انتہائی افسوس ناک بات ہے کہ شاہد نذیر صاحب نے فضول میں ہی اتنی محنت کر دی۔ ایک ایک لفظ تو نہیں پڑھا لیکن جو پڑھا اُس سے یہ بات تو واضح ہو گئی کہ جناب نے یا تو اصل کتابوں کا مطالعہ نہیں کیا اور اِدھر اُدھر سے حوالہ جات اکٹھے کر کے لگا دیئے یا پھر شاید انہوں نے جلدی میں سوچنے کے لیے کوئی وقت ہی نہیں چھوڑا۔ محقق کے اوصاف میں یہ بات شامل ہوتی ہے کہ وہ جانب دار نہ ہو، ضدی نہ ہو، پہلے سے ایک ذہن بنا کر اُس پر مواد اکٹھا نہ کرے وغیرہ وغیرہ۔ میں شاہد نذیر صاحب کے جتنا پڑھا لکھا تو نہیں لیکن، الحمد للہ، تھوڑی بہت عقل استعمال کر لیتا ہوں۔ جناب اپنی مخالفت میں چند حقائق کو دیکھنا ہی بھول گئے۔ انہوں نے کئی جگہوں پر شرح کشف المحجوب کا حوالہ دے کر عبارت کو سیّد علی ہجویری رحمۃ اللہ علیہ کی ذات کی طرف منسوب کر دیا ہے۔ ان عبارات میں وحدت الوجود کا بھی ذکر ہے اور شیخ سیّد عبد القادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کا بھی ذکر ہے۔ اور پھر ایک جگہ پر تو ایسے الفاظ لکھ دیئے سیّدِ ہجویر کے متعلق کہ مجھے یہاں نقل کرتے ہوئے شرم آتی ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے منافق کی چوتھی نشانی یہ بتائی تھی کہ جب وہ لڑائی کرے تو گالیاں دے۔
حقائق:
1۔ فلسفہ یا عقیدہ وحدت الوجود شیخ سیّد عبد القادر جیلانی کے زمانے کے بعد کی بات ہے۔ ابن عربی کا شیخ عبد القادر جیلانی کے ساتھ بلا واسطہ کوئی تعلق نہیں تھا۔
2۔ شیخ سیّد عبد القادر جیلانی رحمہ اللہ کا زمانہ سیّدِ ہجویر رحمہ اللہ کے زمانہ کے بعد کا تھا۔
3۔ کشف المحجوب سیّدِ ہجویر کی تصنیف ہے۔
ان حقائق کو مدِّ نظر رکھتے ہوئی کون عقل مند ہے جو یہ کہے گا کہ شیخ سیّد عبد القادر جیلانی اور وحدت الوجود کا ذکر سیّدِ ہجویر نے اپنی کتاب کشف المحجوب میں کیا ہے؟
ان حقائق کو مدِّ نظر رکھتے ہوئے کشف المحجوب کی شرح کے مطالعہ کے وقت ہر عقل مند انسان یہ جان سکتا ہے کہ ان دونوں چیزوں کا ذکر شارح کی طرف سے ہے، مصنف کی طرف سے نہیں۔
اور اگر، بالفرض، یہ حقائق شاہد نذیر صاحب کے علم میں نہیں تھے اور شرح میں اصل عبارت اور تشریح کی وضاحت نہیں تھی تو پھر یہ اُن کا فرض بنتا تھا کہ اصل کتاب تک رسائی حاصل کریں اور دونوں کا موازنہ کر کے پتا لگائیں کہ یہ الفاظ مصنف کے ہیں یا شارح کے اور اُسی اعتبار سے اُس کی نسبت کریں۔
مزید کچھ کہنا نہیں چاہتا۔ صرف ایک عبارت نقل کروں گا۔ اس فورم میں شمولیت حاصل کرنے سے قبل ہر کسی کو قواعد و ضوابط پڑھنے کا کہا جاتا ہے۔ اگر آپ نے یہ زحمت اٹھائی ہو تو آپ جانتے ہوں گے کہ اُس کا عنوان ’’
محدث فورم کے قواعد وضوابط‘‘ ہے اور اس میں دوسرے نمبر پر لکھا ہوا ہے: ’’متفرق مسالک، مذاہب، تحریکوں اور شخصیات کی ذات کو ہدف تنقید نہ بنایا جائے اور نہ ہی کسی طبقے کی معزز شخصیات کو برا بھلا کہا جائے بلکہ ان کے عقائد ونظریات کا دلائل کی روشنی میں جائزہ لیا جائے۔‘‘
ربط:
http://forum.mohaddis.com/threads/محدث-فورم-کے-قواعد-وضوابط.541/