ساجد
رکن ادارہ محدث
- شمولیت
- مارچ 02، 2011
- پیغامات
- 6,602
- ری ایکشن اسکور
- 9,379
- پوائنٹ
- 635
(٧) ایک مشکل یہ بھی سامنے تھی کہ ابتدائی تین کلاسوں تک کلیۃ القرآن اور کلیۃ الشریعہ کے طلباء کے سیکشن ہی علیحدہ ہوا کرتے تھے اور کلیۃ القرآن میں عموماً جونیئر اَساتذہ ہی پڑھاتے تھے حتیٰ کہ بعض سینئر اَساتذہ دفتر میں کہتے کہ ہمارے پیریڈز کلیۃ الشریعہ میں ہی رکھیں، ایک سال ہم نے مطالبہ کرکے بعض بڑے اَساتذہ کے پریڈز بھی لے لیے لیکن ہوا یوں کہ جامعہ میں طلباء نے پروپیگنڈا شروع کردیا کہ سارے سینئر اَساتذہ کلیۃ القرآن والے لے گئے ہیں جسے بہت مشکل سے فرو کیاگیا۔
(٨) کلیۃ القرآن کے ابتدائی سالوں میں یہ مسئلہ خصوصی رہا ہے کہ طلبا تجوید پڑھنے کے شوق میں کلیۃ القرآن میں داخل ہوجاتے، لیکن جوں ہی تیسرا سال شروع ہوتا توطلبا کہتے ہم نے قراء ات نہیں پڑھنی۔ دو تین سال تک تو ہم نے کرہاً اجازت دی لیکن ایک سال یہ ہوا کہ ایک کلاس کے سارے ذہین اور پڑھنے والے طلبا نے کہا کہ ہم نے کلیۃ الشریعۃ میں پڑھنا ہے، کیونکہ وہاں سکول پڑھنے کی سہولت موجود ہے اور ویسے بھی پڑھائی ظہر تک ہوتی ہے جس پر مجھے سخت صدمہ ہوا اور میٹنگ کرکے مجلس الجامعہ سے طے کرایا کہ آئندہ جو طالب علم تجویدپڑھے گا وہ اگر یہاں پڑھنا چاہتا ہے تو کلیۃ القرآن میں پڑھے ورنہ جامعہ کے دروازے اس کیلئے بند ہیں۔ میں اس پر سختی سے کاربند ہوگیا حتیٰ کہ اس وجہ سے میرے بعض قریبی عزیز مجھ سے ناراض ہوگئے اور برسوں مجھ سے بات تک نہ کی، لیکن میں نے اس معاملے میں کسی سے کوئی مصالحت نہیں کی۔
یہ شرط اس لیے لگانا پڑی کہ تجوید کے بعد قراء ات کے سالوں میںکسی طالب علم کے آنے کی توقع نہیں ہوتی تھی۔ ظاہر ہے کہ اَساتذہ کی ٹیم مکمل ہی کرنی پڑتی تھی چاہے کلاس میں چند طلبا ہی کیوں نہ ہوں۔ اس بارے میں وکیل الجامعہ مولانا عبدالسلام فتح پوری کا تعاون بہت مثالی رہا ہے کہ خود ان کے بیٹے نے یہ کہا کہ میں نے کلیۃ القرآن نہیں پڑھنا اور بھاگ کر چلا گیا انہوں نے فرمایا اگر پڑھنا ہے تو یہی پڑھو گے۔
(٨) کلیۃ القرآن کے ابتدائی سالوں میں یہ مسئلہ خصوصی رہا ہے کہ طلبا تجوید پڑھنے کے شوق میں کلیۃ القرآن میں داخل ہوجاتے، لیکن جوں ہی تیسرا سال شروع ہوتا توطلبا کہتے ہم نے قراء ات نہیں پڑھنی۔ دو تین سال تک تو ہم نے کرہاً اجازت دی لیکن ایک سال یہ ہوا کہ ایک کلاس کے سارے ذہین اور پڑھنے والے طلبا نے کہا کہ ہم نے کلیۃ الشریعۃ میں پڑھنا ہے، کیونکہ وہاں سکول پڑھنے کی سہولت موجود ہے اور ویسے بھی پڑھائی ظہر تک ہوتی ہے جس پر مجھے سخت صدمہ ہوا اور میٹنگ کرکے مجلس الجامعہ سے طے کرایا کہ آئندہ جو طالب علم تجویدپڑھے گا وہ اگر یہاں پڑھنا چاہتا ہے تو کلیۃ القرآن میں پڑھے ورنہ جامعہ کے دروازے اس کیلئے بند ہیں۔ میں اس پر سختی سے کاربند ہوگیا حتیٰ کہ اس وجہ سے میرے بعض قریبی عزیز مجھ سے ناراض ہوگئے اور برسوں مجھ سے بات تک نہ کی، لیکن میں نے اس معاملے میں کسی سے کوئی مصالحت نہیں کی۔
یہ شرط اس لیے لگانا پڑی کہ تجوید کے بعد قراء ات کے سالوں میںکسی طالب علم کے آنے کی توقع نہیں ہوتی تھی۔ ظاہر ہے کہ اَساتذہ کی ٹیم مکمل ہی کرنی پڑتی تھی چاہے کلاس میں چند طلبا ہی کیوں نہ ہوں۔ اس بارے میں وکیل الجامعہ مولانا عبدالسلام فتح پوری کا تعاون بہت مثالی رہا ہے کہ خود ان کے بیٹے نے یہ کہا کہ میں نے کلیۃ القرآن نہیں پڑھنا اور بھاگ کر چلا گیا انہوں نے فرمایا اگر پڑھنا ہے تو یہی پڑھو گے۔