• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

آل تکفیر کی گمراہی ، جب خود انکو گھیر لائی (حقیقی اور دلچسپ واقعات پر مبنی تحریر)

کیا آپ کے ساتھ بھی ایسے دلخراش پیش آچکے ہیں؟

  • جی نہیں! اور ،پہلی بار اس بارے پڑھا ہے۔

    ووٹ: 0 0.0%
  • میں نے کبھی ان باتوں کو اہمیت ہی نہیں دی۔

    ووٹ: 0 0.0%

  • Total voters
    8
شمولیت
نومبر 23، 2011
پیغامات
493
ری ایکشن اسکور
2,479
پوائنٹ
26
آلِ تکفیر کی گمراہی، جب خود انکو گھیرلائی
( چشم کشا تحریر)




الشیخ اسامہ حماد حفظہ اللہ




بسم اللہ الرحمن الرحیم
ان الحمدللہ نحمدہ و نستعینہ و نستغفرہ و نعوذ باللہ من شرور انفسنا ومن سیئات اعمالنا من یھدہ اللہ فلا مضل لہ ومن یضلل فلا ھادی لہ و اشھدأن لا إلٰہ إلا اللہ و أشھد أن محمد اًعبدہ و رسولہ۔ اما بعد !

کسی شخص کو کافر یا مرتد قرار دینا بظاہر کتنا ہی آسان نظر آتا ہے مگر اسکے بھیانک نتائج برداشت کرنا اتنا ہی زیادہ مشکل بلکہ ناممکن ہے شاید اسکا اندازہ خود کفر کفر کفر کہ اسباق پڑھانے والوں نہیں!!!
ہمارے معاشرے میں آج کل نام نہاد “اصلاح پسند‘‘ اور “مجددین‘‘ کہ جن کے یونٹ‌آج کل گلی گلی ، محلے محلے اور تعلیمی اداروں میں نظر آتے ہیں اور عقیدہ کی اصلاح یا خالص عقیدہ کے جھانسے میں ایک دن میں درجنوں لوگوں کو چلتے پھرتے دین سے خارج قرار دینے کا فریضہ سر انجام دیتے ہیں ۔
اور یہ تکفیر کسی تحقیق و تفتیش اور قوائد و ضوابط کو بروئے کار لائے بغیر ، عہدہ تکفیر کی ضرویات اور لوازمات کا التزام کیئے بغیر ، محض فوٹو کاپی یا پرنٹدڈ پیپرز کی صورت میں موجود غیر واضح دستاویز یا 4 یا 5 صفحات پر مشتمل بک لٹ کو پڑھ کر کی جاتی ہے۔اس کے لئے آپ کو بس لوگوں پر نظر رکھنی ہے کہ کب وہ کوئی ایسا عمل کریں کہ آپ اپنے فن کا مظاہرہ کر سکیں۔
لیکن بیچارے تکفیر کرنے والے اسکے بعد خود ہی اس بھنور میں پھنسے نظر آتے ہیں ، کیونکہ جن اصولوں اور جلد بازی کے ساتھ وہ اس کاروبار شر میں خود کو کھپاتے ہیں تو قلیل وقت میں وہ اپنے گھر والوں کو، آدھے خاندان کو ، گلی والوں کو، شہر والوں‌کو بلکہ اہل ملک کو مرتد قرار دے چکے ہوتے ہیں۔ اور ہم تو بعض ایسے بھی جانتے ہین‌ کہ جن کی زد میں انکے والدین بھی آتے ہیں کہ جن کے گھر سے انکو ہر قسم کا تعاون و امداد اور پرورش جاری ہوتی ہے۔اور وہ اس کا برملا اظہار بھی کرتے ہیں کہ ہاں انکے گھر والے بھی بھی کافر ہیں۔اسکی مثالیں تو میرے علم میں بہت ہیں ، مگر ایک یا دو یہاں بطور وضاحت پیش کروں گا۔

مثال:1
میرا ایک جاننا والا نوجوان کچھ عرصہ قبل اس مسئلے سے دوچار ہوا تو اس کے ساتھ ایک مکالمہ کے بعد مجھے جس بات کا احساس ہوا کہ شاید دنیا میں اس سے بڑھ کر کوئی قابل رحم نہیں۔
واقعہ کچھ یوں ہے، کہ وہ نوجوان جسے بھی ملتا ، اسے کہتا کہ
یہ حکومت مرتد ہے کیونکہ اس حکومت نے جو قوانین نافذ کر رکھے ہیں، وہ کفریہ ہیں اور جو بھی حکومت کا مددگار ہے یا ان قوانین کو مسلمانوں پر نافذ کرنے والا ہے ، انکی اشاعت ، انکے مطابق فیصلے کرنے والا ہے یا کروانے والا ہے، سب کافر ہیں ،مرتد ہیں۔ اور ان سب کو ختم کرنا اس وقت اہم ترین فریضہ ہے اور ان کے خاتمہ کا واحد راستہ ان سب سے قتال ہے۔
میں نے جب یہ باتیں سنیں تو اس کو کافی سمجھانے کی کوشش کی۔ میں نے کہا کہ اس میں شک نہیں کہ ہمارے ہاں برٹش لا ء ہے جو کہ اسلامی نہیں اور حکومت ابھی تک اسے ہی چلا رہی ہے اور ہماری عدالتوں میں فیصلہ بھی ہو رہے ہیں مگر یہ کہنا کہ یہ کام ہر حال میں کفر و ارتداد ہے، یہ بات جہالت کے سوا کچھ نہیں۔
یہ سب کبیرہ گناہ ضرور ہیں ، قابل مذمت ضرور ہیں ،قابل اصلاح ضرور ہیں مگر جب تک ان قوانین پر حکومت چلانے والے، اسے نافذ کرنے والے ،اس کی طرف رجوع کرنے والے، ان قوانین کو اسلامی قوانین کے کم از کم برابر یا ان سے بہتر، زیادہ مفید اور اسلامی قوانین کو انکی نسبت حقیر نہ سمجھتے ہوں، تب تک وہ مرتد یا کافر نہیں ہوتے ۔ اور اگر وہ ایسا معاملہ اختیار کرتے بھی ہیں تو انکی تکفیر کے لئے تمام اصولوں اور شرائط تکفیر کی تکمیل کے بعد ان لوگوں پر حکم لگے گا۔ اس سے پہلے ہم حکم صرف ان کے عمل پر رکھیں گے کہ یہ کام یا عمل کفریہ ہے،جس کا مطلب یہ نہیں کہ ہر اسکا کرنے والا کافر و مرتد ہوگا ،بلکہ یہ بطور تنبیہ اور وعید کے ہوگا،کہ اگر وہ اس پر قائم رہے تو ممکن ہے تم لوگوں کو ایمان و اسلام سے ہاتھ دھونا پڑے۔
اور اسکو اس بات کی وضاحت میں رسول کریم ﷺ کی وہ حدیث بھی سنائی کہ :
’’سباب المسلم فسوق وقتاله كفر‘‘ ۔ (صحیح مسلم)
’’مسلمان کو گالی دینا گناہ اور اس سے لڑنا کفر ہے‘‘
میں نے کہا کہ دیکھو بھائی، یہاں پر آپﷺ نے مسلمان کا آپس میں لڑنا کفر قرار دیا ہے ۔یعنی باہمی لڑائی کفریہ کام ہے مگر اس کام کے کرنے والا ہر شخص ہر حال میں کافر نہیں ہوتا حتی کہ وہ مسلمان سے لڑنے کو یا اسکے خون کے حلال ہونے کا عقیدہ نہ رکھتا ہو۔اور یہی سلف صالحین کا فہم ہے۔
پھر میں نے مزید وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ اگر تم باغور دیکھو، تو باہمی لڑائیاں صحابہ کرام میں بھی ہوئیں اور بعد کے مسلمانوں میں بھی۔ بلکہ اگر مزید گہرائی میں جائیں تو ہر گلی یا محلے میں کوئی نا کوئی مسلمان باہمی لڑائی جھگڑا میں الجھا ہی رہتا اور بات اسپتالوں سے قبرستان تک بھی پہنچ جاتی ہے۔ اب آپ خود سوچو کہ جن بے ہنگم و خودساختہ اصولوں اور فہم سلف صالحین سے عاری ہو کر آپ ہر کفر کے مرتکب کو اسلام سے خارج ہونے کا سرٹیفکیٹ دے رہے ہیں ، اور اس کے خون بہانے کو عظیم فریضہ قرار دے رہے ہو،کیا یہ درست ہے؟؟
تو وہ کچھ دیر تو سر جھکائے خاموش رہا ، مگر اچانک جیسے کرنٹ لگا ہو، سر اٹھایا اور کہا کہ
تم جو مرضی سمجھا لو میں تو انکے کافر و مرتد ہونے پر پوری شرح صدر رکھتا ہوں، یہ کافر ہیں کافر ہیں کافر ہیں۔
میں نے دیکھا کہ دلیل سے تو کام چلنے والا نہیں چلو کوئی، اور طریقہ آزماتے ہیں۔
اتفاق سے مجھے کچھ دن قبل ہی معلوم ہوا تھا کہ حضرت کے والد محترم خود ان کفریہ قوانین کی وکالت کرنے کے پیشہ سے منسلک ہیں۔ میں نے اس سے کہا ، بھائی جس طرح تم بیان کر رہے ہو تو ایسے تو تمہارا اپنا والد بھی؟؟؟
وہ جھٹ سے بولا :
’’ہاں! اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ بھی کافر ہے!مگر وہ چھوٹا کافر ہے اور یہ حکومت بڑی کافر ہے ۔ اس لئے پہلے اس بڑے کافر کا ختم کیا جانا ضروری ہے بعد میں چھوٹے کافروں کی باری آئے گی‘‘۔
بس پھر کیا تھا کہ میں نے اپنی خیر اسی میں سمجھی کہ وہاں سے خیریت سے نکل لو ں ،کہیں کافروں کی حمایت میں بولنے والا قرار دے کر یہ مجھے بھی۔،۔،۔،۔لاحول ولا قوۃ الا باللہ۔

لیں جی اب اگر واقعات کی بات چل نکلی تو ایک اور عجیب و غریب اور دلچسپ واقعہ سن لیں ان حضرات بارے۔

مثال:2
میرا ایک اور جاننے والا بھائی بھی جب اس فتنہ کا شکار ہوا تو اس نے دعوت کی بنیاد کفر بالطاغوت سے رکھی۔ اور کفر بالطاغوت کرنے کے ساتھ ساتھ طاغوت کے چیلوں (سرکاری دفاتر میں کام کرنے والے، عدالتوں سے منسلک تمام افراد اور سیکیورٹی اداروں کے افراد ) سے قتال کو لازمی اور اہم ترین ضرورت وقت قرار دینا شروع کر دیا۔ اس بھائی کے حلقہ احباب میں جو لوگ تھے وہ میرے بھی کافی قریب تھے، انہوں نے مجھ سے تذکرہ کیا اور التماس کی کہ اس بھائی سے بات کروں۔
میرے سامنے ابن عباس ﷺ و دیگر اور خود اپنا ایک تجربہ بھی موجود تھا کہ ان کے ساتھ سر لگانے سے بہتر ہے بندہ دیوار کے ساتھ سر لگا لے، کیوں کہ ان میں ذاتی اصلاح اور عقل سلیم اکثر ناپید ہو چکے ہوتی ہے اور ہٹ دھرمی انکی رہنماء ہوتی ہے۔جس کی وجہ سے دلیل کے باوجود حق بات تسلیم کرنا مشکل ہی نہیں نا ممکن ہی نظرآتا ہے( لیں جی ایک یہاں پر بھی ایک اورواقعہ یاد آگیا ، مگر پھر کبھی بیان کروں گا)
بہر کیف، میں ملاقات کو پہنچ گیا۔ جب ان حضرت سے رسمی مصافحہ اورخیر وعافیت والے جملوں کا تبادلہ کر کے فارغ ہو تو ان سے کہا ، بھائی میں نے سنا ہے آجکل آپ اپنے عقیدے کی اصلاح بارے کافی متفکر ہیں اور اس بارے کافی کام کر رہے ہیں ۔تو میں نے سوچا آپ سے استفادہ کیا جائے۔ تو میں آپ کی طرف آگیا۔
بس پھر کیا تھا ، انہوں نے اپنی پوری دعوت میرے سامنے رکھ دی جو کہ میں مختصرًا اوپر بیان کی ہے۔
میں نے اس کہا کہ میں الحمد اللہ کفر بالطاغوت کا قائل ہوں اور اس جانب لوگوں کو خود دعوت بھی دیتا ہوں ، مگر جس طرح آپ کفربالطاغوت کرنے اور اس کی بنیاد پر مسلم معاشرے میں قتل و قتال کو لازم قرار دینے کی بات کر رہے ہیں مجھے اس بارے کچھ شبہات اور سوالات ہیں ۔ میں چاہتا ہوں آپ انکا جواب دے دیں تاکہ جوبھی حق ہے ،میں شرح صدر کے ساتھ اسے قبول کروں ۔
اس پر اس نے بڑے پر سکون انداز میں کہا،
جی بتایئے؟۔
تو میں نے کہا کہ کفر بالطاغوت کیا تمام طاغوتوں سے ہو گا یا صرف سرکاری طاغوت سے؟
اس نے کہا ،
ہاں تمام طاغوتوں سے!
میں نے کہا پھر آپ سرکاری اور مذہبی طاغوت میں کیوں فرق کرتے ہیں؟
اس نے چونکتے ہوئے کہا،
کیا مطلب میں سمجھا نہیں؟
میں نے کہا بھائی میں نے تو نہایت سادہ سی بات کی ہے۔ کیا کفر بالطاغوت صرف مخصوص طاغوت کے ساتھ ہو گا ، یا ہر وہ شخص یا چیز جو طاغوت کی تعریفوں اور اقسام پر پوری اتر تی ہو۔ ان تمام سے ہوگا؟
اس نے کہا ،
آپ کھل کر بات کیجئے!
میں نے کہا بھائی طاغوت کی اقسام میں سے ہے کہ اگر کوئی شخص غیب دانی کا ذرا سا بھی دعوی کرے تو وہ بھی طاغوت ہے، جو شخص اللہ اور اسکے رسول کے مقابلے میں اپنی عبادت اور اطاعت کی دعوت دیتا ہو، چاہے لوگ اسکی عبادت و اطاعت کرتے ہو ں یا نہ ،طاغوت ہے۔ اور وہ شخص بھی طاغوت ہے جو اللہ کی نازل کردہ آیات(احکامات) کے مطابق فیصلہ نہ کرتا ہو۔
تو میں یہ پوچھ رہا ہوں کہ کیا طاغوت کی اقسام صرف سرکاری طاغوت کے لئے ہیں یا کوئی بھی مذہبی ہستی یا کتاب جو اوپر والی تینوں اقسام میں آتی ہوں وہ بھی طاغوت ہیں؟ اگر نہیں تو کیوں؟
وہ کہنے لگا کہ
ٹاپک سے ہٹ کر بات کر رہے ہیں ، ہم یہاں طاغوتی قوانین اور انکے نفاذ کی بات کر رہے ہیں اور آپ مذہبی اور غیر مذہبی کی رٹ لگا رہے ہیں۔
مجھے اس کے ترش جواب سے اندازہ ہوگیا کہ تیر عین نشانے پر لگا ہے۔ میں نے کہا بھائی میں نے متعلقہ سوال ہی کیا ہے۔ اب دیکھیں نہ ایک حکمران یا قاضی اگر اللہ کے حکم کے مطابق فیصلہ نہ کرے تو اسکو آپ طاغوت قرار دیں اور اس سے قتال کا فتوی جاری کریں ، مگر جب یہی کام کوئی مذہبی ہستی کرے تو آپ کہتے ہیں غیر متعلقہ!
وہ کہنےلگا:
آپ بتاو مذہبی طاغوت سے کیا مراد ہے؟
بس یہی میں سننا چاہتا تھا۔ میں نے ترتیب سے شروع کیا اور ان مذہبی حلقوں کی جنکو وہ ’’اہل حق‘‘ اور’’ کفر بالطاغوت کے علمبردار‘‘ سمجھتا تھا، انکے خود طاغوت ہونے پر دلائل دینا شروع کر دیئے۔
کبھی انکی غیب دانیوں کے واقعات جو خود انکی مستند کتابوں میں مذکور ہیں اور انکو وہ حق مانتے ہیں ، پھراپنی عبادت کروانے کے واقعات باحوالہ پیش کیئے اور آخر میں اس کے سامنے اللہ کی شریعت کے خلاف فیصلہ کرنے کے مسئلہ پر اس مذہبی گروہ کا کہ جن کا وہ دن رات ’’اہل حق ‘‘اور’’ کفر بالطاغوت‘‘ کے علمبردار ہونے کا دم بھرتا تھا، رویہ پیش کیا اور انکی کتابوں اور تقاریر سے ثابت کیا کہ وہ خود اللہ کی شریعت کو چھوڑ کر فیصلہ کرنے والے ہیں ۔
اس ضمن میں ،میں نے جو مثالیں دیں یہاں صرف اشارۃً ایک ہی مثال پیش کروں گا تاکہ آپ کو اندازہ ہوجائے کہ کن کی بابت بات کررہا ہوں۔
میں نے کہا اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ ماں اپنے بچے کو دو سال دودھ پلائے گی اور قرآن سے اس پر واضح نص موجود اور فہم سلف صالحین بھی یہی ہے۔ مگر اس کے باوجود ایک مذہبی گروہ کہتا ہے نہیں !
رضاعت دو سال نہیں اڑھائی سال ہے۔
اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ اپنے اس فیصلہ بارے قرآن و حدیث سے کوئی دلیل لاو تو جواب میں آئیں بائیں شائیں تو سننے کو مل جاتیں ہیں مگر دلیل نہیں۔

میں نے اس سے کہا کہ یہ تو صرف ایک مثال ہے اس کے علاوہ بے بہا مواقع ہیں جہاں یہ مذہبی گروہ اللہ کی شریعت کے خلاف فیصلہ دیتا ہے اور اسی کو رائج کرتا ہے اور تو اور حدود کے اندر ہیرا پھیری بھی کسی سے چھپی نہیں ۔
اب آپ بتائیے کہ اس ’’طاغوت‘‘ بارے آپکی دعوت کیا ہے؟

پھر کیا تھا، مجھے جو سننا پڑا وہ مجھ تک ہی رہنے دیں۔ بہرحال اس کا لب ِلباب یہ ہے کہ تم اپنی خود ساختہ تشریحات اپنے پاس رکھو!
جو طاغوت ہے وہ سب پر واضح ہے!
میں نے سوچا، چلو اسکو بھی کسی اور طریقہ سے رام کرتے ہیں ۔
میں نے پوچھا کہ بھائی کیا پاکستان آرمی طاغوت کی فوج ہے اور اس سے قتال فرض ہے؟
تو اس نےکہا کہ
،ہاں بالکل!
تو میری ہنسی نکل گئی۔ آپ بھی سوچ رہے ہوں گے کہ میں کیوں ہنسا؟
یقین کیجائے، جب آپ بھی وجہ جانیں گے تو یقیناً ہنس پڑے گے۔
میں نے کہا، چلیں میں آپ کے موقف کا قائل ہو گیا ہوں۔ اب مجھے بتایئے آپ کے والد صاحب کب گھر ہوتے ہیں؟
وہ حیرت سے پوچھنے لگا ،
کیوں خیریت ، کیا کام ہے؟
میں نے کہا بھائی مجھے پتا لگا تھا کہ وہ بھی پاکستان آرمی میں آفیسر ہیں ، تو اس سے پہلے اس ’’طاغوت کے سپاہی بلکہ افسر‘‘ کو آپ قتل کریں میں خود ہی اس کار خیر میں سبقت لے جاتا ہوں۔ (یہ تھی وجہ مسکرانے کی)
اب کیا تھا ، اس کی دعوت کی زد میں اسکا اپنا گھر تھا۔ اس بیچارے کا چہرہ دیکھنے والا تھا۔ کچھ دیر تو زبان گنگ رہی۔ پھر بلاآخر گویا ہوا، مگر اب اسکی آواز میں وہ اطمینان اور لہجے میں وہ بے باکی نہیں تھی جس کا وہ کافی دیر سے مستقل مزاجی کے ساتھ مظاہرہ کرتا آرہا تھا۔
تو پھر اس نے ایک ایسا جواب دیا جس سے میری ہنسی اب نیم قہقوں میں بدل گئی۔
اس نے کہا ،
جناب دیکھئے! آرمی کے اندر مختلف شعبہ جات ہیں۔ کچھ شعبہ جات عسکریت اور اسکی لوازمات سے منسلک ہیں اور کچھ شعبہ جات رفاہی ہیں اور عوامی فلاح بہبود کے کاموں سے منسلک ہیں ۔
تو جو شعبے عسکریت اور انکی لوازمات سے منسلک ہیں وہ طاغوتی شعبے ہیں ، باقی جو صرف فلاح بہبود سے منسلک ہیں وہ طاغوتی نہیں ہیں۔ اور میرے بابا جان بھی اس رفاہی شعبے میں ہی آفیسر ہیں۔
بس پھر میرے چہرے پر ہنسی تھی اور اس کے چہرے پر بارہ بجنے کے آثار۔۔

میں نے کہا ابھی آپ کہہ رہے تھے کہ سب طاغوت ہے، سب طاغوت کے سپاہی ہیں، سب کے ساتھ قتال ہونا چاہیئے تو پھر اب یہ ’’ اظہار حق‘‘ مدھم اور خاص کیسے ہو گیا؟؟؟
بہرحال وہ اپنی تاویلات سے خود کو مکمل طور پر مطمئن کیئے ہوئے تھا، میری کسی بات کا اس پر کم از کم میرے سامنے کوئی اثر نہیں ، ہاں تنہائی میں شاید سوچا ہو کہ آج بنی کیا ، تو اللہ جانے۔
اس کے بعد میں ہنستا ہوا اس کے پاس سے رخصت ہوگیا۔
واہ میرے اللہ ، تو جسے چاہے ہدایت دیتا ہے اور جسے چاہے گمراہ کر دیتا ہے اور جسے تو ہدایت دے اسے کوئی گمراہ نہیں کر سکتا اور جسے تو گمراہ کرے اسے کوئی ہدایت نہیں دے سکتا۔

ان واقعات کو بیان کرنے کہ بعد مجھے ایک ضرب المثل یاد آئی

کسی نے کیا خوب کہا ہے:

جس کام اسی کو ساجھےکوئی
دوجا چھیڑے تو ڈھینگا باجے!


آیئے اب ہم اس’’ اندھی تکفیر ‘‘ کے چند نتائج پر نظر ڈالتے ہیں جس سے آل تکفیر لاعلم ہیں یا اعراض کئے ہوئے نظر آتے ہیں۔

اس کا مطلب ہے کہ جسکی تکفیر کی جارہی ہے :
1- اسکا قتل جائز ہے اسکا خون حلال
2- ذبیحہ حرام
3- مال حلال
4- جہنم واجب
5- نکاح باطل
6- مسلمان عورت سے نکاح ناجائز
7- گواہی نامنظور
8- وراثت سے محروم
9- ولا یت نکاح نا مقبول
10- مرنے کے بعد نہ غسل نہ کفن نہ جنازہ نہ مسلمانوں کے قبرستان میں دفن کیا جائے گا اور نہ ان کے لئے دعا کی جائے گی ۔

مگرآپ دیکھیں گے اس حکم کو لگانے کہ باوجود سب سے( والدین ، خاندان ، اہل محلہ و گلی اہل شہر اور اہل ملک سے) تعامل پھر بھی مسلمانوں والا جاری رہتا ہے، اور وجہ پوچھنے پر مکمل خا موشی یا پھرآئیں بائیں شائیں کرتے ہیں باوجود کہ یہ "مرتدین" کے خلاف قتال کے قائل ہیں اور اس کو اولین فریضہ قرار دیتے پھرتے ہیں مگر۔،۔،۔،۔ اللہ ہی جانے کہ یہ مداہنت کیسی، یہ اجتناب کیسا؟؟

اللہ خوب جانتا ہے انکی اس گمراہی کو !

محترم بھائیو!کلمہ پڑھنے والے کا ایمان یقینی ہوتا ہے اس پر کفر کا فتویٰ لگانا حرام ہے اس لئے اس معاملے بہت زیادہ احتیاط سے کام لینا چاہئے جب تک کفر کی شرائط پوری نہ ہو جائیں اور موانع ختم نہ ہوجائیں ۔تکفیر کا فتوی لگانے کے لئے پختہ علم اور تقوی کی بہت زیادہ ضرورت ہے جو کہ ہمارے ہاں کوئی اہمیت نہیں‌رکھتی۔،۔، بلکہ الٹا علماء‌کی تحقیر اور ان کو اس عہدے سے محروم کر دیا جاتا ہے اور لوگوں کو یہ یقین دلایا جاتا ہے کہ یہ ہر اک کام ہی نہیں بلکہ ہر اک پر فرض ہے۔

اعوذ باللہ ان اکون من الجھلین


نوٹ فرمائیں :
یہ تحریر محض دعوت و اصلاح کی خاطر پیش کی گئی اور اسکا مطلب کسی خاص گروہ، جماعت، فرق یا شخص پر حکم لگانا نہیں اور نہ ہی انکی تذلیل مقصود ہے۔

جزاک اللہ خیرا
 

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,397
پوائنٹ
891
محترم عبداللہ نے مسئلہ تکفیر پر دلائل کی بجاے ،اپنی راے پیش کی ہے -
دلائل بیان کیے جاتے، تو زیادہ بہتر تھا-
محترم ہارون عبداللہ بھائی،
ہر تحریر ہر ذہن کے شخص کے لئے نہیں ہوتی۔
آپ یقین مانئے ہم نے تو اس تحریر سے بہت اچھا سبق حاصل کر لیا ہے۔ عامی جو ٹھہرے۔
 
شمولیت
نومبر 23، 2011
پیغامات
493
ری ایکشن اسکور
2,479
پوائنٹ
26
محترم عبداللہ نے مسئلہ تکفیر پر دلائل کی بجاے ،اپنی راے پیش کی ہے -
دلائل بیان کیے جاتے، تو زیادہ بہتر تھا-
السلام علیکم۔
محترم ہارون بھائی ، اللہ ہم سب پر رحم فرمائے۔
الحمد اللہ اس فورم پر میں نیا نہیں اور نہ یہ میری مسئلہ تکفیر پر پہلی پوسٹ ہے۔ فورم اور اہل فورم شاہد ہیں کہ اس سے پہلے فتنہ تکفیر و خروج بارے جتنی بھی پوسٹ ہیں وہ قرآن و سنت اور فہم سلف صالحین کے دلائل سے مزین ہیں مگر لگتا ہر شاید آپ کی نظر سے نہیں گزریں۔۔۔چلیں کوئی بات نہیں ، ــسیرو فی الفورمــ انشاء اللہ دستیاب ہو جائیں گے۔
اور ہاں اگر آپ اس بارے ، کسی خاص مسئلہ پر علمی مواد چاہتے ہوں تو میں حاضر ہوں!
آپ موضوع بتائیے، ان شاء اللہ میں اللہ کی توفیق سے پیش کرنے کی پوری کوشش کروں گا!!

اور یہ تحریر ان لوگوں کو لئے تھی جو بھاری علمی تحریر کے متحمل نہیں ، ،،،،

آپ کو اگر تحریر کے مندرجات پر اعتراض ہے تو وہ پیش کیجئے، ، ، ، جناب یہ تحریر علم الیقین نہیں بلکہ علم الیقین پلس عین الیقین کی بنیاد پر لکھی گئی ہے!!
 
شمولیت
نومبر 23، 2011
پیغامات
493
ری ایکشن اسکور
2,479
پوائنٹ
26
محترم ہارون عبداللہ بھائی،
ہر تحریر ہر ذہن کے شخص کے لئے نہیں ہوتی۔
آپ یقین مانئے ہم نے تو اس تحریر سے بہت اچھا سبق حاصل کر لیا ہے۔ عامی جو ٹھہرے۔
جزاک اللہ خیرا بھائی، بالکل صحیح پہنچے!!!
 
شمولیت
اگست 07، 2012
پیغامات
2
ری ایکشن اسکور
16
پوائنٹ
0
اللہ رب العزت کا بڑا کرم ہے کہ جب میں نے مسلک حق کی طرف پہلا قدم رکھا تو میرا واسطہ انہیں تکفیری گروہ سے ہی پڑا۔
لیکن اس زبان سے اس رب کی تعریف ہی نکلتی ہے کہ اس نے مجھے اس شر سے محفوظ رکھا۔
جزاک اللہ خیرا عبداللہ بھائی، اس حوالے سے گاہے بگاہے معلومات پوسٹ کرتے رہیں۔ تا کہ اپنی اصلاح ہوتی رہے
 
شمولیت
اگست 08، 2012
پیغامات
115
ری ایکشن اسکور
519
پوائنٹ
57
محترم عبداللہ !
قرآن کریم اور حدیث کے برابر نظام بنانا، اس نظام پر عمل کروانا ، اور اس نظام پر عمل نہ کرنے والے کو سزا دینا کفر ہے -
ایسا شخص جو اس نظام کو چلاتا ہے ، اس کے کفر مین کوی شک نہین ہے -
 
شمولیت
نومبر 23، 2011
پیغامات
493
ری ایکشن اسکور
2,479
پوائنٹ
26
اللہ رب العزت کا بڑا کرم ہے کہ جب میں نے مسلک حق کی طرف پہلا قدم رکھا تو میرا واسطہ انہیں تکفیری گروہ سے ہی پڑا۔
لیکن اس زبان سے اس رب کی تعریف ہی نکلتی ہے کہ اس نے مجھے اس شر سے محفوظ رکھا۔
جزاک اللہ خیرا عبداللہ بھائی، اس حوالے سے گاہے بگاہے معلومات پوسٹ کرتے رہیں۔ تا کہ اپنی اصلاح ہوتی رہے
اللہ آپ سمیت تمام اہل اسلام کی اس سرطان العصر (فتنہ تکفیر ) سے حفاظت فرمائے۔ آمین
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,859
ری ایکشن اسکور
41,096
پوائنٹ
1,155
بسم اللہ الرحمن الرحیم​
اولیاء الطاغوت (طاغوت کے ساتھی) کون ہیں؟

قرآن مجید نے صرف طاغوت ہی نہیں "اولیاء الطاغوت" کا بھی ذکر کیا ہے۔کیونکہ طاغوت کو جب تک طاغوتی منصب پر فائز نہ کیا جائے وہ رب بن(رب بننے کا دعوی کر) ہی نہیں سکتا۔نہ ہی وہ اپنے لاؤ لشکر اور حمایتیوں کے بغیر لوگوں پر اپنا قانون نافذ کر سکتا ہے۔چنانچہ وہ تمام ادارے اور محکمے نیز ان میں کام کرنے والے افراد جو ملک میں طاغوت کے قوانین کا نفاذ کرتے ہوں اور اس کے تحفظ کے ذمہ دار ہوں،سب اولیاء الطاغوت (طاغوت کے ساتھی،مددگاراور رفقاء)کے زُمرے میں آتے ہیں۔جیسے فوج،پولیس،رینجرز،فضائیہ،بحریہ،اور عدالتوں کے وکلاء وغیرہ۔اور جو لوگ طاغوت کی اطاعت پر راضی ہوں یا اس سے کفر کرنے پر آمادہ نہ ہوں وہ "عباد الطاغوت" (طاغوت کے بندے/پُجاری) ہیں۔دین اللہ کے لیے خالص نہیں ہو سکتا جب تک کہ طاغوت ،اولیاء الطاغوت اور عباد الطاغوت تینوں سے صاف صاف کفر اور دشمنی کا اعلان نہ کر دیا جائے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
قَدْ كَانَتْ لَكُمْ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌۭ فِىٓ إِبْرَٰهِيمَ وَٱلَّذِينَ مَعَهُۥٓ إِذْ قَالُوا۟ لِقَوْمِهِمْ إِنَّا بُرَءَٰٓؤُا۟ مِنكُمْ وَمِمَّا تَعْبُدُونَ مِن دُونِ ٱللَّهِ كَفَرْنَا بِكُمْ وَبَدَا بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمُ ٱلْعَدَٰوَةُ وَٱلْبَغْضَآءُ أَبَدًا حَتَّىٰ تُؤْمِنُوا۟ بِٱللَّهِ وَحْدَهُۥٓ
ترجمہ: تمہیں ابراہیم اور ان کے رفقاء کی نیک چال چلنی (ضرور) ہے۔ جب انہوں نے اپنی قوم کے لوگوں سے کہا کہ ہم تم سے اور ان (بتوں) سے جن کو تم اللہ کے سوا پوجتے ہو بےتعلق ہیں (اور) تمہارے (معبودوں کے کبھی) قائل نہیں (ہوسکتے) اور جب تک تم اللہ واحد اور ایمان نہ لاؤ ہم میں تم میں ہمیشہ کھلم کھلا عداوت اور دشمنی رہے گی۔ (سورۃ الممتحنہ،آیت 4)
طاغوت کی ہمنوائی بلکہ حمایت کی ایک صورت یہ بھی ہے کہ ملکی انتخابات کی جاہلی رسم میں شرکت کی جائے اور ووٹ ڈالے جائیں اور ڈلوائے جائیں ۔اس بات سے بے نیاز اور بے پرواہ ہو کر ملک کا آئین/دستور منتخب ممبران اسمبلی کو آزادانہ قانون سازی کے کیا کیا خدائی اختیارات عطا کرتا ہے،اور یہ ارکان پارلیمنٹ بعد میں اللہ کے حق حاکمیت میں کس کس طرح ڈاکہ نہ ڈالیں گے ۔
طاغوت کے انتخابات کی صورت میں باطل کی ہمنوائی تو بہت بڑی بات ہے،اللہ نے تو ظالمین کی جانب تھوڑے سے جھکاؤ اور میلان کی وجہ سے جہنم کی وعید سنائی ہے:
وَلَا تَرْكَنُوٓا۟ إِلَى ٱلَّذِينَ ظَلَمُوا۟ فَتَمَسَّكُمُ ٱلنَّارُ
ترجمہ: اوران کی طرف مت جھکو جو ظالم ہیں پھر تمہیں بھی آگ چھوئے گی (سورۃ ھود،آیت 113)
شیخ الاسلام محمد بن عبدالوہاب سے اس جھکاؤ کی تفسیر بھی سن لیجئے:
ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں : (لا ترکنو) سے مراد میلان بھی نہ رکھو۔
عکرمہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:مراد ہے کہ تم ان کی بات نہ مانو ان سے محبت اور لگاؤ نہ رکھو،نہ انہیں (مسلمانوں کے) امور سونپو،مثلا کسی فاسق،فاجر کو کوئی عہدہ سونپ دیا جائے۔
امام سفیان ثوری فرماتے ہیں: جو ظالموں کے ظلم کے لیے دوات بنائے یا قلم تراشز دے یا انہیں کاغذ پکڑادے وہ بھی اس آیت کی وعید میں آتا ہے۔
ارشاد نبوی ﷺ ہے:
اذا قال الرجل للمنافق سید فقد اغضب ربہ عزوجل (مستدرک حاکم)
جب کسی شخص نے منافق کو سید کہا تو اس نے اپنے رب کو ناراض کیا۔
جناب بریدہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ "منافق کو صاحب تک بھی نہ کہو کیونکہ اگر وہ تمہارا صاحب ہے تو تم نے اپنے رب کو ناراض کر لیا۔"(مجموعۃ التوحید: 118-119)
اولیاء الطاغوت اور عباد الطاغوت سے کفر اور دشمنی کرنا اسی طرح فرض ہے جس طرح طاغوت سے کفر کرنا،کیونکہ جو اللہ کے دشمن کا دوست ہے وہ اللہ اور اس کے دوست کا دشمن ہے۔ہمیں یہ جان لینا چاہیے کہ طاغوت سے کفر کی صورت یہ ہے کہ طاغوت کے باطل ہونے کا اعتقاد رکھا جائے ۔اُس سے بغض اور عداوت رکھتے ہوئے اُس سے اور اُس کے ساتھیوں اور پیروکاروں سے علیحدہ رہا جائے ،اور اُن سب سے براءت اور دشمنی کا اعلان قول اور عمل دونوں کے ساتھ کیا جائے۔
اسلامی شریعت میں مشرکوں سے مخالفت فرض ہے۔مگر طاغوت سے کفر و براءت (بیزاری)اسلام کا فرض اولین ہے۔یہ ہو نہیں سکتا کہ کسی موحد کی طاغوت یا اُس کے ساتھیوں اور پیروکاروں کے ساتھ دوستی ہو۔کیونکہ تحریک اسلامی کی ٹکر طاغوت سے ہونا ناگزیر ہے۔اہل حق و باطل میں معرکہ عنقریب ہونے والا ہےلہذا اہل حق کا فرض ہے کہ اپنے ہتھیاروں سے لیس ہوں اور دشمنان دین کے خلاف اللہ سے مدد و استقامت طلب کریں دشمن مرتدین کی شکل میں سامنے ہے اور ان کی پشت پر یہودونصاری اور لادین طبقات ہیں جنہوں نے خود کو علم و عمل سے مسلح کر رکھا ہے اب مسلمانوں سے یہی التجا ہے کہ مسلمان بھائیو،بیٹو،جوانو ،موت کی طرف بڑھو زندگی خود بخود تمہارے قدم چومے گی۔
اللہ جل جلالہ سے دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمین توحید خالص کو سمجھنے،اس پر عمل کرنے اور اسے لوگوں میں عام کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔(آمین)
(کتاب عقیدۃ الموحدین از ابوعبداللہ الرحمن السلفی)​
 
Top