امید کرتا ہوں کہ یہ آخری تبصرہ اگرچہ میرے تبصروں کے بعد آیا ہے مگر میرے تبصروں پر تبصرہ نہیں کیونکہ میں نے اپنے تبصروں میں جن چیزوں کی نشاندہی کی ہے اُس کا ذکر اس تبصرے میں موجود ہی نہیں۔ براہِ کرم، محمد طارق عبد اللہ صاحب اس چیز کی وضاحت کر دیں کہ یہ تبصرہ اصل عنوان پر ہے یہ میرے تبصرے کا جواب ہے۔
بہر حال، یہاں میں چند چیزوں کا مختصراً ذکر کرنا چاہوں گا۔ تصوف کے متعلق تفصیلات کے لیے ڈاکٹر اسرار احمد صاحب کا کتابچہ پڑھ لیجئے۔ ربط:
http://data.tanzeem.info/BOOKS/Tarajim/The_Reality_of_Tasawwuf.pdf
اہلِ حدیث حضرات امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ تعالیٰ سے تو خوب واقف ہیں۔ تو سب سے پہلے تو ہم یہ دیکھیں گے کہ امام ابن تیمیہ کے نزدیک ائمۂ تصوف کا کیا مقام ہے۔ اگر تو ائمۂ تصوف گمراہ نہیں تو پھر لاکھ صوفیا گمراہ ہو جائیں، تصوف کو گمراہی قرار نہیں دیا جا سکتا کیونکہ اس کے امام گمراہ نہیں۔
مجموع الفتاویٰ، جلد ۸، صفحہ ۳۶۹پر لکھتے ہیں:
وَأَمَّا أَئِمَّةُ الصُّوفِيَّةِ وَالْمَشَايِخُ الْمَشْهُورُونَ مِنْ الْقُدَمَاءِ: مِثْلُ الْجُنَيْد بْنِ مُحَمَّدٍ وَأَتْبَاعِهِ وَمِثْلُ الشَّيْخِ عَبْدِ الْقَادِرِ وَأَمْثَالِهِ فَهَؤُلَاءِ مِنْ أَعْظَمِ النَّاسِ لُزُومًا لِلْأَمْرِ وَالنَّهْيِ وَتَوْصِيَةً بِاتِّبَاعِ ذَلِك
ترجمہ: اور بے شک ائمۂ تصوف اور پہلے زمانے کے مشہور مشائخ میں سے جنید بغدادی اور ان کے پیروکار اور شیخ عبد القادر جیلانی اور ان جیسے دیگر بزرگ لوگوں میں سے سب سے زیادہ امر و نہی کو لازم پکڑنے والے تھے اور اسی کی اتباع کی وصیت کرتے تھے۔
پھر جلد ۱۰، صفحہ 516 اور 517 پر لکھتے ہیں:
فَأَمَّا الْمُسْتَقِيمُونَ مِنْ السَّالِكِينَ كَجُمْهُورِ مَشَايِخِ السَّلَفِ: مِثْلِ الْفُضَيْل بْنِ عِيَاضِ وَإِبْرَاهِيمَ بْنِ أَدْهَمَ وَأَبِي سُلَيْمَانَ الداراني وَمَعْرُوفٍالْكَرْخِي وَالسَّرِيِّ السقطي والْجُنَيْد بْنِ مُحَمَّدٍ وَغَيْرِهِمْ مِنْ الْمُتَقَدِّمِينَ، وَمِثْلِ الشَّيْخِ عَبْدِ الْقَادِرِ وَالشَّيْخِ حَمَّادٍ وَالشَّيْخِ أَبِي الْبَيَانِ وَغَيْرِهِمْ مِنْ الْمُتَأَخِّرِينَ. فَهُمْ لَا يُسَوِّغُونَ لِلسَّالِكِ وَلَوْ طَارَ فِي الْهَوَاءِ أَوْ مَشَى عَلَى الْمَاءِ أَنْ يَخْرُجَ عَنْ الْأَمْرِ وَالنَّهْيِ الشَّرْعِيَّيْنِ بَلْ عَلَيْهِ أَنْ يَفْعَلَ الْمَأْمُورَ وَيَدَعَ الْمَحْظُورَ إلَى أَنْ يَمُوتَ وَهَذَا هُوَ الْحَقُّ الَّذِي دَلَّ عَلَيْهِ الْكِتَابُ وَالسُّنَّةُ وَإِجْمَاعُ السَّلَفِ. وَهَذَا كَثِيرٌ فِي كَلَامِهِمْ: كَقَوْلِ الشَّيْخِ عَبْدِ الْقَادِرِ فِي كِتَابِ (فُتُوحِ الْغَيْبِ: " اُخْرُجْ مِنْ نَفْسِك۔۔۔
ترجمہ: اور جہاں تک تعلق ہے سالکین میں سے صراطِ مستقیم پر چلنے والوں کا جمہور مشائخِ سلف کی طرح تو فضیل بن عیاض، ابراہیم بن ادہم، ابو سلیمان درانی، معروف کرخی، سری سقطی، جنید بغدادی وغیرہم کی طرح پہلے زمانے والوں میں سے اور شیخ عبد القادر جیلانی، شیخ حماد، شیخ ابو البیان وغیرہ کی طرح پچھلے زمانے والوں میں سے۔ یہ سب بزرگ سالک کے لیے یہ جائز نہیں سمجھتے تھے کہ وہ امر و نہی سے بالکل نکل جائے، اگرچہ سالک ہوا میں اُڑے یا پانی پر چلے۔ بلکہ سالک کے لیے تا دمِ موت مامورات پر عمل کرنا اور محظورات کو چھوڑنا لازم ہے۔ اور یہی وہ حق ہے جس پر قرآن و سنت اور اجماعِ سلف دلالت کرتے ہیں۔ اور اس طرح کی نصیحتیں ان بزرگوں کے کلام میں کثیر تعداد میں ہیں جیسے شیخ عبد القادر جیلانی کی کتاب فتوح الغیب میں ہے: اور پھر علامہ ابن تیمیہ نے فتوح الغیب کی عبارت نقل کی۔
اب ذرا غور کریں تو کیا یہ تمام لوگ ائمۂ تصوف نہیں تھے؟
اور اسی دسویں جلد کے صفحہ 488 پر لکھتے ہیں:
وَ " الشَّيْخُ عَبْدُ الْقَادِرِ " وَنَحْوُهُ مِنْ أَعْظَمِ مَشَايِخِ زَمَانِهِمْ أَمْرًا بِالْتِزَامِ الشَّرْعِ وَالْأَمْرِ وَالنَّهْيِ
ترجمہ: اور شیخ عبد القادر جیلانی اور ان جیسے بزرگ اپنے زمانے کے سب سے عظیم مشائخ میں سے ہیں جو التزامِ شریعت اور امر اور نہی کا حکم دیتے۔
پھر جلد ۱۴، صفحہ ۳۵۵ پر لکھتے ہیں:
فَمَنْ سَلَكَ مَسْلَكَ الْجُنَيْد مِنْ أَهْلِ التَّصَوُّفِ وَالْمَعْرِفَةِ كَانَ قَدْ اهْتَدَى وَنَجَا وَسَعِدَ.
ترجمہ: جو بھی اہلِ تصوف و معرفت میں سے جنید بغدادی کے طریقے پر چلا اور ہدایت اور نجات اور سعادت پا گیا۔
اب ہمیں اس چیز کی تو سمجھ لگ گئی کہ ابنِ تیمیہ کے نزدیک یہ تمام ائمۂ تصوف اہلِ ہدیٰ تھے اور ان کا طریقہ گمراہی نہیں تھا۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ ان کا طریقہ کیا تھا اور کیا ان کا طریقہ نہیں تھا۔ اس سلسلے میں بھی ابنِ تیمیہ رحمہ اللہ کی ہی کتاب سے استفادہ کریں گے۔
مجموع الفتاویٰ، جلد ۱۱، صفحہ ۷۴ پر لکھتے ہیں:
وَأَمَّا أَنْ يَكُونَ الْخَلْقُ جُزْءًا مِنْ الْخَالِقِ تَعَالَى. فَهَذَا كُفْرٌ صَرِيحٌ يَقُولُهُ أَعْدَاءُ اللَّهِ النَّصَارَى وَمَنْ غَلَا مِنْ الرَّافِضَةِ؛ وَجُهَّالُ الْمُتَصَوِّفَةِ وَمَنْ اعْتَقَدَهُ فَهُوَ كَافِرٌ۔۔۔ وَلَيْسَ أَحَدٌ مِنْ أَهْلِ الْمَعْرِفَةِ بِاَللَّهِ يَعْتَقِدُ حُلُولَ الرَّبِّ تَعَالَى بِهِ؛ أَوْ بِغَيْرِهِ مِنْ الْمَخْلُوقَاتِ وَلَا اتِّحَادَهُ بِهِ. وَإِنَّ سَمْعَ شَيْءٍ مِنْ ذَلِكَ مَنْقُولٌ عَنْ بَعْضِ أَكَابِرِ الشُّيُوخِ. فَكَثِيرٌ مِنْهُ مَكْذُوبٌ اخْتَلَقَهُ الْأَفَّاكُونَ مِنْ الِاتِّحَادِيَّةِ المباحية؛ الَّذِينَ أَضَلَّهُمْ الشَّيْطَانُ وَأَلْحَقَهُمْ بِالطَّائِفَةِ النَّصْرَانِيَّةِ. وَاَلَّذِي يَصِحُّ مِنْهُ عَنْ الشُّيُوخِ لَهُ مَعَانٍ صَحِيحَةٌ؛ وَمِنْهُ مَا صَدَرَ عَنْ بَعْضِهِمْ فِي حَالِ اسْتِيلَاءِ حَالٍ عَلَيْهِ؛ أَلْحَقَهُ تِلْكَ السَّاعَةَ بِالسَّكْرَانِ الَّذِي لَا يُمَيِّزُ مَا يَخْرُجُ مِنْهُ مِنْ الْقَوْلِ ثُمَّ إذَا ثَابَ عَلَيْهِ عَقْلُهُ وَتَمْيِيزُهُ يُنْكِرُ ذَلِكَ الْقَوْلَ؛ وَيُكَفِّرُ مَنْ يَقُولُهُ؛
ترجمہ: اور جہاں تک اس چیز کا تعلق ہے کہ مخلوق خالق کا ایک حصہ ہے تو یہ صریح کفر ہے جو اللہ تعالیٰ کے دشمن نصاریٰ کہتے ہیں اور رافضیوں میں سے غالی کہتے ہیں اور صوفیوں میں سے جاہل کہتے ہیں۔ اور جو یہ عقیدہ رکھتا ہے وہ کافر ہے۔۔۔ اور اہل معرفت صوفیا میں سے کسی ایک کا بھی یہ عقیدہ نہیں کہ اللہ تعالیٰ اس میں اس کے علاوہ دیگر مخلوقات میں حلول کر گیا ہے یا اس کے ساتھ اتحاد کر چکا ہے۔ اور اگر بالفرض اس طرح کی بات ان اکابر شیوخ سے منقول ہو تو اس میں سے اکثر جھوٹ ہوتا ہے جس کو اتحاد اور حلول کے قائل اُن لوگوں نے بنا لیا ہے کہ جنہیں شیطان نے گمراہ کر دیا اور انہیں نصاریٰ کے گروہ میں ملا دیا۔ اور وہ جو ان اکابر شیوخِ تصوف سے صحیح منقول ہے اُس کے صحیح معانی ہیں۔ اور اس میں سے جو ان مشائخ سے صادر ہوا تو وہ حالتِ استیلاء میں تھا جو اُس وقت وہ حالتِ سکر میں تھے کہ جو یہ تمیز نہیں کرتی کہ اُن سے کیا بات نکل رہی ہے۔ پھر جب وہ ان کے حواس درست ہوتے اور وہ تمیز کرتے تو اس بات کو جھٹلاتے اور جو انہوں نے کہا اُسے کفر کہتے۔
تو گویا ثابت ہوا کہ تصوف اور صوفیا کا کفر و شرک سے کوئی تعلق نہیں۔ اور جو لوگ اپنے آپ کو صوفیا کہتے ہیں اور کفر و شرک کی باتیں کرتے ہیں، وہ حقیقتاً صوفیا نہیں بلکہ ’’جہال‘‘ یعنی جاہل لوگ ہیں۔ اسی طرح علامہ جلال الدین سیوطی فرماتے ہیں۔
أن التصوف في نفسه علم شريف وأن مداره على أتباع السنة وترك البدع وعلمت أيضاً أنه قد كثر الدخيل فيه من قوم تشبهوا بأهله وليسوا منهم فأدخلوا فيه ما ليس منه فأدى ذلك إلى إساءة الظن بالجميع
دیگر ائمۂ تصوف کے اقوال بھی اسی طرح ہیں۔ ملاحظہ فرمائیں۔
سلطان الأولياء والعارفين سيدي الشيخ عبد القادر الجيلاني رحمه الله يقول :كل حقيقة لا تشهد لها الشريعة هي زندقة، طر إلى الحق عز وجل بجناحي الكتاب والسنة ادخل عليه ويدك في يد رسول الله صلى الله عليه وسلم ترك العبادات المفروضة زندقة وارتكاب المحظورات معصية .
(الفتح الرباني)
اور فرمایا: كل باطن خالف ظاهراً فهو باطل.
اور فرمایا: طريقتنا مبنية على الكتاب والسنة فمن خالفهما فليس منا.
’’ہمارا راستہ کتاب و سنت پر مبنی ہے۔ پس جس نے ان دونوں کی مخالفت کی وہ ہم میں سے نہیں ہے۔
الشيخ أبو القاسم إبراهيم بن محمد النصر باذي رحمه الله يقول: أصل التصوف ملازمة الكتاب والسنة وترك الهواء والبدع .
(طبقات الصوفية)
خواجہ جنید بغدادی نے تو یہاں تک فرما دیا:
من لم يحفظ القران ولم يكتب الحديث لا يقتدي به في هذا الأمر لأن علمنا هذا مقيد بالكتاب والسنة
وقال الإمام سهل بن عبد الله التستري رحمه الله : أصول طريقتنا ـ أي منهج الصوفية ـ سبعة :
التمسك بالكتاب، والاقتداء بالسنة، وأكل الحلال، وكف الأذى، وتجنب المعاصي، لزوم التوبة، وأداء الحقوق.
وقال أبو حفص احد كبار الصوفية : من لم يزن أفعاله وأحواله في كل وقت بالكتاب والسنة ولم يتهم خواطره فلا يعد في ديوان الرجال.
تصوف کے ایک مشہور امام سیّد علی بن عثمان الہجویری، کہ جن کے متعلق اس پوسٹ میں، علم کی کمی کے باعث، نا زیبا الفاظ کہے گئے، وہ اپنی کتاب کشف المحجوب میں فرماتے ہیں:
’’لیکن مصیبت یہ ہے کہ ہمارے زمانے اور خصوصاً ہمارے ملک میں علم کی کسی کو پرواہ نہیں ہے۔ تمام مخلوقات نفسانی خواہشات میں مبتلا اور خداوندِ تعالیٰ کی رضا و خوشنودی سے رو گرداں ہیں۔ زمانے کے علماء اور وقت کے مدعی تک راہِ راست کے خلاف چل رہے ہیں۔ اس زمانے میں لوگوں نے اپنی خواہشاتِ نفس کا نام شریعت رکھ دیا ہے، حُب و جاہ کا نام عزت‘ تکبر کا نام علم‘ دکھاوے کی عبادت کا نام تقویٰ، کینہ کو ظاہر کرنے کی بجائے اس کو دل میں پوشیدہ رکھنے کا نام حلم‘ مجادلہ و مناظرہ اور نہایت کمینگی کے ساتھ محاربہ کرنے کا نام عظمت‘ نفاق کا نام زُہد‘ جو منہ میں آئے اُسے بک دینے کا نام معرفت‘ نفسانیت کا نام محبت‘ الحاد کا نام فقر‘ انکارِ حق کا نام صفوت‘ زندیق ہو جانے کا نام فنا اور جناب نبیٔ کریم ﷺ کی شریعت کو ترک کر دینے کا نام طریقت رکھ لیا ہے یہاں تک کہ اربابِ معانی (اصل اہلِ حق) ان جہلا سے اسی طرح سے مغلوب ہو گئے ہیں جس طرح خلافتِ راشدہ کے سقوط کے بعد اہل بیت رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین پر آلِ مروان نے غلبہ حاصل کر لیا تھا۔‘‘