• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اپنے سے کم نعمت والے کو دیکھو

ماریہ انعام

مشہور رکن
شمولیت
نومبر 12، 2013
پیغامات
498
ری ایکشن اسکور
377
پوائنٹ
164
سلسلہ آدابِ اسلامی

حدیث نمبر 2


وَعَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ - رضي الله عنه - قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ - صلى الله عليه وسلم: «انْظُرُوا إِلَى مَنْ هُوَ أَسْفَلَ مِنْكُمْ, وَلَا تَنْظُرُوا إِلَى مَنْ هُوَ فَوْقَكُمْ, فَهُوَ أَجْدَرُ أَنْ لَا تَزْدَرُوا نِعْمَةَ اللَّهِ عَلَيْكُمْ». مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ. (1)
__________

ترجمه: ابو ہریرۃ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اس شخص کی طرف دیکھو جو تم سے نیچے ہے اور اس شخص کی طرف نہ دیکھو جو تم سے اوپر ہے یہ زیادہ لائق ہے کہ تم اللہ کی اس نعمت کو حقیر نہ جانو جو تم پر ہے


اس حدیث مبارکہ میں جو نصیحت کی گئی ہے وہ دنیاوی معاملات سے تعلق رکھتی ہے۔۔۔۔یہ ایک نہایت زبردست نسخہ ہے دل کی ہولناک بیماریوں سے بچنے کا اور قناعت کے حصول کا ۔۔۔۔ اور دل کی بیماریوں کے بارے میں کیا کہیے۔۔اللہ اکبر۔۔۔یہ انسان کے دل کو آلودہ کر دیتی ہیں۔۔مسلمانوں کے بیچ تفرقہ ڈالنے والی ہیں۔۔۔ابلیس کے آزمودہ ہتھکنڈوں میں ان کا شمار ہوتا ہے۔۔اسی لیے آپﷺ نے مسلمانوں کوان سےہوشیار کیا ہے
إياكم والظنَّ ، فإنَّ الظنَّ أكذبُ الحديثِ ، ولا تناجَشوا ، ولا تحاسدوا ، ولا تباغضوا ، ولا تنافَسوا ، ولا تدابروا ، وكونوا عبادَ اللهِ إخوانًا
الراوي: أبو هريرة المحدث: الألباني - المصدر: صحيح الأدب المفرد - الصفحة أو الرقم: 317
خلاصة حكم المحدث: صحيح



دل کی بیماریوں کا ایک بڑا مسئلہ یہ بھی ہے کہ انسان ان میں نہ چاہتے ہوئے ‘ لا شعوری طور پر بھی مبتلا ہو جاتا ہے۔۔۔اس حدیث میں اسی کا علاج موجود ہے۔
 

ماریہ انعام

مشہور رکن
شمولیت
نومبر 12، 2013
پیغامات
498
ری ایکشن اسکور
377
پوائنٹ
164
اگر کوئی شخص دنیاوی معاملات میں اپنا موازنہ ایسے لوگوں سے کرے جو بظاہر اس سے اس حوالے سے زیادہ خوشحال معلوم ہوتے ہوں تو اس کا دہرانقصان ہے

اس کے دل میں اپنے خالق و مالک سے شکوہ پیدا ہو جائے گا
متعلقہ شخص سے حسد میں مبتلا ہو جائے گا

حدیث میں اس کا یہ علاج بتایا گیا ہے کہ ایسی صورتحال درپیش ہو تو اپنے سے اوپر والے کو دیکھنے کی بجائے اس شخص کی طرف توجہ کرو جو دنیاوی طور پر تم سے زیادہ آزمایا گیا ہو ۔۔۔اس کا دہرا فائدہ ہے

اس کا دل اپنے خالق و مالک کے لیے تشکر کے جذبات سے لبریز ہو جائے گا
اپنے مسلمان بہن بھائیوں کے دل رحم سے بھر جائے گا
 

Dua

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 30، 2013
پیغامات
2,579
ری ایکشن اسکور
4,440
پوائنٹ
463
جزاک اللہ خیرا،
اس کا یہ بھی فائدہ ہے کہ جس حال میں اللہ تعالی انسان کو رکھتا ہے ، جب وہ اپنے سے کم کو دیکھتا ہے تو اسی پر راضی ہو جاتا ہے ، اور
اپنی زندگی کے اسی دائرے سے جدوجہد جاری رکھتا ہے ، یہ روش انسان کو آزمائشوں سے مقابلہ کرنا سیکھاتی ہے۔
 

عبدالقیوم

مشہور رکن
شمولیت
اگست 25، 2013
پیغامات
825
ری ایکشن اسکور
433
پوائنٹ
142
اپنےسےنیچے کو دیکھنےسے معاملات ٹھیک رہتے ہیں
اوپر دیکھو گئے تو بگاڑ ہوگا
 

ماریہ انعام

مشہور رکن
شمولیت
نومبر 12، 2013
پیغامات
498
ری ایکشن اسکور
377
پوائنٹ
164
شیخ سعدی یا غالباً کسی اور بزرگ کے بارے میں یہ مشہور (غیر اصطلاحی) ہے کہ وہ مسجد اس حال میں جا رہے تھے کہ ان کے پاؤں کا جوتا ٹوٹا ہوا تھا ۔۔ان کے دل میں اپنی اس حالت کی وجہ سے اللہ سے شکوہ پیدا ہوا۔۔مسجد کے پاس پہنچ کر انہوں نے ایک ایسے شخص کو دیکھا جو دونوں پاؤں سے معذور تھا۔۔۔حدیث کے مصداق انہوں نے فوراً اس شخص سے عبرت پکڑی اور اپنے گذشتہ خیالات پر نادم ہوتے ہوئے اللہ کے حضور رجوع کیا۔
 

ماریہ انعام

مشہور رکن
شمولیت
نومبر 12، 2013
پیغامات
498
ری ایکشن اسکور
377
پوائنٹ
164
یہ گفتگو تو ہو رہی تھی دنیاوی معاملات سے متعلق۔۔۔دین کےحوالے سے ہمارا رویہ اس کے بالکل الٹ ہونا چاہیے۔۔یعنی اس معاملے میں ہمارا فوکس اپنے سے نیچے والے نہیں بلکہ اوپر والے ہونے چاہیئں ۔۔نیکی میں سبقت اور مقابلہ اسی کو کہتے ہیں اور ہمیں اس کا حکم دیا گیا ہے

وَفِي ذَٰلِكَ فَلْيَتَنَافَسِ الْمُتَنَافِسُونَ ﴿٢٦﴾
ترجمہ:سبقت لے جانے والوں کو اسی میں سبقت کرنی چاہئے (26)
ایک اور جگہ فرمایا

فاستبقوا الخیرات(المائدہ)
ترجمہ: نیکیوں میں سبقت اختیار کرو


ایسے معاملات میں تو رشک یا عرفِ عام میں حسد بھی جائز ہے

لا حسدَ إلاَّ في اثنتَينِ : رجلٌ آتاهُ اللهُ القرآنَ فهو يقومُ به آناءَ الليلِ وآناءَ النهارِ, ورجلٌ آتاهُ اللهُ مالاً فهو يُنْفِقُهُ آناءَ الليلِ و النهارِ.
الراوي: أبو هريرة المحدث: البخاري - المصدر: خلق أفعال العباد - الصفحة أو الرقم: 196
خلاصة حكم المحدث: صحيح
 

ماریہ انعام

مشہور رکن
شمولیت
نومبر 12، 2013
پیغامات
498
ری ایکشن اسکور
377
پوائنٹ
164
ہمارا رویہ ہمارے دین کی تعلیمات کے بالکل الٹ ہے ۔۔۔یعنی دنیاوی معاملات میں ہمارا مقابلہ ایسے لوگوں سے ہوتاہےجو ہم سے کہیں اوپر ہوتے ہیں جبکہ دین بے چارہ مسکین اس لائق ہی نہیں ہوتا کہ اس میں مسابقہ کیا جائے۔۔۔اور اگر کرنا بھی ہو تو ایسے لوگ ہمارا فوکس ہوتے ہیں جو ہمیں اپنی دانست میں اپنے سے کہیں زیادہ بے عمل دکھائی دیں۔۔اور پھر اس سے اپنا ضمیر بھی مطمئن ہو جاتا ہے۔۔گر وہ بے چارہ اپنی ڈیوٹی پوری کرنے کے لیے ہمارے کسی عمل پر ہمیں ٹوکے تو ہم اس کے آگے ایسے لوگو ں کی ایک پوری لسٹ رکھ دیتے ہیں جن کے سامنے ہمیں اپنا آپ بڑا نیک اور پرہیزگار لگ رہا ہوتا ہے ۔۔۔۔ دوپٹہ اوڑھنے والی‘ دوپٹہ نہ لینے والی سے مقابلہ کرتی ہے ۔۔ فرنچ کٹ والا شخص اپنا موازنہ داڑھی مونڈھے آدمی سے کر کے اپنے آپ کو مطمئن کو لیتا ہے ۔۔۔ٹوٹی پھوٹی پانچ نمازیں پڑھنے والا نمازیں چھوڑنے والے شخص سے مسابقہ کر کے سمجھتا ہے ۔۔میں نے تیر مار لیا۔۔
دنیاوی معاملات میں مہران والا ٹویوٹا والے کو دیکھتا ہے جبکہ ٹویوٹا والا لینڈ کروزر والے کو۔۔۔ایک کنال والا پانچ کنال والے سے مقابلہ کرتا ہے اور پانچ والا دس والے سے۔۔علی ھذاالقیاس۔۔مختصراً یہ کہ نمودو نمائش اور حرص و ہوس کی ایک دوڑ لگی ہوئی ہے جس میں شامل ہو کر اچھا بھلا صاحبِ حیثیت شخص اپنے آپ کو بے چارہ گمان کرتے ہوئے دوسرے شخص سے حسد میں مبتلا ہو کر اللہ سے شکوہ شکایات پر اتر آتا ہے ۔۔۔اور اس مقابلے کا کوئی اختتام بھی نہیں ہے۔۔۔ہمارے اسی طرزِعمل کی وجہ سےمعاشرہ بے اطمینانی اور بے سکونی کا شکار ہے۔۔قناعت کی دولت نایاب ہو چکی ہے۔۔۔اور میں سمجھتی ہوں بڑھتے ہوئے کرائم ریٹ کی بڑی وجہ ہمارا یہ چال چلن ہے۔۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم دونوں قسم کے معاملات میں اپنا رویہ حدیث کے مطابق اختیار کریں ۔۔۔ان شاءاللہ ہمارا دل سکون واطمینان کی دولت سے مالا مال ہو جائے گا
 

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,351
پوائنٹ
800
بہت خوب، بہت عمدہ! جزاک اللہ خیرا!
 

حافظ اختر علی

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 10، 2011
پیغامات
768
ری ایکشن اسکور
732
پوائنٹ
317
ایسے معاملات میں تو رشک یا عرفِ عام میں حسد بھی جائز ہے[/arb]
جہاں تک میرا خیال ہے ایسے معاملات کے لیے لفظ حسد کا استعمال نہیں کرنا چاہیے بلکہ محدثین اور شارحین نے یہاں پر حسد سے مراد ہی رشک لیا ہے۔تو اصل میں کسی کے پاس دنیاوی آسائشیں دیکھ کر رشک کرنا درست نہیں اگر چہ بہت سارے لوگوں کی سہولتیں دیکھ کر رشک آتا حسد نہیں آتا لیکن اس کے باوجود یہ رشک دنیاوی معاملات پر جائز نہیں ہاں دین اور نیکی کے معاملات پر رشک ایک اچھا رویہ ہے اور اس کے لیے حسد کا لفظ استعمال نہیں ہونا چاہیے کیونکہ حسد اچھے جذبات کے اظہار کے لیے بنا ہی نہیں بلکہ جن جذبات میں نفرت موجود ہو اس کے لیے حسد بولا جاتا ہے اور رشک اچھے جذبات کے لیے مستعمل ہے اس لیے نیکی کے معاملات کے لیے رشک کا لفظ ہی استعمال کرنا اقرب الی الصواب ہے۔واللہ اعلم بالصواب
 

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,351
پوائنٹ
800
جہاں تک میرا خیال ہے ایسے معاملات کے لیے لفظ حسد کا استعمال نہیں کرنا چاہیے بلکہ محدثین اور شارحین نے یہاں پر حسد سے مراد ہی رشک لیا ہے۔تو اصل میں کسی کے پاس دنیاوی آسائشیں دیکھ کر رشک کرنا درست نہیں اگر چہ بہت سارے لوگوں کی سہولتیں دیکھ کر رشک آتا حسد نہیں آتا لیکن اس کے باوجود یہ رشک دنیاوی معاملات پر جائز نہیں ہاں دین اور نیکی کے معاملات پر رشک ایک اچھا رویہ ہے اور اس کے لیے حسد کا لفظ استعمال نہیں ہونا چاہیے کیونکہ حسد اچھے جذبات کے اظہار کے لیے بنا ہی نہیں بلکہ جن جذبات میں نفرت موجود ہو اس کے لیے حسد بولا جاتا ہے اور رشک اچھے جذبات کے لیے مستعمل ہے اس لیے نیکی کے معاملات کے لیے رشک کا لفظ ہی استعمال کرنا اقرب الی الصواب ہے۔واللہ اعلم بالصواب
حدیث مبارکہ میں ’رشک‘ (جس کیلئے عربی میں لفظ 'غبطہ' استعمال ہوتا ہے) کی بجائے ’حسد‘ کا لفظ ہی استعمال کیا گیا ہے، لہٰذا اس کے استعمال پر کوئی حرج محسوس نہیں ہوتا۔

’حسد‘ کے اندر رشک سے زیادہ حرص اور شدت ہوتی ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہاں نیک لوگوں سے رشک کی شدت کو نمایاں کرنے کیلئے ’حسد‘ کا لفظ استعمال کیا گیا ہے۔

واللہ اعلم!
 
Top