نے غلطی سے قتل کردیا تھا ) ان پر معاہدہ کی رُو سے یہ اعانت واجب تھی۔ انہوں نے کہا : ابو القاسم ! ہم ایسا ہی کریں گے۔ آپﷺ یہاں تشریف رکھئے ہم آپﷺ کی ضرورت پوری کیے دیتے ہیں۔ آپﷺ ان کے ایک گھر کی دیوار سے ٹیک لگا کر بیٹھ گئے۔ اور ان کے وعدے کی تکمیل کا انتظار کرنے لگے۔ آپ ﷺ کے ساتھ حضرت ابو بکرؓ ، حضرت عمرؓ ، حضرت علیؓ اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی ایک جماعت بھی تشریف فرماتھی۔
ادھر یہود تنہائی میں جمع ہوئے تو ان پر شیطان سوار ہوگیا۔ اور جو بدبختیاں ان کا نوشتہ تقدیر بن چکی تھی اسے شیطان نے خوشنما بناکر پیش کیا۔ یعنی ان یہود نے باہم مشورہ کیا کہ کیوں نہ نبیﷺ ہی کو قتل کردیا جائے۔ چنانچہ انہوں نے کہا : کون ہے جو اس چکی کو لے کر اوپر جائے اور آپﷺ کے سر پر گراکر آپﷺ کو کچل دے۔ اس پر ایک بدبخت یہودی عَمرو بن جحاش نے کہا : میں ... ان لوگوں سے سلام بن مشکم نے کہا بھی کہ ایسا نہ کرو۔ کیونکہ اللہ کی قسم! انہیں تمہارے ارادوں کی خبر دے دی جائے گی۔ اور پھر ہمارے اور ان کے درمیان جو عہد وپیمان ہے یہ اس کی خلاف ورزی بھی ہے۔ لیکن انہوں نے ایک نہ سنی اور اپنے منصوبے کو روبہ عمل لانے کے عزم پر برقرار رہے۔
ادھر رب العالمین کی طرف سے رسول اللہﷺ کے پاس حضرت جبریل ؑ تشریف لائے۔ اور آپﷺ کو یہود کے ارادے سے باخبر کیا۔ آپﷺ تیزی سے اُٹھے۔ اور مدینے کے لیے چل پڑے۔ بعد میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم بھی آپﷺ سے آن ملے اور کہنے لگے : آپﷺ اُٹھ آئے اور ہم سمجھ نہ سکے۔ آپﷺ نے بتلایا کہ یہود کا ارادہ کیا تھا۔ مدینہ واپس آکر آپﷺ نے فوراً ہی محمد بن مسلمہ کو بنی نضیر کے پاس روانہ فرمایااور انہیں یہ نوٹس دیا کہ تم لوگ مدینے سے نکل جاؤ۔ اب یہاں میرے ساتھ نہیں رہ سکتے۔ تمہیں دس دن کی مہلت دی جاتی ہے اس کے بعد جو شخص پایا جائے گا اس کی گردن ماردی جائے گی۔ اس نوٹس کے بعد یہود کو جلاوطنی کے سوا کوئی چارہ کا ر سمجھ میں نہیں آیا۔ چنانچہ وہ چند دن تک سفر کی تیاریاں کرتے رہے۔لیکن اسی دوران عبداللہ بن اُبی رئیس المنافقین نے کہلا بھیجا کہ اپنی جگہ برقرار رہو۔ ڈٹ جاؤ۔ اور گھر بار نہ چھوڑو۔ میرے پاس دوہزار مردانِ جنگی ہیں۔ جو تمہارے ساتھ تمہارے قلعے میں داخل ہوکر تمہاری حفاظت میں جان دے دیں گے۔ اور اگر تمہیں نکالا ہی گیا تو ہم بھی تمہارے ساتھ نکل جائیں گے۔ اور تمہارے بارے میں کسی سے ہرگز نہیں دبیں گے۔ اور اگرتم سے جنگ کی گئی تو ہم تمہاری مدد کریں گے۔ اور بنو قریظہ اور غَظْفَان جو تمہارے حلیف ہیں وہ بھی تمہاری مدد کریں گے۔
یہ پیغام سن کر یہود کی خود اعتمادی پلٹ آئی۔ اور انہوں نے طے کرلیا کہ جلاوطن ہونے کے بجائے ٹکر لی جائے گی۔ ان کے سردار حُیی بن اخطب کو توقع تھی کہ راس المنافقین نے جو کچھ کہا ہے وہ پورا کرے گا۔ اس لیے اس نے رسول اللہﷺ کے پاس جوابی پیغام بھیج دیا کہ ہم اپنے دیار سے نہیں نکلتے ، آپ کو جوکرنا ہو کرلیں۔
اس میں شبہ نہیں کہ مسلمانوں کے لحاظ سے یہ صورت حال نازک تھی کیونکہ ان کے لیے اپنی تاریخ کے اس نازک اور پیچیدہ موڑ پر دشمنوں سے ٹکراؤ کچھ زیادہ قابل اطمینان نہ تھا۔ انجام خطرناک ہوسکتا تھا۔آپ دیکھ ہی رہے ہیںکہ سارا عرب مسلمانوں کے خلاف تھا۔ اور مسلمانوں کے دو تبلیغی وفود نہایت بے دردی سے تہ تیغ کیے جاچکے تھے ، پھر بنی نضیر کے یہود اتنے طاقتور تھے کہ ان کا ہتھیار ڈالنا آسان نہ تھا۔ اور ان سے جنگ مول لینے میں طرح طرح کے خدشات تھے۔ مگر بئر معونہ کے المیے سے پہلے اور اس کے بعد حالات نے جونئی کروٹ لی تھی ، اس کی وجہ سے مسلمان قتل اور بد عہدی جیسے جرائم کے سلسلے میں زیادہ حساس ہوگئے تھے ، اوران جرائم کا ارتکاب کرنے والوں کے خلاف مسلمانوں کا جذبہ ٔ انتقام فزوں تر ہوگیا تھا۔ لہٰذا انہوں نے طے کرلیا کہ چونکہ بنو نضیر نے رسول اللہﷺ کے قتل کا پروگرام بنایا تھا ، اس لیے ان سے بہرحال لڑنا ہے۔ خواہ اس کے نتائج جو بھی ہوں۔ چنانچہ جب رسول اللہﷺ کو حیی بن اخطب کا جوابی پیغام ملا تو آپ نے اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے کہا: اللہ اکبر اور پھر لڑائی کے لیے اٹھ کھڑے ہوئے۔ اور حضرت ابن اُمِ مکتوم کو مدینہ کا انتظام سونپ کر بنونضیرکے علاقے کی طرف روانہ ہوگئے۔ حضرت علی بن ابی طالبؓ کے ہاتھ میں عَلَم تھا بنونضیرکے علاقے میں پہنچ کر ان کا محاصر ہ کرلیا گیا۔
ادھر بنونضیر نے اپنے قلعوں اور گڑھیوں میں پناہ لی۔ اور قلعہ بندرہ کر فصیل سے تیر اور پتھر برساتے رہے چونکہ کھجور کے باغات ان کے لیے سپر کاکام دے رہے تھے۔ اس لیے آپﷺ نے حکم دیا کہ ان درختوں کو کاٹ کر جلادیا جائے۔بعد میں اسی کی طرف اشارہ کرکے حضرت حسانؓ نے فرمایا تھا :
وہـان علـی سـراۃ بنـی لـوی
حـریق بـالبویـــرۃ مستطیــر
بنی لوی کے سرداروں کے لیے یہ معمولی بات تھی کہ بَوُیَرْہ میں آگ کے شعلے بلند ہوں (بویرہ ! بنونضیر کے نخلستان کا نام تھا) اور اس کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد بھی نازل ہوا :
مَا قَطَعْتُم مِّن لِّينَةٍ أَوْ تَرَكْتُمُوهَا قَائِمَةً عَلَىٰ أُصُولِهَا فَبِإِذْنِ اللَّـهِ وَلِيُخْزِيَ الْفَاسِقِينَ (۵۹: ۵)
''تم نے کھجور کے جو درخت کاٹے یا جنہیں اپنے تنوں پر کھڑا رہنے دیا وہ سب اللہ ہی کے اذن سے تھا۔ اور ایسا اس لیے کیا گیا تاکہ اللہ ان فاسقوں کورسواکرے ۔''
بہرحال جب ان کا محاصرہ کیا گیا تو بنو قُریظہ ان سے الگ تھلگ رہے۔ عبداللہ بن اُبی نے بھی خیانت کی۔ اور ان کے حلیف غَطفان بھی مدد کو نہ آئے۔ غرض کوئی بھی انہیں مدد دینے یا ان کی مصیبت ٹالنے پر آمادہ نہ ہوا۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے ان کے واقعے کی مثال یوں بیان فرمائی :
كَمَثَلِ الشَّيْطَانِ إِذْ قَالَ لِلْإِنسَانِ اكْفُرْ فَلَمَّا كَفَرَ قَالَ إِنِّي بَرِيءٌ مِّنكَ إِنِّي أَخَافُ اللَّـهَ رَبَّ الْعَالَمِينَ (۵۹:۱۶)
''جیسے شیطان انسان سے کہتا ہے کفر کرو اورجب وہ کفر کر بیٹھتا ہے تو شیطان کہتا ہے میں تم سے بری ہوں ۔''
محاصرے نے کچھ زیادہ طول نہیں پکڑا۔ بلکہ صرف چھ رات ...یابقول بعض پندرہ رات ... جاری رہاکہ اس دوران اللہ نے ان کے دلوں میں رعب ڈال دیا۔ ان کے حوصلے ٹوٹ گئے۔ وہ ہتھیار ڈالنے پر آمادہ ہوگئے۔ اور رسول اللہﷺ کو کہلوا بھیجا کہ ہم مدینے سے نکلنے کو تیار ہیں۔ آپ نے ان کی جلاوطنی کی پیش کش منظور فرمائی۔ اور یہ بھی منظور فرمالیا کہ وہ ہتھیار کے علاوہ باقی جتنا سازوسامان اونٹوں پر لادسکتے ہوں سب لے کر بال بچوں سمیت چلے جائیں۔
بنو نضیر نے اس منظوری کے بعد ہتھیار ڈال دیے اور اپنے ہاتھوں اپنے مکانات اجاڑ ڈالے ،تاکہ دروازے اور کھڑکیاں بھی لاد لے جائیں۔ بلکہ بعض بعض نے تو چھت کی کڑیاں اور دیواروں کی کھونٹیاں بھی لاد لیں۔ پھر عورتوں اور بچوں کو سوار کیا۔ اور چھ سو اونٹوں پر لد لداکر روانہ ہوگئے۔ بیشتر یہود اور ان کے اکابر مثلاًحُیی بن اخطب اور سلام بن ابی الحُقَیق نے خیبر کا رُخ کیا۔ ایک جماعت ملک شام روانہ ہوئی صرف دوآدمیوں، یعنی یامین بن عمرو اور ابو سعید بن وہب نے اسلام قبول کیا۔ لہٰذا ان کے مال کو ہاتھ نہیں لگایاگیا۔
رسول اللہﷺ نے شرط کے مطابق بنونضیر کے ہتھیار ، زمین ، گھر اور باغات اپنے قبضے میں لے لیے ، ہتھیار میں پچاس زِرہیں ، پچاس خُود اور تین سو چالیس تلواریں تھیں۔
بنونضیر کے یہ باغات ، زمین اور مکانات خالص رسول اللہﷺ کا حق تھا۔ آپ کو اختیار تھا کہ آپ اسے اپنے لیے محفوظ رکھیں یا جسے چاہیں دیں۔ چنانچہ آپ نے (مالِ غنیمت کی طرح ) ان اموال کا خُمس (پانچواں حصہ ) نہیں نکالا۔ کیونکہ اسے اللہ نے آپ کو بطور فَیْ دیا تھا۔ مسلمانوں نے اس پر گھوڑے اور اونٹ دوڑاکر اسے (بزور شمشیر ) فتح نہیں کیا تھا۔ لہٰذا آپ نے اپنے اس اختیار خصوصی کے تحت اس پورے مال کو صرف مہاجرین اولین پر تقسیم فرمایا۔ البتہ دو انصاری صحابہ، یعنی ابودجانہ اور سہل بن حُنیف رضی اللہ عنہما کو ان کے فقر کے سبب اس میں سے کچھ عطافرمایا۔ اس کے علاوہ آپ نے (ایک چھوٹا سا ٹکڑا اپنے لیے محفوظ رکھا جس میں سے آپ )اپنی ازواج مطہرات کا سال بھر کا خرچ نکالتے تھے۔ اور اس کے بعد جو کچھ بچتا تھا اسے جہاد کی تیاری کے لیے ہتھیار اور گھوڑوں کی فراہمی میں صرف فرمادیتے تھے۔
غزوہ بنی نضیر ربیع الاول۴ھ ،اگست ۶۲۵ ء میں پیش آیا۔ اور اللہ تعالیٰ نے اس تعلق سے پوری سورۂ حشر نازل فرمائی۔ جس میں یہودکی جلاوطنی کا نقشہ کھینچتے ہوئے منافقین کے طرزِ عمل کا پردہ فاش کیا گیا ہے۔ اور مال ِ فَیْ کے احکام بیان فرماتے ہوئے مہاجرین وانصار کی مدح وستائش کی گئی ہے اور یہ بھی بتایا گیا ہے کہ جنگی مصالح کے پیش نظر دشمن کے درخت کاٹے جاسکتے ہیں۔ اور ان میں آگ لگائی جاسکتی ہے۔ ایسا کرنا فساد فی الارض نہیں ہے۔ پھر اہلِ ایمان کو تقویٰ کے التزام اور آخرت کی تیاری کی تاکید کی گئی ہے۔ ان سب کے بعد اللہ تعالیٰ نے اپنی حمد وثنا فرماتے ہوئے اور اپنے اسماء وصفات کوبیان کرتے ہوئے سورۃ ختم فرمادی ہے۔
ابن عباسؓ اس سورۂ (حشر) کے بارے میں فرمایا کرتے تھے کہ اسے سورہ ٔ بنی النضیر کہو۔1
یہ اس غزوہ کے بارے میں ابن اسحاق اور عام اہلِ سیر کے بیان کا خلاصہ ہے ، امام ابوداؤد اور امام عبد الرزاق وغیرہ نے اس غزوے کی ایک دوسری وجہ روایت کی ہے۔ اور وہ یہ ہے کہ جب غزوۂ بدر پیش آیا تو اس غزوۂ بدر کے بعد قریش نے یہود کو لکھا کہ تم لوگوں کے پاس زِرہیں اور قلعے ہیں۔ لہٰذا تم لوگ ہمارے صاحب (محمدﷺ ) سے لڑائی کرو، ورنہ ہم تمہارے ساتھ ایسا اور ایسا کریں گے۔ اور ہمارے اور تمہاری عورتوں کے پازیب کے درمیان کوئی چیز رکاوٹ نہ بن سکے گی۔ جب یہود کو یہ خط ملا تو بنونضیر نے غدر کا فیصلہ کرلیا۔ چنانچہ نبیﷺ کو کہلا بھیجا کہ آپ اپنے ساتھیوں میں سے تیس آدمی لے کر ہماری جانب تشریف لائیں۔ اور ہماری طرف سے بھی تیس عالم نکلیں۔ فلاں جگہ جو ہمارے اور آپ کے بیچوں بیچ ہے ملاقات ہو۔ اور وہ آپ کی بات سنیں۔ اس کے بعد اگر وہ آپ کو سچا مان لیں ، اور آپ پر ایمان لے آئیں تو ہم سب آپ پر ایمان لے آئیں گے۔
اس تجویز کے مطابق نبیﷺ تیس صحابہ کے ہمراہ تشریف لے گئے۔ اور یہود کے بھی تیس عالم آئے۔ ایک کھلی جگہ پہنچ کر بعض یہود نے بعض سے کہا : دیکھو ان کے ساتھ تیس آدمی ہوں گے۔ جن میں سے ہر ایک ان سے پہلے مرنا پسند کرے گا۔ ایسی صورت میں تم ان تک کیسے پہنچ سکتے ہو ؟ اس کے بعد انہوں نے کہلا بھیجا کہ ہم ساٹھ آدمی ہوں گے تو آپ کیسے سمجھائیں گے اور ہم کیسے سمجھیں گے ؟ بہتر ہے کہ آپ اپنے تین ساتھیوں کے ہمراہ آئیں اور ہمارے بھی تین عالم آپ کے پاس جائیں اور وہ آپ کی بات سنیں ، اگر وہ ایمان لائیں گے تو ہم سب ایمان لائیں گے۔ اور آپ کی تصدیق کریں گے۔ چنانچہ رسول اللہﷺ اپنے تین صحابہ کے ہمراہ تشریف لے گئے۔ ادھر یہود نبیﷺ کے قتل کے ارادے سے خنجر چھپا کر آئے ، لیکن بنو نضیر کی ایک خیر خواہ عورت نے اپنے بھتیجے کے پاس - جو ایک انصاری مسلمان تھا - رسول اللہﷺ کے ساتھ بنونضیر کے غدر کے ارادے کی خبر کہلا بھیجی۔ وہ تیز رفتاری سے آیا۔ اور نبیﷺ کو ان تک پہنچنے سے پہلے ہی پالیا۔ اور سرگوشی کے ساتھ ان کی خبر بتائی۔ آپﷺ وہیں سے واپس آگئے۔ اور دوسرے دن صحابۂ کرام کے دستے لے کر تشریف لے گئے اور ان کا محاصرہ کرلیا۔ اور فرمایا کہ تم لوگ جب تک مجھے عہدوپیمان نہ دے دو قابل اطمینان نہیں۔ انہوں نے کسی قسم کا عہد دینے سے انکار کردیا۔ اس پر آپ نے اور مسلمانوں نے اس دن ان سے لڑائی کی۔ دوسرے دن گھوڑے اور دستے لے کر آپ بنو قریظہ کے پاس تشریف لے گئے۔ اور بنونضیر کو ان کے حال پر چھوڑدیا۔ بنو قریظہ کو بھی عہد وپیمان کرنے کی دعوت دی۔ انہو ں نے معاہدہ کرلیا ، لہٰذا ا ٓپﷺ ان سے پلٹ آئے۔ اور دوسرے دن دستوں کے ساتھ پھر بنو نضیر کا رُخ کیا۔ اور ان سے جنگ کی۔ بالآخر انہوں نے اس شرط پر جلاوطنی منظور کرلی کہ ہتھیار وں کے سوا جو کچھ اونٹوں پر بار کیا جاسکتاہے اسے ہم لے جانے کے مجاز ہوں گے۔ چنانچہ بنونضیر آئے اور اپنے سازو سامان ،
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1 ابن ہشام ۲/۱۹۰ ،۱۹۱ ، ۱۹۲ ، زاد المعاد ۲/۷۱، ۱۱۰ ، صحیح بخاری ۲/۵۷۴،۵۷۵