• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اپنے دروازہ کی چوکھٹ تبدیل کردیں

ابو عکاشہ

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 30، 2011
پیغامات
412
ری ایکشن اسکور
1,491
پوائنٹ
150
اپنے دروازہ کی چوکھٹ تبدیل کردیں
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت کرتے ہیں کہ عورتوں نے سب سے پہلے ازار بند بنانا سیدنا اسماعیل کی ماں سے سیکھا انہوں نے ازار بند بنایا تاکہ اپنے نشانات کو سارہ سے چھپائیں پھر انہیں اور ان کے لڑکے اسماعیل کو سیدناابراہیم علیہ السلام لے کر آئے اور وہ انہیں دودھ پلاتی تھیں تو ان دونوں کو مسجد کے اوپری حصہ میں زمزم کے پاس کعبہ کے قریب ایک درخت کے پاس بٹھا دیا اور اس وقت مکہ میں نہ تو آدمی تھا نہ پانی ابراہیم نے انہیں وہاں بٹھا دیا اور ان کے پاس ایک چمڑے کے تھیلے میں کھجوریں اور مشکیزہ میں پانی رکھ دیا اس کے بعد ابراہیم لوٹ کر چلے تو اسماعیل کی والدہ نے ان کے پیچھے دوڑ کر کہا اے ابراہیم کہا جا رہے ہو اور ہمیں ایسے جنگل میں جہاں نہ کوئی آدمی ہے نہ اور کچھ (کس کے سہارے چھوڑے جا رہے ہو؟) اسماعیل کی والدہ نے یہ چند مرتبہ کہا مگرسیدنا ابراہیم نے ان کی طرف مڑ کر بھی نہ دیکھا اسماعیل کی والدہ نے کہا کیا اللہ تعالیٰ نے آپ کو اس کا حکم دیا ہے؟ انہوں نے کہا ہاں!سیدہ ہاجرہ نے کہا تو اب اللہ بھی ہم کو برباد نہیں کرے گا پھر وہ واپس چلی آئیں اور سیدنا ابرہیم چلے گئے حتیٰ کہ وہ ثنیہ کے پاس پہنچے، جہاں سے وہ لوگ انہیں دیکھ نہ سکتے تھے، تو انہوں نے اپنا منہ کعبہ کی طرف کر کے دونوں ہاتھ اٹھا کر یہ دعا کی کہ ( اے ہمارے رب میں اپنی اولاد کو آپ کے معظم گھر کے قریب ایک (کفدست) میدان میں جو زراعت کے قابل نہیں آباد کرتا ہوں) اورسیدنا اسماعیل علیہ السلام کی والدہ انہیں دودھ پلاتی تھیں اور اس مشکیزہ کا پانی پیتی تھیں حتی کہ جب وہ پانی ختم ہو گیا تو انہیں اور ان کے بچہ کو (سخت) پیاس لگی وہ اس بچہ کو دیکھنے لگیں کہ وہ مارے پیاس کے تڑپ رہا ہے یا فرمایا کہ ایڑیاں رگڑ رہا ہے وہ اس منظر کو دیکھنے کی تاب نہ لا کر چلیں اور انہوں نے اپنے قریب جو اس جگہ کے متصل تھا کوہ صفا کو دیکھا پس وہ اس پر چڑھ کر کھڑی ہوئیں اور جنگل کی طرف منہ کرکے دیکھنے لگیں کہ کوئی نظر آتا ہے یا نہیں؟ تو ان کو کوئی نظر نہ آیا (جس سے پانی مانگیں) پھر وہ صفا سے اتریں جب وہ نشیب میں پہنچیں تو اپنا دامن اٹھا کے ایسے دوڑیں جیسے کوئی سخت مصیب زدہ آدمی دوڑتا ہے حتیٰ کہ اس نشیب سے گزر گئیں پھر وہ کوہ مروہ پر آکر کھڑی ہوئیں اور ادھر ادھر دیکھا کہ کوئی نظر آتا ہے یا نہیں تو انہیں کوئی نظر نہ آیا اسی طرح انہوں نے سات مرتبہ کیا ابن عباس رضی اللہ عنہ نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اسی لئے لوگ صفا و مروہ کے درمیان سعی کرتے ہیں جب وہ آخری دفعہ کوہ مروہ پر چڑھیں تو انہوں نے ایک آواز سنی خود ہی کہنے لگیں ذرا ٹھہر کر سننا چاہئے تو انہوں نے کان لگایا تو پھر بھی آواز سنی خود ہی کہنے لگیں (اے شخص) تو نے آواز تو سنا دی کاش کہ تیرے پاس فریاد رسی بھی ہو، یکایک ایک فرشتہ کو مقام زمزم میں دیکھا اس فرشتہ نے اپنی ایڑی ماری یا فرمایا کہ اپنا پر مارا حتیٰ کہ پانی نکل آیا ہاجرہ اسے حوض کی شکل میں بنا کر روکنے لگیں اور ادھر ادھر کرنے لگیں اور چلو بھر بھر کے اپنی مشک میں ڈالنے لگیں ان کے چلو بھرنے کے بعد پانی زمین سے ابلنے لگا۔ ابن عباس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ اسماعیل کی والدہ پر رحم فرمائے اگر وہ زمزم کو (روکتی نہیں بلکہ) چھوڑ دیتیں یا فرمایا چلو بھر بھر کے نہ ڈالتیں تو زمزم ایک جاری رہنے والا چشمہ ہوتا پھر فرمایا کہ انہوں نے پانی پیا اور بچہ کو پلایا پھر ان سے فرشتہ نے کہا کہ تم اپنی ہلاکت کا اندیشہ نہ کرو کیونکہ یہاں بیت اللہ ہے جسے یہ لڑکا اور اس کے والد تعمیر کریں گے اور اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو ہلاک و برباد نہیں کرتا (اس وقت) بیت اللہ زمین سے ٹیلہ کی طرح اونچا تھا سیلاب آتے تھے تو اس کے دائیں بائیں کٹ جاتے تھے ہاجرہ اسی طرح رہتی رہیں ۔(روایت اختصار سے پیش کی جارہی ہے )

سیدنا اسماعیل کی والدہ سیدہ ہاجرہ (علیہما السلام )وفات پاگئیں سیدنا ابراہیم علیہ السلام اپنے چھوڑے ہوؤں کو دیکھنے کے لئے اسماعیل کے نکاح کے بعد تشریف لائے تو اسماعیل کو نہ پایا ان کی بیوی سے معلوم کیا تو اس نے کہا کہ وہ ہمارے لئے رزق تلاش کرنے گئے ہیں پھر ابراہیم علیہ السلام نے اس سے بسر اوقات اور حالت معلوم کی تو اس عورت نے کہا ہماری بری حالت ہے اور ہم بڑی تنگی اور پریشانی میں مبتلا ہیں (گویا) انہوں نے سیدنا ابراہیم سے شکوہ کیا ابراہیم علیہ السلام نے کہا کہ جب تمہارے شوہر آ جائیں تو ان سے میرا سلام کہنا اور یہ کہنا کہ اپنے دروازہ کی چوکھٹ تبدیل کردیں جب اسماعیل علیہ السلام واپس آئے تو گویا انہوں نے اپنے والد کی تشریف آوری کے آثار پائے تو کہا کیا تمہارے پاس کوئی آدمی آیا تھا ؟ بیوی نے کہا ہاں! ایسا ایسا ایک بوڑھا شخص آیا تھا اس نے آپ کے بارے میں پوچھا تو میں نے بتا دیا اور اس نے ہماری بسر اوقات کے متعلق دریافت کیا تو میں نے بتا دیا کہ ہم تکلیف اور سختی میں ہیں سید نا اسماعیل نے کہا کیا انہوں نے کچھ پیغام دیا ہے؟ کہا ہاں! مجھ کو حکم دیا تھا کہ تمہیں ان کا سلام پہنچا دوں اور وہ کہتے تھے تم اپنے دروازہ کی چوکھٹ بدل دو اسماعیل نے کہا وہ میرے والد تھے اور انہوں نے مجھے تم کو جدا کرنے کا حکم دیا ہے لہذا تم اپنے گھر چلی جاؤ اور اس کو طلاق دے دی اور بنو جرہم کی کسی دوسری عورت سے نکاح کر لیا کچھ مدت کے بعد ابراہیم پھر آئے تو اسماعیل کو نہ پایا ان کی بیوی کے پاس آئے اور اس سے دریافت کیا تو اس نے کہا وہ ہمارے لئے رزق تلاش کرنے گئے ہیں ابراہیم علیہ السلام نے پوچھا تمہارا کیا حال ہے؟ اور ان کی بسر اوقات معلوم کی اس نے کہا ہم اچھی حالت اور فراخی میں ہیں اور اللہ کی تعریف کی ابراہیم علیہ السلام نے پوچھا تمہاری غذا کیا ہے؟ انہوں نے کہا گوشت سیدنا ابراہیم نے پوچھا تمہارے پینے کی کیا چیز ہے؟ انہوں نے کہا پانی، ابراہیم علیہ السلام نے دعا کی اے اللہ! ان کے لئے گوشت اور پانی میں برکت عطا فرما۔ رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس وقت وہاں غلہ نہ ہوتا تھا اگر غلہ ہوتا تو اس میں بھی ان کے لئے دعا کرتے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کوئی شخص مکہ کے سوا کسی اور جگہ گوشت اور پانی پر گزارہ نہیں کرسکتا صرف گوشت اور پانی مزاج کے موافق نہیں آ سکتا ابراہیم نے کہا جب تمہارے شوہر آ جائیں تو ان سے میرا سلام کہنا اور انہیں میری طرف سے یہ حکم دینا کہ اپنے دروازہ کی چوکھٹ باقی رکھیں جب سیدنا اسماعیل آئے تو پوچھا کیا تمہارے پاس کوئی آدمی آیا تھا ؟ بیوی نے کہا ہاں! ایک بزرگ خوبصورت پاکیزہ سیرت آئے تھے اور ان کی تعریف کی تو انہوں نے مجھ سے آپ کے بارے میں پوچھا تو میں نے بتا دیا پھر مجھ سے ہماری بسراوقات کے متعلق پوچھا تو میں نے بتایا کہ ہم بڑی اچھی حالت میں ہیں اسماعیل نے کہا کہ تمہیں وہ کوئی حکم دے گئے ہیں انہوں نے کہا کہ وہ آپ کو سلام کہہ گئے ہیں اور حکم دے گئے ہیں کہ آپ اپنے دروازہ کی چوکھٹ باقی رکھیں اسماعیل علیہ السلام نے کہا وہ میرے والد تھے اور چوکھٹ سے تم مراد ہو گویا انہوں نے مجھے یہ حکم دیا کہ تمہیں اپنی زوجیت میں باقی رکھوں پھرسیدنا ابراہیم کچھ مدت کے بعد پھر آئے اور سیدنا اسماعیل کو زمزم کے قریب ایک درخت کے سایہ میں بیٹھے ہوئے اپنے تیر بناتے پایا جب سیدنا اسماعیل نے انہیں دیکھا تو ان کی طرف بڑھے اور دونوں نے ایسا معاملہ کیا جیسے والد لڑکے سے اور لڑکا والد سے کرتا ہے سیدنا ابراہیم نے کہا اے اسماعیل! اللہ نے مجھے ایک کام کا حکم دیا ہے انہوں نے عرض کیا کہ اس حکم کے مطابق عمل کیجئے ابراہیم بولے کیا تم میرا ہاتھ بٹاؤ گے؟ اسماعیل نے کہاں ہاں! میں آپ کا ہاتھ بٹاؤ ن گا ابراہیم علیہ السلام نے کہا کہ اللہ نے مجھے یہاں بیت اللہ بنانے کا حکم دیا ہے اور آپ نے اس اونچے ٹیلے کی طرف اشارہ کیا یعنی اس کے گردا گرد ان دونوں نے کعبہ کی دیواریں بلند کیں اسماعیل پتھر لاتے تھے اور ابراہیم تعمیر کرتے تھے حتیٰ کہ جب دیوار بلند ہوئی تو سیدنااسماعیل ایک پتھر کو اٹھا لائے اور اسے ابراہیم علیہ السلام کے لئے رکھ دیا سیدنا ابراہیم اس پر کھڑے ہو کر تعمیر کرنے لگے اور سیدنااسماعیل انہیں پتھر دیتے تھے اور دونوں یہ دعا کرتے رہے کہ اے پروردگار! ہم سے (یہ کام) قبول فرما بیشک تو سننے والا جاننے والا ہے پھر دونوں تعمیر کرنے لگے اور کعبہ کے گرد گھوم کر یہ کہتے جاتے تھے اے ہمارے پروردگار ہم سے (یہ کام) قبول فرما بیشک تو سننے والا جاننے والا ہے


صحیح بخاری:جلد دوم:حدیث نمبر 599 کتاب الانبیاء
 

باذوق

رکن
شمولیت
فروری 16، 2011
پیغامات
888
ری ایکشن اسکور
4,011
پوائنٹ
289
اپنے دروازہ کی چوکھٹ تبدیل کردیں
ابراہیم علیہ السلام نے کہا کہ جب تمہارے شوہر آ جائیں تو ان سے میرا سلام کہنا اور یہ کہنا کہ اپنے دروازہ کی چوکھٹ تبدیل کردیں جب اسماعیل علیہ السلام واپس آئے تو گویا انہوں نے اپنے والد کی تشریف آوری کے آثار پائے تو کہا کیا تمہارے پاس کوئی آدمی آیا تھا ؟ بیوی نے کہا ہاں! ایسا ایسا ایک بوڑھا شخص آیا تھا اس نے آپ کے بارے میں پوچھا تو میں نے بتا دیا اور اس نے ہماری بسر اوقات کے متعلق دریافت کیا تو میں نے بتا دیا کہ ہم تکلیف اور سختی میں ہیں سید نا اسماعیل نے کہا کیا انہوں نے کچھ پیغام دیا ہے؟ کہا ہاں! مجھ کو حکم دیا تھا کہ تمہیں ان کا سلام پہنچا دوں اور وہ کہتے تھے تم اپنے دروازہ کی چوکھٹ بدل دو اسماعیل نے کہا وہ میرے والد تھے اور انہوں نے مجھے تم کو جدا کرنے کا حکم دیا ہے لہذا تم اپنے گھر چلی جاؤ اور اس کو طلاق دے دی
کچھ عرصہ قبل ہمارے ایک دوست اسی حدیث کے متعلق گفتگو کرتے ہوئے دریافت کر رہے تھے کہ ۔۔۔ کہ بیویوں کے اس طرح کے طرز عمل پر نبی علیہ السلام کا طلاق والا حکم خاص ہے یا عام؟ ونیز موجودہ دور میں ، جیسا کہ عام مشاہدہ ہے کہ تقریباً ہر خاتون خانہ کا طرز عمل ایسا ہی ہوتا ہے ، تب کیا ابراہیم علیہ السلام کی جگہ کوئی سرپرست یا بزرگ ایسا ہی "طلاق" والا مشورہ دے ، تو یہ صائب مشورہ کہلائے گا؟
اس موضوع کی بحث کا ماحاصل یہ تھا کہ ، متذکرہ حکم ایک نبی کا خصوصی حکم تھا جسے ہر عام آدمی پر لاگو کرنا درست نہیں کیونکہ ذخیرہ احادیث اور سیرتِ اسلام کے روشن گوشوں سے صبر و برداشت کی تلقین ہی ملتی ہے اور یہاں تک کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے واقعات سے بھی پتا چلتا ہے کہ وہ اپنی اہل کے متعلق حلم و برداشت سے ہی کام لیتے تھے۔ خود قرآن میں بھی امہات المومنین کے متعلق براہ راست 'طلاق' کا ذکر نہیں بلکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو مشورہ دیا گیا تھا کہ وہ انہیں کہیں کہ :
إِن كُنتُنَّ تُرِدْنَ الْحَيَاةَ الدُّنْيَا وَزِينَتَهَا فَتَعَالَيْنَ أُمَتِّعْكُنَّ وَأُسَرِّحْكُنَّ سَرَاحًا جَمِيلاً

باقی اللہ بہتر جانتا ہے۔
 

ابو عکاشہ

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 30، 2011
پیغامات
412
ری ایکشن اسکور
1,491
پوائنٹ
150
قال ابن عباس أول ما اتخذ النسائ المنطق من قبل أم إسماعيل اتخذت منطقا لتعفي أثرها علی سارة ثم جائ بها إبراهيم وبابنها إسماعيل وهي ترضعه حتی وضعهما عند البيت عند دوحة فوق زمزم في أعلی المسجد وليس بمکة يومئذ أحد وليس بها مائ فوضعهما هنالک ووضع عندهما جرابا فيه تمر وسقائ فيه مائ ثم قفی إبراهيم منطلقا فتبعته أم إسماعيل فقالت يا إبراهيم أين تذهب وتترکنا بهذا الوادي الذي ليس فيه إنس ولا شيئ فقالت له ذلک مرارا وجعل لا يلتفت إليها فقالت له أالله الذي أمرک بهذا قال نعم قالت إذن لا يضيعنا ثم رجعت فانطلق إبراهيم حتی إذا کان عند الثنية حيث لا يرونه استقبل بوجهه البيت ثم دعا بهؤلائ الکلمات ورفع يديه فقال رب إني أسکنت من ذريتي بواد غير ذي زرع عند بيتک المحرم حتی بلغ يشکرون وجعلت أم إسماعيل ترضع إسماعيل وتشرب من ذلک المائ حتی إذا نفد ما في السقائ عطشت وعطش ابنها وجعلت تنظر إليه يتلوی أو قال يتلبط فانطلقت کراهية أن تنظر إليه فوجدت الصفا أقرب جبل في الأرض يليها فقامت عليه ثم استقبلت الوادي تنظر هل تری أحدا فلم تر أحدا فهبطت من الصفا حتی إذا بلغت الوادي رفعت طرف درعها ثم سعت سعي الإنسان المجهود حتی جاوزت الوادي ثم أتت المروة فقامت عليها ونظرت هل تری أحدا فلم تر أحدا ففعلت ذلک سبع مرات قال ابن عباس قال النبي صلی الله عليه وسلم فذلک سعي الناس بينهما فلما أشرفت علی المروة سمعت صوتا فقالت صه تريد نفسها ثم تسمعت فسمعت أيضا فقالت قد أسمعت إن کان عندک غواث فإذا هي بالملک عند موضع زمزم فبحث بعقبه أو قال بجناحه حتی ظهر المائ فجعلت تحوضه وتقول بيدها هکذا وجعلت تغرف من المائ في سقائها وهو يفور بعد ما تغرف قال ابن عباس قال النبي صلی الله عليه وسلم يرحم الله أم إسماعيل لو ترکت زمزم أو قال لو لم تغرف من المائ لکانت زمزم عينا معينا قال فشربت وأرضعت ولدها فقال لها الملک لا تخافوا الضيعة فإن ها هنا بيت الله يبني هذا الغلام وأبوه وإن الله لا يضيع أهله وکان البيت مرتفعا من الأرض کالرابية تأتيه السيول فتأخذ عن يمينه وشماله فکانت کذلک حتی مرت بهم رفقة من جرهم أو أهل بيت من جرهم مقبلين من طريق کدائ فنزلوا في أسفل مکة فرأوا طائرا عائفا فقالوا إن هذا الطائر ليدور علی مائ لعهدنا بهذا الوادي وما فيه مائ فأرسلوا جريا أو جريين فإذا هم بالمائ فرجعوا فأخبروهم بالمائ فأقبلوا قال وأم إسماعيل عند المائ فقالوا أتأذنين لنا أن ننزل عندک فقالت نعم ولکن لا حق لکم في المائ قالوا نعم قال ابن عباس قال النبي صلی الله عليه وسلم فألفی ذلک أم إسماعيل وهي تحب الإنس فنزلوا وأرسلوا إلی أهليهم فنزلوا معهم حتی إذا کان بها أهل أبيات منهم وشب الغلام وتعلم العربية منهم وأنفسهم وأعجبهم حين شب فلما أدرک زوجوه امرأة منهم وماتت أم إسماعيل فجائ إبراهيم بعدما تزوج إسماعيل يطالع ترکته فلم يجد إسماعيل فسأل امرأته عنه فقالت خرج يبتغي لنا ثم سألها عن عيشهم وهيئتهم فقالت نحن بشر نحن في ضيق وشدة فشکت إليه قال فإذا جائ زوجک فاقرئي عليه السلام وقولي له يغير عتبة بابه فلما جائ إسماعيل کأنه آنس شيئا فقال هل جائکم من أحد قالت نعم جائنا شيخ کذا وکذا فسألنا عنک فأخبرته وسألني کيف عيشنا فأخبرته أنا في جهد وشدة قال فهل أوصاک بشيئ قالت نعم أمرني أن أقرأ عليک السلام ويقول غير عتبة بابک قال ذاک أبي وقد أمرني أن أفارقک الحقي بأهلک فطلقها وتزوج منهم أخری فلبث عنهم إبراهيم ما شائ الله ثم أتاهم بعد فلم يجده فدخل علی امرأته فسألها عنه فقالت خرج يبتغي لنا قال کيف أنتم وسألها عن عيشهم وهيئتهم فقالت نحن بخير وسعة وأثنت علی الله فقال ما طعامکم قالت اللحم قال فما شرابکم قالت المائ قال اللهم بارک لهم في اللحم والمائ قال النبي صلی الله عليه وسلم ولم يکن لهم يومئذ حب ولو کان لهم دعا لهم فيه قال فهما لا يخلو عليهما أحد بغير مکة إلا لم يوافقاه قال فإذا جائ زوجک فاقرئي عليه السلام ومريه يثبت عتبة بابه فلما جائ إسماعيل قال هل أتاکم من أحد قالت نعم أتانا شيخ حسن الهيئة وأثنت عليه فسألني عنک فأخبرته فسألني کيف عيشنا فأخبرته أنا بخير قال فأوصاک بشيئ قالت نعم هو يقرأ عليک السلام ويأمرک أن تثبت عتبة بابک قال ذاک أبي وأنت العتبة أمرني أن أمسکک ثم لبث عنهم ما شائ الله ثم جائ بعد ذلک وإسماعيل يبري نبلا له تحت دوحة قريبا من زمزم فلما رآه قام إليه فصنعا کما يصنع الوالد بالولد والولد بالوالد ثم قال يا إسماعيل إن الله أمرني بأمر قال فاصنع ما أمرک ربک قال وتعينني قال وأعينک قال فإن الله أمرني أن أبني ها هنا بيتا وأشار إلی أکمة مرتفعة علی ما حولها قال فعند ذلک رفعا القواعد من البيت فجعل إسماعيل يأتي بالحجارة وإبراهيم يبني حتی إذا ارتفع البنائ جائ بهذا الحجر فوضعه له فقام عليه وهو يبني وإسماعيل يناوله الحجارة وهما يقولان ربنا تقبل منا إنک أنت السميع العليم قال فجعلا يبنيان حتی يدورا حول البيت وهما يقولان ربنا تقبل منا إنک أنت السميع
 

ابو عکاشہ

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 30، 2011
پیغامات
412
ری ایکشن اسکور
1,491
پوائنٹ
150
کچھ عرصہ قبل ہمارے ایک دوست اسی حدیث کے متعلق گفتگو کرتے ہوئے دریافت کر رہے تھے کہ ۔۔۔ کہ بیویوں کے اس طرح کے طرز عمل پر نبی علیہ السلام کا طلاق والا حکم خاص ہے یا عام؟ ونیز موجودہ دور میں ، جیسا کہ عام مشاہدہ ہے کہ تقریباً ہر خاتون خانہ کا طرز عمل ایسا ہی ہوتا ہے ، تب کیا ابراہیم علیہ السلام کی جگہ کوئی سرپرست یا بزرگ ایسا ہی "طلاق" والا مشورہ دے ، تو یہ صائب مشورہ کہلائے گا؟
اس موضوع کی بحث کا ماحاصل یہ تھا کہ ، متذکرہ حکم ایک نبی کا خصوصی حکم تھا جسے ہر عام آدمی پر لاگو کرنا درست نہیں کیونکہ ذخیرہ احادیث اور سیرتِ اسلام کے روشن گوشوں سے صبر و برداشت کی تلقین ہی ملتی ہے اور یہاں تک کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے واقعات سے بھی پتا چلتا ہے کہ وہ اپنی اہل کے متعلق حلم و برداشت سے ہی کام لیتے تھے۔ خود قرآن میں بھی امہات المومنین کے متعلق براہ راست 'طلاق' کا ذکر نہیں بلکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو مشورہ دیا گیا تھا کہ وہ انہیں کہیں کہ :
إِن كُنتُنَّ تُرِدْنَ الْحَيَاةَ الدُّنْيَا وَزِينَتَهَا فَتَعَالَيْنَ أُمَتِّعْكُنَّ وَأُسَرِّحْكُنَّ سَرَاحًا جَمِيلاً

باقی اللہ بہتر جانتا ہے۔
بھائی یہ حدیث رسول مقبول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی دیکھیں اس مسئلہ میں:

سعید بن ابی مریم، محمد بن جعفر، زید بن اسلم، عیاض بن عبداللہ ، حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عیدالاضحی یا عیدالفطر میں نکلے (واپسی میں) عورتوں کی جماعت پر گذر ہوا، تو آپ نے فرمایا کہ اے عورتو! صدقہ دو، اس لئے کہ میں نے تم کو دوزخ میں زیادہ دیکھا ہے، وہ بولیں یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وہ کیوں؟ آپ نے فرمایا کہ تم کثرت سے لعنت کرتی ہو اور شوہر کی ناشکری کرتی ہو اور تمہارے علاوہ میں نے کسی کو نہیں دیکھا کہ وہ دین اور عقل میں نا قص ہونے کے باوجود کسی پختہ عقل والے مرد پر غالب آجائے، عورتوں نے کہا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ ہمارے دین میں اور ہماری عقل میں کیا نقصان ہے؟ آپ نے فرمایا کیا عورت کی شہادت (شرعا ایک) مرد کی نصف شہادت کے برابر نہیں ہے؟ انہوں نے کہا ہاں! آپ نے فرمایا یہی اس کی عقل کا نقصان ہے، کیا ایسا نہیں ہے کہ جب عورت حائضہ ہوتی ہے، تو نہ نماز پڑھ سکتی ہے اور نہ روزہ رکھ سکتی ہے؟ انہوں نے کہا ہاں! آپ نے فرمایا بس یہی اس کے دین کا نقصان ہے۔
صحیح بخاری:جلد اول:حدیث نمبر 298 کتاب الحیض
'' یعنی کی عورت کے ساتھ یہ مسئلہ بہت پُرانا اور فطرتی ہے''
 

باذوق

رکن
شمولیت
فروری 16، 2011
پیغامات
888
ری ایکشن اسکور
4,011
پوائنٹ
289
بھائی یہ حدیث رسول مقبول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی دیکھیں اس مسئلہ میں:

سعید بن ابی مریم، محمد بن جعفر، زید بن اسلم، عیاض بن عبداللہ ، حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عیدالاضحی یا عیدالفطر میں نکلے (واپسی میں) عورتوں کی جماعت پر گذر ہوا، تو آپ نے فرمایا کہ اے عورتو! صدقہ دو، اس لئے کہ میں نے تم کو دوزخ میں زیادہ دیکھا ہے، وہ بولیں یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وہ کیوں؟ آپ نے فرمایا کہ تم کثرت سے لعنت کرتی ہو اور شوہر کی ناشکری کرتی ہو اور تمہارے علاوہ میں نے کسی کو نہیں دیکھا کہ وہ دین اور عقل میں نا قص ہونے کے باوجود کسی پختہ عقل والے مرد پر غالب آجائے، عورتوں نے کہا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ ہمارے دین میں اور ہماری عقل میں کیا نقصان ہے؟ آپ نے فرمایا کیا عورت کی شہادت (شرعا ایک) مرد کی نصف شہادت کے برابر نہیں ہے؟ انہوں نے کہا ہاں! آپ نے فرمایا یہی اس کی عقل کا نقصان ہے، کیا ایسا نہیں ہے کہ جب عورت حائضہ ہوتی ہے، تو نہ نماز پڑھ سکتی ہے اور نہ روزہ رکھ سکتی ہے؟ انہوں نے کہا ہاں! آپ نے فرمایا بس یہی اس کے دین کا نقصان ہے۔
صحیح بخاری:جلد اول:حدیث نمبر 298 کتاب الحیض
'' یعنی کی عورت کے ساتھ یہ مسئلہ بہت پُرانا اور فطرتی ہے''
بھئی سچی بات تو یہ ہے کہ اس حدیث کے سہارے ، عورت کی ناقص العقلی کی تائید و الٰہی حکمت پر میں ماضی میں طویل مباحث کر چکا ہوں :) جن میں سے ایک یہ : عورت - ناقص العقل / ناقص دین ؟؟
دوسری بات یہ کہ ۔۔۔ اس تھریڈ کی پہلی پوسٹ کے حوالے سے جو مسئلہ میں بیان کرنا چاہ رہا تھا ، اس مسئلے کے ضمن میں عورت کی ناقص العقل والی یہ حدیث غیر متعلق ہے۔ عورت کے دین کا نقصان ہونا یا عورت کا کم عقل ہونا ۔۔۔ اس بات کی گواہی نہیں کہ چند غلط الفاظ پر اسے طلاق دے کر رخصت کر دیا جائے ۔۔ اسی لیے میں نے وضاحت کی تھی کہ : حضرت ابراہیم علیہ السلام کا حکم ایک نبی کا خصوصی حکم تھا جسے ہر عام آدمی پر لاگو کرنا درست نہیں۔
 

ابو عکاشہ

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 30، 2011
پیغامات
412
ری ایکشن اسکور
1,491
پوائنٹ
150
بھئی سچی بات تو یہ ہے کہ اس حدیث کے سہارے ، عورت کی ناقص العقلی کی تائید و الٰہی حکمت پر میں ماضی میں طویل مباحث کر چکا ہوں :) جن میں سے ایک یہ : عورت - ناقص العقل / ناقص دین ؟؟
دوسری بات یہ کہ ۔۔۔ اس تھریڈ کی پہلی پوسٹ کے حوالے سے جو مسئلہ میں بیان کرنا چاہ رہا تھا ، اس مسئلے کے ضمن میں عورت کی ناقص العقل والی یہ حدیث غیر متعلق ہے۔ عورت کے دین کا نقصان ہونا یا عورت کا کم عقل ہونا ۔۔۔ اس بات کی گواہی نہیں کہ چند غلط الفاظ پر اسے طلاق دے کر رخصت کر دیا جائے ۔۔ اسی لیے میں نے وضاحت کی تھی کہ : حضرت ابراہیم علیہ السلام کا حکم ایک نبی کا خصوصی حکم تھا جسے ہر عام آدمی پر لاگو کرنا درست نہیں۔
باذوق بھائی میرا پہلی اور دوسری حدیث رسول مقبول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
بیان کرنے کا مقصد '' ناشکری '' تھا
نا شکری شوہر کی ہو یا للہ مالک الملک کی
دونوں صورتوں میں جائز نہیں
 

حرب بن شداد

سینئر رکن
شمولیت
مئی 13، 2012
پیغامات
2,149
ری ایکشن اسکور
6,345
پوائنٹ
437
الحمداللہ اُم القرٰی پہنچ گئے ہیں بفضل تعالٰی بس شقہ کی تلاش جاری ہے دیکھیں اللہ کی مدد کب آتی ہے۔۔۔
یا شیخ آپ کہاں ہیں آج کل نظر نہیں آرہے
اللہ آپ کو اپنے حفظ و امان میں رکھے
آمین
 
Top