• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اگر امام ابو حنیفہ رحم اللہ نے ایسا کیا ہے تو وہ اسلام سے خارج ہیں

تلمیذ

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 12، 2011
پیغامات
765
ری ایکشن اسکور
1,506
پوائنٹ
191
میں یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ آپ کا اصل اعتراض کیا ہے ۔
کیا ایک وضو سے امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ نے جو عشاء اور فجر پڑھی کیا یہ امراس وجہ سے مردود ہے کہ یہ امر ممکن نہیں یا یہ امر اس وجہ سے مردود ہے کہ یہ خلاف حدیث عمل ہے ۔
اصل اعتراض پہلے پیش کریں پھر دوسرا اعتراض پیش کریں
محتلف اعتراضات سے جواب دہی میں مشکل پیش آرہی ہے
مذید بعض حضرات غیر متعلق پوسٹس پیش کر رہے ہیں
مٹلا فقہ حنفی تو امام ابو حنیفہ کی تلامذہ کی ترتیب دی ہوئی ہے وغیرہ وغیرہ
ان حضرات سے گذارش ہے کہ موضوع سے متعلق پوسٹس کریں ورنہ خوامخواہ غیر متعلق پوسٹس نہ کریں
اگر یہی رویہ رہا تو اہل حدیث کے پر اعتراضات کرنا یہاں شروع کیا جاسکتا ہے لیکن پھر یہ فورم کم مچھلی بازار زیادہ لگے گا
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
’’امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ نے چالیس سال عشاء کے وضو سے فجر کی نماز پڑھی اور اکثر راتوں میں وہ پورا قرآن پاک تلاوت کرلیتے ۔‘‘
یہ عمل خلاف سنت ہے البتہ چالیس سال کے حوالے سے اس کو ’’ ناممکن ‘‘ کہنا بھی بعید نہیں ۔
گویا اس پر دونوں اعتراضات ہیں ’’ خلافت سنت ‘‘ اور ’’ عدم امکان ‘‘ ۔ اور پھر ان کے ’’ غلو ‘‘ پر بھی اعتراض ہے جو اس کو ثابت کرنے پر مصر ہیں ۔
 

تلمیذ

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 12، 2011
پیغامات
765
ری ایکشن اسکور
1,506
پوائنٹ
191
’’امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ نے چالیس سال عشاء کے وضو سے فجر کی نماز پڑھی اور اکثر راتوں میں وہ پورا قرآن پاک تلاوت کرلیتے ۔‘‘
یہ عمل خلاف سنت ہے البتہ چالیس سال کے حوالے سے اس کو ’’ ناممکن ‘‘ کہنا بھی بعید نہیں ۔
گویا اس پر دونوں اعتراضات ہیں ’’ خلافت سنت ‘‘ اور ’’ عدم امکان ‘‘ ۔ اور پھر ان کے ’’ غلو ‘‘ پر بھی اعتراض ہے جو اس کو ثابت کرنے پر مصر ہیں ۔
بطور کرامت یہ چالیس سال ممکن ہے
اگر چہ یہ بھی ممکن ہو اسید بن عمیر نے چالیس کا لفظ کثرت کے لئيے بولا ہو جیسا کہہ عربی میں 70 کا عدد کثرت کے لئيے آتا ہے ، اس لئیے اس طرح کے اعمال کو عقل انسانی پر پرکھ کر ناممکن کہنا کرامات کا انکار ہے
جہاں تک اس کا خلاف سنت ہونے کا تعلق ہے تو جو حدیث صاحب مضمون نے پیس کی اس سے تو یہ ظاہرا یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ اگر کوئی ایک دو رات بھی مسلسل شب بیداری کرے تو وہ بھی خلاف حدیث عمل ہو گا ، کیا آپ اس سے متفق ہیں ؟؟؟؟؟؟
 

حافظ عمران الہی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 09، 2013
پیغامات
2,100
ری ایکشن اسکور
1,460
پوائنٹ
344
بطور کرامت یہ چالیس سال ممکن ہے
اگر چہ یہ بھی ممکن ہو اسید بن عمیر نے چالیس کا لفظ کثرت کے لئيے بولا ہو جیسا کہہ عربی میں 70 کا عدد کثرت کے لئيے آتا ہے ، اس لئیے اس طرح کے اعمال کو عقل انسانی پر پرکھ کر ناممکن کہنا کرامات کا انکار ہے
جہاں تک اس کا خلاف سنت ہونے کا تعلق ہے تو جو حدیث صاحب مضمون نے پیس کی اس سے تو یہ ظاہرا یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ اگر کوئی ایک دو رات بھی مسلسل شب بیداری کرے تو وہ بھی خلاف حدیث عمل ہو گا ، کیا آپ اس سے متفق ہیں ؟؟؟؟؟؟
سند پیش کریں یہ واقعہ کس نے بیا ن کیا ہے؟
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,553
پوائنٹ
304
بطور کرامت یہ چالیس سال ممکن ہے
اگر چہ یہ بھی ممکن ہو اسید بن عمیر نے چالیس کا لفظ کثرت کے لئيے بولا ہو جیسا کہہ عربی میں 70 کا عدد کثرت کے لئيے آتا ہے ، اس لئیے اس طرح کے اعمال کو عقل انسانی پر پرکھ کر ناممکن کہنا کرامات کا انکار ہے
جہاں تک اس کا خلاف سنت ہونے کا تعلق ہے تو جو حدیث صاحب مضمون نے پیس کی اس سے تو یہ ظاہرا یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ اگر کوئی ایک دو رات بھی مسلسل شب بیداری کرے تو وہ بھی خلاف حدیث عمل ہو گا ، کیا آپ اس سے متفق ہیں ؟؟؟؟؟؟
الله رب العزت نے نبی کریم صل الله علیہ و آ لہ وسلم کو امّت وسطیٰ قرار دیا ہے -مطلب یہ ہے کہ اس امّت کے خواص میں یہ بات شامل ہے کہ اس امّت کے افراد اعتدال پسند ہیں - اور یہود و نصاریٰ کی طرح دین میں افراط و تفریط کا شکار نہیں ہیں - یہی وجہ ہے کہ جب نبی کریم کے کچھ صحابہ نے کم فہمی یا اپنے آپ کو بہت گناہ گارسمجھنے کی بنا پر اپنی عقل کے زیر اثر عبادات میں زیاتی کا قصد کیا - تو اس پر رحمت آلعامین محمّد صل الله علیہ و آ لہ وسلم نے نا صرف اس بدعت سے منع کیا بلکہ غصّے کا اظہار فرماتے ہوے دینی معاملات میں حد سے تجاوز کرنے والے کو اپنی امّت سے خارج قرار دے دیا " جو میرے طریقے پر نہیں- فَلَيْسَ مِنَّا، ( وہ ہم میں سے نہیں)- یعنی نیک عمل میں بھی کوئی اگر حد سے تجاوز کرتا ہے تو وہ امّت وسطیٰ سے خارج ہو جاتا ہے -

افسوس کی بات ہے کہ ان لا یعنی اور غلو سے بھرپور باتوں سے امام صاحب کے مقلدین ان کی فضیلت کو بڑھانے کے بجاے الٹا کم کر رہے ہیں - اور اوپر سے ان سے منسوب یہ غلو سے بھرپور باتیں (جو بظاھر جھوٹ کا پلندہ نظر آتی ہیں) کو ثابت کرنے کے لئے صحابہ کرام رضی الله عنہ سے ایسے اعمال منسوب کرنےکی کوشش کی جاتی ہے کہ جو حقیقت میں ان کے نہیں محسوس ہوتے- جیسے حضرت عمر رضی الله عنہ کا مسلسل راتوں اور دن کو جاگنا وغیرہ -تا کہ ایک حمام میں سب ہی برابر ہو جائیں -حالانکہ ایک زی شعور انسان بھی یہ بات سمجھ سکلتا ہے صحابہ کرام جیسے پرہیز گار اور متقی لوگ صرف نماز روزے اور تہجد تک ہی محدود نہیں تھے - بلکہ جہاد ، نبی کریم صل الله علیہ و آ لہ وسلم سے تعلیم و تربیت ، اپنے گھر والوں رشتے داروں سے تعلقات وغیرہ جسے معاملات بھی ان کو روزانہ درپیش ہوتے تھے - کیا جو رات بھرجاگتا ہو اور نہ دن کو سوتا ہو وہ یہ امور بخبوبی انجام دے سکتا ہے ؟؟؟ کیا رات بھر جاگنا اور ساتھ دن کے کام کاج بھی انجام دینا اعتدال پسندی ہے؟؟؟ کیا نبی کریم صل الله علیہ و آ لہ وسلم کا یہ فرمان نہیں کہ "میں تم سے زیادہ متقی اور پرہیز گر ہوں لیکن میں رات کو الله کی عبادت بھی کرتا ہوں اور سوتا بھی ہوں، روزے بھی رکھتا ہوں اور افطار بھی کرتا ہوں اور شادی بھی کرتا ہوں - جو مرے طریقے پر نہیں اس کا مجھ سے کوئی تعلق نہیں"-

اور جہاں تک امام ابو حنیفہ رح کی شخصیت کے تعلق ہے- ان کے مقلدوں سے گزارش ہے کہ بجاے اپنی زندگی کا قیمتی وقت ان کے فضائل و کرامت اور غلو سے بھرپور باتیں منسوب کرکے برباد کیا جائے - بہتر ہے کہ اپنی زندگی کو قرآن وسنّت کے مطابق انجام دینے کی سعی کرنی چاہیے - اور امام صاحب کی ان باتوں کی فضیلت بیان کرنی چاہیے جو قرآن و سنّت کے مطابق ہوں نا کہ اندھے بہروں کی طرح ہر بات ان سے منسوب کر کے یہ ثابت کرنے کی کوشش میں اپنی زندگی برباد کر لی جائے کہ ہمارے امام جیسا اس دنیا میں کوئی نہیں -

الله کا قرآن میں ارشاد پاک ہے :



تِلْكَ أُمَّةٌ قَدْ خَلَتْ ۖ لَهَا مَا كَسَبَتْ وَلَكُمْ مَا كَسَبْتُمْ ۖ وَلَا تُسْأَلُونَ عَمَّا كَانُوا يَعْمَلُونَ سوره البقرہ ١٤١
یہ ایک جماعت تھی جو گزر چکی ان کے لیے ان کے عمل ہیں اور تمہارے لیے تمہارے عمل ہیں اور تم سے ان کے اعمال کی نسبت نہیں پوچھا جائے گا-


الله سب مسلمانوں کو ہدایت سے نوازے (آمین)
 

عبدہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 01، 2013
پیغامات
2,035
ری ایکشن اسکور
1,227
پوائنٹ
425
افسوس کی بات ہے کہ ان لا یعنی اور غلو سے بھرپور باتوں سے امام صاحب کے مقلدین ان کی فضیلت کو بڑھانے کے بجاے الٹا کم کر رہے ہیں - اور اوپر سے ان سے منسوب یہ غلو سے بھرپور باتیں (جو بظاھر جھوٹ کا پلندہ نظر آتی ہیں) کو ثابت کرنے کے لئے صحابہ کرام رضی الله عنہ سے ایسے اعمال منسوب کرنےکی کوشش کی جاتی ہے کہ جو حقیقت میں ان کے نہیں محسوس ہوتے-
محترم تلمیذ بھائی اس سلسلے میں اپنا ایک سچا واقعہ سنانا چاہتا ہوں واللہ اس میں ایک فیصد بھی جھوٹ نہیں-
میں چونکہ بریلوی تھا تو میڑک میں میرے والد مجھے اپنے پیر کے پاس بیت کروائی-میری اس وقت دین سے کوئی دلچسپی نہیں تھی البتہ اتنا رٹا ہوا تھا کہ دوسرے ولیوں کے گستاخ اور ہم ولیوں کے ماننے والے ہیں- زیادہ دلائل کے جاننے کا شوق بھی نہیں تھا اور پتا بھی نہیں تھا-میرے والد نے اسی تناظر میں اپنے پیر سے میری محبت بڑھانے کے لئے مجھے ان کی کرامتیں بتائیں- ان میں سے ایک میں لکھتا ہوں میرے والد کہنے لگے
ایک دفعہ پیر صاحب کے ایک مرید نے کسی کو قتل کر دیا اب عدالت میں ثابت ہو گیا اور اسکو اگلی پیشی پر پھانسی ہونی تھی تو اسکے رشتہ دار پیر کے پاس آئے پیر صاحب مقتول کے لواحقین کے پاس گئے کہ صلح کر لو مگر انھوں نے نہیں کی کوشش کے باوجود ناکامی پر پیر صاحب نے کہا کہ جب کیس لگے تو بتانا-جب عدالت لگی تو پیر صاحب عدالت میں آکر کسی چیز (نام بھول گیا ہے) پر پاؤں رکھ کر کھڑے ہو گئے اب جج قلم سے پھانسی لکھنا چاہتا مگر قلم شاہد گر جاتا یا نہ لکھتا (مجھے شک ہے) جب جج پر پیر کی حقیقت کھلی تو وہ آ کر پیر کے قدموں میں گر گیا کہ آپ یہ قلم لیں جیسے چاہیئں لکھ لیں-لواحقین بھی مان گئے- اس وقت مجھے اس پر حیرت تو ہوئی تھی لیکن دلچسپی نہ ہونے کی وجہ سے میں نے کہا مٹی پاؤ
شاہد اسی کو کہتے ہیں کہ نہ ہنگ نہ پھٹکڑی اور رنگ بھی چوکھا-میرے خیال میں اور کسی کو نقصان ہو نہ ہو وکیلوں کا بھٹہ ضرور بیٹھے گا
اسی طرح کچھ لوگ چاہتے تو کسی کا رتبہ بڑھانا ہیں مگر نادانی کی وجہ سے گھٹا دیتے ہیں جیسے رب صائم لیس لہ من صیامہ الا الجوع و رب قائم لیس لہ من قیامہ الا السھر-یعنی ایک بندہ قیام کر کے تھک جاتا ہے مگر عاملۃ ناصبۃ کے باوجود تصلی نارا حامیۃ کا نتیجہ نکلتا ہے

محترم بھائی آپ اللہ کو گواہ بنا کر کہیں کہ کچھ کھٹکتا تونہیں- محترم تلمیذ بھائی میں ایک سوال پوچھتا ہوں کہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے شان میں ایک ایسی حکایت جس میں آپ کو بھی شکوک و شبہات ہوں اور جس سے ان کے کردار کے داغدار ہونے کا خدشہ ہو تو کیا آپکو اس کو چھوڑ کر دوسری حکایت بیان نہیں کرنی چاہئے یا دفاع کرنا چاہئے جو واضح اور قابل قبول ہو
محترم بھائی ایسا نہ کرنے میں آپ کے پاس دو وجوہات ہو سکتی ہیں
1۔آپکے پاس ان کی شان میں دوسری حکایت ہی نہ ہوں- مگر یہ وجہ آپکو قبول نہیں ہو گی
2۔ہم میں سے کوئی شکوک و شبہات والی حکایت کو امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ سے نتھی کر کے انکو داغدار کر رہا ہو تو میرا خیال ہے کہ یہاں تو ایسا کوئی نہیں کر رہا بلکہ استاد محترم انس بھائی اور محترم جواد بھائی وغیرہ یہی کہ رہے ہیں کہ یہ ان سے غلط منسوب ہیں

جہاں تک اس کا خلاف سنت ہونے کا تعلق ہے تو جو حدیث صاحب مضمون نے پیس کی اس سے تو یہ ظاہرا یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ اگر کوئی ایک دو رات بھی مسلسل شب بیداری کرے تو وہ بھی خلاف حدیث عمل ہو گا ، کیا آپ اس سے متفق ہیں ؟؟؟؟؟؟
محترم بھائی میرے ناقص علم کے مطابق احادیث کی مراد بغیر وجہ سے اور مسلسل جاگنے کی ممانعت بارے ہے- جہاں تک کبھی کبھی یا ضرورت کے تحت جاگنے کی بات ہے تو اسکا کوئی قائل نہیں- جیسے مجاہد پہرہ دار مسلسل اور ساری رات بھی جاگ سکتا ہے اسی طرح عمر رضی اللہ عنہ جیسا حاکم رعایا کی خبر گیری کے لئے بھی ایسا کر سکتا ہے اس پر کسی نے ان احادیث کے تحت نکیر نہیں کی- استاد محترم انس بھائی اس پر بہتر رہنمائی فرما سکتے ہیں-واللہ اعلم
اللہ ہم سب کا نگہبان ہو امین
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
بطور کرامت یہ چالیس سال ممکن ہے
اگر چہ یہ بھی ممکن ہو اسید بن عمیر نے چالیس کا لفظ کثرت کے لئيے بولا ہو جیسا کہہ عربی میں 70 کا عدد کثرت کے لئيے آتا ہے ، اس لئیے اس طرح کے اعمال کو عقل انسانی پر پرکھ کر ناممکن کہنا کرامات کا انکار ہے
جہاں تک اس کا خلاف سنت ہونے کا تعلق ہے تو جو حدیث صاحب مضمون نے پیس کی اس سے تو یہ ظاہرا یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ اگر کوئی ایک دو رات بھی مسلسل شب بیداری کرے تو وہ بھی خلاف حدیث عمل ہو گا ، کیا آپ اس سے متفق ہیں ؟؟؟؟؟؟
1۔ اگریہ عمل خلاف سنت ہےتو پھر اس کو کرامت کسی صورت نہیں کہا جاسکتا ۔ کرامت ولی سے صادر ہوتی ہے ۔ اور ولی سنت کا مخالف نہیں بلکہ سنت کی دوسروں سے بڑھ کر اتباع کرنے والا ہوتا ہے ۔
2۔ آپ نےکہا کہ 40 کا عدد کثرت کے لیے بولا گیا ہے حقیقت مراد نہیں ۔ 7 ، 70 ، 700 کا عدد تو سنا پڑھا ہے کہ کثرت کے لیے بولا جاتا ہے ۔ عربی زبان میں 40 کے عدد کی مثال آپ کے ذہن میں ہےجہاں کثرت کے لیے بولا گیا ہو اور حقیقت مراد نہ ہو ؟
3۔ خلاف سنت ہونے کا جواب آپ نے بالکل نہیں دیا ۔ بلکہ الٹا ایک اور اعتراض کردیا ہے کہ اس طرح تو ایک دو رات مسلسل شب بیداری کرنے والا بھی مخالف حدیث ہوگا ۔
یہاں دو باتیں ہیں :
اول : فرض کریں ایک دو رات مسلسل شب بیداری کرنے والا بھی آپ کے نزدیک اس حدیث کی رو سے مخالف سنت ہے ۔ تو پھر 40 سال کے جواز یا عدم جواز کا اس سے کیا تعلق ہے؟
دوم : مخصوص دنوں میں مہینوں میں یا حالات میں پوری رات کا جاگنے کا جواز احادیث کے اندر ہی موجود ہے جیساکہ رمضان کے آخری دس دن میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم خود بھی جاگتے تھے اپنے اہل وعیال کو بھی جگاتے تھے ۔ اسی طرح پہریدار بھی ساری رات جاگ سکتا ہے ۔ یہ سب چیزیں احادیث سے ثابت ہیں جیساکہ پہلے بھائیوں نے وضاحت کردی ہے ۔ لہذا تمام احادیث کو ملا کر مفہوم یہ ہوگا کہ کہ مخصوص راتوں میں یا بوقت ضرورت ایسا کرنے میں کوئی حرج نہیں لیکن مسلسل عادت ہی بنا لینا یہ خلاف سنت ہے ۔
آپ ذرا یہ وضاحت فرمائیں کہ کون سی حدیث ہے جو 40 سال والے اس فعل کو جائز قرار دیتی ہے ؟
بخاری کی شروع میں پیش کی گئی اس حدیث کے یہ چالیس سال والا عمل بھی مخالف نہیں ہے توآپ ہی بتادیں کہ اس حدیث کا پھر کیا معنی و مفہوم ہے ؟
 

تلمیذ

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 12، 2011
پیغامات
765
ری ایکشن اسکور
1,506
پوائنٹ
191
1۔ اگریہ عمل خلاف سنت ہےتو پھر اس کو کرامت کسی صورت نہیں کہا جاسکتا ۔ کرامت ولی سے صادر ہوتی ہے ۔ اور ولی سنت کا مخالف نہیں بلکہ سنت کی دوسروں سے بڑھ کر اتباع کرنے والا ہوتا ہے ۔
2۔ آپ نےکہا کہ 40 کا عدد کثرت کے لیے بولا گیا ہے حقیقت مراد نہیں ۔ 7 ، 70 ، 700 کا عدد تو سنا پڑھا ہے کہ کثرت کے لیے بولا جاتا ہے ۔ عربی زبان میں 40 کے عدد کی مثال آپ کے ذہن میں ہےجہاں کثرت کے لیے بولا گیا ہو اور حقیقت مراد نہ ہو ؟
3۔ خلاف سنت ہونے کا جواب آپ نے بالکل نہیں دیا ۔ بلکہ الٹا ایک اور اعتراض کردیا ہے کہ اس طرح تو ایک دو رات مسلسل شب بیداری کرنے والا بھی مخالف حدیث ہوگا ۔
یہاں دو باتیں ہیں :
اول : فرض کریں ایک دو رات مسلسل شب بیداری کرنے والا بھی آپ کے نزدیک اس حدیث کی رو سے مخالف سنت ہے ۔ تو پھر 40 سال کے جواز یا عدم جواز کا اس سے کیا تعلق ہے؟
دوم : مخصوص دنوں میں مہینوں میں یا حالات میں پوری رات کا جاگنے کا جواز احادیث کے اندر ہی موجود ہے جیساکہ رمضان کے آخری دس دن میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم خود بھی جاگتے تھے اپنے اہل وعیال کو بھی جگاتے تھے ۔ اسی طرح پہریدار بھی ساری رات جاگ سکتا ہے ۔ یہ سب چیزیں احادیث سے ثابت ہیں جیساکہ پہلے بھائیوں نے وضاحت کردی ہے ۔ لہذا تمام احادیث کو ملا کر مفہوم یہ ہوگا کہ کہ مخصوص راتوں میں یا بوقت ضرورت ایسا کرنے میں کوئی حرج نہیں لیکن مسلسل عادت ہی بنا لینا یہ خلاف سنت ہے ۔
آپ ذرا یہ وضاحت فرمائیں کہ کون سی حدیث ہے جو 40 سال والے اس فعل کو جائز قرار دیتی ہے ؟
بخاری کی شروع میں پیش کی گئی اس حدیث کے یہ چالیس سال والا عمل بھی مخالف نہیں ہے توآپ ہی بتادیں کہ اس حدیث کا پھر کیا معنی و مفہوم ہے ؟
بلا شبہ کرامت سنت کے خلاف نہیں ہوسکتی ، اگر یہ عمل (چالیس سال تک رات کو جاگنا ) خلاف سنت نہ ہو تو پھر بطور کرامت ممکن ہے پھر ہم اس کو اپنی عقل کی کسوٹی پر نہیں پرکھیں گے
دوسری بات جس طرح پہرے دار مسلسل شب بیداری کرسکتا ہے اور اس کا عمل ضرورت کی وجہ سے خلاف حدیث نہیں کہلائے گا تو اگر امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ ضرورت کی پیش نظر جاگے تو ان کا عمل خلاف سنت نہ ہوگا
میرے خیال میں یہاں تک آپ کو کوئی اعتراض نہ ہو گا
کیا اس عمل کو لازمی ہے کہ ہم جھوٹا قرار دیں ، امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ بلا شک و شبہ ایک امام و مجتھد تھے اور ایک مسلک جس کو جمھور امت نے اپنایا ہے اس کے امام تھے ، انہوں نے راتوں کو سو کر مسائل استنباط نہیں کیے اس کے لغيے ان کو مسلسل جاگنا پڑا ہوگا تو کیا امت کی آسانی کے لئیے جو اجتھادات کئیے کیا اس کے لئیے جاگنا ضرورت میں نہیں آسکتا
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
بلا شبہ کرامت سنت کے خلاف نہیں ہوسکتی ، اگر یہ عمل (چالیس سال تک رات کو جاگنا ) خلاف سنت نہ ہو تو پھر بطور کرامت ممکن ہے پھر ہم اس کو اپنی عقل کی کسوٹی پر نہیں پرکھیں گے
دوسری بات جس طرح پہرے دار مسلسل شب بیداری کرسکتا ہے اور اس کا عمل ضرورت کی وجہ سے خلاف حدیث نہیں کہلائے گا تو اگر امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ ضرورت کی پیش نظر جاگے تو ان کا عمل خلاف سنت نہ ہوگا
میرے خیال میں یہاں تک آپ کو کوئی اعتراض نہ ہو گا
کیا اس عمل کو لازمی ہے کہ ہم جھوٹا قرار دیں ، امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ بلا شک و شبہ ایک امام و مجتھد تھے اور ایک مسلک جس کو جمھور امت نے اپنایا ہے اس کے امام تھے ، انہوں نے راتوں کو سو کر مسائل استنباط نہیں کیے اس کے لغيے ان کو مسلسل جاگنا پڑا ہوگا تو کیا امت کی آسانی کے لئیے جو اجتھادات کئیے کیا اس کے لئیے جاگنا ضرورت میں نہیں آسکتا
آپ بحث کو جس رخ لے کر جارہے ہیں اس سے امام صاحب کی ’’ کرامت ‘‘ خود بخود ختم ہوجائے گی ۔ بہرصورت یہ پھر بعد میں سہی فی الوقت اس عبارت پر غور فرمائیں :
مخصوص دنوں میں مہینوں میں یا حالات میں پوری رات کا جاگنے کا جواز احادیث کے اندر ہی موجود ہے جیساکہ رمضان کے آخری دس دن میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم خود بھی جاگتے تھے اپنے اہل وعیال کو بھی جگاتے تھے ۔ اسی طرح پہریدار بھی ساری رات جاگ سکتا ہے ۔ یہ سب چیزیں احادیث سے ثابت ہیں جیساکہ پہلے بھائیوں نے وضاحت کردی ہے ۔ لہذا تمام احادیث کو ملا کر مفہوم یہ ہوگا کہ کہ مخصوص راتوں میں یا بوقت ضرورت ایسا کرنے میں کوئی حرج نہیں لیکن مسلسل عادت ہی بنا لینا یہ خلاف سنت ہے ۔

ویسے آپ کے نزدیک ’’ کرامت ‘‘ کا تصور کیا ہے ذرا واضح کرنا پسند فرمائیں گے ؟
 

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,351
پوائنٹ
800
مکمل رات قیام کرنا اور مستقلاً بالکل نہ سونا رہبانیت ہے اور یہ بالکل حرام اور نبی کریمﷺ کی مبارک سنت سے بے رغبتی ہے۔ حدیث مبارکہ میں ہے:
جاء ثلاثُ رهطٍ إلى بُيوتِ أزواجِ النبيِّ صلَّى اللهُ عليه وسلَّم ، يَسأَلونَ عن عبادةِ النبيِّ ﷺ، فلما أُخبِروا كأنهم تَقالُّوها ، فقالوا : أين نحن منَ النبيِّ ﷺ؟ قد غفَر اللهُ له ما تقدَّم من ذَنْبِه وما تأخَّر ، قال أحدُهم : أما أنا فإني أُصلِّي الليلَ أبدًا ، وقال آخَرُ : أنا أصومُ الدهرَ ولا أُفطِرُ ، وقال آخَرُ : أنا أعتزِلُ النساءَ فلا أتزوَّجُ أبدًا ، فجاء رسولُ اللهِ ﷺ فقال : ( أنتمُ الذين قلتُم كذا وكذا ؟ أما واللهِ إني لأخشاكم للهِ وأتقاكم له ، لكني أصومُ وأُفطِرُ ، وأُصلِّي وأرقُدُ ، وأتزوَّجُ النساءَ ، فمَن رغِب عن سُنَّتي فليس مني ).
الراوي: أنس بن مالك المحدث: البخاري - المصدر: صحيح البخاري - الصفحة أو الرقم: 5063

کسی کے متعلق یہ دعویٰ کرنا کہ وہ چالیس سال عشاء کے وضوء سے فجر کی نماز پڑھتا رہا۔ تو اس کا سراسر یہی مطلب ہے کہ وہ رات کو سوتا نہیں تھا کیونکہ سونا ناقض وضو ہے۔ اور یہ بات ایک عام آدمی کیلئے جائز نہیں۔ تو اتنے بڑے امام کے بارے میں یہ بات کیسے تصور کی جا سکتی ہے؟؟؟
اللہ تعالیٰ ہمیں ہر قسم کے غلوّ سے محفوظ رکھیں!
 
Top