفوان بن اُمیہ نے خرید کر اپنے باپ کے بدلے قتل کردیا۔
قریش نے اس مقصد کے لیے بھی آدمی بھیجے کہ حضرت عاصم کے جسم کا کوئی ٹکڑ الائیں ، جس سے انہیں پہچانا جاسکے۔ کیونکہ انہوں نے جنگ ِ بدر میں قریش کے کسی عظیم آدمی کو قتل کیا تھا۔ لیکن اللہ نے ان پر بھِڑوں کا جھُنڈ بھیج دیا۔ جس نے قریش کے آدمیوں سے ان کی لاش کی حفاظت کی۔ اور یہ لوگ ان کا کوئی حصہ حاصل کرنے پر قدرت نہ پاس کے۔ درحقیقت حضرت عاصمؓ نے اللہ سے یہ عہد وپیمان کررکھا تھا کہ نہ انہیں کوئی مشرک چھوئے گا۔ نہ وہ کسی مشرک کو چھوئیں گے۔ بعد میں جب حضرت عمرؓ کو اس واقعے کی خبر ہوئی تو فرمایا کرتے تھے کہ اللہ مومن بندے کی حفاظت اس کی وفات کے بعد بھی کرتا ہے جیسے اس کی زندگی میں کرتا ہے۔1
بئر معونہ کا المیہ:
جس مہینے رجیع کا حادثہ پیش آیا ٹھیک اسی مہینے بئر معونہ کا المیہ بھی پیش آیا ، جو رجیع کے حادثہ سے کہیں زیادہ سنگین تھا۔
اس واقعے کا خلاصہ یہ ہے کہ ابو براء عامر بن مالک ، جو مُلاعِب ُالاسُنّہ (نیزوں سے کھیلنے والا ) کے لقب سے مشہور تھا ، مدینہ خدمت نبوی میں حاضر ہوا۔ آپﷺ نے اسے اسلام کی دعوت دی ، اس نے اسلام تو قبول نہیں کیا۔ لیکن دُوری بھی اختیار نہیں کی ، اس نے کہا : اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! اگر آپ اپنے اصحاب کو دعوتِ دین کے لیے اہلِ نجد کے پاس بھیجیں تو مجھے امید ہے کہ وہ لوگ آپ کی دعوت قبول کرلیں گے۔ آپﷺ نے فرمایا: مجھے اپنے صحابہ کے متعلق اہلِ نجد سے خطرہ ہے۔ ابو براء نے کہا : وہ میری پناہ میں ہوں گے۔ اس پر نبیﷺ نے ابن اسحاق کے بقول چالیس اور صحیح بخاری کی روایت کے مطابق ستر آدمیوں کوبھیج دیا - ستر ہی کی روایت درست ہے - اور منذربن عَمرو کو جو بنو ساعدہ سے تعلق رکھتے تھے۔ اور ''معتق للموت '' (موت کے لیے آزاد کردہ ) کے لقب
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1 ابن ہشام ۲/۱۶۹ تا ۱۷۹ زارا لمعاد ۲/۱۰۹ صحیح بخاری ۲/۵۶۸،۵۶۹،۵۸۵
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
سے مشہور تھے۔ ان کا امیر بنادیا۔ یہ لوگ فضلاء ، قراء اور سادات واخیارِ صحابہ تھے۔ دن میں لکڑیاں کاٹ کر اس کے عوض اہل صُفّہ کے لیے غلہ خریدتے اور قرآن پڑھتے پڑھاتے تھے، اور رات میں اللہ کے حضور مناجات ونماز کے لیے کھڑے ہوجاتے تھے۔ اس طرح چلتے چلاتے معونہ کے کنوئیں پر جا پہنچے۔ یہ کنواں بنو عامر اور حرہ بنی سلیم کے درمیان ایک زمین میں واقع ہے۔ وہاں پڑاؤ ڈالنے کے بعد ان صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے اُمِ سُلیم کے بھائی حرام بن ملحان کو رسول اللہﷺ کا خط دے کر اللہ کے دشمن عامر بن طفیل کے پاس روانہ کیا لیکن اس نے خط کو دیکھا تک نہیں اور ایک آدمی کو اشارہ کردیا جس نے حضرت حرام کو پیچھے سے اس زور کا نیزہ مارا کہ وہ نیزہ آر پار ہوگیا۔ خون دیکھ کر حضرت حرام نے فرمایا : اللہ اکبر ! ربِ کعبہ کی قسم میں کامیاب ہوگیا۔
اس کے بعد فوراً ہی اس اللہ کے دشمن عامر نے باقی صحابہؓ پر حملہ کرنے کے لیے اپنے قبیلہ بنی عامر کو آواز دی۔ مگر انہوں نے ابو براء کی پناہ کے پیش نظر اس کی آواز پر کان نہ دھرے۔ ادھر سے مایوس ہوکر اس شخص نے بنو سلیم کو آواز دی۔ بنو سلیم کے تین قبیلوں عصیہ ، رعل اور ذکوان نے اس پر لبیک کہا۔ اور جھٹ آکر ان صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا محاصرہ کرلیا۔ جواباً صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے بھی لڑائی کی مگر سب کے سب شہید ہوگئے۔ صرف حضرت کعب بن زید بن نجارؓ زندہ بچے۔ انہیں شہد اء کے درمیان سے زخمی حالت میں اٹھا لایا گیا۔ اور وہ جنگ خندق تک حیات رہے۔ ان کے علاوہ مزید دوصحابہ حضرت عَمرو بن امیہ ضمری اور حضرت مُنذر بن عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہما اونٹ چرارہے تھے۔ انہوں نے جائے واردات پر چڑیوں کو منڈلاتے دیکھا تو سیدھے جائے واردات پر پہنچے۔ پھر حضرت منذر تو اپنے رفقاء کے ساتھ مل کر مشرکین سے لڑتے ہوئے شہید ہوگئے۔ اور حضرت عمرو بن اُمیہ ضمری کو قید کرلیا گیا لیکن جب بتایا گیا کہ ان کا تعلق قبیلہ ٔ مُضَر سے ہے تو عامر نے ان کی پیشانی کے بال کٹواکر اپنی ماں کی طرف سے -جس پر ایک گردن آزاد کرنے کی نذر تھی- آزاد کردیا۔
حضرت عمرو بن اُمیہ ضمریؓ اس دردناک المیے کی خبر لے کر مدینہ پہنچے۔ سَتّرافاضل مسلمین کی شہادت کا المیہ جس نے جنگ اُحد کا چرکہ تازہ کردیا۔ اور وہ بھی اس فرق کے ساتھ کہ شہداء احد تو ایک کھُلی ہوئی اور دوبدو جنگ میں مارے گئے تھے ، مگر یہ بیچا رے ایک شرمناک غداری کی نذر ہوگئے۔
حضرت عمرو بن اُمیہ ضمری واپسی میں وادی قناۃ کے سرے پر واقع مقام قرقرہ پہنچے تو ایک درخت کے سائے میں اتر پڑے وہیں بنو کلاب کے دوآدمی بھی آکر اتررہے۔ جب وہ دونوں بے خبر سو گئے تو حضرت عمرو بن امیہؓ نے ان دونوں کا صفایا کردیا۔ ان کا خیال تھا کہ اپنے ساتھیوں کا بدلہ لے رہے ہیں ، حالانکہ ان دونوں کے پاس رسول اللہﷺ کی طرف سے عہد تھا۔ مگر حضرت عَمرو جانتے نہ تھے۔ چنانچہ جب مدینہ آکر انہوں نے رسول اللہﷺ کو اپنی اس کارروائی کی خبر دی تو آپ نے فرمایا کہ تم نے ایسے دوآدمیوں کو قتل کیا ہے جن کی دیت مجھے لازماً ادا کرنی ہے۔ اس کے بعد آپ مسلمان اور ان کے حُلفاء یہود سے دیت جمع کرنے مشغول ہوگئے۔1 اور یہی غزوۂ بنی نضیر کا سبب بنا۔ جیسا کہ آگے آرہا ہے۔
رسول اللہﷺ کو معونہ اور رجیع کے ان المناک واقعات سے جوچند ہی دن آگے پیچھے پیش آئے تھے۔2 اس قدر رنج پہنچا ، اور آپ اس قدر غمگین ودلفگار ہوئے 3کہ جن قوموں اور قبیلوں نے ان صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ساتھ غدر وقتل کا یہ سلوک کیا تھا آپﷺ نے ان پر ایک مہینے تک بددعا فرمائی۔ چنانچہ صحیح بخاری میں حضرت انسؓ سے مروی ہے کہ جن لوگوں نے آپﷺ کے صحابہ کو بئر معونہ پر شہید کیا تھا۔ آپ نے ان پر تیس روز تک بددعا کی۔ آپ نماز فجر میں رعل ، ذکوان لحیان اور عُصَیَّہ پر بددعا کرتے تھے۔ اور فرماتے تھے کہ عصیہ نے اللہ اور اس کے رسول کی معصیت کی۔ اللہ تعالیٰ نے اس بارے میں اپنے نبی پر قرآن نازل کیا ، جو بعد میں منسوخ ہوگیا۔ وہ قرآن یہ تھا ''ہماری قوم کو یہ بتلادو کہ ہم اپنے رب سے ملے تو وہ ہم سے راضی ہے اور ہم اس سے راضی ہیں۔ '' اس کے بعد رسول اللہﷺ نے اپنا یہ قنوت ترک فرمادیا۔4
۵۔ غزوہ ٔ بنی نضیر:
ہم بتا چکے ہیں کہ یہود اسلام اور مسلمانوں سے جلتے بھُنتے تھے ، مگر چونکہ وہ مردِ میدان نہ تھے۔ سازشی اور دسیسہ کار تھے ، اس لیے جنگ کے بجائے کینے اور عداوت کا مظاہرہ کرتے تھے۔ اور مسلمانوں کو عہد وپیمان کے باوجود اذیت دینے کے لیے طرح طرح کے حیلے اور تدبیریں کرتے تھے۔ البتہ بنو قَینُقاع کی جلاوطنی اور کعب بن اشرف کے قتل کا واقعہ پیش آیا تو ان کے حوصلے ٹوٹ گئے۔ اور انہوں نے خوفزدہ ہو کر خاموشی اور سکون اختیار کر لیا۔ لیکن غزوۂ احد کے بعد ان کی جرأت پھر پلٹ آئی۔ انہوں نے کھلم کھلا عداوت وبد عہدی کی۔ مدینہ کے منافقین اور مکے کے مشرکین سے پس پردہ ساٹ گانٹھ کی۔ اور مسلمانوں کے خلاف مشرکین کی حمایت میں کام کیا۔5
نبیﷺ نے سب کچھ جانتے ہوئے صبر سے کام لیا لیکن رجیع اور معونہ کے حادثات کے بعد ان کی جرأت وجسارت حد سے بڑھ گئی۔ اور انہوں نے نبیﷺ ہی کے خاتمے کا پروگرام بنالیا۔
اس کی تفصیل یہ ہے کہ نبیﷺ اپنے چند صحابہ کے ہمراہ یہود کے پاس تشریف لے گئے اور ان سے بنو کلاب کے ان دونوں مقتولین کی دیت میں اعانت کے لیے بات چیت کی - (جنہیں حضرت عَمرو بن اُمیہ ضَمری
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1 دیکھئے: ابن ہشام ۲/۱۸۳تا ۱۸۸ ، زاد المعاد ۲/۱۰۹ ،۱۱۰ صحیح بخاری ۲/۵۸۴ ، ۵۸۶
2 ابن سعد نے لکھا ہے کہ رجیع اور معونہ دونوں حادثوں کی خبر رسول اللہﷺ کو ایک ہی رات میں ملی تھی۔ (۲/۵۳ )
3 ابن سعد نے حضرت انسؓ سے روایت کی ہے کہ رسول اللہﷺ جس قدر اہل بئر معونہ پر غمگین ہوئے میں نے کسی اور پر آپ کو اتنا زیادہ غمگین ہوتے نہیں دیکھا۔ (۲/۵۴)
4 صحیح بخاری ۲/۵۸۶، ۵۸۷، ۵۸۸
5 سنن ابی داؤد باب خبر النضیر کی روایت سے یہ بات مستفاد ہے۔ دیکھئے: سنن ابی داؤد مع شرح عون المعبود ۳/۱۱۶،۱۱۷
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
نے غلطی سے قتل کردیا تھا ) ان پر معاہدہ کی رُو سے یہ اعانت واجب تھی۔ انہوں نے کہا : ابو القاسم ! ہم ایسا ہی کریں گے۔ آپﷺ یہاں تشریف رکھئے ہم آپﷺ کی ضرورت پوری کیے دیتے ہیں۔ آپﷺ ان کے ایک گھر کی دیوار سے ٹیک لگا کر بیٹھ گئے۔ اور ان کے وعدے کی تکمیل کا انتظار کرنے لگے۔ آپ ﷺ کے ساتھ حضرت ابو بکرؓ ، حضرت عمرؓ ، حضرت علیؓ اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی ایک جماعت بھی تشریف فرماتھی۔
ادھر یہود تنہائی میں جمع ہوئے تو ان پر شیطان سوار ہوگیا۔ اور جو بدبختیاں ان کا نوشتہ تقدیر بن چکی تھی اسے شیطان نے خوشنما بناکر پیش کیا۔ یعنی ان یہود نے باہم مشورہ کیا کہ کیوں نہ نبیﷺ ہی کو قتل کردیا جائے۔ چنانچہ انہوں نے کہا : کون ہے جو اس چکی کو لے کر اوپر جائے اور آپﷺ کے سر پر گراکر آپﷺ کو کچل دے۔ اس پر ایک بدبخت یہودی عَمرو بن جحاش نے کہا : میں ... ان لوگوں سے سلام بن مشکم نے کہا بھی کہ ایسا نہ کرو۔ کیونکہ اللہ کی قسم! انہیں تمہارے ارادوں کی خبر دے دی جائے گی۔ اور پھر ہمارے اور ان کے درمیان جو عہد وپیمان ہے یہ اس کی خلاف ورزی بھی ہے۔ لیکن انہوں نے ایک نہ سنی اور اپنے منصوبے کو روبہ عمل لانے کے عزم پر برقرار رہے۔
ادھر رب العالمین کی طرف سے رسول اللہﷺ کے پاس حضرت جبریل ؑ تشریف لائے۔ اور آپﷺ کو یہود کے ارادے سے باخبر کیا۔ آپﷺ تیزی سے اُٹھے۔ اور مدینے کے لیے چل پڑے۔ بعد میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم بھی آپﷺ سے آن ملے اور کہنے لگے : آپﷺ اُٹھ آئے اور ہم سمجھ نہ سکے۔ آپﷺ نے بتلایا کہ یہود کا ارادہ کیا تھا۔ مدینہ واپس آکر آپﷺ نے فوراً ہی محمد بن مسلمہ کو بنی نضیر کے پاس روانہ فرمایااور انہیں یہ نوٹس دیا کہ تم لوگ مدینے سے نکل جاؤ۔ اب یہاں میرے ساتھ نہیں رہ سکتے۔ تمہیں دس دن کی مہلت دی جاتی ہے اس کے بعد جو شخص پایا جائے گا اس کی گردن ماردی جائے گی۔ اس نوٹس کے بعد یہود کو جلاوطنی کے سوا کوئی چارہ کا ر سمجھ میں نہیں آیا۔ چنانچہ وہ چند دن تک سفر کی تیاریاں کرتے رہے۔لیکن اسی دوران عبداللہ بن اُبی رئیس المنافقین نے کہلا بھیجا کہ اپنی جگہ برقرار رہو۔ ڈٹ جاؤ۔ اور گھر بار نہ چھوڑو۔ میرے پاس دوہزار مردانِ جنگی ہیں۔ جو تمہارے ساتھ تمہارے قلعے میں داخل ہوکر تمہاری حفاظت میں جان دے دیں گے۔ اور اگر تمہیں نکالا ہی گیا تو ہم بھی تمہارے ساتھ نکل جائیں گے۔ اور تمہارے بارے میں کسی سے ہرگز نہیں دبیں گے۔ اور اگرتم سے جنگ کی گئی تو ہم تمہاری مدد کریں گے۔ اور بنو قریظہ اور غَظْفَان جو تمہارے حلیف ہیں وہ بھی تمہاری مدد کریں گے۔
یہ پیغام سن کر یہود کی خود اعتمادی پلٹ آئی۔ اور انہوں نے طے کرلیا کہ جلاوطن ہونے کے بجائے ٹکر لی جائے گی۔ ان کے سردار حُیی بن اخطب کو توقع تھی کہ راس المنافقین نے جو کچھ کہا ہے وہ پورا کرے گا۔ اس لیے اس نے رسول اللہﷺ کے پاس جوابی پیغام بھیج دیا کہ ہم اپنے دیار سے نہیں نکلتے ، آپ کو جوکرنا ہو کرلیں۔
اس میں شبہ نہیں کہ مسلمانوں کے لحاظ سے یہ صورت حال نازک تھی کیونکہ ان کے لیے اپنی تاریخ کے اس نازک اور پیچیدہ موڑ پر دشمنوں سے ٹکراؤ کچھ زیادہ قابل اطمینان نہ تھا۔ انجام خطرناک ہوسکتا تھا۔آپ دیکھ ہی رہے ہیںکہ سارا عرب مسلمانوں کے خلاف تھا۔ اور مسلمانوں کے دو تبلیغی وفود نہایت بے دردی سے تہ تیغ کیے جاچکے تھے ، پھر بنی نضیر کے یہود اتنے طاقتور تھے کہ ان کا ہتھیار ڈالنا آسان نہ تھا۔ اور ان سے جنگ مول لینے میں طرح طرح کے خدشات تھے۔ مگر بئر معونہ کے المیے سے پہلے اور اس کے بعد حالات نے جونئی کروٹ لی تھی ، اس کی وجہ سے مسلمان قتل اور بد عہدی جیسے جرائم کے سلسلے میں زیادہ حساس ہوگئے تھے ، اوران جرائم کا ارتکاب کرنے والوں کے خلاف مسلمانوں کا جذبہ ٔ انتقام فزوں تر ہوگیا تھا۔ لہٰذا انہوں نے طے کرلیا کہ چونکہ بنو نضیر نے رسول اللہﷺ کے قتل کا پروگرام بنایا تھا ، اس لیے ان سے بہرحال لڑنا ہے۔ خواہ اس کے نتائج جو بھی ہوں۔ چنانچہ جب رسول اللہﷺ کو حیی بن اخطب کا جوابی پیغام ملا تو آپ نے اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے کہا: اللہ اکبر اور پھر لڑائی کے لیے اٹھ کھڑے ہوئے۔ اور حضرت ابن اُمِ مکتوم کو مدینہ کا انتظام سونپ کر بنونضیرکے علاقے کی طرف روانہ ہوگئے۔ حضرت علی بن ابی طالبؓ کے ہاتھ میں عَلَم تھا بنونضیرکے علاقے میں پہنچ کر ان کا محاصر ہ کرلیا گیا۔
ادھر بنونضیر نے اپنے قلعوں اور گڑھیوں میں پناہ لی۔ اور قلعہ بندرہ کر فصیل سے تیر اور پتھر برساتے رہے چونکہ کھجور کے باغات ان کے لیے سپر کاکام دے رہے تھے۔ اس لیے آپﷺ نے حکم دیا کہ ان درختوں کو کاٹ کر جلادیا جائے۔بعد میں اسی کی طرف اشارہ کرکے حضرت حسانؓ نے فرمایا تھا :

وہـان علـی سـراۃ بنـی لـوی​
حـریق بـالبویـــرۃ مستطیــر​

بنی لوی کے سرداروں کے لیے یہ معمولی بات تھی کہ بَوُیَرْہ میں آگ کے شعلے بلند ہوں (بویرہ ! بنونضیر کے نخلستان کا نام تھا) اور اس کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد بھی نازل ہوا :
مَا قَطَعْتُم مِّن لِّينَةٍ أَوْ تَرَ‌كْتُمُوهَا قَائِمَةً عَلَىٰ أُصُولِهَا فَبِإِذْنِ اللَّـهِ وَلِيُخْزِيَ الْفَاسِقِينَ (۵۹: ۵)
''تم نے کھجور کے جو درخت کاٹے یا جنہیں اپنے تنوں پر کھڑا رہنے دیا وہ سب اللہ ہی کے اذن سے تھا۔ اور ایسا اس لیے کیا گیا تاکہ اللہ ان فاسقوں کورسواکرے ۔''
بہرحال جب ان کا محاصرہ کیا گیا تو بنو قُریظہ ان سے الگ تھلگ رہے۔ عبداللہ بن اُبی نے بھی خیانت کی۔ اور ان کے حلیف غَطفان بھی مدد کو نہ آئے۔ غرض کوئی بھی انہیں مدد دینے یا ان کی مصیبت ٹالنے پر آمادہ نہ ہوا۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے ان کے واقعے کی مثال یوں بیان فرمائی :
كَمَثَلِ الشَّيْطَانِ إِذْ قَالَ لِلْإِنسَانِ اكْفُرْ‌ فَلَمَّا كَفَرَ‌ قَالَ إِنِّي بَرِ‌يءٌ مِّنكَ إِنِّي أَخَافُ اللَّـهَ رَ‌بَّ الْعَالَمِينَ (۵۹:۱۶)
''جیسے شیطان انسان سے کہتا ہے کفر کرو اورجب وہ کفر کر بیٹھتا ہے تو شیطان کہتا ہے میں تم سے بری ہوں ۔''
محاصرے نے کچھ زیادہ طول نہیں پکڑا۔ بلکہ صرف چھ رات ...یابقول بعض پندرہ رات ... جاری رہاکہ اس دوران اللہ نے ان کے دلوں میں رعب ڈال دیا۔ ان کے حوصلے ٹوٹ گئے۔ وہ ہتھیار ڈالنے پر آمادہ ہوگئے۔ اور رسول اللہﷺ کو کہلوا بھیجا کہ ہم مدینے سے نکلنے کو تیار ہیں۔ آپ نے ان کی جلاوطنی کی پیش کش منظور فرمائی۔ اور یہ بھی منظور فرمالیا کہ وہ ہتھیار کے علاوہ باقی جتنا سازوسامان اونٹوں پر لادسکتے ہوں سب لے کر بال بچوں سمیت چلے جائیں۔
بنو نضیر نے اس منظوری کے بعد ہتھیار ڈال دیے اور اپنے ہاتھوں اپنے مکانات اجاڑ ڈالے ،تاکہ دروازے اور کھڑکیاں بھی لاد لے جائیں۔ بلکہ بعض بعض نے تو چھت کی کڑیاں اور دیواروں کی کھونٹیاں بھی لاد لیں۔ پھر عورتوں اور بچوں کو سوار کیا۔ اور چھ سو اونٹوں پر لد لداکر روانہ ہوگئے۔ بیشتر یہود اور ان کے اکابر مثلاًحُیی بن اخطب اور سلام بن ابی الحُقَیق نے خیبر کا رُخ کیا۔ ایک جماعت ملک شام روانہ ہوئی صرف دوآدمیوں، یعنی یامین بن عمرو اور ابو سعید بن وہب نے اسلام قبول کیا۔ لہٰذا ان کے مال کو ہاتھ نہیں لگایاگیا۔
رسول اللہﷺ نے شرط کے مطابق بنونضیر کے ہتھیار ، زمین ، گھر اور باغات اپنے قبضے میں لے لیے ، ہتھیار میں پچاس زِرہیں ، پچاس خُود اور تین سو چالیس تلواریں تھیں۔
بنونضیر کے یہ باغات ، زمین اور مکانات خالص رسول اللہﷺ کا حق تھا۔ آپ کو اختیار تھا کہ آپ اسے اپنے لیے محفوظ رکھیں یا جسے چاہیں دیں۔ چنانچہ آپ نے (مالِ غنیمت کی طرح ) ان اموال کا خُمس (پانچواں حصہ ) نہیں نکالا۔ کیونکہ اسے اللہ نے آپ کو بطور فَیْ دیا تھا۔ مسلمانوں نے اس پر گھوڑے اور اونٹ دوڑاکر اسے (بزور شمشیر ) فتح نہیں کیا تھا۔ لہٰذا آپ نے اپنے اس اختیار خصوصی کے تحت اس پورے مال کو صرف مہاجرین اولین پر تقسیم فرمایا۔ البتہ دو انصاری صحابہ، یعنی ابودجانہ اور سہل بن حُنیف رضی اللہ عنہما کو ان کے فقر کے سبب اس میں سے کچھ عطافرمایا۔ اس کے علاوہ آپ نے (ایک چھوٹا سا ٹکڑا اپنے لیے محفوظ رکھا جس میں سے آپ )اپنی ازواج مطہرات کا سال بھر کا خرچ نکالتے تھے۔ اور اس کے بعد جو کچھ بچتا تھا اسے جہاد کی تیاری کے لیے ہتھیار اور گھوڑوں کی فراہمی میں صرف فرمادیتے تھے۔
غزوہ بنی نضیر ربیع الاول۴ھ ،اگست ۶۲۵ ء میں پیش آیا۔ اور اللہ تعالیٰ نے اس تعلق سے پوری سورۂ حشر نازل فرمائی۔ جس میں یہودکی جلاوطنی کا نقشہ کھینچتے ہوئے منافقین کے طرزِ عمل کا پردہ فاش کیا گیا ہے۔ اور مال ِ فَیْ کے احکام بیان فرماتے ہوئے مہاجرین وانصار کی مدح وستائش کی گئی ہے اور یہ بھی بتایا گیا ہے کہ جنگی مصالح کے پیش نظر دشمن کے درخت کاٹے جاسکتے ہیں۔ اور ان میں آگ لگائی جاسکتی ہے۔ ایسا کرنا فساد فی الارض نہیں ہے۔ پھر اہلِ ایمان کو تقویٰ کے التزام اور آخرت کی تیاری کی تاکید کی گئی ہے۔ ان سب کے بعد اللہ تعالیٰ نے اپنی حمد وثنا فرماتے ہوئے اور اپنے اسماء وصفات کوبیان کرتے ہوئے سورۃ ختم فرمادی ہے۔
ابن عباسؓ اس سورۂ (حشر) کے بارے میں فرمایا کرتے تھے کہ اسے سورہ ٔ بنی النضیر کہو۔1
یہ اس غزوہ کے بارے میں ابن اسحاق اور عام اہلِ سیر کے بیان کا خلاصہ ہے ، امام ابوداؤد اور امام عبد الرزاق وغیرہ نے اس غزوے کی ایک دوسری وجہ روایت کی ہے۔ اور وہ یہ ہے کہ جب غزوۂ بدر پیش آیا تو اس غزوۂ بدر کے بعد قریش نے یہود کو لکھا کہ تم لوگوں کے پاس زِرہیں اور قلعے ہیں۔ لہٰذا تم لوگ ہمارے صاحب (محمدﷺ ) سے لڑائی کرو، ورنہ ہم تمہارے ساتھ ایسا اور ایسا کریں گے۔ اور ہمارے اور تمہاری عورتوں کے پازیب کے درمیان کوئی چیز رکاوٹ نہ بن سکے گی۔ جب یہود کو یہ خط ملا تو بنونضیر نے غدر کا فیصلہ کرلیا۔ چنانچہ نبیﷺ کو کہلا بھیجا کہ آپ اپنے ساتھیوں میں سے تیس آدمی لے کر ہماری جانب تشریف لائیں۔ اور ہماری طرف سے بھی تیس عالم نکلیں۔ فلاں جگہ جو ہمارے اور آپ کے بیچوں بیچ ہے ملاقات ہو۔ اور وہ آپ کی بات سنیں۔ اس کے بعد اگر وہ آپ کو سچا مان لیں ، اور آپ پر ایمان لے آئیں تو ہم سب آپ پر ایمان لے آئیں گے۔
اس تجویز کے مطابق نبیﷺ تیس صحابہ کے ہمراہ تشریف لے گئے۔ اور یہود کے بھی تیس عالم آئے۔ ایک کھلی جگہ پہنچ کر بعض یہود نے بعض سے کہا : دیکھو ان کے ساتھ تیس آدمی ہوں گے۔ جن میں سے ہر ایک ان سے پہلے مرنا پسند کرے گا۔ ایسی صورت میں تم ان تک کیسے پہنچ سکتے ہو ؟ اس کے بعد انہوں نے کہلا بھیجا کہ ہم ساٹھ آدمی ہوں گے تو آپ کیسے سمجھائیں گے اور ہم کیسے سمجھیں گے ؟ بہتر ہے کہ آپ اپنے تین ساتھیوں کے ہمراہ آئیں اور ہمارے بھی تین عالم آپ کے پاس جائیں اور وہ آپ کی بات سنیں ، اگر وہ ایمان لائیں گے تو ہم سب ایمان لائیں گے۔ اور آپ کی تصدیق کریں گے۔ چنانچہ رسول اللہﷺ اپنے تین صحابہ کے ہمراہ تشریف لے گئے۔ ادھر یہود نبیﷺ کے قتل کے ارادے سے خنجر چھپا کر آئے ، لیکن بنو نضیر کی ایک خیر خواہ عورت نے اپنے بھتیجے کے پاس - جو ایک انصاری مسلمان تھا - رسول اللہﷺ کے ساتھ بنونضیر کے غدر کے ارادے کی خبر کہلا بھیجی۔ وہ تیز رفتاری سے آیا۔ اور نبیﷺ کو ان تک پہنچنے سے پہلے ہی پالیا۔ اور سرگوشی کے ساتھ ان کی خبر بتائی۔ آپﷺ وہیں سے واپس آگئے۔ اور دوسرے دن صحابۂ کرام کے دستے لے کر تشریف لے گئے اور ان کا محاصرہ کرلیا۔ اور فرمایا کہ تم لوگ جب تک مجھے عہدوپیمان نہ دے دو قابل اطمینان نہیں۔ انہوں نے کسی قسم کا عہد دینے سے انکار کردیا۔ اس پر آپ نے اور مسلمانوں نے اس دن ان سے لڑائی کی۔ دوسرے دن گھوڑے اور دستے لے کر آپ بنو قریظہ کے پاس تشریف لے گئے۔ اور بنونضیر کو ان کے حال پر چھوڑدیا۔ بنو قریظہ کو بھی عہد وپیمان کرنے کی دعوت دی۔ انہو ں نے معاہدہ کرلیا ، لہٰذا ا ٓپﷺ ان سے پلٹ آئے۔ اور دوسرے دن دستوں کے ساتھ پھر بنو نضیر کا رُخ کیا۔ اور ان سے جنگ کی۔ بالآخر انہوں نے اس شرط پر جلاوطنی منظور کرلی کہ ہتھیار وں کے سوا جو کچھ اونٹوں پر بار کیا جاسکتاہے اسے ہم لے جانے کے مجاز ہوں گے۔ چنانچہ بنونضیر آئے اور اپنے سازو سامان ،
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1 ابن ہشام ۲/۱۹۰ ،۱۹۱ ، ۱۹۲ ، زاد المعاد ۲/۷۱، ۱۱۰ ، صحیح بخاری ۲/۵۷۴،۵۷۵
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
گھروں کے دروازے اور لکڑیاں غرض جو کچھ بھی اونٹوں سے اٹھ سکتا تھا اسے لاد لیا۔ اس کے لیے انہوں نے خود اپنے ہاتھوں اپنے گھر برباد کیے اور انھیں ڈھایا۔ اور جو لکڑیاں کام کی محسوس ہوئیں انہیں لادلیا۔ جلاوطنی ملک شام کی طرف ان لوگوں کا پہلا حشر یا پہلا ہانکا اور جماؤ تھا۔1
۶۔ غزوۂ نجد :
غزوۂ بنی نضیر میں کسی قربانی کے بغیر مسلمانوں کو شاندار کامیابی حاصل ہوئی اس سے مدینے میں قائم مسلمانوں کا اقتدار مضبوط ہوگیا۔ اور منافقین پر بددلی چھا گئی۔ اب انہیں کھل کر کچھ کرنے کی جرأت نہیں ہورہی تھی۔ اس طرح رسول اللہﷺ ان بدوؤں کی خبر لینے کے لیے یکسو ہوگئے جنہوں نے اُحد کے بعد ہی سے مسلمانوں کو سخت مشکلات میں الجھا رکھا تھا۔ اور نہایت ظالمانہ طریقے سے داعیانِ اسلام پر حملے کر کرکے انہیں موت کے گھاٹ اتار چکے تھے۔ اورا ب ان کی جرأت اس حد تک بڑھ چکی تھی کہ وہ مدینے پر چڑھائی کی سوچ رہے تھے۔
چنانچہ غزوۂ بنونضیر سے فارغ ہوکر رسول اللہﷺ ابھی ان بد عہدوں کی تادیب کے لیے اٹھے بھی نہ تھے کہ ا ٓپﷺ کو اطلاع ملی کہ بنی غَطْفَان کے دوقبیلے بنو محارب اور بنو ثعلبہ لڑائی کے لیے بدوؤں اور اعرابیوں کی نفری فراہم کررہے ہیں۔ اس خبر کے ملتے ہی نبیﷺ نے نجد پر یلغار کا فیصلہ کیا۔ اور صحرائے نجد میں دور تک گھُستے چلے گئے۔ جس کا مقصد یہ تھا کہ ان سنگ دل بدوؤں پر خوف طاری ہوجائے۔ اور وہ دوبارہ مسلمانوں کے خلاف پہلے جیسی سنگین کارروائیوں کے اعادے کی جرأت نہ کریں۔
ادھر سرکش بدو ، جو لوٹ مارکی تیاریاں کررہے تھے مسلمانوں کی اس اچانک یلغار کی خبر سنتے ہی خوف زدہ ہوکر بھاگ کھڑے ہوئے۔ اور پہاڑوں کی چوٹیوں میں جادبکے۔ مسلمانوں نے لٹیرے قبائل پر اپنا رعب ودبدبہ قائم کرنے کے بعد امن وامان کے ساتھ واپس مدینے کی راہ لی۔
اہل ِ سیر نے اس سلسلے میں ایک معیّن غزوے کا نام لیا ہے جو ربیع الآخر یا جمادی الاولیٰ ۴ ھ میں سر زمین ِنجد کے اندر پیش آیا تھا۔ اور وہ اسی غزوہ کو غزوۂ ذات الرقاع قرار دیتے ہیں۔ جہاں تک حقائق اور ثبوت کا تعلق ہے تو اس میں شبہ نہیں کہ ان ایام میں نجد کے اندر ایک غزوہ پیش آیا تھا۔ کیونکہ مدینے کے حالات ہی کچھ ایسے تھے۔ ابوسفیان نے غزوۂ احد سے واپسی کے وقت آئندہ سال میدان بدر میں جس غزوے کے لیے للکارا تھا ، اور جسے مسلمانوں نے منظور کر لیا تھا اب اس کا وقت قریب آرہا تھا۔ اور جنگی نقطۂ نظر سے یہ بات کسی طرح مناسب نہ تھی کہ بدوؤں اور اعراب کو ان کی سرکشی اور تمرد پر قائم چھو ڑ کر بدر جیسی زور دار جنگ میں جانے کے لیے مدینہ خالی کردیا جائے۔ بلکہ ضروری تھا کہ میدانِ بدر میں جس ہولناک جنگ کی توقع تھی اس کے لیے نکلنے سے پہلے ان
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1 مصنف عبدالرزاق ۵/۳۵۸- ۳۶۰ ح ۳۳ ۷ ۹، سنن ابی داؤد ، کتاب الخراج والفی والعمارۃ ، باب فی خبر النضیر ۲/۱۵۴
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
بدوؤں کی شوکت پر ایسی ضرب لگائی جائے کہ انہیں مدینے کا رُخ کرنیکی جرأت نہ ہو۔
باقی رہی یہ بات کہ یہی غزوہ جو ربیع الآخر یا جمادی لاولیٰ۴ ھ میں پیش آیا تھا غزوہ ٔ ذات الرقاع تھا ہماری تحقیق کے مطابق صحیح نہیں۔ کیونکہ غزوۂ ذات الرقاع میں حضرت ابو ہریرہ اور حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہما موجود تھے۔ اور ابوہریرہؓ جنگ خیبر سے صرف چند دن پہلے اسلام لائے تھے۔ اسی طرح حضرت ابو موسیٰ اشعریؓ (مسلمان ہوکر یمن سے روانہ ہوئے تو ان کی کشتی ساحل حبشہ سے جالگی تھی۔ اور وہ حبشہ سے اس وقت واپس آئے تھے جب نبیﷺ خیبر میں تشریف فرماتھے۔ اس طرح وہ پہلی بار ) خیبر ہی کے اندر خدمت نبوی میں حاضر ہوسکے تھے۔ پس ضروری ہے کہ غزوۂ ذات الرقاع غزوۂ خیبر کے بعد پیش آیا ہو۔
۴ ھ کے ایک عرصے بعد غزوہ ٔ ذات الرقاع کے پیش آنے کی ایک علامت یہ بھی ہے کہ نبیﷺ نے غزوہ ٔ ذات الرقاع میں صلوٰۃ ِ خوف 1پڑھی تھی اور صلوٰۃِ خوف پہلے پہل غزوہ ٔ عسفان میں پڑھی گئی۔ اور اس میں کوئی اختلاف نہیں کہ غزوۂ عسفان کا زمانہ غزوہ ٔ خندق کے بھی بعد کا ہے۔ جبکہ غزوہ ٔ خندق کا زمانہ ۵ ھ کے اخیر کا ہے۔ درحقیقت غزوہ ٔ عسفان سفرِ حدیبیہ کا ایک ضمنی واقعہ تھا۔ اور سفر ِ حدیبیہ ۶ ھ کے اخیر میں پیش آیا تھا جس سے واپس آکر رسول اللہﷺ نے خیبر کی راہ لی تھی۔ اس لیے اس اعتبار سے بھی غزوۂ ذاتِ الرقاع کا زمانہ خیبر کے بعد ہی ثابت ہوتا ہے۔
۷۔ غزوہ ٔ بدر دوم:
اعراب کی شوکت توڑدینے اور بدوؤں کے شر سے مطمئن ہوجانے کے بعد مسلمانوں نے اپنے بڑے دشمن (قریش ) سے جنگ کی تیاری شروع کردی۔ کیونکہ سال تیزی سے ختم ہورہا تھا۔ اور احد کے موقع پر طے کیا ہوا وقت قریب آتا جارہا تھا۔ اور محمدﷺ اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا فرض تھا کہ میدان کار زار میں ابو سفیان اور اس کی قوم سے دودوہاتھ کرنے کے لیے نکلیں اور جنگ کی چکی اس حکمت کے ساتھ چلائیں کہ جو فریق زیادہ ہدایت یافتہ اور پائیدار بقاء کا مستحق ہو حالات کا رُخ پوری طرح اس کے حق میں ہوجائے۔
چنانچہ شعبان ۴ ھ جنوری ۶۲۶ ء میں رسول اللہﷺ نے مدینے کا انتظام حضرت عبد اللہ بن رواحہؓ کو سونپ کرا س طے شدہ جنگ کے لیے بدر کا رُخ فرمایا۔ آپﷺ کے ہمراہ ڈیڑھ ہزار کی جمعیت اور دس گھوڑے تھے۔ آپﷺ نے فوج کا عَلَم حضرت علیؓ کو دیا اور بدر پہنچ کر مشرکین کے انتظار میں خیمہ زن ہوگئے۔
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1 حالت جنگ کی نماز کو صلوٰۃِ خوف کہتے ہیں۔ جس کا ایک طریقہ یہ ہے کہ آدھی فوج ہتھیار بند ہو کر امام کے پیچھے نماز پڑھے باقی آدھی فوج ہتھیار باندھے دشمن پر نظر رکھے۔ ایک رکعت کے بعد یہ فوج امام کے پیچھے آجائے اور پہلی فوج دشمن پر نظر رکھنے چلی جائے۔ امام دوسری رکعت پوری کرلے تو باری باری فوج کے دونوں حصے اپنی اپنی نماز پوری کریں۔ اس نمازکے اس سے ملتے جلتے اور بھی متعدد طریقے ہیں جو موقع جنگ کی مناسبت سے اختیار کیے جاتے ہیں۔ تفصیلات کتب ِ احادیث میں موجود ہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
دوسری طرف ابو سفیان بھی پچاس سوار سمیت دوہزارمشرکین کی جمعیت لے کر روانہ ہوا۔ اور مکے سے ایک مرحلہ دور وادی مَرا لظَّہران پہنچ کر مجنہ نام کے مشہور چشمے پر خیمہ زن ہوا۔ لیکن وہ مکہ ہی سے بوجھل اور بددل تھا۔ باربار مسلمانوں کے ساتھ ہونے والی جنگ کاا نجام سوچتا تھا۔ اور رعب وہیبت سے لرز اٹھتا تھا۔ مَر الظَّہران پہنچ کر اس کی ہمت جواب دے گئی۔ اور وہ واپسی کے بہانے سوچنے لگا۔ بالآخر اپنے ساتھیوں سے کہا : قریش کے لوگو! جنگ اس وقت موزوں ہوتی ہے جب شادابی او ر ہریالی ہوکہ جانور بھی چر سکیں اور تم بھی دودھ پی سکو۔ اس وقت خشک سالی ہے لہٰذا میں واپس جارہا ہوں۔ تم بھی واپس چلے چلو۔
ایسا معلوم ہوتا ہے کہ سارے ہی لشکر کے اعصاب پر خوف وہیبت سوار تھی کیونکہ ابو سفیان کے اس مشورہ پر کسی قسم کی مخالفت کے بغیر سب نے واپسی کی راہ لی اور کسی نے بھی سفر جاری رکھنے اور مسلمانوں سے جنگ لڑنے کی رائے نہ دی۔
ادھر مسلمانوں نے بدر میں آٹھ روز تک ٹھہر کر دشمن کا انتظار کیا۔ اور اس دوران اپنا سامانِ تجارت بیچ کر ایک درہم کے دودرہم بناتے رہے۔ اس کے بعد اس شان سے مدینہ واپس آئے کہ جنگ میں اقدام کی باگ ان کے ہاتھ آچکی تھی۔ دلوں پر ان کی دھاک بیٹھ چکی تھی۔ اور ماحول پر ان کی گرفت مضبوط ہوچکی تھی۔ یہ غزوۂ بدر موعد ، بدر ثانیہ ، بدر آخرہ اور بدر صغریٰ کے ناموں سے معروف ہے۔1
غزوہ ٔ دُوْمَۃُ الجندل:
رسول اللہ بدر سے واپس ہوئے تو ہر طرف امن وامان قائم ہوچکا تھا۔ اور پورے اسلامی قلمرو میں اطمینان کی بادبہاری چل رہی تھی۔ اب آپ عرب کی آخری حدود تک توجہ فرمانے کے لیے فارغ ہوچکے تھے۔ اور اس کی ضرورت بھی تھی تاکہ حالات پر مسلمانوں کا غلبہ اور کنٹرول رہے۔ اور دوست ودشمن سبھی اس کو محسوس اور تسلیم کریں۔
چنانچہ بدر صغریٰ کے بعدچھ ماہ تک آپ نے اطمینان سے مدینے میں قیام فرمایا۔ اس کے بعد آپ کو اطلاعات ملیں کہ شام کے قریب دُوْمۃ الجندل کے گرد آباد قبائل آنے والے قافلوں پر ڈاکے ڈال رہے ہیں۔ اور وہاں سے گزر نے والی اشیاء لوٹ لیتے ہیں۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ انہوں نے مدینے پر حملہ کرنے کے لیے ایک بڑی جمعیت فراہم کرلی ہے۔ ان اطلاعات کے پیش نظر رسول اللہ نے سباع بن عرفطہ غفاریؓ کو مدینے میں اپنا جانشین مقرر فرما کر ایک ہزار مسلمانوں کی نفری کے ساتھ کوچ فرمایا۔ یہ ۲۵ / ربیع الاول ۵ھ کا واقعہ ہے۔ راستہ بتانے کے لیے بنو عذرہ کا ایک آدمی رکھ لیا گیا تھا جس کا نام مذکور تھا۔
دُوْمۃ ...دال کو پیش ... یہ سرحد شام میں ایک شہر ہے۔ یہاں سے دمشق کا فاصلہ پانچ رات اور مدینے کا پندرہ رات ہے۔
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1 اس غزوے کی تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو: ابن ہشام ۲/۲۰۹، ۲۱۰ ، زادا لمعاد۲/۱۱۲
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
اس غزوے میں آپﷺ کا معمول تھا کہ آپ رات میں سفر فرماتے اور دن میں چھُپے رہتے تھے تاکہ دشمن پر بالکل اچانک اور بے خبری میں ٹوٹ پڑیں۔ قریب پہنچے تو معلوم ہوا کہ وہ لوگ باہر نکل گئے ہیں۔ لہٰذا ان کے مویشیوں اور چرواہوں پر ہلہ بول دیا ، کچھ ہاتھ آئے کچھ نکل بھاگے۔
جہاں تک دومۃ الجندل کے باشندوں کا تعلق ہے تو جس کا جدھر سینگ سمایا بھاگ نکلا، جب مسلمان دومہ کے میدان میں اترے تو کوئی نہ ملا۔ آپ نے چند دن قیام فرماکر ادھر اُدھر متعدد دستے روانہ کیے۔ لیکن کوئی بھی ہاتھ نہ آیا ، بالآخر آپ مدینہ پلٹ آئے اس غزوے میں عُیَینہ بن حصن سے مصالحت بھی ہوئی۔
ان اچانک اور فیصلہ کن اقدامات اور حکیمانہ حزم وتدبر پر مبنی منصوبوں کے ذریعے نبیﷺ نے قلمرو اسلام میں امن وامان بحال کرنے اور صورت حال پر قابو پانے میں کامیابی حاصل کی۔ اور وقت کی رفتار کا رُخ مسلمانوں کے حق میں موڑ لیا۔ اور ان اندرونی اور بیرونی مشکلات ِ پیہم کی شدت کم کی جو ہر جانب سے انہیں گھیرے ہوئے تھیں۔ چنانچہ منافقین خاموش اور مایوس ہو کر بیٹھ گئے۔ یہود کا ایک قبیلہ جلاوطن کردیا گیا۔ دوسرے قبائل نے حق ہمسائیگی اور عہد وپیمان کے ایفاء کا مظاہرہ کیا۔ بدو اور اعراب ڈھیلے پڑگئے اور قریش نے مسلمانوں کے ساتھ ٹکرانے سے گریز کیا۔ اور مسلمانوں کو اسلام پھیلانے اور رب العالمین کے پیغام کی تبلیغ کرنے کے مواقع میسر آئے۔

****​
 
Top