السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
میں نے آپ کے سوال پر غور کیا تو الحمدللہ جواب سمجھ میں آگیا۔
ایسا نام رکھنا جس میں الہیٰ کا لفظ استعمال ہو معنوی لحاظ سے بالکل درست ہے۔ جیسے احسان الہٰی یا فضل الہٰی یعنی اللہ کا احسان یا اللہ کا فضل۔ اگر کوئی بیٹے جیسی نعمت پر اظہار تشکر کرتے ہوئے اپنے بیٹے کو اللہ کا فضل اور اللہ کا احسان سمجھتے ہوئے ایسے نام رکھ لیتا ہے تو حرج والی کوئی بات نہیں اسی طرح کا ایک عام نام نعمت اللہ بھی ہے۔
ماضی میں بھی اس طرح کے نام رکھے جاتے تھے جیسے ہمارے دادا کا نام اللہ رکھا تھا جس کے معنی ہیں جسے اللہ نے باقی رکھا اس نام کو رکھنے کی وجہ مجھے یہ سمجھ میں آتی ہے کہ لوگ ایسا نام رکھ کر یہ گمان کرتے ہونگے کہ یہ بچپن میں نہیں مرے گا کیونکہ یہ بات حدیث سے بھی ثابت ہے کہ نام انسان پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ اسی طرح کا ایک نام اللہ وسایا بھی ہے۔ عورتوں کے بھی اس طرح کے نام رکھے جاتے تھے جیسے پاکستان کی مشہور اور صف اول کی مغنیہ ملکہ ترنم نورجہاں کا اصل نام اللہ رکھی اور ایک روایت کے مطابق اللہ وسائی تھا۔
میرا خیال ہے کہ ایسے نام رکھنے کا رواج اور ضرورت اس لئے محسوس ہوئی ہوگی کہ جس والدین کی اولادیں پیدا ہوتے ہی مرجاتی ہونگی یا کچھ جی کر اللہ کو پیاری ہوجاتی ہونگی تو اس گمان پر کہ بچے کا نام اللہ رکھا یا اللہ وسایا اور بچی کا نام اللہ رکھی یا اللہ وسائی رکھ دیا جاتا ہوگا کہ اس نام کے اثر سے یہ جی جائیں گی۔واللہ اعلم
بھارت میں زیادہ بچیوں کی پیدائش معیوب اور بوجھ تصور کی جاتی ہے میں نے ایک اخبار میں ایک مضمون پڑھا تھا جس کے مطابق بھارت میں اگر کسی کے تیسری یا چھوتی بیٹی پیدا ہوجاتی ہے تو اس کا نارمل نام رکھنے کے بجائے، بس کر، رک جا، حد ہوگئی جیسے بے ہودہ نام رکھ دئے جاتے ہیں اس سے یقیناً ان کا گمان یہی ہوتا ہوگا کہ بیٹی کا نام ’’رک جا‘‘ رکھ دینے سے مزید بیٹیوں کو پیدائش رک جائے گی۔