السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
مزارات اللہ اور اس کے رسول کی مخالفت کیسے؟؟بغیر دلیل بات کی بجائے دلیل سے گفتگو فرمائے
ایک تو یہ بھی عجیب معمہ ہے، آپ پہلے میری تحریر کو بغور پڑھ لیا کریں بھائی!
یہ آپ کو کیوں پیش کیا گیا تھا؟
وابلغ من ذلك انه عليه السلام هدم مسجد الضرار ففي هذا دليل علی هدم ما هو اعظم فساد منه كالمساجد المبنية علی القبور فان حكم الاسلام فيها ان ينهدم كلها حتی يساوی بالارض وكذا القاب التي بينت علی القبور يجب هدمها لانها اسست علی معصية الرسول ومخالفته وكل بناء اسس علی معصية الرسول ومخالفته وهو بالهدم اولی من مسجد الضرار لانه عليه السلام نهی البناء علی القبور ولعن المتخذين عليها مساجد فيجب المبادرة والمسارعة الی هدم ما نهی عنه رسول الله صلی الله عليه وسلم ولعن فاعله وكذلك يجب ازالة كل قنديل وسراج وشمع اوقدت علی القبور لان فاعل ذلك طعون بلعنة رسول الله عليه السلام فكل ما لعن فيه رسول الله عليه السلام فهو من الكبائر ولهذا قال العلماء لايجوزان ينذر للقبور شمع ولازيت ولا غير ذلك فانه نذر معصية لا يجوز الوفاء به بل يلزم الكفارة مثل كفارة اليمين ولا ان يوقف عيلها شئ من ذلك فان هذا الوقف لا يصح ولا يحل اثباته وتنقيذه وقال ابوبكر الطرطوسي انظرو ارحکم الله تعالی اينما وجدتم يقصدها الناس ويعظمونها ويرجون البرء ولشفاء من يعلقون عليها ويضربون بها المسامير ولخرق فهی ذات انواط فاقطعوها وذات انوط شجرة اللمشركين كانوا يعلقون عليها استلحتهم وامتعتمم ويعكفون حولها
اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے بارے میں یہ بات پہنچی ہے کہ پیغمبر علیہ السلام نے مسجد ضرار کو گروا دیا، اس میں دلیل ہے واسطے گرا دینے جس کا بڑا فساد ہو، اس کا جس کا بڑا فساد ہو ،جیسے مسجدیں جو قبروں پر بنائی گئی ہیں،
بیشک حکم اسلام کا اس باب میں یہی ہے کہ ان سب کو ڈھا کر زمین کے برابر کردیں اور ایسے ہی گنبد اور برج کہ قبروں پر بنائی گئی ہیں سب کا ڈھا دینا واجب ہے ۔ اس واسطے کہ سب کی بنیاد رسول کی نافرمانی اور مخالفت پر ہے اور جو عمارت کہ بنیاد رکھی جاوے رسول کی نافرمانی اور مخالفت پر اسکا گرادینا بہتر ہے مسجد ضرار کے۔ اس واسطے کہ پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم نے قبروں پر منع فرمایا ہے اور لعنت کی ہے جو قبروں پر مسجد بناویں، پس واجب ہوا جلد ایسی شتاب گرادینا عمارت کا جس سے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا ہے اور اس کے بنانے والے کو لعنت کی ہے اور ایسے ہی واجب ہے دور کرنا قندیل اور چراغ اور شمع کا جو قبروں پر روشن کی جائیں، اس واسطے کہ روشمی کرنے والا مطعون ہے رسول اللہ علیہ السلام کی لعنت سے ، اور جس امر پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لعنت کی ہے وہ گناہ کبیرہ ہے اسی واسطے علماء کہتے ہیں کہ منت ماننی قبروں پر روشنی کی اور تیل بتی کی اور مانند اس کی جائز نہیں ہے کیونکہ یہ منت گناہ کی ہے اس کا پورا کرنا جائز نہیں بلکہ کفارہ مثل کفارہ قسم کے لازم ہے اور نہ وقف کی جاوے قبروں کے واسطے کچھ ان میں سے ، بیشک یہ وقف صحیح نہیں اور نہ ثابت رکھنا حلال اور نہ جاری کرنا۔ اور امام ابوبکر طرطوسی کہتے ہیں : خیال کرو تم پر خدا کی رحمت ہو جس جگہ تم کو ایسا درخت معلوم ہو کہ لوگ اس پر تعظیم کر کے آتے ہیں اور صحت اور شفاء اس کے وسیلہ سے امید رکھتے ہیں اور اس میں میخیں گاڑتے ہیں اور حیلہ باندھتی ہیں پس وہ ذات انواط ہے اس کو کاٹ ڈالو اور ذات انواط مشرکوں کا درخت تھا اس پر اپنے ہتھیار اور اسباب لٹکا کر اس کے گرد چلہ کشی کرتے تھے۔
ملاحظہ فرمائیں: صفحہ129 - 128 خزينۃ الاسرار ترجمہ اردو مع مجالس الابرار و مسالك الاخيار و محائق البدع و مقامع الاشرار ۔ أحمد بن عبدالقادر الرومي الحنفي ۔مترجم سبحان بخش ۔ مطبع مصطفائی 1283 ھ