افسوس کی بات ہے کہ ان لا یعنی اور غلو سے بھرپور باتوں سے امام صاحب کے مقلدین ان کی فضیلت کو بڑھانے کے بجاے الٹا کم کر رہے ہیں - اور اوپر سے ان سے منسوب یہ غلو سے بھرپور باتیں (جو بظاھر جھوٹ کا پلندہ نظر آتی ہیں) کو ثابت کرنے کے لئے صحابہ کرام رضی الله عنہ سے ایسے اعمال منسوب کرنےکی کوشش کی جاتی ہے کہ جو حقیقت میں ان کے نہیں محسوس ہوتے-
محترم تلمیذ بھائی اس سلسلے میں اپنا ایک سچا واقعہ سنانا چاہتا ہوں واللہ اس میں ایک فیصد بھی جھوٹ نہیں-
میں چونکہ بریلوی تھا تو میڑک میں میرے والد مجھے اپنے پیر کے پاس بیت کروائی-میری اس وقت دین سے کوئی دلچسپی نہیں تھی البتہ اتنا رٹا ہوا تھا کہ دوسرے ولیوں کے گستاخ اور ہم ولیوں کے ماننے والے ہیں- زیادہ دلائل کے جاننے کا شوق بھی نہیں تھا اور پتا بھی نہیں تھا-میرے والد نے اسی تناظر میں اپنے پیر سے میری محبت بڑھانے کے لئے مجھے ان کی کرامتیں بتائیں- ان میں سے ایک میں لکھتا ہوں میرے والد کہنے لگے
ایک دفعہ پیر صاحب کے ایک مرید نے کسی کو قتل کر دیا اب عدالت میں ثابت ہو گیا اور اسکو اگلی پیشی پر پھانسی ہونی تھی تو اسکے رشتہ دار پیر کے پاس آئے پیر صاحب مقتول کے لواحقین کے پاس گئے کہ صلح کر لو مگر انھوں نے نہیں کی کوشش کے باوجود ناکامی پر پیر صاحب نے کہا کہ جب کیس لگے تو بتانا-جب عدالت لگی تو پیر صاحب عدالت میں آکر کسی چیز (نام بھول گیا ہے) پر پاؤں رکھ کر کھڑے ہو گئے اب جج قلم سے پھانسی لکھنا چاہتا مگر قلم شاہد گر جاتا یا نہ لکھتا (مجھے شک ہے) جب جج پر پیر کی حقیقت کھلی تو وہ آ کر پیر کے قدموں میں گر گیا کہ آپ یہ قلم لیں جیسے چاہیئں لکھ لیں-لواحقین بھی مان گئے- اس وقت مجھے اس پر حیرت تو ہوئی تھی لیکن دلچسپی نہ ہونے کی وجہ سے میں نے کہا مٹی پاؤ
شاہد اسی کو کہتے ہیں کہ
نہ ہنگ نہ پھٹکڑی اور رنگ بھی چوکھا-میرے خیال میں اور کسی کو نقصان ہو نہ ہو وکیلوں کا بھٹہ ضرور بیٹھے گا
اسی طرح کچھ لوگ چاہتے تو کسی کا رتبہ بڑھانا ہیں مگر نادانی کی وجہ سے گھٹا دیتے ہیں جیسے
رب صائم لیس لہ من صیامہ الا الجوع و رب قائم لیس لہ من قیامہ الا السھر-یعنی ایک بندہ قیام کر کے تھک جاتا ہے مگر
عاملۃ ناصبۃ کے باوجود
تصلی نارا حامیۃ کا نتیجہ نکلتا ہے
محترم بھائی آپ اللہ کو گواہ بنا کر کہیں کہ کچھ کھٹکتا تونہیں- محترم تلمیذ بھائی میں ایک سوال پوچھتا ہوں کہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے شان میں ایک ایسی حکایت جس میں آپ کو بھی شکوک و شبہات ہوں اور جس سے ان کے کردار کے داغدار ہونے کا خدشہ ہو تو کیا آپکو اس کو چھوڑ کر دوسری حکایت بیان نہیں کرنی چاہئے یا دفاع کرنا چاہئے جو واضح اور قابل قبول ہو
محترم بھائی ایسا نہ کرنے میں آپ کے پاس دو وجوہات ہو سکتی ہیں
1۔آپکے پاس ان کی شان میں دوسری حکایت ہی نہ ہوں- مگر یہ وجہ آپکو قبول نہیں ہو گی
2۔ہم میں سے کوئی شکوک و شبہات والی حکایت کو امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ سے نتھی کر کے انکو داغدار کر رہا ہو تو میرا خیال ہے کہ یہاں تو ایسا کوئی نہیں کر رہا بلکہ استاد محترم انس بھائی اور محترم جواد بھائی وغیرہ یہی کہ رہے ہیں کہ یہ ان سے غلط منسوب ہیں
جہاں تک اس کا خلاف سنت ہونے کا تعلق ہے تو جو حدیث صاحب مضمون نے پیس کی اس سے تو یہ ظاہرا یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ اگر کوئی ایک دو رات بھی مسلسل شب بیداری کرے تو وہ بھی خلاف حدیث عمل ہو گا ، کیا آپ اس سے متفق ہیں ؟؟؟؟؟؟
محترم بھائی میرے ناقص علم کے مطابق احادیث کی مراد بغیر وجہ سے اور مسلسل جاگنے کی ممانعت بارے ہے- جہاں تک کبھی کبھی یا ضرورت کے تحت جاگنے کی بات ہے تو اسکا کوئی قائل نہیں- جیسے مجاہد پہرہ دار مسلسل اور ساری رات بھی جاگ سکتا ہے اسی طرح عمر رضی اللہ عنہ جیسا حاکم رعایا کی خبر گیری کے لئے بھی ایسا کر سکتا ہے اس پر کسی نے ان احادیث کے تحت نکیر نہیں کی- استاد محترم انس بھائی اس پر بہتر رہنمائی فرما سکتے ہیں-واللہ اعلم
اللہ ہم سب کا نگہبان ہو امین