• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اکابرین اہل حدیث کا تعلق صوفیت بہتان یا حقیقت؟

شمولیت
ستمبر 21، 2015
پیغامات
2,697
ری ایکشن اسکور
760
پوائنٹ
290
1- تصوف کیا هے؟
2- کتاب اللہ سے صوفیت کی دلائل کیا هیں ؟
3- اللہ کے آخری رسول اور امت مسلمہ کے داعی اعظم صلی اللہ علیہ وسلم کی ثابت احادیث سے صوفیت کا ثبوت پیش کریں !
4- کها کس نے جو بهی هو اهلحدیث کی مخالفت یا موافقت میں ، سب سے پهلے اسلام جسکے مکمل هو جانے اور اس دین کو اللہ کے پسند کرلئے جانیکے اللہ کے اعلان کے بعد اس تصوف کو اسلام کا حصہ ثابت کریں ۔
آپکی اطلاع کیلئے بتایا جارها هے کے عالم اسلام میں اهل حدیث کو اهل السنة والجماعة کا حصہ تسلیم کیا جاتا هے ۔ اس لئے دلائل صرف تصوف پر چاهئیں اور وہ بهی قرآن اور ثابت احادیث سے ۔
جب فورم علمی هے تو بات بهی علمی هو ۔ علم یہ هے کہ اللہ کی کتاب اور سنت ثابتہ هی میزان هیں کسی بهی قول و عمل کا ۔ اگر کوئی قول یا عمل کی دلیل قرآن اور سنت سے نہ مل سکے تو اس قول کے کهنے اور اس عمل کے کرنے کو کیا کهینگے ؟
جو بهی کهیں کم از کم اسلام نهیں کهینگے
 
شمولیت
نومبر 27، 2015
پیغامات
8
ری ایکشن اسکور
1
پوائنٹ
43
امید کرتا ہوں کہ یہ آخری تبصرہ اگرچہ میرے تبصروں کے بعد آیا ہے مگر میرے تبصروں پر تبصرہ نہیں کیونکہ میں نے اپنے تبصروں میں جن چیزوں کی نشاندہی کی ہے اُس کا ذکر اس تبصرے میں موجود ہی نہیں۔ براہِ کرم، محمد طارق عبد اللہ صاحب اس چیز کی وضاحت کر دیں کہ یہ تبصرہ اصل عنوان پر ہے یہ میرے تبصرے کا جواب ہے۔
بہر حال، یہاں میں چند چیزوں کا مختصراً ذکر کرنا چاہوں گا۔ تصوف کے متعلق تفصیلات کے لیے ڈاکٹر اسرار احمد صاحب کا کتابچہ پڑھ لیجئے۔ ربط: http://data.tanzeem.info/BOOKS/Tarajim/The_Reality_of_Tasawwuf.pdf
اہلِ حدیث حضرات امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ تعالیٰ سے تو خوب واقف ہیں۔ تو سب سے پہلے تو ہم یہ دیکھیں گے کہ امام ابن تیمیہ کے نزدیک ائمۂ تصوف کا کیا مقام ہے۔ اگر تو ائمۂ تصوف گمراہ نہیں تو پھر لاکھ صوفیا گمراہ ہو جائیں، تصوف کو گمراہی قرار نہیں دیا جا سکتا کیونکہ اس کے امام گمراہ نہیں۔

مجموع الفتاویٰ، جلد ۸، صفحہ ۳۶۹پر لکھتے ہیں:
وَأَمَّا أَئِمَّةُ الصُّوفِيَّةِ وَالْمَشَايِخُ الْمَشْهُورُونَ مِنْ الْقُدَمَاءِ: مِثْلُ الْجُنَيْد بْنِ مُحَمَّدٍ وَأَتْبَاعِهِ وَمِثْلُ الشَّيْخِ عَبْدِ الْقَادِرِ وَأَمْثَالِهِ فَهَؤُلَاءِ مِنْ أَعْظَمِ النَّاسِ لُزُومًا لِلْأَمْرِ وَالنَّهْيِ وَتَوْصِيَةً بِاتِّبَاعِ ذَلِك
ترجمہ: اور بے شک ائمۂ تصوف اور پہلے زمانے کے مشہور مشائخ میں سے جنید بغدادی اور ان کے پیروکار اور شیخ عبد القادر جیلانی اور ان جیسے دیگر بزرگ لوگوں میں سے سب سے زیادہ امر و نہی کو لازم پکڑنے والے تھے اور اسی کی اتباع کی وصیت کرتے تھے۔

پھر جلد ۱۰، صفحہ 516 اور 517 پر لکھتے ہیں:
فَأَمَّا الْمُسْتَقِيمُونَ مِنْ السَّالِكِينَ كَجُمْهُورِ مَشَايِخِ السَّلَفِ: مِثْلِ الْفُضَيْل بْنِ عِيَاضِ وَإِبْرَاهِيمَ بْنِ أَدْهَمَ وَأَبِي سُلَيْمَانَ الداراني وَمَعْرُوفٍالْكَرْخِي وَالسَّرِيِّ السقطي والْجُنَيْد بْنِ مُحَمَّدٍ وَغَيْرِهِمْ مِنْ الْمُتَقَدِّمِينَ، وَمِثْلِ الشَّيْخِ عَبْدِ الْقَادِرِ وَالشَّيْخِ حَمَّادٍ وَالشَّيْخِ أَبِي الْبَيَانِ وَغَيْرِهِمْ مِنْ الْمُتَأَخِّرِينَ. فَهُمْ لَا يُسَوِّغُونَ لِلسَّالِكِ وَلَوْ طَارَ فِي الْهَوَاءِ أَوْ مَشَى عَلَى الْمَاءِ أَنْ يَخْرُجَ عَنْ الْأَمْرِ وَالنَّهْيِ الشَّرْعِيَّيْنِ بَلْ عَلَيْهِ أَنْ يَفْعَلَ الْمَأْمُورَ وَيَدَعَ الْمَحْظُورَ إلَى أَنْ يَمُوتَ وَهَذَا هُوَ الْحَقُّ الَّذِي دَلَّ عَلَيْهِ الْكِتَابُ وَالسُّنَّةُ وَإِجْمَاعُ السَّلَفِ. وَهَذَا كَثِيرٌ فِي كَلَامِهِمْ: كَقَوْلِ الشَّيْخِ عَبْدِ الْقَادِرِ فِي كِتَابِ (فُتُوحِ الْغَيْبِ: " اُخْرُجْ مِنْ نَفْسِك۔۔۔
ترجمہ: اور جہاں تک تعلق ہے سالکین میں سے صراطِ مستقیم پر چلنے والوں کا جمہور مشائخِ سلف کی طرح تو فضیل بن عیاض، ابراہیم بن ادہم، ابو سلیمان درانی، معروف کرخی، سری سقطی، جنید بغدادی وغیرہم کی طرح پہلے زمانے والوں میں سے اور شیخ عبد القادر جیلانی، شیخ حماد، شیخ ابو البیان وغیرہ کی طرح پچھلے زمانے والوں میں سے۔ یہ سب بزرگ سالک کے لیے یہ جائز نہیں سمجھتے تھے کہ وہ امر و نہی سے بالکل نکل جائے، اگرچہ سالک ہوا میں اُڑے یا پانی پر چلے۔ بلکہ سالک کے لیے تا دمِ موت مامورات پر عمل کرنا اور محظورات کو چھوڑنا لازم ہے۔ اور یہی وہ حق ہے جس پر قرآن و سنت اور اجماعِ سلف دلالت کرتے ہیں۔ اور اس طرح کی نصیحتیں ان بزرگوں کے کلام میں کثیر تعداد میں ہیں جیسے شیخ عبد القادر جیلانی کی کتاب فتوح الغیب میں ہے: اور پھر علامہ ابن تیمیہ نے فتوح الغیب کی عبارت نقل کی۔

اب ذرا غور کریں تو کیا یہ تمام لوگ ائمۂ تصوف نہیں تھے؟

اور اسی دسویں جلد کے صفحہ 488 پر لکھتے ہیں:
وَ " الشَّيْخُ عَبْدُ الْقَادِرِ " وَنَحْوُهُ مِنْ أَعْظَمِ مَشَايِخِ زَمَانِهِمْ أَمْرًا بِالْتِزَامِ الشَّرْعِ وَالْأَمْرِ وَالنَّهْيِ
ترجمہ: اور شیخ عبد القادر جیلانی اور ان جیسے بزرگ اپنے زمانے کے سب سے عظیم مشائخ میں سے ہیں جو التزامِ شریعت اور امر اور نہی کا حکم دیتے۔

پھر جلد ۱۴، صفحہ ۳۵۵ پر لکھتے ہیں:
فَمَنْ سَلَكَ مَسْلَكَ الْجُنَيْد مِنْ أَهْلِ التَّصَوُّفِ وَالْمَعْرِفَةِ كَانَ قَدْ اهْتَدَى وَنَجَا وَسَعِدَ.
ترجمہ: جو بھی اہلِ تصوف و معرفت میں سے جنید بغدادی کے طریقے پر چلا اور ہدایت اور نجات اور سعادت پا گیا۔
اب ہمیں اس چیز کی تو سمجھ لگ گئی کہ ابنِ تیمیہ کے نزدیک یہ تمام ائمۂ تصوف اہلِ ہدیٰ تھے اور ان کا طریقہ گمراہی نہیں تھا۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ ان کا طریقہ کیا تھا اور کیا ان کا طریقہ نہیں تھا۔ اس سلسلے میں بھی ابنِ تیمیہ رحمہ اللہ کی ہی کتاب سے استفادہ کریں گے۔

مجموع الفتاویٰ، جلد ۱۱، صفحہ ۷۴ پر لکھتے ہیں:
وَأَمَّا أَنْ يَكُونَ الْخَلْقُ جُزْءًا مِنْ الْخَالِقِ تَعَالَى. فَهَذَا كُفْرٌ صَرِيحٌ يَقُولُهُ أَعْدَاءُ اللَّهِ النَّصَارَى وَمَنْ غَلَا مِنْ الرَّافِضَةِ؛ وَجُهَّالُ الْمُتَصَوِّفَةِ وَمَنْ اعْتَقَدَهُ فَهُوَ كَافِرٌ۔۔۔ وَلَيْسَ أَحَدٌ مِنْ أَهْلِ الْمَعْرِفَةِ بِاَللَّهِ يَعْتَقِدُ حُلُولَ الرَّبِّ تَعَالَى بِهِ؛ أَوْ بِغَيْرِهِ مِنْ الْمَخْلُوقَاتِ وَلَا اتِّحَادَهُ بِهِ. وَإِنَّ سَمْعَ شَيْءٍ مِنْ ذَلِكَ مَنْقُولٌ عَنْ بَعْضِ أَكَابِرِ الشُّيُوخِ. فَكَثِيرٌ مِنْهُ مَكْذُوبٌ اخْتَلَقَهُ الْأَفَّاكُونَ مِنْ الِاتِّحَادِيَّةِ المباحية؛ الَّذِينَ أَضَلَّهُمْ الشَّيْطَانُ وَأَلْحَقَهُمْ بِالطَّائِفَةِ النَّصْرَانِيَّةِ. وَاَلَّذِي يَصِحُّ مِنْهُ عَنْ الشُّيُوخِ لَهُ مَعَانٍ صَحِيحَةٌ؛ وَمِنْهُ مَا صَدَرَ عَنْ بَعْضِهِمْ فِي حَالِ اسْتِيلَاءِ حَالٍ عَلَيْهِ؛ أَلْحَقَهُ تِلْكَ السَّاعَةَ بِالسَّكْرَانِ الَّذِي لَا يُمَيِّزُ مَا يَخْرُجُ مِنْهُ مِنْ الْقَوْلِ ثُمَّ إذَا ثَابَ عَلَيْهِ عَقْلُهُ وَتَمْيِيزُهُ يُنْكِرُ ذَلِكَ الْقَوْلَ؛ وَيُكَفِّرُ مَنْ يَقُولُهُ؛
ترجمہ: اور جہاں تک اس چیز کا تعلق ہے کہ مخلوق خالق کا ایک حصہ ہے تو یہ صریح کفر ہے جو اللہ تعالیٰ کے دشمن نصاریٰ کہتے ہیں اور رافضیوں میں سے غالی کہتے ہیں اور صوفیوں میں سے جاہل کہتے ہیں۔ اور جو یہ عقیدہ رکھتا ہے وہ کافر ہے۔۔۔ اور اہل معرفت صوفیا میں سے کسی ایک کا بھی یہ عقیدہ نہیں کہ اللہ تعالیٰ اس میں اس کے علاوہ دیگر مخلوقات میں حلول کر گیا ہے یا اس کے ساتھ اتحاد کر چکا ہے۔ اور اگر بالفرض اس طرح کی بات ان اکابر شیوخ سے منقول ہو تو اس میں سے اکثر جھوٹ ہوتا ہے جس کو اتحاد اور حلول کے قائل اُن لوگوں نے بنا لیا ہے کہ جنہیں شیطان نے گمراہ کر دیا اور انہیں نصاریٰ کے گروہ میں ملا دیا۔ اور وہ جو ان اکابر شیوخِ تصوف سے صحیح منقول ہے اُس کے صحیح معانی ہیں۔ اور اس میں سے جو ان مشائخ سے صادر ہوا تو وہ حالتِ استیلاء میں تھا جو اُس وقت وہ حالتِ سکر میں تھے کہ جو یہ تمیز نہیں کرتی کہ اُن سے کیا بات نکل رہی ہے۔ پھر جب وہ ان کے حواس درست ہوتے اور وہ تمیز کرتے تو اس بات کو جھٹلاتے اور جو انہوں نے کہا اُسے کفر کہتے۔

تو گویا ثابت ہوا کہ تصوف اور صوفیا کا کفر و شرک سے کوئی تعلق نہیں۔ اور جو لوگ اپنے آپ کو صوفیا کہتے ہیں اور کفر و شرک کی باتیں کرتے ہیں، وہ حقیقتاً صوفیا نہیں بلکہ ’’جہال‘‘ یعنی جاہل لوگ ہیں۔ اسی طرح علامہ جلال الدین سیوطی فرماتے ہیں۔
أن التصوف في نفسه علم شريف وأن مداره على أتباع السنة وترك البدع وعلمت أيضاً أنه قد كثر الدخيل فيه من قوم تشبهوا بأهله وليسوا منهم فأدخلوا فيه ما ليس منه فأدى ذلك إلى إساءة الظن بالجميع

دیگر ائمۂ تصوف کے اقوال بھی اسی طرح ہیں۔ ملاحظہ فرمائیں۔

سلطان الأولياء والعارفين سيدي الشيخ عبد القادر الجيلاني رحمه الله يقول :كل حقيقة لا تشهد لها الشريعة هي زندقة، طر إلى الحق عز وجل بجناحي الكتاب والسنة ادخل عليه ويدك في يد رسول الله صلى الله عليه وسلم ترك العبادات المفروضة زندقة وارتكاب المحظورات معصية .
(الفتح الرباني)

اور فرمایا: كل باطن خالف ظاهراً فهو باطل.

اور فرمایا: طريقتنا مبنية على الكتاب والسنة فمن خالفهما فليس منا.
’’ہمارا راستہ کتاب و سنت پر مبنی ہے۔ پس جس نے ان دونوں کی مخالفت کی وہ ہم میں سے نہیں ہے۔

الشيخ أبو القاسم إبراهيم بن محمد النصر باذي رحمه الله يقول: أصل التصوف ملازمة الكتاب والسنة وترك الهواء والبدع .
(طبقات الصوفية)

خواجہ جنید بغدادی نے تو یہاں تک فرما دیا:
من لم يحفظ القران ولم يكتب الحديث لا يقتدي به في هذا الأمر لأن علمنا هذا مقيد بالكتاب والسنة

وقال الإمام سهل بن عبد الله التستري رحمه الله : أصول طريقتنا ـ أي منهج الصوفية ـ سبعة :
التمسك بالكتاب، والاقتداء بالسنة، وأكل الحلال، وكف الأذى، وتجنب المعاصي، لزوم التوبة، وأداء الحقوق.

وقال أبو حفص احد كبار الصوفية : من لم يزن أفعاله وأحواله في كل وقت بالكتاب والسنة ولم يتهم خواطره فلا يعد في ديوان الرجال.


تصوف کے ایک مشہور امام سیّد علی بن عثمان الہجویری، کہ جن کے متعلق اس پوسٹ میں، علم کی کمی کے باعث، نا زیبا الفاظ کہے گئے، وہ اپنی کتاب کشف المحجوب میں فرماتے ہیں:
’’لیکن مصیبت یہ ہے کہ ہمارے زمانے اور خصوصاً ہمارے ملک میں علم کی کسی کو پرواہ نہیں ہے۔ تمام مخلوقات نفسانی خواہشات میں مبتلا اور خداوندِ تعالیٰ کی رضا و خوشنودی سے رو گرداں ہیں۔ زمانے کے علماء اور وقت کے مدعی تک راہِ راست کے خلاف چل رہے ہیں۔ اس زمانے میں لوگوں نے اپنی خواہشاتِ نفس کا نام شریعت رکھ دیا ہے، حُب و جاہ کا نام عزت‘ تکبر کا نام علم‘ دکھاوے کی عبادت کا نام تقویٰ، کینہ کو ظاہر کرنے کی بجائے اس کو دل میں پوشیدہ رکھنے کا نام حلم‘ مجادلہ و مناظرہ اور نہایت کمینگی کے ساتھ محاربہ کرنے کا نام عظمت‘ نفاق کا نام زُہد‘ جو منہ میں آئے اُسے بک دینے کا نام معرفت‘ نفسانیت کا نام محبت‘ الحاد کا نام فقر‘ انکارِ حق کا نام صفوت‘ زندیق ہو جانے کا نام فنا اور جناب نبیٔ کریم ﷺ کی شریعت کو ترک کر دینے کا نام طریقت رکھ لیا ہے یہاں تک کہ اربابِ معانی (اصل اہلِ حق) ان جہلا سے اسی طرح سے مغلوب ہو گئے ہیں جس طرح خلافتِ راشدہ کے سقوط کے بعد اہل بیت رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین پر آلِ مروان نے غلبہ حاصل کر لیا تھا۔‘‘
 
شمولیت
نومبر 27، 2015
پیغامات
8
ری ایکشن اسکور
1
پوائنٹ
43
حنفی تصوف اور اہل حدیث تصوف میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔
جناب! آج تک اسلامی اور غیر اسلامی تصوف سنا تھا۔ یہ تصوف کب سے مقلد بن گیا؟ آپ کے علم کی داد دینا ہو گی۔
کیا سیّد علی ہجویری، فضیل بن عیاض، ابراہیم ادہم ابو سلیمان دارانی، معروف کرخی، سری سقطی، جنید بغدادی، شیخ سیّد عبد القادر جیلانی، شیخ حماد، شیخ ابو البیان وغیرہ حنفی تھے؟؟؟ کیا ان کی تعلیمات میں غیرِ شرعی باتیں ملتی ہیں؟؟؟ کیا انہوں نے کبھی حلول و اتحاد کی تعلیمات دیں؟؟؟
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
محترم محمد طارق عبداللہ بھائی نے کتاب اللہ اور سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے دلائل کا مطالبہ کیا گیا تھا نہ کہ اقوال رجال سے۔۔۔۔ابتسامہ!
 
شمولیت
نومبر 27، 2015
پیغامات
8
ری ایکشن اسکور
1
پوائنٹ
43
جناب! ہم نے بھی یہی ثابت کیا ہے کہ جو طریقہ کتاب و سنت سے مطابقت رکھے گا، وہی تصوف کہلائے گا۔ اب آپ قرآن و سنت سے اہلِ حدیث فرقے کی دلیل دیں۔ کیا دیں گے؟ یہی نا کہ یہ شریعت ہے اور ہم اس پر چل رہے ہیں اور اس کے خلاف کچھ نہیں کر رہے۔ تو جناب! ہم نے کیا ثابت کیا ہے؟
 
شمولیت
نومبر 27، 2015
پیغامات
8
ری ایکشن اسکور
1
پوائنٹ
43
اب اگر آپ کہیں کے تصوف کا لفظ قرآن و حدیث سے لا کے دکھائیں تو جناب ’’اہلِ حدیث‘‘ یا ’’وہابی‘‘ لفظ قرآن و حدیث سے پیش کریں۔ جو جواب آپ کا ہو گا وہی ہمارا ہو گا۔ ان شاء اللہ۔
 
شمولیت
نومبر 27، 2015
پیغامات
8
ری ایکشن اسکور
1
پوائنٹ
43
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
محترم محمد طارق عبداللہ بھائی نے کتاب اللہ اور سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے دلائل کا مطالبہ کیا گیا تھا نہ کہ اقوال رجال سے۔۔۔۔ابتسامہ!
وعلیکم السلام۔
میں نے ابتداء میں ہی ڈاکٹر اسرار صاحب کے رسالے کا حوالہ دیا۔ پہلے اُسے پڑھ لیں، پھر کہیے گا کہ تصوف اسلامی ہے یا غیرِ اسلامی، شرعی ہے یا غیرِ شرعی۔
انہوں نے اپنی بات کا آغاز ہی حدیثِ جبریل سے کیا اور ثابت کیا کہ جس چیز کو اُس میں احسان کہا جا رہا ہے، وہی تصوف ہے۔ یہ تو ہو گئی دلیل سنت سے۔ اب رہا مسئلہ کہ کیا واقعی تصوف اس چیز کا نام ہے یا نہیں۔ تو وہ ہم اوپر ثابت کر چکے ہیں کہ ائمۂ تصوف کے نزدیک جو چیز خارج از شریعت ہے وہ چیز خارج از تصوف ہے۔ تیسرا مسئلہ رہا نام کا تو سیّد علی ہجویریؒ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے دور میں تصوف اس نام سے تو موجود نہ تھا مگر اپنے معنی میں موجود تھا۔ آج، ہماری بد قسمتی ہے کہ تصوف اس نام سے تو موجود ہے مگر اپنے معنی کے ساتھ موجود نہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
انہوں نے اپنی بات کا آغاز ہی حدیثِ جبریل سے کیا اور ثابت کیا کہ جس چیز کو اُس میں احسان کہا جا رہا ہے، وہی تصوف ہے۔
احسان کی اصطلاح کو تصوف پر منطبق نہیں کیا جاسکتا۔۔تصوف ایک الگ شے ہے اور احسان ایک الگ۔۔۔
اس لیے آپ کی پیش کردہ بات دلیل نہیں ہے۔۔۔ ویسے بھی ڈاکٹر اسرار صاحب صوفیانہ خیالات رکھتے تھے اس لیے اُن کی مجبوری تھی کہ احسان کو تصوف قرار دے کر بڑے صوفیاء کو تقویت پہنچائی جائے۔باقی رہا مسئلہ علی ہجویری صاحب کا تو انھوں نے صوفیت کے حق میں کشف الامحجوب میں کئی ایسی روایات کو پیش کیا ہےجو کہ کتب احادیث میں موجود ہی نہیں، مثلا


اور "الشیخ فی قومہ کالنبی فی امتہ" کو بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے منسوب کیا گیا ہے۔

برائے مہربانی !اگر آپ کے پاس دلائل ہیں تو ضرور پیش کریں۔۔اور یاد رہے کہ دلائل کتاب و سنت سے تصوف کے بارے میں دیں نہ کہ احسان کے بارے۔۔۔
 
شمولیت
ستمبر 21، 2015
پیغامات
2,697
ری ایکشن اسکور
760
پوائنٹ
290
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

میری گذارش بالخصوص سید شاہ رخ کمال صاحب سے اور بالعموم ان کی طرح فکر رکهنے والے تمام حضرات سے هیکہ "المسقلہ ٹیوی" لندن سے "الصوفية والتصوف في شريعة الاسلام " اس عنوان پر مختلف الفکر علماء نے بحث کی هے ۔ اس بحث میں مصر کے علاوہ افریقہ کے اور ملکوں سے علماء اهل تصوف ، مصر سے هی اخوان المسلمین کے جید عالم ، السعودیہ سے بهی صوفی عالم نے اهل السنة والجماعة سے بحث کی هے ۔ تمام حلقات کا مشاهدہ کریں ۔ هر نقطہ پر واضح اور تفصیلی بحث هوئی ۔ زبان عربی هے ۔ هر عالم نے اپنا موقف کهل کر پیش کیا اور دلائل پیش کئے ۔
آخری حلقے میں سنجیدہ اعترافات هیں ، امید هے آپ سبکے لئے مفید هوگا ۔ علمی بحث کا انداز بهی سمجہیں ۔ یه بهی دیکهیں کہ جهاں جهاں قال اللہ سے متصادم اقوال پر بحث هوئے وهاں وهاں علماء تصوف نے کیا جوابات دئیے ۔
سید صاحب نے آپ نے حسرت اور افسوس ظاهر کیا هے کہ وہ سابقہ سا تصوف نہ رها ۔ اس سابقہ تصوف پر بهی بحث هوئی هے اس مباحثہ میں ۔
۔۔۔۔جاری۔۔۔
 
Top