• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اگر امام ابو حنیفہ رحم اللہ نے ایسا کیا ہے تو وہ اسلام سے خارج ہیں

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,551
پوائنٹ
304
السلام علیکم
انس بھائی ،میں خود چاہ رہا تھا کہ اس طرح کا کوئی اعتراض اہل حدیث عالم کریں تاکہ میں اپنے موقف کی وضاحت کروں ، اگر میرا موقف غلط ہو تو رجوع کرلوں
اللہ تبارک و تعالی ہم سب کو حق بات کہنے اور اس پر عمل کی توفیق دے ، آمیں
امام ابو حنیفہ کے واقعہ کا اگر کوئی اس بنا انکار کرتا ہے کہ یہ واقعہ سندا ثابت نہیں یا اس کی سند مشکوک ہے تو میں بات کو آگے نہیں بڑھائوں گا اور اس انکار پر کوئی اعتراض نہیں کروں گا اعتراض جب ہوتا ہے جب اس کو خلاف شریعت عمل کہا جاتا ہے
حدیث میں ذکر واقعہ کرامت اور احناف کی کتب میں واقعہ شرک
احادیث مبارکہ میں کئی واقعات بطور کرامت ذکر ہیں مثال کے طور پر صحیح مسلم کی وہ حدیث لے لیتے جس میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے تین بچوں کی گود میں بولنے کے متعلق بتایا تھا جن میں سے ایک حضرت عیسی علیہ السلام ہیں ۔ آپ تو اس حدیث سے واقف ہوں گے لیکن قارئین کے لئے لنک دے دیتا ہوں
لنک
اس میں ایک بچہ نے اپنی ماں کو بتایا ہے کہ فلاں باندی جس کو لوگ زانیہ سمجھ رہے ہیں زانیہ نہیں ہے
اب یہاں کوئی اس بچہ کو مافوق الفطرت مخلوق نہیں کہتا
اب یہاں اس بچہ کو عالم الغیب نہیں کہتا اگر چہ اس نے امر غیب میں سے ایک خبر دی ہے
جب احناف کی کتب میں کوئی خرق العادہ واقعہ تحریر ملتا ہے تو دیوبندیوں پر اس واقعہ کی بنا پر کہا جاتا ہے کہ وہ اپنے اسلاف کو عالم الغیب سمجتھے ہیں اور کہا جاتا ہے ان کے اسلاف مافوق الفطرت مخلوق تھے
حدیث بھی ایک واقعہ بطور کرامت ذکر ہوا اور احناف کی کتب میں بھی ایک واقعہ بطور کرامت ذکر ہوا تو دو دو الگ نتائج کیوں اخذ کیے جارہے ہیں ، جب کہ دونوں واقعات بطور کرامت ذکر ہوئے ہیں

کیا احناف کا قول نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے برابر قول ہے (معاذاللہ )

اب اعتراض آئے گا کہ میں احناف کے ان بیان کیے واقعات کو احادیث پر کیوں قیاس کر رہا ہوں ، یہاں انس صاحب آپ بھی شدید غلط فہمی کا شکار ہوگئے
قرآن و صحیح حدیث کا بیان کیے گیئے کرامات والے پر ایمان لانا ہم پر لازم ہے ، لیکن احناف علماء کے بیان کردہ واقعات کی تصدیق کوئی شریعت کا حصہ نہیں اور نہ میں ان واقعات پر آپ حضرات کو یقین دلانا چاہتا ہوں ۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا قول سو فیصد درست ہے اور ان کا بیان کیا واقعہ میں غلطی کا کوئي احتمال نہیں ، لیکن ایک امتی کے بیان کیے واقعے میں غلطی کا احتمال رہتا ہے اس لئیے کہاں سوفیصد درست نبی کا قول اور کہاں امتی کا قول ، دونوں برابر نہیں ہوسکتے
اگر آپ حضرات احناف کی کتب میں مذکور مثلا تبلیغی نصاب میں مذکور کرامت والے واقعات کو اس بنیاد پر انکار کرتے ہیں کہ ان کی سند پر آپ کو یقین نہیں یا یہ بغیر سند کے ہیں تو میں آپ حضرات سے کوئی بحث نہیں کروں گا ، اصل اختلاف تب ہوتا ہے جب آپ ان واقعات سے یہ نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ احناف اپنے اسلاف کے متعلق یہ عقیدہ رکتھے ہیںکہ وہ عالم الغیب تھے جیسا کہ طالب الرحمن صاحب (اللہ مجھے بھی حق راہ پر چلائے اور طالب الرحمن صاحب کو بھی ) نے اپنی کتب میں دعوی کیا ہے
میں تو احادیث سے کرامت والے واقعات پیش کرکے بس یہ کہتا ہوں کہ جب بطور کرامت حدیث ایک واقعہ موجود ہے جیسا کہ جریج والی حدیث میں ایک بچہ نے امور غیب میں سے ایک امر کی اطلاع کی اور کسی نے یہ نہیں کہا کہ بنی اسرائیل میں بچے عالم الغیب ہوتے تھے لیکن جب ایسا ہی کوئی واقعہ جس میں کوئي حنفی یا کوئی اور عالم بطور کرامت غیب کی خبر دیتا ہے تو وہاں کیوں یہ نتیجہ اخذ کیا جاتا ہے کہ کیا وہ بزرگ غیب کا علم رکتھے تھے ؟؟؟
یہاں بھی یہی صورت الحال ہے
اگر آپ حضرات امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے 40 سال تک شب بیداری کو سند بحث کرکے مشکوک قرار دیں تو مجھے کوئی اعتراض نہیں لیکن اگر آپ اس کو خلاف شریعت قرار دیں تو پھر مجھے سخت احتلاف ہے ، کیوں کہ مسلسل شب بیداری حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے بھی ثابت ہے (کما سبق ) او اس کے خلاف شریعت نہ ہونے کہ مذید شواہد بھی ہیں

جزاک اللہ خیرا
اسلام و علیکم-

معجزات و کرامات کے ظہور پذیر ہونے کی وجہ اتمام حجت ہوتا ہے - تا کہ حق و باطل میں امتیاز کیا جا سکے - دور نبوت اور اور اس سے پہلے جتنے بھی معجزات یا کرامات نبیوں یا غیر نبیوں کے ہاتھوں ظہور پذیر ہوئیں تو اس کا مقصد یہ تھا کہ لوگ حق کی پہچان ہو سکے اور ایمان مضبوط ہو -جب سے اللہ نے نبوت کا سلسلہ جاری کیا تو لوگوں کی اکثریت نے ان کی دعوت کا انکار کیا کہ الله کا نمائندہ بشر نہیں ہو سکتا -یا کوئی عام انسان نہیں ہو سکتا -



وَقَالُوْاماَلِ ھَٰذَ اَالرَّسُوْلِ ِیَاکُلُ الطَّعَامَ وَیَمْشِیْ فِی الاَسْوَاقِ لَوْلَااُنْزِلَ اِلَیْہِ مَلَک فَیَکُوْنَ مَعَہُ نَذِیْراً
'اوران لو گو ں نے کہا کہ یہ کیسارسو ل ہے جو کھانا کھا تا ہے اور بازاروں میں چلتا پھرتا ہے اس کے پاس کو ئی فرشتہ کیوں نہیں نازل ہوا تا کہ وہ بھی اس کے ساتھ (خدا کے عذاب سے) ڈرائے

ذَٰلکَ بِاَنَّہُ کَانَتْ تاَ تِیْھِمْ رُ سُلُھُمْ بِالْبَیِّنَا تِ فَقَالُوْا اَبَشَر یَھْدُوْنَنَا فَکَفَرُوْا وَتَوَلَّوْاوَاسْتَغْنَی اللَّہُ وَاللَّہُ غَنِیّ حَمِیْد
یہ اس وجہ سے ہے کہ جب ان کے پاس ان کے پیغمبر کھلے معجز ے لیکر آ ئے تھے تو کہتے تھے کہ کیا (ہمارے جیسے ) آدمی ہمارے رہبر بنیں گے ؟ پس (یہ کہہ کر ) کا فر ہوگئے اور منھ پھیر بیٹھے توخدا نے بھی (ان کی ) پروانہ کی


لہذا جب ان نبیوں کی قوموں نے ان سے کوئی نشانی لانے کا مطالبہ کیا تو الله نے ان کے ذریے سے مختلف معجزات ظہور پذیر کیے تا کہ اتمام حجت ہو جائے -

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب یہ دین اسلام نبی کریم صل الله علیہ و آ لہ وسلم کی بعثت اور آپ کی رحلت کے ساتھ ہی مکمل ہو چکا - الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِينًا ۚ ( آج میں تمہارے لیے تمہارا دین پورا کر چکا اور میں نے تم پر اپنا احسان پورا کر دیا اور میں نے تمہارے واسطے اسلام ہی کو دین پسند کیا ہے) تو کیا اب بھی کسی معجزے یا کرامت کی ضرورت باقی رہتی ہے ؟؟؟

مطلب یہ ہے کہ اگر کسی الله کے ولی سے کوئی خرق عادت امر کا ظہور ہوتا بھی ہے تو سوال ہے کہ اس سے دین کو کیا فائدہ پہچنے والا ہے - کیا کسی کو الله کا ولی تسلیم کرنا یا نہ کرنا ہمارے ایمان کے حصّہ ہے -ولی کی صفات تو الله قران میں مختلف جگہوں پر بیان کر چکا ہے- اب ظاہر ہے کہ جو ان صفات کا مالک ہے اس سے کرامت ظاہر ہوتی ہے یا نہیں اس سے کم سے کم اتمام حجت نہیں ہو گا -کیوں کہ یہ دین پہلے ہی مکمل ہو چکا -لہذا الله کے والیوں کی پیچاں ان کی وہ صفات ہیں جو قران میں بیان کی گئیں ہیں- نہ کہ وہ خرق عادت امور ہیں جن کو کرامات کہ جاتا ہے -
دور حاضر میں اگر یہ کرامات حق کی دلیل ہوتیں تو الله کے نبی صل الله علیہ و آ لہ وسلم اپنی امّت کو دجال اکبر سےاتنا نہ ڈراتے کیوں کہ لوگ اس کی حیرت انگیز کرامات کو دیکھ کر ہی اس پر ایمان لائیں گے- وہ دجال اسی طرح کی کرامات سے لوگوں کو گمراہ کریگا کہ لوگوں کی اس پر سچے نبی اور پھر خدائی کا گمان ہو گا -

اپ آپ خود سوچ سکتے ہیں کہ جو کرامات کو ہی حق کی دلیل سمجھتے ہیں انھیں دجال اکبر کے فریب کا شکار ہونے میں کتنی دیر لگے گی -

یہ بات بھی ذہن میں رہے کہ لوگ کہتے ہیں جو کرامات الله کے والیوں سے ظاہر ہوتی ہیں وہ حقیقت میں الله کے ازن سے ہی ہوتی ہیں - تو ایسے لوگوں کو یہ بات بھی معلوم ہونی چاہیے کہ دجال اکبر بھی جو خرق عادات امور سر انجام دے گا وہ بھی الله کے ازن سے ہو گا - اس میں اس کا اپنا کوئی کمال نہیں ہو گا -
 

تلمیذ

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 12، 2011
پیغامات
765
ری ایکشن اسکور
1,506
پوائنٹ
191
اسلام و علیکم-

معجزات و کرامات کے ظہور پذیر ہونے کی وجہ اتمام حجت ہوتا ہے - تا کہ حق و باطل میں امتیاز کیا جا سکے - دور نبوت اور اور اس سے پہلے جتنے بھی معجزات یا کرامات نبیوں یا غیر نبیوں کے ہاتھوں ظہور پذیر ہوئیں تو اس کا مقصد یہ تھا کہ لوگ حق کی پہچان ہو سکے اور ایمان مضبوط ہو -جب سے اللہ نے نبوت کا سلسلہ جاری کیا تو لوگوں کی اکثریت نے ان کی دعوت کا انکار کیا کہ الله کا نمائندہ بشر نہیں ہو سکتا -یا کوئی عام انسان نہیں ہو سکتا -



وَقَالُوْاماَلِ ھَٰذَ اَالرَّسُوْلِ ِیَاکُلُ الطَّعَامَ وَیَمْشِیْ فِی الاَسْوَاقِ لَوْلَااُنْزِلَ اِلَیْہِ مَلَک فَیَکُوْنَ مَعَہُ نَذِیْراً
'اوران لو گو ں نے کہا کہ یہ کیسارسو ل ہے جو کھانا کھا تا ہے اور بازاروں میں چلتا پھرتا ہے اس کے پاس کو ئی فرشتہ کیوں نہیں نازل ہوا تا کہ وہ بھی اس کے ساتھ (خدا کے عذاب سے) ڈرائے

ذَٰلکَ بِاَنَّہُ کَانَتْ تاَ تِیْھِمْ رُ سُلُھُمْ بِالْبَیِّنَا تِ فَقَالُوْا اَبَشَر یَھْدُوْنَنَا فَکَفَرُوْا وَتَوَلَّوْاوَاسْتَغْنَی اللَّہُ وَاللَّہُ غَنِیّ حَمِیْد
یہ اس وجہ سے ہے کہ جب ان کے پاس ان کے پیغمبر کھلے معجز ے لیکر آ ئے تھے تو کہتے تھے کہ کیا (ہمارے جیسے ) آدمی ہمارے رہبر بنیں گے ؟ پس (یہ کہہ کر ) کا فر ہوگئے اور منھ پھیر بیٹھے توخدا نے بھی (ان کی ) پروانہ کی


لہذا جب ان نبیوں کی قوموں نے ان سے کوئی نشانی لانے کا مطالبہ کیا تو الله نے ان کے ذریے سے مختلف معجزات ظہور پذیر کیے تا کہ اتمام حجت ہو جائے -

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب یہ دین اسلام نبی کریم صل الله علیہ و آ لہ وسلم کی بعثت اور آپ کی رحلت کے ساتھ ہی مکمل ہو چکا - الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِينًا ۚ ( آج میں تمہارے لیے تمہارا دین پورا کر چکا اور میں نے تم پر اپنا احسان پورا کر دیا اور میں نے تمہارے واسطے اسلام ہی کو دین پسند کیا ہے) تو کیا اب بھی کسی معجزے یا کرامت کی ضرورت باقی رہتی ہے ؟؟؟

مطلب یہ ہے کہ اگر کسی الله کے ولی سے کوئی خرق عادت امر کا ظہور ہوتا بھی ہے تو سوال ہے کہ اس سے دین کو کیا فائدہ پہچنے والا ہے - کیا کسی کو الله کا ولی تسلیم کرنا یا نہ کرنا ہمارے ایمان کے حصّہ ہے -ولی کی صفات تو الله قران میں مختلف جگہوں پر بیان کر چکا ہے- اب ظاہر ہے کہ جو ان صفات کا مالک ہے اس سے کرامت ظاہر ہوتی ہے یا نہیں اس سے کم سے کم اتمام حجت نہیں ہو گا -کیوں کہ یہ دین پہلے ہی مکمل ہو چکا -لہذا الله کے والیوں کی پیچاں ان کی وہ صفات ہیں جو قران میں بیان کی گئیں ہیں- نہ کہ وہ خرق عادت امور ہیں جن کو کرامات کہ جاتا ہے -
دور حاضر میں اگر یہ کرامات حق کی دلیل ہوتیں تو الله کے نبی صل الله علیہ و آ لہ وسلم اپنی امّت کو دجال اکبر سےاتنا نہ ڈراتے کیوں کہ لوگ اس کی حیرت انگیز کرامات کو دیکھ کر ہی اس پر ایمان لائیں گے- وہ دجال اسی طرح کی کرامات سے لوگوں کو گمراہ کریگا کہ لوگوں کی اس پر سچے نبی اور پھر خدائی کا گمان ہو گا -

اپ آپ خود سوچ سکتے ہیں کہ جو کرامات کو ہی حق کی دلیل سمجھتے ہیں انھیں دجال اکبر کے فریب کا شکار ہونے میں کتنی دیر لگے گی -

یہ بات بھی ذہن میں رہے کہ لوگ کہتے ہیں جو کرامات الله کے والیوں سے ظاہر ہوتی ہیں وہ حقیقت میں الله کے ازن سے ہی ہوتی ہیں - تو ایسے لوگوں کو یہ بات بھی معلوم ہونی چاہیے کہ دجال اکبر بھی جو خرق عادات امور سر انجام دے گا وہ بھی الله کے ازن سے ہو گا - اس میں اس کا اپنا کوئی کمال نہیں ہو گا -
آپ کی بات سے میں یہ سمجھا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد کرامت کا ظھور ممکن نہیں ؟
اگر میں غلط سمجھا تو وضاحت کردیں اور ساتھ میں یہ ضرور بتائيے گا کیا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد کرامات کا ظھور ممکن ہے یا نہیں ؟؟؟؟؟
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,551
پوائنٹ
304
آپ کی بات سے میں یہ سمجھا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد کرامت کا ظھور ممکن نہیں ؟
اگر میں غلط سمجھا تو وضاحت کردیں اور ساتھ میں یہ ضرور بتائيے گا کیا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد کرامات کا ظھور ممکن ہے یا نہیں ؟؟؟؟؟
میرا یہ موقف نہیں کہ کرامات کا ظہور نبی کریم صل الله علیہ وسلم کے بعد ممکن نہیں - بلکہ میرا موقف یہ ہے کہ کے کسی سے خرق عادات کے ظہور پذیر ہونا نہ حق کی دلیل ہے اور نہ اس بات کا دلیل ہے کہ وہ شخص الله کا بہت مقرب ولی ہے - دور حاضر میں بھی بہت سے ایسے لوگ موجود ہیں جن سے ایسے خرق عادت امور ظہور پذیر ہوتے ہیں جو شرک اور کفر کے مرتکب ہوتے ہیں -

دوسری بات یہ بھی ہے کہ کیا ایک انسان کا لئے اگر ایک چیز خرق عادت ہے تو دوسرے کے لئے بھی وہ خرق عادت ہو گی؟؟ - موجودہ اور پچھلی صدی میں ایسی ایسی حیرت انگیز ایجادات ہوئیں - جو زیادہ ترغیر مسلموں کے ہاتھوں ہوئیں - جو آج سے ٢٠٠ سال پہلے کے لوگوں کے لئے کسی کرامت سے کم نہیں تھیں - جیسے انسان کا چاند پر پہچنا - موبائل فون - ٹی وی - کمپیوٹر -الٹرا ساونڈ مشین - اور بے شمار ایسی ایجادات ہیں جو کسی کرامت سے کم نہیں- اور ان سب ایجادات کے پیچھے بھی الله کی ہی قدرت کار فرما ہے - کیا ١٠٠ سال پہلے کا انسان سوچ سکتا تھا کہ آنے والے وقتوں میں انسان ایک ایسا آلہ ایجاد کریگا - کہ اس کو کان سے لگانے کے بعد وہ ہزاروں میل بیٹھے شخص سے نہ صرف باتیں کرسکے گا بلکہ اس کو دیکھ بھی سکے گا- لہذا سب سے پہلے تو ہمیں یہ تعین کرنا پڑے گا کہ آیا وقت کے لحاظ سے کرامات میں بھی تبدیلی آ سکتی یا نہیں-
 

تلمیذ

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 12، 2011
پیغامات
765
ری ایکشن اسکور
1,506
پوائنٹ
191
میرا یہ موقف نہیں کہ کرامات کا ظہور نبی کریم صل الله علیہ وسلم کے بعد ممکن نہیں - بلکہ میرا موقف یہ ہے کہ کے کسی سے خرق عادات کے ظہور پذیر ہونا نہ حق کی دلیل ہے اور نہ اس بات کا دلیل ہے کہ وہ شخص الله کا بہت مقرب ولی ہے - دور حاضر میں بھی بہت سے ایسے لوگ موجود ہیں جن سے ایسے امور ظہور پذیر ہوتے ہیں جو شرک اور کفر کے مرتکب ہوتے ہیں -

-
جزاک اللہ خیرا
تبلیغی جماعت کے نصاب سمیت دیوبند مسلک کی جتنی کتابوں میں کرامات کے واقعات تحریر ہوئے ہیں اگر آپ ان کو تسلیم نہ کریں تو میرا آپ سے کوئی جھگڑا نہیں
اور نہ ہم ان واقعات کی بنیاد پر حنفی مسلک کو حق پر ثابت کرنا چاہتے ہیں اور نہ کشف و کرامت کسی کے حق کی دلیل ہو سکتی ہے
مجھے اعتراض تب ہوتا ہے جب کوئی کرامت والا واقعہ ذکر کرکے کوئی غلط عقیدہ ہم پرتھوپ دیا جاتا ہے جب کہ وہ واقعہ بطور کرامت ممکن ہوتا ہے ۔ کسی بزرگ نے غیب کے امور میں سے کوئی خبر دے دی تو کہا جاتا ہے کہ احناف اپنے اسلاف کو عالم الغیب مانتے ہیں
جیسا کہ طالب الرحمن صاحب نے کیا ہے جب کہ جو میں نے حدیث پیش کی تھی اس میں بنی اسرائیل کے ایک بچہ نے غیب کی امر میں سے خبر دی لیکن اس کوئي عالم الغیب نہیں مانتا
نتائج اخذ کرنے کی یہ دورخی اختلاف اور بحث کا باعث ہے
 
شمولیت
ستمبر 06، 2013
پیغامات
44
ری ایکشن اسکور
47
پوائنٹ
20
امام ابوحنیفہ کے بارے میں جس قسم کے الفاظ دھاگے کے عنوان میں استعمال ہوۓ انتظامیہ کو اس کا نوٹس لینا چاہیے-
 
شمولیت
اپریل 26، 2013
پیغامات
17
ری ایکشن اسکور
8
پوائنٹ
48
ایک اصولی بات ذکر کرنا چاہوں گا۔۔۔۔۔ فلیس منی ان الفاظ میں سے نہیں ہے جس کی بنیاد پر ہم کسی خارج عن السلام ،خارج عن الملۃ یا کافر قرار دے دیں۔
 
شمولیت
اپریل 26، 2013
پیغامات
17
ری ایکشن اسکور
8
پوائنٹ
48
جزاک اللہ خیرا
تبلیغی جماعت کے نصاب سمیت دیوبند مسلک کی جتنی کتابوں میں کرامات کے واقعات تحریر ہوئے ہیں اگر آپ ان کو تسلیم نہ کریں تو میرا آپ سے کوئی جھگڑا نہیں
اور نہ ہم ان واقعات کی بنیاد پر حنفی مسلک کو حق پر ثابت کرنا چاہتے ہیں اور نہ کشف و کرامت کسی کے حق کی دلیل ہو سکتی ہے
مجھے اعتراض تب ہوتا ہے جب کوئی کرامت والا واقعہ ذکر کرکے کوئی غلط عقیدہ ہم پرتھوپ دیا جاتا ہے جب کہ وہ واقعہ بطور کرامت ممکن ہوتا ہے ۔ کسی بزرگ نے غیب کے امور میں سے کوئی خبر دے دی تو کہا جاتا ہے کہ احناف اپنے اسلاف کو عالم الغیب مانتے ہیں
جیسا کہ طالب الرحمن صاحب نے کیا ہے جب کہ جو میں نے حدیث پیش کی تھی اس میں بنی اسرائیل کے ایک بچہ نے غیب کی امر میں سے خبر دی لیکن اس کوئي عالم الغیب نہیں مانتا
نتائج اخذ کرنے کی یہ دورخی اختلاف اور بحث کا باعث ہے
محترم بہائی عالم الغیب اللہ تعالی کی صفت ہے جب آپ کسی انسان کو اللہ تعالی کی صفت میں شریک کریں گے تووہ شرک ہی ہوگا پھر چاہے وہ کرامت ہو یا اور کچھ،اور جب آپ کسی دوسرے انسان کے لئے علم غائب ثابت کر رہے ہیں توگویا آپ نے یہ تسلیم کرلیا کے اللہ کے علاوہ کوئی اور بھی اس کی اس صفت میں شریک ہے، اور یہ عقیدئے کا مسئلہ ہے،
 
شمولیت
اپریل 26، 2013
پیغامات
17
ری ایکشن اسکور
8
پوائنٹ
48
السلام علیکم
انس بھائی ،میں خود چاہ رہا تھا کہ اس طرح کا کوئی اعتراض اہل حدیث عالم کریں تاکہ میں اپنے موقف کی وضاحت کروں ، اگر میرا موقف غلط ہو تو رجوع کرلوں
اللہ تبارک و تعالی ہم سب کو حق بات کہنے اور اس پر عمل کی توفیق دے ، آمیں
امام ابو حنیفہ کے واقعہ کا اگر کوئی اس بنا انکار کرتا ہے کہ یہ واقعہ سندا ثابت نہیں یا اس کی سند مشکوک ہے تو میں بات کو آگے نہیں بڑھائوں گا اور اس انکار پر کوئی اعتراض نہیں کروں گا اعتراض جب ہوتا ہے جب اس کو خلاف شریعت عمل کہا جاتا ہے
حدیث میں ذکر واقعہ کرامت اور احناف کی کتب میں واقعہ شرک
احادیث مبارکہ میں کئی واقعات بطور کرامت ذکر ہیں مثال کے طور پر صحیح مسلم کی وہ حدیث لے لیتے جس میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے تین بچوں کی گود میں بولنے کے متعلق بتایا تھا جن میں سے ایک حضرت عیسی علیہ السلام ہیں ۔ آپ تو اس حدیث سے واقف ہوں گے لیکن قارئین کے لئے لنک دے دیتا ہوں
لنک
اس میں ایک بچہ نے اپنی ماں کو بتایا ہے کہ فلاں باندی جس کو لوگ زانیہ سمجھ رہے ہیں زانیہ نہیں ہے
اب یہاں کوئی اس بچہ کو مافوق الفطرت مخلوق نہیں کہتا
اب یہاں اس بچہ کو عالم الغیب نہیں کہتا اگر چہ اس نے امر غیب میں سے ایک خبر دی ہے
جب احناف کی کتب میں کوئی خرق العادہ واقعہ تحریر ملتا ہے تو دیوبندیوں پر اس واقعہ کی بنا پر کہا جاتا ہے کہ وہ اپنے اسلاف کو عالم الغیب سمجتھے ہیں اور کہا جاتا ہے ان کے اسلاف مافوق الفطرت مخلوق تھے
حدیث بھی ایک واقعہ بطور کرامت ذکر ہوا اور احناف کی کتب میں بھی ایک واقعہ بطور کرامت ذکر ہوا تو دو دو الگ نتائج کیوں اخذ کیے جارہے ہیں ، جب کہ دونوں واقعات بطور کرامت ذکر ہوئے ہیں

کیا احناف کا قول نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے برابر قول ہے (معاذاللہ )

اب اعتراض آئے گا کہ میں احناف کے ان بیان کیے واقعات کو احادیث پر کیوں قیاس کر رہا ہوں ، یہاں انس صاحب آپ بھی شدید غلط فہمی کا شکار ہوگئے
قرآن و صحیح حدیث کا بیان کیے گیئے کرامات والے پر ایمان لانا ہم پر لازم ہے ، لیکن احناف علماء کے بیان کردہ واقعات کی تصدیق کوئی شریعت کا حصہ نہیں اور نہ میں ان واقعات پر آپ حضرات کو یقین دلانا چاہتا ہوں ۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا قول سو فیصد درست ہے اور ان کا بیان کیا واقعہ میں غلطی کا کوئي احتمال نہیں ، لیکن ایک امتی کے بیان کیے واقعے میں غلطی کا احتمال رہتا ہے اس لئیے کہاں سوفیصد درست نبی کا قول اور کہاں امتی کا قول ، دونوں برابر نہیں ہوسکتے
اگر آپ حضرات احناف کی کتب میں مذکور مثلا تبلیغی نصاب میں مذکور کرامت والے واقعات کو اس بنیاد پر انکار کرتے ہیں کہ ان کی سند پر آپ کو یقین نہیں یا یہ بغیر سند کے ہیں تو میں آپ حضرات سے کوئی بحث نہیں کروں گا ، اصل اختلاف تب ہوتا ہے جب آپ ان واقعات سے یہ نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ احناف اپنے اسلاف کے متعلق یہ عقیدہ رکتھے ہیںکہ وہ عالم الغیب تھے جیسا کہ طالب الرحمن صاحب (اللہ مجھے بھی حق راہ پر چلائے اور طالب الرحمن صاحب کو بھی ) نے اپنی کتب میں دعوی کیا ہے
میں تو احادیث سے کرامت والے واقعات پیش کرکے بس یہ کہتا ہوں کہ جب بطور کرامت حدیث ایک واقعہ موجود ہے جیسا کہ جریج والی حدیث میں ایک بچہ نے امور غیب میں سے ایک امر کی اطلاع کی اور کسی نے یہ نہیں کہا کہ بنی اسرائیل میں بچے عالم الغیب ہوتے تھے لیکن جب ایسا ہی کوئی واقعہ جس میں کوئي حنفی یا کوئی اور عالم بطور کرامت غیب کی خبر دیتا ہے تو وہاں کیوں یہ نتیجہ اخذ کیا جاتا ہے کہ کیا وہ بزرگ غیب کا علم رکتھے تھے ؟؟؟
یہاں بھی یہی صورت الحال ہے
اگر آپ حضرات امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے 40 سال تک شب بیداری کو سند بحث کرکے مشکوک قرار دیں تو مجھے کوئی اعتراض نہیں لیکن اگر آپ اس کو خلاف شریعت قرار دیں تو پھر مجھے سخت احتلاف ہے ، کیوں کہ مسلسل شب بیداری حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے بھی ثابت ہے (کما سبق ) او اس کے خلاف شریعت نہ ہونے کہ مذید شواہد بھی ہیں

جزاک اللہ خیرا

محترم تلمیذ بہائی آپ صحیح احادیث میں موجود واقعات معجزات کو تبلیغی نصاب وغیرہ میں مذکورہ کرامات سے منسلک کر رہے ہیں جو کہ ہر دو اعتبار سے (عقلا،نقلا)درست نہیں، اس بات میں تو کوئی اختلاف نہیں کے اللہ تعالی جوچاہیں کر سکتے ہیں اور کسی انسان سے کروا بھی سکتے ہیں،لیکن اس کے ساتھ ساتھ اللہ تعالی نے اہل دنیا کےکچھ فطری اصول وضع کر دئے ہیں اور عام معمولات اسی کے مطابق ہوتے ہیں،رہے ولی جریج یا اس طرح کے جو واقعات معجزات قرآن وحدیث میں مذکور ہیں اور فطری اصولوں کے برخلاف ہیں تو ان کا تعین وحی نے کر دیا کی یہ اللہ تعالی کی مرضی اور منشاء سے وقوع پزیر ہوئے ہیں۔
اب جبکہ وحی کا سلسلہ منقطع ہوگیا ہے تو کسی ایسی کرامت کو کیسے محقق مان لیں جو اسلام کے اصول اصلیہ اور فطری اصولوں کے برخلاف ہے۔
اب ایک شخص آ کر یہ کہے میرے لیے کوئی گوشہ خالی کر دیں تاکہ میں وہاں مرسکوں اور قرآن کی یہ آیت (وماتدری نفس بای ارض تموت) اس کے صریح متضاد نہیں ہے۔۔۔۔۔۔۔فتامل
 
Top