محمدسمیرخان
مبتدی
- شمولیت
- فروری 07، 2013
- پیغامات
- 453
- ری ایکشن اسکور
- 924
- پوائنٹ
- 26
طاغوت کیا ہے؟
فرمان باری تعالیٰ ہے :
وَلَقَدْ بَعَثْنَا فِیْ کُلِّ أُمَّۃٍ رَّسُولًا أَنِ اعْبُدُ وا اﷲَ وَاجْتَنِبُوا الطَّاغُوت
اور بے شک ہم نے ہر امت میں رسول بھیجے کہ اﷲکی عبادت کرو اور طاغوت سے بچو ۔ (النحل: ۳۶)
اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں پر طاغوت کا کفر اور انکار اور اللہ پر ایمان لانا فرض قرار دیا ہے۔
طاغوت کیا ہے ؟
امام مالک()فرماتے ہیں:
﴿۱﴾ ابلیس لعین۔
﴿۲﴾ ایسا شخص جس کی عبادت کی جائے اور وہ اس فعل پر رضامند ہو۔
﴿۳﴾ جو شخص لوگوں کو اپنی عبادت کرنے کی دعوت دیتا ہواگرچہ اس کی عبادت نہ بھی ہوتی ہو
﴿۴﴾ جو شخص علم غیب جاننے کا دعویٰ کرتا ہو۔
﴿۵﴾ جو شخص اﷲکی نازل کی ہوئی شریعت کے خلاف فیصلہ کرے ۔
اﷲتعالیٰ کے مقابلے میں ایک بندے کے تین درجے ہیں ۔
پہلادرجہ یہ ہے: کہ بندہ اﷲتعالیٰ کی اطاعت ہی کو حق سمجھے مگر اس کے احکام کی خلاف ورزی کرے تو یہ فسق اور وہ گناہ گار ہوگا ۔
دوسرا درجہ یہ ہے :کہ وہ اﷲکی فرمانبرداری سے منحرف ہوکر یا تو خود مختار بن جائے یا کسی اور کی بندگی کرنے لگے ۔یہ شرک وکفر ہے ۔
تیسرا درجہ یہ ہے: کہ وہ اﷲسے بغاوت کرے اور اس کی مخلوق پر خود اپنا حکم چلائے ۔ جو شخص اس مرتبے پر پہنچ جائے وہ طاغوت ہے ۔
اور کوئی شخص اس وقت تک مومن نہیں ہوسکتا جب تک وہ طاغوت کا منکر نہ ہو۔اﷲتعالیٰ کا فرمان ہے :
فَمَنْ يَكْفُرْ بِالطَّاغُوتِ وَيُؤْمِنْ بِاللہِ فَقَدِ اسْتَمْسَكَ بِالْعُرْوَةِ الْوُثْقَى لا انْفِصَامَ (البقرۃ : 256)
’’پس جو کوئی طاغوت کا انکار کرے اور اﷲپر ایمان لے آئے اس نے ایسا مضبوط سہارا تھام لیا جو کبھی ٹوٹنے والا نہیں‘‘
شیطان سب سے بڑا طاغوت ہے ۔جو غیر اﷲکی عبادت کی طرف بلاتا ہے ۔
أَلَمْ أَعْهَدْ إِلَيْكُمْ يَا بَنِي آدَمَ أَنْ لا تَعْبُدُوا الشَّيْطَانَ إِنَّهُ لَكُمْ عَدُوٌّ مُبِينٌ (60:یٰس)
’’اے اولاد آدم‘کیا میں نے تم سے عہد نہیں لیاتھا کہ شیطان کی عبادت نہ کرنا ‘وہ تو تمہارا کھلا دشمن ہے ‘‘
وہ جابر اور ظالم حکمران جو فیصلے کے لیے کتاب وسنت کا پابند نہ ہو بلکہ انسانوں پر انسانوں کے بنائے ہوئے قوانین نافذ کرے وہ یقینا طاغوت ہے۔ایسے حکمران کے بارے میں اﷲتعالیٰ نے فرمایا :
وَمَنْ لَمْ يَحْكُمْ بِمَا أَنْزَلَ اللہُ فَأُولَئِكَ هُمُ الْكَافِرُونَ(المائدۃ : 44)
’’اور جو اﷲکے نازل کئے ہوئے احکام کے مطابق فیصلہ نہ کرے تو ایسے لوگ ہی کافر ہیں ‘‘۔
شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ()فرماتے ہیں:
’’جب کچھ دین اللہ کا اور کچھ غیر اللہ کا چل رہا ہو تو ایسا کرنے والوں کے ساتھ قتال کرنا واجب ہے جب تک کہ صرف اللہ کا دین نافذ نہ ہو جائے ‘‘(مجموع الفتاوی 28/ 469 )
دوسرے مقام پر اﷲتعالیٰ نے ان لوگوں کے ایمان کی نفی کی ہے جو اپنے فیصلے طاغوت کی عدالتوں میں لے جاتے ہیں :
أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ يَزْعُمُونَ أَنَّهُمْ آمَنُوا بِمَا أُنْزِلَ إِلَيْكَ وَمَا أُنْزِلَ مِنْ قَبْلِكَ يُرِيدُونَ أَنْ يَتَحَاكَمُوا إِلَى الطَّاغُوتِ وَقَدْ أُمِرُوا أَنْ يَكْفُرُوا بِهِ وَيُرِيدُ الشَّيْطَانُ أَنْ يُضِلَّهُمْ ضَلالا بَعِيدًا(النساء :60)
’’کیا تم نے اُن لوگوں کو نہیں دیکھا جو دعویٰ تو یہ کرتے ہیں کہ جو کچھ آپ پر اور آپ سے پہلے نازل ہوا ہے اُس پر ایمان رکھتے ہیں مگر چاہتے یہ ہیں کہ (پنا مقدمہ ) طاغوت کے پاس لے جاکر فیصلہ کرائیں حالانکہ ان کو اس سے کفر کرنے کا حکم دیاگیا ہے اور شیطان ان کو دور کی گمراہی میں ڈالنا چاہتا ہے ‘‘
سید ابوالاعلیٰ مودودی اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں :
یہاں صریح طور پر طاغوت سے مراد وہ حکام ہیں جو قانونِ الٰہی کے سوا کسی دوسرے قانون کے مطابق فیصلہ کرتے ہیں ۔اور وہ نظام عدالت ہے جو نہ اﷲکے اقتدار اعلیٰ کا مطیع ہو اور نہ کتاب اﷲکو آخری سند مانتاہو ۔لہٰذا یہ آیت اس معنی میں بالکل صاف ہے کہ جو عدالت طاغوت کی حیثیت رکھتی ہو اُس کے پاس اپنے معاملات کا فیصلہ کرانے جانا ایمان کے منافی ہے اور اﷲاور اُس کی کتاب پر ایمان کا لازمی تقاضہ ہے کہ آدمی ایسی عدالت کو جائز عدالت تسلیم کرنے سے انکار کردے ۔قرآن کی رُو سے اﷲپر ایمان اور طاغوت سے کفر دونوں لازم وملزوم ہیں اور اﷲاور طاغوت دونوں کے آگے جھکنا عین منافقت(بلکہ کفر )ہے۔(تفہیم القرآن :ص:367)
شیخ الاسلام محمد بن عبدالوہاب()اس آیت کے ضمن میں فرماتے ہیں:
اللہ تعالیٰ کا فرمانِ ہے:
﴿ لَا یُشْرِکْ فِیْ حُکْمِہٰٓ اَحَدًا﴾(سورۃالکہف آیت: 26)
’’اللہ تعالیٰ اپنے حکم میں کسی کو شریک نہیں کرتا۔‘‘
علامہ شنقیطی () فرماتے ہیں:
وَلَقَدْ بَعَثْنَا فِیْ کُلِّ أُمَّۃٍ رَّسُولًا أَنِ اعْبُدُ وا اﷲَ وَاجْتَنِبُوا الطَّاغُوتَ
اور بے شک ہم نے ہر امت میں رسول بھیجے کہ اﷲکی عبادت کرو اور طاغوت سے بچو ۔ (النحل:36)
جو شخص اﷲسبحانہُ وتعالیٰ کے سامنے سرِ اطاعت جھکادے )یعنی سرِ تسلیم خم کردے ( اور اس کی وحی سے اپنے مقدمات کا فیصلہ کرائے تو وہ اﷲتعالیٰ کا عبادت گزار ہے ۔اور جو شخص غیر اﷲ کے سامنے سرِ اطاعت جھکائے اور غیر شریعت (غیر اﷲکے قانون )سے فیصلہ کرائے تو اس نے بتوں کی عبادت کی اور ان کی اطاعت وبندگی اختیار کی ۔ (مقالات وفتاویٰ شیخ ابن باز() صفحہ :109)
شیخ محمد الصالح العثیمین ()کہتے ہیں :
أَفَحُكْمَ الْجَاهِلِيَّةِ يَبْغُونَ وَمَنْ أَحْسَنُ مِنَ اللہِ حُكْمًا لِقَوْمٍ يُوقِنُونَ
’’(اگر یہ اﷲکے قانون سے منہ موڑتے ہیں)تو کیا پھر یہ جہالت کے حکم اور فیصلے کے خواہش مند ہیں ؟اور جو لوگ یقین رکھتے ہیں ان کے نزدیک اﷲتعالیٰ سے بہتر فیصلہ کرنے والا کون ہے۔!!(المائدۃ:50)
حافظ ابن کثیر() اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں:
اِسی طرح تمام انبیاء کی زندگیاں وقت کے طاغوتوں کے خدائی دعووں اور اِن طاغوتوں کے رائج نظاموں کے خلاف آواز اُٹھانے اور اﷲکے قانون ‘اﷲکے نظام کو نافذ کرنے میں گزریں ۔جیسا کہ اﷲتعالیٰ نے موسیٰ کو فرعون کی طرف بھیجتے ہوئے فرمایا :
اِذْھَبْ اِلٰی فِرْعَونَ اِ نَّہُ طَغٰی وَ قُلْ ھَلْ لَکَ اِلٰیٓ اَنْ تَزَکّٰی
’’فرعون کے پاس جاؤ وہ سرکش ہوگیا ہے اور اس سے کہو کہ کیا تو پاکیزگی اختیار کرنے پر تیار ہے؟ ۔ (النازعات :18-17)
وہ اپنے آپ کو ربّ کہتا اور کہلواتا تھا )یعنی وہ طاغوت بن گیا تھا (اور اپنے طاغوتی نظام پر لوگوں کو زبردستی چلواتا تھا ۔لیکن موسیٰ نے اس کے رب ہونے کا انکار کیا اور کروایا اور اس کے طاغوتی نظام کو ختم کرکے اﷲکا نظام لوگوں پر نافذ کیا ۔یہی ہمیشہ انبیاء کا مقصد ومنہج رہا ہے کہ طاغوت سے کفر کریں اور طاغوتی نظاموں کو ختم کرکے ایک اﷲکا قانون ونظام اُس کے بندوں پر نافذ کریں ۔
مگر آج کے نام نہاد اسلامی ممالک میں رائج جمہوری نظام سلطنت میں اسمبلی کے ممبران کو شریعت کے احکامات کے نفاذ یا عدم نفاذ پر بحث وفیصلے کا اختیار ہوتا ہے ۔ایسی گستاخی اور جسارت تو فرعون جیسے طاغوت نے بھی نہ کی تھی کہ شریعت کو اﷲکی طرف سے تسلیم کرکے بھی اس پر بحث کرتا کہ اِس کو انسانوں پر نافذ کروں یا نہ کروں ۔آسمان سے نازل شدہ شریعت کو منظور نہیں کیا جاتا بلکہ اس کے سامنے سرِ تسلیم خم کیا جاتا ہے ۔بلکہ اسلام میں داخل ہی اُس وقت ہوا جاتا ہے جب اﷲاور ر سول ا کے ہر حُکم کے سامنے پارلیمنٹ سمیت تمام مخلوقات کے ہر قسم کے اختیار کی واضح ترین نفی کردی جائے ۔
شیخ عبداللہ عزام() فرماتے ہیں:
جس نے بھی اللہ کی شریعت سے اپنے فیصلے کرانا چھوڑ دیا، یا کسی بھی قانون کو اللہ کی شریعت پر ترجیح دیدی یا اللہ کی شریعت کے ساتھ انسانوں کے بنائے ہوئے قوانین کو ملا دیا، برابر کر دیا تو وہ شخص دائرہ اسلام سے خارج ہوگیا اس نے دین کا طوق اپنے گلے سے اتار دیا اور اپنے لئے یہ راستہ چن لیا کہ وہ کافر ہوکر اسلام سے خارج ہوجائے۔(العقیدہ وٲثرھا فی بناء الجیل للشیخ عبداﷲعزام()ص 11 6)
یہ معلوم ہوجانا ضروری ہے کہ ایک غیر شرعی نظام کے حوالے سے چار قسم کے افراد کُفر میں مبتلا ہوتے ہیں -
﴿۱﴾ وہ ،جو غیر شرعی قانون بنائے یا بنانے کا اختیا ررکھے ۔جیسے اراکین اسمبلی وغیرہ ۔
﴿۲﴾ وہ، جو غیر شرعی قانون سے فیصلہ کرے ،جیسے مجسٹریٹ ،جج وغیرہ۔
﴿۳﴾ وہ جو غیر شرعی قانون کو بزور نافذ کرے ،جیسے پولیس ،فوج وغیرہ ۔
﴿۴﴾ وہ جو غیر شرعی عدالت سے فیصلہ کرائے ،یا اُس کے افعال پر راضی ہو۔
پہلی دو اقسام ہی طاغوت ہیں ۔
جبکہ دوسری دو اقسام طاغوت کے ساتھیوں اور پُجاریو ں کے زمرے میں آتی ہیں۔
علامہ ابن حجر () فرماتے ہیں:
کنعان صاحب حیرت کی بات ہے کہ آپ کہہ رہے ہیں کہ :السلام علیکم
آپ پھر جواب نہیں دے پائے ایک مرتبہ پھر اسے کم کر دیتا ہوں۔
طاغوت قوت آپ کس کو کہتے ہیں اور اس پر کیا آؤٹ پٹ ھے اس پر بتائیں مجھے تو اس پر کچھ بھی نظر نہیں آ رہا آپکے اس قول کے مطابق۔
والسلام
اگر آپ کو اس بارے میں معلومات نہیں ہے۔تو ان شاء اللہ میں آپ کو طاغوت کا مفہوم سمجھانے کی کوشش کرتا ہوں۔طاغوت قوت آپ کس کو کہتے ہیں اور اس پر کیا آؤٹ پٹ ھے اس پر بتائیں مجھے تو اس پر کچھ بھی نظر نہیں آ رہا آپکے اس قول کے مطابق۔
فرمان باری تعالیٰ ہے :
وَلَقَدْ بَعَثْنَا فِیْ کُلِّ أُمَّۃٍ رَّسُولًا أَنِ اعْبُدُ وا اﷲَ وَاجْتَنِبُوا الطَّاغُوت
اور بے شک ہم نے ہر امت میں رسول بھیجے کہ اﷲکی عبادت کرو اور طاغوت سے بچو ۔ (النحل: ۳۶)
اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں پر طاغوت کا کفر اور انکار اور اللہ پر ایمان لانا فرض قرار دیا ہے۔
طاغوت کیا ہے ؟
طاغوت خدائی کے جھوٹے دعویدار کو کہتے ہیں ۔انبیاء اور اولیاء اﷲتعالیٰ کی عبادت کی طرف بلاتے تھے اور وہ غیر اﷲکی عبادت کرنے والوں کے سب سے بڑے دشمن تھے اس لئے وہ طاغوت نہیں ہیں چاہے لوگ ان کی بندگی کریں ۔طاغوت ہر وہ چیز ہے ۔جس کی ا ﷲکے سوا عبادت کی جائے اور وہ اپنی عبادت کیے جانے یا کروائے جانے پر راضی ہو۔
امام مالک()فرماتے ہیں:
امام ابن قیم ()’’طاغوت‘‘کی تعریف یوں بیان کرتے ہیں:’’ہر وہ چیز جس کی اﷲتعالیٰ کی سوا عبادت کی جائے ’’طاغوت‘‘ کہلاتی ہے ۔‘‘ (ھدایۃ المستفید:1222)
شیخ الاسلام محمد بن عبدالوہاب()فرماتے ہیں:’’ہر وہ ہستی یا شخصیت طاغوت ہے جس کی وجہ سے بندہ اپنی حدِ بندگی سے تجاوز کرجاتا ہے چاہے وہ معبود ہو،یا پیشوا ،یا واجب اطاعت ،چنانچہ ہر قوم کا طاغوت وہ شخص ہوتا ہے جس سے وہ اﷲاور رسول ﷺکو چھوڑ کر فیصلہ کراتے ہوں ،یااﷲکو چھوڑ کے اس کی عبادت کرتے ہوں ،یا الٰہی بصیرت کے بغیر اس کے پیچھے چلتے ہوں ،یا ایسے امور میں اس کی اطاعت کرتے ہوں جن کے بارے میں انہیں علم ہے کہ یہ اﷲکی اطاعت نہیں۔‘‘(ھدایۃ المستفید:1219 )
’’طاغوت تو بے شمار ہیں مگر ان کے سَرکردہ وسَربَر آوردہ پانچ ہیں:‘‘’’ہر وہ شخص جسکی اﷲکے علاوہ عبادت کی جاتی ہو،اوروہ اپنی اس عبادت پر راضی ہو ،چاہے وہ معبود بن کے ہو ،پیشوا بن کے ،یا اﷲاور اس کے رسول کی اطاعت سے بے نیاز ،واجب اطاعت بن کے ہو ‘طاغوت ہوتا ہے ‘‘(الجامع الفرید:265)
﴿۱﴾ ابلیس لعین۔
﴿۲﴾ ایسا شخص جس کی عبادت کی جائے اور وہ اس فعل پر رضامند ہو۔
﴿۳﴾ جو شخص لوگوں کو اپنی عبادت کرنے کی دعوت دیتا ہواگرچہ اس کی عبادت نہ بھی ہوتی ہو
﴿۴﴾ جو شخص علم غیب جاننے کا دعویٰ کرتا ہو۔
﴿۵﴾ جو شخص اﷲکی نازل کی ہوئی شریعت کے خلاف فیصلہ کرے ۔
اﷲتعالیٰ کے مقابلے میں ایک بندے کے تین درجے ہیں ۔
پہلادرجہ یہ ہے: کہ بندہ اﷲتعالیٰ کی اطاعت ہی کو حق سمجھے مگر اس کے احکام کی خلاف ورزی کرے تو یہ فسق اور وہ گناہ گار ہوگا ۔
دوسرا درجہ یہ ہے :کہ وہ اﷲکی فرمانبرداری سے منحرف ہوکر یا تو خود مختار بن جائے یا کسی اور کی بندگی کرنے لگے ۔یہ شرک وکفر ہے ۔
تیسرا درجہ یہ ہے: کہ وہ اﷲسے بغاوت کرے اور اس کی مخلوق پر خود اپنا حکم چلائے ۔ جو شخص اس مرتبے پر پہنچ جائے وہ طاغوت ہے ۔
اور کوئی شخص اس وقت تک مومن نہیں ہوسکتا جب تک وہ طاغوت کا منکر نہ ہو۔اﷲتعالیٰ کا فرمان ہے :
فَمَنْ يَكْفُرْ بِالطَّاغُوتِ وَيُؤْمِنْ بِاللہِ فَقَدِ اسْتَمْسَكَ بِالْعُرْوَةِ الْوُثْقَى لا انْفِصَامَ (البقرۃ : 256)
’’پس جو کوئی طاغوت کا انکار کرے اور اﷲپر ایمان لے آئے اس نے ایسا مضبوط سہارا تھام لیا جو کبھی ٹوٹنے والا نہیں‘‘
شیطان سب سے بڑا طاغوت ہے ۔جو غیر اﷲکی عبادت کی طرف بلاتا ہے ۔
أَلَمْ أَعْهَدْ إِلَيْكُمْ يَا بَنِي آدَمَ أَنْ لا تَعْبُدُوا الشَّيْطَانَ إِنَّهُ لَكُمْ عَدُوٌّ مُبِينٌ (60:یٰس)
’’اے اولاد آدم‘کیا میں نے تم سے عہد نہیں لیاتھا کہ شیطان کی عبادت نہ کرنا ‘وہ تو تمہارا کھلا دشمن ہے ‘‘
وہ جابر اور ظالم حکمران جو فیصلے کے لیے کتاب وسنت کا پابند نہ ہو بلکہ انسانوں پر انسانوں کے بنائے ہوئے قوانین نافذ کرے وہ یقینا طاغوت ہے۔ایسے حکمران کے بارے میں اﷲتعالیٰ نے فرمایا :
وَمَنْ لَمْ يَحْكُمْ بِمَا أَنْزَلَ اللہُ فَأُولَئِكَ هُمُ الْكَافِرُونَ(المائدۃ : 44)
’’اور جو اﷲکے نازل کئے ہوئے احکام کے مطابق فیصلہ نہ کرے تو ایسے لوگ ہی کافر ہیں ‘‘۔
شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ()فرماتے ہیں:
’’جب کچھ دین اللہ کا اور کچھ غیر اللہ کا چل رہا ہو تو ایسا کرنے والوں کے ساتھ قتال کرنا واجب ہے جب تک کہ صرف اللہ کا دین نافذ نہ ہو جائے ‘‘(مجموع الفتاوی 28/ 469 )
دوسرے مقام پر اﷲتعالیٰ نے ان لوگوں کے ایمان کی نفی کی ہے جو اپنے فیصلے طاغوت کی عدالتوں میں لے جاتے ہیں :
أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ يَزْعُمُونَ أَنَّهُمْ آمَنُوا بِمَا أُنْزِلَ إِلَيْكَ وَمَا أُنْزِلَ مِنْ قَبْلِكَ يُرِيدُونَ أَنْ يَتَحَاكَمُوا إِلَى الطَّاغُوتِ وَقَدْ أُمِرُوا أَنْ يَكْفُرُوا بِهِ وَيُرِيدُ الشَّيْطَانُ أَنْ يُضِلَّهُمْ ضَلالا بَعِيدًا(النساء :60)
’’کیا تم نے اُن لوگوں کو نہیں دیکھا جو دعویٰ تو یہ کرتے ہیں کہ جو کچھ آپ پر اور آپ سے پہلے نازل ہوا ہے اُس پر ایمان رکھتے ہیں مگر چاہتے یہ ہیں کہ (پنا مقدمہ ) طاغوت کے پاس لے جاکر فیصلہ کرائیں حالانکہ ان کو اس سے کفر کرنے کا حکم دیاگیا ہے اور شیطان ان کو دور کی گمراہی میں ڈالنا چاہتا ہے ‘‘
سید ابوالاعلیٰ مودودی اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں :
یہاں صریح طور پر طاغوت سے مراد وہ حکام ہیں جو قانونِ الٰہی کے سوا کسی دوسرے قانون کے مطابق فیصلہ کرتے ہیں ۔اور وہ نظام عدالت ہے جو نہ اﷲکے اقتدار اعلیٰ کا مطیع ہو اور نہ کتاب اﷲکو آخری سند مانتاہو ۔لہٰذا یہ آیت اس معنی میں بالکل صاف ہے کہ جو عدالت طاغوت کی حیثیت رکھتی ہو اُس کے پاس اپنے معاملات کا فیصلہ کرانے جانا ایمان کے منافی ہے اور اﷲاور اُس کی کتاب پر ایمان کا لازمی تقاضہ ہے کہ آدمی ایسی عدالت کو جائز عدالت تسلیم کرنے سے انکار کردے ۔قرآن کی رُو سے اﷲپر ایمان اور طاغوت سے کفر دونوں لازم وملزوم ہیں اور اﷲاور طاغوت دونوں کے آگے جھکنا عین منافقت(بلکہ کفر )ہے۔(تفہیم القرآن :ص:367)
شیخ الاسلام محمد بن عبدالوہاب()اس آیت کے ضمن میں فرماتے ہیں:
شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ () فرماتے ہیں:’’پس جو شخص اﷲتعالیٰ اور رسول اﷲﷺکی مخالفت اس طرح کرتا ہے کہ وہ کتاب وسنت کے علاوہ کسی اور جگہ سے فیصلہ کراتا ہے یا اپنی خواہشات کی تکمیل میں مگن ہے تو گویا اس نے عملاً ایمان اور اسلام کی رسی کو گردن سے اتار پھینکا ۔اس کے بعد خواہ وہ کتنا ہی ایمان کا دعویٰ کرے بے کار ہے ،کیونکہ اﷲتعالیٰ نے ایسے لوگوں کو جھوٹا قرار دیا ہے ۔حقیقت یہ ہے کہ ’’طاغوت کا انکار کرنا ‘‘تو حید کا سب سے بڑا رکن ہے ۔جب تک کسی شخص میں یہ رُکن نہ ہوگا وہ موحد نہیں کہلاسکتا ‘‘۔ (ھدایۃ المستفید:1223)
آج کے دور کا سب سے بڑا طاغوت ،انسان کے انسان پر اُ س کے بنائے ہوئے قوانین کی حکمرانی کی شکل میں تمام عالم پر چھایا ہوا ہے ۔جس سے اﷲتعالیٰ نے اپنے مومن بندوں کو کفر کرنے کا حکم دیا ہے ۔کیونکہ جس طرح خالق ،اﷲوحدہ، لاشریک ہے اسی طرح آمر (حکم دینے اور قوانین مقرر کرنے والی ذات)بھی صرف وہی ہے اور اُس کے امر (حکم)کی اطاعت واجب ہے ۔یہ بات سب کو معلوم ہونی چاہیئے کہ ایمان کے لئے زبان سے اقرار لازم ہے، صرف دلی طور پر تصدیق کافی نہیں ہے۔ اقرار دل کی تصدیق کے تحت ہے اور دل کا عمل اطاعت اور جھکاؤ ہے رسول اللہ ﷺ کی طرف اور رسول اللہﷺکی لائی ہوئی شریعت کی تصدیق کرنا ہے اور جو بھی آپ ﷺنے حکم دیئے ہیں ان کو ماننا جس طرح کہ اللہ کے اقرار کا معنی ہے: اس کی ذات کا اعتراف اور اس کی عبادت کرنا۔ کفر کا مطلب ہے اللہ اور اس کے رسول ﷺکو نہ ماننا چاہے وہ جھٹلا رہا ہو یا تکبر کی وجہ سے یا انکار اور اعراض کی وجہ سے ہو، یہ کفر ہے۔ جس کے دل میں تصدیق اور اللہ اور اس کے رسول ا کی طرف جھکاؤ و اطاعت نہ ہو وہ کافر ہے‘‘۔(مجموع الفتاوی 7 /639- 638 )
اللہ تعالیٰ کا فرمانِ ہے:
﴿ لَا یُشْرِکْ فِیْ حُکْمِہٰٓ اَحَدًا﴾(سورۃالکہف آیت: 26)
’’اللہ تعالیٰ اپنے حکم میں کسی کو شریک نہیں کرتا۔‘‘
علامہ شنقیطی () فرماتے ہیں:
شیخ عبدالعزیز بن باز() فرماتے ہیں کہ:’’اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ کوئی بھی شخص اللہ کے حکم میں کسی بھی قسم کے احکام کی آمیزش نہ کرے، حکم صرف اور صرف اللہ ہی کا تسلیم کرے۔ آیت سے ثابت ہوتا ہے کہ جو بھی حکم، جو فیصلہ اللہ نے کر دیا ہے اسے بغیر کسی ملاوٹ کے تسلیم کرنا ہے۔ اللہ کے فیصلوں میں سب سے پہلا فیصلہ ہے اس کے بنائے اور نازل کئے ہوئے قوانین۔ جو لوگ انسانوں کے بنائے ہوئے قوانین کی اتباع کرتے ہیں، جو دراصل شیطانی قوانین ہیں جو اس نے اپنے متبعین کے ذریعہ بنوائے ہیں یہ سراسر اللہ کی شریعت کے مخالف ہیں ان کی تابعداری کرنے والے بلا شک و شبہ کافر ہیں، اللہ نے ان کی بصارت و بصیرت چھین لی ہے۔ یہ لوگ وحی الٰہی کے نور سے مکمل طور پر محروم ہیں۔(اضواء البیان ص:4/83-82)
اور قرآن سے اس کی دلیل یہ ہے:’’آدمی کا ایمان صرف اسی صورت میں مکمل ہوسکتا ہے کہ وہ اﷲتعالیٰ پر ایمان لائے ۔چھوٹے بڑے ہر معاملے میں اﷲتعالیٰ کے فیصلے پر راضی ہو۔اور زندگی کے ہر معاملے میں خواہ اس کا تعلق جان سے ہویا مال سے یا عزت وآبرو سے ‘فیصلے کے لئے صرف اﷲتعالیٰ کی شریعت )قانون(کی طرف رجوع کرے ۔ورنہ وہ اﷲکا نہیں غیر اﷲکا پجاری ہوگا ۔
وَلَقَدْ بَعَثْنَا فِیْ کُلِّ أُمَّۃٍ رَّسُولًا أَنِ اعْبُدُ وا اﷲَ وَاجْتَنِبُوا الطَّاغُوتَ
اور بے شک ہم نے ہر امت میں رسول بھیجے کہ اﷲکی عبادت کرو اور طاغوت سے بچو ۔ (النحل:36)
جو شخص اﷲسبحانہُ وتعالیٰ کے سامنے سرِ اطاعت جھکادے )یعنی سرِ تسلیم خم کردے ( اور اس کی وحی سے اپنے مقدمات کا فیصلہ کرائے تو وہ اﷲتعالیٰ کا عبادت گزار ہے ۔اور جو شخص غیر اﷲ کے سامنے سرِ اطاعت جھکائے اور غیر شریعت (غیر اﷲکے قانون )سے فیصلہ کرائے تو اس نے بتوں کی عبادت کی اور ان کی اطاعت وبندگی اختیار کی ۔ (مقالات وفتاویٰ شیخ ابن باز() صفحہ :109)
شیخ محمد الصالح العثیمین ()کہتے ہیں :
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:جس نے اللہ کی شریعت کو حقیر و معمولی سمجھ کر اس کے مطابق حکومت نہیں چلائی یا یہ عقیدہ رکھتا ہو کہ دوسرے نظریات و قوانین اسلام کی بنسبت زیادہ مفید اور موجودہ دور کے موافق ہیں تو ایسا شخص کافر ہے دین اسلام سے خارج ہے ان میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جو خلاف اسلام قوانین بناتے ہیں او رلوگوں کو ان پر عمل کی تاکید کرتے ہیں یہ لوگ شریعت کو چھوڑ کر خود اس لئے قوانین بناتے ہیں کہ ان کا عقیدہ ہے کہ یہ شریعت سے زیادہ مفید اور حالات کے لئے موزوں ہیں یہ ہم اس بنیاد پر کہہ رہے ہیں کہ انسانی فطرت یہ ہے کہ وہ ایک طریقہ چھوڑ کر دوسرا طریقہ تب اپناتا ہے جب وہ اسے پہلے والے سے بہتر نظر آتا ہو یا پہلے والے میں کو نقص یا سقم نظر آیا ہو۔ (المجموع الثمین ص 1/61)
أَفَحُكْمَ الْجَاهِلِيَّةِ يَبْغُونَ وَمَنْ أَحْسَنُ مِنَ اللہِ حُكْمًا لِقَوْمٍ يُوقِنُونَ
’’(اگر یہ اﷲکے قانون سے منہ موڑتے ہیں)تو کیا پھر یہ جہالت کے حکم اور فیصلے کے خواہش مند ہیں ؟اور جو لوگ یقین رکھتے ہیں ان کے نزدیک اﷲتعالیٰ سے بہتر فیصلہ کرنے والا کون ہے۔!!(المائدۃ:50)
حافظ ابن کثیر() اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں:
شیخ حامد الفقی() ابن کثیر() کے اس قول پر تبصرہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں:اللہ تعالیٰ ان لوگوں کی مذمت کر رہا ہے جو اس کے ایسے احکام کو چھوڑ رہے ہیں جن میں ہر قسم کا خیر ہے۔ ہر قسم کے شر سے روکنے والے ہیں، ایسے احکام کو چھوڑ کر لوگوںکی خواہشات، ان کی آراء اور خود ساختہ اصطلاحات کی طرف جاتے ہیں جس طرح دورِ جاہلیت کے لوگ اسی طرح کے جاہلانہ اور گمراہ کن احکامات کو نافذ کرتے تھے جو انہوں نے اپنی خواہشات اور آراء سے بنائے ہوئے ہوتے تھے اور جس طرح کے فیصلے اور احکامات تاتاری کرتے تھے جو انہوں نے اپنے بادشاہ چنگیز خان سے لئے تھے۔ چنگیز خان نے تاتاریوں کے لئے یاسق وضع کیا تھا۔یاسق اس مجموعہ قوانین کا نام ہے جو چنگیز خان نے مختلف مذاہب، یہودیت، نصرانیت اور اسلام وغیرہ سے لے کر مرتب کیا تھا۔ اس میں بہت سے ایسے احکام بھی تھے جو کسی مذہب سے ماخوذ نہیں تھے وہ محض چنگیز خان کی خواہشات اور اس کی صوابدید پر مبنی تھے۔ یہ کتاب بعد میں قابل اتباع قرار پائی اور وہ اس کتاب کو اللہ اور اس کے رسولﷺکے احکامات پر بھی مقدم رکھتے تھے۔ ان میں سے جس جس نے بھی ایسا کیا ہے وہ کافر ہے، واجب القتل ہے جب تک کہ توبہ کر کے اللہ اور اس کے رسولﷺکے احکام کی طرف نہ آئے اور ہر قسم کا چھوٹا بڑا فیصلہ اللہ کی کتاب اور رسول اللہﷺکی سنت کے مطابق نہ کرے‘‘۔)(تفسیر ابنِ کثیر() :صفحہ772)
عظیم محدث اسحاق بن راھویہ () کہتے ہیں:’’ان تاتاریوں کی طرح بلکہ ان سے بھی بدتر وہ لوگ ہیں جو انگریزوں کے قوانین اپناتے ہیں اور اپنے مالی، فوجداری اور عائلی معاملات کے فیصلے ان کے مطابق کرتے ہیں اور ان انگریزی قوانین کو اللہ اور اس کے رسول ا کے احکامات پر مقدم رکھتے ہیں۔ ایسے لوگ بغیر کسی شک و شبہ کے مرتد اور کافر ہیں جب تک وہ اس روش پر برقرار ہیں اور اللہ کے حکم کی طرف رجوع نہیں کرتے۔ وہ اپنا نام کچھ بھی کیوں نہ رکھ لیں، انہیں اس سے کوئی فائدہ نہیں ہو گا اور وہ اسلام کے ظاہری اعمال میں سے جتنے چاہیں عمل کر لیں، وہ سب کے سب بیکار ہیں جیسے نماز، روزہ اور حج و عمرہ وغیرہ‘‘۔(فتح المجیدص 838)
شیخ الاسلام ابن تیمیہ() نے حلال کو حرام اور حرام کو حلال قرار دینے والے کو کافر قرار دیا ہے مگر اس سے مراد یہ نہیں ہے کہ یہ کام زبانی کرے اگر عملاً بھی ایسا کیاتو تب بھی کفر ہوگا بلکہ زبانی سے زیادہ عملی طور پر حلال کوحرام یا حرام کو حلال قرار دینا شدید کفر ہے جیسا کہ الصارم المسلول میں فرماتے ہیں جس نے (عملاً)حرام کو حلال قرار دیا وہ بالاتفاق کافر ہے ا س کا قرآن پر ایمان ہی نہیں ورنہ اس کے حرام کو حلال یا حلال کو حرام کیوں قرار دیتا؟کسی حرام کوحلال قرار دینے کامطلب یہ ہوا کہ ایسا شخص یا تو یہ سمجھتا ہے کہ اس چیز کو اللہ نے حرام قرار نہیں دیا اگر ایسی بات ہے تو اس شخص کاربوبیت پر ایمان ناقص ہے اور رسالت محمدﷺپر بھی لہٰذا یہ تو شریعت کاخالص انکار ہے اور اگر وہ اس بات کا عقیدہ تورکھتا ہے کہ یہ چیز اللہ و رسول ﷺنے حرام قرار دی مگرا سکے باوجود وہ اس حرام کو حلال سمجھتاہے تو پہلے والے سے بھی شدید کافر ہو گا۔ یااس شخص کاخیال ہوتا ہے کہ اللہ کی حرام کردہ کو حلال یاحلال کردہ کو حرام کرنے سے اللہ سزا نہیں دے گا ۔ اگر یہ خیال ہے توپھر اس شخص نے رب کو پہچانا نہیں ۔ اگر سب سمجھتا ہے پھر بھی ایسا عمل کرتا ہے تو یا اپنی خواہشات کی اتباع کر رہا ہے یا شرعی احکام سے نفرت کی بنا پر اگر ایسا ہے تو اسکا کفر مکمل طور پر واضح ہے ایسے لوگوں کے کفر پر قرآنی د لا ئل بیشمار ہیں۔(الصارم المسلول 499)اس بات پر علماء کا اجماع ہے کہ جس نے اللہ کو یا رسول اللہ ﷺ کو گالی دی یا اللہ کے نازل کردہ دین میں سے کسی حکم کورد کردیا یا کسی نبی کو قتل کیا ہو گا اگرچہ وہ اللہ کی شریعت کااقرار بھی کر رہا ہوپھر بھی وہ کافر ہے۔ (التمہید لابن عبدالبر4/226)
اِسی طرح تمام انبیاء کی زندگیاں وقت کے طاغوتوں کے خدائی دعووں اور اِن طاغوتوں کے رائج نظاموں کے خلاف آواز اُٹھانے اور اﷲکے قانون ‘اﷲکے نظام کو نافذ کرنے میں گزریں ۔جیسا کہ اﷲتعالیٰ نے موسیٰ کو فرعون کی طرف بھیجتے ہوئے فرمایا :
اِذْھَبْ اِلٰی فِرْعَونَ اِ نَّہُ طَغٰی وَ قُلْ ھَلْ لَکَ اِلٰیٓ اَنْ تَزَکّٰی
’’فرعون کے پاس جاؤ وہ سرکش ہوگیا ہے اور اس سے کہو کہ کیا تو پاکیزگی اختیار کرنے پر تیار ہے؟ ۔ (النازعات :18-17)
وہ اپنے آپ کو ربّ کہتا اور کہلواتا تھا )یعنی وہ طاغوت بن گیا تھا (اور اپنے طاغوتی نظام پر لوگوں کو زبردستی چلواتا تھا ۔لیکن موسیٰ نے اس کے رب ہونے کا انکار کیا اور کروایا اور اس کے طاغوتی نظام کو ختم کرکے اﷲکا نظام لوگوں پر نافذ کیا ۔یہی ہمیشہ انبیاء کا مقصد ومنہج رہا ہے کہ طاغوت سے کفر کریں اور طاغوتی نظاموں کو ختم کرکے ایک اﷲکا قانون ونظام اُس کے بندوں پر نافذ کریں ۔
مگر آج کے نام نہاد اسلامی ممالک میں رائج جمہوری نظام سلطنت میں اسمبلی کے ممبران کو شریعت کے احکامات کے نفاذ یا عدم نفاذ پر بحث وفیصلے کا اختیار ہوتا ہے ۔ایسی گستاخی اور جسارت تو فرعون جیسے طاغوت نے بھی نہ کی تھی کہ شریعت کو اﷲکی طرف سے تسلیم کرکے بھی اس پر بحث کرتا کہ اِس کو انسانوں پر نافذ کروں یا نہ کروں ۔آسمان سے نازل شدہ شریعت کو منظور نہیں کیا جاتا بلکہ اس کے سامنے سرِ تسلیم خم کیا جاتا ہے ۔بلکہ اسلام میں داخل ہی اُس وقت ہوا جاتا ہے جب اﷲاور ر سول ا کے ہر حُکم کے سامنے پارلیمنٹ سمیت تمام مخلوقات کے ہر قسم کے اختیار کی واضح ترین نفی کردی جائے ۔
شیخ عبداللہ عزام() فرماتے ہیں:
جس نے بھی اللہ کی شریعت سے اپنے فیصلے کرانا چھوڑ دیا، یا کسی بھی قانون کو اللہ کی شریعت پر ترجیح دیدی یا اللہ کی شریعت کے ساتھ انسانوں کے بنائے ہوئے قوانین کو ملا دیا، برابر کر دیا تو وہ شخص دائرہ اسلام سے خارج ہوگیا اس نے دین کا طوق اپنے گلے سے اتار دیا اور اپنے لئے یہ راستہ چن لیا کہ وہ کافر ہوکر اسلام سے خارج ہوجائے۔(العقیدہ وٲثرھا فی بناء الجیل للشیخ عبداﷲعزام()ص 11 6)
یہ معلوم ہوجانا ضروری ہے کہ ایک غیر شرعی نظام کے حوالے سے چار قسم کے افراد کُفر میں مبتلا ہوتے ہیں -
﴿۱﴾ وہ ،جو غیر شرعی قانون بنائے یا بنانے کا اختیا ررکھے ۔جیسے اراکین اسمبلی وغیرہ ۔
﴿۲﴾ وہ، جو غیر شرعی قانون سے فیصلہ کرے ،جیسے مجسٹریٹ ،جج وغیرہ۔
﴿۳﴾ وہ جو غیر شرعی قانون کو بزور نافذ کرے ،جیسے پولیس ،فوج وغیرہ ۔
﴿۴﴾ وہ جو غیر شرعی عدالت سے فیصلہ کرائے ،یا اُس کے افعال پر راضی ہو۔
پہلی دو اقسام ہی طاغوت ہیں ۔
جبکہ دوسری دو اقسام طاغوت کے ساتھیوں اور پُجاریو ں کے زمرے میں آتی ہیں۔
علامہ ابن حجر () فرماتے ہیں:
صحیحین میں عبادہ بن الصامت سے مروی ہے کہتے ہیں۔خلاصہ کلام یہ ہے کہ ایسے حکمران جن سے کفریہ افعال کا ظہور ہو ہر مسلم پر فرض ہوجاتا ہے کہ اس بارے میں اپنی ذمہ داری نبھانے کیلئے اٹھ کھڑا ہو جس میں طاقت و قوت ہوگی اسے ثواب ملے گا جو طاقت کے باوجود سستی کریگا اسے گناہ ملے گا اورجس کی طاقت نہ ہو اسے چاہیئے کہ ایسے ملک سے ہجرت کر لے اس پر اجماع ہے ۔(فتح الباری۔123/13)
ابن ابطال ()کہتے ہیں:’’ہم سے نبی کریم ﷺنے اس بات پر بیعت لی کہ ہم سنیں گے اطاعت کریں گے چاہے سخت حالات ہوں یا سازگار خوشی ہو یا غمی، ہم پر کسی کو ترجیح دی جائے (ہم محروم کئے جائیں) پھر بھی اور ہم اہل حکومت سے اختیارات واپس نہ لیں سوائے اس صورت کے کہ ان سے ایسا واضح کفر سرزد ہوجائے جس کے کفر ہونے پر اللہ کے دین میں صریح دلیل موجود ہو۔‘‘(بخاری مسلم کے علاوہ احمد بیہقی وغیرہ نے بھی اس کو مختلف ابواب و عنوانات کے تحت روایت کیاہے)۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ() فرماتے ہیں:فقہاء نے ایسے حکمران کی اطاعت پر اجماع کیاہے جس کی برائیاں اچھائیوں سے زیادہ ہوں اس کے ساتھ مل کر جہاد کرنے پر بھی اجماع ہے اس کی اطاعت اس کے خلاف بغاوت سے اس لئے بہتر ہے کہ بغاوت میں لوگوں کا خون بہے گا اس کی دلیل یہ مذکورہ حدیث اور اس جیسی دیگر روایات ہیں البتہ وہ حکمران اس سے مستثنیٰ ہیں جو ایسے کفریہ کام کریں جن کے کفر ہونے میں کوئی شبہ نہ ہو یعنی صریح کفر کریں توانکی اطاعت جائز نہیں ہے بلکہ طاقت و قدرت ہوتو ا س کے خلاف جہاد کرنا چاہیئے۔ (فتح الباری ص8/13)
امام شوکانی () فرماتے ہیں :مسلمانوں کے علماء نے اس بات پر اتفاق کیاہے جب کوئی گروہ )حکمرانوں کا(اسلام کے ظاہری اور متواتر چلے آنیوالی ذمہ داریوں اور واجبات کی ادائیگی سے دست کش ہوجائیں ان سے قتال کرنا واجب ہوجاتا ہے۔(مجموع الفتاوی۔ 540/28)
تو میرے بھائی میں نے یہاں پر وہ تمام دلائل نقل کردیے ہیں جن کی رو سے آپ کو یہ پتا چل جائے گا کہ طاغوت کسے کہتے ہیں۔ان لوگوں کے بارے میں جو اپنے فیصلے طاغوتی احکام کے پاس لے جاتے ہیں کہتے ہیں اس میں کوئی شک وشبہ نہیں کہ یہ لوگ اللہ اور اسکی شریعت کے منکر ہیں وہ شریعت جس کی اتباع کا حکم اللہ نے محمد رسول اللہﷺ کی زبانی دیا ہے ۔بلکہ یہ لوگ آدم سے لیکر اب تک تمام آسمانی شریعتوں کے منکر ہیں ان کے خلاف جہاد لازم ہوگیا ہے جب تک کہ یہ اسلام کے احکام قبول نہ کریں اور ان پر یقین نہ کر لیں اور اپنے باہمی معاملات کے تصفیے شریعت مطہرہ کے مطابق نہ کریں اور ان تمام شیطانی طاغوتی امور کو چھوڑ نہ دیں جن میں یہ ملوث ہیں۔(الدواء العا جل ۔ ص34)