• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اپنے آپکو خود کش حملے میں اُڑانے کا حکم ؟؟؟

شمولیت
فروری 04، 2016
پیغامات
203
ری ایکشن اسکور
13
پوائنٹ
27
یہ مراسلہ خودکش حملوں کی مخالفت میں لکھا گیا تھا لیکن اب آپ سب لوگوں کے کمنٹس سے یہ ظاہر ہو رہا ہے کہ آپ سب خودکش حملہ کو جائز سمجھتے ہیں۔ اِس لیے بھتر ہے کہ اب میں یہاں پر کوئی پوسٹ نہ کروں۔ یہ الگ بات ہے کہ آپ کسی صورت میں خودکش حملہ حرام و حلال سمجھتے ہیں۔ لیکن اِس بات پر سب متفعق ہیں کہ مسلمانوں اور وہ کفار جو جزیہ دیتے ہوں اُن پر خودکش حملہ کرنا حرام ہے ۔
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,682
ری ایکشن اسکور
752
پوائنٹ
290
لیکن اِس بات پر سب متفعق ہیں کہ مسلمانوں اور وہ کفار جو جزیہ دیتے ہوں اُن پر خودکش حملہ کرنا حرام ہے ۔
میرا بھی یہی خیال ہے۔ ہاں یہ ممکن ہے کہ مسلمان کی تعریف و تقیید الگ الگ ہو۔ (ابتسامہ)
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
میرا خیال ہے کہ ہمیں خود کش حملہ کرنے نہ کرنے میں مفاسد کے لحاظ سے فرق کرنا چاہیے۔ جہاں ایسا معاملہ ہو کہ اگر خود کش حملہ نہ کیا جائے تو عامۃ المسلمین کو سخت ضرر ہو وہاں جائز ہونا چاہیے جیسے ٹینک کے نیچے بم باندھنے والے معاملے میں تھا۔
اور جہاں ایسا نہ ہو وہاں اسے ناجائز قرار دینا چاہیے۔
کیوں کہ خود کشی بے شک حرام ہے لیکن عامۃ المسلمین کا ضرر شدید اس سے بھی بڑی مصیبت ہے۔ ایسی صورت میں اہون البلیتین (دو مصیبتوں میں سے آسان) کو اختیار کیا جاتا ہے۔ لا یکلف اللہ نفسا الا وسعہا۔
جب بات ’مصالح و مفاسد ‘ پر آجائے ، تو پھر ’ فائدہ یا نقصان ‘ کی تعیین کا حق صرف کسی ایک فریق کو نہیں دیا جائے گا ۔ اسی لیے میں نے اوپر گزارش کی تھی کہ اس طرح کے معاملات میں ’ صرف عالم ‘ کی بات پر اکتفا کی بجائے ’ اہل علم و جہاد ‘ کی رائے کو فوقیت دینی چاہیے ۔ واللہ أعلم ۔
 

عبدالرحمن بھٹی

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 13، 2015
پیغامات
2,435
ری ایکشن اسکور
293
پوائنٹ
165
جب بات ’مصالح و مفاسد ‘ پر آجائے ، تو پھر ’ فائدہ یا نقصان ‘ کی تعیین کا حق صرف کسی ایک فریق کو نہیں دیا جائے گا ۔ اسی لیے میں نے اوپر گزارش کی تھی کہ اس طرح کے معاملات میں ’ صرف عالم ‘ کی بات پر اکتفا کی بجائے ’ اہل علم و جہاد ‘ کی رائے کو فوقیت دینی چاہیے ۔
اہلِ علم و جہاد“ کی وضاحت فرمادیں۔ شکریہ
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
”اہلِ علم و جہاد“ کی وضاحت فرمادیں۔ شکریہ
جو علماء بھی ہوں ، اور مجاہد بھی ۔ صرف ’ عالم ‘ بعض دفعہ جہاد و قتال کی ضروریات کو نہیں سمجھ سکتا ، جبکہ صرف ’ مجاہد ‘ شرعی احکام کی پیچیدگیوں سے ناواقف ہوسکتا ہے ۔
 
شمولیت
ستمبر 21، 2015
پیغامات
2,697
ری ایکشن اسکور
762
پوائنٹ
290
جو علماء بھی ہوں ، اور مجاہد بھی ۔ صرف ’ عالم ‘ بعض دفعہ جہاد و قتال کی ضروریات کو نہیں سمجھ سکتا ، جبکہ صرف ’ مجاہد ‘ شرعی احکام کی پیچیدگیوں سے ناواقف ہوسکتا ہے ۔
جزاک اللہ خیرا
 

عبدالرحمن بھٹی

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 13، 2015
پیغامات
2,435
ری ایکشن اسکور
293
پوائنٹ
165
جو علماء بھی ہوں ، اور مجاہد بھی ۔ صرف ’ عالم ‘ بعض دفعہ جہاد و قتال کی ضروریات کو نہیں سمجھ سکتا ، جبکہ صرف ’ مجاہد ‘ شرعی احکام کی پیچیدگیوں سے ناواقف ہوسکتا ہے ۔
یہ آپ کی اپنی سوچ ہے یا اس پر کوئی دلیل بھی ہے؟
 

فواد

رکن
شمولیت
دسمبر 28، 2011
پیغامات
434
ری ایکشن اسکور
13
پوائنٹ
74

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

جب ہم تاريخ ميں مختلف افراد يا تنظیموں کی جانب سے خودکش حملوں کے رجحان کی بات کرتے ہيں اور پھر حاليہ برسوں ميں القائدہ، طالبان اور ديگر دہشت گرد تنظيموں کی جانب سے دانستہ حکمت عملی کے تحت استحصال کا اس کے ساتھ موازنہ کرتے ہيں تو ايک واضح فرق بچوں کے استعمال کی صورت ميں آشکار ہوتا ہے، جو کبھی بھی اس پوزيشن ميں نہيں ہوتے کہ کوئ سياسی يا مذہبی فکر کی تشہير تو درکنار اپنے اچھے يا برے کا بھی خود سے درست تعين کر سکيں۔

يہ دليل جو کہ اس فکر سے جنم ليتی ہے کہ انتقام يا کسی مقدس تحريک کے ليے موت کو گلے لگا لينا غالب جذبے يا کسی بھی طور قابل توجيہہ مقصد کے زمرے ميں آتا ہے، اس حقيقت کے سامنے بے اثر ہو جاتی ہے کہ وہ بچے جنھيں زبردستی، جذباتی طور پر بليک ميل کر کے يا برين واش کر کے ان حملوں کے ليے اکسايا جاتا ہے وہ تو خود محض بے يارومدگار شکار ہوتے ہيں جو ان اصل مجرموں کے ہاتھوں ميں ہتھيار کے طور پر استعمال ہوتے ہيں جو دہشت اور بربادی کی مہم کے ذريعے محض اپنے سياسی ايجنڈے کو آگے بڑھانے ميں دلچسپی رکھتے ہیں۔

دہشت گردی کی موجودہ لہر، خاص طور پر اگر ہم پاکستان اور افغانستان پر توجہ مرکوز کريں تو پھر تو انتقام، غم وغصہ يا کسی نام نہاد مغربی تسلط کے خلاف کھڑے ہونے کا جذبہ ايسے دلائل ہيں جنھيں منطقی اعتبار سے قبول کرنا قريب ناممکن ہو جاتا ہے کيونکہ اس خطے ميں اکثر خودکش حملہ آور بالغ بھی نہيں ہيں۔ علاوہ ازيں غم سے نڈھال کوئ متاثر جو بظاہر اپنے گھر والوں يا عزير واقارب کے ليے انتقام کے جذبے سے سرشار ہے، وہ کيونکر جانتے بوجھتے ہوۓ کسی بازار، ہسپتال، سکول يا کسی اور عوامی مقام پر اپنے آپ کو دھماکے سے اڑا کر درجنوں اجنبيوں کو ہلاک کر کے ممکنہ طور پر سينکڑوں گھرانوں کی بربادی کا باعث بنے گا، يہ جانتے ہوۓ کہ اس کی اس حرکت سے انھی قوتوں کی خواہشات اور سياسی ضروريات کو جلا ملے گی جو اس کے غم کے ذمہ دار تھے؟

يہ کوئ خفيہ امر نہيں ہے کہ خودکش حملوں کی مہم سے جنم لينے والی افراتفری اور بربادی سے جو عناصر تقويت پاتے ہيں وہ القائدہ اور اس سے منسلک وہ دہشت گرد گروہ ہيں جو ہميشہ اپنے تشہيری مواد اور تحريروں ميں ان حملوں کو اپنی "عظيم کاميابی" قرار دے کر اس پر اتراتے ہيں۔

خودکش حملہ آوروں يا ان کے مقاصد کے بارے میں کوئ بھی تعميری گفتگو اس وقت تک ممکن نہيں ہے جب تک کہ ان خود کش حملہ آوروں کی ببتا سن اور پڑھ نا لی جاۓ جو يا تو پکڑے گۓ يا ان دہشت گردوں کے چنگل سے بچ کر نکلنے ميں کامياب ہو گۓ جو انتہائ بے شرمی سے اپنے مکروہ مقاصد کی تکميل کے ليے مذہب اور بے سروپا سياسی نعروں کا لبادہ استعمال کرتے ہيں۔

جس کسی ميں بھی انسانيت کی کوئ رمق باقی ہو گی وہ اس سارے عمل کی حقيقت سے انکار نہيں کر سکتا۔ يہ مجرموں کی جانب سے بچوں کو استعال کرنے کا قبيح اور ظالمانہ فعل ہے،جو محض اپنے عزائم کی تکمیل ميں دلچسپی رکھتے ہيں۔
کسی بھی قسم کی جذباتی فقرے بازی، مذہبی حوالہ جات اور مختلف تناظر ميں پيش آنے والے تاريخی واقعات کی پڑتال سےاس واضح سچ کو چھپايا نہيں جا سکتا کہ ذہنی طور پر معذور اور برين واش کيے گۓ بچوں کو ہتھيار کے طور پر استعمال کرنا نا تو بہادری کے زمرے ميں آتا ہے اور نا ہی دنيا کے کسی بھی مذہب کی جانب سے اس کو درست قرار ديا جا سکتا ہے۔​
فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

digitaloutreach@state.gov

www.state.gov

https://twitter.com/USDOSDOT_Urdu

http://www.facebook.com/USDOTUrdu

 

عبدالرحمن بھٹی

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 13، 2015
پیغامات
2,435
ری ایکشن اسکور
293
پوائنٹ
165
جب ہم تاريخ ميں مختلف افراد يا تنظیموں کی جانب سے خودکش حملوں کے رجحان کی بات کرتے ہيں اور پھر حاليہ برسوں ميں القائدہ، طالبان اور ديگر دہشت گرد تنظيموں کی جانب سے دانستہ حکمت عملی کے تحت استحصال کا اس کے ساتھ موازنہ کرتے ہيں تو ايک واضح فرق بچوں کے استعمال کی صورت ميں آشکار ہوتا ہے، جو کبھی بھی اس پوزيشن ميں نہيں ہوتے کہ کوئ سياسی يا مذہبی فکر کی تشہير تو درکنار اپنے اچھے يا برے کا بھی خود سے درست تعين کر سکيں۔

يہ دليل جو کہ اس فکر سے جنم ليتی ہے کہ انتقام يا کسی مقدس تحريک کے ليے موت کو گلے لگا لينا غالب جذبے يا کسی بھی طور قابل توجيہہ مقصد کے زمرے ميں آتا ہے، اس حقيقت کے سامنے بے اثر ہو جاتی ہے کہ وہ بچے جنھيں زبردستی، جذباتی طور پر بليک ميل کر کے يا برين واش کر کے ان حملوں کے ليے اکسايا جاتا ہے وہ تو خود محض بے يارومدگار شکار ہوتے ہيں جو ان اصل مجرموں کے ہاتھوں ميں ہتھيار کے طور پر استعمال ہوتے ہيں جو دہشت اور بربادی کی مہم کے ذريعے محض اپنے سياسی ايجنڈے کو آگے بڑھانے ميں دلچسپی رکھتے ہیں۔
قدرتی آفات کے متاثرہ علاقوں سے جن معصوم بچوں کو ”اینجیوز“ اپنی کفالت میں لے لیتی ہیں ان کا ڈیٹا کسی کو معلوم ہے؟ وہ کہاں ہیں اور کس حال میں ہیں اور ان کو کہاں کہاں استعمال کیا جا چکا ہے؟
 
Top